2/12/20

تمنا مظفرپوری - مضمون نگار: نشاط اختر

 



تمنا مظفر پوری ہماری ادبی دنیا کے ایسے مایہ ناز فن کاروں میں سے ہیں جن کے سوانحی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی بہار سے وطنی تعلق رکھنے والے اس فن کار نے تقریباً نصف صدی تک نہایت کامیاب ادبی زندگی گزار کر داعی اجل کو لبیک کہا۔

تمنا مظفر پوری کا اصل نام اسرار احمد ہے۔ وہ ایک صوفی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد کے زمانے میں ان کے دادا نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور ان کے گھرانے میں عصری انگریزی تعلیم کا رواج ہوا۔ تمنا مظفر پوری کی ولادت 17 نومبر 1943کو محمد پور مبارک ضلع مظفر پور میں ہوئی۔ ان کے والد سید محمد احرار عمر دراز اپنے وقت کے کامیاب شاعر گزرے ہیں۔ تمنا مظفر پوری نے بی اے تک تعلیم حاصل کر کے سرکاری ملازمت اختیار کی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1960کے آس پاس سے ہوتا ہے۔ وہ تمام عمر اپنے ذوق و شوق سے لکھتے پڑھتے رہے۔ وہ دیگر ادبی خدمات کے علاوہ ترجمہ نگاری میں خاص مہارت رکھتے تھے اور انھیں اردو اور ہندی صحافت سے بھی عملاً دلچسپی تھی۔ انھوں نے اپنی کئی کتابوں پر ادبی انعام بھی پایا۔ جناب تمنا مظفر پوری نے 4مئی 2013 کو وفات پائی اور سمن پورہ قبرستان، پٹنہ میں آسودہ خاک ہوئے۔

تمنا مظفر پوری نے جب بھی لکھا، معاشرے کی نفسیات اور زمانے کے معاملات و مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے گہرے تجزیاتی شعور اور انتہائی دلسوزی کے ساتھ لکھا اور ان موضوعات کا انتخاب کیا جو ہمارے سماج میں اپنے مہلک جراثیم پھیلا رہے ہیں۔ غلط نہیں کہا گیا ہے کہ باتوں ہی باتوں میں خیالوں کی خوش خرامی کے جلوے دکھا جانا ان کی تحریر کا ایک ایسا پہلو ہے جو اسے دلچسپ بھی بناتا ہے اور مؤثر بھی۔ تمنا مظفر پوری کی تحریریں گہرے فلسفیانہ موضوعات و مباحث سے عموماً کوئی تعلق نہیں رکھتیں اور نہ ہی علمی فضیلت فروشی سے ان کا کوئی واسطہ ہوتا ہے۔ وہ الجھی ہوئی بات کو پہنچی ہوئی بات کے رنگ روپ دے کر سامنے نہیں لاتے بلکہ روز مرہ کی زندگی اور ان سے وابستہ تجربات و مشاہدات کے ہلکے پھلکے اور بظاہر بالکل بے ضرر اور غیر اہم دکھائی دینے والے پہلوؤں کو موضوع تحریر بناتے ہیں اور باتوں ہی باتوں میں متوسط طبقے کی الجھنوں اور اس کے لیے سوالیہ نشان بننے والی کیفیتوں سے متعلق بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ ان کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ پہلے پڑھنے والوں کو ہنسی آتی ہے اور جب بات کا نشانہ سمجھ میں آتا ہے تو کچھ کہتے. نہیں بنتی بلکہ سر ندامت سے جھک جاتا ہے اور لباس نو میں ملبوس ہونے کا دعویٰ کرنے والے خود کو اچانک اس حال میں محسوس کرنے لگتے ہیں جہاں درخت کے پتوں کی تلاش ہوتی ہے اور وہ بھی تا دیر میسر نہیں آتے۔

تمنا مظفر پوری کے یہاں مشاہدے کی گہرائی، رنگا رنگی اور فن کی پاکیزگی و لطافت دیدنی ہوتی ہے۔ گہری بصیرت، برجستہ ظرافت، زندگی اور فن کے خوشگوار امتزاج اور دیگر خوبیوں کی ان کے یہاں کوئی کمی نہیں۔ ان کی تحریروں میں تازگی و شگفتگی کے نمایاں عناصر ملتے ہیں اور بالکل غیر منطقی انداز ترتیب کے ساتھ خیالات کی پیش کش ہوتی چلی جاتی ہے۔ ان کی متعدد ایسی تحریریں دیکھی جا سکتی ہیں، جن میں فکر و فن کی مختلف جہات کے ساتھ، انشائیہ نویسی اور برجستہ طنزو مزاح کی نہایت وسیع دنیا آباد ہے۔ تمنا مظفر پوری نے نہ صرف یہ کہ بہت سارے سلگتے ہوئے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور حسب حال طرز اسلوب سے طنز ومزاح پیدا کیا ہے بلکہ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے نئے تجربات سے کام لینے پر مسلسل توجہ رکھی ہے۔ وہ مختلف ہئیت و نوعیت سے غذا لے کر اپنی تحریر میں ندرت لانے کے خواہاں معلوم ہوتے ہیں۔ کبھی اقوال زریں، کبھی اشتہارات و فلمیات، کبھی خبر نگاری و مصاحبہ نگاری اور کبھی تاریخ و جغرافیہ نویسی غرض کہ مختلف تحریری سانچے اپنا کر قاری کی خوش طبعی کے سامان مہیا کرتے ہیں اور نہایت ہنر مندی کے ساتھ اسے اپنے طنز کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔

لطف بالائے لطف یہ ہے کہ انھوں نے اگر ایک طرف طنزیہ و مزاحیہ اسلوب میں اپنی پہچان بنائی ہے اور انشائیہ نگاری کے تعلق سے کامیاب و نفیس تحریریں پیش کی ہیں تو دوسری طرف سنجیدہ و متین طرز نگارش میں بھی انھوں نے اپنی باقیات سے اپنے قارئین کی طمانیت کے اسباب مہیا کرنے میں کوئی کمی نہیں رکھی ہے

تمنا مظفر پوری نے لگ بھگ پچاس برسوں تک مختلف اصناف ادب کو اپنی بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ان کی پہلی کہانی’میری گلی کے بڈھے‘ ہفت روزہ ’ہمارا بہار‘ میں 1959میں چھپی تھی، پھر 1982 میں ان کی کتاب ’ ظرافت اور چند ظریف ہستیاں‘ نسیم بکڈپو لکھنؤ سے شائع ہوئی جو بچوں کے لیے ان کی بھرپور قوت تخلیق کی غماز ہے۔ اس کے دو سال بعد 1984 میں ان کی مشہور کتاب ’تمنا پنچ‘ منظر عام پر آئی جس میں انٹرویو، اسلامیات، مقالے، نظم، انشایئے، طنزومزاح، غزل، جغرافیہ، تواریخ، افسانے، اقوال زریں، ڈرامے،. اشتہارات، اخبارات اور فلمیات جیسے عناوین کے تحت ان کی مختلف تحریریں شامل ہیں۔ 1989 میں ان کی کتاب ’پردے کے سامنے‘ اشاعت پذیر ہوئی جو ان کے نو ڈراموں کا مجموعہ ہے، بعد ازیں 1993 میں ان کی کتاب ’الٹے قلم سے‘ منظر عام پر آئی جس میں پندرہ طنزیہ اور مزاحیہ مضامین ہیں، پھر 2007 میں ان کے چوبیس انشائیوں کا مجموعہ شائع ہوا جس کا نام ہے’کہتا ہوں سچ کہ...‘ تمنا مظفر پوری کی کتاب ’عقلمند بچے‘ 2011 میں چھپی جس میں بچوں کے لیے تئیس تخلیقات شامل ہیں۔ جناب تمنا کی آخری کتاب ’تحقیقی و تنقیدی آفاق‘ ہے جس میں ان کے انیس تنقیدی و تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ یہ کتاب2013 میں شائع ہوئی جو ان کا سال وفات ہے۔ تمنا مظفر پوری نے بہت ساری کتابیں ترتیب بھی دی ہیں مثلاً  محمد سلیم واجد کا شعری مجموعہ ’وقت کا مسیحا‘، م۔ ق۔ خان کا افسانوی مجموعہ ’تنہائی میں مکالمہ‘ منتخب فرید کا افسانوی مجموعہ ’سانچہ اور شیشہ‘ اور فرحت قادری پر مختلف ارباب قلم کے تاثرات اور مقالات کا مجموعہ ’فرحت قادری: فن اور فن کار‘ مزید بر آں ان کی کئی کتابوں کے مسودات، ترتیب و طباعت کے مرحلے میں تھے، مگر افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی اور یہ عظیم فنکار اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔ تمنا مظفرپوری نے بقول ضیاء الرحمن غوثی 1959  سے بچوں کے لیے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

(بہار میں بچوں کا ادب، ضیاء الرحمن غوثی، ص 105)

وہ نہ صرف ’اطفال ادب‘ گیا کی سرپرستی کرتے رہے اور ماہنامہ ’مسرت‘ میں پابندی سے لکھتے رہے، بلکہ ’مسرت‘ بند ہو جانے کے بعد بہت سارے دوسرے پرچوں میں بھی بچوں کے لیے ان کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’ظرافت اور چند ظریف ہستیاں‘ بھی بچوں ہی کے لیے تھی اور ان کی زندگی میں سال وفات سے پہلے شائع ہونے والی آخری کتاب ’عقلمند بچے‘ بھی بچوں ہی کے لیے ہے اور ان کتابوں کا مطالعہ بتا دیتا ہے کہ تمنا مظفرپوری نے بچوں کی فطرت کے مطابق موضوع و طرز تحریر کا انتخاب کیا اور بچوں کے جذبہ تجسس کو آسودہ کرنے پر توجہ رکھی ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی التزام رکھا ہے کہ زمانے کے اتار چڑھائو میں انھیں پڑھ کر بچے ان سے بخوبی آنکھیں ملانے کے قابل ہو سکیںاور عمل کے پیکر بن کر ابھر سکیں:

’’تمنا مظفر پوری کبھی آرائشی زبان استعمال نہیں کرتے، بلکہ اپنی باتیں سادگی کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں، چونکہ ان کا تعلق مزاح اور ادب اطفال سے ہے، اس لیے یہ انداز تحریر موضوعات سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے ہوئے تمنا مظفر پوری بچوں کے ذوق اور ان کی ذہنی سطح کا خاص خیال رکھتے ہیں۔نیکی کا درس ان کی کہانیوں میں دلچسپی کے جلو میں آتا ہے اس لیے یہ بچوں کے لیے گرا نبار نہیںہوتا۔‘‘

(ادب اطفال کے تخلیق کار: تمنا مظفرپوری،  علیم اللہ حالی مشمولہ عقلمند بچے، ص 6)

 تمنا مظفر پوری علم الحساب اور الجبرا سے خاص شغف رکھنے والے اور شخصی طور پر سادگی پسند آدمی تھے۔ان کے مزاج میں قناعت پسندی تھی اور یک گونہ شان بے نیازی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ادب اطفال کے باب میں بھی ان کی خدمات ان اوصاف سے بخوبی غذا یافتہ ہیں۔یہاں تک کہ تمنا مظفرپوری کی بیشتر کہانیاں اگر ’آوارجہ بداماں‘کہی جائیں تو شاید مبالغہ نہ ہو کہ حساب کتاب کی باتیں لکھے بغیر وہ آگے بڑھتے ہی نہیں ہیں۔ وہ نہ تو بھاری بھرکم لفظوں سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی ایسی بھاری بھرکم سوچ اپنی کہانیوں میں سمونے کے متمنی ہوتے ہیں جن کا بوجھ نونہالوں سے اُٹھ ہی نہ سکے۔

تمنا مظفر پوری یقینا ادب اطفال کے سچے، کھرے اور مخلص و باشعور فن کار ہیں اور بخوبی سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ذہن تک، ان کے لیے لکھے جانے والے ادب کی رسائی اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس میں سادگی اور صفائی ہو۔ تمنا مظفر پوری کی دوکتابیں ادب اطفال کے تعلق سے اشاعت پذیر ہوئیں اور سال اشاعت کے اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں تقریباً پچیس سال کا وقفہ ہے۔ پہلی کتاب ان کی ادبی زندگی کے درمیانی دہے میں آئی اور دوسری کتاب آخری دہے میں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بچوں کے ادب کی تخلیق پر تاحیات متوجہ رہے۔ ان کی کتاب ’عقلمند بچے‘ آج سے محض سات، آٹھ سال پہلے 2011 میں چھپی تھی۔اس کتاب کے شروع میں پروفیسر علیم اللہ حالی کی تحریر کے بعد، خود مصنف کی باتیں ’کہانی کی کہانی‘کے عنوان سے سامنے آتی ہیں جس میں انھوں نے بچوں کو ’دوستو‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے اور عمر کا فرق ہونے کے باوجود اس طرز تخاطب کی وجہ بھی انھیں بہت اچھے انداز میں سمجھا دی ہے۔ ان کی تحریر’کہانی کی کہانی‘ پڑھنے سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ فنی سطح پر ادب اطفال کے تعلق سے وہ صاف ستھرا تجزیاتی ذہن رکھتے تھے۔

تمنا مظفرپوری نے ’کہانی کی کہانی‘ سناتے ہوئے مزید جو کچھ بتایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کے ادب سے دلچسپی ان کے خاندانی ماحول کا ورثہ ہے اور اس تعلیمی نظام کا بھی جس نے عورتوں کے لیے کوئی ذہنی و عملی رکاوٹ کھڑی نہیں کی تھی، نہ مختلف زبانوں کے حصول کے معاملے میں اور نہ ہی ریاضی جیسے مضمون کے معاملے میں۔ ’کہانی کی کہانی‘ میں انھوں نے برسبیل تذکرہ 1964  کے حوالے سے روپے، آنے اور وزن اور باٹ کی جو کہانی سنائی ہے وہ بجائے خود بچوں کے لیے نہایت مفید اور معلوماتی ہے۔

تمنا مظفرپوری کی کتاب’عقلمند بچے‘ کی پہلی کہانی ’علم دین‘ ہے۔ جس میں بغداد کے خلیفہ اور ایک تاجر کی ملاقات کا قصہ بیان ہوا ہے اور اس ملاقات میں سوال و جواب کے نتائج سے علم دین کی اہمیت وافادیت اور ضرورت سامنے لائی گئی ہے۔یہاں ایک طرف بچوں کو یہ ذہن دیا گیا ہے کہ دنیاوی علوم و فنون میں مہارت کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن دینی علوم سے واقفیت کے بغیر بہرحال کام نہیں چل سکتا بلکہ ایسی صورت میں وقتی طور پر ہاتھ آنے والی کامیابی کا پانسہ اچانک پلٹ بھی سکتا ہے اور دوسری طرف بڑوں کو یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر انھوں نے اپنی اولاد کو علم دین سے بے بہرہ رکھا، تو دنیاوی علوم میں ہزار مہارت کے باوجود بھی وہ مشکلوں میں پڑسکتی ہے۔

تمنا مظفرپوری کی کہانی ’عقلمند بچے‘ کا پلاٹ عظیم آباد کے ایک مضافاتی قصبہ احمد نگر کے سنگ وخشت سے بنایا گیا ہے اور یہ عقلمند بچے اکبر حسین اور اصغر حسین نامی دو سگے بھائیوں کے بچے ہیں۔ اکبر حسین کے بیٹوں کا نام احمر اور انور ہے اور ان کی عمر بالترتیب سولہ سال اور چودہ سال ہے، جب کہ اصغر حسین کے بچے مجیب اور شکیب بالترتیب بارہ سال اور دس سال کے ہیں۔ موروثی حویلی نما مکان کے بٹوارے کا سوال ان بچوں کے باپ اور چچا کے درمیان زبردست ناچاقی پیدا کردیتا ہے تو آخر کار احمر کی پہل پر تینوں بچے ایک منصوبہ بناتے ہیں اور جب بٹوارے کے لیے پنچایت بیٹھتی ہے توعین فیصلے کے وقت یہ بچے، اپنے اپنے ابو کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیںاور ان کی فرمائش کے اثر سے فریقین کے درمیان صلح پر پنچایت کا اختتام ہوتا ہے۔ اس کہانی میں جو مسئلہ اٹھایا گیا ہے، وہ نیا نہیں ہے، لیکن تمنا مظفرپوری کے مشاہدے کی گہرائی اور بیان واقعہ کی ہنر مندی سے بہرحال ایک نئی فضابن گئی ہے،بلاشبہ بچوں کی متحد اور معصوم ذہنیت اور ان کی بر وقت منصوبہ بند ہمت کا سہارا لے کر ایک طرف کہانی نویس نے بڑوں کی تربیت کی ہے اور دوسری طرف یہ بھی دکھادیا ہے کہ بچے بھی اپنی کم عمری کے باوجود اپنی عقلمندی سے خاندان اور معاشرے میں، مسائل کو سلجھانے کے لیے اہم رول ادا کر سکتے ہیںصرف ا پنی بات رکھنے کا سلیقہ اور موقع محل کو سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

تمنامظفرپوری کی کہانی ’توہم‘ میں ہماری ملاقات جاوید اور انور نامی دو اسکولی طالب علموں سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں دسویں جماعت میں پڑھتے ہیں اور ایک ہی محلے میں رہتے ہیں، اس لیے ان میں کافی گہری دوستی ہے، مگر ان دونوں کے خیالات میں بڑا فرق ہے۔جاوید محنتی، ذمے دار اور ایماندار لڑکا ہے جب کہ انور لا پرواہ، باتونی اور پڑھائی سے جی چرانے والا۔انور کی والدہ ایک توہم پرست خاتون ہیں، وہ تعویذ گنڈے پر اندھا اعتقاد رکھتی ہیں اور انھوں نے اپنے بیٹے کا ذہن بھی ایسا ہی بنادیا ہے۔ یہاں اگرچہ جاوید یہ کہہ کر اپنے دوست کا ذہن بدلنے میں عملاً کامیاب ہو جاتا ہے کہ:

 ’’دعا اور تعویذ دل اور روح کی قوت کے لیے ہیں۔ یہ نہیں کہ تم ان کے بھروسے سے پڑھنا چھوڑدو۔ قرآن شریف حفظ کرنے کے لیے بھی محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ نہیں کہ خدا کا کلام ہے تمھیں یوں ہی یاد ہوجائے گا۔‘‘ (کہانی ’تو ہم‘ مشمولہ ’عقلمند بچے‘، ص 22,23 اور ص 24)

لیکن براہو، جہالت بھری توہم پرستی کا، کہ آخر کار اس کا ایک سال، ماں کے توہم کی نذر ہوہی جاتا ہے۔ اس کہانی کا یہ جملہ بڑا قیمتی ہے کہ:

’’وہم سے انسان کمزور پڑجاتا ہے اور بیوقوف بن جاتا ہے۔‘‘ (کہانی ’تو ہم‘ مشمولہ ’عقلمند بچے‘، ص 22,23 اور ص 24)

تمنا مظفرپوری کی کہانی ’قدرت کا فیصلہ‘ میں مقدمہ کے فریقین کی حیثیت سے پرشوتم داس اور مدن موہن سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ مدن موہن مدعی اور پرشوتم داس مدعا علیہ ہے اور اس کہانی کے ذریعہ یہی بتایا گیا ہے کہ بے قصور کے خلاف لاکھ سازشیں کی جائیں، اللہ ان کے ساتھ ضرور رہتا ہے اور غیب سے ایسا سامان ہوتا ہے کہ باطل کو منھ کی کھانی پڑتی ہے۔ اس کہانی میں ایک ضمنی کہانی بھی ہے کہ نل پر نہانے کے لیے جب پرشوتم اور مدن جی کی بیویوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا تو مدن جی کی بیوی کے حق میں محلے کے عورتوں کے فیصلے کو پرشوتم کی بیوی نے اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے بدلہ لینے کی بات کہی تھی اور شاید مدن پر یہ مقدمہ بیوی کے ذریعہ شوہر کو بہکاوے میں لینے کا نتیجہ تھا، اس طرح یہاں بڑوں کے لیے بھی بالواسطہ طور پر کام کی بات یہ نکلتی ہے کہ وہ بات کو طول دینے، کینہ پالنے اور بہکاوے میں آنے سے بچیں اور چھوٹے ہوں یا بڑے ہمیشہ یاد رکھیں کہ جعل سازی کا انجام برا ہی ہوتاہے۔

شاہد کی شرارت‘ خالص بچوں کے لیے لکھی گئی نیم مزاحیہ کہانی ہے۔ یہاں تمنا مظفرپوری نے بہت ہی پھڑکتے ہوئے انداز میں بچوں کو اردو محاورے اور ان کے مفاہیم سمجھائے ہیں۔ چند سطریں دیکھیے:

’’……پھٹا پائجامہ دیکھنا تھا کہ اسے (شاہد کو) محاورہ یاد آگیا اور ان کے پھٹے میں اپنی ٹانگ ڈالنے کی خواہش پیدا ہوگئی…… دونوں جب قریب آگئے تو شاہد نے جھٹ احمد کی ٹوپی محمود کے سر پر رکھ کر تماشہ دیکھنا چاہا، لیکن کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ دونوں کو مسکراتے ہوئے آگے بڑھتے دیکھ کر اسے محاورہ اور اس کے بنانے والے پر سخت غصہ آیا…… اس کے ساتھ باغ سے باہر نکلنے کے بعد سڑک پر کھڑے ہو کر(اس کے دوست) اسے تیز بھاگنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ شاہد نے دیکھاکہ سر پر پائوں رکھنے سے کام نہیں چلے گا لہٰذا پائوں پر سر رکھ کر التجا کی جائے کہ اے پائوں جتنا تیز بھاگ سکتا ہے بھاگ چل……‘‘

(شاہد کی شرارت مشمولہ ’عقلمند بچے‘، ص 31 و ص 32)

تمنا مظفرپوری کی کہانی ’میاں بدھو کی اردو‘ بسنت گائوں کے دو بھائیوں کی کہانی ہے۔یہاں تمنا مظفرپوری نے ایک طرف انور اور دوسری طرف اکبر یعنی بدھو سے بچوں کی ملاقات اسی لیے کرائی ہے کہ وہ تعلیم کی تاثیر اور برکت قریب سے دیکھ لیں اور یہ سمجھ لیں کہ جو بچے محنت اور لگن سے نہیں پڑھتے، انھیں نام کا اکبر یعنی بڑا ہونا کوئی فائدہ نہیں دیتا بلکہ وہ ساری زندگی ’بدھو‘ کی طرح گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں اور بوڑھی ماں کا سہارا بننے کے قابل ہوتے ہیں۔ ورنہ بدھو کی طرح بوڑھی ماں پر اپنی نگرانی کا بوجھ ڈالے رہتے ہیں۔

اس کہانی میں بدھو میاںکا خط پڑھنا اور خود ہی تبصرہ کرتے چلے جانا بہت دلچسپ ہے۔ وہ جب ’ازگور کھپور‘ کو ’از گور۔کھپور‘ پڑھتے ہیں۔ ’1 اکتوبر‘ کو ’12 اکتوبر‘ پڑھتے ہیں اور ’خطوط ‘ کو ’خط و ط‘ اور پھر اپنے غلط سلط پڑھنے کے مطابق فوراً ہی مطلب بھی جوڑ لیتے ہیں تو ہنسی آنا لازمی ہے، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس منظر نامے سے دراصل تمنا مظفرپوری غلط نویسی اور عدم صحت کے ساتھ بلند خوانی کا انجام بھی دکھانا چاہتے ہیں۔ دادی اماں نے اگر پاس ہی پڑے ہوئے پرانے اخبار ہاتھ میں لے کر بدھو کے پڑھنے کی نقل اتاری ہے تو اس میں بھی ایک باریک نکتہ پوشیدہ ہے کہ آئے دن، بدھو جیسے لوگ اسی طرح تحریر کا غلط سلط مطلب نکالتے رہتے ہیں۔ وہ ’لقوہ مارگیا‘ جیسے محاورے کو نہیں سمجھتے بلکہ ’لقوہ‘ کو کسی کمینے آدمی کا نام سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس کی ہڈی پسلی ایک کر دینے کا پروگرام بنانے لگتے ہیں۔ یہاں باتوں ہی باتوں میں تمنا مظفرپوری نے قصہ فہمی کا جو احساس دلایا ہے، کہانی کی بنت کا فن اور کہانی سننے کا ادب و سلیقہ جس طرح سکھایا ہے، وہ بھی دیدنی ہے۔

ان دنوں ریڈیو اور ٹی وی پر ہندی میں ’جاگو گراہک جاگو‘ کا اشتہار آتا رہتا ہے جس کا مقصد خریداروں کو اپنے حقوق کے تئیں بیدار کرنا اور دوکانداروں کی زیادتی اور بے ایمانی سے بچانا ہے۔ تمنا مظفرپوری نے ’عاقلہ بوا‘ میں یہی موضو ع اٹھایا ہے اور کم تولنے والے دوکانداروں سے ہوشیار کیا ہے۔ جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانا اگر ایک محاورہ ہے تو عاقلہ بوا نے، پھل خریدنے کے لیے ترازو اور باٹ اپنے ساتھ لے جا کر گویا عملاً یہ محاورہ پورا کر دیا ہے۔ اس کہانی کا ایک مفید پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں کہانی لکھنے والے نے صرف کم تولنے والے کا انجام ہی نہیں دکھایا بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ ترازو میں کیسے کیسے گھپلا ہوتا ہے۔

کہانی ’غلام وزیر بن گیا‘ قدرے طویل مگر دلچسپ کہانی ہے۔ بکسر کے رحم دل راجہ وجے رانا کی اس تاریخی میں ایک طرف وزیر دیوکرن سے ملاقات ہوتی ہے جو لالچی، حاسد اور خائن ہے اور دوسری طرف وزیر دیو کرن کے دوست گوپال سے جو ذہین اور محنتی ہے، مگر غریبی نے اسے گھیر رکھا ہے۔ کہانی کا مقصد یہی دکھانا ہے کہ برے کام کا انجام برا ہوتا ہے اور صلاحیت رکھنے والے نیک اور ایماندارآدمی کو دیر یا سویر اس کا حق ضرور مل جاتا ہے۔

تمنا مظفرپوری کے اس مجموعے میں جہاں ’چورکا مقبرہ ‘ اور ’عجیب و غریب مقدمے‘ جیسی دلچسپ اور حیرت ناک کہانیاں ملتی ہیں، وہیں دوسری طرف ’ہم ایک ہیں‘، ’جھوٹی دوستی‘ اور ’سانپ اور مینڈک‘ جیسی کہانیاں بھی بچوں کو متوجہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ مختصر یہ کہ تمنا مظفرپوری ادب اطفال کے باب میں اپنی تصنیفی خدمات کی وجہ سے بلاشبہ ایک بڑے اور منفرد فن کار ہیں۔


Nishat Akhtar

Research Scholar, Patna University

Patna - 800005 (Bihar)

 

 

 


 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں