24/12/20

غالب کی عظمت- مضمون نگار: نسرین بیگم

 



ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت  اچھے

کہتے ہیں کی غالب کا ہے انداز بیاں اور

ہندوستان کے عظیم سخنور ،جن کا نام مرزا اسد اللہ بیگ خاں ہے۔غالب تخلص۔ جائے پیدائش اکبر آباد ( آگرہ ) ہے۔

اور اب اس شہر کو آگرہ کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔ غالب کی ولادت27 دسمبر 1797 کو اکبرآباد (آگرہ) میں ہوئی۔ بچپن آگرہ میں گزرا۔ مرزا نوشہ لقب اور نجم الدولہ دبیرالملک نظام جنگ خطاب تھا۔ والد کا نام مرزا عبداللہ بیگ خاںتھا۔جب غالب کی ولادت ہوئی اس وقت آگرہ مرہٹوں کے قبضے میں تھا اور سلطنت مغلیہ کا آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر مرہٹوں کا قیدی بنا ہوا تھا۔ اس وقت انگریزوں کا ستارہ عروج پر تھا ۔مرہٹوں کو شکست دے کر انگریزوں نے اپنا پرچم دلی  و آگرہ اور اس کے اطراف و جوانب پر لہرایا ۔1

غالب کے والد مرزا عبداللہ بیگ خاں عرف مرزا دولہا کی شادی کمیدان (Commandant)خواجہ غلام حسین رئیس آگرہ کی بیٹی سے ہوئی تھی۔   (الف) غالب  نے ابتدائی تعلیم آگرہ کے مشہور اساتذہ سے پائی ۔شیخ معظم جو اس وقت آگرے کے نامی معلموں میں سے تھے، غالب  ان سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔غالب مع اپنے چھوٹے بھائی مرزا یوسف خاں کے سن شعور تک آگرہ ہی میں رہے۔ہرمزد نامی ایک پارسی شخص جو غالباآگرے میں بحیثیت سیاّح آیا اور اسلام قبول کرلینے کے بعد اس کا نام عبدالصمد ہو گیا۔عبدالصمد دو برس تک مرزا کے پاس آگرے میں رہے اور غالب نے دو برس تک عبدالصمد سے فارسی پڑھی ۔ 2

آگرہ میں غالب کا ننھیالی مکان جس میں وہ پیدا ہوئے تھے اس کے بارے میں غالب لکھتے ہیں :

’’ہماری بڑی حویلی وہ ہے جو اب سیٹھ لکھی چند نے مول لی ہے ۔اس کے دروازے کی سنگین بارہ دری میں میری نشست تھی ‘‘ 

آگرے کی اس حویلی میں اب اندر بھان گرلس انٹر کالج قائم ہے۔خواجہ الطاف حسین حالی کی لکھی ہوئی غالب کی سوانح عمری ’یادگار غالب‘ میں کلاں محل کا ذکر ہے، وہ کلاں محل جو اب کالا محل کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کالج وہیں ہے۔ غالب کے نانا کی جاگیر میں بہت سارے دیہات بھی شامل تھے اور شہر آگرہ میں بھی ان کی بڑی جاگیر تھی۔ 10 ستمبر 1833 کو منشی شیو نرائن آرام اکبر آبادی آگرہ میں پیدا ہوئے۔مفید عام نام سے کالج قائم کیا۔یہ کالج موتی لال نہرو روڈ پر آج بھی موجود ہے مگر وہاں  جانے کے بعد مایوسی ہاتھ آئی۔

 وہاں منشی شیو نرائن آرام اکبرآبادی کی ایک فریم کی ہوئی تصویر  جو  بوسیدہ حالت میں تھی  اور ایک ہال جہاں وہ تصویر زمین پر ایک کونے میں رکھی ہوئی ملی۔ وہاں کی انتظامیہ نے دوبارہ لگانے کی ضرورت نہ سمجھی۔ باقی جو نشانی وہاں ملی وہ کھنڈر کے سوا کچھ نہیں         ؎

اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے

 انھیں سے کام چلائو  بڑی اداس ہے رات

مفید عام کالج کے حالات دیکھ کر اور وہاں کے ایک استاد کی زبانی کچھ باتیں سن کر آنکھوں میں آنسو آگئے        ؎

ایک  اہل  درد  نے سنسان   جو  دیکھا    قفس

 یوں کہا  آتی نہیں  اب کیوں  صدائے عندلیب

مفید الخلائق پریس بھی منشی شیو نرائن آرام اکبرآبادی کا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ  فارسی اور اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کا پہلا دیوان فارسی اور دیوان اردو 1863 میں یہیں سے شائع ہوا تھا ۔دستنبو فارسی پہلی بار نومبر 1858 میں مطبع مفید الخلائق آگرہ سے چھپی تھی۔ اس مطبع سے کتاب کی اشاعت معیار و شہرت کی ضمانت تھی ۔منشی شیو نرائن آرام اکبرآبادی غالب  کے شاگرد تھے۔ غالب کے ہم عصر اساتذہ جو اس وقت آگرے میں تھے ان میں خلیفہ اسیر، مرزا اعظم بیگ اعظم، افہام اللہ افہام و ساحر، شیخ نیاز علی پریشاں، سید مدد علی تپش، مولوی نبی بخش حقیر، مہاراجہ بلوان سنگھ، مرزا خانی رنج، سید بلاقی زر، قطب الدین خاں باطن، احمد خاں شیفتہ،منشی جواہر لال جواہر، میر سعادت علی سعید، مولوی اصغر علی اصغر کے نام قابل ذکر ہیں ۔

بابو گووند سہائے نشاط اکبرآبادی جنھوں نے 1862  میں وکالت کا امتحان پاس کیا اور آگرہ دیوانی میں وکیل ہوئے ،یہ بھی مرزا غالب کے شاگرد تھے ۔

غالب کی شادی نواب الہی بخش خاں معروف کی صاحبزادی اور نواب احمد بخش خاں والی فیروز پور جھرکہ و جاگیر دار لوہارو کی بھتیجی امرائو بیگم سے ہوئی تھی ۔اس وقت مرزا کی عمر تیرہ برس اور امرائو بیگم کی عمر گیارہ برس تھی ۔

غالب کے سات اولادیں ہویں مگر ان میں سے کوئی نہ جیا۔ تب امرائو بیگم کے بھانجے زین العابدین عارف کو گود لیا تھا۔ غالب عارف سے بہت محبت کرتے تھے مگر افسوس کہ زین العابدین عارف کا انتقال جوانی میں ہی ہو گیا ۔ان کے انتقال کے بعد غالب نے ایک غزل بطور نوحے کے لکھی            ؎

لازم  تھا کہ  دیکھو  میرا رستا کوئی دن اور

تنہا   گئے کیوں، اب رہو تنہا کوئی دن اور

 آئے ہو کل، اور آج ہی کہتے  ہو کہ جاؤں

  مانا  کہ  ہمیشہ  نہیں اچھا ،  کوئی  دن  اور

   جاتے  ہوئے کہتے ہو   قیامت کو ملیں گے

 کیا خوب،  قیامت کا ہے گویا کوئی  دن اور   4

خدائے سخن اور فن غزل گوئی کے استاد میر تقی میر کی ولادت 1723کو اکبرآباد ( آگرہ ) میں ہوئی۔ وہ آگرے کے ایک شریف خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ محلہ ہینگ کی منڈی میں ان کا موروثی مکان تھا۔ (اب ہینگ کی منڈی، آگرہ جوتوں کے کاروبار کے لیے مشہور ہے) میر تقی میر کا انتقال 1810 میں لکھنؤ میں ہوا ۔

 میر تقی میر،غالب  کے ہم وطن یعنی آگرے کے ہی تھے ۔مرزا غالب کے اشعار نواب حسام الدین حیدر خاں نے میر تقی میر کودکھائے ۔غالب کے لڑکپن کے اشعار سن کر میر نے یہ کہا کہ ’’ اگر اس لڑکے کو کوئی استاد کامل مل گیا اور اس نے اس کو سیدھے رستے پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر ہوگا ورنہ مہمل بکنے لگے گا ۔‘‘5

میر تقی میر کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی اور رفتہ رفتہ مرزا کے کلام کو شہرت حاصل ہونے لگی اور وہ لاجواب شاعر بن گئے ۔

غالب کے نانا خواجہ غلام حسین خاں جس محلے میں رہتے تھے اس محلے کا نام گلاب خانہ ہے۔ اس وقت گلاب خانہ فارسی زبان کا مرکز تھا۔ یہیں ملاولی محمد شارح مثنوی مولانا روم ،مولوی شمس الضحی، مولوی بد الدجی،منشی اعظم علی اعظم، مولوی محمد کامل، مولوی محمد معظم، خواجہ غلام غوث بیخبر رہا کرتے تھے۔جن سے غالب کو فیض حاصل ہوا۔ ان کے علاوہ جو حضرات فارسی میں شعر کہا کرتے تھے اور اکبرآباد میں تھے ان میں گلرخ، پنڈت ڈونکر مل سنسکرت کے ساتھ فارسی کے بھی ماہر تھے،سلیمہ جن کی  شادی 965ھ میں بیرم خاں سے ہوئی تھی، شاعرہ تھیں، اشکی، فازغی، شیخ ابوواجدؤ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر،شیخ ابوالفیض فیضی، علامہ شیخ ابوالفضل، بیاض خاں اکبرآبادی بیاضی، میر حشمی اکبرآبادی، خنجر بیگ چغتائی، طالعی یزدی، ملا صبوحی اکبرآبادی، سیرابی اکبرآبادی، ملا شیدا، طفلی، ماہر، برہمن، لالہ ٹیک چند اکبرآبادی بہار، اعجاز، آنتم، خان آرزو اکبرآبادی، میر تقی میر، مولوی سید امجد علی شاہ اصغر، شاہ محمدی بیدار اکبرآبادی، ذرہ، محمد امین ذوقی اکبرآبادی، سحری اکبرآبادی، مولوی نبی بخش حقیر الٰہی بخش شوق اکبرآبادی،  حکیم نظام علی خاں افضل، اللٰہی، انعام، بیخبر، سید کاظم علی اکبرآبادی، حافظ عبدالغفور وفائی اکبرآبادی، مولوی سید اصغر علی شاہ اکبرآبادی، مولانا عاشق حسین سیماب اکبرآبادی، مولوی سید محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی کے نام قابل ذکرہیں۔6

محلہ گلاب خانہ آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ غالب کا بچپن یہیں گزرا۔یہ محلہ اس زمانے میں فاضلان فارسی کا محلہ تھا۔ اس وقت فارسی اور اردو میں طرحی مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔’’ پنچ آہنگ ‘ میں ایک خط میر اعظم علی کے نام ہے جو فارسی میں ہے جس کا ترجمہ اردو میں کچھ اس طرح ہے ۔میر اعظم علی غالب کے بچپن کے  دوست تھے ۔ان کو لکھتے ہیں :

...آپ کے خط نے میری مردہ آرزوئوں میں زندگی کی رو دوڑاکر دنیائے دل کو محشرستان بنا دیا... دیرینہ آرزوئوں کے جو کانٹے دل میں چبھے ہوئے تھے وہ دل سے باہر نکل رہے ہیں ۔ آہ،مجھے وہ زمانہ یاد آتاہے جب یہ پوری کائنات (یعنی اکبرآباد )میرا وطن تھی اور ہمدرد دوستوں کی انجمن ہر وقت آراستہ رہا کرتی تھی ۔‘‘7

      غالب کو فارسی سے خاص رغبت تھی اور شعر گوئی سے فکری مناسبت ۔گیارہ برس کی عمر سے ہی شعر کہنے لگے تھے اور خاص طور پر آگرے کے علمی ماحول نے غالب کی شاعری پر اثر ڈالا ۔ان کی شاعری دل کی گہرائیوں کو چھوتی ہے اور ہمیں یہ قبول کرنا ہی پڑتا ہے کہ غالبّ کا انداز بیان ہی انہیں اوروں سے الگ کرتا ہے ۔سننے والا بجائے رنج وغم کے ایک خاص قسم کی مسرت حا صل کرتا ہے ۔غالب کو اپنی انفرادیت کا خود احساس تھا        ؎

کوئی ایسا بھی، کہ غالب کو نہ جانے؟

شاعر  تو  وہ  اچھا ہے ، پہ بدنام  بہت ہے

 غالب  عالمی شہرت یافتہ شاعر ہیں ۔کلام میں روانی ہے۔ ان کے کلام میں یہ خوبی  موجود ہے کہ جب پڑھیے نیا لطف آتا ہے           ؎

 قسمت کہ آپ  اپنے پہ رشک آجائے ہے

 میں اسے دیکھوں ، بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

ظلمت کدے  میں میرے  شب  غم کا  جوش  ہے

اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے

مرزا غالب  کے شاگرد عزیز خواجہ الطاف حسین حالی تھے۔ حالی نے انیسویں صدی کے آخر میں ’ یادگار غالب‘ جو استاد مرزا غالب کی سوانح عمری ہے ،لکھ کر غالب کی قدر ومنزلت اور ان کی زندگی سے وابستہ عام معلومات کو ہمیشہ کے لیے محفوظ و لافانی کر دیا۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر خوب لکھا ۔جو رہتی دنیا کے لیے سند ہے۔غالب کو سمجھنے، پہچاننے کے لیے یاد گار غالب کا مطالعہ بیحد ضروری ہے۔

غالب  اردو غزل میں ایک نیا خیال،نیا فلسفہ، ایک نیا گوشۂ فکر اور ایک نیا شعور لے کر آئے تھے ۔ان سے پہلے ایسی بے باکی اور کہیں نہیں ملتی ۔

 اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

جام جم سے یہ میرا جام سفال اچھا ہے

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

مرزا غالب کی شاعری جتنی حسین اور دلکش ہے اتنی ہی دلچسپ اور پر کشش ان کی شخصیت بھی ہے۔ وہ ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ہی ایک عظیم نثر نگار بھی ہیں۔ ان کے خطوط ہمارے لیے بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔ غالب کے خطوط کا پہلا مجموعہ ’عود ہندی اکتوبر 1868 میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ اردوئے معلی مارچ 1869 میں، اس کے علاوہ خطوط غالب، قاطع برہان اور غد رکے احوال پر ان کی تصنیف دستنبو۔  غالب کے خط لکھنے کا انداز با لکل الگ تھا۔ غالب پنچ آہنگ میں لکھتے ہیں کہ ’’ خطوط نویسی کا میرا یہ طریقہ کہ جب لکھنے کو قلم اٹھاتا ہوں تو مکتوب الیہ کو ایسے الفاظ سے پکارتا ہوں جو اس کی حالت کے موافق ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی مطلب شروع کر دیتا ہوں ۔القاب و آداب کا پرانا طریقہ ،شادی وغم کا قدیم رویہ میں نے بالکل ترک کر دیا ہے ۔

  غالب میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں:            

’’ہا  ہا  ہا  !میرا پیارا مہدی آیا۔ آئو بھائی  مزاج تو اچھاہے۔ بیٹھو، یہ رام پور ہے، دارالسرور ہے،جو لطف یہاں ہے اور کہاں ہے۔سبحان اللہ ! آئو میاں سید زادہ، دلی کے عاشق دلدادہ ،ڈھئے ہوئے اردو بازار کے رہنے، حسد سے لکھنؤ کو برا کہنے والے ‘‘ 8

غالب نے 1857 کی پہلی جنگ آزادی کی تباہی و بربادی کو آنکھوں سے دیکھا تھا۔پینشن کے لیے کلکتے تک کا سفر تنگ دستی ،قرض خواہوںکی مصیبت اور پریشانیوں نے غالب کو ایک ایسا فنکار بنا دیا جسے دنیا کبھی فراموش کر ہی نہیں سکتی۔ ان کے خطوط اردو نثر کا شاہکار بن گئے ۔وہ اپنے حوصلے سے زندگی کے ہر غم اور ہر مصیبت کا مقابلہ کرتے رہے اور اپنے عزیزوں، دوستوں، شاگردوں کو خط لکھ کر اپنے دل کی بات بتا کر تسلی کرتے رہے ۔

وہ ایک خط میں منشی ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں        ؎

رکھیو غالب  مجھے  اس تلخ  نوائی میں معاف

 آج  کچھ  درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

  بندہ پرور ! تم کو پہلے یہ لکھا جاتا ہے کہ میرے دوست قدیم میر مکرم حسین صاحب کی خدمت میں میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اب تک جیتا ہوں اور اس سے زیادہ میرا حال مجھ کو بھی معلوم نہیں۔مرزا حاتم علی صاحب مہر کی جناب میں میرا سلام کہنا..... پھر جب سخت گھبراتا  ہوں اور تنگ آتا ہوں تو یہ مصرعہ  پڑھ کر چپ ہو جاتا ہوں           ؎

اے  مرگ  نا گہاں  تجھے کیا  انتظار  ہے

 یہ کوئی نہ سمجھے کہ میں ا پنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں جو دکھ مجھ کو ہے اس کا بیان تو معلوم مگر اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔انگریز کی قوم میں سے جو ان روسیاہ کالوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے کوئی اس میں میرا امید گاہ تھا اور کوئی میرا شفیق تھا اور کوئی میرا دوست اور کوئی  میرا یار اور کوئی میرا شاگرد ،ہندوستانیوں میں کچھ عزیز، کچھ دوست، کچھ شاگرد کچھ معشوق سو وہ سب خاک میں مل گئے ۔ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو۔ اس کو زیست کیونکر نہ دشوار ہو، ہائے اتنے یار مرے کہ جو اب میں مرونگا تو میرا رونے  والا بھی نہ ہوگا۔انااللہ و انا الیہ راجعون    9

 دل  نہیں ورنہ  دکھاتا  تجھ کو  داغوں کی  بہار

  اس  چراغاں کا کیا کروں کیا  کار فرماں جل گیا

غالب کے خطوط کا یہی کمال تھا ۔منشی ہر گوپال تفتہ جو غالب کے عزیز شاگرد اور میر مہدی مجروح مرزا کے شاگرد خاص تھے ۔ میر سر فراز حسین خواجہ غلام غوث کا نام غالب کے خطوط کی وجہ سے ہی زندہ جاوید ہو گیا ۔اور وہ خطوط ہمیشہ پڑھے جاتے رہیں گے ۔غالب  نے اپنے خطوط کے ذریعے انسانوں کے درمیان پھیلی نفرتوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے دل سے نکلی بات لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب رہے  اور جہاں انھوں نے سنجیدہ موضوع پر لکھا وہیں طنز و مزاح کو اپنے خطوط اور شاعری میں جگہ بھی دیا           ؎

سنبھلنے دے  ذرا  اے نا امیدی  کیا  قیامت ہے

کہ  دامان خیال یار  چھوٹا  جائے  ہے مجھ  سے

 غالب کے خط میں طنز و مزاح کا نمونہ ملاحظہ ہو        ؎

امرائو سنگھ دوسری  بیوی کے انتقال کے بعد تیسری شادی کا ارادہ کر رہے تھے اس بات کو مرزا تفتہ کو وہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں :

’’ امرائو سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھ کو رحم اور اپنے واسطے رشک آتاہے ۔ اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دو بار ان کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں ۔ایک ہم ہیں کہ اوپر پچاس برس سے جو پھانسی کا پھندہ گلے پڑا ہے نہ تو پھندا ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے ۔اس کو سمجھائو کہ میں تیرے بچوں کو پال لوں گا تو کیوں بلا میں پھنستا ہے ؟

بے باکی اور حاضرجوابی غالب کے خطوط میں موجود ہے خطوط نویسی کے ساتھ شاعری بھی غالب کی زندگی تھی۔ انھوں نے شاعری کو ایک خوبصورت زندگی کی طرح جیا ہے اور آخر وہ عظیم شاعر 15 فروری  1869 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے نزدیک دفن ہوئے ۔

مرزا غالب کا دائرہ تخیل کائنات کی طرح وسیع ہے۔ وہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیائے سخن کے عظیم اور محبوب شاعر ہیں ۔وہ اپنے الگ انداز بیان کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے       ؎

ہیں اور  بھی  دنیا  میں سخنور   بہت  اچھے

کہتے  ہیں کہ  غالب کا ہے انداز بیاں اور

غالب کی عظمت کا راز بھی ان کا  اپنا  الگ انداز بیان ہی ہے۔اور وہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے محبوب شاعرہیں ۔

حواشی

.1        غالب ایک مطالعہ: ممتاز حسین، انجمن ترقی اردو روڈ، کراچی 1969

            الف ماہنامہ آجکل، نئی دہلی، فروری 2001، کالی داس گپتا رضا، ص 2

.2         یادگارِ غالب، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی، ص 25-26

.3         ہما ڈائجسٹ غالب نمبر، مدیر عبدالوحید صدیقی، جلد 5، شمارہ 33

.4         دیوان غالب: مرزا اسداللہ خاں غالب، ص 81، یہ زین العابدین خاں عارف کا مرثیہ ہے

.5         ماہنامہ شاعر، آگرہ نمبر، مدیر مسئول، سید اعجاز حسین اعجاز صدیقی اکبرآبادی، جون- جولائی 1936، ص 19

.6         ماہنامہ شاعر، آگرہ نمبر جون- جولائی 1936، ص 69-73

.7         آجکل فروری 2001، غالب اور اکبرآباد ، کالی داس گپتا رضا، ص 40

            یہ خط اواخر 1834 یا اوائل 1835 کا ہے۔ گویا غالب نے منتقلاً آگرہ 1814 یا 1815 میں چھوڑا۔ وہ اس وقت اٹھارہویں سال میں ہوں گے۔ ’کالی داس گپتا رضا

.8         ہما اردو ڈائجسٹ مارچ 1969، نئی دہلی، غالب نمبر مدیر عبدالوحید صدیقی، ص 145

.9         عود ہندی، نجم الدولہ دبیرالملک مرزا اسداللہ خاں غالب، دہلوی 1858، ص 143          

.10      ہما اردو ڈائجسٹ، مدیر عبدالوحید صدیقی، غالب نمبر 1969، ص 144-45


Dr. Nasreen Begum (Alig)

Associate Profe & Head Dept of Urdu

Baikanthi, Devi Girls PJ College

Agra (UP)

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں