22/12/20

ڈیجیٹل لٹریسی - مضمون نگار: ف س اعجاز

 



ڈیجیٹل لٹریسی‘ ایک عام جدید اصطلاح کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ہر ملک کے نوجوانوں کو ڈیجیٹل لٹریسی یعنی ڈیجیٹل تعلیم سے سروکار ہے لیکن اس کے زیادہ سے زیادہ اطلاقی پہلو انگریزی اور دیگر یوروپی زبانوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان کی مادری زبانوں میں ڈیجیٹل لٹریسی کے بارے میں خود مکتفی علوم ابھی زیادہ نہیں ہیں۔ (اردو میں تو بہت کم ہیں)۔ دراصل ڈیجیٹل لٹریسی سماجی سائنس کے رول کی توسیع کی کوشش پر مبنی ہے۔

مجموعی طور پر ڈیجیٹل لٹریسی نے عام تعلیم کے ساتھ معاونت کے وہ اصول وضع کیے ہیں جن سے مخصوص علم یا کئی علوم کے مابین مسابقت(کمپٹیشن) کی راہیں آسان ہوں۔ قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر ڈیجیٹل لٹریسی کا پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل لٹریسی ایک فرد کی گرامر، ٹائپنگ، متن و تصاویر، صوتی اور ڈیزائننگ کی تکنیکی پیشکش کو اعلیٰ معیار تک پہنچاتی ہے اور یہی تعلیمات ڈیجیٹل لٹریسی کا مجموعہ ہیں جس سے نئے کلچر اور تاریخ میں کشادہ راہیں کھلتی ہیں۔

امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کی ڈیجیٹل خواندگی ٹاسک فورس نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے ’’ڈیجیٹل خواندگی اس صلاحیت کا نام ہے جو اطلاع و ترسیل کی ٹکنالوجیوں کو معلوم کرنے اور ان کی قدریں متعین کرنے بلکہ انھیں تخلیق کرنے میں مدد پہنچاتی ہے اور اطلاعات کی ترسیل کو علمی و تکنیکی دونوں طور پر ممکن بناتی ہے۔‘‘

نورتھ کیرولینا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ایک ڈیجیٹل خواندگی و تکنولوجی کے پروفیسر ہلر اسپائرس (Hiller Spiers) نے ڈیجیٹل لٹریسی کو تین چیزوں کا علم قرار دیا ہے:

.1        ڈیجیٹل مواد کی تلاش اور تصرّف

.2         ڈیجیٹل مواد کی تخلیق

.3         مواد کی دستیابی اور اس کی ترسیل میں اشتراک

ڈیجیٹل مواد کی تلاش اور تصرف

ڈیجیٹل مواد کا تصرف یاکھپت عملاً کسی مطبوعہ یعنی چھپے ہوئے مواد کے مماثل ہوتا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ چھپا ہوا مواد مثلاً کوئی ناول یا اخبار اصل صورت میں ہاتھ میں لے کر پڑھا جاتا ہے اور ڈیجیٹل مواد مثلاً ناول یا اخبار اسکرین پر دکھائی دیتا ہے۔ البتہ اسے PDF کی حالت میں صفحہ بہ صفحہ ایک کلک کے ذریعے پلٹنا پڑتا ہے۔ کلک کر کے مطلوبہ صفحے تک پہنچنا یا اسے ٹھہرا کر دیکھنا یا پڑھنا تکنیک کا عمل ہے۔ متن کے اس مطالعے کو ’آف لائن ریڈنگ‘ کہا جاتا ہے۔

اسی متن کا مطالعہ ’آن لائن ریڈنگ‘ کہلاتا ہے جب اسے انٹرنیٹ پر دیگر مہارتوں یا سہولتوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ مثلاً ویب پر ایک صفحہ نگاہ کے سامنے آئے اور اس کے مطالعے یا جائزہ کے ضمن میں اضافی اہلیت یا معاونتوں مثلاً تصویری یا متحرک ویڈیوز، کسی صوتی، گرافِک جُزو، ضروری حوالوں یا تبصروں کے لیے اشتراکی بٹنوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہو تو یہ مطالعہ آن لائن بن جاتا ہے جس کے لیے سرچ انجن کے ذریعے لیدی الفاظ Key words اور حوالوں کو ٹٹولنا پڑتا ہے۔

ڈیجیٹل مواد کی تخلیق

ڈیجیٹل خواندگی مواد کی تخلیق بھی کرتی ہے جو ای میل، بلاگ، ٹوئیٹ اور ویڈیو وغیرہ کے ذریعے پیش ہوتا ہے۔ اس دور میں ڈیجیٹل تصنیف بھی ایک قابلِ ذکر پیشکش ہے جو سماجی طاقت کا ایک وسیلہ بن رہی ہے۔ ڈیجیٹل رائٹنگ میں عام ادب نگاری سے کچھ بڑے خطرات بھی درپیش ہوسکتے ہیں کیونکہ اسے فوری اور ہنگامی طور پر شیئر کیا جاتا ہے اور اس میں تخلیقی اور باہمی اشتراک کے تجربے زیادہ ملاحظہ کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک بھوجپوری فلم اداکارہ کو ذہن میں لائیں جو یوٹیوب پر روز سرِ شام دکھائے جانے والے چٹپٹی زبان کے ویڈیوز جن میں طنز و مزاح کے ساتھ وہ کبھی کبھی اپنی ہندی کویتائیں بھی ناظرین کو سناتی ہے۔ سماجی اور الیکٹرونک پروڈکشنز کو سماجی ناہمواری کے سیاسی زاویوں سے دیکھیے کہ وہ کس طرح ایڈونچر بھرے ردّعمل کو جنم دیتی ہیں جب کہ یہ امن شکنی کے خطروں سے خالی نہیں کہے جاسکتے۔

مواد کی دستیابی اور اس کی ترسیل میں اشتراک

روایتی نگارش ظاہر ہے کہ کسی کی ذاتی کوشش ہوتی ہے جبکہ ڈیجیٹل نگارش اکثر دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کے مقصد سے رواج پاتی ہے اور اس مقصد کی تکمیل کو آسان بنانے کے لیے وسائل بھی فروغ پاتے ہیں۔ چنانچہ ویب آلات (Web tools) باہمی شرکت کے لائق اوربرائے استعمال آسان بنائے جاتے ہیں تاکہ یہ سارا کام آن لائن برادری میں گردش کرسکے۔ اس سے شہری سماج میں شرکت میں اضافہ ہوتا ہے اور ایک متحرک، فعّال اورزود آگاہ ایک دوسرے میں ملّوث کمیونٹی تیار کی جاتی ہے، خصوصاً طالب علم برادری میں۔ چنانچہ اس میں یہ خطرہ بھی مضمر رہتا ہے کہ بعض باتوں کے عام ہو جانے سے کسی طالب علم کے نجی تحفظّات اور نیک نامی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا انٹرنیٹ کی مشق کو اخلاق کا پابند کرنا بہت ضروری ہے۔

روایتی تحریر کے برعکس ڈیجیٹل تحریر کئی سہولیات اور مواقع کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس کے مواد کی ترسیل مختلف متون، ڈیزائن، تخلیق، صوتی و بصری (Audio and Visual) فن کی افزائشی تکنیک کے سہارے ممکن ہو پاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ڈیجیٹل لٹریسی کے لیے مَلٹی کریسیز(Multicracies) یا اکیسویں صدی کی مشترکہ لٹریسیز کی اصطلاحیں بھی رائج ہوگئی ہیں۔ حالانکہ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ایک شخص ڈیجیٹل طور پر تعلیم یافتہ ہو تو تمام خبری وسائل، پیغام رسانی، ٹوئیٹ، انسٹاگرام اور فیس بُک کے استعمال پر پورا عبور رکھتا ہو۔

لکھنے کی صلاحیتوں پر برا اثر

ہماری ضروریات کی تکمیل میں موبائل اور انٹرنیٹ اتنے ضروری اور اتنے عام ہوگئے ہیں کہ جب ہم ڈیجیٹل انڈیا کہتے ہیں تو ملک میں تکنولوجی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل عہد کی شروعات 1980 کے بعد انٹرنیٹ اور ورلڈ وائڈ ویب سائٹ کے متعارف ہونے کے نتیجے میں ہوئی۔

سوشل میڈیا کے متعارف ہونے کے ساتھ لکھنے کی صلاحیتوں پر بتدریج برا اثر پڑا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ لکھنے کاعمل اس وقت تک بارآور رہتا ہے جب تک ادیب کو قاری میسر رہتے ہیں۔ ڈیجیٹل عہد میں سماجی نیٹ ورک سائٹس لوگوں کو تادیر ملوث رکھتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ چیٹنگ اور سفر کے دوران لیپ ٹاپ یا موبائل فون کے ذریعے اپنی سہولت اور خواہش کے مطابق اپنے پسندیدہ، دوستانہ، رشتہ دارانہ یا تفریحی و معلوماتی نیٹ کے رابطوں پر مصروف رہنے کی عادت نے رسالوں، اخباروں اور کتابوں کی مانگ گھٹا دی ہے۔ انٹرنیٹ دنیا بھر کا علم انگلی کی ایک کِلک سے آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے اور کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا موبائل کے اسکرین پر تازہ ترین خبریں‘ زندہ و رنگین‘ زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بناکر پیش کر دیتا ہے۔ اس نے اخباروں کی تعداد اشاعت گرادی ہے۔ روزناموں میں ایڈیٹروں کے اداریے اور پسندیدہ کالم نگاروں کی تحریریںجوکبھی پرنٹ میڈیا میں خاص کشش کا سامان ہوا کرتی تھیں انھیں پڑھنے کی بے چینی بھی کم ہوگئی ہے۔

اسی طرح مکتوب نگاری کا فن زوال آمادہ ہے۔ بلکہ قریب المرگ ہے۔ ایس ایم ایس، فیس بُک پر آپ کے اچھے سے اچھے ٹیکسٹ یا مضمون یا غزل کے جواب میں بس ایک بٹن دبا کر بیشتر ناظرین ایک تاثراتی ڈیزائن یا خاکہ جسے Emoticon یا ایموجی کہا جاتا ہے ردّعمل کے طور پر روانہ کردیتے ہیں جس سے میرے جیسے کسی پرانے اہل قلم کی تشفّی تو نہیں ہوتی۔ سب جانتے ہیں خط نگاری ایک اہم صنفِ ادب تھی جس نے اب دم توڑدیا ہے اور غالب کے خطوط، مولانا آزاد کے خطوط‘  نہرو کے خطوط، صفیہ اختر کے خطوط اور خطوط شبلی کے پیمانے کی چیزیں اب دائرہ خیال میں بھی نہیں آئیں گی۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے زمانے میں ایسے ادب کی پیداوار پر انسانی دماغوں نے خود روک لگادی ہے۔ ہمارے سامنے اب مواد نگار Content writer اور کاپی رائٹر ہیں جو کم لکھتے ہیں اورصرف پیسہ کمانے کے لیے لکھتے یا لکھنا چاہتے ہیں۔

پڑھنے اور لکھنے کا مستقبل ڈیجیٹل عہد میں

سیکھنے کا زمانہ ہے۔ نوجوان اب ان مسائل کی تحقیق اور شناخت کے لیے ڈیجیٹل آلات استعمال کر رہے ہیں جن کا تعلق ان کے تصرفِ وقت کے ساتھ ہے۔ اوک لینڈکے طالب علموں نے West Side Stories نام کا ایک ایپ’جینٹریفکیشن‘ اشراف داری سے وابستہ کہانی گوئی کے فن سے متعلق تیار کیا ہے۔شاید اپنی کچھ خوش وقتی کے لیے ان طلبا کے دماغ میں یہ خیال آیا ہو۔ پڑھنے لکھنے کے عمل کو اپنے اپنے مقاصد کے تحت نئی سمتیں دینے کے لیے دنیا میں طرح طرح کے ڈیجیٹل پروگرام تیار کیے جا رہے ہیں۔

جب تک لکھنا اور پڑھنا روایتی اصولوں کے تحت رہا تعلیم کے اخلاقی اصول اور ضابطے ازخود محفوظ رہے۔ خاندان کا ایک فرد بچپن سے نوجوانی اور نوجوانی سے جوانی کی دہلیز میں قدم رکھ کر گھر اور اسکول یا گھر اور کالج کی تعلیم کی جس روش کا پابند ہوتا تھا اس میں پڑھائی اور لکھائی کا اخلاقی چلن بھی فطری طور پر جاری رہتا تھا جس میں طالب علم اور گارجین یا طالب علم اور استاد کی صدیوں سے چلی آرہی ایک اخلاقی و ذہنی رو ش برقرار رہنے کا تہذیبی عمل یقینی ہوا کرتا تھا۔ ڈیجیٹل دور میں طالب علم اگرچہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل طرز تعلیم کی فراہم کردہ سہولتوں سے فیض یاب ہو رہا ہے لیکن اس سسٹم میں کمپیوٹر اور سافٹ ویئر پروگرام اس کے ہاتھ میں رہ کر اس کے اپنے اختیار میں آگئے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی تعلیم کبھی تکنیک اور سافٹ ویئر پروگراموں کی یکجائی کے بغیر آگے نہیں بڑھتی۔ لکھنے پڑھنے کا سارا عمل ایک میز اور کرسی پر بیٹھے بیٹھے علم اور تکنیک کی باہمی تکمیل Co-ordination کا عمل بن گیا ہے جس میں کسی دوسرے فرد کا دخل، چاہے وہ کوئی بھی ہو، ممکن نہیں رہ جاتا۔ ڈیجیٹل تعلیم کا ماہر ایڈم بینکس Adam Banks اپنا نظریہ پیش کرتا ہے کہ لکھائی کا مستقبل یہاں ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ نہ ہم صحیح لوگوں کی سنتے ہیں اور نہ صحیح لوگوں سے سیکھتے ہیں۔ بینکس لکھنے کے عمل کو ذہنی تجسس، پیشہ ورانہ کامیابی اور جمہوری زندگی کے لیے سب سے اہم قرار دیتا ہے حتیٰ کہ لٹریسی کے ان طریقوں کو بھی اہمیت دینے پر آمادہ ہے جو حاشیہ پر ہیں۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ڈیجیٹل تعلیم کے علما ایک بحث کے آخر میں ایک سوال کرتے ہیں کہ مستقبل میں پڑھنے اور لکھنے کے لیے ہم ٹیچروں کو کیسی تعلیم دیں؟۔ اسکالروں کے ایک مباحثہ میں ایک طالب علم Cherise Mc Bride کہتی ہے’’ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ ہم لٹریسی کو حروفِ تہجی یعنی Alphabets کے شعور کے ماسوا بھی کچھ سمجھیں۔ اس میں شبیہات (امیجیز) کو پڑھنے اور ڈیزائن کے عناصر کو سمجھنے کی اہلیت بھی شامل ہو اور آج کے طلبا کے ثقافتی اور لسانی اختلاف (diversity) اور تکثیر کا بھی لحاظ کرنا ہوگا۔ تیکنولوجی اب اِس تعلیم کاہی حصہ ہے۔ اس طرح تمام لٹریسیز کثیر یعنی ملٹی اور طاقتور اور لوچدار بن جاتی ہیں‘‘۔

میڈیا لٹریسی کی تعلیم کا آغاز برطانیہ اور امریکہ میں 1930 کے بعد جنگی پروپگنڈے کے نتیجے میں ہوا اور 1960 کے بعد اشتہار بازی کے چلن کے ساتھ اس کا فروغ شروع ہوا۔ تعلیم دینے والوں نے لوگوں میں میڈیا لٹریسی کو عام کرنے کے لیے میڈیا سے موصولہ پیغامات کا احتساب کرنا سکھایا تاکہ وہ ڈیجیٹل اور میڈیا موادکی جانبداری اور غیرجانبداری کے بارے میں آزادانہ فیصلہ کرسکیں۔

ڈیجیٹل تعلیم یافتہ فرد آگاہی کو عام کر کے سماج کا ایک ذمے دار رکن بنتا ہے کیونکہ اپنی آگاہی اور علم کی مدد سے وہ گھر اور کام کی جگہ سے ہی کئی مسائل کا حل پیش کرنے کا اہل ہوجاتاہے۔ ڈیجیٹل تعلیم صرف پڑھنے اور لکھنے سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ میڈیا کی دیگر قوتوں اور وسائل کا علم اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے جن میں ریکارڈنگ اور ویڈیو کو اپ لوڈ کرنا شامل ہے۔

ڈیجیٹل علم کی غیر مساوی تقسیم

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ڈیجیٹل لٹریسی سماج میں سب لوگوں اور سب جگہوں میں مساوی طور پر پہنچ پا رہی ہے۔ یہ اندازہ لگایا جاتاہے کہ عام طور پر خصوصاً ہندوستان جیسے ملک میں بڑی عمر کے لوگ نوعمر اور نوجوانوں سے بہت کم ڈیجیٹل لٹریسی کے علم اور مشق میں مصروف ہیںاور یہ فطری بات ہے۔ ڈیجیٹل لٹریسی کی نابرابر تقسیم کی ایک وجہ متمول اور غریب طبقوں میں سماج کا بٹا ہونا ہے۔ امیر طبقہ کے لوگ ڈیجیٹل تیکنولوجی کی علمی تربیت اور تکنولوجی کے سسٹم کے حصول کے اخراجات برداشت کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ غریب طبقہ ان وسائل کے لیے مطلوبہ اخراجات یا سرمایہ کی ا ستعداد نہیں رکھتا۔ اسی طرح شہروں اور دیہاتوں میں ڈیجیٹل لٹریسی مساوی طور پر نہیں پہنچ پاتی۔ طالب علموں میں بھی مالی وسائل کی نابرابر فراہمی ڈیجیٹل لٹریسی کی غیر مساوی تقسیم کی ذمے دار ٹھہرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ڈیجیٹل لٹریسی کی تکینکی سہولیات کسی کو صرف کلاس کے اندر مل پاتی ہے اور کوئی وسائل کی فراوانی کی بدولت اسکول سے باہر بھی اچھی سہولت حاصل کرلیتا ہے۔ یہ سوال ہمارے ملک کے غیر مساوی معاشی ذرائع پر منحصر طالب علموں کو ضرور متاثر کریں گے کیونکہ اسکولوں اور اداروں میں طریقہ تعلیم ڈیجیٹل ہوتا جا رہا ہے اور کورونا کی وبا نے درسی اور ملازمتی سیکٹروں کو اچانک نئی پریشانیوں میں ڈال دیا ہے جس سے ذہنی اور اعصابی نظام تک پر ناخوش گوار اثرات متوقع ہیں۔

ڈیجیٹل نگارش کے عمل میں کمپوزر کی حاضر دماغی ارتباط (Linking) اور حذف (Omission)  سے بچانے میں بہت معاون ثابت ہوگی۔ کمپوزر کادماغ بیدار رہے تو وہ معروضیت (Objectivity) کی ذمے داری پر مصنف سے سوال کرسکتا ہے‘ اس کی کسی شعوری یا غیر شعوری لغزش پر اسے متوجہ کرسکتا ہے۔

دیانتدارانہ ڈیجیٹل لٹریسی لوگوں کو ای میل فراڈ سے بچانے کے لیے آن لائن سہولت اور تصویری استحصال (Visual manipulation) سے بچانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

سوشل میڈیا کے فروغ سے ڈیجیٹل تعلیم یافتہ افراد اپنی آواز آن لائن بلند کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر کے علاوہ نجی ویب سائٹس اور بلاگز (Blogs) کے ذریعے وہ ایک نئی قسم کی صحافت کرنے لگے ہیں۔ یہ اپنے کمیونٹی قارئین کے مابین گلوبل مکالمہ قائم کرسکتے ہیں۔

میڈیا اور ذمہ داری کے امور

برقی میڈیا جس میں انٹرنیٹ، ٹویٹ، انسٹا گرام، فیس بک کے علاوہ فحش تحریریں اور تصویریں اور ویڈیو بھیجنے والے ذرائع بشمول واٹس ایپ اور مختلف پروگرام شامل ہیں کے ذریعے عریانیت اور سنسنی خیز مواد کو پھیلا کر جنس و جرائم کے ہیجان کو عام کرنے کا رجحان بہت خراب ہے۔ یہ برائی جدید خبری وسائل کی آسانیوں کی پیدا کردہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خاموش طور پراندر اندر جدید سماجی میڈیا اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اور کئی لوگوں خصوصاً نوجوانوں کواخلاق سوز بری عادتوں میں مبتلا کر کے انھیں طرح طرح کی لذتوں کا اسیر کر دیتا ہے۔ جو چیز روایتی خواندگی کے دور میں بہت محدود اور مخفی رہا کرتی تھی وہ اب ڈیجیٹل لٹریسی کے وسائل آسانی سے کسی کو بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ یہ تو ایک جانب اشارہ تھا لیکن اب صحیح معنوں میں جسے میڈیا کہا جاتا ہے اورجو سماج میں سیاسی اُتھل پُتھل کا سبب بنتا ہے اس کے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔

وہ وقت آگیا ہے جب ہندوستانی میڈیا کو اپنا احتساب خود شروع کر دینا چاہیے۔ یہ آپ گمراہ ہوتا ہے اور سماج کو گمراہ کرتا ہے۔ دستور ہند کی طرف سے تقریر و تحریر کی آزادی شہریوں کو حاصل ہے لیکن فساد پیدا کرنے والے لوگ اور ادارے اور غلط رو میڈیا اس آزادی کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔ میڈیا کا اصل کام ہے لوگوں کو سچی اور معروضی خبریں پہنچانا جس کی بدولت وہ کسی معاملے میں عقلی رائے قائم کرسکیں جو جمہوری قدروں کی افزائش کے لیے ضروری ہے۔


Fe Seen Ejaz

Editor, 'Mahnama Insha'

25-B, Zakaria Street, Kolkata - 700073

Mob.: 9830483810

Email: inshapubications@yahoo.co.in



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں