22/12/20

ادب میں اخلاقی اقدار کا تقاضا - مضمون نگار: محمد کلیم ضیا

 



اخلاقیات دراصل انسانی معاملات کا دوسرا نام ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان سے کس طرح پیش آتا ہے، اسی کانام اخلاق ہے۔اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ جن میں سچائی، ہمدردی، رواداری، محبت، ایمانداری، صفائی اور قدردانی وغیرہ شامل ہیں بلکہ دنیا میں جو بھی معروف (اچھائی)ہے،جو بھی انسانی بھلائی اور نیکی کا کام ہے وہ سب اچھے اخلاق کی فہرست میں آتے ہیں۔ غصہ، تادیب وغیرہ کو بھی بُرائی کے خلاف استعمال میں اچھے اخلاق میں شامل کیا جاتا ہے۔اور دوّم یہ کہ  جھوٹ، لالچ، حسد، بغض، چغلی، غیبت،بے ایمانی، گندگی، ناپاکی،کسی کی ہنسی اڑانا،کسی کی عیب جوئی کرنا، بُرے الفاظ یانام سے پکارنا،کسی کی ٹوہ میں رہنا وغیرہ اور غصہ اور اذیت رسانی وغیرہ برے اخلاق کی فہرست میں آتے ہیں۔یعنی ہر وہ کام جو انسانی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے وہ منکرات میں یعنی برے اخلاق میں شامل ہوتے ہیں۔

اسی طرح اخلاق کے تعلق سے یہ بات بھی ہے کہ یہ ہر زمانے میں غیر متبدل رہے ہیں۔جس طرح ہر زمانے میں زہر زہر ہی رہا ہے تریاق نہیں ہوا اسی طرح ہر اخلاقی صفت اپنی اصلی ہئیت میں رہی ہے۔ اس میں کبھی کوئی تغیر واقع نہیں ہوا۔سچ کے فائدے پہلے بھی وہی تھے، جو آج ہیں۔اچھائیاں اب سے ہزار سال پہلے جو تھیں،آج بھی وہی ہیں۔جھوٹ کے نقصانات آج بھی وہی ہیں جو اب سے ہزاروں برس پہلے تھے۔ہاں تبدیلی واقع ہوتی ہے تو وہ انسان کے اپنے نقطۂ نظر میں۔ایک سماج نے اگر برائیوں کو اچھائی سمجھ کر اختیار کرہی لیا ہے تو وہ ہر گز اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکے گا۔برائی کا نقصان جلد یا دیر سے اسے اٹھانا ہی ہوگا۔آج کے دور کا ایک مقولہ ہے کہ’’جھوٹ اتنی بار بولو کہ سچ لگنے لگے‘‘ بہت سے لوگوں نے اورجماعتوں نے اس کو اپنایا،سچائی پر جھوٹ کی ملمع کاری کی،بار بار جھوٹ بولا گیا اور بے انتہا بولا گیا مگر جب اس کے نقصانات ظاہر ہونے لگے تو جھوٹ سے باز کیا آتے بلکہ مزید جھوٹ بول کر اپنے کہے کو درست کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔مگر کیا جھوٹ سچ بن گیا؟

بہرحال اخلاقیات کا معاملہ انسان سے ہے اور انسانی زندگی سے وابستہ ہے اور جب تک دنیا میں انسان موجود ہے اخلاقیات پر باتیں ہوتی رہیں گی۔انسان چونکہ کمزور اور بھلکّڑ واقع ہوا ہے،(یاد رکھیے کہ بھولنا بھی اﷲکی ایک نعمت ہے۔اگر انسان بھولنے کے عمل سے نہ گزرے تو اس کا زندہ رہنا محال ہوجائے بلکہ نوبت یہاں تک آسکتی ہے کہ سب کچھ یاد رکھنے کی وجہ سے وہ خود کشی کرنے پر بھی مجبور ہوسکتا ہے)۔ خیرانسان اخلاق کی اچھی قدروں سے بار بار منحرف ہوتا رہتا ہے اور برائی کی طرف اس کی رغبت بڑھتی رہتی ہے،اسی لیے زمانۂ قدیم میں انبیا اور مہاپرش آتے رہے تاکہ لوگوں کو اخلاق کی اعلا تعلیم دیں اور اچھے اخلاق کو پروان چڑھائیں۔ انبیا کے علاوہ علم و حکمت رکھنے والے دانشوروں اور صالح افراد نے بھی اس کام کو انجام دیا۔ادب کاکام چوں کہ انسان کو سنوارنا بھی ہے اس لیے شعبۂ ادب میں بھی اخلاقیات پر بھرپور توجہ دی گئی اور نقدوجرح اور حالات کا تجزیہ کرکے اچھے اخلاق کی طرف راغب کرنے اور اصلاح عمل پر اکسانے کی کوششیں کی گئیں۔ادب کی ایک شاخ شعر وشاعری بھی ہے،جس کی مختلف اصناف میں اخلاقی تعلیمات کی کثرت نظر آتی ہے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صنف غزل صرف عاشق و معشوق کی گفتگو سے ہی عبارت ہے مگر ایسا کہنا ہر گز درست نہیں ہوسکتا بلکہ غزلوں میں بھی اخلاقی اقدار کی بھرپور تعلیم موجود ہے۔غزلیات میں اگرچہ عام طور پر مخاطب معشوق ہی ہوتا ہے مگر معشوق بھی انسان ہے اور اسے بھی اچھے اخلاق کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس کے ذریعے بھی پندونصائح کرکے، واعظ ومحبوب بن کر بھی سیدھے سادے الفاظ میں بھی اصلاح کی کوشش کی گئی ہے اور صلائے عام کے بطوربھی اصلاح کی کوشش موجود ہے۔ اگر    قدیم و جدید شعرا کی تخلیقات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس ضمن میں بھر پور موادِ اصلاح موجود ہے۔ ذوق کی نصیحت، حرص وہوس کے مقابلے میں قناعت پسندی اپنانے کی ہے جس کے وہ فوائد بھی بتاتے ہیں۔قناعت پسندی اخلاقی اقدار میں اعلا مقام رکھتی ہے۔وہ کہتے ہیں          ؎

اگر انسان قانع ہو تو ہے اکسیر سے بہتر

   ہوا وحرص لیکن اس کی مٹی خوار کرتے ہیں

(محمد ابراہیم ذوق)

اور راز ایٹوی کہتے ہیں:

آدمی دشمنِ قناعت ہے

ذہنیت ہے ابھی حریصانہ

(راز ایٹاوی)

ہر اچھا کام اگر حدِ اعتدال میں ہوتو اخلاقِ حسنہ کہلاتا ہے مگر وہی کام اگر اعتدال سے ہٹ جائے اور بے راہ روی اختیار کرلے تو اخلاقِ رذیلہ بھی بن سکتا ہے۔ اکبرالہ آبادی کہتے ہیں        ؎

اچھی نہیں ہے شئے کوئی الفت سے زیادہ

وہ بھی ہے بُری ہو جو ضرورت سے زیادہ

پہلے لوگوں کے اندر خلوص و محبت پائی جاتی تھی۔ لوگوں کے پاس ایک دوسرے سے ملنے، سکھ دکھ کی باتیں کرنے اورایک دوسرے سے ہمدردی وغمگساری کرنے کے لیے وقت ہوتا تھا مگر آج اخلاق کا یہ تقاضا ختم ہوچکا ہے۔ شاعر اس بات پر رنجیدہ ہے کہ اب ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اکبر ہی کا شعر ہے         ؎

اب کہاں اگلے سے وہ راز و نیاز

مل گئے صاحب سلامت ہوگئی

حق بات کہنا بھی جرأت کاکام ہے اور حق بات وہی کہہ سکتا ہے جو اپنے قلب کو پاک رکھتا ہے۔یہ اخلاق کی اعلا ترین صنف ہے۔ شادکا شعر ہے        ؎

امرِ حق کہنے میں جو بے باک ہیں

کچھ ان ہی ایسوں کے دل بھی پاک ہیں

مولانا محمد علی جوہر کا خیال ملاحظہ فرمائیے        ؎

بے خوفِ غیر،دل کی اگر ترجماں نہ ہو

بہتر  ہے اس سے یہ کہ سِرے سے زباں نہ ہو

(محمد علی جوہر)

انسان کی اپنی خودی یاغیرتِ نفسِ انسانی اخلاق کی بہتریں صفت ہے۔جس نے خودی کھودی، وہ دنیا کے آگے دست دراز کیے ملے گا۔ذرا ذراسی بات پر سوالی نظر آئے گا لہٰذا ہر جگہ وہ کمزور ہی رہے گا۔دراصل ایسے شخص کی اخلاقی موت واقع ہوجاتی ہے۔بے نظیر شاہ کا شعر اس طرزِ زندگی پر زبردست چوٹ کرتا ہے      ؎

اہلِ غیرت کا ہے یہ قول،مسیحا سے بھی

موت سے کم نہیں،منت کشِ درماں ہونا

علامہ اقبال کا یہ شعر اگرچہ کہ نظم کا شعرہے مگر اسی کی ترجمانی کرتا ہے       ؎

اے طائرِ لا ہوتی، اُس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

انسان کا انسان سے اور قوموں کا قوم سے کبھی کبھی مزاج نہ ملنے کے باعث ٹکرائو ہوجاتا ہے،مگر اس ٹکرائو کو وظیفۂ زندگی بنا لینا عقل ودانش کی بات نہیں ہے، بلکہ کسی نہ کسی موڑ پر آکر رک جانا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ یہ طریقہ انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا یا نقصان دہ؟ نفرت لیے جینا ہے یا اسے چھوڑ کر پیار محبت کے رستے پر آنا ہے۔شاعر بڑے پیارے انداز میں نصیحت کرتا ہے      ؎

اب تو ملیے، بس لڑائی ہوچکی

اب تو چلیے، پیار کی باتیں کریں

(اخترشیرانی)

شیفتہ فرماتے ہیں         ؎

تذکرہ صلح کا کرو نہ کرو

بات اچھی نہیں لڑائی کی

(شیفتہ)

تعصبات اور طبقاتی کشمکش نے انسان کو ایسا بنادیا ہے کہ اسے اپنے اوراپنی قوم و قبیلے کے سوا کسی کا کوئی کارنامہ بھی پسند نہیں آتا کہ وہ اس کی تعریف کرے اور قدر کرے۔ اب سے پہلے انسانی اقدار میں یہ بات شامل تھی کہ انسان کھُلے دل سے اہلِ ہنر کے ہنر کا اعتراف کرتا تھا۔حفیظ میرٹھی کہتے ہیں        ؎

اہلِ ہنر کی قدر بھی ان میں سے ایک ہے

ناپید ہوگئیں جو روایات ان دنوں

بلکہ اس کے برعکس لوگوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ خوبی کی تعریف نہ کرکے خوبی کی آڑ میں تحقیر کا موقع تلاش کیا جاتا ہے اور اس طرح سے اذیت پہنچائی جاتی ہے۔حفیظ میرٹھی کہتے ہیں       ؎

الفاظ کے پھولوں نے نشتر کی چبھن دی ہے

لہجے میں ذرا بھی جب،تحقیر نظر آئی

انسانوں کا آپس میں اتحاداور اجتماع اخلاقی معراج کی علامت ہے۔ابو المجاہد زاہد اس طرف دعوت دیتے ہیں       ؎

ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خور شیدِ مبین

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

انسان کا صاحبِ کردار ہونا بھی بڑا اخلاقی کام ہے۔ ابوالمجاہد زاہدہی کا شعر ہے      ؎

اس کا کردار ہی خود وجہ کشش ہوتا ہے

اور خوبی نہ سہی صاحبِ کردار کے پاس

حفیظ میرٹھی کے اشعار بھی اسی فکر کے غماز ہیں         ؎

تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن

وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے

اور           ؎

تو جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز

مجھے پرکھ، مری شہرت کا انتظار نہ کر

عزم و حوصلہ انسانی زندگی کی علامت ہے۔ابوالمجاہد زاہد کہتے ہیں         ؎

اُس زندگی پہ موت کو ترجیح دیجیے

جس زندگی میں عزم نہ ہو حوصلہ نہ ہو

شمیم جے پوری اس کے متعلق کیا کہتے ہیں،سماعت فرمائیے         ؎

اہلِ ہمت کے لیے دور نہیں ہے منزل

کوئی اٹھّے بھی تو منزل کا ارادہ لے کر

منافقت بھی آج کے دور کی بڑی خوبی تصورکی جاتی ہے۔ آج اکثریت دوہرا معیار اور دوہری زندگی جی رہی ہے۔ شمیم جے پوری کہتے ہیں۔

اس دور کا تعلقِ خاطر نہ پوچھیے

دل میں خلوص ہو کہ نہ ہو دوستی تو ہے

غرض اخلاقیات کا بھر پور درس ہماری شاعری، بالخصوص غزلیات میں موجود ہے۔ حرص وہوس کی لڑائی دین و مذہب کی آڑ میں،وفا جفا کے قصے،بدگمانی جس سے نہ اچھا محفوظ رہے نہ برا،اسی طرح ثابت قدمی،بے اعتمادی اور جرات وغیرہ مضامینِ اخلاقیات جابجاپائے جاتے ہیں۔مثلاً        ؎

جس شخص میں بھی جراتِ اظہار نہیں ہے

وہ سب ہے مگر صاحبِ کردار نہیں ہے

(تابش مہدی)

جو اعتماد کو ایک بار ٹھیس پہنچا دے

اس آدمی کا دوبارا نہ اعتماد کر

(دِواکرراہی)

جب کسی سے کوئی پیمانِ وفا کرتا ہے

کانپ اٹھتا ہوں کہ میرا ہی ساانجام نہ ہو

(عندلیب شادانی)

جو بھی حق ہے اسے بے خوف و خطر کہتا ہوں

مصلحت کہتی ہے خا موش،مگر کہتا ہوں

(دِواکر راہی)

پہلے آپ اپنا دل آئینہ کیجیے

پھر کسی سے امیدِ وفا کیجیے

(تابش مہدی)

پرانے عہد میں بھی دشمنی تھی

مگر ماحول زہریلا نہیں تھا

(جوش)

بات حق ہے تو پھر قبول کرو

یہ نہ دیکھو کہ کون کہتا ہے

            (دِواکر راہی)

بدگمانوں کی مہربانی سے

پاک دامن بچے نہ دامنِ چاک

(یگانہ چنگیزی)

اوپر چند اشعار تھے جن میں مختلف قسم کی اخلاقی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔مگر اس شعر میں بڑا وسیع مضمون اخلاقیات کے ضمن میں پیش کیا گیاہے۔دراصل نفسِ انسانی ہی ساری اخلاقی خرابیوں کی آماہ جگاہ ہے۔ اگر اس کی اصلاح کردی جائے تو باقی اوامر کی اصلاح خود بخود ہوجاتی ہے اور یہی بہت مشکل کام ہے۔اسی لیے شاعر کہتا ہے      ؎

بڑے موذی کو مارا نفسِ اماّرہ کو گرمارا

نہنگ واژدھا و شیرِنر مارا تو کیا مارا

(ذوق)

ایسی اخلاقی شاعری، پندونصائح سے بھر پور مضامین دراصل اردو شاعری کا وطیرۂ امتیاز رہے ہیں۔ اسی وجہ سے شاعری بھی اصلاحِ قوم کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔چند اشعار مزیدملاحظہ فرماییے        ؎

حسن ہے بے وفا بھی،فانی بھی

کاش سمجھے اسے جوانی بھی

(اکبر الہ آبادی)

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

(امیرمینائی)

خواہشیں کھودیتی ہیں صبر و شکیب

خواہشوں میں ہوتے ہیں اکثر فریب

(اکبر)

خیالِ سودوزیاں کی اکھاڑ دی بنیاد

بڑے پہاڑ کو رستے سے میں نے ٹال دیا

(شاد)

خطا اک شخص کی اور ساری دنیا سے کھنچے رہنا

میاں اچھا نہیں لگتا ہے یوں گھر میں پڑے رہنا

(شجاع فاور)

درگزر نہیں کرتا جو گنہ گاروں سے

تو ترا اور کوئی ہوگا خدا اے زاہد

(حالی)

دردِ دل،پاس ِ وفا،جذبۂ ایماں ہونا

آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

(چکبست)

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

(غالب)

اردو کا یقینا ایسا کوئی شاعر نہیں ہے جس کے اشعار میں اخلاقی مضامین نہ ہوں۔لہٰذا اس موضوع پر لکھنے کے لیے دفترکے دفتر در کار ہیں۔

 

Dr. Mohammed Kaleem Zia

Former Associate Professor, Head of The Dept. of Urdu, & Professor In-Charge, Research Center of Urdu, M.E.S.Class-I, Gazetted Officer (Collegiate Branch), Government of Maharshtra’s Ismail Yusuf College,

Jogeshwari (East),

Mumbai – 400 060 (MS)

 

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں