اردو ادب کی دنیا میں وقتا فوقتا ایسی ہستیاں پیدا
ہوئی ہیں جنھوں نے اپنی علمی صلاحیت اور فنی بصیرت کے طفیل اپنے اکابرین سے بھی اپنے
فن کا لوہا منوایا۔ ان ہی ہستیوں میں سے ایک ہستی کا نام ہے ’عابد پشاوری‘ جن کا اصلی
نام ’شیام لال کالڑا‘ ہے لیکن ادبی حلقوں میں اپنے قلمی نام ’عابد پشاوری‘ کے نام سے
ہی مقبول و معروف ہیں۔
عابد پشاوری 22 دسمبر 1937 کو مغربی پاکستان کے صوبہ
سرحد یعنی پشاور کے قصبہ ڈیرہ اسماعیل خان کے مقام پر ایشور داس کالڑا کے گھر پیدا
ہوئے۔اور ان کی وفات 26 جنوری 1999کو جموں میں ہوئی۔ عابد پشاوری ایسی شخصیت کا نام
ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں اردو ادب میں انھیں اہم مقام حاصل ہے۔ ادب میں ان کی
شہرت ان کی تحقیقی خدمات کے سبب ہے۔ ’تحقیق‘ ان کا خاص میدان رہا ہے، ان کا تعلق محققین
کی اس نسل سے رہا ہے جو ہماری دانش گاہوں سے وابستہ رہے ہیں۔ تحقیق کے میدان میں بہت
ہی قلیل عرصے میں انھوں نے اپنے لیے ایک الگ مقام محفوظ کر لیا، اپنی تحقیقی صلاحیت
کو بروئے کار لاکر ادبی تحقیق میں انھوں نے کئی اہم اضافے کیے اور اپنی تحقیقی کاوشوں
سے ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔ ان کی زیادہ تر نثری تصانیف کلاسکی ادب کے تحقیقی
زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔ اردو تحقیق کو انھوں نے ایک معیار اور ایک وقار عطا کیا جسے
اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ تحقیق کے میدان میں جہاں انھیں ابدی حیات ملی وہیں
دوسری طرف ان کی شخصیت کے کئی پہلو توجہ کے محتاج ہی نظر آتے ہیں جن میں ان کا ’بحیثیت
شاعر ہونا ‘سر فہرست ہے۔
عابد بنیادی طور پر ایک
شاعر ہی تھے اور ادب سے ان کی دلچسپی کا باعث ان کی شاعری ہی تھی کیونکہ تحقیقی میدان
میں قدم رکھنے سے قبل عابد پشاوری نے شاعری میں ہی طبع آزمائی کی تھی اور وافر مقدار
میں اپنا کلام بھی یادگار چھوڑا تھا لیکن بحیثیت شاعر ان کی شخصیت پر کوئی خاص توجہ
نہیں دی گئی کہ جس کے عابد حقدار تھے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
اول تو یہ کہ عابد پشاوری
کی ادب میں شہرت ان کی تحقیقی کاوشوں کے طفیل پروان چڑھی ۔ جب انہو ں نے سنہ 1962میں
تحقیق کے میدان میں قدم رکھا تو اپنی محنت، لگن اور دلجوئی سے اپنے تحقیقی کام میں
اس قدر منہمک ہو گئے کہ تحقیق کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور پھر ان کی تحقیق
سے جو نتائج بر آمد ہوئے ان سے اردو دنیا بخوبی واقف ہے اور یوں ان کی شناخت بطور
محقق ہی زیادہ نمایاں رہی جس کی وجہ سے ان کی شعری خدمات ان کی تحقیقی خدمات کے نیچے
دب سی گئیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ ادبی دنیا میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ عابد پشاوری
شاعر بھی تھے۔ دوم یہ کہ عابد پشاوری کا کلام
پہلے پہل ماہنامہ تخلیق، صدا بہار، روزنامہ ہند سماچار، نواے ادب ممبئی، شاعر ممبئی
میں چھپتا تو ضرور تھا لیکن بہت ہی کم مقدار میں چھپتا تھا۔ جس کی حیثیت نا کے برابر
ہوتی تھی۔ یعنی کہ ان کا کلام بروقت چھپتا نہیں تھا۔ سوم یہ کہ ان کا کلام ان کی حیات
میں منظر عام پر نہ آسکا اور اردو دنیا ایک
لمبے عرصے تک ایک ایسے شاعر سے ناآشنا رہی جس کی شاعری میں میر جیسے قدآور شاعر کی
سادہ کلامی، شیریں بیانی، روانی، شگفتگی اور جدت ادا کی گونج سنائی دیتی ہے۔ چہارم یہ کہ عابد کی طبیعت میں لاابالی پن تھا۔
شہرت کی انھیں بھوک نہیں تھی۔ گمنام رہنا ان کی فطرت میں شامل تھا۔ اپنی شاعری کی واہ
واہ سے انھیں کوئی غرض نہیں تھی۔ محض دل کے غبار کو کم کرنے کے لیے غموں کے بوجھ کو
ہلکا کرنے کے لیے عابد گاہے گاہے شاعری کیاکرتے تھے۔ چناچہ عابدکہتے ہیں ؎
کبھی الہام ہوتا ہے تو عابد شعر کہتا ہوں
نہیں تو مدتوں ہاں مدتوں خاموش رہتا ہو ں
لیکن افسوس کہ ان کی شاعری کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی
جس کی کہ وہ حقدار تھی۔ راقم نے دوران تحقیق بسیار تلاش کے بعد اُنیس ایسے مضامین حاصل
کیے جو عابد پشاوری کی شخصیت اور فن کو محیط ہیں۔ ان مضامین میں سے صرف سات مضامین
ایسے ہیں جن میں سرسری طور پر عابد پشاوری کی شاعرانہ خدمات کے سلسلے میں لکھے گئے
ہیں جن کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ واقعی بحیثیت شاعر عابد پشاوری کی شخصیت
پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔
اب جب کہ ان کا کلام کلیات
کی شکل میں منظر عام پر آچکا ہے اور شائد اب وہ وقت دور نہیں کہ جب ان کی شاعرانہ
عظمت کا اعتراف کیا جائے گا اور ان کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوگی ؎
نشاں ہوگا کلام جاوداں جب ہم نہیں ہوں گے
ہماری
بات تو ہوگی یہاں جب ہم نہیں ہوں گے
(اختر،جمیل،کلیات عابد پشاوری حصہ اول، ایجوکیشنل پبلشنگ
ہاوس، دہلی2015،ص133)
عابد پشاوری کی شاعری تجربات ومشاہدات کی منزل سے گذر
کر صفحہ قرطاس کی زینت بنتی ہے۔ ان کی شاعری ان کے دل کی بات معلوم ہوتی ہے۔ ملاحظہ
ہو ان کی ہی زبانی ؎
ایک ایک شعر حاصل صد تجربات
ہے
میں جو بھی کہہ رہا ہوں
میرے دل کی بات ہے
عابد پشاوری کی شاعری میں ہمیں ایک مخصوص سادگی نظر
آتی ہے۔ ان کی شعری تراکیب اتنی سیدھی سادی ہوتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے آسان
اور کوئی صورت ہو ہی نہیں سکتی جس کا احساس انہیں خود بھی تھا۔ چنانچہ عابدگویا ہیں ؎
’’شعر کہیں گے سیدھے سادے
سیدھی سادی بات کریںگے‘‘
عابد پشاوری نے مختلف النوع اصناف سخن میں طبع آزمائی
کی جس میںغزل، نظم، دوہا، قطعہ، رباعی وغیرہ
شامل ہیں۔ جہاں تک ان کی غزل گوئی کا تعلق ہے تو جب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے
ہیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ابتدا سے آخر تک عابد نے غزل ہی کہی ہے۔
جب ہم عابد کی غزلیہ شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ظاہر
ہوتا ہے کہ عابد پشاوری کی غزلیہ شاعری پر قدیم شعرا کا خاصا اثر ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری
کلاسکی رنگ وآہنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ زبان وبیان کی حد تک بھی عابد کلاسکی شعرا کے
ہی پیرونظر آتے ہیں۔ جن میں میر، غالب، مومن، داغ، امیر وغیرہ کی طرز خصوصیت کے ساتھ
قابل ذکر ہے۔ ان کی غزلوں میں میر کا سوز وگداز، شیرینی، روانی وشگفتگی، اور مومن کی
طرز ادا کا پرتو واضح طور پرنظر آتا ہے۔ چنانچہ عابد کے نزدیک شاعری کے لیے شرط بھی
کچھ اسی قبیل کی ہے ؎
فکر مومن گداز میر تقی
شرط ہے شعر و شاعری کے لیے
عابدکے طرز بیان کا رنگ دہلوی ہے اور اس پر وہ خود
بھی نازاں ہیں چنانچہ کہتے ہیں ؎
ہیں وطن سے تو پشاوری ہم
دہلوی ہیں ہم اپنے بیان
سے
روایتی غزل کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ان کی غزل میں
داخلیت کا عنصر بھی غالب نظر آتا ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری میں عشق ہے، محبت ہے، حسن
ہے، درد وکرب ہے گویا کہ ان کی غزلیہ شاعری میں وہ تمام جواہر موجود ہیں جن سے اردو
کی کلاسکی غزل گوئی کی روایت عبارت ہے اور عابد کی غزلیہ شاعری میں میر کی شاعری کی
طرز کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
عابد پشاوری کی غزلیہ شاعری سے صاف طور پر یہ ظاہر
ہوتا ہے کہ انہوں نے میر کے سوزو گداز کو، شیریں بیانی اور سلاست و روانی کو اپنی غزلیہ
شاعری میں پیش کرنے کی ایک شعوری کوشش کی ہے جس میں عابد پشاوری کامیاب بھی نظر آتے
ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی غزلیہ شاعری ہر دل عزیز معلوم ہوتی ہے چنانچہ عابد گویاہیں ؎
’’ذرا عنوان بدل کر سب وہی افسانہ کہتے ہیں
ہر اک لب پر ہماری داستان معلوم ہوتی ہے‘‘
عابدپشاوری بھی اپنے رنگ خاص سے خوب واقف تھے۔ انھیں
اس بات کا احساس تھا کہ واقعی عابد نے میر کی طرز پر شاعری کی ہے اور اس طرز کو پانا
بھی ہر کسی کے بس کا کام نہیں تھا۔ لہٰذا عابد پشاوری اس طرز خاص پر نازاں معلوم ہوتے ہیں اور اپنے آپ
کو اپنے وقت کا میر گردانتے ہوئے کہتے ہیں:
’’میں اپنے وقت کا ہوں میر اے عابد خدا شاہد
بہت مجبور ہو کر دل سے کی ہے شاعری میں نے‘‘
’’مجھے بھی میر ہی سمجھو گے اے عابد
اگر میں چھوڑ گیا اپنے بعد کلام اپنا‘‘
درج بالا اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ عابد پشاوری نے
میر کے رنگ شاعری سے اپنی غزلیہ شاعری کو مزین کیا ہے اور واقعی میر کا ساحزن وملال،
غم واندوہ، دل زدگی، دل گرفتگی، مایوسی وناامیدی، یاسیت، درد وکرب، ان کی غزلوں کے
شعری آہنگ میں گھل کر نمایاں ہوتا ہے اور ان کے اشعار دل وذہن کی دنیا میں ایک محشر
برپا کردیتے ہیں اور یوں عابد اپنی آب بیتی کو جگ بیتی بنانے میں بھی کامیاب نظر آتے
ہیں۔
عابدپشاوری کے ہاں ہمیں میر، غالب، مومن، جگر، امیر
وغیرہ قد آور شعرا کی زمینوں میں بھی غزلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال
پیش کی جارہی ہے جو غالب کی زمین میں ہے
؎
’’دیکھنا عمر گذر جائے نہ بے کاریوں ہی
مشکلیں کتنی ہی دیکھی ہیں بشر ہونے تک ‘‘
عابد کی غزلوں میں مومن کی سی نازک بیانی،مضمون آفرینی
اور چھوٹی چھوٹی بحروں کا استعمال بھی ملتا ہے اور عابد نے مومن کی طرز پر ہی اپنے تخلص کو بھی معنی کے طور
پر استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہوں اس قبیل کے چند اشعار ؎
’’ہوتو مشغول عبادت ہمہ تن اے عابد
زادراہ کرلے بہم حکم سفر ہونے تک‘‘
’’سب دکھاوے فضول ہیں عابد
دل میں چپکے سے بندگی کرلی‘‘
عابد نے اپنی غزلیات سے ایک منفرد لہجے ، مخصوص اسلوب، طرز فکر، لفظوں کے انتخاب کی وجہ سے اور غزل کو
ایک ایسی جہت عطا کی کہ ان کی غزلیہ شاعری میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعری ہو رہی
ہے یا نثر نگاری اور یہی وہ چیز بھی ہے جو انھیں ممتاز حیثیت بھی بخشتی ہے اور انھیں
بھی اس طرز خاص پر بڑا ناز تھا چناچہ عابد کہہ اُٹھتے ہیں ؎
’’میرے اشعار بھی ہیں نثر جیسے
یہ طرز آساں بھی دشوار بھی ہے‘‘
عابد کی غزلیں مشکل تشبیہات واستعارات، اور مشکل الفاظ ومحاورات سے پاک معلوم ہوتی ہیں۔
الفاظ کے انتخاب، نشست وبرخاست میں انھیں ید طولیٰ حاصل ہے۔ ان کی غزلوں میں عام بول
چال کی زبان کا استعمال ملتا ہے اور عابد نے تمام شعری وسائل کا سہارا لے کراپنی اس
طرز خاص کو واقعی پرکشش بنا دیا ہے۔ مضمون آفرینی، غورفکر کے انداز،اور نازک خیالی
نے بھی ان کی غزل کو ایک نکھار بخشا ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری میں اگر چہ غنائیت کی کمی
محسوس ہوتی ہے لیکن کچھ غزلیں ایسی بھی ہیں جن میں غنائیت ہے جو روح میں ایک تازگی
کا احساس بھی بخشتی ہیں ۔
عابد کی غزلیہ شاعری کے موضوعات وہی ہیں جو روایتی
غزل کا طواف کرتے نظر آتے ہیں ۔لیکن عابد
کے ساتھ خاص بات یہ ہے کہ عابد ان میں تاثر کی خوبی پیدا کر دیتے ہیں ۔جن سے
ایک تازگی کا احساس بھی نمایاں ہوتا ہے۔
اردو غزل میں احترام آدمیت، انسانیت اور محبت وہمدردی،
الفت وخلوص ووفاشعاری، آپسی بھائی چارگی، امن آشتی کا درس ضرور ملتا ہے اور جنگ وجدل،
بغض وعناد، انسان دشمنی کے خلاف نفرت کا اظہار بھی ملتا ہے۔ عابد پشاوری نے بھی اپنی
غزلوں میں کچھ اس طرح کے مضامین کو بیان کیا ہے۔ جن سے احترام آدمیت، امن وآشتی،
محبت وہمدردی کی خوشبو آتی ہے۔ ملاحظہ ہو چند اشعا ؎
کب فرشتوں کو پیار ہے حاصل
آدمی کے نصیب کیا کہیے
عابد جو ہوں تو ہوں میں پرستار آدمی
بت گر کا آشنا ہوں نہ ہوں بت شکن کے ساتھ
عابد نے اپنی غزلیہ شاعری میں وہی کیفیات بیان کی ہیں
جو کچھ ان کے دل پر گزری ہیں۔ اسی کو داخلیت بھی کہتے ہیں اور عابد اپنی رو داد غم
روتے روتے کچھ یوں بیان کرتے ہیں ؎
ہوئی ختم عمر دوراں روتے روتے
بیاں ہوگئی داستاں روتے روتے
چلے مجھ سے جس دم وہ دامن چھڑا کر
میری بندھ گئیں ہچکیاں روتے روتے
ابھی تک نہیں آپ کا دل
بھرا کیا
زمانہ ہوا مہر باں روتے روتے
عابدکی غزلیہ شاعری میں یہ خوبی ہے کہ یہ دل میں اتر
جاتی ہے۔ انھوں نے اردو شعروادب کو ایک پہچان دی اور آج عابد پشاوری اردو شعروادب
کا ایک معتبر نام ہے۔ سلاست اور روانی کی وجہ سے ان کی غزلیں بہت جلدی دل کوبھا جاتی
ہیں۔
ان کی غزلوں میں رومانیت بھی ہے، انسانی ذہن کی بہترین
عکاسی بھی، دردوکرب بھی ہے، انسانی جذبات واحساسات کے ہمراہ، سوچ اور فکر کی خوبصورت
عکاسی بھی ہے، رفاقت وقربت بھی ہے، فرقت وجدائی بھی ہے اور حسین واقع نگاری بھی ہے۔
تشبیہات واستعارات کا بھی موزوں استعمال ان کی غزلوں
میں ملتا ہے، ان کی غزلیں فنی خوبیوں سے بھی
مالا مال ہیں کہ جن میں روانی اور سلاست کی چاشنی بھی ہے۔ عابدپشاوری کی غزلیہ شاعری حسین اور لطیف انسانی
جذبات کی بہترین ترجمان ہے۔ چھوٹی چھوٹی بحروں اور حسین پیرائے میں لکھی گئی ان کی
غزلیں اور پھر ان کا اسلوب کلام انھیں ہمعصر شعرا میں ممتاز حیثیت بخشتا ہے۔
Mohammad Rafi
118-E Subansir Hostel, JNU
New Delhi - 110067
Mob.: 9599633071
Email.: rafijnu90@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں