21/12/20

ورڈس ورتھ کی فطرت پرستی (نظم ’کوئل‘ کی روشنی میں) - مضمون نگار: محمد جلیل

 



دنیا میں اب تک لا تعداد انسان پیدا ہو چکے ہیں جن کا کوئی شمار نہیں لیکن بعض شخصیات ایسی  ہوتی ہیں جو اوراق لیل و نہار پر نقش کالحجر ہو جاتی  ہیں۔ورڈس ورتھ کا شمار ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے۔اٹھارویں صدی کے اواخر اور  انیسویں صدی کے اوائل  میں انگریزی ادب کا جو منظر نامہ سامنے آیا  اورجن لوگوں نے اس پر اپنے نشانات مرتسم کیے ان میں  ورڈس ورتھ کا  نام سب سے نمایاں ہے۔انھوں نے شاعری اور تنقیدمیں بیش بہا ادبی سرمایہ چھوڑا ہے جس پر انگریزی ادب ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔  ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے  کہ ان کی پذیرائی صرف مغرب میں ہی نہیں  بلکہ اپنے   عہد، خطے اور جغرافیائی سرحدوں کو عبور کر کے ایسے ممالک اورنوآبادیات میں ہوئی  جہاں تک رسائی مشکل تھی۔آج  ڈیجیٹل کا ری کے باعث  پوری دنیا ایک وحدت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور کسی بھی زبان کے ادب کا مطالعہ بہت سہل ہوگیاہے۔ ورڈس ورتھ کا شمار  انگریزی ادب کے ان شاعروں اور نقادوں میں ہوتا ہے جن کی تخلیقات کا تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ نہ صرف مغرب بلکہ مشرقی ممالک بالخصوص ہندوستان میں ژرف نگاہی کے ساتھ کیا گیا  اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

کسی بھی زبان کے ادب میں کوئی بھی تبدیلی فوری طور پر رونما نہیں ہوتی۔کلاسیکیت ہو یا   رومانیت  یا  پھر جدیدیت در اصل یہ مخصوص مزاج  کا نام ہے اور کسی بھی تخلیق کے دوران فن کار کو کسی نہ کسی شکل یا درجے میں اس سے سابقہ پڑتا ہے۔ انگریزی ادب پر رومانیت کا اثر کب سے شروع ہوا یہ قطعیت کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا  البتہ اٹھارویں صدی  کی ابتدائی دہائیوں کی تخلیقات میں اس  کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یورپی ادبیات پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ رومانیت کی ابتدا فرانس سے ہوئی اور اٹھارویں صدی کے اواخر میں جرمنی میں اسے خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی۔بعد ازاں انگلستان پہنچنے پر اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ فرانسیسی مفکر اور ادیب روسو کو  رومانی تحریک  کا نقیب تسلیم کیا جاتاہے لیکن اس تحریک کو   ولیم ورڈس ورتھ،ا یس ٹی کولرج، پی بی شیلی اور جان کیٹس نے  بام عروج تک پہنچایا۔ یورپ بالخصوص انگلستان میں جدید کلاسیکی ادب کی تقلید، فرسودہ ہیئت پسندی اور اصول شعر و انشا  کی پیروی کو  ازکار رفتہ قرار دے دیا گیا تھا جس کے باعث کلاسیکی روایت اپنی توانائی کھونے لگی  اور رومانیت کا زور بڑھنے لگا۔زندگی کے ہر شعبے میں حریت اور آزادی اس تحریک کے اولین مقاصد قرار پائے۔ جذبات و احساسات کا اظہار، فطرت پرستی اور حیات و کائنات    کاعمیق مشاہدہ و مطالعہ مذکورہ تحریک کے نمایاں  اوصاف ہیں۔ اس  تحریک کے فروغ میں  ورڈس ورتھ کا نام سب سے نمایاں ہے۔  انہوں نے قدیم شعری روایت  کی سخت مخالفت کی۔

ورڈس ورتھ کی پیدائش 7 اپریل 1770  کو کاکرموتھ کمبر لینڈ میں ہوئی۔ ابھی ان کی عمر صرف آٹھ برس تھی کہ  ان کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ اس جانکاہ صدمے کو ان کے والد جان ورڈس ورتھ برداشت نہیں کر سکے اور اس  سانحہ کے چھ  برس بعد وہ بھی دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔والد کی موت کے وقت ولیم ورڈس ورتھ چودہ سال کے تھے اور وہ  لنکاشائر کے ہاک شیڈ گرامر  اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ اس درسگاہ  کا شمار انگلستان کی بہترین درسگاہوں میں ہوتا تھا جہاں انھوں نے نو برس تک تعلیم حاصل کی۔دوران تعلیم ان پراسکول کے اساتذہ کے گہرے  اثرات مرتب ہوئے۔  ورڈس ورتھ نے سب سے پہلی نظم  چودہ سال کی عمر میں’گرما کی تعطیلات‘لکھی اور اس نظم کی جتنی  ستائش  ہوئی، ورڈس ورتھ کو اس کی  توقع نہیں تھی۔ انھوں نے خودلکھا ہے کہ  مذکورہ نظم کی جس طرح  پذیرائی ہوئی اس کی یہ مستحق نہ تھی۔ شاعر خود مذکورہ نظم کی خامیوں  کا معترف ہے لیکن  اس کے  باوجود   وہ شعری ارتقا کے راستے پر تیزی سے گامزن ہوئے اور ان کی نظموں میں جستہ جستہ فکری اور فنی  بالیدگی آتی گئی۔

 ورڈس ورتھ اپنی ابتدائی تعلیم کے دوران ہی  فطرت کی طرف مائل  ہوئے۔وہ بچپن سے ہی  عام لوگوں، غریبوں اور کسانوں کی زندگی کا مشاہدہ کرتے تھے لیکن یورپ کے سفر کے دوران مختلف شہروں اور قصبوں سے  گزرتے ہوئے انھوں نے ہر طرف رقص و سرود کی محفلیں دیکھیں، انھیں ہر جانب خوشحالی اور شادمانی نظر آئی۔ یہ سارے مناظر کافی مسرور کن تھے لیکن ورڈس ورتھ نے ان کا اثر قبول نہیں کیا۔  مظاہر فطرت کی رعنائیوں اور بوقلمونیوں سے ورڈس ورتھ کو گہری دلچسپی تھی اور اسی وجہ سے یورپ کی سیاحت کے دوران بنی نوعِ انسان سے ان کا روحانی رشتہ مزید  پختہ ہو گیا۔انھوں نے فطرت کو ہر صورت اور کیفیت میں دیکھا ہے اور اس سے متاثر بھی ہوئے ہیں۔ اٹھارویں صدی کے شعراکے کلام میں منظر نگاری سطحی طور پر نظر آتی ہے لیکن اس کے علی الرغم ورڈس ورتھ  نے  مظاہر فطرت کی  بہت ہی دلچسپ تصویر یں پیش کی  ہیں۔’شام کی ہوا خوری‘کے عنوان سے ان کی نظم 1793 میں شائع ہوئی۔

شاعر کے مطابق قسمت کو یہ منظور  نہیں کہ وہ اپنے عزیز اور مخلص احباب کے ساتھ وقت گزارے۔ خوش وقتیاں اب ان کی تقدیر میں نہیں ہیں اس لیے وہ دوستوں سے علیٰحدہ ہوکر برگ و بار صحرا اور سنگلاخ وادیوں میں  اکیلا پھر رہاہے۔ان وادیوں اور جنگلوں میں  ڈرونٹ نامی   گزرگاہ بھی  ہے جہاں کی مسرور کن  فضا میں وہ سکون محسوس کرتا ہے۔ یہاں کی فرحت بخش فضا انہیں گراسمیر  کے اخوت گزیں جزیرے کی طرف لے جاتی ہے۔ نشیبی علاقے کی خاردار جھاڑیوں، زمردیں، سبزہ زار اور سنگلاخ پگڈنڈیوں  کے زیر سایہ ہوا کے  تیز و تند جھونکوں سے دور وہ خوابوں کی دنیا میں گم ہے۔

ورڈس ورتھ نے جامعہ کیمبرج میں اکتوبر 1787 میں داخلہ لیا۔اس وقت گرچہ وہ بیحد خوش و خرم تھے  لیکن کچھ ہی عرصے بعد  جامعہ کے جامد  ماحول سے بدظن ہونے لگے۔درسی کتابوں میں ان کی دلچسپی کم تھی، دنیا کے شور میں ان  کا دم گھٹتا تھا  لہٰذا  اس کے بیشتر اوقات تنہائی میں گزرنے لگے اور سکون قلب کے لیے فطرت کے خوبصورت نظاروں اور مظاہروں  سے لطف و انبساط حاصل کرنے لگے۔ ورڈس ورتھ کو کتب بینی کا   ذوق  تھا۔ وہ آزاد پسند طبیعت کے  مالک تھے   اور اس وجہ سے وہ کسی  خاص نصب العین یا قاعدے کے پابند نہیں رہ سکے لیکن ماضی کے شہ پاروں سے یقینا کسب فیض کیا۔ ورڈس ورتھ کو  شاعر فطرت بھی کہا جاتا ہے۔رومانی  تحریک کے دوران فطرت پرستی پر  خاصا زور دکھائی دیتا ہے  اور  اس خیال کے زیر اثر ورڈس ورتھ نے جو خواب دیکھا تھا اس کا اندازہ اس کے کلام کے مطالعے سے لگایا جا سکتا ہے۔

 ان کا مجموعۂ کلام لیریکل بیلڈس 1798 میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے میں ان کے عزیز دوست ایس ٹی کولرج کی نظمیں بھی شامل ہیں۔مذکورہ مجموعہ اور انیسویں صدی کی پہلی دہائی کے دیگر  مجموعوں کے مطالعے  سے واضح ہوتا ہے کہ انگریزی شاعری  ایک نئے  رخ پر گامزن ہے۔   ورڈس ورتھ  نے بھی  اپنے مجموعہ کلام  میں ایک الگ زاویہ نظر اختیار کرتے ہوئے بہترین شاعری کا نمونہ پیش کیا۔ انھوں نے خارجی فطرت نگاری سے احتراز  کرتے ہوئے  داخلی حسن پر توجہ مرکوز کی۔ ورڈس ورتھ کو معمولی سے معمولی چیز میں بھی نئی شان اور نئے مطالب دکھائی دینے لگے، حیات و کائنات کی روحانی حیثیت ان پر بتدریج منکشف  ہونے لگی۔ ورڈس ورتھ نے کئی مایہ ناز نظمیں تخلیق کی ہیں جن میں

The Prelude, Tintern Abbey, ode on Intimations of Immortality, The Solitary Reaper, The World Is Too Much with Us, My Heart Leaps Up, Lucy Gray, To a Butterfly, The Excursion, A slumber did my spirit seal, The Idiot Boy, Ode to Duty, Poor Susan, The Cuckoo

وغیرہ شاہکارکی حیثیت رکھتی ہیں۔دی پریلیوڈ خود نوشت سوانح ہے جسے انہوں نے 28 سال کی عمر میں 1798 سے  بغیر کسی عنوان کے  لکھنا شروع کیااور اپنی زندگی کے آخری ایام تک جاری رکھا۔ ورڈس ورتھ نے 23مارچ 1850 میں زندگی کی آخری سانس لی۔ ان کی موت کے تین مہینے بعد ان کی شریک حیات میری ہچیسن کے طے کردہ عنوان ’دی پریلیوڈ ورڈ کے نام سے یہ خود نوشت سوانح شائع ہوئی۔ مذکورہ بالا نظموں کا تجزیے طوالت کا باعث ہوگا  لہٰذا  نظم ’کوئل‘ کے تجزیہ پر اکتفا کرتے ہوئے یہاں ورڈس ورتھ کے شاعرانہ تخیل کا اجمالی جائزہ مناسب ہوگا۔

کوئل‘ ان کی ایک مشہور نظم ہے۔ اس نظم میں انھوں نے فطرت کو  مختلف زاویے سے دیکھنے اور  اس سے فرط و انبساط حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔   انھوں نے زندگی کی تلخ کامیوں کے باوجود فطرت سے عشق کو نظم کا جامہ پہنایا۔  ورڈس ورتھ اپنی رجائیت کے باعث فطرت کی شکستہ حالی اور تباہی   کی صورت   میں بھی حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ  دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی مانوس نظر آتے ہیں اور  اس میں حسن  تلاش کرتے ہیں۔ انھیں مختلف وادیوں، صحرا، جھیلوں  سے قلبی سکون حاصل  ہوتا ہے۔

کوئل کی آواز سن کر شاعر کو بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مرغوب پرندے کی کوک میں خوشیوں کے راز دیکھتا ہے، اس کی آواز سن کر  اسے  اپنے بچپن کے خوشگوار لمحات یاد آنے لگتے   ہیں۔ ورڈس ورتھ لڑکپن سے ہی کوئل کی درد آشنا آواز کے شیدائی تھے۔ وہ جب بھی سبزہ زار میں ہوتے  تو کوئل کی آواز ان کے کانوں میں گونجنے لگتی اور وہ اپنے ماضی میں گم ہو جاتے۔ شاعر  نے پروازِ تخیل سے کام  لیتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کی دنیا میں  امن و سکون تلاش کر نے کی سعی  کی ہے جس کے لیے وہ  سرگرداں رہا ہے۔  اس دوران وہ  دوسروں کی خوشی کا بھی متلاشی ہے۔ اسی نظم میں شاعر آگے کہتا ہے کہ توآفتاب کی کرنوں سے منور اور پھولوں سے معطر وادیوں کے درمیان اگرچہ نغمہ خواں ہے لیکن مجھے حسین تصوراتی اور تخیلاتی ایام کا پیغام سنائی دیتا ہے۔مجھے بچپن کی گھڑیاں اور بے پروا ساعتوں کے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ تو کوئی معمولی  پرندہ نہیں بلکہ ایک ایسی  ناپید ہستی ہے جس میں  بہت سے راز  پوشیدہ  ہیں۔

ورڈس ورتھ کے کلام میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی کے دوش بدوش مظاہر اور مناظر فطرت کا بیان بہت ہی دلکش پیرایے میں نظرآتا ہے۔  انھوں نے فطرت کے مناظر کو صرف مناظر فطرت ہی کی طرح نہیں دیکھا بلکہ ان میں زندگی کی خوشی بھی تلاش کی ہے اور اسے   فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کی سعی کی  ہے۔ مظاہر حسن کے بعض ایسے پہلوؤں کی تلاش کی ہے جن میں عام لوگ آزادی سے سانس لیتے ہیں، جہاں کسی طرح کی کوئی قید نہیں۔ان کا تخیل  فطر ت کے مناظر کو دیکھ کر رواں دواں ہو جاتا ہے اور  ان کو اپنی شاعری میں جگہ دینے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں۔

کوئل کی دل فریب آوازسن کر شاعر کواپنی طالب علمی کا زمانہ یاد آتا ہے۔ اس کی کوک میں اسے  وہی نغمہ سنائی دیتا ہے جس کے باعث وہ جھاڑیوں، درختوں اور آسمانوں کی خاک چھانتا تھا  اور تجسس کی نگاہ ڈالنے پر بار بار مجبور ہوتا ہے۔اس جستجو میں صحراؤں اور سبزہ زاروں کی گشت کیا کرتاہے ۔ شاعر ایک امید اور کشش کا ہمیشہ متلاشی رہا جو اسے کہیں بھی حاصل نہیں ہوئی۔شاعر کی زمانہ طفلی کی تمنا کبھی بھی پوری نہیں ہوئی۔شاعر لاحاصل کوشش سے بخوبی واقف ہے لیکن اس کے باوجود پرندے کی سحرانگیز آواز سے محظوظ ہوتا ہے  اور اپنے بچپن کے عہد زرّیں کوحاصل کر لیتا ہے۔

مذکورہ نظم میں ایک خاص فضا  پائی جاتی ہے۔ اس میں فطرت کے دلچسپ اور رنگا رنگ مناظر و مظاہر کے مشاہدے کے باوجود تصوری اور تخیلی عناصر کا غلبہ نظر آتا ہے۔ ان اشعار  میں صداقت اور خلوص کے عناصر دکھائی دیتے ہیں۔ان سے فطرت نگاری سے متعلق ورڈس ورتھ کی جدتِ ادا، زور بیان اور منظر نگاری کا پتہ چلتا  ہے۔ ان میں ایک خاص حسن اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے پر تکلف  زبان  پر عام بول چال کی زبان کو ترجیح دی   اور انگریزی زبان کوعوامی بنا دیا۔ ورڈس ورتھ فطری زندگی کے قائل تھے اس لیے جدید تہذیب کی مصنوعیت  اور مادیت کی مخالفت کی نیز سماج کی اصلاح سے زیادہ فر دکی آزادی پر توجہ دی۔ مادہ پرستی  کے باعث انسان  اپنے اصل مقصد سے دور ہو جاتا ہے اور اس کی روحانی آزادی بھی سلب ہو جاتی ہے۔ ورڈس ورتھ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے  دنیا کی توجہ انسانیت کے اہم اور ضروری اصولوں کی طرف منعطف کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انھوں نے خود کو انسان دوستی کا مصلح قرار دیا اور سیاسی، سماجی، ادبی بیباکی گویا ہر شعبہ ہائے زندگی میں آزادی کی صدا بلند کی۔


Mohd Jaleel

Village: Qaziahi

Madhubani - 847211 (Bihar)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں