21/12/20

اردو طنز و مزاح کی روایت اور نظیر اکبرآبادی - مضمون نگار: مظہر احمد


 


اردو طنزو مزاح کی تاریخ میں جن ابتدائی انفرادی کاوشوں کی نشاندہی کی جاتی ہے،ان میں جعفر زٹلّی کے بعد نظیر اکبر آبادی کا نام خاص اہمیت رکھتا ہے۔نظیر نے عام روش سے ہٹ کر اور رسمِ زمانہ سے دور جاکر ایک ایسی دل آویز شاعری کے نمونے پیش کیے کہ جو منفرد بھی تھے اور نئے بھی۔نیز شاعری کو درباروں سے اٹھا کر عوام الناس کے درمیان لے جانے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔اسی لیے نظیر کو پہلا عوامی شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔انھوں نے ہمعصر شعرا کے بالمقابل اپنی ایک الگ روش نکالی اور تا حیات اسی پر گامزن رہے۔پروفیسر محمد حسن فرماتے ہیں کہ :

’’ نظیر اکبر آبادی شاید وہ واحد شاعر ہیں،جنہوں نے وقت کے تقاضے کے پیشِ نظر نرالے ڈھنگ سے اپنے جگر کو خون کرکے ہمعصر شعرا کے برعکس اظہارِ خیال کیا۔‘‘

( نظیر اکبر آبادی از محمد حسن ص9 )

اور چونکہ نظیر کا شعری رویہ اور منصب عام روش سے ہٹ کر تھا اسی لیے عام طور پر نظیر کی شاعری کو بازاری،رکیک،غیر معیاری اور فحش قرار دیا گیا اور اس دور کے تقریباً تمام تذکرہ نگاروں نے یا تو ان کا ذکر ہی نہیں کیا یا پھر انھیں معمولی اور غیر اہم کہہ کر ان کی شاعری سے صرفِ نظر کیا،مگر پھر آہستہ آہستہ ان کی شاعری کے گونا گوں پہلوؤں پر ہماری نظر گئی اور ہم نے ان کی عظمتوں کا اعتراف کرنا شروع کیا۔

دراصل نظیر  بازار کے شاعر ہیں مگر بازاری نہیں۔ ان کے مخاطب ’آگرہ بازار‘ کے عوام الناس ہیں۔ لہذا وہ ان کے ساتھ کھیل کھیلتے ہیں،رنگ رلیاں مناتے ہیں اور یوں عوام کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ نظیر کی عوامی شاعری سے متعلق محمد حسن صاحب کی یہ رائے غور طلب ہے :

’’ نظیر عوامی شاعر ہے۔ اس نے عوام کی باتیں عوام سے کیں۔ا س نے نہ تو مذہب کا پرچار کیا نہ رہبانیت کا۔اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں عوام کو سمجھنا ہوگا.....  اس کی نظمیں سیدھے سادے تاج محل ہیں جو عوام کے ساتھ اس کے خلوص کی یادگاریں ہیں اور یہی اس کو امتیازی سلوک عطا کرتی ہیں۔ ‘‘  ( نظیر اکبر آبادی   از   محمد حسن  ص9 )

عوامی شاعری کا ایک واضح اور نمایاں اسلوب ظرافت ہے اور یہ ظرافت نظیر کی ذات کا نمایاں حصہ ہے کہ وہ فطرتاً خوش مزاج تھے اور یہی خوش مزاجی ان کی زندگی اور ان کے کلام کا سب سے بڑا جوہر ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں عوامی زندگی کے ہر رنگ اور معاشرے کی ہر ترنگ کو موضوع بنایا اور ایک ایسے دور میں جبکہ عام شعرا ہجو گوئی، پھبتی کنائے اور ایہام وغیرہ میں الجھ کر رہ گئے تھے،نظیر نے طنز و مزاح کے اعلیٰ نمونے پیش کیے اور اس کا ایک معیار قائم کیا۔وزیر آغا لکھتے ہیں :

’’نظیر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو ایک اور لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔وہ اس طرح کہ نظیر نے اردو شاعری کو اس ابتدائی دور میں مزاح اور طنز کا ایک ایسا معیا ر قائم کیا جو مغربی ادب سے متاثر ہوئے بغیر اس کے جدید تصور سے بہت قریب تھا۔ ‘‘

( اردو ادب میں طنز و مزاح    از    وزیر آغا  ص98)

نظیر کے طنز میں ذہانت و متانت اور بذلہ سنجی و شو خی کا امتزاج ہے۔وہ کسی کا دل نہیں دکھاتے بلکہ زندگی کے نہایت عام رویوں اور حالات کی خرابی پر نظر ڈالتے ہیں اور سماج و معاشرے پر طنز کرتے ہیں۔ ان کے طنز میں ذاتی بغض و عناد اور طعن و تشنیع کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ذاتیات تو ان کا موضوع ہی نہیں ہے وہ تو اجتماعی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں،اسی لیے ان کے کلام کا عام انداز ظریفانہ ہے۔ان کے دیوان میں زندگی اپنی تمام تر شوخیوں اور شرارتوں کے ساتھ بکھری ہوئی ہے۔اکثر نظموں میں وہ متضاد اشیا اور جذبات کو بروئے کار لاکر ظرافت پیدا کرتے ہیں۔نیز مضحک واقعہ نگاری اور منظر نگاری سے بھی ظرافت وشو خی کے مواقع حاصل کرتے ہیں۔نظیر کے مضحک موضو عات سے متعلق فرقت کاکوروی رقمطراز ہیں :

’’ان کی شاعری میں جگہ جگہ ہم کو سماج اور معاشرت پر طنز ملتا ہے۔چنانچہ روٹی نامہ، پیسہ نامہ،آدمی نامہ، جوگن نامہ، کوڑی نامہ یہ ساری کی ساری طنزیہ نظمیں ہیں،جن میں لطیف طنز ملتا ہے۔ بعض نظمیں انھوں نے اقتصادی نقطۂ نظر سے لکھی ہیں۔ ان میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پر گہرا طنز ہے کہیں پر یہ طنز بالکنایہ ہے اور کہیں کہیں اس میں اتنی شدت اور تلخی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ بیزاری کے حدود میں داخل ہو گیا ہے۔ ‘‘

( اردو ادب میں طنز و مزاح   از فرقت کاکوروی ص 34,35)

طنز و مزاح سے متعلق نظیر کی نظمیں ’آدمی نامہ ‘، ’روٹی نامہ ‘  اور خوشامد خاص طور پر اہمیت کی حامل ہیں۔ آدمی نامہ میں انھوں نے متضاد اشیا و افراد کا ذکر کرکے اور ان کے تقابل سے انسان کی بے قدری و بے وقعتی پر طنز کیا ہے۔یہ نظم طبقاتی زندگی میں انسان کی بلندی و پستی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ سماجی و اقتصادی نا برابری کا احساس بھی اس میں شامل ہے۔یہاں دو بند ملاحظہ فرمائیں           ؎

دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

زر دار و بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

 ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں

بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں

پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآں اور نماز یاں

اور آدمی ہی ان کی چراتے ہے جوتیاں

جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

روٹی نامہ ‘ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی تگ و دو میں انسان کی اخلاقی پستی کی داستان سناتی ہے۔ امیر و غریب،ادنیٰ و اعلیٰ سب کی بنیادی ضرورت روٹی ہے مگر اس کی حصولیابی میں جو بے ترتیبی اور چھینا جھپٹی نظیر کو نظر آتی ہے،وہ اسے طنزیہ پیرائے میں بیان کر دیتے ہیں۔نظم کا ہر ہر بند ایک طنز یہ منظر ہمارے روبرو لاتا ہے۔عام آدمی سے لے کر پیرو فقیر بھی اسی روٹی کے طلبگار ہیں۔چنانچہ نظیر کامل فقیر کی آڑ میں ایسے ہی نام نہاد صوفیوں پر طنز کے وار کرتے ہیں         ؎

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے

یہ مہرو ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے

وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے

ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے

بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں

پھر پوچھا اس نے کہیے یہ ہے دل کا نور کیا

اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا

وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا

کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا

جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

ان مثالوں کے علاوہ کلیات نظیر میں ایسا کلام بکثرت موجود ہے جس میں نظیر نے طنز و مزاح کے اعلیٰ معیاروں کو بروئے کار لاکر فردو سماج پر طنز یہ وار کیے ہیں۔ایسی نظموں میں ’کلجگ‘، کوڑی نامہ ‘،’ طفلی نامہ‘، ’برسات کی بہاریں ‘ اور ’خوشامد‘ خاص ہیں۔

نظیر کے کلام میں خالص مزاح کے پہلو تلاش کرنا نہایت آسان ہے کہ کلامِ نظیر میں جابہ جا خالص مزاح کے نمونے بکھرے پڑے ہیں۔ خود نظیر نے خود کو چٹکلے باز کہا ہے۔چنانچہ کہتے ہیں        ؎

سب جانتے ہیں چٹکلے بازی نظیر کی

اس کے تو ہر سخن میں ہے اے یار چٹکلا

  تہوار ہوں یا میلے ٹھیلے،سیر تماشے ہوں یا بزم آرائیاں نظیر مزاح کے امکانات ہر موقع پر نکال ہی لیتے ہیں۔ واقعات و مناظر سے مزاح پیدا کرنے میں نظیر کو فوقیت حاصل ہے اور یہ اسلوب اس فن کے جدید تصورات سے نزدیک ہے۔چنانچہ اس کی اہمیت دو چند ہے۔یہاں نظم ’ برسات اور پھسلن ‘ کے دو بند ملاحظہ فرمائیں           ؎

کوچے میں کوئی اور کوئی بازار میں گرا

کوئی گلی میں گر کے ہے کیچڑمیں لوٹتا

رستے کے بیچ پاؤں کسی کا رپٹ گیا

اس سب جگہ کے گرنے سے آیا جو بچ بچا

وہ اپنے گھر کے صحن میں آکر پھسل پڑا

کرتی ہے گرچہ سب کو پھسلنی زمین خوار

عاشق کو پر دکھاتی ہے کچھ اور ہی بہار

آیا جو سامنے کوئی محبوب گل عذار

گرنے کا مکر کرکے اچھل کود،ایک بار

اس شوخ گلبدن سے لپٹ کر پھسل پڑا

غرض کہ نظیر کا بیشتر کلام نشاطیہ آہنگ کے پہلو بہ پہلو طنز اور مزاح کے امکانات سے بھی آراستہ ہے۔بقول وزیر آغا

’’ نظیر دراصل اس ماحول کو پسند بھی کرتے ہیں جسے وہ مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس قدر کہ بعض اوقات جب وہ طنزیہ طریق کار بھی اختیار کرتے ہیں تو ناظر کو ان کے ہمدردانہ اندازِ نظر کا احساس برابر رہتا ہے۔ ‘‘(اردو ادب میں طنز و مزاح   از   وزیر آغا   ص  97)

یہی ہمدردانہ اندازِ نظر ان کی ظرافت کو رکیک اور غیر شائستہ ہونے سے بچا لیتا ہے۔

اردو کی ظریفانہ شاعری کی روایت میں نظیر اکبر آبادی کا فیضان دورِ جدید میں بھی جاری ہے۔بیسویں صدی کے صفِ اول کے بیشتر شعرا نے کلامِ نظیر سے نہ صرف یہ کہ استفادہ کیا ہے بلکہ تضمین،اقتباس اور پیروڈی کے ذریعے نظیر کو خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔اردو میں پیروڈی نگاری کا چلن پچھلی صدی کے اوائل ہی سے موجود ہے۔ شعرائے طنز و مزاح نے میر و غالب اور علامہ اقبال اور دیگر شعرا کے ساتھ ساتھ نظیر کی مشہورو معروف نظموں کو بنیاد بنا کر پیروڈی نگاری کی ہے اور سابقہ متن میں کئی اہم اور با معنی تبدیلیاں کرکے انھیں نئی معنوی دنیا ئیں عطا کی ہیں۔ پیروڈی میں معمولی تحریف اور الفاظ کے ردوبدل سے نئے مضامین کی تخلیق اہمیت کی حامل ہے اور ہمارے بیشتر پیروڈی نگار شعرا نے کلامِ نظیر پر تحریفی کارروائی کرکے اسے نئی جہات سے روشناس کیا ہے۔نظیر کی نظموں کو پیروڈی کا ہدف بنانے کی ایک وجہ کلامِ نظیر کی بے پناہ مقبولیت اور ہر دلعزیزی بھی ہے کہ کامیاب پیروڈی کے لیے اصل نظم کا عوام الناس میں مقبول ہونا ضروری ہے۔آئیے ایسی چند پیروڈیوں کا جائزہ لیں :

نظیر کی نظم ’بنجارہ نامہ ‘ انتہائی مشہور و معروف نظم ہے۔ہمارے پیروڈی نگار شعرا نے اس نظم کی گونا گوں خوبیوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس پر طبع آزمائی کی ہے۔دنیا کی بے ثباتی اور موت کی اٹل حقیقت کے پس منظر میں نظیر نے بنجارے کو جو نصیحتیں کی تھیں،جدید شعرا نے اس میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے اور طنز و مزاح کے مزید امکانات روشن کیے ہیں۔مسٹر دہلوی کے ’ماڈرن بنجارہ نامہ ‘ کے دو بند ملاحظہ فرمائیں           ؎

اے آدم اس سے پنڈ چھڑا یہ نفس ترا ہے امارہ

دیکھے گا اجل کی شکل جونہی ہوگا یہ وہیں نو دو گیارہ

کیا وارے نیارے ہر دم کے ہر آن کی کیا یہ پوبارہ

کیا ہنڈی،چک بک،بونڈ،شیئر،کیا نوٹوں کا یہ پشتارہ

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

 

گو چومتے ہیں سب ہاتھ ترے اور تو ہے بڑا ہی مولانا

مت بھول کہ غافل تجھ کو بھی اک روز یہاں سے ہے جانا

کیا بکرے،نقدی،شیرینی،کیا نذر نیاز اور نذرانہ

کیا دعوت صبح و شام تری کیا مرغ مسلم روزانہ

 سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

سید محمد جعفری کے کلام میں بیشتر پیروڈیاں علامہ اقبال کے کلام سے ماخوذ ہیں مگر انھوں نے بھی نظیر اکبر آبادی کی نظم ’بنجارہ نامہ ‘ کے ایک نہایت کامیاب اور با معنی پیروڈی تخلیق کی ہے۔ظاہر ہے کہ یہاں بھی بنجارہ نامہ کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات کے مزید امکانات کو بروئے کار لاکر ایک عمدہ پیروڈی تخلیق کی گئی ہے۔یہاں دو بند       ؎

اس نفع خوری کے چکر میں تو حج کرنے جب جائے گا

پیتل جو پہن کر جائے گا سونے سے بدل کر آئے گا

کسٹم سے تو بچ کر نکلے گا اور حاجی بھی کہلائے گا

قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گرائے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

اِن دھندوں میں ِان پھندوں میں سب عمر تری کٹ جائے گی

سر پر جو یہ ہن کی بدلی ہے اک بارش میں چھٹ جائے گی

یہ دولت جھٹ پٹ آئی ہے یہ دولت چھٹ پٹ جائے گی

یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جائے گی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

نظیر اکبر آبادی کی ایک اور معروف نظم ہمارے پیروڈی نگاروں کی منظوم کاوشوں کامحورومرکز رہی ہے۔کلیاتِ نظیر میں بھی اس نظم کی خاص اہمیت ہے۔طنز و مزاح کے علاوہ تقابل و تضاد نیز فلسفیانہ ہمہ گیری نے بھی اس نظم کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے۔ اور وہ نظم ہے ’آدمی نامہ ‘۔قاضی غلام محمد نے ’نیا آدمی نامہ ‘ کے عنوان سے اس نظم کی پیروڈی تخلیق کی ہے اور اسے نئی معنوی جہات عطا کی ہیں      ؎

چہرے پہ ان کے دبکی ہوئی ایک رات ہے

ان کے لیے یہ حاصلِ کل کائنات ہے

اس سے زیادہ لطف کی یہ واردات ہے

اے دل مگر یہ کان میں کہنے کی بات ہے

داڑھی بڑھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ان کو نہ لفٹ شعر کی دیوی نے دی کبھی

ملنے جو یہ گئے تو وہ پردے میں جا چھپی

اللہ رے ان کی دست درازی کی برہمی

ساڑی ادب کی سات جگہ سے ہے پھاڑ دی

نقاد ان کو کہتے ہیں یہ بھی ہیں آدمی

مجید لاہوری کا ’ماڈرن آدمی نامہ ‘ تقسیمِ وطن کے فوراً بعد رونماہونے والے مخصوص حالات کی نقاب کشائی کرتا ہے۔مزاح کے پس منظر میں انھوں نے تیکھے طنز سے بھی کام لیا ہے۔ نیز نظیر اکبر آبادی کو خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے       ؎

وہ بھی ہے آدمی جسے کوٹھی ہوئی الاٹ

وہ بھی ہے آدمی ملا جس کو نہ گھر نہ گھاٹ

وہ بھی ہے آدمی کہ جو بیٹھا ہے بن کے لاٹ

وہ بھی ہے آدمی جو اٹھائے ہوئے ہے کھاٹ

  موٹر میں جا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

رکشا چلا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

رضا نقوی واہی کی نظم ’ پروفیسر نامہ ‘ مضحک موضوعات، متضاد خیالات اور ان تمام خصوصیات کی حامل پیروڈی ہے،جو نظیر اکبر آبادی کے ’آدمی نامہ‘ کا خاصّہ ہے۔واہی نے نہایت رواں دواں اسلوب میں اصل نظم کے ماحول اور موضوعات کو نہ صرف یہ کہ قائم رکھا ہے بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا ہے۔نیز کالجوں کے معلموں کی بے راہ روی،بے عملی اور ادبی عیاشیوں پر طنزیہ وار بھی کیے ہیں۔آدمی نامہ کی پیروڈیوں میں واہی کی یہ پیروڈی خاص اہمیت کی حامل ہے۔یہاں دو بند ملاحظہ فرمائیں :

طبعاً جو فلسفی ہے سو ہے وہ بھی لکچرر

ذہناً جو منطقی ہے سو ہے وہ بھی لکچرر

عقلاًجو مولوی ہے سو ہے وہ بھی لکچرر

سہواً جو آدمی ہے سو ہے وہ بھی لکچرر

شکلاً جو رو رہا ہے سو ہے وہ بھی لکچرر

وہ بھی کہ جس کے علم کی پونجی قلیل ہے

وہ بھی جو راہِ علم میں اک سنگِ میل ہے

وہ بھی ہے لکچرر،جو ادیب جلیل ہے

وہ بھی ہے لکچرر کہ جو خانِ خلیل ہے

جو اس کی فاختہ ہے سو ہے وہ بھی لکچرر

 دور ِ جدید کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں نظیر اکبر آبادی کی نظموں کو بروئے کار لاکے نت نئے موضوعات، مضحک صورتِ حال اور مزاحیہ واقعہ نگاری کے ذریعے ان کی فلسفیانہ اور عمومی طور پر سنجیدہ نظموں کو پیروڈی کی شکل میں پیش کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔’روٹی نامہ ‘ نظیر کی ایک اور معروف نظم ہے۔مسٹر دہلوی نے اس کی پیروڈی بعنوان ’ بیویاں ‘ کی ہے۔یہ نظم خالص مزاحیہ نوعیت کی ہے اور اس میں موضوع اور لفظی الٹ پھیر سے کام لے کر شاعر نے نت نئے مزاحیہ مرقعے تیار کیے ہیں۔ یہاں صرف ایک بند       ؎

سسرال میں جو میکے سے آتی ہیں بیویاں

سو سو طرح سے دھوم مچاتی ہیں بیویاں

کھانے مزے مزے کے پکاتی ہیں بیویاں

جینے کا جو مزہ ہے،چکھاتی ہیں بیویاں

کچھ دن تو خوب عیش کراتی ہیں بیویاں

پھر اس کے بعد خون رلاتی ہیں بیویاں

ایک اور دلچسپ اور مضحک پیروڈی کا ذکر یہاں ضروری ہے۔نظیر کی ایک نظم ’عالم پیری ‘ ہے،جس میں بڑھاپے اور اس کی مجبوریوں کا ذکر دلچسپ پیرائے میں کیا گیا ہے۔ مسٹر دہلوی نے اسی نظم کی پیروڈی ’موٹاپا ‘ کے عنوان سے کی ہے ظاہر ہے کہ موضوع یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ مسٹر دہلوی نے ہر ہر بند میں موٹاپے کی مضحکہ خیزی اور فربہ آدمی کی کسمپرسی کی داستان مزاحیہ انداز میں بیان کی ہے۔کلامِ نظیر سے استفادے کی یہ دلچسپ اور عمدہ مثال ہے۔دو بند        ؎

موٹوں کے لبوں پر ہے صدا وائے مٹاپا

اس فکر میں مرتے ہیں کہ گھٹ جائے مٹاپا

جاتا نہیں اک بار جو آجائے مٹاپا

اور جائے تو موٹے کو بھی لے جائے مٹاپا

ہر شخص کو ہوتا ہے بُرا ہائے مٹاپا

دشمن کو بھی اللہ نہ دکھلائے مٹاپا

پتلون نہیں توند پہ ٹکنے ہی کو تیار

ہر گام پہ کہتی ہے کہ ہشیار، خبر دار

اس سمت سے ٹانگوں کی مسلسل ہے یہ تکرار

 ہم مقبرہ بر دوش کہاں تک رہیں سرکار

ہر شخص کو ہوتا ہے بُرا ہائے مٹاپا

دشمن کو بھی اللہ نہ دکھلائے مٹاپا

مثالیں تو اور بھی ہیں مگر بہ خوف طوالت ان سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔مختصراً عرض ہے کہ شعرائے طنز و مزاح نے از سید محمد جعفری تا پاپو لر میرٹھی،نظیر اکبر آبادی کے کلام سے کماحقہ‘ فیض اٹھایا ہے اور اپنی پیروڈیوں کے ذریعے ان کی سدا بہار نظموں کی آب و تاب کو ماند نہیں پڑنے دیا ہے۔ چنانچہ نظیر طنزیہ مزاحیہ شاعری کی روایت میں اولاً خود اپنی شعری کاوشوں کے ذریعے اور بعد ازاں پیروڈیوں کی بدولت اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں اور کون جانے اس وقت بھی کتنے ظریف شعرا ان کی نظموں کی تحریف میں مصروف ہوں۔


Dr. Mazhar Ahmad

3358, Kucha Jalal Bukhari, Bazar Delhi Gate

Daryaganj, New Delhi - 110002

Mob.: 9212089910




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں