16/12/20

اردو میں بچوں کا تحریر کردہ ادب - مضمون نگار: آفاق عالم صدیقی


 

کچھ بچوں میں تخلیقی قوت زیادہ ہوتی ہے کچھ میں کم۔ لیکن ہوتی تمام بچوں میں ہے۔ بچے چونکہ کائنات کی تخلیق نو اور تسلسل کا دائمی حصہ ہوتے ہیں، اس لیے اس کی سرشت میں وہ سب کچھ شامل ہوتا ہے جوکائنات کی حس کہلانے کی مجاز ہوتی ہے۔ مگر ان چیزوں کو پہچاننا ان کی نشاندہی کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

یہ بات اب صاف ہوچکی ہے کہ بچے ناسمجھ اور نافہم نہیں ہوتے ہیں۔ ہاں ان میں اظہار کی طاقت کم ہوتی ہے اور ان کے پاس ایسے ذرائع نہیں ہوتے ہیں جن سے وہ اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرسکیں کہ بڑے انھیں آسانی سے سمجھ لیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسااوقات جب بچے بہت ہی سنجیدہ اظہار کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں تب بھی بزرگ انھیں شرارت پر آمادہ سمجھتے ہیں۔ یا اسے بچوں کی چہل سمجھ کر ٹال جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال سے بچوں کے حوصلے اور تخیل کی پرواز پر برا اثر پڑتا ہے۔ مگر وہ اس کا بھی معقول ڈھنگ سے اظہار نہیں کرپاتے ہیں۔ اور اگر اپنے ہی ممکنہ ذر ائع اور شعور سے کرتے ہیں تو بڑے اسے بھی غلط سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود بچے اپنی اختراعی صلاحیت کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں۔ بچوں کو حوصلہ افزا ماحول نہیں ملتاہے۔ کوئی اس کے اظہار کے کرب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ اس کی خواہش اور تڑپ کو سمجھنے پر آمادہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بعض بچے اپنے آپ کو منوا لیتے ہیں، کچھ ایسا کرجاتے ہیں کہ حیرت انگیز ہوجاتا ہے۔ علی سردار جعفری کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ قدرت نے انھیں بڑا موزوں ذہن عطا کیا تھا، شاعری کا مادہ ان کی رگ رگ میں رواں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے صرف دوسال کی عمر میں شعر کہاتھا۔ رفیعہ شبنم عابدی لکھتی ہیں:

’’سردار جعفری بچپن ہی سے شعرگوئی کا ملکہ لے کر آئے تھے۔ جب وہ دوسال کے تھے تو ان کی دوسری بہن پیدا ہوئی اور انھیں ماں کی گود سے ہٹا کر بڑی بہن زبیدہ کے سپرد کردیا گیا۔ وہ اپنی ماں سے بہت مانوس تھے اس لیے ماں سے جدائی انھیں بہت ناگوار محسوس ہوئی۔ فوراً انھوں نے اپنی توتلائی زبان میںیہ شعر پڑھا۔

اوپل سے گلی ٹھیکری بادام چھوالا   اس منی نے بھابھی کی گودی سے نکالا

(بچوں کے سردار: رفیعہ شبنم عابدی، ناشر مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،2003، ص 6)

رفیعہ شبنم عابدی صاحبہ نے سردار جعفری کا ایک اور واقعہ لکھا ہے کہ:

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سردار جعفری اپنے ہم جولیوں کے ساتھ ٹینس کھیل رہے تھے، اچانک کسی کام سے بڑے بھیا کے ایک خاص دوست تشریف لائے۔ انھیں دیکھ کر تمام بچوں نے احتراماً کھیل چھوڑ کر ان کے پاس جا کر سلام کیا۔ مگر سردار جعفری نے دور ہی سے سلام پر اکتفا کیا۔ جب بھیا کے دوست نے وجہ پوچھی تو سردار جعفری نے فوراً یہ شعر پڑھا      ؎

محروم میں نہیں ہوں سلام حضور سے

پاس ادب یہی ہے کہ مجرا ہو دور سے

یہ واقعات محض اس لیے نقل کیے گئے ہیں کہ اندازہ ہوسکے کہ بچوں میں تحریر و تقریر اور گفتار کی کتنی صلاحیت ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہ وہ اپنے ماحول اور حالات اور آس پاس کے ماحول سے کس حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

بہت ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو یہ بات ہضم نہ ہو کہ سردار جعفری نے محض دوسال کی عمر میںاپنی بات کوکلام موزوں کی شکل میں کیوں کر پیش کیا۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی دوسال کا بچہ اپنی ماں کی گود سے محروم ہو کر دکھ محسوس کرتا ہے یا نہیں۔ اگر ہم یہ بات مان لیتے ہیں اور ہمارا تجربہ ہمیں یقین دلاتادیتا ہے کہ ماں کی گود سے محروم ہونے کا دکھ ایک سال کا بچہ بلکہ ایک مہینے کا بچہ بھی محسوس کرلیتا ہے تو ہمیں یہ ماننے میں زیادہ دقت نہیں ہوگی کہ دوسال کا بچہ اپنی بات کو موزوں کلام کی شکل بھی دے سکتا ہے۔

یہ تو محض ایک مثال ہے۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات تو محض اردو شعر و ادب میں بکھرے پڑے ہیں کہ فلاں شاعر نے پانچ سال کی عمر میں فلاں شعر کہا تو فلاں مصنفہ نے اسکول کی تعلیمی زندگی کے دوران فلاں کتاب کا دوسری زبان سے ترجمہ کیا۔ اور فلاں فلاں کہانیاں لکھیں وغیرہ۔ ہماری غرض یہ نہیں ہے کہ ہم اردو زبان و ادب کی تاریخ اور عالمی ادب کی تاریخ سے چن چن کر وہ واقعات،اشعار، افسانے، اور دوسری چیزیں جمع کر کے پیش کریں جنھیںدنیا کے اہم مصنّفین نے اپنے لڑکپن میں لکھا تھا، ہماری غرض یہاں پر یہ ہے کہ ہم بچوں کے ذریعے لکھے گئے ادب کا کسی حد تک جائزہ لیں۔ اور دیکھیں کہ اردو زبان و ادب میں بچوں کے ذریعے لکھا گیاادب کتنا محفوظ اور کس پایہ کا ہے۔

اردو و زبان و ادب کا یہ بڑا المیہ کہا جائے گا کہ یہاں بچوں کے ذریعے لکھے گئے ادب پر کبھی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اور نہ ان کے ادب کو اس قابل سمجھا گیا کہ اس کا باضابطہ طور پر مطالعہ کیا جائے اور اس کی قدر و قیمت کے تعین کی کوشش کی جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ اردو میں بچوں کے رسالے اور بچوں کے ناشرین سرے سے پائے ہی نہیں جاتے ہیں۔ اردو میں آج بھی بچوں کے تقریباً ایک درجن رسالے نکلتے ہیں تو کئی اخبارات اور رسالے بچوں کے لیے صفحات مختص کرتے ہیں۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ ان رسالوں اور بچوں کے مخصوص صفحات پر بھی بڑوں ہی کی ادبی کدوکاوش نظر آتی ہے۔

کیا اردو کی جو نئی نسل ہے یا جو نئی پود ہے اس میں تخلیقی مادہ نہیں پایا جاتا ہے، یا یہ کہ نئی پودکی تخلیق کر وہ چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر ہے تو اس کے لیے مخصوص قسم کا رسالہ کیوں نہیں نکلتا ہے۔ ہر رسالہ اس کی کدوکاوش کو شائع کرنے کے لیے کچھ صفحے کیوں مختص نہیں کرتا ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں سوالات قائم کیے جاسکتے ہیں مگر صرف سوال اٹھانے سے ہی مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔ایک وقت تھا کہ پیام تعلیم ہلال، کھلونا، اور امنگ میں بچوں کی چیزیں شائع ہوا کرتی تھیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ’’مستقبل کے قلمکار‘‘کا باب سمٹ کر صرف ماہنامہ امنگ تک رہ گیا۔ اور پھر رفتہ رفتہ وہاں بھی یہ سلسلہ بند ہوگیا۔میں نے بچوں کے ذریعے لکھا گیا ادب کا بیشتر مواد ماہنامہ ’امنگ‘ دہلی سے ہی لیا۔ اس سلسلے میں ’پیام تعلیم‘ بھی کافی کار آمد ثابت ہو سکتا تھا مگر وقت کی تنگی کی وجہ سے اس کی فائلیں نہیں دیکھ پایا۔ ویسے اب وہاں بھی بچوں کی تحریریں خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بچے بھی بڑوں کی طرح اپنے ماحول اور اپنے معاشرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور اس کی اچھی اور بری چیزوں اور رویوں سے بہت حد تک آگاہ ہوتے ہیں اس لیے جب وہ نظم کہانی یا مضمون لکھتے ہیں تو ان تمام چیزوں کا اثر ان کی تحریر پر صاف نظر آتا ہے۔ کبھی اشارے کنائے میں تو کبھی علامت اور تخیل کی شکل میں، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ بچے جو اس وقت نظم یا کہانی لکھ رہے ہوتے ہیں، وہ نظم اور افسانے کے فن سے یکسر انجان ہوتے ہیں۔ وہ علامت و استعارے کے استعمال کی بات تو دور اس کی شناخت کی قابلیت سے بھی عام طور پر محروم ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ساری چیزیں یا ان میں سے بیشتر چیزیں ان کی نظم و نثر میں پیدا ہوجاتی ہیں اور ان کی نظم و نثر ان کے اظہار کا عمدہ پیمانہ بن جاتی ہیں۔ جس سے نہ صرف یہ کہ ان کے ذہن و فکر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ ماحول اور معاشرے کے تئیں ان کے رویوں سے بھی واقفیت حاصل ہوجاتی ہے۔ سب سے پہلے میں شگفتہ پروین شگفتہ جو مدرسہ ناصرالعلوم میں چوتھی جماعت کی طالبہ ہیں کی یہ نظم پیش کرنا چاہوں گا، نظم دیکھیے     ؎

گڑیا رانی! گڑیا رانی! 

کیوں ہو اتنی پانی پانی

کیا کرتی ہو گڑیارانی! 

اتنا چاول اتنا پانی!

چاول سے ہوںکھیر پکاتی 

پانی  پیتی اور پلاتی

وہ جو ہیں نا ان کی نانی  

مجھ  پر کرتی  حکمرانی

مجھ سے سارا کام کراتی       

میرا گڈا تو ہے نکما

 کرتا رہتا ہے من مانی 

مجھ کو ملتی سوکھی روٹی  

مرغ مسلم کھاتی نانی 

دن بھر پنگھٹ جاتے جاتے

  ہوجاتی ہوں پانی  پانی 

اس پر بھی میں خوش رہتی ہوں

 سن لو اے گڈو کی ممانی 

صبر کرو اے گڑیا رانی  

سچ مچ بن جائو گی رانی

(ماہنامہ امنگ: مدیر مخمور سعیدی: شریف الحسن، ص39، دہلی اردو اکادمی)

اس نظم کے چار بنیادی کردار ہیں، گڑیا، گڈا، نانی، گڈو کی ممانی، اور ان چار کرداروں کی گفتگو سے نظم ایک مکمل گھریلو اور معاشرتی ماحول کی عکاس بن جاتی ہے۔ جس میں معاشرتی زندگی کا ایک اہم پہلو پوری طرح جلوہ گر ہوجاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ چوتھی جماعت کی طالبہ نے اپنے گھریلو ماحول، سماجی زندگی، اور معاشرتی رکھ رکھائو پر بہت سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کیا ہوگا۔ اور نہ وہ فن شاعری اور نظم نگاری کی جملہ خوبیوں سے ہی واقف ہے۔ نہ وہ علامت و استعارے کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ اور غالباً وہ جانتی بھی نہیں ہے کہ لوازمات شعری اور فصاحت زبان کی باریکیاں کیا کیا ہیں۔ اس کے باوجود اس نے کھیل کھیل میں ایک ایسی نظم تخلیق کردی جس میں گھریلو زندگی کا ایک پہلو پوری طرح منور ہوگیا ہے۔ نانی اپنے نواسے کے ساتھ رہتی ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اپنے بیٹے اور بہو سے اس کی نہیں بنی، اس لیے وہ نانی سے الگ ہوگئے۔ بیٹی نے بھی بڑھیا (نانی) کو اپنے ساتھ رکھنا گوارہ نہیں کیا۔ مگر نواسے نے نانی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ نانی کو اپنے نواسے اور نواسیوں سے بہت محبت ہوتی ہے۔ بڑھیا نے گڈے (نواسے) کی شادی کردی کہ شاید اس طرح وہ سدھر جائے گا۔ اور کام کاج میں لگ جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گڑیا رانی نوکرانی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ وہ دن رات کام کرتی ہے۔ سوکھی روٹی کھاتی ہے۔ پھٹا پرانا پہنتی ہے۔ اس کے باوجود زندگی سے مایوس نہیں ہے۔ پڑوسن گڑیا رانی کادکھ سمجھتی ہے۔ وہ اس کے دل کا بھید لے کر اسے نانی کے خلاف بھڑکانا چاہتی ہے۔ بطور خاص بڑھیا کی بہو نہیں چاہتی ہے کہ گڑیا رانی اور نانی امن و سکون سے زندگی گزاریں۔ اگر وہ لوگ امن و امان سے زندگی گزارنے میں کامیاب ہوجائیں گی تو پڑوسنیں انھیں برا بھلا کہیں گی۔ اور سارا الزام بہو پر آئے گا۔ کہنے والے کہیں گے کہ اگر بڑھیا خراب ہوتی تو گڑیا رانی اس کے ساتھ کیوں کر گزر بسر کرپاتی۔ اس لیے وہ راہ میں روک کر گڑیا رانی کا احوال پوچھتی ہے۔ گڑیا رانی اپنی پریشانی کا ذکر کرتی ہے۔ مگر اخیر میں ایسی بات کہتی ہے جس سے گڈو کی ممانی لاجواب ہوجاتی ہے اور وہ گڑیا رانی کو دعا دینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ آخری حصہ دیکھیے     ؎

دن بھر پنگھٹ جاتے جاتے 

ہوجاتی ہوں پانی پانی

اس پر بھی میں خوش رہتی ہوں 

سن لو اے گڈو کی ممانی

صبر کرو  اے  گڑیا  رانی 

سچ مچ بن جائو گی رانی

ہم نے دیکھا کہ ایک بچی کی بظاہر بے ضرر اور نہایت ہی ہلکی پھلکی نظم میں زندگی کی مثبت قدروں کو بحال رکھنے اور منفی رویوں کو رد کرنے کی کتنی زبردست بصیرت پائی جاتی ہے۔ اور یہ بھی کہ اس چھوٹی سی نظم میں سماجی اور گھریلو تعلقات و تضادات کی کتنی تصویریں بکھری پڑی ہیں۔ مگر ہم اپنی ہمہ دانی کے زعم میں بچوں کے لکھے ادب کو کسی بھی طرح زیادہ اہمیت دینے پر راضی نہیں ہیں۔ بچے بڑوں کی طرح ہی اپنے ماحول سے اثر لیتے ہیں۔ اور سماجی شعور حاصل کرتے ہیں۔ بچے جس ماحول میں رہتے سہتے ہیں اس کے تمام تر اچھے برے پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں۔ اور حتی المقدور اس سے متعلق رائے بھی قائم کرلیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ لوگ ان سے ان کی رائے جاننا ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر بچوں کو اچھا ماحول اور اچھی تربیت نہیں مل پاتی ہے۔ مائل خیرآبادی لکھتے ہیں:

’’ہمارے معاشرے میں مائیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور جو کچھ شد بد رکھتی بھی ہیں تو انھیں بچوں کی تربیت کا سلیقہ نہیں ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ بچے وہ کچھ سنتے اور سیکھتے ہیں جو انھیں ماحول سکھاتا ہے۔‘‘ (تربیتی کہانیاں: مائل خیرآبادی، ناشر مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ص3)

ماحول سے بچوں کو جو کچھ ملتا ہے اسے وہ اپنے شعور اور ادراک کے مطابق جذب کرلیتے ہیں۔ یا پھر رد کردیتے ہیں۔ آج بھی گائوں گھر کا ماحول پہلے ہی کی طرح گھٹا ہوا ہے۔ بچوں کو آج بھی مائیں دادیاں اس طرح کی باتیں اور واقعات سناتی رہتی ہیں جس سے بچوں کی ذہن سازی بہتر طریقے سے نہیں ہوپاتی ہے۔ بالخصوص گھر کی عورتیں بچوں کو بھوت، چڑیل کے قصے اور سوتیلی ماں کے ظلم کے واقعات سنایا کرتی ہیں۔ جس سے بچوں کا ذہن خراب ہوتا ہے۔

زمانہ بدل چکا ہے۔ بچے پہلے کی بہ نسبت زیادہ باشعور ہوچکے ہیں۔ اب وہ خود بھی ماحول، سماج، تفریح، خوشی، غم، موسم اور مناظر سے متعلق خیالات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔

ماہنامہ امنگ دہلی فروری 1990میں شمع پروین کی دو نظمیں ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ پہلے نوٹ ملاحظہ کیجیے پھر نظم دیکھیے:

’’شمع پروین کا تعلق دلی کے پسماندہ علاقے شکور پور سے ہے۔ زندگی کی کئی سہولیات سے محروم اس بچی کو خدا نے شاعری کی بے پناہ صلاحیت سے مالا مال کیا ہے۔ بارہ سالہ پروین جب تیسری جماعت میں تھی تبھی سے شاعری کر رہی ہے چوں کہ اس کی تعلیم ہندی میں ہو رہی ہے، اس لیے اسی زبان میں شاعری کرتی ہے۔ ‘‘

شاعری سے اس بچی کی رغبت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ فی البدیہہ موضوع پر یہ فرفر نظمیں لکھ سکتی ہیں پیش ہیں اس کی دو ایسی ہی نظمیں‘‘

(شریف الحسن نقوی: مخمور سعیدی: مدیر ماہنامہ امنگ۔ فروری 1990، دہلی اردو اکادمی)

نظم دیکھیے     ؎

نظم(1) تارے بھائی تارے

تارے بھائی تارے

کھیلو سنگ ہمارے

پھولوں کے باغوںمیں آؤ  

تم اپنا کھیل دکھاؤ

تھوڑا ہم کو سکھلاؤ  

آسمان میں چمکتے ہو

ہیرے جیسے  لگتے  ہو 

 چندا کو بھی سنگ میں لاؤ

تم ہم کو خوش کرجاؤ

تارے بھائی تارے

نظم(2) سہانا موسم

کلی کلی کھل اٹھی 

ہر چمن سگندھت ہوا

مست پون چلی تو 

ساگر بھی جاگ اٹھا

چھائیں کالی گھٹائیں 

چلنے لگیں  ہوائیں

کوئل بولی کوک کوک کر 

مور ناچا جھوم جھوم کر

ایسا کون  ہے   ویکتی  

جو یہ دیکھ کر نہ جھوم اٹھے

بظاہر بڑی سادہ سی نظمیں ہیں یہ دونوں مگر غور کیجیے تو محسوس ہوگا کہ ایک بارہ سال کی لڑکی فطرت کے حسن سے کتنے گہرے طور پر وابستہ ہے اور اس سے کس طرح زندگی کا رس اور جس حاصل کر رہی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنی کیفیت کے اظہار پر بھی قدرت رکھتی ہے۔ اور ہلکے پھلکے الفاظ کو استعارے کے طور پر استعمال کر کے زندگی کے نغمہ جانفزا میں ڈھال دیتی ہے۔

اسی طرح کی ایک نظم صفیہ بانو سبطین کی ہے۔ نظم دیکھیے      ؎

چلیں ہم چلیں اب

ندی کے کنارے

بلاتے ہیں ہم کو

یہ دلکش نظارے

یہ پھولوں کے پودے

بڑے دل ربا ہیں

یہ گاتے پرندے

بہت خوشنما ہیں

یہ موسم سہانا

دلوں کو لبھائے

یہ منظر سہانا

ہمیں گدگدائے

چلو ہم چلیں اب

ندی کے کنارے

بلاتے ہیں ہم کو

یہ دلکش نظارے

(ماہنامہ امنگ، جولائی1991،ص4، دہلی اردو اکادمی دہلی، مدیر شریف الحسن نقوی)

یہ بچی جو اپنی عمر کے تیرہویں سال میں داخل ہو رہی ہے، فطرت کی آواز سننے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اپنے آس پاس کے ماحول اور مناظر کی لفظوں میں تصویر اتار سکتی ہے۔

ماہنامہ امنگ میں فارحہ رضوی کی دو نظمیں ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئیں تھی۔ ملاحظہ ہو:

’’فارحہ رضوی معروف اردو شاعر جناب زبیر رضوی کی دختر ہیں، یہ ان دنوں لیڈی ارون ہائر سکنڈری اسکول نئی دہلی میں نویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ بہت چھوٹی عمر سے سات آٹھ سال کی رہی ہوں گی۔ شاعری سے رغبت ہوگئی۔ شروع میں انگریزی نظموں کا ترجمہ کر کے گھر میں سنا کر خوش ہولیتی تھی۔ اس طرح ان کے پہلے سامع ماں باپ ہیں۔ اب طبع زاد نظمیں بھی کہہ لیتی ہیں، انھوں نے ہماری گزارش پر یہ دو نظمیں اشاعت کے لیے دی ہیں۔‘‘

نظم (1) ہمارے دوست

ملتا نہیں سکوں

کرتے ہیں آرام

ہل چل سی رہتی ہے  

دل میں صبح و شام

خوابوں میں بس یہی  

اس کے سوا کام نہیں

پا لیا اگر اسے تو 

بڑھ کے اس سے

اور کوئی انعام نہیں 

یہ ہے تو مستقبل

راہیں ہیں منزل  ہے

  کہتے ہیں سب جس کو

ہوم ورک اور پڑھائی 

لگتی ہے اس کے بنا

عجب ہم  کو   تنہائی  

نظم (2)   میری گڑیا

ننھی منی  گڑیا  میری  

رنگ برنگے کپڑے پہنے

سونے اور چاندی کے گہنے  

پہنے  ناچے گائے گڑیا

میری گڑیا بڑی  سیانی   

اصلی گھی کی چیزیں کھاتی

نقلی گھی کے پاس نہ آتی  

ہے چنچل  سی میری گڑیا

بڑی بڑی سی آنکھوں والی   

چھوٹے چھوٹے دانتوں والی

گورے گورے گالوں والی   

جب چاہوں وہ بن جاتی ہے

میرے کہنے سے اک بڑھیا  

پیاری  پیاری  میری گڑیا

(فارحہ رضوی، ماہنامہ امنگ، فروری 1990،ص38، دہلی اردو اکیڈمی، مدیر مخمور سعیدی، شریف الحسن نقوی)

ان دونوں نظموں سے جہاں فارحہ رضوی کے تخلیقی وفور اور زندگی سے متعلق گہرے شعور کا پتہ چلتا ہے وہیں نظم کی شاعرانہ فضا سے ان کی فنکارانہ ہنرمندی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ انھوں نے جس خوبی اور بصیرت سے نظم کی تعمیر کی ہے اور اسے انجام تک پہنچایا ہے اس سے ان کے فن شناس ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ان کی ایک اور نظم ہے ’سنہرا سپنا‘جو اپنے موضوع، مواد اور معنویت کے اعتبار سے ان دونوں نظموں سے زیادہ قابل توجہ ہے۔ نظم دیکھیے    ؎

آئی پیاری پیاری رات  

لائی تاروں کی بارات

لے کے چندا ماما  سات  

لائیں نیندیں خواب سنہرے

میں نے دیکھاخواب سنہرا 

میں گئی  امریکہ افریقہ

دیکھے کالے گورے  بچے  

مل کر سب نے گیت یہ گایا

دھرتی پر یوں جئیں مہکے 

ڈالی ڈالی پنچھی چہکے

ہم سب امریکی  افریقی 

ہندوستانی ہوں یا روسی

بچے ایک ہیں سب دیشوں کے

  میرا خواب اچانک  ٹوٹا

آیا سورج لے کے سویرا    

(فارحہ رضوی، ماہنامہ امنگ، ستمبر1988، ص95، دہلی اردو اکیڈمی، مدیر مخمور سعیدی، شریف الحسن نقوی)

اس نظم میں آدمیت اور انسانیت و مساوات کا جو پیغام ہے وہ اظہرمن الشمس ہے۔

طارق ضیا صدیقی جے ڈی ٹائٹلر اسکول دہلی کے نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ انھوں نے انگریزی نظم If I Knew The Box سے متاثر ہو کر ایک نظم لکھی ہے جو امنگ اکتوبر 1988 کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ نظم دیکھیے     ؎

کاش کبھی سچ ہو یہ سپنا

آؤ ساتھی ہم تم  مل کر  

ڈھونڈھ نکالیں آج وہ ڈبہ

جس میں خوشیاں اور  مسکانیں

  قہقہے اور سکھ بند پڑے ہیں

بکس ہو چاہے کتنا ہی بھاری  

اور  تالا کتنا ہی بڑا ہو

توڑ کے ہم اس بکس کا تالا  

ساری  خوشیاں اور مسکانیں

بانٹ دیں سارے جگ والوں کو

   سکھ سے سب کی جھولی بھردیں

دے دیں ہنسی سب کے چہروں کو   

اور اگر  ممکن  ہو تو ساتھی

سب کے دکھوں اور سب کے اشکوں کو

     بھردیں  ہم  اس بکس میں لا کر

ایک بڑا سا  تالا  ڈالیں  

اور اس تالے کی کنجی کو

جا کر ہم دریا میں  بہادیں  

تاکہ کبھی پھر کوئی اس کو

جتنا بھی چاہے کھول  نہ پائے

  جگ میں پھر کوئی نہ دکھی ہو

کوئی انسان رہے  نہ  بھوکا  

کوئی کسی سے بھیک نہ مانگے

کوئی ہو نوکر  کوئی  نہ  آقا   

کوئی  نہ ہو بے گھر اور مفلس

اور نہ کسی کے خون کا پیاسا  

کوئی نہ جاڑے سے مرتا ہو

کوئی پھرے نہ سڑکوں  پہ ننگا  

 ہر اک کے چہرے پہ ہنسی ہو

خوشیوں میں ہو سب کا حصہ 

کاش کبھی ایسا ہو ساتھی

   سچ  نکلے  اپنا  یہ  سپنا   

افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلے ماہنامہ امنگ میں بچوں کی چیزیں اہتمام سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ مدیران ان پر نوٹ لگایا کرتے تھے۔ نیز محنت کر کے بچوں کی چیزوں کی نوک پلک درست کرتے تھے اور اس کی اشاعت کا اہتمام کرتے تھے۔ مگر اب وہاں بھی بچوں کی چیزیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ ماہنامہ ’’ھلال‘‘ میں اب بھی سال دو سال میں نئے قلمکار، یا ننھے منے قلمکار، کے عنوان سے چند چیزیں شائع ہوتی ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ اس قسم کی اشاعت آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ماہنامہ ’گلشن اطفال‘نے بھی اس روایت کو زندہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ ہاں کبھی کبھی اس رسالے میں بھی ننھے منے قلمکاروں کی اکا دکا چیزیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ بچے صرف نظمیں لکھتے ہیں۔ کہانیاں نہیں لکھتے ہیں۔ یا یہ کہ کہانیوں سے ان کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ وہ کہانیاں بھی لکھتے ہیں، مگر ان کی کہانیاں کم چھپتی ہیں۔ اس کی وجہ غالباً مدیروں کی مصلحت ہے کہ کہانی زیادہ جگہ گھیرتی ہے جب کہ نظمیں کم جگہ لیتی ہیں۔اس کے باوجود بچوں کی کہانیاں ’امنگ‘، ’پیام تعلیم‘ اور ’ہلال‘ میں بکھری پڑی ہیں۔ شگفتہ عارفین کی کہانی ’’عقل مند کون‘‘ محمد فیض احمد عارف کی کہانی، لالچ کا پھل، سمیرہ حسن کی کہانی ’شامت اعمال‘ زین العابدین کی کہانی ’غرور کا انجام‘ اور نصر عزیز انجم کی کہانی ’اصلی رشتے دار‘ ماہنامہ امنگ کے مختلف شماروں میں شائع ہوچکی ہیں۔

ماہنامہ گلشن اطفال بھی وقتاً فوقتاً نئے قلمکار کے تحت نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کچھ چیزیں چھاپتا ہے مگر تسلسل کے ساتھ نہیں۔

تلاش بسیار کے بعد مجھے ایک کتاب ایسی ملی جو آٹھویں جماعت کے بچے کے ذریعے لکھے گئے واقعات اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب ’’اچھا سلوک‘‘ کو کلاسک آرٹس آزاد مارکیٹ دہلی نے شائع کیا ہے۔ امتیاز علی صاحب اس کے مصنف ہیں، کتاب کی ابتدا میں ’’پہلے اسے پڑھیے‘‘ کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں کہ:

’’روزنامہ مشرق، لاہور میں بچوں کے صفحے کے لیے اسلامی و تاریخی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ میں نے 1974 میں شروع کیا تھا اس وقت میں بھی بچہ تھا۔ اور آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ 1974سے 1978 تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اس عرصے میں سیکڑوں کہانیاں لکھیں۔ اس کتاب میں شامل تمام کہانیاں انھیں میں سے چند ایک ہیں ان کی زبان و بیان میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی گئی کہ یہ ایک بچے نے اپنے ساتھی بچوں کے لیے لکھی تھیں۔‘‘  (امتیاز علی: اچھا سلوک، ص3، 1994 کلاسک آرٹس آزاد مارکیٹ دہلی)

 بچوں میں تخلیقی اظہار کی بڑی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ ضرورت بس اس بات کی ہے کہ بچوں کو اظہار کا اور تقریر و تحریر کا موقع فراہم کیا جائے۔ تاکہ ان کے اندر کی صلاحیت نکھر سکے۔


Dr. Afaque Alam Siddiqui

Zubaida Degree College, Jai Nagar

Post Box No:6, Shikaripur

Shimoga - 577427 (Karnataka)

Mob.: 9945462187


ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں