16/12/20

اردو کے اہم محققین - مضمون نگار: محمد راشد اقبال

 



اردو میں تحقیق کا آغاز تذکروں سے ہوتا ہے۔ تذکروں میں اولیت کا شرف میر تقی میر کی کتاب ’نکات الشعرا‘ کو حاصل ہے۔ ’نکات الشعرا‘در اصل اردو شعرا کاسب سے پہلا تذکرہ ہے،جو فارسی زبان میں ہے۔ ’نکات الشعرا‘ کے بعد یکے بعد دیگرے کئی تذکرے( مثلاً حمید اورنگ آبادی کا ’گلشن گفتار‘ فتح علی گردیزی کا ’ریختہ گویاں‘ قیام الدین قائم چاندپوری کا ’مخزن نکات‘ لچھمی نرائن شفیق کا ’چمنستان شعرا‘ مرزا علی لطف کا ’گلشن ہند‘ وغیرہ) منظرعام پر آئے۔اس سلسلے کی آخری کڑی محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ ہے جسے ہم روایتی تذکرے سے بڑھ کر اردو ادب کی تاریخ بھی قرار دے سکتے ہیں۔

انیسویں صدی  کے وسط میں سر سید احمد خاں کی کتاب ’آثارالصنادید‘منظرعام پر آئی۔ یہ اردو کی غالباً پہلی کتاب ہے،جس میں تحقیق کا اچھا نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ انیسویں صدی ہی کے اواخر میں اردو ادب کے عناصر ثلاثہ حالی، شبلی اور آزاد کی تحقیقی کاوشیں منظر عام پر آنے لگیں۔حالی نے ’یادگار غالب‘، ’حیات جاوید‘ اور ’حیات سعدی‘ لکھی۔شبلی، حالی کے بعد دوسرے بلند پایہ سوانح نگار سمجھے جاتے ہیں۔ان کے علمی کارناموں میں ’شعر العجم‘ نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ ’’یہ ان کی بلند پایہ اور معرکہ آرا ادبی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انھوں نے اپنے حاصل شدہ مواد کو ترتیب دے کر سلیقے اور دلکشی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ’شعرالعجم‘ کے علاوہ شبلی کی اکثرو بیشتر کتابوں کا موضوع سیرت وسوانح ہے۔محمد حسین آزاد ؔکی  ’آب حیات‘ کو زبان وبیان کے اعتبار سے اردو ادب میں بلند مقام حاصل ہے۔

حالی، شبلی اور آزاد کے بعد اردو میں تحقیق کو مزید فروغ دینے کا کام مولوی عبدالحق  نے کیا۔ انھوں نے  دکنی متون کو بڑی ہی محنت و جانفشانی کے ساتھ مرتب کر کے شائع کیا۔ وجہی کی’سب رس‘ کی ترتیب  وتدوین آپ کا اہم تحقیقی کارنامہ ہے۔آپ نے اس کتاب کو شائع کر کے ایک اہم سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ دکنیات سے متعلق کتابوں میںنصرتی کی مثنوی’گلشن عشق‘،وجہی کی ’قطب مشتری‘، خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی طرف منسوب ’معراج العاشقین‘،کو بھی مرتب کر کے شائع کیا۔   

اس کے علاوہ انھوں نے شعرائے اردو کے تذکروں میں چمنستان شعرا،مخزن نکات، تذکرہ ریختہ گویاں، تذکرۂ ہندی، ریاض الفصحا،عقد ثریا، نکات الشعرا وغیرہ کو دریافت کیا اور انھیں مرتب کر کے شائع کیا۔ دکنیات اور اردو شعرا کے تذکروں کے علاو ہ  انھوں نے شعرا کے دواوین میں خواجہ میر اثر کا ’دیوان اثر‘اور میر عبدالحی تاباں کا ’دیوان تاباں‘کو بھی مرتب کر کے شائع کیا۔

بیسویں صدی تحقیق کے لیے کافی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اس صدی میں مولوی عبدالحق نے نہ صرف تحقیق کے لیے فضا قائم کی،بلکہ انھوں نے اس کے لیے ذہنوں کو بھی ہموار بھی کیا۔جس کی وجہ سے اس صدی میں تحقیق کے عمدہ نمونے منظر عام پر آئے۔یہاں چند محققین کا اجمالی تعارف پیش کیا جارہا ہے۔

حافظ محمود شیرانی

حافظ محمود شیرانی کو تحقیق کا معلم اول سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے تحقیق کو ایک مستقل موضوع کی حیثیت عطا کی۔آپ اردو میں تحقیق کے لیے روایت ساز کی حیثیت رکھتے ہیں۔

شیرانی صاحب کی تحقیقی زندگی کا آغاز 1920 سے شروع ہو کر زندگی کے آخری ایام تک جاری رہتا ہے۔ انھوں نے اصول تحقیق پر اگر چہ کوئی کتاب نہیں لکھی،لیکن اصول تحقیق اور طریقۂ کار کی تفصیلات ان کے مختلف مقالوں سے مرتب کی جاسکتی ہیں۔ انھوں نے تحقیق کے لیے جو خاکہ بنایا اور جس طرح اس میں رنگ آمیزی شروع کی تھی،اور جو طریقۂ کار اختیار کیاتھا،اس کے بعد بھی اسی طریقۂ کار کی پیروی کی گئی۔

تحقیق کے طریقۂ کار میں جو اجزا اہمیت کے حامل ہیں،ان میں ایک داخلی شواہد کا تعین بھی ہے۔ داخلی شواہدکا مطلب یہ ہے کہ کسی کتاب میں جو واقعہ بیان کیا جائے، اس وقت تک معتبر نہیں مانا جاتا،جب تک کہ دوسروں کی شہادت نہ مل جائے۔شیرانی صاحب نے داخلی شواہد کو متعارف کرانے کے ساتھ داخلی شواہد کی بنیاد پر تحقیق کی روایت کو آگے بڑھایا۔

شاہنامہ فردوسی‘ جوساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں فردوسی سے متعلق جو باتیں عام تھیں، شیرانی صاحب نے داخلی شواہد کی بنیاد پر حقیقت پر سے پردہ اٹھایا۔ انھوں نے ’شاہنامہ فردوسی ‘سے متعلق باتوں کو ’فردوسی پر چار مقالے‘ میں پیش کر کے وہ کارنامہ انجام دیا ہے،جس سے اہل ایران بھی قاصر تھے۔

لسانی تحقیق سے متعلق آپ کا بے مثال کارنامہ ’پنجاب میں اردو‘ہے۔ اس کتاب میں آپ نے اردو زبان کی قدامت پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص ان مسائل پر جن کی رو سے پنجاب کو اس زبان کی ابتدا اور اس کی نشونما کا گہوارہ مانا جا سکے۔

آپ کے کارناموں میں قدرت اللہ قاسم کا تذکرہ ’مجموعۂ نغز‘بھی ہے۔ ’ مجموعۂ نغز‘کا واحد نسخہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری،لاہور میں محفوظ تھا۔آپ نے اسے بڑی دیدہ ریزی کے ساتھ ترتیب دے کر شائع کیا۔ ’مجموعۂ نغز‘ کی روشنی میں آپ نے محمد حسین آزاد کی کتاب ’آب حیات‘ میں جہاں جہاں لغزش ہوئی تھی،اس کی نشاندہی کی ہے۔ ’ مجموعۂ نغز‘کی ترتیب آپ کا وہ لازوال کارنامہ ہے،جس کو اگر آپ نے انجام نہیں دیا ہوتا تو شاید ’ مجموعۂ نغز‘ دنیا سے ختم بھی ہو گیا ہوتا۔

آپ نے شبلی کی’شعر العجم‘ کے جواب میں’تنقید شعر العجم‘ لکھ کر یہ واضح کیا کہ شبلی نے سوانح سے متعلق جو  تذکرہ لکھا ہے،یا تاریخ کے بارے میں جو بتایا ہے، ان میں تحقیق سے متعلق اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔  آپ نے’تنقید برائے آب حیات‘ لکھ کر یہ واضح کیا کہ جس طرح شبلی ’ شعر العجم‘میں سوانح  سے متعلق معتبر نہیں ہیں، اسی طرح محمد حسین آزاد بھی ’آب حیات‘ میں معتبر نہیں ہیں۔

امیر خسرو کی طرف منسوب ’خالق باری‘ کے بارے میں پہلی بار آپ نے داخلی شواہد کی بنیاد پر یہ بتایا کہ یہ کتاب امیر خسرو کی نہیں ہے،بلکہ ضیاء الدین خسرو کی ہے۔اس سلسلے میں آپ نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ اس کتاب میں تمباکوکا ذکر آیاہے،جب کہ تمباکو پرتگالیوں کے ذریعے اکبر کے زمانے میں ہندوستان آیا۔

پرتھی راج راسا‘ کے بارے  میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ کتاب چندر بردائی کی تصنیف ہے، جو دہلی کے راجہ پرتھوی راج چوہان کا درباری شاعر تھا۔ اسی بنا پر اس کتاب کو دیسی زبانوں میں سب سے قدیم کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے۔ آپ نے داخلی شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ یہ کتاب بہت بعد کی ہے،یعنی سولہویں صدی کے نصف آخر کی یادگار ہے۔

حافظ محمود شیرانی دراصل بے لاگ،بے لوث اور غیر جانب دار محقق تھے۔انھوں نے پہلی بار تحقیق کو اس طریقہ ٔ کار سے روشناس کرایا۔درحقیقت ان میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں ِجو ایک محقق کے لیے لازمی خیال کی جاتی ہیں۔ حافظ محمود شیرانی کے بارے میں ڈاکٹر خلیق انجم رقم طراز ہیں:

’’قاضی عبدالودود سے قبل اردو محققین میں اہم ترین نام حافظ محمود شیرانی کا ہے۔حافظ محمود شیرانی 5اکتوبر 1880 کو اور قاضی عبدالودود 8مئی 1896 کو پیدا ہوئے تھے۔گویا حافظ محمود شیرانی قاضی صاحب سے پندرہ سولہ سال بڑے تھے۔شیرانی مرحوم کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ مبالغہ نہ ہوگا اگر میں کہوں کہ شیرانی صاحب نے تحقیق سے متعلق جو علوم حاصل کیے تھے،وہ کسی اور محقق کو نصیب نہیں ہوئے‘‘ 1

  قاضی عبد الودود

قاضی عبدالودود نے تحقیقی طریقہ ٔکار میں حافظ محمود شیرانی کی روایت کو ہی آگے بڑھایا۔ان کے تحقیقی طریقہ ٔ کار میں یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ ہمیشہ غیر جانب دارانہ اور دو ٹوک باتیں کہنے کی کوشش کرتے ہیں،خواہ ان کے آباؤ اجدادہی پر حرف کیوں نہ آجائے،یا احباب ومتعلقین ناراض ہی کیوں نہ ہو جائیں۔

قاضی صاحب کا حافظہ بہت مضبوط تھا،لیکن انھوں نے حافظے کی  بنیاد پر کبھی کوئی بات نہیں کہی۔ وہ ماخذاور ثبوت کی اہمیت سے خوب واقف تھے۔اس لیے ہمیشہ اصل ماخذاور ثبوت کے بغیر حتمی طور پر کوئی بات کہنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔

غالب سے متعلق قاضی صاحب کی تحریریںعلی گڑھ میگزین 1948-49 کے غالب نمبر میں شائع ہوئیں۔ اس میگزین میں انھوں نے اپنے مضمون ’غالب کا ایک فرضی استاد‘ میں انیس دلائل پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص غالب کے سوا عبدالصمد سے ذاتی واقفیت کا مدعی نہیںہے۔ اس لیے عبد الصمدکا کوئی وجود نہیں ہے،بلکہ یہ فرضی ہے۔

خواجہ احمد فاروقی کی کتاب’میر تقی میر: حیات اور شاعری‘ پر قاضی صاحب کا نہایت مفصل تبصرہ شائع ہوا۔ اس تبصرے میں انھوں نے سخت اعتراضات کیے،اور ایک جگہ لکھا ہے کہ اصل ماخذاگرموجود ہوں تو ان سے ہی کام لینا چاہیے۔مصنف نے اس قاعدے کو بہت جگہ بے سبب نظر انداز کیا ہے۔

نورالحسن ہاشمی کی کتاب ’دلی کا دبستان شاعری‘ ابواللیث صدیقی کی’لکھنؤ کا دبستان شاعری‘ اور اختر اورینوی کی ’بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقا‘ پر بھی انھوں نے شرح وبسط کے ساتھ اظہار خیال کیا،اور ان کتابوں میں مصنّفین سے جو سہو ہوا ہے،اس کی طرف توجہ مبذول کروائی۔

اس کے علاو ہ ا نھوںنے ’آوارہ گرد اشعار‘کے تحت سیکڑوںاشعار جن کی نسبت ایک سے زیادہ شاعروں کی طرف کی جاتی ہے،شواہد کی بنیاد پر شاعر کا نام دریافت کیا نیز’ تعین زمانہ‘ عنوان کے تحت مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا۔جس میں انھوں نے شعرائے اردو وفارسی کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات سے متعلق بحث کی ہے، اور شواہد کی بنیاد پر ان کی صحیح تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کا تعین کیا ہے۔ مصحفی اور ان کے اہم معاصرین کا جائزہ پیش کیا۔ ’تذکرہ ابن امین اللہ طوفان ‘ اور’قاطع برہان‘ کی اشاعت اور ’مآثر غالب‘ کی تدوین واشاعت قاضی صاحب کے اہم کارنامے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کے ادبی کارناموں میں جریدہ ’معاصر،‘ ’معیار‘اور’ تحقیق‘ کا اجرا بھی ہے۔ قاضی صاحب کی تحریروں اوران کی تحقیق نے اردو میں تحقیق کے معیار کو بلندکرنے میں اہم رول ادا کیاہے۔قاضی عبدالودود کے بارے میں رشید حسن خاں رقم طراز ہیں:

’’شیرانی صاحب سے جس روایت کا آغاز ہوا تھا، قاضی صاحب نے متعدد اضافوں کے ساتھ اس کی توسیع کی،اس فرق کے ساتھ کہ شیرانی صاحب کی توجہ کا بڑا حصہ فارسی ادب پر صرف ہوا تھا،اس کے مقابلے میں قاضی صاحب کی بیشتر نگارشات کا تعلق اردو زبان اور ادب سے ہے‘‘   2

امتیاز علی خاںعرشی 

مولانا امتیاز علی خاں عرشی کا شمار صفِ اول کے محققین میں ہوتا ہے۔ آپ نے تحقیق اور تدوین متن میں گراں قدر کارنامے انجام دیے،اور اپنی ا دبی کاوشوں کو تحقیق کے لیے وقف کردیا۔ آپ کی تحقیق کا دائرہ اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں کی ا دبیات سے متعلق ہے۔ مستقل تصانیف کے علاوہ بہت سے علمی و تحقیقی مقالات بھی آپ کی یادگار ہیں۔

اردو ادب میں آپ کا نام ماہرِ غالبیات کی حیثیت سے سرِ فہرست ہے۔ آپ نے غالبیات کے شعبے میں نت نئے اضافے کیے، جن میں مکاتیب غالب، انتخاب غالب، فرہنگ غالب اور دیوان غالب (نسخۂ عرشی) شامل ہیں۔ آپ نے تحقیق وتدوین میں تاریخی ترتیب کا جو التزام کیا ہے،وہ تحقیق کے باب میں ایک سنہرا اضافہ ہے۔

آپ نے کثیر تعداد میں علمی وتحقیقی مضامین ومقالات بھی لکھے، جو مختلف رسائل ومجلات میں شائع ہوئے۔ 1970 میں آپ کے مقالات کا ایک مجموعہ ’مقالات عرشی‘ کے نام سے مجلس ترقی ادب،لاہورکی جانب سے شائع ہوا۔ مضامین و مقالات کے علاوہ آپ نے دوسروں کی نادرو نایاب تصانیف کو عالمانہ مقدمہ اور محققانہ حواشی کے ساتھ ترتیب دینے کا اہم کارنامہ انجام دیا۔

عرشی صاحب نے تنہا غالب ہی پر جو کچھ لکھا ہے وہی ان کو شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ دینے کے لیے کافی ہے، مگر ان کے ذوق کے تنوع اور طبیعت کی رنگا رنگی نے انھیں کسی ایک ہی وادی میں محصور نہیں رکھا، بلکہ ان کے قلم کی گلکاریوں کے نمونے ایک سے بڑھ کر ایک تینوں زبانوں اردو، فارسی اور عربی میں منظر عا م پر آئے۔

ان کے تحقیقی کارناموں میں ایک اہم اور خاص کارنامہ’نادرات شاہی‘کی ترتیب واشاعت ہے۔یہ کتاب مغلوں کے سولہویں فرمانروا شاہ عالم ثانی آفتاب (1728-1806) کے اردو،فارسی،ہندی اور پنجابی کلام پر مشتمل ہے۔عرشی صاحب نے اسے ترتیب دے کر 60 صفحات پر مشتمل مبسوط دیباچے اور آخر میں 17 صفحات پر مشتمل ’اختلاف الفاظ‘ اور ’اشاریہ‘ (اشخاص و مقامات) لکھ کر شائع کیا۔اس کے علاوہ انھوں نے اردو زبان وادب کے قواعدسے متعلق حکیم سید احد علی خاں یکتا لکھنوی کی کتاب’دستور الفصاحت‘ کے علاوہ فارسی میں ’وقائع عالم شاہی‘، ’تاریخ محمدی‘، ’تاریخ اکبری‘ معروف بہ تا ریخ قندھاری وغیرہ کو بھی مرتب کر کے شائع کیا۔

عرشی صاحب کے کارناموںمیں ایک بڑا کارنامہ امام سفیان ثوری ( متوفی161ھ) کی تفسیر القرآن الکریم کی ا شاعت بھی ہے۔ یہ تفسیر ناپید تھی۔ اکثر لوگوں کو اس کے وجود کابھی علم نہیں تھا،لیکن عرشی صاحب نے رضا لائبریری میں اس کا ایک ناقص نسخہ ڈھونڈ نکالا اورا سے اپنے عالمانہ مقدمے اور محققانہ حواشی سے مزین کرکے 1965 میں شائع کیا۔یہ سورہ بقرہ تا سورہ طور کی تفسیر پر مشتمل ہے۔

رشید حسن خاں مولانا امتیاز علی خاں عرشی کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’اردو میں جس طرح ادبی تحقیق کے روایت ساز شیرانی صاحب ہیں،اسی طرح تدوین کی روایت اپنی معیاری اور مثالی شکل میں مولانا امتیاز علی خاں عرشی کی مرہون ہے۔عرشی صاحب نے جو کام کیے،ان کاموں نے تدوین کے اصولوں کو اور طریق کار کو روشناس کرایا۔ ان کی مرتبہ کتابوں میں مکاتیب غالب، دستورالفصاحت، تاریخ محمدی،ارو دیوان غالب،یہ کتابیں معیاری اور مثالی حیثیت رکھتی ہیں‘‘  3

 مالک رام

مالک رام کا شمار اہم محقق ومدون کی حیثیت سے ہوتا ہے۔انھوں نے اپنی تصنیفات و تالیفات سے اردو ادب میں معتد بہ اضافے کیے،اور اپنے تحقیقی وتنقیدی مضامین سے اردو ادب میں ایک خاص مقام حاصل کیا لیکن علمی وادابی دنیا میںآ پ کی شہرت غالب شناسی سے زیادہ ہوئی۔

مالک رام کی غالبیات سے متعلق پہلی اور اہم تصنیف’ ذکر غالب‘ ہے۔اس میںانھوں نے غالب کے حالات زندگی کو محققانہ اندازمیں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سپرد قلم کیا ہے۔اب تک اس کتاب کے پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں،اورہر ایڈیشن پہلے کے مقابلے زیادہ مواد کے ساتھ منظر عام پر آیا۔

غالبیات سے متعلق مالک رام کی دوسری تصنیف ’تلامذۂ غالب‘ ہے۔اس میں غالب کے 181 شاگردوں کے حالات اور ان کے کلام کا انتخاب ہے۔ متعلقات غالب میں اس کتاب کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ اپنے موضوع سے متعلق منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب کی وجہ سے غالب کے بیشتر شاگردوں کو نئی زندگی ملی، جو گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے۔مالک رام نے اس کتاب میں بڑی تلاش وجستجو اور برسوں کی محنت شاقہ کے بعد غالب کے شاگردوں کے حالات درج کیے ہیں۔

غالبیات سے متعلق مالک رام کی تیسری کتاب ’گل رعنا‘ہے۔ ’گل رعنا‘دراصل غالب کے اردو اور فارسی کلام کا اولین انتخاب ہے۔مالک رام نے اسے مرتب کر کے شائع کیا۔ غالب کے فارسی کلام کا ایک مختصر مجموعہ’سبد چیں‘ کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا۔ اس مجموعے میں غالب کا وہ کلام شامل ہے جو کلیات میں شامل نہیں ہوا تھا، یا اس کے بعد کا کلام ہے۔موخرالذکر دونوں کتابوں کے سلسلے میںمالک رام کو اولیت حاصل ہے۔اس کے علاوہ ’فسانہ غالب‘، ’گفتا رغالب‘، ’دیوان غالب‘ کی ترتیب اور خطوط غالب،مرتبہ،منشی مہیش پرشاد کو دوبارہ حذف واضافے کے بعد مرتب کرنا یہ وہ کارنامے ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔مالک رام کے بارے میں پروفیسرنثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’جناب مالک رام جو نصف صدی سے اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں،ممتاز ماہر غالبیات ہیں۔اگر انھوں نے اور کچھ نہ کیا ہوتا اور صرف ذکر غالب ان کے پاس ہوتی تب بھی وہ ہماری ادبی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جاتے،اس لیے کہ ذکر غالب سے زیادہ جامع،محیط اور مستند سوانح عمری دوسری نہیں لکھی گئی ‘‘ 4

مالک رام کی اہم تدوینی کتابوں میں ’غبار خاطر‘، تذکرہ‘ اور ’’خطبات آزاد‘ کا شمار ہوتا ہے،جوکہ ابوالکلام آزاد سے متعلق ہیں۔ انھوں نے ان کتابوں کی تدوین میں متن کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے توضیحی حواشی تحریر کر کے تدوین کے اعلی نمونے پیش کیے ہیں۔

مالک رام  کے بارے میں پروفیسرنذیر احمدرقم طراز ہیں :

’’مالک رام صاحب نے اردو تحقیق کی روایت کو آگے بڑھانے میںکافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔متنی تحقیق میں تخریج اور تعلیق نویسی کا جو مقام ہے اس سے ہر محقق ادب واقف ہے،لیکن یہ زمین بڑی سنگلاخ ہے،اس لیے عام طور پر محققین اس سے گریز کرتے ہیں، مالک رام صاحب نے تحقیق کی اس ضرورت کو بڑی حد تک پورا کیا ہے۔کربل کتھا ہو یا غبار خاطر یا ان کی دوسری اور تحقیق ان میں یہ عنصر بدرجۂ اتم  پایا جاتا ہے‘‘  5

 رشید حسن خاں

رشید حسن خاں کو تحقیق وتدوین دونوں فنون پر یکساں قدرت ومہارت حاصل تھی۔ آپ کی تقریباً دو درجن کتابیںہیں، جن میں تحقیق وتدوین کے اصول وضوابط پر دو کتابیں’ادبی تحقیق: مسائل ا ورتجزیہ‘  اور ’تدوین:تحقیق اور روایت ‘اہم سمجھی جاتی ہیں۔

تحقیق کے معاملے میں آپ قاضی عبدالودود کی طرح کسی مروت یا رعایت کے قائل نہیں ہیں،اور تحقیقی اصولوں اور ضوابط کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دوسروں کی تحقیقی کاوشوں کو بھی اسی معیار پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحقیق وتدوین سے متعلق آپ کے کارنامے بے شمار ہیں۔آپ نے جہاں ایک طرف تحقیق،تنقید اور لسانی بحثوں کو اعلی سطح پر موضوع بحث بنایا،وہیں دوسری طرف ابتدائی درجات کے طلبہ کے لیے بھی ان بحثوں کو اٹھایا، اور ان کے لیے بھی زبان کے قواعد اور املا کے قواعد ومسائل پر بہت کچھ لکھا۔ اس سلسلے میں اردو املا،زبان اور قواعد،اردو کیسے لکھیں،عبارت کیسے لکھیں،انشا اور تلفظ،کو پیش کیا جا سکتا ہے۔

آپ کا ادبی تحقیق میں اہم کارنامہ کلاسیکی متون کی تدوین ہے۔آپ نے اس سلسلے میں فسانہ ٔ عجائب،باغ وبہار، مثنوی سحرالبیان، مثنوی گلزار نسیم، مثنویات شوق، اورزٹل نامہ وغیرہ کو جس طرح تدوین کے جدید اصولوں کی روشنی میں صحت اور جامعیت کے ساتھ مرتب کیا ہے، اس کا اندازہ اہل نظر حضرات ہی کر سکتے ہیں۔اس سلسلے میں پروفیسر گیان چند جین رقم طراز ہیں:

’’اب تک اردو نثرمیں بہترین تدوینات مولانا عرشی اور مالک رام ومختارالدین احمد کی تھیں۔رشید حسن خاں نے فسانۂ عجائب اور باغ وبہارکو اس انداز سے مدون کیا ہے کہ یہ ایسے مکمل و مثالی کام ہیں جن کی نظیر نہ ماضی میں ملتی ہے،نہ عرصے تک مستقبل میں ملنے کی امید ہے۔یہ کتابیں تدوین کا ایسا بیش بہا خزینہ ہیں جن میں متناہی دولت چھپی ہوئی ہے۔میرے نزدیک ایسی کتاب تیار کرنے کے لیے پندرہ بیس سال کا عرصہ درکار ہے‘‘  6

اس کے علاوہ آپ سے متعدد کتابیں مثلاً انتخاب ناسخ، انتخاب سودا،انتخاب نظیر اکبرآبادی،کلاسکی ادب کی فرہنگ، تلاش وتعبیر، تفہیم، املائے غالب، انشائے غالب، غالب فکروفن، فرہنگ مصطلحات ٹھگی وغیرہ منسوب ہیں۔

پروفیسر حنیف نقوی

پروفیسر حنیف نقوی کا شمار اردو کے ان محققین میں ہوتا ہے،جنھوں نے اردو تحقیق کورفعت و بلندی عطا کی۔ ان کی متعدد تحقیقی و تنقیدی تصانیف منظر عام پر آکر مقبول ہو چکی ہیں۔ ان کی پی،ایچ،ڈی کا تحقیقی مقالہ ’شعرائے اردو کے تذکرے‘ اردو تذکروں کی تحقیق کے سلسلے میں معتبر سمجھا جاتا ہے۔اس میں انھوں نے ’نکات الشعرا‘ سے لے کر’ گلشن بے خار‘تک کے تذکروں کا جائزہ پیش کیا ہے۔

نقوی صاحب کی دوسری اہم کتاب’انتخاب کربل کتھا‘ ہے جس کو انھوں نے تفصیلی مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ 1987 میں ان کے سات تحقیقی مقالات پر مشتمل  مجموعہ ’تلاش وتعارف ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ان مقالات میں ’حاتم علی بیگ مہر‘ اور ولایت علی خاں ولایت وعزیر  پر بھی مقالات شامل ہیں۔اس کے علاوہ رجب علی بیگ سرور سے متعلق چار تحقیقی مقالوں پر مشتمل مجموعہ ’رجب علی بیگ سرور۔چند تحقیقی مباحث‘ منظر عام پرآئی۔اس کتاب کے ذریعے   نقوی صاحب نے رجب علی بیگ سرور کے استاذ نوازش کا پتہ چلایا،جو گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے۔

نقوی صاحب نے ’میرومصحفی ‘کے نام سے چھ مقالات پر مشتمل ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کے مقالات میں انھوں نے میر اور مصحفی کے شعری اور ادبی رویوں یا تخلیقی محاسن کے بجائے ان کی زندگی اور زمانے سے متعلق حقیقتوں کو بیان کیا ہے۔ رائے بینی نرائن کی حیات وشخصیت اور اس کے’دیوان جہاں‘ پرایک مونو گراف لکھا، جسے انجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ  نقوی صاحب نے قاضی عبدالودود کی مرتب کردہ’ مآثر غالب‘ کو دوبارہ عالمانہ حواشی کے ساتھ مرتب کر کے شائع کیا اور یہ نئی ترتیب واضافے بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔

نقوی صاحب نے غالبیات کے سلسلے میں بھی بہت کچھ لکھا۔انھوں نے اس سلسلے میں اپنے پیش رو اور معاصر محققین کے تحقیقی کارناموں کا باریک بینی سے مطالعہ کیا،اور ان کی فروگزاشتوں کی طرف توجہ بھی دلائی۔ غالبیات کے سلسلے میں ان کی نو تحقیقی مقالات پرمشتمل ایک اہم کتاب ’غالب کی چند فارسی تصانیف‘ ہے۔ اس کتاب  کے ذریعے انھوں نے’مے خانۂ آرزو سرانجام‘ کی بحث پر قول فیصل پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ ’پنج آہنگ‘ سے متعلق بھی عمدہ بحث کی ہے۔

نقوی صاحب کی غالب سے متعلق سوانحی تحقیق پر مشتمل دس مقالات کا مجموعہ’غالب: احوال وآثار‘ اور پندرہ مقالات پر مشتمل ’غالب اور جہان غالب‘ ہے۔ مذکورہ کتابوں کے مقالات میں نقوی صاحب نے اپنے پیش رو اور معاصر محققین سے اختلافات بھی کیے ہیں،اور ان کی فروگذاشتوں کی طرف توجہ بھی دلائی ہے۔ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نقوی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’حنیف نقوی کو میں ایک مدت سے پڑھتا رہا ہوں اور شاید ہی کوئی تحریر ان کی ایسی ملی ہو جسے پڑھ کر میری معلومات میں اضافہ نہ ہوا ہو،یا میری غلط فہمی دور نہ ہوئی ہو‘یہ ضرورہے کہ ایک زمانے تک ان کی شہرت کچھ، شہرت شکن، لوگوں کی سی تھی۔یعنی وہ بڑے بڑے محققین کی غلطیاں یا فروگذاشتیں ڈھونڈنے اور بیان کرنے میں ماہر تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کے کام کی بعض ایسی خوبیاں مجھ پر کھلیں جن میں مجھے ان کا کوئی ثانی نظرنہیں آیا‘‘ 7

اس کے علاوہ نقوی صاحب کی تحقیق وتدوین اور ان کے متعلقات پر مشتمل کتاب ’تحقیق و تدوین: مسائل اور مباحث‘ ہے۔ ا س کتاب میں تحقیق وتدوین اور ان کے متعلقات سے متعلق ان کے چودہ مضامین ومقالات شامل ہیں،جو تحقیق وتدوین کے سلسلے میں کافی اہمیت کے حامل ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اردو میں تحقیق کی روایت کافی مستحکم ہے،لیکن بیسویں صدی بالخصوص اردو تحقیق کے لیے خاصی اہمیت کی حامل ہے۔اس لیے کہ اس صدی میں جو تحقیقی کارنامے منظرعام پر آئے،انھیں بلا مبالغہ اعلی پائے کی تحقیقی کاوشوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

 حواشی

(1)      ڈاکٹر خلیق انجم،قاضی عبد الودود سے قبل اردو تحقیق اور متنی تنقید،مشمولہ’قاضی عبد الودود تحقیقی وتنقیدی جائزے‘ مرتبہ پروفیسر نذیر احمد، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی،  ص140

(2)      رشید حسن خاں، قاضی عبد الودود بہ حیثیت تبصرہ نگار، مشمولہ ’قاضی عبد الودود تحقیقی وتنقیدی جائزے‘مرتبہ پروفیسر نذیر احمد، غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی،ص 131

(3)      رشید حسن خاں، تدوین: تحقیق روایت، ایس اے پبلی کیشنز، دہلی، ص179

(4) پروفیسر نثار احمد فاروقی، ایک ممتاز ماہر غالبیات، مشمولہ ’مالک رام محقق اور دانشور‘ غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی،ص 31

(5)        پروفیسر نذیر احمد،مالک رام: ایک تاثر،مشمولہ ’ مالک رام محقق اور دانشور‘ غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ص 14

(6)      ڈاکٹر گیان چند جین،خدائے تدوین، مشمولہ ’رشید حسن خاں شخصیت اور ادبی خدمات‘ مرتبہ اطہر فاروقی، ماہنامہ کتاب نما،جامعہ نگر نئی دہلی، ص73

(7)      شمس الرحمن فاروقی، حنیف نقوی کی جاسوسیاں، مشمولہ ’ارمغان علمی نذر حنیف نقوی‘مرتبہ ڈاکٹر سید حسن عباس، مرکز تحقیقات اردو وفارسی گوپال پور، سیوان، بہار، ص191-92



Md. Rashid Iqbal 

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202001 (UP)

Mob.: 8410517510


ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں