16/12/20

ترقی پذیر ممالک میں ای لرننگ کے ذریعے فاصلاتی تعلیم: ہندوستان کے تناظر میں - مضمون نگار: ایس آر سبحانی



اکیسویں صدی کے اس زمانے میں، کسی بھی ملک کی نشوو نما و ترقی میں تعلیم ایک انتہائی اہم کردار اداکرتی ہے۔ سوامی وی ویکانند سے لے کر آج تک کئی دانشوروں کا ماننا ہے کہ تعلیم وہ منشور ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی ملک ترقی کی چوٹیوں کو چھوسکتا ہے۔ یہ نہ صرف فرد کی ذاتی ترقی کا ذریعہ ہے بلکہ ایک ملک کی مجموعی ترقی بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ ہندوستان کی کل آبادی 120 کروڑ ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد60کروڑ ہے۔ ہندوستان کی خواندگی کی شرح 70.04% ہے اور بے شمار تعلیمی اداروں اور بہترین انفرااسٹرکچر کی موجودگی کے باوجود ہم مزید 30% کے حصول میں ناکام ہیں۔ اس کی وجہ شعورکی کمی، غربت وغیرہ ہیں۔ جو لوگ اپنی کم آمدنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے فاصلاتی تعلیم ایک بہترین ذریعہ ہے۔ فاصلاتی تعلیم ، وہ طریقہ تدریس ہے جس میں استاد اور طالب علم الگ الگ جگہ پر موجود ہوتے ہیں اور لچکدار تعلیمی ماحول کی ایک شکل تیارکی جاتی ہے۔ ہندوستان میں فاصلاتی تعلیم میں اندراج روزبروز بڑھتا جارہا ہے۔ عالمی سطح کی تعلیم کی موجودگی میں، ہندوستان ایک اہم کردار اداکررہا ہے۔
 

جدید تاریخ کے لحاظ سے فاصلاتی تعلیم کا سب سے پہلا کورس 1840 کے دہے میں سر آئزک پِٹ مین کا آئیڈیا تھا جس نے ایک ایسے نظام کے بارے میں سوچا تھا جس میں شارٹ ہینڈ میں لکھے پوسٹ کارڈ طلبا کو بھیجے جاتے اور بعد میں طلبا کو ان سے حاصل کرکے انھیں درست کیا جاتا۔ طلبا کا فیڈ بیک، پِٹ مین کے اس نظام کی سب سے اہم اختراع تھی۔ 1840 میں پورے انگلینڈ میں ڈاک کی یکساں قیمتیں نافذ کرکے اس اسکیم کو نافذ کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا۔ یہ شروعات کافی کامیاب رہی اوران کورسز کو رسمی طورپر چلانے کے لیے تین سال بعد فونوگراف فاصلاتی سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یونیورسٹی آف لندن وہ پہلی یونیورسٹی تھی جس نے 1858 میں اپنا بیرونی پروگرام قائم کرتے ہوئے فاصلاتی طورپر ڈگریاں دینا شروع کیں۔ اس اختراع کا پس منظر اس حقیقت میں پوشید ہ ہے کہ یہ ادارہ (جسے بعد میں یونیورسٹی کالج لندن کا نام دیا گیا ) غیر جانبدار تھا جیسا کہ اس وقت کی سخت مذہبی چپقلش کے پیش نظر یونیورسٹی کی مخالفت کی جارہی تھی۔

ہندوستان میں حکومتِ ہند نے ایسے طلبا کے لیے جو ریگولر کورسز میں داخلہ نہیں لے سکتے، ہندوستانی یونیورسٹیوں میں متبادل کورسز میں داخلے کے لیے کونسل برائے فاصلاتی تعلیم کی شروعات کی۔ فاصلاتی تعلیم کی بنیادیں مواصلاتی (Correspondent) تعلیم میں پوشیدہ ہیں جس کی شروعات عوامی شعبوں (Public Sector)  میں روایتی یونیورسٹیوں نے کی تھی۔ حکومت ہند نے 1985 میں موقر اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اگنو) کی شروعات کی جو طلبا کو ڈگریوں سے نوازتی ہے اور یہ ڈگریاں کسی بھی دیگر مسلمہ فاصلاتی تعلیمی کورس کی طرح جاب مارکیٹ میں مسلمہ ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ انڈرگریجویٹ اورپوسٹ گریجویٹ سطح پر فاصلاتی تعلیم کے کورسز کی تعداد کے معاملے میں ہندوستانی یونیورسٹیاں سب سے اوپر ہیں۔ اب ہندوستان کی بیشتر یونیورسٹیاں فاصلاتی تعلیمی پروگرام چلاتی ہیں جن میں کئی متنوع کورسز کروائے جاتے ہیں۔

 اب فاصلاتی تعلیم میں کسی کورس کے انتخاب و تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہیں رہا جیسا کہ بیشتر یونیورسٹیوں کے تعلیمی اور امتحانی مراکز کئی شہروں میں واقع ہیں۔ ہندوستان میں فاصلاتی تعلیم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ہندوستان میں دوسوسے زیادہ فاصلاتی تعلیمی مراکز ہیں جو آرٹس، ہیومینیٹز، قانون ، مینجمنٹ ، سائنس، انجینئرنگ وغیرہ کے کورسز فراہم کررہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فاصلاتی تعلیم میں طلبا کی تعداد، ریگولر یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلبا کی تعداد سے زیادہ ہے۔ کیونکہ کہ فاصلاتی تعلیم ہر اس طالب علم کو پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ برسرِ روزگار مردو خواتین، گھریلو خواتین، اپنے کمزور معاشی پس منظر کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے والے، ہر ایک کو اس تعلیمی نظام سے فائدہ ہورہا ہے جسے فاصلاتی تعلیم کہا جاتا ہے۔ ان کورسز کی فیس کسی بھی دیگر تعلیمی ادارے کے مقابلے بہت ہی کم ہے جس سے محروم طبقہ انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز کی تکمیل کی جانب راغب ہوتا ہے۔

موجودہ صورتِ حال میں الکٹرانکس آلات کے انقلاب کے بعد ایک نیانظام متعارف ہوا ہے جسے انفارمیشن کمیونکیشن ٹکنالوجی (آئی سی ٹی) اور ای۔ لرننگ کہا جاتا ہے جہاں طالب علم کو مواد کے حصول اور فیس کی ادائیگی کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر چیز متعلقہ فاصلاتی تعلیمی مرکز کی ویب سائٹ کے ذریعے طلبا کو مہیا  کی جاتی ہے۔ ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت ہے، اس کی آبادی پوری دنیا کی آبادی کا17% ہے جس میں قابل ذکر تنوع پایا جاتا ہے۔ ہندوستان کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے جو مکمل طورپر زراعت اور اس سے وابستہ پیشوں پر منحصر ہیں۔ یہاں پر شعوروبیداری کی کمی اور اچھے تعلیمی ادارے نہ ہونے کی بنا پر نوجوانوں کے پاس نہ تو ہنر ہے اور نہ روزگار۔ ایسی صورتحال میں فاصلاتی تعلیم بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہندوستان دنیا کے سب سے بڑے تعلیمی نظاموں میں سے ایک ہے۔ ایک عام ہندوستانی طالب علم کو ابتدائی اسکول بھیجا جاتا ہے یعنی پانچ سال کی عمر میں اسے رسمی تعلیم دی جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی صورتحال دیہی علاقوں میں حیرت انگیز حد تک مختلف ہے جہاں عوام یا نوجوان آبادی اپنی تعلیم سیکنڈری جماعت یعنی دسویں جماعت میں ہی ترک کردیتے ہیں۔اپنے کمزور معاشی پس منظر کی بنا پر انہیں ملازمت کے حصول کے لیے مجبور ہونا پڑتاہے۔ ایسی صورتحال میں فاصلاتی تعلیم ایک منفرد کرداراداکرتی ہے۔

فاصلاتی تعلیم وہ تعلیم ہے جہاں ایک طالب علم اور استاد ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوتے ہیں اور مہینے میں ایک دو یا تین مرتبہ ایک دوسرے سے ربط قائم کرتے ہیں۔ داخلہ لینے والے طلبا کے لیے ہفتہ میں ایک مرتبہ کلاس منعقد کی جاتی ہے۔ ڈگری کے مضمون کا مواد طلبا کو کورس میں   داخلے کے وقت دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ طلبا کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ فاصلاتی تعلیمی مرکز سے رابطہ رکھیں اور ساتھ ہی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کلاس کے مقام اور وقت  کے علاوہ امتحانات کی تواریخ سے آگاہ  کرتے رہیں۔ لیکن اکیسویں صدی کے اس زمانے میں طلبا اور اساتذہ  تعلیم کی تکمیل کے لیے ٹکنالوجی جیسے سیٹلائیٹ ، ٹیلی فون، ریڈیو،  ای-میل کے ذریعہ ایک دوسرے سے  رابطہ میں ر ہیں۔ اٹھارویں صدی کی ابتدا سے لے کر آج تک تعلیم نے ایسے طلبا تک پہنچنے کے لیے جو مختلف حالات کی بنا پر دوبدو تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، تدریس کے اس طریقۂ کار کو استعمال کیا ہے۔ فاصلاتی تعلیم کو شروع ہوئے 200 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔تاریخ کہتی ہے کہ فاصلاتی تعلیم پہلے ایک مواصلاتی کورس کی صورت میں شروع ہوئی اور بعد میں اس طرزتعلیم  میں سدھار آتا رہا۔

فاصلاتی تعلیم میں داخلہ لینے والوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اپنی شروعات کے بعد اس نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ فاصلاتی تعلیمی پروگراموں کے تحت  کئی انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز شروع کیے گئے۔ فاصلاتی تعلیم کے میدان میں تیزی سے اضافہ کے بعد اس کی سرگرمیوں اور پروگراموں کی نگرانی کے لیے1985 میں  ایک کونسل، فاصلاتی تعلیم بیورو کا قیام عمل میں آیا۔ ہندوستان میں اوپن اور فاصلاتی تعلیمی نظام سوسائٹی کے مختلف  طبقات کو تعلیم فراہم کرنے کے ایک اہم وسیلے کے طورپر ابھرا۔ اس کے علاوہ  اوپن تعلیمی نظام (ODL) میں پچھلے چھ دہائیوں میں ہونے والی تبدیلیاں بھی حوصلہ افزارہی ہیں۔  آئی سی ٹی کے پھیلاؤ کے بعد سے  کلاس روم یا کیمپس کی حدود دھندلی ہورہی ہیں۔  جیسا کہ کہا جارہا ہے زمانے اور فاصلے کی سرحدیں مٹ چکی ہیں۔ ملک میں اوپن تعلیمی نظام کے اداروں کی بڑھتی تعداد اس حقیقت کی گواہ ہے۔ آٹھویں پلان کی مدت میں واحد طریقہ تعلیم  (Single Mode) اوپن یونیورسٹیوں کی تعداد 4 تھی جو دسویں پلان کی مدت میں  بڑھ کر 14  ہوگئی۔

فاصلاتی طریقے سے تعلیم فراہم کرنے والی  دوہرے طریقہ تعلیم (Dual Mode Universities)  والی یونیورسٹیوں کی تعداد 200 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ دوبدوتعلیم کے انفرااسٹرکچر میں اضافہ ہوا ہے۔ فی الحال ملک میں اعلیٰ تعلیم کے 52%  طلبا، اوڈی ایل سسٹم سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ پچھلے چھ دہوں میں اوپن تعلیمی نظام  نے اعلیٰ تعلیم میں توسیع اور تنوع کے معاملے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ 1962 میں ایک واحد ادارے سے لے کر اوپن تعلیمی نظام   کے اداروں کی تعداد اب تقریباً250 تک پہنچ چکی ہے جن میں مرکزی، ریاستی ، نیم اور خانگی یونیورسٹیاں اور شخصی ادارے شامل ہیں۔

آج کل دو اصطلاحات تقریباً ایک دوسرے کی جگہ استعمال کی جارہی ہیں وہ ہیں ’اوپن لرننگ اور فاصلاتی تعلیم‘ اور ان دونوں کو ملاکر اکثر اوپن اور فاصلاتی تعلیم (ODL) کہا جاتا ہے۔ اوپن لرننگ ایک فلسفہ ہے اور فاصلاتی تعلیم اسے حقیقت میں بدلنے کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ فاصلاتی تعلیم ایک وسیع اصطلاح ہے جو اس تمام تدریسی و اکتسابی نظم کو ظاہر کرتی ہے جس میں طالبعلم اور استاد زمانی اور مکانی لحاظ سے ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ دراصل یہ ان طالب علموں  کوتعلیم و تدریس فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو جسمانی طور پر روایتی کلاس روم میں موجود نہ ہوں۔خصوصی طورپر تیار شدہ مواد (خود اکتسابی تدریسی مواد)  نصاب کی ترسیل کو موثر بناتا ہے جو کہ مختلف ذرائع جیسے پرنٹ، ٹیلی ویژن، ریڈیو ، سیٹلائیٹ ، آڈیو / ویڈیو ٹیپ، سی ڈی روم،  انٹرنیٹ اور ورلڈ وائڈ ویب وغیرہ کے ذریعہ طلبا کی دہلیز تک پہنچایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ٹکنالوجی پر مبنی ذرائع، استاد اور طلبا  کے درمیان روایتی کلاس روم  میں ہونے والی ذاتی ترسیل کا بدل ثابت ہوتے ہیں۔  ادارہ، استاد اور طلبا کے درمیان ترسیل ورابطہ الکٹرانک میڈیا (ٹیلی فون ، انٹرایکٹیو ریڈیو کونسلنگ، ٹیلی کانفرنسنگ، ویڈیو کانفرنسنگ ، چیٹ سیشن، ای میل، ویب سائٹ) وغیرہ کے ذریعہ ہوتاہے۔

 علمی معاشرے کی ایک بڑی ضرورت  یعنی مجموعی اندراجی تناسب کو بڑھانے اور اعلیٰ تعلیم میں جمہوریت لانے سے لے کر ہندوستانی آبادی کے بڑے حصے بالخصوص نارساؤں تک پہنچنے  اور تاحیات تعلیم کے تقاضوں سے نمٹنے تک  میں اپنے اہم کردار کی بنا پر اوپن اور فاصلاتی تعلیم ہندوستانی اعلیٰ تعلیم کے نظام میں ایک خصوصی مقام رکھتا ہے۔

فاصلاتی تعلیم کے اہم مقاصد ہیں :

           آبادی کے بڑے حصے بالخصوص محروم طبقات جیسے دوردراز اور دیہی علاقوں میں رہنے والے ، محنت مزدوری کرنے والے افراد، خواتین وغیرہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کو جمہوری بنانا۔

           یونیورسٹی سطح کی تعلیم کا ایسااختراعی نظام فراہم کرنا جو اکتسابی رفتار، کورسز کے امتزاج، داخلے کی اہلیت، داخلے کی عمر، امتحانات کے انعقاد اور تعلیمی پروگراموں کے نفاذ کے معاملے میں   لچکدار اور کھلا ہو۔

           مہارتوں اور لیاقتوں کو بڑھانے کا ایک موقع فراہم کرنا اور

           تعلیم کو ایک تاحیات سرگرمی کے طور پر فروغ دینا تاکہ افراد کو اپنے علم کی تجدید کرنے یا نئے میدانوں میں علم کے حصول کے قابل بنایا جاسکے۔

ہندوستان میں فاصلاتی تعلیم کا بہت بڑا نیٹ ورک پایا جاتا ہے جو کہ چین کے بعد دوسرے نمبر پر آتاہے۔ آج تین طرح کے ادارے کام کررہے ہیں:

1          قومی اوپن یونیورسٹی

2          ریاستی اوپن یونیورسٹیاں

3          فاصلاتی تعلیمی ادارے

ای لرننگ کے ذریعہ فاصلاتی تعلیم:

ایک ایسی تعلیم جو رسمی تعلیم پر مبنی ہو تاہم وہ الکٹرانک وسائل کی مدد سے فراہم کی جائے ، ای لرننگ کہلاتی ہے۔ جہاں ، تدریس کلاس روم کے اندر یا باہر دی جاسکتی ہے  کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال ای لرننگ کا اہم جزتشکیل دیتا ہے۔ ای لرننگ کو ایک ایسا نیٹ ورک بھی کہا جاسکتا ہے جو مہارتوں اور علم کی منتقلی کے قابل بناتا ہے  اور ایک ہی یا مختلف اوقات میں بے شمار طلبا کو تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ شروع میں اسے خوش دلی سے قبول نہیں کیا گیا جیسا کہ یہ سمجھ لیا گیاکہ اس سسٹم میں تعلیم کیلیے درکار انسانی عنصر ناپید ہے۔  تاہم ، ٹکنالوجی میں تیزی سے ترقی اور تعلیمی نظام میں پیش رفت کے ساتھ اسے بڑے پیمانے پر قبول عام حاصل ہورہا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ  کمپیوٹر کا تعارف اس انقلاب کی بنیاد تھی جیسا کہ ہم اسمارٹ فون اور ٹیبلیٹ وغیرہ کے عادی ہوچکے ہیں اور اب یہ آلات تعلیم کے لیے کافی اہم بن چکے ہیں۔ اب کتابوں کی جگہ بتدریج الکٹرانک مواد جیسے آپٹیکل ڈسک اور پین ڈرائیو لے رہے ہیں۔ علم کو انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی شئیر کیا جاسکتا ہے جو کہ کسی بھی جگہ سے اور کسی بھی وقت 24/7  دستیاب ہے۔

ای لرننگ، کارپوریٹ سیکٹر میں ایک اچھا ذریعہ ثابت ہوا ہے بالخصوص جہاں کثیر القومی کمپنیاں ،دنیا بھر میں پھیلے پروفیشنل افراد کے لیے تربیتی  پروگرام منعقد کرتی ہیں اور ملازمین ایک بورڈ روم  میں بیٹھے ، یا سیمینار کے ذریعے ، جو کہ ایک چھت تلے ایک یا مختلف تنظیموں کے ملازمین کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں، اہم مہارتوں کے حصول کے قابل ہوتے ہیں۔ ای لرننگ ٹکنالوجی استعمال کرنے والے اسکول ان روایتی اسکولوں سے ایک قدم آگے ہیں جو ابھی تک روایتی طریقہ تدریس اپنائے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کتابوں اور لکچرز کی مدد سے دی جانے والی غیر الکٹرانک تعلیمی شکل کو آگے لے جانے کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے تاہم ٹکنالوجی پر مبنی تعلیم کی اثرپذیری اور اہمیت کو یکسر نظر اندا زنہیں کیا جاسکتا۔ یہ مانا جاتا ہے کہ انسانی دماغ متحرک تصاویر یا ویڈیوز کے ذریعہ دیکھی گئی اور سنی گئی چیزوں کو آسانی سے یاد رکھتا اور جوڑتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بصری تصاویر  (Visuals)  نہ صرف طلبا کی توجہ برقرار رکھتے ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ دماغ میں زیادہ عرصہ تک محفوظ رہتے ہیں۔

ای لرننگ کی اہمیت روزبروز بڑھتی جارہی ہے اور اس نے مجازی (Virtual)  تعلیمی ماحول کو جنم دیا ہے اور یہ اس قسم کی تعلیم کی فراہمی کا ایک معروف طریقہ بن چکا ہے۔ ان میں ویب اور تختہ سیاہ  سے لے کر مقامی نظام شامل ہیں جنھیں اداروں کے افراد نے اپنی مخصوص ضروریات کے تحت تیار کیا۔  مجازی (Virtual)  کلاس روم کو حال ہی میں اس قسم کی تعلیم میں شامل کیا گیا۔ یہ بالعموم یا تو کمپیوٹر گروپس پر یا پھر سب سے اہم ورلڈ وائڈ ویب (WWW)کے ذریعہ انٹرنیٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ طلبا کورس تک رسائی کے لیے اپنے پاس موجود ایک کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ لاگ اِ ن کرنے کے بعد وہ مختلف کام انجام دے سکتے ہیں جیسے کورس مواد ڈاؤن لوڈ کرنا، ویڈیو اور آڈیو مواد کا حصول تاکہ تدریس فراہم کی جاسکے۔کلاس کوہم آہنگ (Synchronous) یا غیر ہم آہنگ  (Asynchronous) فارمیٹ میں لایا جاسکتا ہے۔یہ ترسیل ویڈیو /آڈیو  ریکارڈ شدہ مواد، آن لائن ٹسٹنگ سافٹ وئیر، ویب پر مبنی معلومات کے ذرائع ٹیلی فون کمیونکیشن کے ساتھ انجام پاتی ہے اور راست رابطہ کے بنا تعلیم فراہم کرنے کے قابل ہے۔  

(Virtual)  مجازی یونیورسٹی میں تما م معلومات محفوظ ہوتی ہیں، ویب پر مبنی کورسز /ابواب/صفحات کی شکل میں منظم ہوتی ہیں اور ایک فاصلہ سے ڈیجیٹل شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس ماحول میں مسلسل تفویضات اور امتحانات یاتو گروپ کے ذریعہ آن لائن ہوتے ہیں یا پھر طلباکی نگرانی ، نظم اور ٹریکنگ کے ذریعہ ہوتے ہیں جسے آن لائن مدد اور  ڈیجیٹل لائبریری سے تقویت فراہم کی جاتی ہے۔ ہندوستان ایک بہترین انفرااسٹرکچر والا ملک ہے بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں جہاں 13500 سے زائد کالجز اور 250 سے زیادہ یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ اتنے وسیع تعلیمی نظام سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک ویب پر مبنی ای لرننگ سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے۔

  دستورِ ہند نے تعلیم کو ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود تعلیم تک رسائی اور معیاری تعلیم کا حصول خال خال نظر آتا ہے۔ حقِ تعلیم اور ابھی تک حاصل نہ ہونے والے معیارتعلیم کے تصور کو ای لرننگ کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عوام کی ماہرانہ اور پیشہ ورانہ ٹریننگ میں بھی اس کا کردار کافی اہم ہے۔ بڑے پیمانے پرصنعتی افرادی قوت کی تکمیل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے جسے تعلیم فراہم کرنے کے اس نئے نظام سے پورا کیا جاسکتا ہے۔حالیہ عرصہ میں،حکومت ِ ہند نے اس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور تمام شہریوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے اور نئی نئی ٹکنالوجیوں کو فروغ دینے کی قابل لحاظ کاوشیں کی ہیں۔

ہندوستان پہلے ہی4Gپر مبنی وائر لیس براڈ بینڈ لانچ کرچکا ہے اور ٹیلی ڈینسٹی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت ہند نے ای لرننگ کی ایک اہم میدان کے طورپر نشاندہی کی ہے۔وزارت تعلیم ، حکومت ہند نے تکنیکی اداروں میں نئے کورسز کی شروعات کی اجازت دیتے  ہوئے اور آئی ٹی انڈسٹریزکو مراعات فراہم کرتے ہوئے اہم اقدامات کیے ہیں۔ شعبہ انفارمیشن ٹکنالوجی  (DIT)  ملک میں انفارمیشن ٹکنالوجی اور الکٹرانکس کی ترقی و فروغ کاباعث بن رہا ہے۔ ای لرننگ پروگرام کا سب سے اہم مقصد ای لرننگ طریقہ کار اورروایتی تعلیمی نظام کو موثر طریقہ سے مربوط کرنا ہے تاکہ روایتی تعلیمی نظام کے فوائد میں اضافہ کیا جاسکے، اس کی رسائی کو زیادہ سے زیادہ طلبا تک بڑھایا جاسکے  اور ای لرننگ کو آئی ٹی سے متعلقہ مضامین کی تدریس سے  دیگر مضامین کی تدریس تک پھیلایا جاسکے۔ آئی ٹی پرقومی ٹاسک فورس اور دسویں پلان ورکنگ گروپ کی جانب سے سفارش کے بعد آئی ٹی شعبے نے ای لرننگ کے میدان میں تعلیمی اور تحقیقی اداروں کو فروغ  دینے والے منصوبے تیار کیے ہیں۔

ای لرننگ کو فروغ دینے والے کئی سرکاری اقدامات کیے گئے ہیں۔ ابتدا میں شعبہ انفارمیشن ٹکنالوجی (DIT)  کی جانب سے آٹھ پراجکٹس کو امداد دی گئی۔ (آئی ٹی میں ایچ آرڈی پر ٹاسک فورس کی تیاری کو ملاحظہ فرمائیں۔) ذیل میں ای لرننگ کو فروغ دینے والے چند اقدامات حسب ِ ذیل ہیں جن سے سبھی استفادہ کرسکتے ہیں:

1          مجازی  (virtual) لیبس

2          استاد سے بات کریں

3          بول چال ٹیوٹوریل

4          ڈیجیٹل لائبریری بذریعہ انفلبنیٹ

5          Quantum-Nano CentreFina

6          ای آر پی مشن بری ہاسپتی

7          ای -کلپ

8          مربوط قومی علمی نیٹ ورک (INKN)

Dr. S.R. Subhani

Associate Professor

Directorate of Distance Education

Maulana Azad National Urdu University

Gachibowli,  Hyderabad-500032 (Telangana)

Mobile: 9848773538

E-mail: drssrabbe@gmail.com

 ماہنامہ اردو دنیا ، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں