16/12/20

تقسیم ہند کا المیہ (اردو افسانے کے حوالے سے) - مضمون نگار: رضوان احمد

 



انسانی زندگی میں کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جو اس میں ہلچل مچادیتے اور سکون وچین کو غارت کر دیتے ہیں۔آ ج سے تقریباً 70 سال قبل بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جب ایک دن ایک عظیم سازش کے تحت ہندوستان کے دو ٹکڑے کردیے گئے۔اس کے بعد بر صغیر کے نقشے پر ابھرنے والے دو ملکوں میں قتل و غارت اور خوں ریزی کا  حیوانی کھیل کھیلا گیا۔

ہزاروں جانیں تلف ہو ئیں،عورتیں، مرد،بوڑھے اور بچے بے دریغ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔فرقہ وارانہ فسادات پورے ملک میں پھوٹ پڑے۔ان میں نہ صرف ہندوؤں نے مسلمانوں کو اور مسلمانوں نے ہندوئوں کولوٹا بلکہ خود ہندوؤں نے ہندوؤں کو اور مسلمانوں نے مسلمانوں کولوٹا۔بڑے پیمانے پر اجتماعی عصمت دری اور آبرو ریزیاں کی گئیں اور گاؤں اورمحلوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ ان واردات نے افسانہ نگارو ں کو بہت شدت سے متاثر کیا۔سماج کی خوف ناک صورت حال نے ان کے قلم کا رُخ موڑ دیا۔وہ تقسیم ملک کو غیر فطری اور فسادات کو غیر انسانی عمل قراردینے لگے۔ افسانہ نگاروں کو ایک سلگتا ہوا موضوع ملا اور اس پر بہت کچھ لکھا گیا۔

ادب اپنے عہد کے سماجی جذبات، احساسات، فکر و فلسفہ، مسرتوں اور حیرتوں، مصائب و مسائل،نیز خواہشات و خطرات کا ترجمان اور عکاس ہوتا ہے لہٰذا اردو افسانوں نے بھی ان موضوعا ت کو سمیٹااورسرحد کے دونوں جانب جغرافیا ئی اور بازآبادکاری کے مسائل کو اس وقت کے ادب میں پیش کیا گیا۔

فسادات پر لکھنے والوں میں منٹو،کرشن چندر اور بیدی کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔کر شن چندر نے ان حالات کے سیاسی  پہلوؤں کو زیر غور رکھا ہے اور انسان کے اندر چھپے وحشیانہ جذبات کو اجاگر کیا۔اسی طرح بیدی نے سماجی پس منظر میں فسادات کے نتائج کو بیان کیا ہے اور سماجی رشتوں اور اقدار کی شکست و ریخت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا لیکن منٹونے ان کے نفسیاتی اور جنسی پہلوؤں کو اجاگر کیا  اسی طرح قومی و مذہبی جوالا مکھی کو پھٹتے ہوئے دکھایاہے۔ جہاں انسانیت ٹوٹ کر بکھر چکی تھی۔

فسادات پر منٹو نے سب سے زیادہ اور سب سے اچھا بھی لکھا۔یہ بات الگ ہے کہ اس موضوع پر کرشن چندر کا افسانوی مجموعہ ’ہم وحشی ہیں‘ 1947 میں سب سے پہلے منظر عام پر آگیا تھا۔اس میں چھ اہم افسانے تھے جن میں ’پشاور ایکسپر یس‘، ’امرتسر آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ‘اور ’ایک طوائف کا خط ‘، بہت اہم ہیں ’امرتسر آزادی سے پہلے او رآزادی کے بعد ‘میں کر شن چندر نے ہندومسلم اور سکھ عیسائی کے آپسی میل ملاپ اور قومی بھائی چارے کو دکھا یا ہے۔کس طرح وہ آپس میں مل کر ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں سے لڑ رہے تھے اور شہادت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جا رہے تھے۔کرشن چندر نے تمثیلی حقائق بھی اس میں بیان کیے ہیں۔مثلاً امرتسر کی چا رعورتیں زینب، بیگم، شام کور اور پارو جب بازار سے لوٹ رہی ہوتی ہیں، یکایک شہر میں کر فیو لگ جاتا ہے اور انگریز سپاہیوں کو ان پر ظلم کر نے کا موقع مل جاتا ہے،وہ گولی سے تینوں کو بھون دیتاہے اور آخر میں پاروکی باری آتی ہے تو وہ چاہتی تو بھاگ سکتی تھی لیکن وہ قومی حمیت کا ثبوت دیتی ہے اور یہ کہہ کر جام شہادت نوش کر لیتی ہے کہ:

’’میرے پتی دیو، میرے بچو، میری ماں جی، میرے پتاجی، میرے ویرو مجھے چھما کر نا— آج مجھے بھی مر نا ہوگا۔ میں مرنا نہیں چاہتی پھربھی مجھے مر نا ہوگا۔میں اپنی بہنو ں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘(امر تسر آزادی سے پہلے)

لیکن آزادی کے بعد امرتسر کا بھا ئی چارہ ختم ہو گیا۔امرتسر قتل و غارت گری اور وحشت و بر بریت کا مر کز بن گیا۔

’’پھر آزادی کی رات آئی۔دیوالی پر بھی ایسا چراغاں نہیں ہوا تھا کیونکہ دیوالی پر تو دیے جلتے ہیں یہاں گھروں کے گھر جل رہے تھے۔ دیوالی پر آتش بازی ہوتی ہے۔ پٹاخے چھوٹتے ہیں،یہاں بم پھٹ رہے تھے اور مشین گنیں چل رہی تھیں۔‘‘(امرتسر آزادی کے بعد)

پیشاور ایکسپریس کی تکنیک بہت دل چسپ ہے۔ اس میں ریل جیسی بے جان چیز سے کر شن چندر نے فسادات کی روداد سنوائی ہے۔ٹرین ہندواور مسلمان پناہ گزینوں کو لے کر ہندوستان اور پاکستان آجارہی تھی۔ ان میں سرحد بدلنے کے ساتھ سپاہی بھی بدل رہے تھے۔ ٹرین پاکستان سے ہندو پناہ گزینوں کو لے کر ٹکسیلا اسٹیشن پر پہنچتی ہے تو مسلمانوں کا جتھا اس پر حملہ کر دیتا ہے پورے دوسو آدمی نکالے جاتے ہیں۔بلوچی سپاہی ان دوسو آدمیوں کو گولی سے مارتے جاتے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ کر شن چندر ٹکسیلا شہر کی عظمت رفتہ بھی یاد دلاتے جاتے ہیں۔مثلا ًیہاں ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی،عجائب گھر تھا،کنشک نے یہاں حکومت کی تھی،بدھ کا نغمۂ عرفان یہاں گونجا تھا،یہ شہر کبھی علم وادب، تہذیب و فنون،مذہب و ملت اور امن وآشتی کا گہوارہ تھا جو آج فسادات کی آگ میں جل رہا تھا۔

کرشن چندر نے اسی افسانے میں ہندوستان سے پاکستان جاتے ہوئے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر بھی اسی طرح کیا ہے۔اٹاری پہنچ کر فضا بدل گئی بلکہ مغل پورہ سے ہی بلوچی سپاہی بد ل چکے تھے اور ان کی جگہ ڈوگروں اور سکھ سپاہیوں نے لے لی تھی۔آگے کا حال پیشا ور ایکس پریس اس طرح بیان کر تی ہے:

’’اٹاری پہنچ کر تو مسلمانوں کی اتنی لاشیں ہندو مہاجرین نے دیکھیں کہ ان کے دل فرط مسرت سے باغ باغ ہو گئے۔آزاد ہندوستان کی سرحد آگئی تھی ورنہ اتنا حسین منظر کہاں دیکھنے کو ملتا۔میں جب امرتسر اسٹیشن پر پہنچی تو یہاں بھی مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر کے ڈھیر تھے۔‘‘ (پیشاور ایکسپریس)

سعادت حسن منٹو نے بھی ان موضوعات پر شاہکار افسانے لکھے ہیں۔مثلاٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھنڈا گوشت، موذیل، کھول دو، یزید،سہائے وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو  بھر پور تاثر دیتے ہیں اوران میں موضوع کے ساتھ فنی حسن کا بھی پورا لحاظ رکھا  گیا ہے۔

منٹو نے فسادات کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ ہجرت کے کر ب اور انسانیت کی چیخ و پکار نے انھیں ’سیاہ حاشیے ‘جیسا افسانوی مجموعہ شائع کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان میں قتل،عصمت دری،لوٹ مار،پولیس کی بدعنوانی جیسے موضوعات کو طنزومزاح کے پیرائے میں بیان کیا گیا تھا جس سے انسان کی حیوانیت اور وحشت سامنے آجاتی ہے۔ تقسیم،مناسب کارروائی، کرامات، جیلی، تعاون، حلال اور جھٹکا، مزدوری، پٹھانستان، گھاٹے کا سودا، صفائی پسند، الہانا،ہمیشہ کی چھٹی،آرام کی ضرورت وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

’’مرا نہیں—دیکھو ابھی جان باقی ہے۔‘’

’’رہنے دو یار—میں تھک گیا ہوں۔‘‘(آرام کی ضرورت)

اسی طرح صفائی پسندی میں ایک شخص ٹرین میں چھپے ایک آدمی کو قتل کر تا ہے تو اس کی صفائی پسندی دیکھیے۔

’’جی معلوم نہیں،آپ اندر جاکر سنڈاس میں دیکھ لیجیے۔‘‘

’’نیزا بردار داخل ہو ئے،سنڈاس توڑا گیا تو اس میں سے ایک مرغا نکل آیا،ایک نیزا بردار نے کہا۔

’’کردو حلال۔‘‘

’’نہیں،یہاں نہیں،ڈبہ خراب ہوجائے گا۔باہر لے چلو۔‘‘(صفائی پسند )

منٹو نے ’سیاہ حاشیے‘کے تمام افسانوں میں شیطان صفت خصلت کی طرف لطیف اشارہ کیا ہے نیز قاری کے لیے ان واقعات کو بلا تبصرہ چھوڑ دیا۔

دوسرے افسانہ نگارو ں کی بہ نسبت منٹو کے افسانے دلوں کے زیادہ قریب ہیں اور تمام تر فنی تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں۔ ’سیاہ حاشیے‘کے بعد منٹونے فسادات پر بار بار لکھا ہے۔مثلا ’ٹھنڈا گوشت‘اس کا پس منظر فسادا ت کے مقابلے میں نفسیاتی زیادہ ہے۔ایشر سنگھ ایک رات ایک ہی خاندان کے چھ افراد کو قتل کر کے ان کی نوجوان لڑکی کو لے بھاگتا ہے تا کہ اس کی عصمت سے کھیل سکے۔لیکن عین وقت پر معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کا جسم ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔وہ مردہ ہے اس کے بھڑکے ہوئے جذبات یکایک سردہوجاتے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔

’’اسی طرح ’موذیل‘ کا پس منظر بھی فرقہ وارانہ فسادہے جو بمبئی میں بر پا ہوا تھا :

’’تر لوچن سنگھ اپنی منگیتر کو لینے جاتا ہے،لیکن فسادیوں کے گروہ میں پھنس جاتا ہے، ایسے موقع پر ’موذیل‘ جو سماج کی عصمت فروش لڑکی ہے، ترلوچن اور اس کی منگیترکو بچانے لیے جھوٹ بھی بولتی ہے، ڈھونگ بھی رچتی ہے اور وقت آنے پر خود عریاں ہو کر اسے پوشاک بھی بخش دیتی ہے۔اس نے مذہب اور اخلاق کی اونچی کتابیں نہیں پڑھ رکھی تھیں لیکن کسی کی زندگی بچانا اولین فرض جانتی تھی،اپنی عصمت سے بھی زیادہ قیمتی اور اہم—موذیل زخمی ہوکر گر جانے کے بعد کہتی ہے۔’’لے جاؤ،اپنے اس مذہب کو۔ ‘‘ اس کے بعد اس کا مضبوط بازواس کی چھاتیوں پر بے حس ہو کر گرجاتا ہے۔‘‘ (موذیل)

اسی طرح’شریفن‘میں جنونی اور انتقامی کیفیت کو دکھایا گیا ہے۔قاسم جب گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہاں اس کی بیوی اور بیٹی کی مردہ اور برہنہ لاشیں ملتی ہیں،وہ انتقام کی آگ میں جھلستا ہوا باہر نکلتا ہے اور بلوائیوں پر دیوانہ وار ٹوٹ کر تین لاشیں مارگر اتا ہے۔

 منٹو کے افسانوں میں یہ جنونی کیفیت مختلف انداز سے نظر آتی ہے۔اپنے ایک اور افسانے ’کھول دو‘ میں منٹو نے دکھایا ہے کہ فساد میں بچھڑی ہوئی ایک مسلم نوجوان لڑکی سکینہ کی کس طرح خود مسلم رضاکارنوجوانوں کی ذریعے آبرو ریزی ہوتی ہے۔ان رضا کارو ں نے سراج الدین جیسے بوڑھے شخص کے آخری سہارے کوبھی باقی نہیں چھوڑا۔دس دنوں تک وہ ان کی عفت وعصمت سے کھلواڑ کرتے رہے،پھر سکینہ کی نیم مردہ لاش ریلوے لائن پر پھینک کر چلے گئے۔منٹو کے دیگر افسانوں کی طرح یہ افسانہ بھی فنی اعتبار سے مکمل اور شاہ کار ہے نیزحقیقت پر مبنی انتہائی چبھتا سوال ہے۔جس کے جواب کے لیے انسانیت کے گریبان میں جھانکنا پڑے گا۔

اس سلسلے میں ایک تیسرا نام راجندر سنگھ بیدی کا آتا ہے۔انھوں نے تقسیم اور فسادات کو بہت قریب سے دیکھا بلکہ خود بھی اس سانحے سے دو چار ہوئے۔ ’’لاجونتی‘‘ان کا ایسا ہی افسانہ ہے جو ایسی عورتوں کی داستان بیان کر تا ہے جنھیں بلوا ئی پکڑ کرلے گئے،پھر وہ اپنی لُٹی عصمتوں کے بعدان کے رشتے داروں کو کہیں مل گئیں،اب مسئلہ تھا انھیں کس طرح دوبارہ دلوں میں بسایا جائے۔یہ ایک صرف لاجونتی کا ہی المیہ نہیں تھا بلکہ ایسی سارائیں، نازنین،اختری اور کچھ دوسری خواتین بھی تھیں،جنھیں سماج نے صرف اس لیے قبول نہیں کیا کہ وہ اپنی عصمتیں لُٹا کر آئیں تھیں۔

 عصمت چغتائی کے شاہکار افسانے ’جڑیں ‘ اور ’اپنا وطن‘ عزیز احمد کا افسانہ ’کالی رات‘حیات اللہ انصاری کا افسانہ ’شکر گزار آنکھیں ‘خواجہ احمد عباس کے افسانے ’کون ہوں میں ‘، ’انتقام‘، ’اجنتا میں‘ سہیل عظیم آبادی کا افسانہ ’اندھیارے میں ایک کرن‘ اختر اورینوی کا افسانہ’آج کل اور آج‘ست پر کاش کا افسانہ’آوازیں ‘قدر ت اللہ شہاب کا افسانہ ’یا خدا!‘ پرکاش پنڈت کا افسانہ ’سراغ‘ ممتا ز حسین کے افسانے ’سورج سنگھ‘ اور ’بن لکھی رزمیہ‘ خدیجہ مستور کے افسانے ’تین عورتیں‘‘اور ’منیوں بے چلا بابلا‘ رام لعل کا افسانہ ’ایک شہری پاکستان کا‘یہ سب وہ افسانے ہیں جن میں تقسیم اور فسادات کے دل فگار واقعات بیان ہوئے ہیں،انھیں وہی پڑھ سکتا ہے جس کا دل پتھرکا ہو یا وہ مضبوط اعصاب کا مالک ہو۔

تقسیم ہند نے برصغیر کی سائیکی پر بہت منفی اثر ڈالا، خوف و دہشت نے سارے خواب چھین لیے، ساری آرزوئیں سلب کرلیں۔ آج بھی جب ان واقعات پر لکھے افسانے نظر سے گزرتے ہیں تو روح کانپنے لگتی ہے۔ تقسیم ہند پر مبنی اردو افسانوں کے حوالے سے انگریزی میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے کہ اردو میں بہت ہی فنکارانہ انداز میں تقسیم ہند کی عکاسی کی گئی ہے۔ آلوک بھلا نے Stories about the partition of India مرتب کی تو محمد عمر میمن جیسے افسانہ نگار، مترجم نے An Epic Unwritten: The Pengiuin Book of partition storiesکے نام سے ایڈٹ اور ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح  کی اوربھی کتابیں انگریزی میں شائع ہوئیں جس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ اردو میں تقسیم ہند اور فسادات پر بہت ہی عمدہ افسانے لکھے گئے ہیں۔

 

Rizwan Ahmad

S-13/1 Pahalwan Chowk

Jogabai Extension, Jamia Nagar

New Delhi- 110025

rizwanalauddin1985@gmial.com


ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020


1 تبصرہ: