14/12/20

سیاسی و مذہبی جبر اور ’انگارے‘ - محمد اسد

 



جبر دراصل مقتدر طبقات یا صاحب اختیار کی جانب سے طاقت کا بے جا، غیرمنصفانہ اور کبھی کبھی ظالمانہ استعمال ہوتا ہے۔جبر کی اس تعریف میں عوام کے مصائب و آلام اور اس کے بوجھ تلے دبے ہونے کا احساس بھی شامل ہے۔ہندوستان میں تقریباً دو سو سال کے برطانوی تسلط کے عہد    میں برطانوی حکومت نے  اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہر طرح کے جبر کو روا رکھااور مختلف حربے استعمال کیے۔ انگریز مورخین نے دانستہ اور منصوبہ بند طریقے سے مخصوص طرز کی تاریخ نویسی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے یہ نظریہ پیش کیا جسے ’وہائٹ مینس برڈین تھیوری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے،جس کا لب لباب یہ ہے کہ سفید فام نسل کو خدا نے یہ ذمے داری سونپی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو مہذب بنائیں۔ انگریزی استعمار کا یہ نظریہ کچھ اور نہیں بلکہ سیاسی و تہذیبی جبر کی ہی ایک صورت ہے۔

بغور دیکھیں تو جبر کے کئی اقسام ملتے ہیں، مثلاً سیاسی، سماجی، اقتصادی، مذہبی و ریاستی جبر۔ ساتھ ہی ساتھ صنفی امتیاز کا جبر بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔یہ بالکل فطری بات ہے کہ جہا ں جبر ہوگا وہاں مختلف قسم کے حقوق اور آزادی سلب ہوگی اور ان کی بازیابی کے لیے احتجاج و مزاحمت اور جدو جہد بھی ناگزیر ہوگی۔جدو جہد کی یہ نوعیت عوامی سطح پر الگ ہوگی اور ادبی سطح پر مختلف۔ دنیا کی مختلف زبانوں کی ادبیات میں ہر قسم کے جبر کے خلاف احتجاج و مزاحمت کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے لیے ’مزاحمتی ادب ‘ نام سے باضابطہ  ڈسکورس یا کلامیہ موجود ہے۔

انقلاب 1857 سے پورے بر صغیر میں کہرام برپا ہوا۔برطانوی سامراج کی ملک گیری کی ہوس اورسیاسی جبر کے برے نتائج و اثرات دنیا کے دیگر بر اعظموں کے ساتھ ساتھ پورے بر صغیر پر بھی مرتب ہو رہے تھے اور مرزا غالب جیسے حساس شاعر نے ان المناک واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا  تھااور اپنے تجربات و مشاہدات کو اپنی تخلیقات میں جگہ دی  لیکن عملی طور پر غالب انگریزوں کے خلاف احتجاج و مزاحمت میںمصلحتاً شامل نہیں ہوئے اس لیے کہ انھیں خدشہ تھا کہ کہیں ان کا بھی انجام، صہبائی، مولوی محمد باقر، اور مولانا فضل حق خیرآبادی جیسا نہ ہو۔اس عہد میںانگریزوں نے پورے ملک کو چھاونی اور کیمپ میں تبدیل کردیا تھا۔بعد کے ادوار میں اکبر الہ آبادی کے یہاں جو طنز کی صورت ملتی ہے وہ برطانوی سامراج کے ریاستی، مذہبی جبر کے خلاف مخصوص انداز میں احتجاج و مزاحمت کی  باالواسطہ مثال ہے۔دیکھا جائے تو اردو شاعری کا بیشتر حصہ نظام جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ اردوشاعری سے قطع نظر اردو افسانوی ادب کی بیشتر تخلیقات میں بھی ریاستی و مذہبی اور صنفی تفریق کے جبر کے خلاف احتجاج و مزاحمت کی صورت دیکھنے کو ملتی ہے۔

مجموعہ’ انگارے‘ کے افسانوں کے مرکزی خیال پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر افسانوں میں مذہبی ریاکاری، منافقت اور سماج میں عورتوں کی ناگفتہ بہ حالت کے خلاف ایک احتجاج کی آواز بلند کی گئی تھی۔آج بھی ہم پدری نظام معاشرت اور مذہبی ریاکاری و منافقت سے بر سر پیکار ہیں اور عورتوں کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ان افسانوں میں ہندوستانی سماج کے جن خطرناک رجحانات اور مذہبی جبر کے خلاف خامہ فرسائی ہوئی ان میں سجاد ظہیر کا لہجہ شدید تر تھا اور وہ اس معاملے میں پیش پیش تھے جبکہ دیگر مصنفین کے یہاں اتنی شدت نہیں تھی۔ بات یہ ہے کہ سجاد ظہیر مذہبی اجارہ داروں کے سخت خلاف تھے۔

مجموعہ’ انگارے‘ کے خلاف پورے ہندوستان میں فتوے جاری کیے گئے،جن میں’ انگارے‘ کو  مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا،فحش،اخلاقیات کے خلاف، مذہب دشمن اور مسلمانوں کے مذہبی عقائد و جذبات کو مجروح کرنے کی گھناؤنی سازش قرار دیا گیالیکن دوسری طرف مجموعے کی ستائش اور حمایت کرنے والے ادیبوں مثلاً نیاز فتح پوری،مولوی عبدالحق اور مدیر’ زمانہ‘ کانپور دیا نرائن نگم وغیرہ کی بھی کمی نہیں تھی۔مخالفت اور تنقید کرنے والوں کا اپنا نقطہ نظر، ان کے اپنے دلائل رہے ہوںلیکن سچائی تو یہ ہے کہ’ انگارے‘ کے مصنفین اس دور کے سب سے بڑے روایت شکن ثابت ہوئے جو جیمس جوائس کے گرویدہ  اور  ڈی ایچ لارینس،چیخوف اور میکسم گورکی کے افکار و نظریات سے متاثر تھے۔

انگارے کی اشاعت کا بنیادی مقصد ادبی تھا لیکن مجموعی طور پر یہ مجموعہ چونکہ اس دور کے زوال پزیر اور شکست خوردہ سماج اور فرسودہ تہذیبی عناصر کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا اس لیے بیشتر نقادوں کو اس کے پس منظر میںمارکسی شعور کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ اور یہی بات حکومتِ وقت کے لیے بھی زیادہ پریشان کن تھی کیونکہ برطانیہ اس وقت دنیا کے کئی محاذوں پرمارکسزم کے خلاف ایک نظریاتی جنگ بھی لڑ رہا تھا۔انگارے کی اشاعت سے مذہب کے ان جامد تصورات پر براہِ راست کاری ضرب لگی جو صدیوں سے معاشرے میں حرف آخر گردانے جاتے تھے۔دیکھا جائے تو مذہبی جبر اور فرسودہ سماجی اصولوں(سماجی جبر) کے خلاف لکھنا کسی بند معاشرے میں نہایت مشکل کام ہے لیکن پھر بھی مصنّفین نے ان موضوعات پر کھل کر اظہار کیا۔ ڈاکٹر انور سدید نے انگارے کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ:

’’ انھوں نے ماحول کے نئے تقاضوں کے مطابق ادیب کی آزادی کا حق طلب کیا۔ادب اور زندگی کے مقاصد کا تعین کیا اور ادب کو زندگی اور ماحول کا ترجمان قرار دیا۔‘‘ (ڈاکٹر انور سدید،  اردو ادب کی تحریکیں، ص 459)

انگارے‘ کے سبھی مصنّفین کے خیالات و نظریات ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن روایت سے انحراف اور بغاوت کا عنصر اور حق تک رسائی حاصل کرنے کے جذبات ضرور مشترکہ تھے۔ رشید جہاں نے ہر طرح کے جبر کی شکار اس عورت کو پیش کیا جو مرد کے بنائے ہوئے سماجی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کو مجبور ہے در اصل یہی زاویہ نگاہ سجاد ظہیر کے ڈرامے  ’ بیمار ‘  اور ان کے دوسرے افسانے ’  نیند نہیں آتی ‘  میں مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے اور دونوں جگہ جنس مخالف کے تئیں اس ناہموار رویے کو ظاہر کیا گیا ہے جو معاشرے میں رائج تھا۔

انگارے‘ معاشرے کی بوسیدہ رسوم، فرسودہ تصورات کے جبر پر شدید اعتراض تھا۔ یہ مروجہ سماجی سیاسی اور مذہبی اداروں کے خلاف متوسط طبقے کے نوجوان قلمکاروں کی طرف سے ایک اعلان جنگ  تھا۔ بعض فنی خامیوں کے باوجود اس مجموعے کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے جدید ہندوستانی معاشرے میں پدری نظام معاشرت کے غلبے اور جنسی تفریق کے جبر کی طرف توجہ دلائی تھی اور معاشرت کے چہرے پر صدیوں پرانے مصنوعی رنگ و غازہ کو دھل دیا تھا۔مولویوں کی جھوٹی مذہبیت پر، جس کا دین و مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، ان کوبڑی قوت کے ساتھ نشانہ بنایا گیا تھا۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس زمانے کے لحاظ سے اردو افسانہ نگاری جیسی نوزائیدہ صنف نے ابتدا ہی سے معروضی زندگی کی پیش کش کو اپنا شعار بنالیا تھا۔انگارے نے ان ممنوعہ موضوعات پر بھی اظہار کو ممکن بنایا جن پر ابھی تک قدغن لگے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ اخلاقیات، مذہب سے علاحدہ بھی کوئی شئے ہے جو سوشلائزیشن، جغرافیائی ماحول اور تعلیم و تربیت سے فروغ پاتی ہے۔ اس تصور نے جہاں دقیانوسیت کے اجارہ داروں اور روایت پرستوں کو بوکھلا دیا وہیں دوسری جانب لکھنے والوں کو نئی بصیرت اور حوصلہ بھی عطا کیا۔

آگے چل کرترقی پسندوں نے انگارے کی ہی رکھی بنیادوں پر ادب میں قنوطیت، یاسیت اور رجعت پسندی کی شدت سے مخالفت کی کیونکہ کی یہ سبھی منفی عناصر معاشرے کی فطری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں  خصوصاً یاسیت امید کا گلا گھونٹ دیتی ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں بے عملی کی زندگی اور کاہلی کا دور دورہ ہوجاتا  ہے،زندگی کا تحرک رک جاتا ہے، اس طرح ادب میں بھی منفی عناصر در آتے ہیں۔ترقی پسندوں کے ہاں روشن خیالی تھی اور ان کی تصانیف میں  باغیانہ تیور کی کارفرمائی تھی۔ترقی پسند تحریک کے عہد کا فکشن بنیادی طور پر پریم چند کی سماجی حقیقت نگاری کا ہی اگلا مرحلہ ہے۔ لہٰذا جن ترقی پسند افسانہ نگاروں نے زندگی کو غیر جانبداری ومعروضی انداز سے دیکھا اور نظریاتی انتہا پسندی کا شکار ہوئے بغیر اسے تخلیقی رعنائی سے موضوع بنایا ان کے افسانوں میں حقیقت اور تخیل کے امتزاجی عمل کی کارفرمائی ملتی ہے  انھوں نے شاہکار اور زندہ و جاوید افسانے لکھے۔ترقی پسند افسانے کا دورِ عروج انھیں افسانہ نگاروں سے عبارت ہے اور ان کی عظمت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ان کے یہاںہر طرح کے جبر کے خلاف احتجاج و مزاحمت کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ترقی پسند افسانے کی روایت کا ٰآغاز پریم چند کی حقیقت نگاری سے ہوتا ہے اور ان کاا فسانہ’ کفن‘ اس کی بہترین مثال ہے،ان کی کہانیوںمیں ہندوستانی سماج اپنے اصل روپ میں دکھائی دیتا ہے۔انھوں نے انسانی عظمت اور محنت کو اپنے فن کا محور و مرکز بنایا ہے،اس لیے پریم چند اولین ترقی پسند افسانہ نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔

انگارے‘   میں شامل افسانوں اور اس عہد کے دیگر افسانوں کے تفصیلی مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ  ان میں ہندوستان کے  سماجی و معاشرتی جبر اور ناہمواریوں  کے خلاف ایک کڑی تنقید  ہے۔ ساتھ ہی اس پورے عہد میں  انگریزی استعمار کے  سیاسی جبر اور بد عنوانیوں کے خلاف بھی آواز بلند ہوئی تھی۔ خاص طور سے برطانوی نوآبادیات کے استحصالی نظام پر کاری ضرب لگائی گئی تھی۔  برطانوی حکومت نے غربت و افلاس، طبقاتی نظام اور زمیندارانہ روایات کی پاس داری اور عوام کو جہالت کے اندھیرے میں ڈوبے رہنے پرمجبور کیا اور اپنے اقتدار کو جاری رکھنے کا آزمودہ نسخہ  اپنایالیکن ’انگارے‘ کے مصنّفین نے اپنے افسانوں کے ذریعے اسی سیاسی جبر کو چیلنج کیا۔ لہٰذا اس کی پاداش میں ’انگارے‘ کو مذہبی و سیاسی جبر کا شکار ہونا پڑا۔یہی وجہ ہے کہ معاشرتی دبائو  اور نقض امن کے لیے لاحق خطرات کو جواز بنا کر اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔اس عہد کے بیشتر افسانے بنیادی طور پر سیاسی جبر کے خلاف سراپا احتجاج و مزاحمت تھے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ جبر و استبداد کے دور میں ادیب و شاعر اور بھی حساس و سر گرم ہوجاتا ہے اور جب  سماجی وسیاسی جبر کے نتیجے میں قدغنیں بڑھتی ہیں توادیب و فن کار اپنے فن کے ذریعے اتنی ہی شدت کے ساتھ اس کی مخالفت بھی کرتا  ہے۔ لہٰذاعام ادوار کے مقابلے اس عہد  میں اردو افسانوں نے زیادہ ترقی کی اور  اسی پس منظر میں بے شمار افسانے تخلیق کیے گئے۔ترقی پسندوں نے بھی اپنے مخصوص انداز میں ’انگارے‘ کی روایت کو آگے بڑھایا  اور آگے چل کر جدیدیت کے رجحان سے متاثر افسانہ نگاروں نے بھی جبر کے خلاف  علامت و استعارہ کے پردے میں احتجاج ہی کو پیش کیا۔


Mohammad Asad

Ph.D Research Scholar

Department of Urdu,

Delhi University, Delhi - 110007

Mobile: 7531908218

Email : mohammadasad87@gmail.com



ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں