1/6/21

جامعہ کے شعبۂ اردو کی شعری کائنات - کوثرمظہری

 



تلخیص

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں اور اکابرین میں شیخ الہند مولانا محمود حسن، محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں شیدا، عبدالمجید خواجہ شیدا کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ پورے جامعہ میں شروع سے لے کر اب تک تقریباً پچاس سے زائد شعرا کی فہرست بنتی ہے۔ جہاں تک شعبۂ اردو کا تعلق ہے تو یہاں قیصر زیدی، تنویراحمد علوی، محمد ذاکر، عنوان چشتی، مظفر حنفی، شمیم حنفی، خالد محمود اور شہپر رسول جیسے اہم شعرا رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ ان میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ قیصر زیدی، تنویر احمد علوی اور محمد ذاکر بھی شعرگوئی سے شغف رکھتے تھے۔ لہٰذا اس مضمون کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ نئی نسل واقف ہوسکے کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ میں شاعری کا ذوق کس قدر بالیدہ اور تراشیدہ تھا۔

مذکورہ بالا شعرا کے علاوہ آج بھی شعبۂ اردو کے لیے اساتذہ میں کچھ ایسے نام لیے جاسکتے ہیں جن کی شاعری پڑھی اور سنی جاتی ہے۔ اس حوالے سے کوثرمظہری، احمد محفوظ، عمران احمد عندلیب، خالد مبشر کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اس شعبے میں مہمان اساتذہ میں عادل  حیات بھی وابستہ رہے ہیں جن کی غزلوں، نظموں اور رباعیوں کے مجموعے آچکے ہیں۔ اس مضمون سے صرف شعبۂ اردو ہی نہیں بلکہ جامعہ کی شعری روایت کے ارتقا پذیر اور مستحکم ہونے کا جواز بھی پیدا ہوتا ہے۔

کلیدی الفاظ:

جامعہ ملیہ اسلامیہ، اردو شاعری، شیخ الہند مولانا محمود حسن، حکیم اجمل خاں، محمد علی جوہر، مسعود حسین خان، قیصر زیدی، تنویر احمد علوی، محمد ذاکر، حنیف کیفی، منظفرحنفی، عنوان چشتی، شمیم حنفی، خالد محمود، شہپر رسول، جدیدیت، قطعات، نظم، شعری اسلوب، مابعدالطبیعیاتی افکار، محزونیت، عصری حسیت، حسن و عشق، کلاسیکی، روایتی رنگ، عرفان ذات، جذبات و کیفیات، علامت، تراکیب، استعارہ

——————

جامعہ ملیہ اسلامیہ جہاں علمی اور نثری کارناموں کے لیے جانی جاتی ہے، وہیں اردو شاعری کے حوالے سے بھی اپنا نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اس کی شعری روایت میں کلاسکی، ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید جیسے شعری نشانات ملتے ہیں۔محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں شیدا، عبدالمجید خواجہ شیدا،شفیع الدین نیر، جناب قیصر زیدی، تنویر احمد علوی سے لے کر محمد ذاکر، انوار علی خاں سوز، ظفر احمد نظامی، عنوان چشتی، انور صدیقی، حنیف کیفی، مظفر حنفی اور شمیم حنفی تک ایک نہایت ہی بامعنی اور توانا شعری روایت رہی ہے۔اس کے بعد والے عہد میں چند نام اس طرح لیے جاسکتے ہیں: زبیر فاروقی، خالد محمود، انیس الرحمن، فرحت احساس، سہیل احمد فاروقی، عراق رضا زیدی، شہپر رسول، عارف نقوی، عبید صدیقی، ماجد دیوبندی، کوثرمظہری، احمد محفوظ،واحد نظیر، عمران احمد عندلیب، عادل حیات،اورنگ زیب اعظمی، رحمن مصور، خالد مبشر وغیرہ۔ ابھی ایسے کچھ نام ہوں گے جن کا ذکر یہاں نہیں آسکا۔ ظاہر ہے کہ ان تمام شعرا کا احاطہ اس ایک مضمون میں ممکن نہیں۔ اس لیے یہاں اکابرین و بانیانِ جامعہ کے چند اشعار پیش کرکے صرف شعبۂ اردو کے چند سینئر شعرا کے کلام کا جائزہ لیا جائے گا۔


شیخ الہند مولانا محمود حسن

متاع دہر پر غرّہ نہ کر ہے سخت نادانی

غذائے مور ہیں دیکھا جو کرتے تھے سلیمانی

عجب نادان ہیں جن کو ہے تخت و تاج پر غرہ

کسی کی قیصری باقی رہی اس جا نہ خاقانی

جہاں ہے خندۂ شادی وہاں ہے نوحۂ ماتم

جو تاج خسروی تھا آج ہے کشکول سامانی

——

کیا کہوں اللہ اکبر کیا ہے شان رود نیل

سجدہ گاہ اشقیاء ہے آستان رود نیل

رستم و سہراب کے قصے ہیں تقویم کہن

ہم سے سن لے کوئی آکر داستان رود نیل

بے تکلف آئیں سب اعداء کو دعوت عام ہے

کچھ نہ پوچھو کس قدر بہتا ہے خوان رود نیل


حکیم اجمل خاں شیدا

یہ نہ پوچھو کہ مرے دل میں کدھر رکھا تھا

تھا جہاں درد وہاں تیر نظر رکھا تھا

جنبش باد سحر سے ہے تموج مے میں

قوت جان حزیں ہے نفسِ جامِ شراب

کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے

ہم اور جاتے بزم عدو میں، مگر گئے

درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہوجائے گی

موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہوجائے  گی

اگر عرض تمنا کا کسی دن امتحاں ہوگا

جبیں ہوگی کسی کی اور کسی کا آستاں ہوگا

جسے تم ماہ سمجھے ہو وہ ہوگا داغِ دل میرا

جسے تم چرغ کہتے ہو مِرا دودِ فغاں ہوگا

ابھی سے تقاضا کہ گھر جائیں گے

تم آئے کہ گویا سحر ہوگئی

اگر عرض تمنا کا کسی دن امتحاں ہوگا

جبیں ہوگی کسی کی اور کسی کاآستاں ہوگا


محمد علی جوہر

دورِ حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد

ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

جاں فروشی کے لیے ہم تو ہیں تیار مگر

کوئی اس جنسِ گرامی کا خریدار بھی ہو

تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے

پرغیب سے سامانِ بقا میرے لیے ہے

کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف

کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے

خوگرِ جور پہ تھوڑی سی جفا اور سہی

اس قدر ظلم پہ موقوف ہے کیا اور سہی

اس دردِ لادوا کی دوا ہو تو جانیے

دستِ مسیح میں یہ شفا ہو تو جانیے


عبدالمجید خواجہ

اے فلک یہ کیا ہوا اپنا یگانہ پھر گیا

تو اکیلا کیا پھرا سارا زمانہ پھر گیا

المدد اے خضر صحرائے توحش المدد!

رہبری کر خانۂ زنجیر ہوں بھولا ہوا

مَیل ہے دل کو ترے جانبِ اغیار عبث

مجھ سے باتیں ہیں لگاوٹ کی یہ اے یار عبث

آئینہ سے ہیں صاف بجا پہلو و زانو

رکھتے ہیں عجب حسن صفا پہلو و زانو

مجھ سے کیا پوچھتے ہو ہوش میں آلوں تو کہوں

دل ہے بیتاب مرا اس کو سنبھالوں تو کہوں

چاروں طرف ہجوم یہ کیوں حیرتوں کا ہے

کیا آئینے لگے ہیں ترے گھر کے آس پاس


مسعود حسین خان

بازیٔ عشق میں گر سود و زیاں کا ہے سوال

کسی کی رسوائی گئی آپ کی شہرت سے پرے

جی سلگتا ہے‘ سلگتا رہے، جلتا ہے جلے

ایسی باتوں سے بھلا عشق میں بنتا کیا ہے

کہیں وہ ہوکے خفا پھر خدا نہ ہوجائے

مجھے تو ڈر ہے وہی ماجرا نہ ہوجائے

تیری انگشت حنائی پہ گماں ہے کیا کیا

اِس قدر سادہ و پرکار نہ دیکھا نہ سنا

یہ انتظار کی گھڑیاں کنارِ جوئے چشم

امید ڈوب چکی اعتبار باقی ہے


قیصر زیدی

شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے کی کلاسس شروع کرانے میں قیصر زیدی صاحب کا اہم رول رہاتھا۔ ’انگبین‘ کے نام سے مجموعۂ منتخبات قیصر زیدی، مولانا عقیل الغروی صاحب کی تقدیم کے ساتھ 1987 میں منظرعام پر آیا تھا۔ غالباً اس کے بعد کوئی دوسرا مجموعہ کلام منظرعام پر نہیں آیا۔ اس منتخب کلام کے ساتھ ساتھ آخر میں نثری نگارشات کے بھی چند نمونے شامل کیے گئے ہیں۔

قیصر زیدی کا زمانۂ شاعری جدیدیت کے عنفوان شباب کا زمانہ تھا، لیکن ان کے شعری آفاق پر جدیدیت کے نشانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے تخلیقی شعور میں کلاسیکی رچاؤ اور فنی پختگی کا مستحکم رنگ دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے کلام کے مطالعے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان میں نظم گوئی کی قوت زیادہ پختگی اور صلابت کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ انھوں نے جامعہ میں ا نگریزی بھی پڑھائی اور فارسی اور اردو بھی جیسا کہ ’انگبین‘ کے آغاز میں (’خودنوشت‘ کے عنوان سے) لکھا ہے۔ انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ شاعری بھی کی ہے۔ ’حدفاصل‘ کے عنوان سے ایک نعت دیکھیے      ؎

مکڑیوں کے جالوں سے اس قدر الجھنا کیا/مکڑیوں کے جالے بھی اک وجود رکھتے ہیں

یہ وجود قائم ہے/ کاخ پر کنگوروں پر/ بے مکیں مکانوں پر/ غاروں کے دہانوں پر

تار کیسے نازک ہیں/ بال سے بھی نازک تر/ تیغِ تیز سے برّاں

کیسی حدفاصل ہے/ غار کے دہانے پر/ غار! راز سربستہ/ صدق کا، امانت کا

کذب چھو نہیں سکتا، مکڑیوں کے جالوں کو

مجھے نہیں لگتا کہ اس نہج پر کسی نے کوئی نعت کہی ہوگی۔ ممکن ہے کہی ہوگی، مجھے علم نہیں۔ لیکن اس میں جو دینی جمال کا پر تو ہے، وہ لائق تحسین ہے۔ پھر یہ کہ غار کو صدق و امانت کا راز سربستہ کہنا، حضور اقدسؐ سے شدید عشق اور سیرت طیبہ کا پُرخلوص شعری اظہار ہے۔ آخر میں یہ کہنا کہ مکڑی کے جالوں کو کذب چھو نہیں سکتا، یہ بھی ایک پاکیزہ اسلوب کو ظاہر کرتا ہے۔

زندگی کے حسین لمحوں کو بھی قیصر زیدی نے پرکیف اور پرکشش اندازمیں پیش کیا ہے۔ زندگی صرف دکھوں اور غموں کا مرقع نہیں ہوسکتی، لہٰذا، قیصر زیدی کے یہاں بھی اس نوع کی مثالیں ملتی ہیں جن سے حسن و عشق اور حیات انسانی کی ہم آہنگی و ہم رشتگی کا پتہ چلتا ہے۔ محبوب کی اداؤں اور عشوہ طرازیوں کا ذکر، محفل رقص و سرود کا ذکر یا پھر تار نفس کے شرر میں مبدل ہوجانے کی باتیں، قیصر زیدی کی شاعری میں ایسے نقوش مرتعش نظر آتے ہیں۔ غزلوں سے زیادہ ان کی نظمیں پرکار اور پرانوار نظر آتی ہیں۔ ان کی نظم ’پرِکاہ‘ پڑھیے یا ’ھُمک‘ ، ’آشفتہ سری‘ یا پھر ’بے نیازی‘ کے شعر، ان میں ایک طرح کی طُرفگی، شستگی اور الفاظ و تراکیب میں ملبوس فکری کھلاپن دکھائی دے گا۔ کہیں رومان تو کہیں ذوق و شوق کو پرِپرواز لگتے ہوئے تو کہیں عشقیہ رموز کی پرتیں بنتی اور مٹتی ہوئی نظر آتی ہیں      ؎

محفلِ رقص ہے محفل انبساط/ محفل رقص ہے آب و رنگِ حیات

محفل رقص ہے رقص عشوہ گری/ رقص عشوہ گری سامری آزری

کوئی زہرہ وش ہے کوئی مشتری/ سامری ناگ زلفوں میں بکھرے ہوئے

(ماخوذ: ھُمک، انگبیں، ص 79)

قیصر زیدی نے جو قطعات کہے ہیں، ان میں زندگی اور انسانی جذبات کے کئی رنگ ملتے ہیں، ملاحظہ کیجیے      ؎    

یاس نے جو رفوگری کی تھی

گر عطا ہو مجال گویائی

اب وہ ٹانکے اکھیڑتا ہوں میں

آپ ہنس دیں تو ایک بات کہوں

ان سے تجدید آرزو کرکے

ہونٹوں ہونٹوں میں کیا مسل ڈالا

اپنے زخموں سے کھیلتا ہوں میں

اس تبسم کو کائنات کہوں

قیصر زیدی کی نظمیں پڑھتے ہوئے جمیل مظہری، حفیظ جالندھری، ساحر لدھیانوی اور مجاز لکھنوی، سردارجعفری کے تخلیقی ارتعاشات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قیصر زیدی کے سامنے حفیظ جالندھری اور جمیل مظہری کو چھوڑ کریہی وہ شعرا تھے جو ترقی پسند تحریک کے ستون بھی تھے۔ ان کی ایک نظم ’غارت گری‘ ہے جس کے پانچ بند ہیں۔ ایک بند دیکھیے     ؎

نیاز عشق کے سادہ فسوں کو لوٹ لیا

کسی نے اپنی حیاؤں کا واسطہ دے کر

کسی نے اپنی جفاؤں کا واسطہ دے کر

کسی نے میری وفاؤں کا واسطہ دے کر

نیازِ عشق کے سادہ فسوں نے لوٹ لیا

محبوب سے مخاطب ایک نظم جس کا عنوان ’؟‘ ہے ایک نہایت ہی رواں اسلوب میں کہی گئی نظم ہے۔ حفیظ جالندھری کی مختصر فقروں والی نظموں کو ذہن میں رکھیے اور ایک بند ملاحظہ کیجیے      ؎

اے شاہدِ رنگینی!/ اے پیکرِ رعنائی!/ اے بیخودِ خودبینی/ اے جانِ تماشائی!

جذبات کی دنیا میں/ طوفان سا برپا ہے/ کچھ تجھ کو نہیں معلوم؟

قیصر زیدی کی رومانی نظموں کو ناہید اور زہرہ جیسے کرداروں سے مزید تقویت پہنچتی ہے اور ان کی جمال پروری اور عشق آسا تصور تخلیق کا پر تو مزید چمک اٹھتا ہے۔ انھوں نے جگر بسوانی شاگردِ امیر مینائی سے اصلاح بھی لی تھی۔ لہٰذا، یہ سلسلہ امیرمینائی کے رنگ شاعری تک پہنچتا ہے۔ ان کی رومانی شاعری میں ترقی پسندی کے نقوش بھی جابہ جا نظر آتے ہیں۔ نظم ’زہرہ سے‘ ایک بند دیکھیے    ؎

زندگی میرے لیے اک خارزار راہِ شوق

ہر شگوفہ ہے نظر میں شعلہ بارِ آہِ شوق

آپ کہتی ہیں کہ ہے یہ سبزہ زارِ راہِ شوق

ایسی حالت میں محبت کا یقیں کیسے کروں؟

(ماخوذ— ’ناہید سے‘)


تنویر احمد علوی

تنویرا حمد علوی کے دو شعری مجموعے لمحوں کی خوشبو (1988) اور رقص لمحات (1998) شائع ہوچکے ہیں۔ ’وہ لمحوں کی خوشبو میں‘ لکھتے ہیں:

’’... جسے شاعری کہتے ہیں وہ ذاتی مشاہدہ کا پرتو، داخلی تجربے کا عکس، تخیل کی رنگ آمیزیوں کا مرقع اور جذبات کی پرکشش لہر غرض سب کچھ ہے...‘‘           (لمحوں کی خوشبو، ص 16)

وہ شاعری کو تجربے کی زبان اور زبان کا تجربہ تصور کرتے ہیں۔ میں نے ان کی شاعری سے پہلے ان کی تنقیدی بصیرت کی جہت اوپر پیش کی ہے۔ میں نے دونوں مجموعوں کو دیکھا اور پڑھا تو اندازہ ہوا کہ ان کے تخلیقی نظام میں نظموں کی گنجائش زیادہ ہیں۔ انھوں نے شاعری کو ذاتی مشاہدے کا پرتو، داخلی تجربے کا عکس، تخیل کی رنگ آمیزی، جذبات کی پرکشش لہر کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ شاعر کے لیے مشاہدہ (یا مطالعۂ کائنات) لازمی ہے۔ مشاہدے کی پیش کش سے پہلے اس میں تخیل اور جذبے کی کارفرمائی بھی ضروری ہے۔ کہیں جذبوں کی فراوانی تو کہیں تخیل کی جلوہ سامانی ان کی شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے    ؎

شمعیں اشکوں کی جلانے کے لیے زندہ ہوں

خلوت غم کو سجانے کے لیے زندہ ہوں

کانوں کی حنابندی راس آگئی صحرا کو

دیکھی مرے اشکوں میں جب خون کی ارزانی

روشنی اپنا مقدر تھی مگر کیا کیجے

ہم ستاروں کی طرح منزل شب تک پہنچے

اور کہیں کہیں ایسے تلخ تجربے بھی سناٹے میں شدت پیدا کرتے ہیں          ؎

کون دیکھے گا یہاں دن کے اجالوں کا ستم

یہ ستارے تو چلے جائیں گے سب رات کے ساتھ

راستے ختم ہوئے اور سفر باقی ہے

خود نئی راہ کوئی ہم نے نکالی بھی نہیں

مرے وجود کا ہمزاد میرا سایہ ہے

مری صلیب بھی ہے، میرے ہم سفر کی طرح

میں نے پہلے ہی یہ ذکر کیا ہے کہ تنویر احمد علوی نے غزلوں کی بہ نسبت نظمیں زیادہ کہی  ہیں۔ نظموں میں رومانی نظمیں بھی ہیں اور تاریخ و تہذیب کے نقوش کو پیش کرنے والی نظمیں بھی۔ انھوں نے خود لکھا ہے         ؎

’’نظم نگاری ہی شروع سے آخر تک میری شعری دل چسپیوں کا مرکز بنی رہی۔‘‘

    (لمحوں کی خوشبو، ص 210)

ان کی کچھ نظمیں دیکھ اور پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ہندوستانی تہذیب اور خالص ہندی روایت سے بہت کچھ اکتساب کیا ہے۔ فطرت اور قدرت کے عناصر ان کی نظموں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ آبشار، آفتاب، چاند، سویرا، ویرانہ، مقبرہ، سمندر، آسمان، کوہسار، گلستاں وغیرہ کے عنوانات سے کئی بند پر مشتمل ایک نظم ’صدائیں‘ ہے۔ دو بند ملاحظہ کیجیے      ؎

مری ہر سانس ہے اک سازِ ہستی

مری ہر بات ہے، اک رازِ ہستی

تکلّم سے بھری میری خموشی

مری آواز ہے آوازِ ہستی

ادھر آ اے مرے شاعر ادھر آ

(مقبرہ)

تجلّی زار فطرت، میرا سینہ

رواں شام و سحر میرا سفینہ

ہر اک ذرہ مرے جلووں سے روشن

سما سے تا سمک ہے میرا زینہ

اِدھر آ اے مرے شاعر ادھر آ

(آفتاب)

کونارک، ایلورا اور کھجوراہو پر بھی نظمیں ملتی ہیں اور قلوپطرہ، گوتم بدھ، آئن اسٹائن پر بھی۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات میں قدیم تاریخی پس منظر بھی رہے ہیں۔ ماضی کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتے ہوئے انھوں نے دیوار چین، رومۃ الکبریٰ اور ممی کو بھی موضوعات سخن بنایاہے۔ نظم ’کونارک‘ سے یہ بند ملاحظہ کیجیے        ؎

کیا قیامت ہے حسن پیکر بھی

آئینہ بن گیا ہے پتھر بھی

جیسے پرچھائیاں گلابوں کی

رقص گاہیں حسین خوابوں کی

اسی طرح ’دیوارِ چین‘اور ’ اہرام‘ سے ایک ایک بند دیکھیے    ؎

سینۂ دہر پہ بل کھاتی ہوئی یہ دیوار

اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے صدیوں کا غبار

چہرۂ ارض پہ ماضی کی یہ سنگین لکیر

زیست کے پاؤں پہ یہ وقت کی بھاری زنجیر

 

(دیوار چین)

——

یہ تراشیدہ چٹانیں، یہ کہن سال ستون

اک شہنشاہ کے سنگین عزائم کا ثبوت

ہیبتِ کج کلہی سطوتِ آدابِ شہی

زندگی کے لب فریاد پہ اک مہر سکوت

 

(اہرام)

نظم ’ممی‘ میں ’ہیرو غلیفی‘ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے تصویری نقوش کا رزمیہ تحریر میں ڈھلنا۔ ہیرو غلیفی یونانی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی مقدس تحریر کے ہیں۔ کاہنوں اور مذہبی رہنماؤں سے ہوتی ہوئی یہ رمزیہ تحریر حکومت تک پہنچی۔ گویا تنویر احمد علوی نے اس مرکب لفظ سے ’ممی‘ کی حقیقت کو بیان کیا ہے جس میں ایک وسیع قدیم تاریخی عہد مدفون ہے۔ اہرام مصر کا تعلق بھی عہد قدیم کی تہذیبی تاریخ سے ہے۔ دیوار چین کو مذکورہ بندمیں زیست کے پاؤں میں وقت کی ایک بھاری زنجیر سے تشبیہ دی ہے۔ اسی طرح ’اہرام‘ کے اس بند میں اہرام کو کسی بادشاہ کے سنگین عزائم، ہیبتِ کج کلہی، سطوتِ آداب شہی اور زندگی کے لب فریاد پر ’مہرسکوت‘ سے تشبیہ دی ہے۔ یہاں ایک ہی بند پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں نظموں کے مختلف بندوں میں تنویر احمد علوی نے مختلف پہلوؤں اور جہتوں کو نشان زد کیا ہے۔

تنویر احمد علوی کی غزلوں اور نظموں میں حسن و عشق کے رموز اور رعنائی حیات کی ضیاپاشیاں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ خواب اور شکست خواب کا ذکر ہو یا بھی فلسفۂ حیات سے خوشہ چینی یا پھر خارجی منظرکشی، تنویر احمد علوی کی تخلیقیت ہر جگہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ انھوں نے جذبہ و احساس کو خوبصورت پیرائے میں منظوم کیاہے۔ شعری پیکر میں ان کے یہاں انسانی جذبات کچھ اور بھی نکھر آتے  ہیں۔ چند شعر اور ایک نظم سے ایک بند ملاحظہ کیجیے     ؎

ریشمی رات کی خوشبو کے سہارے چلیے

ساتھ آجائیں گے خود چاند ستارے، چلیے

زخم جاں آج بھی خونابہ فشاں ہے کہ جو تھا

ہر نفس روح پہ اک بارِ گراں ہے کہ جو تھا

برق محمل بھی نہیں لالۂ صحرا بھی نہیں

دل کی قسمت میں چراغ رُخِ زیبا بھی نہیں

——

یہ کُنج کُنج میں، پھولوں کی جانفزا خوشبو

فضا میں بکھرے ہوئے شب کے ریشمی گیسو

یہ عطر و نور، یہ شبنم کی بارشیں ہر سو

یہ نو شگفتہ شگوفوں میں بولتا جادو

یہ شاخِ گل کے اشارے سلام کہتے ہیں

غرض یہ کہ تنویر احمد علوی نے اپنے شعری اسلوب اورطرزِ فکر سے اردو ادب کے دامن کو ثروت مند بنانے میں اچھا خاصا تعاون دیا ہے۔ ان کی تخلیقی نگارشات اور تنقیدی موشگافیوں پر کام ہوا ہے، لیکن شاعری کے حوالے سے گفتگو کم ہوئی ہے لیکن ان کی شاعری میں جو نکات اور تہذیبی و فکری نقوش جلوہ گر ہیں، ان کی چھان پھٹک کرنے کی ضرورت ہے۔


محمد ذاکر

پروفیسر محمد ذاکر کو اچھے استاد اور باکمال مترجم کی حیثیت سے تو سب جانتے ہیں لیکن ان کے تخلیقی وفور سے کم لوگ واقف ہیں۔ میں بھی شعبۂ اردو میں 27,28 برسوں سے ہوں، لیکن ان کی شاعری سے واقفیت نہیں ہوسکی تھی۔ ریٹائر ہوجانے کے بعد ایک روز وہ شعبے میں تشریف لائے اور نظموں پر مشتمل اپنا مجموعہ ’اظہار‘ (1906) دیا، میں نے شکریہ ادا کیا اور رکھ لیا۔ ان کے چلے جانے کے بعد اوراق گردانی شروع کردی۔ یک گونہ مسرت ہوئی اور حیرت بھی کہ اتنی اچھی نظمیں اب تک پردۂ خفا میں کیوں تھیں؟ خیر!

محمد ذاکر قدرے بے نیاز سے واقع ہوئے ہیں۔ ان کی شاعری میں اپنے معاصر شعرا اور ماقبل شعرا کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یوسف ظفر، ن۔م راشد، منیر نیازی، سردار جعفری، اخترالایمان، وغیرہ کے اثرات ان کی نظموں پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہ فکری اور بصیرت افروز فن پارے کے قائل ہیں، لیکن شعری اظہار میں ان کا اسلوب قریب قریب ن۔ م۔ راشد تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک گٹھا ہوا اسلوب اظہار۔ یہ ٹکڑا دیکھیے  ؎

آسمانوں کی بلندی پر منور حلقہ ہائے مہر و ماہ!/ روشن و تاریک سارے حلقہ ہائے روز و شب

نرگسِ بے نور کے حلقے کہ جیسے وقت کی زنجیر میں/ سینکڑوں بیمار صدیاں سوگوار و مضمحل!

عنبریں زلفوں کے حلقے سادہ بھی پرکار بھی!/ حلقہ ہائے سوختہ رنگ قیدیوں کے پاؤں میں!

مختلف رنگوں کے حلقوں میں گھری ہیں/ جانداروں کی یہاں سب پتلیاں!

(ماخوذ: حلقے— مجموعہ: اظہار، ص۔ 1)

میں نے اسلوب اظہار کے حسن کی بات کہی ہے جبکہ خود محمد ذاکر صاحب کا ماننا ہے کہ      ؎

’’جس شاعری میں فکر و معنی کی بجائے صوت و آہنگ کو بنیاد بنایا جائے وہ حقیقی عظمت کی حامل نہیں ہوسکتی۔ لیکن  شاعری میں بہرحال ایک قسم کی موزونیت یا نغماتی جوش کا ہونا ضروری ہے۔‘‘ (چشم انداز: اظہار، ص xi)

ذاکر صاحب نے اپنی نظموں کو مختلف جہتوں میں ڈھالا ہے، گہری فکر آمیز نظمیں، رومان پرور نظمیں، کشمکشِ حیات کی نظمیں، شعور کائنات کی نظمیں، انسانی جذبات اور باطنی کیف و نشاط کی نظمیں وغیرہ۔ انھوں نے موت کو بھی موضوع بنایا ہے۔  طویل نظمیں بھی کہی ہیں جیسے طلسم حقیقت (آٹھ صفحات)، روداد ناتمام (آٹھ صفحات)، جُرم (پانچ صفحات)، میرے جی میں ہے عرصے سے (پانچ صفحات)، وغیرہ۔ تین چار صفحات والی کئی نظمیں ہیں۔ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہتے تو طویل نظموں کی روایت میں اضافہ کرسکتے تھے۔ جیسے پرانی بات ہے (زبیر رضوی)، تاریخ (سلیم احمد)، صلصلۃ الجرس (عمیق حنفی)…… وغیرہ۔

ذاکر صاحب کی نظموں میں نہایت ہی مربوط اور منشور آسا جذباتِ انسانی کے نقوش ملتے ہیں۔  موت، سفینہ، مقبرہ، ریگ، سمندر، سفر، رقص، تماشا، سفر اور آواز جیسے مجرد و غیر مجرد نشانات اپنے تمام  تر شعری انسلاکات کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں عجمی نے اور عجمی تہذیبی تناظر خلق ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایک نظم ’ریگ‘ کے یہ ٹکڑے دیکھیے جس میں ن۔ م۔ راشد والی عجمی تہذیب کو نشان زد کرنے والی لَے سنائی دیتی ہے      ؎

ریگ ہے اک میزبانِ گرد بادِ ناگہاں/  دیو آسا گردبادِ ناگہاں

جاں نثارِ میہماں پر پے بہ پے/ ذرّہ ذرّہ پیکرِ تسلیم ریگ

——

ریگ نادیدہ ضیاؤں کا قیام/ ریگ نادیدہ خداؤں کا خرام

ریگ کی عظمت کے منکر ریگ ہی میں بے نشاں/ ریگ ذرے خندہ ہائے آخریں

ریگ سے ہے آگ کا رشتہ قدیم/ ٓگ کاہن، آگ ہے نورِازل کا اک کرم

آگ جیسے وقت کے پہلو بدلنے کی خبر/ آگ ہے صدق و ریاکی اک پرکھ

آگ شعلوں میں نہا کر پاک اشیا پاک تر/ ریگ سے ہے آگ کا رشتہ قدیم

آگ پی جانے میں کب سے ریگ ثابت مستقیم/ جانے کب سے پی رہا ہے کاروانوں کے الاؤ


حنیف کیفی

اردو ادب و نقد میں حنیف کیفی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔ ان کی کتاب ’اردو میں نظم معرا اور آزاد نظم‘ کو خوب مقبولیت ملی۔ ہند و پاک کی دانشگاہو ںمیں نظم کا نصاب اس کے بغیر ادھورا تصور کیا جاتا ہے۔ ’اردو شاعری میں سانٹ‘ کو بھی شہرت ملی لیکن بہ حیثیت شاعر کے ان کی شناخت قائم نہ ہوسکی۔ حالانکہ ان کے تین شعری مجموعے چراغ نیم شب (1986)، سحر سے پہلے (1904) اور صبح کی دہلیز پر (اکتوبر 2020)   شائع ہوئے۔ علاوہ ازیں ہائیکو کا مجموعہ ’بائیں ہاتھ کا کھیل‘ کے نام سے 2011 میں اور بچوں کے لیے شاعری کا مجموعہ ’بچپن زندہ ہی مجھ میں‘ (2018) میں چھپا۔ دراصل انھوں نے اپنی شاعری کی متواتر اشاعت پر توجہ نہیں کی اور اس پر بہت زور بھی نہیں دیتے تھے۔

مذکورہ بالا توجیہات کے باوجود جب ہم ان کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک نہایت ہی زندہ اور توانا تخلیقی کردار ان کی شاعری میں چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ آئیے اور دیکھیے ان کے اس شعری کردار کی جھلکیاں      ؎

ہنگامہ طلب فطرت کب چین سے بیٹھی ہے

طوفان کچھ اٹھے ہیں، کچھ ہم نے اٹھائے ہیں

قدم قدم پہ انا سد راہ تھی کیفی

ہم اپنے سامنے دیوار بن کے خود آئے

سر جھکانا بھی گوارا نہیں مشکل ہے یہی

سر اٹھائے ہوئے چلنا مری عادت بھی نہیں

کھڑی ہے راستہ روکے ہوئے دیوار رسوائی

گزرنا ہے اسی رستے سے اور بچ کر بھی جانا ہے

شاعری میں اناگزیدگی کے مختلف پہلوؤں کو حنیف کیفی نے طرح طرح سے پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں رشتوں کی شکست و ریخت کے نقوش بہت دور سے نظر آتے ہیں۔ انسانی فطرت کی عکاسی اور زمانے اور قرابت داروں سے گلے شکوے ان کی تخلیقی سرشت میں ودیعت نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے جو شخص انا گزیدہ ہوتا ہے اسے اپنوں سے بھی دوری اور بیگانگی کے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس نوع کے اشعار ملاحظہ کیجیے     ؎

بدظنی دیوار بن کر راہ میں حائل رہی

بند ایک اک کرکے سب رشتوں کے دروازے ہوئے

سائے میں بیزاریوں کے کٹ رہی ہے زندگی

ہم نے سب کچھ کھو دیا سب کی خوشی کی دوڑ میں

کہاں تک میری غم خواری کرو گے میرے غم خوارو!

مرے ہی کیا زمانے بھرکے غم میرا مقدر ہیں

سب کے ہوتے ہوئے ہم بیٹھے ہیں بیکس تنہا

کرلیا سب نے کنارہ کوئی اپنا نہ ہوا

میرا اپنا ہی مرے خون کا پیاسا نکلا

یہ مری بھول تھی سمجھا اُسے اپنا میں نے

سب مرے اپنے ہیں لیکن کوئی بھی اپنا نہیں

بھیڑ میں رشتوں کی یارب کس قدر تنہا ہوں میں

مذکورہ بالا اشعار میں سے بیشتر ان کے آخری مجموعہ کلام صبح کی دہلیز (1920) سے ماخوذ ہیں۔ عمر کے آخری پڑاؤ پر انسان خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی اولادوں کے ہوتے ہوئے اسے تنہائی کا احساس ہونے لگتا ہے اور پھر آج کے عہد میں بچوں کو ان کی ضروری اور غیرضروری مصروفیات نے کچھ اس قدر اپنے حصار میں لے رکھا ہے کہ انھیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ان کی انگلیاں پکڑ کر چلنے والا شخص، زبان کو تتلاہٹ والی گویائی عطا کرنے والا شخص، گرنے پر اٹھا کر چمکارنے اور لاڈپیار کرنے والا شخص، ان کی خوشیوں کے لیے اپنی خوشیاں نچھاور کردینے والا شخص— کہیں ایک طرف گھر کے کسی گوشے میں خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ عجیب عالم ہے، عجیب دکھ ہے اور پھر وہ شخص یہ تماشا دیکھتا ہوا اک دن رخصت ہوجاتا ہے۔ در و دیوار غم زدہ اور گھر ماتم کدہ بن جاتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے بچے کچھ دنوں غم کی چادر اوڑھے رہنے کے بعد اسے بھی اتار پھینکتے ہیں۔ آخر انھیں بھی تو آئندہ اپنی نسلوں کی … کرنی ہے۔ یہی ہے دنیا— یہی ہے فطرتِ زمانہ، فطرتِ حیات انسانی۔ آواز جاتی ہے اور پھر اپنی طرف لوٹ آتی ہے     ؎

یہ کہیں میری ہی کھوئی ہوئی آواز نہ ہو

ایک مبہم سی جو آتی ہے صدا میری طرف

اس صورتِ حال میں دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ مابعد الطبیعیاتی افکار کے حامل شعرا کا، ہوسکتا ہے، دم بحال رہتا ہو لیکن جس شاعر کی فکر ارضی اور اندازِ تخاطب ارضی ہو، اس کے لیے اپنی ذات میں یا اپنی ذات کی دیوار میں محصور ہوجانا ایک کرب آمیز اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ چشمِ ادراک کی فسوں کاری بھی کبھی کبھی ساتھ نہیں دیتی یا کام نہیں آتی۔ شاعری خود فسوں کاری کا عمل ہے۔ کیفی صاحب کی شاعری کسی عصر یا کسی عہد کی تاریخ کو پیش نہیں کرتی۔ ان کے اندر ایک صلاحیت ہے کہ وہ اپنے خارجی اور داخلی احساسات و عوامل کو ہم آمیز کرکے شعری تخلیق کا حصہ بناسکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس پر شعری کائنات اپنی اساس قائم کرتی ہے۔ ان کا لہجہ بھی پُراثر اور غیرمعروضی ہوتا ہے۔ ’غیرمعروضی‘ پر، ہوسکتا ہے، کچھ لوگ چونک پڑیں۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ جہاں تحقیق و تنقید میں معروضیت اپنی اہمیت رکھتی ہے اور اس کا مثبت اثر ہوتا ہے، وہیں یہ معروضیت شاعری میں منفی رول ادا کرتی ہے۔ شاعری کا تعلق احساسِ لطیف سے ہوتا ہے اور احساسِ لطیف کو معروضیت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ہم شاعری میں معروضیت کی تلاش کرلیتے ہیں تو ایک طرح کی خوشی بھی ملتی ہے۔ معروضیت کا گزر شاعری میں اُسی حد تک ہوسکتا ہے کہ احساسِ لطیف مجروح نہ ہو جیسے حنیف کیفی کے اس شعر میں معروضیت کے ہوتے ہوئے احساسِ لطیف سالم و ثابت ہے      ؎

بھری زمین کھلا آسمان میرا تھا

جواں تھا دل تو یہ سارا جہان میرا تھا

کیفی صاحب نے رباعیاں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی، سانیٹ اور ہائیکو (بائیں ہاتھ کا کھیل) کہے ہیں اور بچوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں۔ یعنی ان کی تخلیقیت کا ایک وسیع تناظر ہے۔

حنیف کیفی کی شاعری میں رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ایک طرح کا حزنیہ اسلوب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس حزنیہ اسلوب میں انسان کی سرشت سے ہم آہنگ ہونے کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے۔ دنیا میں رامش و رنگ کے نقوش سے پرے کیفی صاحب نے اس حزنیہ آہنگ کو تقریباً اپنی پوری شاعری میں برتنے اور قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے       ؎

اب کوئی ٹھوکر کوئی افتاد چونکاتی نہیں

ٹھوکریں کھا کھا کر اتنی دور تک آیا ہوں میں

نشاناتِ دیوار و در کھا گیا

اندھیرا بڑھا اور گھر کھاگیا

کس کو معلوم تھا ہم سائیگی قسمت ہوگی

اپنے گھر کی بھی میسر نہ ہمیں چھت ہوگی

دوریاں ہوگئیں قربت کے تناسب سے فزوں

دل میں جتنا جو رہا اتنا ہی بیگانہ ہوا

کیفی صاحب کی تخلیقی آنچ میں رشتے بھی ہیں، سماجی رکھ رکھاؤ کے ساتھ زندگی کے آلام ، بے نیازی اور اناگزیدگی بھی۔ ان کے تخلیقی منظرنامے پر بھی ان تمام رنگوں کی فسوں کاری ملتی ہے۔ آخر میں یہ شعر      ؎

خطر کسی کو ہو کیا خود ضر ر رسیدہ ہوں

میں کج کلاہ نہیں ہوں انا گزیدہ


مظفر حنفی

جدید اردو شاعری میں مظفر حنفی ایک نمایاں نام ہے۔اگر ان کی شاعری کے آغاز وارتقا کی بات کی جائے تو ’تیکھی غزلیں‘ سے لے کر ’پانی کی زبان‘ اور ’طلسم حرف‘ تک فکر وخیال کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ان نقوش میں جو موضوعات ہیں وہ روایتی سے لے کر جدید حسّیت سے مملو موضوعات ملتے ہیں۔موضوعات تو نئے کم ہی ہوتے ہیں،طرز ادا اور جدّت اسلوب سے شاعری میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔مظفر حنفی کے شعری اسالیب میں طنزیہ اسلوب زیادہ حاوی نظر آتا ہے۔شاید ان کے یہاں یہ رنگ ان کے استاد شاد عارفی کے تتبع میں زیادہ گہرا ہو گیا جس طرف شمس الرحمن فاروقی نے بھی اشارہ کیا ہے کہ انھوں نے اپنے استاد کا حق ادا کرنے کی غرض سے خود کو طناز کہا ہے۔اُن کے پہلے مجموعہ کلام ’’تیکھی غزلیں‘‘ (1960-1964) سے دو شعر پیش کیے جاتے ہیں     ؎

جب اٹھایا کاتبِ تقدیر نے دل کا خمیر

ڈال دی کعبے کی مٹی میں صنم خانے کی خاک

آبِ زمزم کیا ہے اور خاکِ شفا کیا چیز ہے

بادۂ گل رنگ تھوڑا، تھوڑی میخانے کی خاک

ایک ہی غزل سے یہ دونوں اشعار اس لیے پیش کیے گئے ہیں کہ ان میں اجتماع ضدین کی فضابندی ہے۔ ایک ایسا Paradoxical Approachہے جس کے اندرون میں کشا کشِ جہات اور دو متضاد افکار و نظریات کے مابین ایک پُل بنانے کی تخلیقی کاوش ہے۔کعبے کی مٹی میں صنم خانے کی خاک ڈالنے کے ساتھ ہی ذہن میں شمعِ تغزل سے روشنی پھیلنے لگتی ہے۔لیکن آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مظفر حنفی کا شعر میر کے اس مصرعے کے زمرے میں ہے:قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا، اس نوع کے مضامین اردو غزل کے سرمائے میں بھرے پڑے ہیں،لیکن مظفر حنفی کا انداز قدر ے مختلف ہے جسے لکیر کا فقیر ہونا قطعی نہیں کہا جا سکتا۔

اب ذرا اس موضوع اور مضمون کی طرف آتے ہیں جسے عصری حسّیت یعنی(Contemporary Sensibility)کے ذیل میں رکھا جاتا ہے۔سیاسی و سماجی اتھل پتھل کا ذکر ہو یا استحصال اور جبر و تشدد کا، غزل کے پیرائے میں اس نوع کے مضامین ترقی پسندوں نے زیادہ باندھے ، لیکن جدید شعرا کو بھی ایسے موضوعات سے بالکلیہ اعراض نہیں رہا۔مظفر حنفی نے بھی اپنے عہد کو آئینہ دکھایا ہے۔چند اشعار دیکھیے   ؎

مجبور ہیں تو اس کے یہ معنی نہیں ہوئے

ہم کو ہر ایک ظلم گوارا بھی ہو گیا

صحن چمن کا تم کو جو نگراں بنا دیا

تم نے تو چار دن میں بیاباں بنا دیا

چڑھتے سورج سے کہیو بعدِ سلام

شام تو آپ کی بھی آئے گی

جینے میں کیا کشش ہے مگر دیکھتے ہیں ہم

کتنی تمہارے ظلم کی رسّی دراز ہے

اس نے ہر اک زبان پہ پہرے بٹھائے ہیں

پھر بھی ہر اک زباں پہ اسی کا قصیدہ ہے

 

(صریر خامہ)

مظفر حنفی کی شاعری میں جو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ ان کے طنزیہ اسلوب کو ہے۔انھوں نے خود ہی ایک طرح سے اپنے اس طرز شعر کا اعتراف کیا ہے    ؎

اے مظفر! طنزیہ غزلوں کے دشمن ہیں بہت

اور میرا ریشمی غزلوں سے یارانہ نہیں

اس طنزیہ اسلوب کی تشکیل و تہذیب میں ان کے توانا تیور کا بھی رول ہے۔وہ بغیر کسی رو رعایت کے اپنے خیال اور رد عمل کو ظاہر کرتے ہیں۔

مظفر حنفی کی شاعری میں جو توانائی اور سرگشتی، پُر شور اورپُر جوش سرشاری ملتی ہے،اس میں ان کا خون جگر شامل ہے۔ایک ایسا طرحدار شعری کردار ان کی شاعری میں ملتا ہے جو لجاجت اور حد درجہ انکسار سے قطعی دور ہے، خواہ وہ عشقیہ مضامین ہی کیوں نہ ہوں،اُن میں ایک طرح کی تخلیقی گرم جوشی اور تحفظ ذات کا رویہ نظر آتا ہے۔یہ اشعار بطور دلیل کے دیکھے جا سکتے ہیں     ؎

میں اپنی جرأت اظہار پر الزام رکھتا ہوں

مری عرض تمنا پر وہ کیا کیا سٹپٹایا ہے

اسے کچھ سوچ لینا چاہیے انکار سے پہلے

اگر اس نے مرا اقدام رندانہ بھی دیکھا ہے

تکرار بے مزہ ہے تری اے پَری جمال

لہجہ بدل، لبوں کا ذرا زاویہ بدل

ایسا ہوا کہ آج تری یاد آگئی

ہم نے بھی جشنِ خون تمنا منا لیا

زخموں کی پرورش کے لیے  جی رہا ہوں میں

اب سعیِ اندمال نہ فرمائیے گا آپ

عرض تمنا پر محبوب کا سٹپٹانا، عاشق کے اقدام رندانہ کا حوالہ، محبوب (پری جمال) کی بے مزہ تکرار پر لہجہ اور لبوں کا زاویہ بدلنے کی تلقین اور محبوب سے یہ کہنا کہ میں خود ہی اپنے زخموں کی پرورش کررہا ہوں آپ ان کے اندمال کی زحمت نہ فرمائیے— ان  نقوش اور جہتوں میں ایک توانا اور جرأت آزما عاشق کا کردار سامنے آتا ہے، جسے مظفر حنفی کی پُرکار تخلیقیت کا زائیدہ کہا جاسکتا ہے۔

مظفر حنفی اپنے ہم عصروں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔انھوں نے تواتر کے ساتھ غزلیں کہی بھی ہیں اور شائع بھی کرائی ہیں۔ ان کے لہجے کی کاٹ اور تخلیقی وفور نے جدید اردو غزل میں اپنا اہم مقام بنایا ہے۔


عنوان چشتی

عنوان چشتی اردو شعر و ادب کا ایک اہم نام ہے۔ وہ ماہر عروض کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اردو تنقید میں بھی انھوں نے کئی اہم آثار چھوڑے ہیں۔’ذوق جمال‘ (1966) اور ’نیم باز‘ (1968) ان کے دو شعری مجموعے شائع ہوئے تھے۔ لیکن بعد ازاں آخری عمر تک کوئی تیسرا مجموعہ کلام نہیں ا ٓسکا۔ غالباً تنقیدی نگارشات کی جانب زیادہ توجہ ہونے کے سبب ایسا ہوا ہوگا۔

عنوان چشتی کی شاعری جدیدیت کے زمانے کی زائیدہ ہے لیکن دونوں مجموعوں میں کہیں بھی کوئی شعر ایسا نہیں ملتا جس پر جدیدیت کا لیبل چسپاں کیا جاسکے۔ مطلب صاف ہے کہ ان کے نزدیک اردو کے کلاسکی اور روایتی شعری سرمائے کی اہمیت زیادہ تھی۔ موضوعات کو برتنے کی سطح پر یا الفاظ و تراکیب کی سطح پروہ کلاسکی روش پر قائم رہے۔ ایک ہی غزل سے دو شعر ملاحظہ کیجیے     ؎

فضائے دل کسی کی یاد سے یوں جگمگائی ہے

کہ جیسے کعبے میں صبحِ بنارس مسکرائی ہے

ہجومِ یاس مجھ کو بہرِ استقبال اٹھنے دے

انیسِ شامِ غم بن کر کسی کی یاد آئی ہے

وہ زندگی اور کائنات کے رشتے کی جو تعبیریں پیش کرتے ہیں ان میں ایک طرح کی شیرینی اور جمالیاتی چمک ہوتی ہے۔ انھوں نے حیاتِ انسانی کی رذالتوں اور سماجی بدقماشیوں کو بھی نہایت ہی پرخلوص اور پرکیف اندازمیں پیش کیاہے جس سے ان کے باطن کی کیف انگیز فضا کا اندازہ ہوتا ہے۔ چند شعر پیش کیے جاتے ہیں      ؎

غم حیات میں گھِر کر بھی اُن کو یاد کیا

چراغ تیز ہواؤں میں ہم جلا کے رہے

حوادث ہی کو ہم نے تازیانہ کس لیے سمجھا

اگر احساس ہو تو ہر نفس بیدار ہوجائے

کیا خبر تھی کہ کسی وقت یہ حالت ہوگی

اپنے سائے سے بھی انسان کو وحشت ہوگی

عنوان چشتی کی شاعری کا معتد بہ حصہ حسن و عشق کی روایتی واردات کو نشان زد کرتا ہے۔ نہایت ہی سبک روی کے ساتھ وہ حسن و عشق کی پرخاروادیوں سے گزرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی گرہ سی نظر آتی ہے، کبھی کبھی زندگی کی کڑواہٹ آڑے آنے لگتی ہے اور کبھی کبھی غبارِ زندگی دامن عشق سے لپٹتی ہے تو وہ فوراً اسے جھاڑ کر آگے کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان مختلف جہتوں کی تعبیرات کے ذیل میں یہ اشعار دیکھے جاسکتے ہیں     ؎

فلسفے کو نہیں کچھ لغزشِ پا سے نسبت

زندگی میں جو مزہ ہے وہ کتابوں میں نہیں

کچھ دیر اپنے ذکر سے جی کا زیاں کیا

کچھ دیر اس کی یاد میں موتی پروئے ہیں

معلوم یہ ہوتا ہے کہ دنیا ہے پرانی

محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہر لمحہ نیا ہے

غم زندگی نے جو دی صدا کبھی مجھ کو فرض کے نام پر

غم عشق سامنے آگیا تری یاد دل میں مچل گئی

یہ سوچ کر کہ تمھارا بھی ہاتھ ہے اس میں

غم حیات اٹھایا ہنسی خوشی میں نے

وہ حادثے بھی دہر میں ہم پر گزر گئے

جینے کی آرزو میں کئی بار مرگئے

گو اس نوع کے اور بھی اشعار ہیں لیکن یہاں گنجائش نہیں۔ ان کی غزلوں میں بدن جمال کا عکس لطیف بھی پوری تب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے۔ کہیں کہیں فراق گورکھپوری جیسی حِس لمس کا رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس سے تلذذ کے بجائے تجمل و تلطف کی رنگینی پیدا ہوجاتی ہے۔ چند شعر    ؎

کتنی نازک ہے مقدر کی گرہ

آپ کا بندِ قبا ہو جیسے

دل میں اک آتش شوق بھڑکا گئی

کسمساتا بدن ہوگئی چاندنی

عنوان چشتی کی غزلیہ شاعری میں کلاسکی اور روایتی رنگ دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن ان کے دوسرے مجموعہ کلام نیم باز (1968) میں آدھی سے زیادہ نظمیں ہیں۔ میں نے جب ان نظموں پر بغور نظر ڈالی تو حیرت کا احساس ہوا۔ کیونکہ ان نظموں میں روایتی اور کلاسکی سے زیادہ جدید لب و لہجے کی پاسداری نظر آئی۔غزلوں کے برخلاف کچھ نظموں میں تو جدیدیت کا رنگ بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔  دو چھوٹی چھوٹی نظمیں ملاحظہ کیجیے       ؎

جو اپنے بدن کو چھوا/تو کچھ ایسا لگا/ جیسے خود میری ہی روح

پتھرا گئی ہے (تجربہ: نیم باز)

——

جو اندر کو جھانکوں تو نظر یں/ اندھیروں میںگم ہوکے واپس نہ آئیں

جو باہر کو دیکھوں تو پھر/ روشنی میں وہ تحلیل ہوجائیں/ مرا جسم/ کوئی خلا تو نہیں

(محرومی: نیم باز)

ان نظموں پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ عنوان چشتی بھی موضوعی فکر (Subjectivity) کے حامل ہیں، لیکن اس نوع کی نظمیں کم ہیں۔ کچھ نظمیں ترقی پسندی سے متاثر ہیں تو کچھ پر خالص رومانی رنگ دکھائی دیتا ہے۔ جیسے نیم ملاقات، میر کے نشتر، دن رات، تاج محل اور نشانیاں وغیرہ۔

عنوان چشتی نے رباعیاں بھی کہی ہیں۔ آخر میں ایک رباعی پیش کی جاتی ہے     ؎

یہ عقل کا احسان لیا ہے میں نے

اک راز نہاں جان لیا ہے میں نے

دشمن کو لگایا ہے گلے گھبرا کر

جب دوست کو پہچان لیا ہے میں نے


شمیم حنفی

جدید اردو شاعری میں شمیم حنفی کی شناخت ان کے منفرد طرز اظہار سے ہوتی ہے۔ جہاں تک میں نے ان کے شعری ارتکاز کو ’آخری پہر کی دستک‘ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے، یہ اندازہ ہوا ہے کہ وہ انسانی زندگی کی حقیقت کو اپنی ذات کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی کو اکابر شعرا کی طرح ہی ناپائیدار تصور کرتے ہوئے اس کااظہار خوبصورت جدید لہجے میں کرتے ہیں     ؎

پھر تو جانا ہے اُسی خاکِ خموشی کی طرف

ایک دو پل کو یہ ہنگامہ بپا رہنے دے

گزر گئیں کئی صدیاں حساب کرتے ہوئے

مسافروں کے لیے بے حساب تھا دریا

مٹ چکا نقشِ وفا ڈوب چکی نبضِ سفر

اب فقط ایک سمندر میں اتر جانا ہے

جب دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی کا تعین ہوجاتا ہے تو آدمی یا تو بے حد سرشاری کی ساعتیں بٹورنے کی دُھن میں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے یاپھر افسردگی اور اداسی کو گلے لگاتا ہے۔ شمیم حنفی صاحب کے یہاں سرشاری کی کیفیت دیکھنے کو نہیں ملتی، بلکہ ایک طرح کی اداس چادر ان کی فکر و آگہی کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اسی چادر سے ضوپاشی کرتی ہوئی اداسی انسانی جبلتوں پر دستک دیتی رہتی ہے۔ اس نوع کی شاعری بصیرت  کا سامان بھی کرتی ہے اور شاعر کو تخلیقی جواز بھی فراہم کرتی ہے۔ شاید میرے موقف کو ان شعروں کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے     ؎

آوازۂ جرس کی طرح ڈوب جائے گی

اس دشتِ بے کراں میں مری بازگشت بھی

لبھاتی تھی مرے دل کو بہت افسردگی تیری

تری افسردگی بھی میرے پیکر میں چلی آئی

یہی اجڑی ہوئی بستی ہے ٹھکانہ میرا

ڈھونڈنے والے اسی خاک کے اندر ہوں میں

میں بھی کھو جاؤں گا آخر آنسوؤں کے سیل میں

یہ اندھیری شام جب کوہِ گراں تک جائے گی

یہی بے چہرہ و بے نام گھر اپنا ٹھکانا ہے

ہم اک بھولے ہوئے منظر کی ویرانی میں رہتے ہیں

ان شعروں سے ایک یاس انگیز تناظر خلق ہوتا ہے، لیکن کہیں نہ کہیں ایک مستحکم اور توانا کردار بھی اسی سے ابھرتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب کچھ کے باوجود زندگی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا ہے۔ وجود کے باطن میں بے مصرف غوطہ زنی کرنا اور تمام عمر کی ساعتوں کو ’گزران‘   کا حصہ بنا کر خوش ہونا، یہ کوئی آسان کام نہیں۔ا ول تو شعور ذات مشکل ہے اور اگر ذات کا عرفان ہو تو بھی، اس کے عذاب اور دکھوں کاسہہ پانا ہر ایک فنکار کے بس کا نہیں۔ شمیم صاحب میں وہ قوت ضبط ہے کہ عرفانِ ذات کے تحت ملنے والے دکھوں کو اپنا کر انھیں تخلیقی فن پارہ بنا دیتے ہیں۔ ان شعروں کے باطن میں اترنے کی کوشش کیجیے     ؎

یہ جسم و روح کی دوری بھی اک معمہ ہے

ہزار کوس چلے فاصلہ نہ ختم ہوا

جاں کا بس ایک قرض ہے وہ بھی اتر ہی جائے گا

اور کسی عزیز کا ہم پر حساب کچھ نہیں

لہو کو پھول کیا سنگ کو شرارہ کیا

عجیب طور سے ہم نے یہاں گزارا کیا

وہ تشنگی تھی کہ سیراب ہوسکی نہ کبھی

وہ قرضِ جاں تھا کہ مجھ سے کبھی ادا نہ ہوا

شمیم صاحب کی شاعری میں یک رنگی کے بجائے بوقلمونی ہے۔ لیکن اس بوقلموں شاعری میں نشاطیہ لمحوں کے بجائے المیہ اور فسردہ رنگوں کا استعمال ہوا ہے۔ انھوں نے ’شام‘ اور ’رات‘ کے استعاروں کو خوب خوب استعمال کیا ہے۔ شام وحشت انگیزبھی ہے اور خائف کرنے والی بھی۔ اُجالے کے مدمقابل اندھیرے کو لانے والی بھی۔ شام کی مختلف جہتوں کو انگیزکرنا اور انسانی جذبوں اور انسانی سرشت سے بامعنی رشتہ قائم کرنا، بہت آسان نہیں ہوتا، لیکن شمیم حنفی کے یہاں یہ عمل بہت ہی پُرکاری سے انجام پاتا ہے۔ اشعار دیکھیے     ؎

شام تا شام یونہی خاک بہ سر جانا ہے

منزلیں گم ہیں دھندلکوں میں، مگر جانا ہے

میں بھی کھوجاؤں گا آخر آنسوؤں کے سیل میں

یہ اندھیری شام جب کوہ گراں تک جائے گی

منزلیں نادم ہیں سورج سے کہ اس کے سامنے

راستے میں روز آجاتا ہے پتھر شام کا

نقش لوحِ دل پہ بنتے ہیں مٹا دیتی ہے شام

ہم کو سورج کی طرح اکثر بجھا دیتی ہے شام

آج اس گہرے اندھیرے غار میں اترے گاکون

ساحل شب پر کھڑی کس کو صدا دیتی ہے شام

اب تک جو اشعار پیش کیے گئے اور جو جہتیں ہمارے سامنے آئیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ شمیم حنفی نے زندگی کو دیکھنے اور اس کی تعبیر یں پیش کرنے کے لیے خود اپنا ہی نظریہ پیش نظر رکھا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ جدیدیت کی فلسفیانہ اساس کو مرتب و منضبط کرتے ہوئے اس کی مثبت اور توانا قدروں سے اکتساب بھی کیا اور کہیں نہ کہیں روشنی بھی حاصل کی، لیکن خود پر اسے حاوی نہیں ہونے دیا، اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ژولیدگی، انتشار اور خلا پروری کے بجائے حیات فہمی کے زاویے بہت واضح اور پُرضیا ہیں۔ آخر میں شمیم صاحب کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں      ؎

ہر سمت اجالا بھی ہے سورج بھی ہے لیکن

ہم اپنے چراغوں کو بجھانے کے نہیں ہیں


خالد محمود

 خالد محمود نے کائنات کے اسرار و رموز کی پرتیں دوسرے فنکاروں کی طرح ہی کھولنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا ایک شعر ہے     ؎

ہر اک فیصلہ اس نے بہتر کیا

مجھے آنکھ دی، تم کو منظر کیا

اس شعر میں اللہ کی تعریف بھی ہے اور محبوب کے منظر کیے جانے کا دل پذیر واقعہ بھی۔ خود میں اور محبوب (منظر) کے مابین ایک اٹوٹ رشتے کا اشاریہ بھی، اور آگے بڑھیں تو خالد کے اندر موجود احساس کی چنگاری کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کبھی کبھی ان کے یہاں تجربے کا اظہار اور اسلوب اس درجہ غم آگیں ہوتا ہے کہ ذہن و ادراک پر غم کی فضا چھا جاتی ہے      ؎

نصف دنیا بھوک سے اور پیاس سے مغلوب ہے

دست و بازو، ذہن و دل، لعل و گہر ہوتے ہوئے

’’موت کا ایک دن معین ہے‘‘

زندگی دسترس سے باہر ہے

برائے تشنہ لب پانی نہیں ہے

سمندر کا کوئی ثانی نہیں ہے

خالد محمود احساس اور جسم کے جمہوری نظام میں توازن چاہتے ہیں۔ کسی بھی جذبے سے مغلوب ہونا غیرمتوازن صورت حال کے مترادف ہے جو انسانی ذہن یا نظام جسم کو غیرجمہوری بناتا ہے۔ خالد خوش قسمت ہیں کہ ان کے یہاں توازن برقرار ہے۔ اسی لیے تو وہ کہتے ہیں     ؎

نظام جسم جمہوری ہے خالد

کسی جذبے کی سلطانی نہیں ہے

جس توازن کا اوپر ذکر کیا گیا وہ تب ہی برقرار رہ سکتا ہے جب کسی شے کی فراوانی نہیں ہو۔ اس عالم میں جو بیش بہا مستی و سرخوشی کا خزانہ ہاتھ آتا ہے وہ متصوفانہ اور فقیرانہ ہوتا ہے۔ بوریا نشینی میں بھی سلطانی و جہانبانی کی شان ہمارے بزرگوں اور صوفیا کرام کا حصہ رہی ہے۔ خالد کی ذہنی تربیت کا خاصّہ اور ہے۔ تیور ملاحظہ کیجیے      ؎    

میں اپنے گھر کے اندر چین سے ہوں

کسی شے کی فراوانی نہیں ہے

یہ شعر پڑھ کر یہ ہرگز نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اُن کے اندر حرکت و عمل کا مادہ مفقود ہے۔ دراصل انھیں اپنی ذات اور اس کائنات کا عرفان حاصل کرنا ہے۔ زمانے کی شاطرانہ چال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

جب آدمی کوعرفان ذات اور عرفان کائنات حاصل ہوجاتا ہے تو اس کے اندر ایک طرح کی غیرمعمولی غیرمرئی قوت پیدا ہوجاتی ہے جو اُسے سمندر آشنا اور طوفان آشنا کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خوف اور دہشت کی جگہ جوش و ولولہ، ہمتِ مردانہ و جرأتِ رندانہ کی صفت پیدا ہوجاتی ہے      ؎

سیلاب کی آمد پہ نہ حیرت ہے نہ ڈر ہے

خالد کا تو دریا کی گزر گاہ میں گھر ہے

تھکنے لگے ہیں پانو مگر میر کارواں

پیچھے نہ رہ سکوں گا مرا سر اتار دے

خالد محمود کا شعری سفر خط مستقیم پر جاری نہیں ہے کیونکہ ان کے یہاں غم کی آنچ بھی ہے، سرخوشی اور سرمستی بھی، طنز و مزاح کا لہجہ بھی ہے اور فکر و فلسفے کے رموز بھی، پھولوں کا رس بھی ہے اور نیشِ عسل بھی۔ گویا ایک زندگی ہے جس میں تنوع ہے۔ یعنی     ؎

آواز آئی پیچھے پلٹ کر تو دیکھیے

پیچھے پلٹ کے دیکھا تو پتھر کا آدمی

سورج، ستارے، کوہ و سمندر، فلک، زمیں

سب ایک کرچکا ہے یہ گز بھر کا آدمی

مولانا حالی نے غالب کے لیے ’حیوان ظریف‘ کی اصطلاح وضع کی تھی۔ اسے غالب کے لیے رہنے دیا جائے مگر یہ عرض کرنا یہاں ضروری ہے کہ خالد محمود کے یہاں حس ظرافت اور بذلہ سنجی کے عناصر ملتے ہیں جن کی مدد سے وہ طنز کے تیر برسا جاتے ہیں     ؎

مندر کی گھنٹیوں سے فضا گونجنے لگی

شاید ہوا ہے وقت سحر کی اذان کا

کام دلی کے سوا ہوتے نہیں

اور ناہنجار دلی دور ہے

باقی ہیں دنیا میں جب تک دونوں کے دیوان

ہر سچے شاعر کی الجھن، اِک غالب اک میر

خالد محمود نے اپنی شاعری کو فیشن پرستی اور بے جا تصنع سے بچائے رکھا ہے۔ اگر ان کا رشتہ کلاسکی شعری سرمایہ سے اُستوار نہ ہوتا تو شاید وہ بچ نہ پاتے۔ سماج اور قوم میں کشیدگی اور رشتوں کی بے وقعتی اور شکست و ریخت پر ان کی گہری نظر ہے۔ اس متغیر ماحول میں کبھی کبھی انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ بھی بدل چکے ہیں اور اب وہ دوسروں کے لیے انتباہ کا رویہ رکھتے ہیں۔ اس غیرمعتبر دنیا میں ان کی اپنی شخصیت کا اعتبار بھی مشکوک ہوگیا ہے۔ تبھی تو وہ کہتے ہیں     ؎

جو ہوسکے تو اُسے مجھ سے دور ہی رکھیے

وہ شخص مجھ پہ بڑا اعتبار کرتا ہے

رشتوں کے ٹوٹنے بکھرنے اور ان میں جاگزیں کرب اور اضطرابی کیفیت کی مصوری دیکھیے     ؎

خنجر چلا کے مجھ پہ بہت غم زدہ ہوا

بھائی کے ہر سلوک میں شدت لہو کی تھی

جو فنکار اپنے ماضی کے سرمائے کو فراموش کردیتا ہے، اس کے تاریخی اور تخلیقی شعور پر بے رونقی کی دبیز گرد جم جاتی ہے اور اس صورت حال میں افکار و احساسات کی شفافیت (Transparency) متاثر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس حال میں ماحول یا گرد و پیش کے وقوعے کی عکاسی پوری طرح ممکن نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خالد محمود کی فکری اساس شفاف اور مستحکم ہے، شعور کی سیّالیت برقرار ہے۔ اس پر کائی نہیں جمی ہے۔ پوری کائنات اسی کی شفاف سطح پر منعکس ہوتی ہے۔ گویا کائنات آر پار نظر آتی ہے۔

شاعر کی آنکھ کیمرہ اور دوربین سے زیادہ پاور فل ہوتی ہے۔ اس کی چشم بصیرت کے پردے پر کیسی کیسی اور کہاں کہاں کی تصویریں منعکس ہوتی ہیں، آسانی سے سمجھا نہیں جاسکتا۔ رشتوں کی Ambiguity اور فکری تحیر آمیزی (Thoughtful amazement)  سے خالد کبھی کبھی عجیب و غریب تصویر پیش کرتے ہیں۔ ’دوسرا رشتہ‘ اسی قبیل کی نظم ہے۔

اس نظم میں عہد نو اور مغرب زدہ سوسائٹی کی جنسی بے راہ روی اور مرد و زن کے بے محابہ اختلاط پر طنز بھی ہے اور ایک طرح سے Elite کلاس کی کریہہ صورت اور ناآسودہ زندگی کی عکاسی بھی۔

معلمی ایک پاکیزہ فریضہ ہے۔ خالد محمود نے ’’میں کہ اک معلم ہوں‘‘ ایک اچھی اور تجربے سے معمور نظم کہی ہے۔ اسی طرح ’پتھر‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم ہے۔ مکان کا پتھر، میل کا پتھر، مندر کا پتھر، محلوں کا پتھر، منبر کا پتھر، تاج محل کا پتھر، مقدس پتھر جو ’حجر اسود‘ سے موسوم ہے، وغیرہ۔ خالد کی نگاہ آج کی ترقی یافتہ قوم اور ملک پر بھی جاتی ہے۔ چاند پر قدم تو رکھ دیے مگر وہاں سے آنے والے پتھر ہی لے کر آئے۔ اس نظم میں طنز کا عنصر بھی جا بہ جاموجود ہے۔

خالد محمود نے غزلیں اور نظمیں دونوں کہی ہیں۔ ان کی شاعری میں تفکر بیجا کی بے فکری اور قدامت پرستی سے آزادی کا رجحان ملتا ہے۔ مگر اپنے ماضی کے سرمائے اور شاعری کے رکھ رکھاؤ کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ ان کے احساس میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ حیاتِ انسانی اور کائنات کی معمولی اشیا کی تصویر بھی الفاظ میں پیش کرسکیں۔ ان کے یہاں نہ جذبوں کی فراوانی ہے اور نہ دوسری اشیا کی۔ اگر کچھ ہے تو ایک لطف ہے، کیف ہے، نشہ ہے، شدت ہے یعنی تہی دامانی میں بھی استغنا اور سلطانی ہے۔


شہپر رسول

تضادات و تصادمات کے درمیان زندگی گزارنا کس درجہ مشکل ہوتا ہے، اس کا اندازہ ہم سب کو ہے۔ شاعر جو ایک انسان ہوتا ہے، اسی ماحول کا پروردہ ہوتا ہے، اس کے سانسوں کی لے اسی کرب و انتشار کے ماحول میں بنتی بگڑتی ہے۔ شہپر رسول کی شاعری میں انسانی محسوسات اور زندگی کی حزنیہ کیفیات کا خوب خوب عکس دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس عہد میں لوگوں کو فغاں تک نہیں آتی ہو اور لفظ و بیان تاثیر سے خالی ہوں، اس عہد میں جینا کیسا کرب آسا عمل ہوگا۔ اس عہد کے سناٹے اور درد کو شہپر رسول کی غزلوں میں دیکھا جاسکتا ہے     ؎

تاثیر کوئی لفظ و بیاں تک نہیں آتی

اس عہد میں لوگوں کو فغاں تک نہیں آتی

آہٹ تو کوئی پاس کہاں آئے گی میرے

اب دور سے آوازِ سگاں تک نہیں آتی

زمانے کی عیاری اور ابن الوقتوں کی شاطرانہ چالوں سے شہپر رسول اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کی بصیرت ، ان کی تخلیقیت کو فروغ بخشتی ہے۔ اسی لیے ان کا آئینۂ فکر شفاف ہے۔ کائنات کی دروں بینی ان کے لیے مشکل نہیں،اس لیے تو وہ بے خوف و خطر پرُاعتماد لہجے میں کہتے ہیں     ؎

یہ جال بھی اس نے ہی بچھایا تھا، اسی نے

خوش خوش بھی وہی شخص تھا، حیراں بھی وہی ہے

ہر تیر اسی کا ہے، ہر اک زخم  اسی کا

ہر زخم پہ انگشتِ بدنداں بھی وہی ہے

اردو شاعری میں دانش وری کی روایت بہت پرانی رہی ہے لیکن ہم جس عہد میں جی رہے ہیں، وہ کچھ اس درجہ المناک اور پرآشوب ہے کہ دانش و حکمت اندر ہی اندر دم توڑ دیتی ہے۔ دانش کی کونپلیں احساس باطن سے پھوٹتی ہیں۔ نئے غزل گو شعرا میں اس کی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں ہے۔ دانش (Intellect) فکر انسانی کی صالح ترین امانت کا نام ہے۔ صالح ترین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے انسانی زندگی کو مثبت سمت و رفتار ملتی ہے۔ شہپر رسول کی غزلوں میں دانش کی چمک جگہ جگہ ملتی۔ ان کی دانش میں Earthly feeling ہے۔ اوڑھی ہوئی دانش وری جو سطح آب پر بنے حباب کی طرح ہوتی ہے، اس سے شہپر رسول کا کوئی رشتہ نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ انہوں نے نامعقول دنیا میں بسنے والوں کے چہروں کو بغور پڑھا ہے۔ کائنات پر جو ایک بے ایمانی، جہالت اور حرمزدگی کی دھند چھائی ہوئی ہے اسے انہوں نے Penetrate کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو فنکار اس کی صلاحیت رکھتا ہے اس کی تخلیق میں نشتریت پیدا ہوجاتی ہے۔ طنز کا لہجہ اور نیش افکار دونوں صیقل ہوجاتے ہیں۔ ایسی شاعری خط مستقیم پر نہیں چلتی۔ لہجے اور اسلوب میں بھی ایک طرح کی کجی پیدا ہوجاتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ اشعار    ؎

وہی جو وقت پہ اکثر زبان دیتے ہیں

وہی زبان کی خاطر زبان کھینچتے ہیں

بس ذرا عکس ہی ابھرا تھا صفوں سے میرا

ایک ہنگامۂ کوتاہ قداں شہر میں تھا

جذبات و کیفیات کو Personify کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ کبھی کبھی تو اس تجسیم کے عمل میں بڑی بھدی شکل بھی ابھرتی ہے۔ شہپررسول کے لیے یہ عمل شاید آسان ہے تبھی تو وہ اپنے افکارِپریشاں کو حزم و احتیاط کے ساتھ منضبط کرکے شعری پیکر میں ڈھال دیتے ہیں۔ یہ مشق سخن سے بھی آتا ہے اور ادراکِ معانی و عملِ انجذاب سے بھی۔ انجذاب ایک ایسا عمل ہے جس کی خبر فنکار کو بھی نہیں ہوتی۔ وہ کاروبارِ حیات اور رنگِ کائنات میں محو ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کی باطنی حس آلائش زندگی سے پاک عناصر کو اپنے اندر جذب کرتی رہتی ہے جو تخلیقی بصیرت کے طفیل شکل پذیر ہوتی ہے۔ آئیے اس کیفیت کے کچھ اشعاردیکھتے چلیں۔ اس نوع کے اشعار کی بہت زیادہ تشریح نہیں کی جاتی کیونکہ شعری حسن مجروح ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے      ؎

صرف اک لمحۂ خاموش تھا صحرا تو نہ تھا

پی گیا کیسے وہ گفتار کا دریا سارا

فراق و وصل کے معنی بدل کے رکھ دے گا

ترے خیال کا ہونا مرے خیال کے پاس

اوپر کے دوسرے شعر میں صحرا کو بطور Paradox کے استعمال کیا گیا ہے۔ لمحہ تو چھوٹا ہوتا ہے جب کہ صحرا وسیع و بسیط ہوتا ہے۔ اس لمحۂ خاموش کو انگریزی کہاوت میں یوں کہا گیا ہے۔ Silence is the safety zone of conversation۔ خاموشی کی وقعت اب سمجھ میں آئی ہے۔ شہپررسول کے شعر کا لمحۂ خاموش جو گفتار کا دریا پی جانے کا متحمل ہے، دراصل ایک جنسی عمل کے لمحۂ خاص کا اشاراتی اسلوب اظہار ہے۔ یہی ہے تخلیقی ہنر مندی۔

میں نے شروع میں شہپر رسول کی شاعری میں محزونیت کا ذکر کیا تھا۔ یہ وہ خوبی ہے جو شعر کو عظمتِ فن کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ بات صرف اردو شاعری سے مختص نہیں بلکہ عالمی ادب میں حزن و ملال اور غم و اندوہ سے لبریز شاعری کو وقار حاصل رہا ہے۔شیلے (P.B.Shelly) نے کہا بھی تھا:

Our sweetest songs are those that tell of saddest thought.

ایسا اس لیے بھی ہے کہ انسانی زندگی میں ناگزیر طور پر غم و الم کی کیفیت پائی جاتی ہے بلکہ دکھ تو آدمی کو مکمل کرتا ہے۔ بے گھری اور ہجرت کی داستان ہو یا رشتوں کی بے معنویت کی شکوہ سنجی، شہپررسول نشاط انگیز ساعتوں کے بجائے دکھ اور حزن و ملال کو اپنے دامن شعر میں سمیٹتے ہیں۔ اشعار دیکھیے    ؎

ایک گوہر نہ ملا، ایک بھی گوہر نہ ملا

عمر بھر میں بھی کسی دکھ کے سمندر میں رہا

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کردیا تقسیم

نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

اس نوع کے اشعار اور بھی ہیں مگر یہاں ’مشتے نمونہ از خروارے‘ کے مصداق چند اشعار پیش کیے گئے ہیں۔ شہپر رسول نے تہذیب غم سے نئی شعری دنیا کو آب و تاب بخشی ہے۔ غم و الم کی کرنوں سے ان کی تخلیقی بصیرت چمکتی نظر آتی ہے۔ محجر اور منجمد شعور میں جیسے ہلچل سی پیدا ہوجاتی ہے۔ان کا اسلوب اور الفاظ و تراکیب کا اختراع اور پھر ان کا درو بست، اپنے ہم عصروں میں انہیں انفرادیت عطا کرتا ہے۔

شہپر رسول مبہم علامتوں اور پیچیدہ لفظی ترکیبوں سے اپنے کلام کو آلودہ نہیں کرتے۔ ابہام اچھی چیز ہے۔ کیونکہ جہاں ابہام ہوتا ہے وہاں جہانِ معانی کی ان گنت پرتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ مگر یہ خیال رہے کہ ابہام کی پرتیں اتنی دبیز نہ ہوجائیں کہ نفس مضمون تک رسائی مشکل ہوجائے۔ شاعری میں ترسیل کا مسئلہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ شہپر رسول اپنی شاعری میں ترسیلی زبان استعمال کرتے ہیں کہ قارئین اور شعری فن پارہ کے درمیان بُعد پیدا نہ ہو۔

ہلکے پھلکے اور مانوس استعاروں اور تراکیب سے وہ اپنے احساسات و تجربات کو قارئین تک پہنچاتے ہیں۔ ایک یا دو قرأت میں معنیاتی کائنات کی تمام پرتیں کھل جاتی ہیں اور مسئلہ ترسیل خود بخود حل ہوجاتا ہے      ؎

تجربوں کی دھوپ میں جھلسا جو خود بینی کا خوں

حوصلوں کی دوپہر بولی کہ پانی چاہیے

جیسے اجڑی ہوئی بستی میں عبادت کا سماں

سوکھتی شاخ پہ بیٹھے ہوئے طائر کیا ہیں

غرض یہ کہ شہپر رسول ذاتی مشاہدات کو پیش کریں یا نظام کائنات کے وقوعے کو، ان کا لہجہ ہر جگہ دھیما اور معانی و مفاہیم کی ترسیل کی حد تک مطلع صاف ہوتا ہے۔ وہ غزل کی تخلیقی زبان سے واقف ہیں جو قوت ترسیل کو مجروح نہیں ہونے دیتی۔ شہپر رسول عمیق فلسفیانہ زبان کے استعمال سے قاری کو الجھانا نہیں چاہتے۔ وہ نہ تو لفظی بازی گری کو شعری سفر میں اپنا رفیق جانتے ہیں اور نہ ہی مبہم علامتوں کی پر پیچ وادیوں میں سیر کرنے کو سراہتے ہیں۔ ان کی نہ فکر ژولیدہ ہے اور نہ پیرایہ اظہار۔

میں استادانہ رنگ، نئی حسیت، تنہائی اور ذات کی شکست و ریخت جیسے بوڑھے اور گھسے پٹے لفظوں کا استعمال کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اس کی اہمیت آڈیوکیسٹ کے گھسے ہوئے فیتے سے زیادہ نہیں۔ صرف یہ کہوں گا کہ شہپررسول کی غزلیں اپنے دور کے خوب و زشت کا اشاریہ تشکیل دینے میں معاون ہیں۔ اکتساب و انجذاب نے انھیں ایک سچا اور مکمل فنکار بنا دیا ہے۔ اخیر میں ان کی غزلوں کی شناخت کے لیے ان کے لہجے کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اشعار جہاں میرے بابِ تفہیم و تقریظ کو مقفل کریں گے وہیں آپ کے لیے بابِ مطالعہ بھی کھولیں گے    ؎

کچھ بھی نہیں بدلا ہے یہاں کچھ نہیں بدلا

آنکھیں بھی وہی خوابِ پریشاں بھی وہی ہے

زباں کا زاویہ لفظوں کی خو سمجھتا ہے

میں اس کو آپ پکاروں وہ تو سمجھتا ہے

میں نے بھی دیکھنے کی حد کردی

وہ بھی تصویر سے نکل آیا

شعبۂ اردو میں اور بھی شعرا ہیں جن کے شعری نمونے شائع بھی ہوتے ہیں اور مشاعروں اور نشستوں میں بھی جاتے ہیں۔ یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ ان کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ البتہ ان کی شاعری کے منتخب نمونے پیش کیے جاتے ہیں۔


سہیل احمد فاروقی

ہم اہلِ دل نے  سفر کا جہاں ارادہ  کیا

جنوں کو تیز کیا شوق کو زیادہ کیا

ہمیں پتہ  نہ  چلا خون کی  روانی میں

  کہ آنکھ  ڈوبنے  والی  ہے  کتنے  پانی  میں

شکیل جہانگیری (مرحوم)

ہمیشہ سوچتے رہنے کا یہ عمل مجھ کو

چلے بغیر سفر کی تکان دیتا ہے

شدید دھوپ میں  وہ یوں امان دیتا ہے

سروں پہ تانبے کا اک سائبان دیتا ہے


کوثرمظہری

بوجھ دل پر ہے ندامت کا تو ایساکرلو

میرے سینے سے کسی اور بہانے لگ جاؤ

وہی قطرہ جو کبھی کُنجِ سر چشم میں تھا

اب جو پھیلا ہے تو سیلاب ہوا جاتا ہے


احمد محفوظ

کیا خبر تھی کہ بھلا رنگ یہ ہوں گے دل کے

ورق سادہ پہ اک نقش ابھر جانے سے

محو حیرت تھے کہ بے موسم ندی پایاب تھی

بس کھڑے دیکھا کیے اترے نہیں پانی میں ہم


عمران احمد عندلیب

بہاروں میں تم ہو نظاروں میں تم ہو

زمیں آسماں چاند تاروں میں تم ہو

کیسا کہرام مچایا ہے زمیں والوں نے

ساری مخلوق تباہی کی طرف جاتی ہے


خالد مبشر

میں اپنے پیکر خاکی سے مطمئن ہی نہیں

مرے خدا مجھے بارِ دگر بنایا جائے

اب کے جنوں میں سانحہ ایسا بھی ہو گیاکہ بس

دامن تو خیر چھوڑیے، سینہ ہی چاک کر لیا


عادل حیات

اپنی چالیں وہ چلیں جو بھی انھیں چلنی ہے

حوصلے کو بھی مرے کوہِ گراں دیکھیں گے

جو بھی گیا یہاں سے ہمیں روند کر گیا

ہم تھے عروج شہر ہمیں راستہ ہوئے


Prof. Kausar Mazhari

Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

Mob.: 9818718524

 

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں