3/6/21

شکیل الرحمن کی گورونانک شناسی - مضمون نگار: ریحان حسن

 


پندرھویں صدی میں بابا گورو نانک دنیا میں وحدانیت کا نغمہ سنانے کے لیے آئے اور انھوں نے اپنے فرمودات اور پیغامات کے ذریعے خواب غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو بیدار کیا۔بابا نانک نے اپنے ارشادات اور فرمودات میں روحانیت اور معرفت پروردگار کا جو لا زوال درس دیا ہے اس پر ہر صاحب فکرو نظر نے مدح و ثنا کے ڈونگرے برسائے ہیں۔ یوں تو ان کے تمام اقوال و اعمال سے وحدانیت کا بہشتی نغمہ ہی پھوٹتا ہے لیکن ’’جپ جی صاحب ‘‘میں معرفت پروردگار کا جس انداز سے انھوں نے درس دیا ہے وہ بے مثال ہے۔

در اصل جپ جی صاحب گورو گرنتھ صاحب کی پہلی بانی ہے جس میں 38پوڑیاں اور2اشلوک ہیں ایک اشلوک ابتدا میں درج ہے اور دوسرا سب سے آخر میں،جپ جی صاحب کے پہلے حصے کا آغاز مول منتر ’’ایک اونکار ست نام کرتا پرکھ نرپو نروے اکال مورت اجونی سے بھنگ گر پرساد‘‘سے ہوتا ہے۔سکھ روایات کا ماننا ہے کہ تمام گورو گرنتھ صاحب کی بانی جپ جی صاحب کی تشریح ہے اور جپ جی صاحب مول منتر کی توضیح۔ سکھ روایات کا یہ بھی ماننا ہے کہ تین منتر کا ورد انسان کرکے روحانی منازل طے کر سکتا ہے اور وہ منتر اس طرح ہیں بیج منتر (ایک اونکار) گر منتر (واہ گورو) اور مول منتر، چونکہ جپ جی صاحب میں مول منتر ہے اسی لیے اس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر دنیا میں بولی جانے والی بیشتر زبانوں میں اب تک تراجم ہو چکے ہیں۔اردو زبان میں ماسٹر لال سنگھ آنند نے ’ورد حق‘سردار کرتار سنگھ کیملپوری نے ’جپ جی صاحب موسوم بہ دعائے سحری  ‘جسونت سنگھ حیات پوری نے ’جپ جی صاحب کا اردو نثری ترجمہ ‘ اور خاں بہادر خواجہ دل محمد نے جپ جی صاحب کا اردو نظم میں ترجمہ کرکے اردو داں طبقے کو بابا نانک کے تفکرات و تخیلات سے متعارف کراتے ہوئے عرفان خدا میں اضافہ کیا ہے۔منجملہ اردو تراجم میں شکیل الرحمن کا ترجمہ اس اعتبار سے قابل التفات ہے کہ انھوں نے جپ جی صاحب کی ہر پوڑی کے مفاہیم کو اس طرح بیان کیا ہے کہ جس سے جپ جی صاحب کی افادیت اور اہمیت کا قاری کو بخوبی احساس ہوتا ہے کیونکہ اس میں جو لفظوں کا طلسم ہے وہ دلوں کو مسخر کر لیتا ہے صرف شرط یہ ہے کہ انسان لفظوں کے جادو سے آشنا ہو جس قدر لفظوں کے سحر سے آشنائی ہوگی اسی شدت سے جپ جی صاحب کی پوڑیوں کی روح تک انسان پہنچ سکے گا۔صداقت تو یہ ہے کہ :

’’جپ جی صاحب کے ذریعے بابا گورو نانک کے داخلی تجربوں کی وہ شعاعیں سامنے آئی ہیں جو ان کے باطن کی تیز روشنی کااحساس عطا کرتی ہیں۔پہلی آواز ہی سے محسوس ہونے لگتا ہے کہ بس ایک ہی سچائی کا عرفان ہے،ایک ہی سچائی ہے جسے پانے کے لیے دل و دماغ دونوں ایک دوسرے میں جذب ہوئے ہیں یا یہ کہیے کہ اس سچائی کا تقاضا تھا کہ دل ودماغ ایک دوسرے میں جذب ہو جائیں۔‘‘

(شکیل الرحمن،جپ جی صاحب،اصل مع مقدمہ و مفاہیم،طبع اول عرفی پبلی کیشنز 25نو مبر1996،ص7 )

در اصل جپ جی صاحب کی پوڑیوں کا مطالعہ انسان کو صبح کی لطیف اور خوشگوار ہوا کا احساس دلاتا ہے۔شکیل الرحمن نے جپ جی صاحب کے حسن بیان پر جس انداز سے روشنی ڈالی ہے وہ قابل غور ہے۔جپ جی صاحب کے متعلق ان کا یہ کہنا صداقت پر مبنی ہے :

’’جپ جی صاحب ‘‘میں بابا گرو نانک کے لفظوں کے آہنگ سے مختلف قسم کی کلیاں چٹکتی محسوس ہوتی ہیں اور مختلف قسم کے رنگوں کے پھول کھلے ملتے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 8)

ظاہر ہے کہ جپ جی صاحب میں بابا گورو نانک کے الفاظ ان کے تخیلات اور تفکرات کا ایسا اظہار ہیں کہ جس کے اسرار تک پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں البتہ اس طلسمی کیفیت کو محسوس کیا جا سکتا ہے چنانچہ شکیل الرحمن کا جپ جی صاحب کے متعلق یہ کہنا ہے :

’’اس کے لفظوں پر گرونانک کی شخصیت کی چاندنی پھیلی ہوئی ہے اور ان کے آہنگ کی کیفیت وہی ہے جو ندی کی لہروں کی ہوتی ہے، احساسات مل رہے ہیں جو بہت قیمتی ہیں، یہ بتانا کب ممکن ہے کہ ان احساسات کی حد کہاں تک ہے۔‘‘         (ایضاً)

جپ جی صاحب سے متعلق ان کی ہر سطر حسن بیان کے اعتبار سے اس قدر پختہ ہے جس سے ان کے حسن تحریر کا ہر انسان قائل ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

شکیل الرحمن نے جپ جی صاحب کے خصائص پر روشنی ڈالتے ہوئے بابا گورو نانک کی شخصیت اور ان کے الفاظ کی طلسمی کیفیات پر جس خوبی سے اظہار خیال کیا ہے وہ گورو نانک شناسی کی نئی راہیں وا کرتا ہے۔ان کی نظر میں بابا گورو نانک جی اور ان کا حمدیہ کلام جپ جی صاحب دلکشی و زیبائش کا ایسا مجموعہ ہے کہ جس کی شعاعوں سے ہر شخص کو کسب فیض کرنا چاہیے کیونکہ جپ جی صاحب میں بابا گورو نانک جی نے:

’’آسان،سیدھے، سادے صاف اور واضح اسلوب میں زندگی،کائنات،خالق اور مخلوق کے مفہوم کی،گہرائی کو حد درجہ محسوس بنا دیا ہے ۔‘‘ (ایضاً)

 ظاہر ہے کہ گوتم بدھ ہوں یا بلھے شاہ ہوں یا کوئی صوفی سبھی نے اپنی زندگی کو لوگوں کے سامنے ایسے پیش کیا کہ جس سے لوگوں کو رہنمائی ورہبری حاصل ہو چنانچہ شکیل الرحمن کا یہ کہنا ہے کہ:

’’گوتم، نانک بلہے شاہ اور صوفی بزرگ خود منطق ہیں۔اگر چہ وہ منطق لے کر نہیں آتے تو اپنے وجدانی رقص کا آہنگ لے کرآتے ہیں، وہ خود مغنی بھی ہیں اور نغمہ بھی۔ سب ایک ہی بنیادی سچا ئی اور اس کی پرنور جہتوں کی باتیں کر تے ہیں لیکن یکسانیت کے باوجود ہر صاحب نظر کے یہاں بار بار نئی تازگی کا احساس ملتا ہے ۔‘‘ (ایضاً، ص9-10)

بلا شبہ خدا کے برگزیدہ بندوں کے فرامین اور کردار کی خوبی ہی یہ ہے کہ انسان کی رہنمایٔ ورہبری ہو تاکہ وہ سچائی کے راستے پر چل کر کامیاب و کامران ہو سکے۔بابا گورو نانک جی کا بھی یہی ہدف تھا کہ انسان صداقت کے راستے پر چل کر نیکیوں کا مجموعہ بن جائے۔انھوں نے انسان کو ذات پروردگار سے متعارف کرانے کی سعی کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم خدا کو کما حقہ نہیں جان سکتے بقول شکیل الرحمن بابانانک نے:

’’ست نام کا نغمہ خلق کیا عمربھر اسے گایا حمد لکھی ڈوب ڈوب گیا،اس سچائی میں رقص کرتا رہا دیوانہ وار جھومتا رہا۔عجیب مستی چھائی رہی اس پر بھی وہ جانتا ہے کہ ’ست نام ‘اپنے تمام جلووں کے ساتھ اس کے سامنے نہیں ہے،جلوے اس مقام سے اور بھی آگے بہت جانے کہاں تک پھیل گئے ہیں کہ جس مقام پر وہ کھڑا ہے۔ ‘‘  (ایضاً، ص 14)

ظاہر ہے کہ ذات پروردگار لا محدود ہے نہ اس کی حدوں کو بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی حمد مکمل طور پر کی جا سکتی ہے۔اس کی قدرت و عظمت اور اس کی حکمت کو بیان کرنا کسی کے قبضۂ قدرت میں نہیں اسی لیے گورو نانک جی بھی پوری حیات خدا کا نغمہ جھوم جھوم کر گاتے رہے اور ذات پروردگار کی قدرت وعظمت سے لوگوں کو متعارف کراتے رہے۔شکیل الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بابا گورو نانک نے ست نام کا نغمہ خلق کرکے انسانوں کو خداسے جس انداز سے متعارف کرایا ہے اگر انسان غور کرے تو اس میں ایسا کیف محسوس کرے گا کہ اس کی خماری تا حیات ختم نہ ہوگی۔

شکیل الرحمن نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے جپ جی صاحب کا ترجمہ نہیں کیا کیونکہ ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ہر پوڑی کے مفاہیم کو اس طرح لکھ سکیں جیسا انھوں نے محسوس کیا تھا پھر بھی شکیل الرحمن نے جپ جی صاحب کے مفاہیم کو جس خوبی سے بیان کیا ہے اس سے گورو نانک جی کی عظمت سے واقفیت کے ساتھ ساتھ بابا نانک کے پیغام کی کنہہ حقیقت تک رسائی آسانی سے ہوتی ہے۔انھوں نے جپ جی صاحب کی پانچویں پوڑی کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا :

’’اللہ سب وصفوںکا گنجینہ ہے،اس کی عبادت اس سے قربت ہے،وہ تو اس دنیا سے بالا تر ہے وہ خودپیدا ہوا کسی نے اسے جنم نہیں دیا،آپ ہی نرنجن ہے،اس کی تعریف کرو اور اس کی تعریف سنو اس طرح دل میں محبت کی خوشبوپھیل جائے گی،اس کی حمد سے سارے دکھ دور ہو جائیں گے ۔‘‘ (ایضاً، ص 15)

 در اصل اس پوڑی کے مفاہیم کو بیان کرکے انھوں نے خدا تک پہونچنے کے راستے کی نشاندہی کی ہے اور اس کی حمد کے کیف کا احساس بھی دلایا ہے۔چونکہ ان کی نظر میں قرآن کریم کی آیات بھی تھیں (جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے ’الحمد للّٰہ رب العالمین ‘ تمام تعریفیں اس خدا کے لیے کہ جو عالمین کا پروردگار ہے دوسری جگہ ارشاد خالق کائنات ہے ’لم یلد و لم یولد ولم یکن لہ کفوا احد‘ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی اسے کسی نے پیدا کیا ہے اور اس کا کوئی کفو نہیں ہے۔ )جس کا فائدہ یہ ہوا کہ پوڑیوں کے مفاہیم کی روح تک پہنچنے میں دشواری نہیں ہو ئی اور انھوں نے آسان زبان میں جپ جی صاحب کی پوڑیوں کے مفہوم کو منتقل کر کے جپ جی صاحب کے ترجمے کی تاریخ میں ایک مثال قائم کرتے ہوئے حمد خدا کے شوق کو مہمیز کیا اور اس کی محبت کی خوشبو کو محسوس کرایا۔صداقت تو یہ ہے کہ جپ جی صاحب کی پوڑیوں کے مفاہیم کے بیان میں پروفیسر شکیل الرحمن نے جس طرح حسن بیان کی جلوہ گری دکھائی ہے وہ قابل غور ہے۔انھوں نے پوڑیوں کے مفاہیم کو صاف اور واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے انسان کی زندگی کے اصل ہدف کی نشاندہی جس انداز سے کی ہے وہ ہماری رہبری و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔

شکیل الرحمن نے خدا کی سچائیوں سے جس انداز سے ہمیں متعارف کرایا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بابا نانک کے فرمان کو غورو فکر کے ساتھ پڑھا اور جو نتیجہ اخذ کیا اسے قاری کے حوالے کر دیا۔انھوں نے گورو نانک جی کے فرمان کی کنہہ حقیقت سے جس انداز سے متعارف کرایا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انھیں اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان سے بھی واقفیت تھی۔سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے جپ جی صاحب کی پوڑیوں کے مفاہیم کے بیان میں جس اسلوب کو اختیار کیا وہ بہت ہی سادہ و سلیس ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ قاری کو بابانانک کے فرمان کو سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی ثبوت کے طور پر جپ جی صاحب کی پہلی پوڑی کا مفہوم و ترجمہ شکیل الرحمن کی زبان میں ملاحظہ ہو       ؎

وہ سچ ہے اونکار ہے

بسیط ہے حد درجہ پھیلا ہوا،جانے کہاں تک

جانے کہاں تک!

انسانی فکر اس کی وسعتوں تک نہیں جا سکتی

سوچ کی گرفت میں بھلا یہ وسعت کس طرح سما سکتی ہے؟

اسے پانے کے لیے

من بے چین رہتا ہے

لیکن من ڈوب کر مسلسل سوچتے رہنے سے بھی وہ سوچ میں سما نہیں سکتا!

گم سم رہنے چپ رہنے،من میں ڈوب جانے، خاموشی میں دھیان لگائے رہنے سے بھی وہ سوچ اور دھیان میں نہیں آتا

دنیا کو باندھ لائیں پھر بھی

بھوکے پیاسے رہیں پھر بھی

ہوشیاری اور چالاکی دکھائیں پھر بھی

اس کی ایک کرن بھی گرفت میں نہیں آتی !

لہٰذا حکم رضا (حکم رجایٔ) پر چلنا اور اس سے لذت اور آسودگی پانا

بس یہی زندگی کا تقاضہ ہے !!

(شکیل الرحمن،جپ جی صاحب،اصل مع مقدمہ و مفاہیم،طبع اول عرفی پبلی کیشنز 25نو مبر1996، ص33)

اردو زبان میں جپ جی صاحب کا نثر میں ترجمہ ہونے کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی ترجمہ ہوا ہے جس میں ایک اہم نام خاں بہادر خواجہ دل محمد کا بھی ہے کہ جنھوں نے جپ جی صاحب کا ترجمہ آسان زبان اور مترنم بحر میں کیا ہے ان کے ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے جپ جی صاحب کی ہر پوڑی کی اصل کے سامنے ترجمہ درج کیا ہے جس سے فائدہ یہ ہوا کہ جپ جی صاحب پڑھتے وقت قاری کو سہولت ہوتی ہے اورساتھ ہی ساتھ معانی و مطالب سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی۔خواجہ دل محمد پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کی زبان میں جپ جی صاحب کی دوسری پوڑی کا ترجمہ ملاحظہ ہو         ؎       

حکم سے بن بن جائیں شکلیں

حکم کے بھید نہ کھولے جائیں

حکم سے تن میں روحیں آئیں

حکم سے شان بڑایٔ پائیں

حکم سے عزت حکم سے ذلت

حکم کا لکھا سکھ دکھ پائیں

حکم سے اک پر بخشش ہو اک

حکم سے چکر کھاتے جائیں

 حکم خدا میں دنیا ساری

حکم سے باہر کوئی نہ جائے

حکم خدا جو سمجھے نانک

اپنی ’ہوں میں‘ آپ مٹائے

(خواجہ دل محمد،جپ جی اور سکھ منی صاحب اصل مع ترجمہ آسان اردو نظم میں،طبع خواجہ بک ڈپو موہن لال روڈ لاہور،ص13)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس عہد میں خواجہ دل محمد کا یہ ترجمہ منصہ شہود پر آیا اس وقت عام لوگوں میں گر مکھی کا چلن نہیں تھا بلکہ اس عہد میں تعلیمی زبان فارسی اور اردو تھی لہذا اس عہد کے تعلیم یافتہ افراد خواجہ دل محمد جان کے اصل ترجمے سے ہی جپ جی صاحب کی روحانی برکت حاصل کرتے تھے اور ایسا اس لیے بھی تھا کہ جپ جی صاحب کو نظم کرنے میں انھوں نے حسن بیان کی خوب جلوہ گری کی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ حسن بیان نثر میں ممکن نہیں پھر بھی شکیل الرحمن نے اپنے اسلوب نثر کا لوہا منوا لیا ہے جس کے ثبوت میں جپ جی صاحب کی دوسری پوڑی کا مفہوم حاضر خدمت ہے          ؎

ہرصورت کا خالق

وہ حاکم ہے !

جو صورتیں وجود میں آئیں ہیں وہ تمام اسی کی خلق کی ہوئی ہیں

اور جتنی صورتیں وجود میں آئیں گی

اسی کی خلق کی ہو ئی ہوں گی

اس کے حکم کے رموز کون جانے

کوئی اسرار تک پہنچ نہ سکا !

کائنات کے تمام عناصر و اشیاء کائنات کی تمام صورتیں راز ہیں

ان کی تخلیق کے حسن اور ان کی تخلیق کے اسباب کا بھید کسی کو معلوم نہیں

اسی کا حکم ہے کہ جس سے جسم میں روحیں پر اسرار انداز سے سرایت کر جاتی ہیں

اسی کا حکم ہے کہ جس سے وجود کی عظمت قائم رہتی ہے اور اعلی ترین جمال کا معیار قائم ہوتا ہے

اسی کے حکم سے انسان کو عزت اور ذلت دکھ سکھ سب حاصل ہوتا ہے

روحوں یا آتما ؤ ں کا پر اسرار سفر اسی کے حکم سے ہوتا ہے

خدا کے حکم کے اندر ہی کائنات کی گردش قائم ہے

بھلا کو ئی ستارہ،کویٔ سیارہ، کویٔ بھی عنصر اس کے حکم سے باہر رقص کر سکتا ہے؟

یہ حکم خدا ہی ہے کہ انانیت سے بہت دور

نانک خود اپنی ہستی میں گم ہوتا جا رہا ہے !!

(شکیل الرحمن،جپ جی صاحب،اصل مع مقدمہ و مفاہیم،طبع اول عرفی پبلی کیشنز 25نو مبر1996،ص35)

شکیل الرحمن نے گورو جی کی پوڑی کے مفاہیم کو جس خوبی سے بیان کیا ہے اس سے عبد ومعبود کے رشتے کو سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے۔انھوں نے آسان زبان میں جپ جی صاحب کے مفاہیم کو بیان کر کے ترجمہ نگاروں کی رہنمائی جس انداز سے کی ہے وہ قابل استحسان ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اس ترجمے کو پڑھ کر خدا سے محبت کا جذبہ ابھرتا ہے اور جب انسان کو خدا سے سچی محبت ہوگی تو سرور کی ایسی ہی کیفیت پیدا ہوگی کہ پروردگار کی خود ہی حمد پڑھو اور خود ہی سنو کیونکہ تعریف کرنے والا بھی وہی ہے اور سننے والا بھی وہی ہے چنانچہ جپ جی صاحب کے متعلق ان کا یہ اعتراف ہے:

’’بابا نانک کے بیان میں ایک عجیب سرمستی ہے،یہاں شاعر دانشور ہے اور نہ دانشور شاعر،محبت میں ڈوبا ہوا دل ہے،الفاظ زبان سے بے اختیار نکلتے جا رہے ہیں،باتوں کی تکرار بھی ہو رہی ہے،گم صم وجود ہو تو یہی کیفیت ہوتی ہے۔نشے کی کیفیت،بابا نانک نے ہر لمحہ آزادی کا احساس دیا ہے۔جپ جی صاحب میں آزادی کے سچے احساس،مایا کے دلفریب اور پیارے تصور اور آنند حاصل کرتے رہنے کے مسلسل روحانی عمل کی وجہ سے بڑی کشش پیدا ہو گئی ہے۔بابانانک نے شاعری نہیں کی عام لفظوں میں احساسات پیش کر دیے ہیں۔‘‘

(شکیل الرحمن، جپ جی صاحب، اصل مع مقدمہ و مفاہیم، طبع اوّل عرفی پبلی کیشنز، 25 نومبر 1996، ص 20)

بابا نانک کے متعلق ان کے یہ افکار و تخیلات اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ گورو نانک جی سے متاثر بھی ہیں اور ان کے عقیدت مند بھی،بابا نانک کے متعلق مذکورہ بالاخیالات سے واضح ہے کہ انسان ان احساسات کو مختلف صورتوں میں محسوس کرتا ہے یہ اور بات ہے کہ ان شکلوں کو گورو نانک جی نے لکھا نہیں بلکہ زبان مبارک سے اس طرح ادا کیا ہے کہ انسان خدا کا عرفان حاصل کر سکے بقول شکیل الرحمن بابا نانک نے انسان کی ایغو یعنی کہ میں سب کچھ ہوں کوئی کچھ بھی نہیں کو:

’’اس طرح خاموشی سے شکستہ کرکے سرما بنا دیا کہ ’جپ جی صاحب ‘میں اسے کہیں محسوس ہی نہیں کرتے۔اسی طرح خوف کے جذبے کو ختم کر دیا،فرد اور خالق کائنات کے رشتے میں صرف محبت ہی کا درس ہے یہی وجہ ہے کہ خاموشی کی ایک دلکش آواز سنائی دیتی رہتی ہے اور خاموشی کی دلکش اور دلفریب آواز ہی میں ’’جپ جی صاحب ‘‘کے الفاظ ابھرتے رہتے ہیں ۔‘‘ (ایضاً ص 21)

یقینا خدا اپنے بندے سے جس طرح محبت کرتا ہے اس کی مثال نہیں لائی جا سکتی شکیل الرحمن کی نظر میں:

’’بابا گورو نانک معلم نہیں ہیں،کوئی درس نہیں دے رہے ہیں،نصیحتیں نہیں کر رہے ہیں وہ تو صفات الہی کے بیان میں خود بے بس اور بے کس نظر آرہے ہیں وہ مالک کی تمام صفات کو بیان ہی نہیں کر سکتے ۔‘‘(ایضاً)

یہ صداقت ہے کہ پروردگار کی صفات کا شمار ناممکن ہے اس کی بے پایاں رحمتوں میں جو گہرائی وگیرائی ہے اس تک پہنچنا کسی کے بس میں نہیں پروفیسر شکیل الرحمن کے نزدیک :

’’جپ جی صاحب میں ’مایا‘کا ایک انتہائی پیارا تصور ملتا ہے۔’مایا‘فریب یا التباس نہیں ہے،یہ تمثیل الٰہی ہے۔‘‘(ایضاً)

خدا نے دنیا میں جتنی چیزیں بھی خلق کی ہیںان میں اس قدر جذب و کشش اورخوبصورتی ہے کہ جس سے لطف اندوز ہونے سے اشتیاق میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہی جاتی ہے اس کے مظاہر اور جلووں سے گریزاں نہ ہونا چاہیے کیونکہ اس کے جلووں کو اس حسن کے درمیان رہ کر ہی پہچانا جا سکتا ہے زندگی کے جمال سے دور رہ کر انسان معبود کے حسن کو محسوس نہیں کر سکتا چنانچہ شکیل الرحمن کا یہ کہنا ہے کہ پروردگا ربابا نانک کی نظر میں :

’’وہ ہے اور وہی رہے گا،وہی ایک سچائی ہے،وہ ’ست نام‘ ہے اسی نے مایا کو خلق کیا ہے،مختلف قسم کے جذبے عطا کیے ہیں اور ہر جذبے کو ایک الگ رنگ بخشاہے’ست نام‘مایا خلق کرکے اپنی خلق شدہ تمثیل کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔اس میں تبدیلیاںپیدا کرتا رہتا ہے،اس کے حسن میں اضافہ کرکے زیادہ وقار اور عظمت بخشتا ہے ‘‘(ایضاً ص 22)

در اصل پروردگار نے رنگا رنگ محفل سجائی ہے کہ جس کا کما حقہ عرفان کسی انسان سے ممکن نہیں البتہ انسان اس کے ہر نغمے میں شامل ہو کر فلاح و بہبودی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے تخلیق کردہ ہر نغمے میں وہ جذب و کشش ہے کہ جس کی طرف اگر متوجہ انسان ہو جائے تو دنیا کی ہر قیدو بند سے اسے نجات حاصل ہو جائے کیونکہ :

’’مایا ِ،جو مالک کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے جمال و جلال کا معیار ہے۔نرنکار نے مذہب دھرم کے اصولوں کوشعور بخشاہے،اسی مایا میں گیان کی منزل ہے،رحمتوں کے سائے ہیں،مایا کے حسن سے لطف و انبساط حاصل کرتا ہو ا،رقص کرتا ہوا انسان خالق کے دروازے تک پہونچ جاتا ہے ۔‘‘(ایضاً ص25)

در حقیقت مایا کے جلووں پر اگر غورو فکر کیا جائے تو خالق کے بکھرے ہوئے رنگ اور لعل و جواہر کو انسان شمار نہیں کر سکتا۔پروفیسر شکیل الرحمن نے گورو نانک جی کے فرمان کے پیش نظر مایا جال کی تشریح و توضیح جس انداز سے کی ہے اس سے بابا نانک کے نغمے کے حسن کی دلکشی کا علم ہوتا ہے شکیل الرحمن کے نزدیک جپ جی صاحب :

بابا نانک کی وجدانی بصیرت کی ایک بہت بڑی تخلیق ہے،باطنی تجربوں کے ارتعاشات غیر معمولی مسحور کن صباحت لیے ہوئے ہیں،انتہائی خوبصورت جو حیرت انگیز بصیرت کی دین ہے،’جپ جی صاحب‘کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسے لگا کہ خدا ہے اس لیے جہنم نہیں ہے،خدا ہے اس لیے ہر مقام پر بہشت ہے،ہر شے ہر عنصر بہشتی ہے۔خدا ہے اس لیے یہ زندگی اتنی خوبصورت اور دلفریب ہے،حسن کے اعلی ترین معیار کو لیے ایک تمثیل پیش ہوئی ہے،یہ تمثیل نغمہ و نور کی ہے،تلاش و جستجو اور تحرک کی ہے۔اپنی توانائی یا انرجی کے سر چشمے تک پہونچنے کی آرزو ہے ۔‘‘ (ایضاً ص 27-28)

بلا شبہ پروردگار عالم ہر شے پر قادر اور ہر جگہ موجود ہے کائنات کے ذرہ ذرہ میں اسی کا پرتو اور ہر قطرے میں اسی کی حکمت پوشیدہ ہے جس کا ادراک کرنے سے عقل انسانی عاجز ہے۔صداقت یہ ہے کہ اس کے حسن اور نور تک رسائی انسان کے اختیار سے بالا تر ہے اگر اس کے حسن اور کرشمات کا ادنی سا بھی عرفان حاصل ہو جائے تو کامیابی و کامرانی انسان کے قدم چومے گی اور شکیل الرحمن نے جپ جی صاحب کے اس ترجمے کے ذریعے خدا کی انھیں بے پایاں حکمتوں کی طرف ملتفت کرتے ہوئے اس سے کسب فیض کرنے کے لیے ہمیں آمادہ کیا ہے۔

جپ جی صاحب کے مذکورہ تراجم پر نگاہ ڈالنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان ترجمہ نگاروں میں سے کسی نے فلسفیانہ انداز اختیار کیا تو کسی نے ترجمے میں روحانیت کا خصوصی خیال رکھا اور کسی نے معاشرتی اصلاح کے نقطۂ نظر پر توجہ دی بعض ترجمہ نگاروں نے اخلاقیات پر بھی زور دیا لیکن شکیل الرحمن نے صوفیانہ (Mystical)طرز اور تخلیقیت (Creative) کو ملا کر جپ جی صاحب کے ترجمہ و مفاہیم کو پیش کرنے کی سعی کی جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی تشریح میں صوفیانہ اور تخلیقی خوبیاں بھر پور انداز میں مجتمع ہو گئیں جن سے مفاہیم میں وسعت اور لطف زبان میں بھی بیش بہا اضافہ ہوا۔ جپ جی صاحب کے اس ترجمے سے یہ واضح ہے کہ پروفیسر شکیل الرحمن کی نظر میں بابا گورو نانک جی عرفان خدا کے لیے ایسا سرچشمہ تھے کہ جنھوں نے خدا کی ہر تخلیق کی رنگا رنگ تصویر اس انداز سے مخلوق خدا کے سامنے پیش کی کہ جس میں انسانوں کے لیے خیر ہی خیر ہو جنھیں ہر انسان محسوس توکرتا ہے لیکن اس کے اقوال وافعال سے اظہار نہیں ہوتالہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان خدا کی اس بیش بہا دولت کا اعتراف اپنے ہر عمل سے کرے اور جس طرح ذات پروردگار نے اپنی بے شمار نعمتوں کے ذریعے انسانوں پر رحم و کرم فرمایا ہے وہ بھی مخلوق خدا کے ساتھ رحم و کرم کے ساتھ پیش آئے جبھی بابا نانک کے جپ جی صاحب کے فرامین پر عمل کرنے کی عملی تصویر دنیا کے سامنے آسکے گی اور گورو نانک شناسی کا ثبوت فراہم ہو سکے گا۔


Dr. Raihan Hasan

Dept of Urdu wa Farsi

Guru Nanak Dev University

Grand Trunk Road, Off, NH 1,

Amritsar- 143005 (Punjab)

Mob: 8559020015      :drraihanhasan@gmail.com          

 

ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2021

1 تبصرہ:

  1. بابا فرید مسعود گنج شکر کے کلام کو گرو گرنتھ صاحب میں شامل کر کے ان کے کلام کو امر کر دیا ھے

    جواب دیںحذف کریں