3/6/21

مضطر خیرآبادی کی ہندی شاعری میں ہندوستانی تہذیب - مضمون نگار: عشرت ناہید

 



اردو اور ہندی زبان کے باہمی رشتے  کتنے مضبوط ہیں اس بات سے ہر کوئی واقف ہے، کسی نے اسے دو بہنیں کہا تو کسی نے دو آنکھوں سے  مثال دی ہے ۔دونوں زبانوں کے اس  رشتے کی بنیاد دراصل  کھڑی بولی ہے جس کے بطن سے یہ لسانی سوتے پھوٹے ہیں۔ اتنا ہی نہیں دونوں زبانیں بولنے والوں کا ملک بھی ایک ہے ان کے تہذیبی رشتے بھی مشترک ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ مذہب کی بنا پر زبانوں کو تقسیم کر لیا جائے۔اردو اور ہندی والوں نے باوجود سیاسی کوششوں کے  اس بات کو ثابت کیا ہے کہ زبان کو منقسم کر دینا آسان نہیں،  زبانیں اپنا دائرہ خود طے کرتی ہیں  پھر ان دائروں کو وسیع کرتی ہیں کشادہ دلی سے دوسری زبانوں کو اپنے یہاں جگہ دیتی ہیں اور یہی فراخ دلی زبان کے  دامن کو  نئے نئے الفاظ اور اصناف  ادب سے سجانے کا کام بھی کرتی ہے۔

 تہذیب کے اصطلاحی معنوں پر بھی  جب غور کیا جاتا ہے تو یہ اپنے لغوی  معنی سے بالکل مختلف ہیں۔لغت میں اس کے معنی اصلاح، پاک کرنا، صفائی و آراستگی کے ہیں، لیکن اصطلاحی معنی بڑی وسعت رکھتا ہے۔جذبات، خیالات، عادات و اطوار، زبان، رسم و رواج، علم و ادب، عقائد، غذائیں، پو شاکیں، وغیرہ یہ سب لوازمات تہذیب کے ذیل میں آتے ہیں۔ ہندوستان ایک کثیرلسانی، مذہبی، ثقا فتی  اعتبار سے مختلف تہذیبوں  کے مرکز کے طور پر پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔یہاں مختلف مذاہب اور مختلف تہذیبوں نے ایک دوسرے پر اپنے گہرے اثرات  مرتب  کیے ہیں۔یہاں بسنے  والوں نے اپنی الگ الگ تہذیبی شناخت قائم کرتے ہوئے  ایک دوسرے کے اثرات قبول کیے ہیں۔ زبان و ادب اور دیگر علوم و فنون میں بھی یہی کچھ ملتا ہے اور جہاں تک بات  اردو زبان کی ہے تو اس کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ اس زبان نے ہندوستان میں جنم لیا  اور کھڑی   بولی، برج بھاشا  عربی فارسی ترکی دیگر  زبانوں  کے ساتھ ساتھ ہندی زبان اور مقامی بولیوں  کے اثرات کو بھی قبول کیا۔

اردو زبان کا حسن یہی ہے کہ اس میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر بدرجہ ٔاتم موجود ہیں ساتھ ہی ہندی شاعری کی مختلف اصناف بھی نظر آتی ہیں جنہوں نے ادب کے دامن کو وسیع کیا ہے۔  لہٰذا اردو شعراکے کلام پر جب نظر ڈالی جاتی ہے  تو ابتدا ہی سے ہمیں  اردو میں  ہندی شاعری  کا سلسلہ ملتا ہے۔ جس کا آغاز امیر خسرو سے ہوتا ہے۔ جن کے یہاں  ہندوی زبان کے ساتھ ساتھ اس کی مختلف اصناف دو ہا۔ گیت، کہہ مکرنیاں  وغیرہ ملتی ہیں  جو یہ بتاتی ہیں کہ  زبان میں ہندوستانی تہذیبی عناصرہی  اس کی خوبصورتی کے ضامن ہیں۔ امیر خسرو سے جاری یہ سلسلہ  قلی قطب شاہ،  وجہی،غواصی، اور پھر ولی کے ساتھ شمالی ہند کی طرف گامزن ہوتا ہے یہاں حاتم، فائز، مظہر جان جاناں،  آبرو، آرزو اسے اپناتے ہیں تو نظیر اکبر آبادی عوام کے مختلف رنگوں میں ہندی کو رنگ دیتے ہیں اور ’دیکھ بہاریں ہولی کی‘ کہہ کر ہندوستانی تہذیب کا وہ خوشنما روپ پیش کرتے ہیں جسے گنگا جمنی تہذیب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔یہی سلسلہ آگے بڑھتا ہوا  مضطر خیر آبادی کے یہاں اپنی پوری لطافت اور موسیقی کی ریاضت کے ساتھ جلوہ نما ملتا ہے۔ مضطر خیر آبادی نہ صرف ہندی  میں شاعری کرتے ہیں بلکہ ان کے یہاں ہمیں مو سیقی کی نزاکتیں  بھی نظر آتی ہیں۔

ان کی ہندی شاعری کا جائزہ لینے پر ان کی کلیات خرمن میں  ہوری، ٹھمری، دوہے، برہا، ملہار  بسنت اور  دادرا  میں  تہذیب کی رنگا رنگی  ملتی ہے ۔یہ ایک ایسا ادبی سرمایہ ہے جو اپنے عہد اور ماحول کی آئینہ داری  بھی کرتا ہے  اور ہندوستانی  تہذیب کی تر جمانی بھی ۔  مضطر کی شاعری مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔

ہولی  پھاگن کے مہینے میں منایا جانے والا رنگوں کا تہوار ہے۔ جسے ہولی اور ہوری بھی کہا جاتا ہے۔جو ہندوستان میں بڑی دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے  اسے منانے کی کئی روایتیں ہیں۔روایتی طور پر اسے دو دن منایا جاتا ہے۔  اس میں عموماً  کرشن کا گوپیوں کے ساتھ ہولی کھیلنے کو بیان کیا جاتا ہے۔یہ تہوار کنواریوں کے من میں پیا ملن کی جوت  جگاتا ہے، وہ ہولی کے تہوار کا شدت سے انتظار کرتی ہیں یہاں تک کے خواب میں بھی وہی کچھ مجسم ہو کر دکھائی دیتا ہے۔۔مضطر ملن کی بے قراری کے لمحوں کو  اس طرح پیش کرتے ہیں       ؎

رات سپنے میں آئے پیا موسے کھیلن ہوری

کیسر پاگ سیس پہ باندھے تا پر رنگ پڑوری

ہاتھ لیے رنگ کی پچکاری  ابرا کی ڈارے جھوری

دبے پگ چوری چوری

لیکن جب یہ گوری جاگتی ہے تو حقیقت میں اسے پیا نظر نہیں آتے  تو وہ اپنے خوبصورت سپنے کو سچ بتاتی ہے۔کہتی ہے        ؎

سووت ما موہے چیت دلائن چوم کے انکھیاں موری

جاگ پڑوں تو کچھ نہ پائوں کا بھئے مضطر گوری

ابھی کھیلت تھے ہوری

رات سپنے میں آئے پیا مو سے کھیلن ہوری

ہولی سے متعلق ان کی شاعری میں برہا کا دکھ حاوی ہے، پیا سے دوری ہولی کی ساری خوشیوں پر اداسی  پھیلا گئی ہے ۔ہولی کا آنا اور سیاں کا پردیس میں ہونا برہن کے درد  میں اضافے کا سبب  ہے  پر دیسی پیا کے ویوگ نے اسے  کچھ اس طرح ویاکل کیا ہے  اس کا دل ہر خوشی سے اچاٹ ہو گیا ہے      ؎

ہوری آئی تو سیاں سدھار گئے /موہے سونی سجریا پہ ڈار گئے

گوئیاں  چاہے نہ  جی رنگ کھیلن کو /مورا مضطر پیا من مار گئے

یا پھر یہاں جذبات کا بہائو دیکھیے

ایسی ہوری کے واری /پیا سدھ لینی ہماری 

  مضطر خیر آبادی  جب ہولی کو  بیان کرتے ہیں تو یہ پوری فضا اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں پھاگن کے مہینے  کا ہندوستان نظر آتا ہے۔گلال اور رنگوں بھرا یہ تہوار کس قدر خوشیوں کو لاتا ہے یہ اس برہن کی تڑپ اور کسک سے بخوبی عیاں ہے، جذبات کا ایک سیلاب ہے جس کے پردے میں تہذیب کے رنگ بھی ہیں،جدائی کے جذبات بھی ہیں اور زبان کی چاشنی بھی۔

 بسنت کی بہار پھاگن کے مہینے میں اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے، چاروں طرف سرسوں کے پھول اپنی چھٹا بکھیرتے ہیں اور پورے ماحول کو بسنتی بنا دیتے ہیں یہ موسم  یہ مہینہ  ناچ رنگ اور گانے کی فضا ہے۔ گوریاں اپنے ہاتھوں میں  مہندی رچا کر بسنت کا استقبال کرنے کو تیار ہیں       ؎

سب سکھیاں مل مہندی رچائیں /لال ہیں انگلی کے پو رے

   بسنت آگیا جگہ جگہ میلے لگنے لگے  اور یہ میلے ہندوستانی تہذیب کا وہ نرالا رنگ سجانے لگے  ہیں کہ جنہیں دیکھ کر مذہب کی تفریق کہیں دور کھڑی مسکراتی ہے۔مضطر ؔخیر آبادی بھی اس فضا کے رنگ میں  اپنے کو رنگ ڈالتے ہیں۔وہ بسنتی چولہ پہن نذر علی شاہ کے مزار پر ستار لیے بسنت گا رہے ہیں          ؎

 آئو پیا پھاگن میں من مورا امنگ چلا ہے

نئے سال کو نیگ تو دے دو برس کو درس بھلا

بہت اب تو بچن ٹلا ہے

 ہندوستانی تہوار بسنت، بہار، ہولی ہو یا ہندی کی مختلف کلاسیکی اصناف ان میں موسیقیت اور غنائیت ہی ان  کا حسن ٹھہرتی ہے  ان کے بیان  میں لطف تب ہی پیدا ہوتا ہے جب انھیں  مو سیقی کے فنی تقاضوں کے تحت لکھا جائے۔ مضطر خیر ا ٓ بادی نہ صرف مو سیقی کا علم رکھتے تھے بلکہ انھوں نے با قاعدہ مو سیقی کی تعلیم بھی لی تھی ۔بطور خا ص وہ ستار کے تار وں پر انگلیوں کی جنبش سے ایک نیا آہنگ پیدا کر دینے میں ماہر تھے،جب وہ ستار کے ساتھ گوری کا شکوہ پیش کرتے ہیں تو یہ معصوم گلہ سیدھے دل پر اثر کرتا ہے۔

موری توری کیسے نبھے پریت /تو تو روٹھ جات  بن بات چیت

مضطر پیا سے کہیو پپیہا /تم تو رہے سوتنیا کے میت

اردو شاعری میں پیغام اور ہندی میں سندیس پایا جاتا ہے جس کے لیے قاصد کا ہونا لازمی سا ہے۔ یہ  پیامبر کبھی باد صبا ہے تو کبھی بادل تو کبھی پپیہا ہے  تو کبھی گوکل کا جویا۔ اپنے پیا سے بے انتہا محبت کرنے والی معشوقہ مختلف سندیسے  گوکل کے جویا کے ساتھ مختلف لوگوں کو بھیجتی ہے۔پہلا پیغام اس نگر کو بھیجتی ہے جہاں اس کا ساجن بس گیا ہے پھر وہ اپنی سہیلی کو پیغام پہنچانے کو کہتی ہے کہ اور اس سے بھی اپنے برہا کا حال بتانے کو کہتی ہے اور یہاں تک کہ محبت کی ماری اپنی سوتن تک کو سندیسا بھیج بیٹھتی ہے       ؎

کہیو مورا سندیسا گوکل کے جویا /پہلا سندیسا نگر سن کہیو اوون دونے بسیا

تن من مورے آگ لاگی کونا ہے بجھیا /لگی پر چھینٹ دویا

کہیو مورا سندیسا گوکل کے جویا/تیسرا سندیسا سوتن سن کہیو،او سجیا کی سویا

ہمرے پیا کو دکھ نہ دیجو نسدن کیجو بلیا /تو ہے واہی کی دہیا

کہیو مورا سندیسا گوکل کے جویا

یہ سندیسا دل کو چھو لینے والا ہے یہ ایک عورت کی محبت کی انتہا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی جدائی میں تڑپ رہی ہے لیکن اس کی یہ خواہش ہے کہ اس کا معشوق کہیں بھی رہے خیر و عافیت سے رہے جبکہ وہ اس کی سوتن کے پاس ہے  لیکن پھر بھی وہ اس کے لیے پریشان ہے۔اپنے محبوب کے لیے اپنی سوتن کو پیغام اور وہ بھی اس قدر جذباتی پیغام اس کی عکاسی  ہندی زبان میں ہی ممکن تھی۔ جسے مضطر نے  بخوبی پیش کیا ہے۔

برہا جو کہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے  اور اسے بھوجپوری لوک گیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مضطر کی ہندی شاعری میں برہا ایک مستقل موضوع کے طورپر ملتا ہے،ان  کے یہاں چھ برہا کے گیت ملتے ہیں جن میں فراق کی شدت، ہجر کی تڑپ نظر آتی ہے۔یہ تمام گیت نسوانی جذبات کی تر جمانی کرتے ہیں۔

موری بیس گئی بن شیام سندر بر ہا کے اس گیت میں فن گائیکی کا خاص خیال رکھا گیا ہے  اس میں انترہ پر زور دیا گیا ہے ۔ ’ ُ سرُ،  تال اور لے میں جب کسی گیت کو پیش کیا جاتا ہے تو بہت  سی فنی باریکیوں کو  دھیان میں رکھنا ضروری ہو تا ہے۔گیت کے آغاز کے دو طریقے ہوتے ہیں  ایک مکھڑا  دوسرا انترہ

  مکھڑا گیت کی پہلی لائن کو کہتے ہیں جبکہ انترہ بیچ میں ہوتا ہے لیکن زیادہ تر موسیقار گیت کی شروعات مکھڑے کے بجائے انترہ سے کرتے ہیں۔انترہ میں گیت کا بند۔ عام طور پر دو یا تین اور کبھی کبھی زیادہ بھی ہوتے ہیں،پہلے اور تیسرے انترے کی لے  ایک سی رکھی جاتی ہے جبکہ دوسرے کو تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ 

(تحریر و تحقیق سہیل نقش ویب پیج، موسیقار کی دنیا)

 برہا کے اس گیت میں  برہن اپنی قسمت سے شاکی ہے کہ  جیسی قسمت اسے ملی ہے کسی کو نہ ملے۔نجانے کون سی  بد نصیب گھڑی تھی جب  اس کی قسمت لکھی گئی  خالص نسوانی انداز گیت کا لطف بڑھا دیتا ہے  ’ آگ لگے ان کر من پر

جیسے کرم مو ہے داتا دہن ہیں، ایسے کرم کوئی میری نہ پائے

اے ری سکھی وہ کون گھڑی تھی، جن بیریا ہم کرم لکھائے

آگ لگے ان کر من کو

جس کا نائوں پیا مضطر ہے  جو جگ ما مضطرکہلائے

نی جینوں من چھین کے مورا  بیٹھ رہے کن کے گھر جائے

کاہ کروں اب جائوں کدھر

برہا کے ان گیتوں میں بہار کا موسم، ساون کی گھٹائیں، پپیہے کی صدا، کوئل کی کوک ، ڈالیوں کا جھومنا گھٹائوں کا گھر آنایہ سب جدائی کے لمحوں کی ٹیس کو بڑھا دیتے ہیں۔جس کا اظہار مضطر خیر آبادی نے  الگ الگ گیتوں میں موسیقی کے سر تال کے ساتھ کیا ہے۔یہ گیت گائن کی اس کلا کا اظہار کرتی ہیں جسے کلاسیکی موسیقی کہا جاتا ہے         ؎

انبہ کی ڈال کوئلیہ جو کوکے آئی گھٹا جھوم جھام رے

اٹھ ری پیر جنما کی سنگھاتن بارا کریجو تھام رے 

وہ  پپیہے سے  بھی درد بھرے انداز میں گزارش کرتی ہے کہ تو نہ کوک۔ تیری کوک میرے درد میں اضافے کا سبب ہے۔  تیری پیہو پیہو میں مجھے پیا کا نام سنائی دیتا ہے۔

کہا مان لے پپیہا رے /نہ لے پیا کا نام

بالی عمریا کو دیکھ /سونی سجریا کو دیکھ /ہوک کی کوک کریجوا میں لاگے

کوک سے پھونک نہ  جیارا /نہ لے پیا کا نام

اس میں بطور انترہ ’ نہ لے پیا کا نام ‘  اس گیت کا حسن ہے۔

اسی طرح کالی گھٹا نے اس شدت سے اسے بے چین اور بے قرار کیا کہ وہ جوگن بن اپنے پیا کو  پانے  اور اپنے آپ کو نچھاور کر دینے کا قصد کر بیٹھتی ہے۔

کاری گھٹا کو دیکھ کر یاد آگئے سنوریا /لگ گئے بوندوں کے تیر

مٹ گئی سب من کی دھیر /اُت بجری کی دیا بارت ہے 

ات ڈھونڈن لاگی نجریا /بن کے بروگن فقیر

جائوں گی مضطرکے تیر /جوگن سنگ ہو جوگی کا دوں گی

نچھا دوں گی ساری عمریا /کاری گھٹا کو دیکھ کے یاد آگئے سنوریا

 اسی طرح ملہار میں بھی انھوں نے فراق کے نغمے سنائے ہیں،محبوب چھوڑ کر پر دیس جا بسا ہے  اور گھٹائیں چھارہی ہیں کوئل سریلی تانیں چھیڑ رہی ہے تو پپیہا بھی بھلا ایسے خوشگوار موسم میں کیسے  خاموش رہتا وہ بھی  موسم سے لطف اندوز ہو رہا ہے، یہ سب اس بات سے بے نیاز ہیں کہ یہ خوشیوں بھری تانیں کسی کے زخموں کو ہرا کر رہی ہیں یہ وصل کا موسم فراق کے ماروں کے لیے کس قدر مشکل ہے۔مضطر خیر آبادی کے ملہار کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہندی اور اردو دونوں الفاظ  اس خوبصورتی سے برتے گئے ہیں کہ لطف دوبالا ہو جاتا ہے        ؎

چھا رہی اودی گھٹا جیرا مورا گھبرا ئے ہے

سن ری کوئل بائوری تو کیوں ملہا ریں گائے ہے

او پپیہا آ ادھر میں بھی سراپا درد ہوں

آم پر کیوں جم گیا میں بھی تو ویسی زرد ہوں

فرق اتنا ہے کہ اس میں رس ہے مجھ میں ہائے ہے

 کیا یہ بیمار الم  اس درد سے بچ پائے گا

یا کہ غم کھا کھا کے یہ فرقت ہی میں مر جائے گا

کچھ تو بولو اے مسیحا کیا تمہاری رائے ہے

چھا رہی اودی گھٹا جیرا مورا گھبرائے ہے

موسیقی کی ایک نیم کلاسیکی صنف ٹھمری ہے اس میں خصوصی توجہ نسوانی آواز کو دے کر لکھا اور گایا جاتا ہے۔ اس کے دو اجزا ہوتے ہیں (1) استھائی اور (2) انترہ۔ اس کی شروعات تو محمد شاہ رنگیلے کے دور میں ہوئی لیکن اصل فروغ اودھ میں واجد علی شاہ  کے یہاں ملا۔ واجد علی شاہ کے دور میں لکھی گئی  امانت کی اندر سبھا میں  اور دیگر اندر سبھائوں میں بھی ٹھمری ملتی ہے مضطر خیر آ بادی  کے کلام میں بھی نسوانی لب و لہجے کے ساتھ تین ٹھمریاں ملتی ہیں       ؎

پی کارن سگری پت کھوئی /ای بپتا پر برسن روئی

دوسری  ٹھمری میں نسوانی لہجہ ملاحظہ ہو     ؎

تج دیو ہمار سکھی نینوا نے چینوا /آ گئی برکھا بہار،پڑ گئی پی کی پکار

چھتین اوپر مونگ دلت ہے گھن گرجت دن رینوا /تج دیو ہمار سکھی نینوا نے چینوا

یا اس ٹھمری کو دیکھیے جس میں اپنے محبوب کی خیر خبر نہ لینے پر گوری کس طرح شکوہ کناں ہے کچھ خدشات سے اس کے دل میں پیدا ہو رہے ہیں جن کا وہ اظہار کر رہی ہے      ؎

آئو آئو نگریا ہماری رے /تم بن سونی  سجریا ہماری رے

عہد وفا کو بھول گئے کس خیال میں  /کیا تم بھی پھنس گئے کسی گیسو کے جال میں

کیوں نہ لینی کھبریا ہماری رے

اسی طرح دادرا  بھی موسیقی  کی ایک صنف ہے  لیکن اردو میں دادرا کم  لکھے گئے ہیں۔  مضطر نے اس صنف میں بھی طبع آزمائی کی ہے          ؎

کہاں گری رام موری ماتھے کی بندیا /کہاں گئی رام موری رتین کی نندیا

  دو مصرعوں میں پوری کہانی بیان کر دینا غزل کا فن ہے جس طرح سے غزل کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح  ہندی میں بھی دو ہم قافیہ مصرعوں پر مشتمل شاعری ہوتی ہے جسے ایک صنف کی شکل دی گئی ہے۔اسے دوہا کہا جاتا ہے لیکن غزل کے شعر اور دوہے میں فرق یہ ہے کہ  غزل کے اشعار کے مختلف اوزان اور بحریں ہوتی ہیں جبکہ دوہے کی دو مخصوص بحریں ہوتی ہیں  ۔ 

  ڈاکٹر گیان چند جین ’ادبی اصناف  ‘ میں دوہا کی تعریف لکھتے ہیں        ؎

’’یہ عروضی صنف ہے  جو ایک شعر کے برابر ہوتی ہے اس کے ہر مصرعے میں 23  ماترائیں ہوتی ہیں۔مصرعے کے پہلے جزو میں 13 ماترائیں ہوتی ہیں،  اس کے بعد وقفہ اور دوسرے جزو میں11، ماترائیں۔ اردو کے لحاظ سے اس کا مثالی وزن ہے

فعلن فعلن فاعلن فعلن فعلن فاع  ‘‘  (اصنافِ ادب: ڈاکٹر گیان چند جین، ص 81,82)

 دوہے کو اردو میں بھی ہندی کی طرح اختیار کیا گیا ہے  اور شعرا نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے  جس کا آغاز  امیر خسرو کے زمانے سے ہوتا ہے۔شعرا نے اس میں تصوف کے بڑے بڑے مسائل بڑی آسانی کے ساتھ پیش کیے ہیں           ؎

تن پایا تب من ملا من پایا تب پیو

پی مورا میں پیو کی، پی دن ہیں میں رین

جیسے نجریا ایک ہے  دیکھت کے دو نین

گوکل کی  سی ناگری  متھرا کا سا گائوں

تم ہو مالک برج کے کرشن تمہارا نائوں

 تن میٹے من وار دے  یہی پریت کی آن

جو اپنا آپا تجے سو وا کا داسی جان

مالک ہی کے نام کی مالا پھرت لوگ

مالک میٹے  تب مٹے  نپٹ بپت کا روگ

جب بپتا پڑ جات ہے چھوڑ دیت سب ہاتھ

دیت اندھیری رین میں کب پر چھائیں  ساتھ

 مضطر خیر آبادی کے یہاں  ہندی دوہے تو ہیں ہی ساتھ میں فارسی اردو اور  اشعار بھی  ملتے  ہیں         ؎

درشن جل کی پیاس ہے،کچھ بھی نہیں ہے چائو

تم جگ داتا بج رہے تو کام ہمارے آئو

 نو ر دیدار سے ہیں سب کی منور آنکھیں

ایک مجھی کو میرے اللہ نے دیں تر آنکھیں

ہمہ مصروف طرب از پے غمخواری ٔ  دل

منم و گریۂ دل، نالۂ دل، زاریٔ دل

سب کے پیا ہمرا نہیں کوئی

پی کارن سگری پت کھوئی

 ڈھونڈتی ہیں تکھے یار ستمگر آنکھیں

زندگی میری کیے دیتی ہیں دوبھر آنکھیں

تا کجا اے ستم  ایجاد و جفا کاری ٔدل

قابل رحم شدہ حالت بیماریٔ دل

بیچ بھنور میں  موری نائو ڈبوئی 

پی کارن سگری پت کھوئی

بے دردی وہ پی ملے کہ مضطر جن کا نائوں

من بس کر کے تج دیو آپ براجیں گائوں

پہلے دل لے گئے دکھلا کے فسوں گر آنکھیں

اب  ملاتے نہیں  اللہ اکبر آنکھیں

 مضطر کی کلیات ’ خرمن ‘ میں ہندی اور اردو کے امتزاج کی   خوبصورت شاعری دیگر عنوان سے لکھی ملتی ہے         ؎

دشمن جاں زلف پیچاں کی ادائیں  ہو گئیں

کیا تماشا ہے کہ پر یاں بھی بلائیں ہو گئیں

درک درک چھتیاں گئیں لوٹی ہمری آس

پھرک پھرک انکھیاں  رہیں پیا نہ آئے پاس

سد راہ آرزو میری وفائیں ہو گئیں 

دکھ سکھ دونوں ایک  ہیں دکھ  ہے ہمرا سکھ

سکھ کے کارن دکھ بھئے  رہ گئے دکھ ہی دکھ

چرخ پرجا کر دعائیں بد دعائیں ہو گئیں

مجموعی طور  پرمضطر خیر آبادی  کے ہندی کلام میں پورا ہندوستان رچا بسا نظر آتا ہے، چاہے تہذیبی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے، چاہے لسانی قدروں کی تلاش کی جائے،یا پھر کلاسیکی موسیقی کے عناصر ڈھونڈے  جائیں، ان کی اردو شاعری سے ہٹ کر صرف ہندی شاعری کے اس مختصر  جائزے سے ہی یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اردو اور ہندی کے باہمی رشتے اور مزاج کو انھوں نے جس فن کا ری کے ساتھ برتا ہے وہ انھیں اس روایت کا  پاسدار بناتا ہے جس کا آغاز  ہمیں امیر خسر و کے ہندی کلام جس میں دوہے بھی ہیں،لوک گیت بھی اور کہہ مکرنیوں کی شکل میں ملتا  ہے۔

ہندوستان کی مشترکہ تہذیب جسے ہم اردو کے دور اولین میں بھی دیکھتے ہیں اور دکنی ادب میں بھی پاتے ہیں جہاں ہندوستانی تہذیب وتمدن کا دامن تھامے ہندی اردو اور دکنی زبان کے اشتراک  کے ساتھ ، قلی قطب شاہ، وجہی،  نشاطی، غواصی، ولی اورنگ آبادی کے یہاں جلوہ نما ہے۔

  تہذیب کا یہی رنگ شمالی ہند میں حاتم، فائز، مرزا مظہر جان جاناں  سے لے کر عصر حاضر تک پہنچتا ہے۔ ملک محمد جائسی،مبارک علی بلگرامی  اور اردو کے پہلے ڈرامہ نگار سید امانت لکھنوی کے ڈرامے اندر سبھا میں نظر آتا ہے۔ مضطر کی ہندی شاعری ہندوستان کے اس صوفیانہ ماحول اور پیغامات کی بھی ترسیل کرتی ہے جو موسیقی کے رچائو سے فروغ پاتے ہیں، رقص اور موسیقی دونوں ہی کہیں نہ کہیں وجدانی کیفیت کے مظہر بھی ہیں، صوفیاکرام کے یہاں  جو وجدان و ادراک کی منازل ملتی ہیں ان  تک پہنچنے میں میں ہندوستانی رنگ با آسانی تلاش کیا جا سکتا ہے  اور یہی رنگ ہمیں مضطر خیر آبادی کی ہندی شاعری میں بدرجہ اتم ملتا ہے۔

 

Dr. Ishrat Naheed

504/122 Taigore Marg, Near Shabab Market

Lucknow (U.P.) 226 020

Mob 09598987727



ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں