7/6/21

نئی تعلیمی پالیسی (ہندوستانی زبانوں، علوم و فنون، تہذیب اور قومی یک جہتی کے تحفظ و فروغ کے تناظر میں)- مضمون نگار: شریف احمد قریشی

 



سرزمینِ ہند میں اقوامِ عالم کے فراق

کارواں آتے گئے ، ہندوستاں بنتا گیا

اُردو کے مشہور و مقبول شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری کا یہ شعر ہندوستان کی تعمیر، ہندوستانیت اور مشترکہ تہذیب کا بہترین عکّاس ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی پوری تاریخ کو اپنے دو مصرعوں میں سمیٹے ہوئے ہے۔ ہمارا ملک ہندوستان کسی ایک یا خاص مذہب ، دھرم ، فرقہ ، سمپردائے ، ذات اور گروہ کی میراث نہیں ہے بلکہ مختلف مذاہب اور مشترکہ تہذیب کی رنگارنگ ہندوستانیت کا گہوارہ ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی قوم اور ملک کی ہمہ جہت ترقی کا انحصار اس قوم یا ملک کے تعلیمی نظام ہی پر بڑی حد تک ہوتا ہے۔ جس ملک کے نظامِ تعلیم کی نوعیت جس قسم کی ہوگی وہاں کے باشندوں کی شخصیت پر اس کا اُسی طرح کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ تعمیری ، سودمند اور مثبت بنیاد پر استوار تعلیمی نظام قوم و ملک کو عروج و ترقّی سے بھی ہم کنار کراتا ہے اور نئی نسل کے ساتھ وہاں کے شہریوں کی شخصیت میں نکھار بھی پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم یا رائج نظامِ تعلیم میں جدّت و اختراع کے ساتھ قومی یا ملکی ضروریات اور عصر حاضر کے جدید مسائل و تقاضات کی رعایت کو ضروری خیال کیا جانے لگا ہے۔ پُرخلوص طور پر عصبیت سے پاک و صاف اور اعلیٰ انسانی اقدار سے معمور نظامِ تعلیم ہی سے سودمند اور خوش گوار تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

ایک طویل عرصے کے بعد 2035 تک کے لیے تیّار کی گئی نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ہر ملک کی حکومت کی ذمّے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے ماحول و مسائل کے مدِّنظر تعلیمی نظام میں وقتاً فوقتاً ایسی اختراع کرتی رہے جو وہاں کے باشندوں کی فلاح و بہبودی اور مُلک کی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے سودمند ہو۔

نئی تعلیمی پالیسی کا نفاذ فوری طور پر یا جنگی پیمانے پر نہیں کیا جائے گا بلکہ حالات اور موقع و محل کی مناسبت سے اس کے نفاذ کی مدّت دس سال مقرر کی گئی ہے۔ ایک طویل منصوبہ بند طریقے یا ایک حکمتِ عملی کے تحت اسے 2030 تک ہر حال میں نافذ کر دیا جائے گا۔ اس نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ابتدائی درجات سے لے کر اعلیٰ درجات تک کے نصاب میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ابھی تک پانچ سال کی عمر تک کے بچّوں کی تعلیم پر کوئی خاص توجّہ نہیں دی جاتی تھی۔ اب اسکولی تعلیم میں تین سے چھ سال کی عمر تک کے بچّوں کی تعلیم کی طرف بھی باقاعدہ طور پر توجّہ دی جائے گی۔ رائج نصاب تین سے آٹھ سال ، آٹھ سے گیارہ سال، گیارہ سے چودہ سال اور چودہ سے اٹھّارہ سال کی عمر کے طالب علموں کے لیے ہوگا۔ یہ حکمتِ عملی تین سے چھ سال کی عمر کے بچّوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے نہایت کارگر اور سودمند ثابت ہوگی۔ نئے تعلیمی نصاب کے ذریعے ابتدائی درجات ہی سے بچّوں کو مختلف زبانوں اور تہذیبوں کی طرف متوجّہ کرنے سے خوش گوار نتائج برآمد ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی میں درجہ پانچ تک کے طالب علموں کو مادری زبان،خانگی زبان،مقامی زبان یا علاقائی زبان میں تعلیم دینے کی سفارش کی گئی ہے اور یہ بھی تجویز ہے کہ اسے درجہ آٹھ یا اس کے بعد کے درجات تک بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ مادری، مقامی یا علاقائی زبان کو نصاب میں ایک مضمون کی حیثیت سے اختیار کرنے کے بجائے میڈیم یا ذریعۂ تعلیم کی بات کہی گئی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بھی زبان کو کسی بھی طالب علم پر تھوپا نہیں جائے گا، جب کہ اب تک کی بیشتر تعلیمی پالیسیوں کے تحت محض زبان یا کسی مضمون کو بڑی حد تک لازمی قرار دے کر اختیار کرنے پر مجبور کیا گیاہے اور طالب علموں کی مرضی ، دل چسپی یا پسند و ناپسند کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔

روایتی طریقۂ تدریس اور ایک عرصہ سے رائج نصاب میں اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں میں کشش و دل چسپی کا فقدان ہو جاتا ہے۔ اس لیے نئی تعلیمی پالیسی میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ نصاب کے علاوہ ایسے پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جانا چاہیے جن کے ذریعے طلبا کو دل چسپی کا سامان بھی فراہم ہوتا رہے نیز جو اُن کی شخصیت اور مُلک کی فلاح و بہبودی کے لیے بھی کارآمد ہو۔

پالی، فارسی اور پراکرت بھاشاؤں کے ساتھ تمام ہندوستانی زبانوںجیسے پنجابی ،گجراتی،بنگلہ ، مراٹھی، تیلگو، تمل، کنّڑ، ملیالم وغیرہ کے تحفّظ اور فروغ کے لیے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ انٹر پری ٹیشن (آئی آئی ٹی آئی) نامی قومی سطح کے ادارے کا قیام ایک نہایت اہم اور لائقِ ستائش قدم ہے۔ اس طرح کے ادارے کے قیام سے محض چند برسوں میں ہندوستان کی تصویر قابلِ دید اور لائقِ رشک ہو سکتی ہے۔ ہندوستانی زبانوں میں سے بیشتر زبانیں اپنے بولے جانے والے صوبے ، حلقے یا علاقے تک ہی محدود ہیں۔ ان زبانوں کو عام ہندوستانی باشندے بولنے یا سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس ادارے کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ تمام ہندوستانی زبانوں کے ادب، فنون ، معاشرت، تکنیک اور دیگر موضوعات سے متعلّق لٹریچر کو تراجم اور تشریح و توضیح کے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔

 ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے جس کی قومی زبان تو ہندی ہے مگر ملک کے دیگر حصّوں میں مختلف زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ زبان یا بھاشا کے علاوہ ہر علاقے کی معاشرت، تہذیب اور دیگر فنون ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور کسی خطّے یا علاقے کے تو بالکل جداگانہ ہیں۔ تیلگو، تمل ، ملیالم ، کنّڑ جیسی زبانوں ، ان کے لٹریچر اور ان کے فنون کو شمالی ہند کے باشندے سمجھ نہیں سکتے۔ اسی طرح دکنی ہند کے باشندے شمالی ہند کی تہذیب و معاشرت اور ادب و فنون سے بڑی حد تک ناآشنا ہیں۔ یہ تو ان زبانوں کی بات ہے جو مخصوص علاقوں اور صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک کی قومی زبان ہندی سے بھی دکن کے کئی صوبوں کے بیشتر باشندے ناآشنا ہیں۔نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبا وطالبات مُلک کے مختلف علاقوں کی تہذیب و معاشرت اور رسم و رواج سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے دور دراز کے علاقوں کا دورہ بھی کریں گے جس کے ذریعے سیاست کو بھی فروغ حاصل ہوگا اور قومی ہم آہنگی کو بھی جِلا ملے گی۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ انٹر پری ٹیشن جیسے اداروں کا قیام زبان ، فنون اور تہذیبی بیگانگی کو دور کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ اُردو اور ہندی کے ادب و فنون کے علاوہ بنگلہ، مراٹھی ، گجراتی جیسی زبانوں کے ادب بھی بہ اعتبارِ مقدار اور بہ لحاظِ افادیت نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لیے ذاتی کوششوں کے علاوہ باقاعدہ سرکاری سطح پر بھی آئی آئی ٹی آئی جیسے اداروں یا دارالترجمہ کے ذریعے باقاعدہ طور پر ہر زبان کے فنون و ادب اور دیگر مضامین سے متعلّق لٹریچر کو ہر ہندوستانی تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔

 ترجمہ اور انٹرپری ٹیشن کی حکمتِ عملی سے تمام ہندوستانی ایک دوسرے کی زبان ،کلچر اور فنون سے نہ صرف واقف ہو سکیں گے بلکہ تہذیب وفنون اور زبانوں کا تحفّظ و فروغ بھی ہوگا۔ ان کے علاوہ تعصّب و نفرت اور مغائرت جیسی لعنتوں کو ختم کرکے قومی ہم آہنگی اور حب الوطنی کے جذبات کو بھی تقویت پہنچائی جا سکتی ہے۔ یہی اس نئی تعلیمی پالیسی کے اہم اور بنیادی مقاصد ہیں۔

 ہم سب واقف ہیں کہ جب ہمارے ملک میں برطانیہ کا اقتدار تھااور ہم ہندوستانی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ، اس وقت ایک طویل عرصے تک تمام ہندوستانیوں نے مذہب و ملّت اور فرقہ و نسل سے بالاترہوکر آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلسل جدّوجہد کی تھی۔ یہ حب الوطنی کے جذبے ہی کی سرشاری تھی کہ بے شمار جان و مال کی قربانی دینے کے بعد آزادی کے متوالے ملک کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے۔ میرے نزدیک راشٹرپریم یا حب الوطنی کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک جذبہ فطری ہوتا ہے ۔ ہم جہاں پیدا ہوتے ہیں، جہاں کی آب و ہَوا میں ہماری پرورش و پرداخت ہوتی ہے ، اس سرزمین سے لگاؤ اور انسیت ہونا فطری بات ہے۔ ایک کہاوت ہے جس کا مفہوم ہے کہ ماں اور وطن جنّت سے بھی پیارے ہوتے ہیں۔ جنّت میں جب وِشنو بھگوان کی سواری گرُن ¼x:.k½نامی پرندہ کو اپنے وطن کی یاد شدید طور پر ستانے لگتی ہے تو وہ بھگوان وِشنوسے اجازت لے کر اس ویران مقام پر آکر مسرّت سے شرابور ہو جاتا ہے جو ان کا وطنِ عزیز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان تو کیا جانوروں اور پرندوں کو بھی اپنے ملک اور وطن سے اٹوٹ لگاؤ اور انسیت ہوتی ہے۔ آزادی ، وطنی لگاؤ اور ملک پر آنچ آنے کے سبب ہمارے دلوں میں حب الوطن کا جو جذبہ بیدار ہوتا ہے وہی اصل میں حب الوطنی ہے۔ میرے نزدیک حب وطن کی آسان اور عام فہم تعریف فطری طور پر اپنے وطنِ عزیز کے باشندوں اور اپنے ملک کی ہر چیز سے محبت کرنا ہے نہ کہ نفرت و تعصب کو ہَوا دینا یا ایک دوسرے سے نفرت کرنا۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت حب وطن کے اسی فطری جذبے سے دلوں کو مزیّن کرنے کی سعی کی گئی ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت درجہ پانچ تک کے طالب علموں کو ان کی مادری، مقامی یا علاقائی زبانوں کے توسط یا وسیلے سے تعلیم دینے کی تجویز ہے۔ اگر عملی طور پر یہ ممکن ہوا تو ثانوی اور اعلیٰ درجات کے طالب علم بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی دیہات، قصبے یا شہر میں میڈیم کے لحاظ سے اسکولوں کی تعداد کتنی ہوگی یا کتنے ٹیچروں کی تقرری کی جائے گی۔ کیا ایک اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی مادری زبان ایک ہی ہوگی؟ اگر ان کی مادری زبان مختلف ہوئی اور علاقے یا خطے کی مقامی زبانیں الگ الگ ہوئیں تو مقامی یا علاقائی زبانوں میں تعلیم کا بندوبست کیسے ممکن ہو سکے گا؟ میڈیم کے اعتبار سے کتبِ لغات ، ڈکشنریز کی تدوین، ہر مضمون کا نصاب تیار کرانا ، کتابوں کی چھپائی اور فراہمی کے علاوہ امتحان اور امتحان کے نتائج تک کے مراحل آسان نہیں ہیں۔ اگر کسی طرح یہ حکمتِ عملی کارگر ہو گئی تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہوگا کہ درجہ چھ اور اس سے آگے کے درجات کے طالب علم پریشانی میں مبتلا نہ ہوں۔ وہ اس لیے کہ درجہ پانچ کے بعد بیشتر طالب علموں کی تعلیم کا میڈیم تبدیل ہونے کا خدشہ برقرار رہے گا اور پھر ہم اُسی پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے جس سے اب تک دوچار ہوتے رہے ہیں۔ ہندوستانی زبانوں اور علوم و فنون کے فروغ کے علاوہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی ترقّی وترویج کی تجاویز قابلِ قدر ضرور ہیں مگر عہدِ حاضر میں مختلف خطّوں، علاقوں ، صوبوں کے باشندوں اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کی زبانیں ، بولیاں اور تہذیبیں جدا جدا ہیں۔ اس لیے سبھی کی زبانوں اور تہذیبوں یا کلچر کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔

پروفیشنل، ٹیکنکل اور سائنس کے میدان میں زبان اور کلچر کا وہ رول نہیں ہوتا جس کی ہم یہاں بات کر رہے ہیں البتہ ابتدائی درجات میں مفید اور سبق آموز کہانیوں ، کہاوتوں، حکایتوں، اقوال، ملفوظات وغیرہ کے ذریعے زبان و تہذیب کا تحفّظ بھی کیا جا سکتا ہے اور فروغ بھی۔ ہماری زبان جو رفتہ رفتہ کتابی زبان ہوتی جا رہی ہے اس میں کہاوتوں محاوروں اور روزمرّہ کے ذریعے نکھار بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔

اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہندوستانی زبانوں ، علوم وفنون اور تہذیب و معاشرت کے مطالعے کے لیے وظائف اور ہر زبان کے فروغ و تحفّظ کے لیے اکیڈمیوں کے قیام کی تجاویز بھی لائقِ ستائش ہیں۔ ویب سائٹ اور وکی پیڈیا کے توسط سے بھی ہندوستانی زبانوں ، علوم و فنون، تہذیب و معاشرت اور حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ تخلیقی ادب اور تقابلی مطالعے کے ذریعے بھی موسیقی ، فلاسفی اور دیگر علوم وفنون کے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے سے بھی زبان وادب اور تہذیب و معاشرت کو بے شبہ مزید تقویت حاصل ہوگی۔

ہمیں اس طرف بھی توجہ دینا ہوگی کہ عدالتوں کی کارروائیاں ہوں، فیصلے ہوں، تحقیقی وتفتیشی رپورٹس ہوں یا تمام دفتری یا غیر دفتری کام کاج ہوں ، جب تک انہیں صرف انگریزی زبان میں تحریر کرنے کا رواج برقرار رہے گا اس وقت تک ہم ہندوستانی زبانوں ، علوم وفنون اور تہذیب و معاشرت سے پوری طرح آشنا نہیں ہو سکتے۔ اِنھیں دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی تحریر کیا جانا چاہیے۔ میرے نزدیک اعلیٰ درجات ، پروفیشنل کورسیز ، سائنس اور تکنیکی تعلیم کے شعبوں میں کم از کم ایک ایسے مضمون کی شمولیت ضروری ہے جس کے ذریعے مقامی یا علاقائی زبانوں اور ہندوستانی تہذیب یا بھارتیہ سنسکرتی سے طالب علموں کو آشنا کرایا جائے اور ہم فخر سے کہہ سکیں ’’ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘‘


Dr. shareef Ahmad Quraishi

Jain Mandir Street

Phoota Mahal

Rampur - 244901 (UP)

Mob.: 7906937665

 

 


 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں