7/6/21

طارق جمیلی: ایک کامیاب غزل گو - مضمون نگار: قسیم اختر

 



 طارق جمیلی (یکم اکتوبر 1933- 3 اپریل 2019) سرزمین پورنیہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال شاعرکا نام ہے جس نے اردو ادب کی مختلف اصناف میں اپنے زور بیان کا ثبوت فراہم کرکے ایک دنیا کوگرویدہ کیاہے۔طارق جمیلی آج ہمارے درمیان نہیں ہیںلیکن ان کی ادبی کاوشیں انہیں زندہ رکھیں گی۔ طارق جمیلی کی پیدائش 1933میں مظفر پور کے مہرتھا گاؤں میں ہوئی تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعدپٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری لی۔اورپورنیہ کالج میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور صدرشعبہ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ وہ ایک کامیاب مدرس بھی تھے۔طارق جمیلی کاانتقال2اپریل2019 کو ہوا۔

طارق جمیلی نے مختلف اصناف میں طبع ا ٓزمائی کی ہے۔ انھوں نے ڈرامے بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے جنھیں نصاب میں شامل کیاگیا۔ انھوں نے پورنیہ کے نام سے ایک طو یل نظم لکھی جو ان کی شہر ت کاباعث بنی۔ لیکن وہ بنیادی طور پر زلف غزل کے اسیر تھے۔ انھوں نے غزل کے گیسو سنوارے میں اپنا زیادہ وقت صرف کیا۔ اگر موت نے مہلت دی ہوتی اور وہ صرف غزل کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتے تو غزل کے سرمائے میں مزیداضافہ ہوتا اوران کے شعری محاسن قاری کو مزید گرویدہ کرتے۔ لیکن افسوس کامقام ہے کہ اب تک ان کا صرف ایک شعری مجموعہ’جذب دروں‘ کے نام سے منظرعام پر آسکاہے۔اس کے باوجود خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمیں مایوسی نہیںہوتی کہ ان کاشعری سرمایہ قلیل ہے۔ کیوں کہ انھوں نے جو کچھ لکھاہے سوچ سمجھ کرلکھاہے اور اس مختصر شعری مجموعے میں بھی بہت کچھ ایسا فن پارہ موجود ہے جو قاری کو تسکین عطا کرنے کے ساتھ طارق جمیلی کو شہرت د وام بخشنے میں کامیاب ہے۔ اس کے علاوہ ’نقش جمیل ‘2013 میںمنظر عام پر آیا اور طارق جمیلی کا انتقال 2019میں ہوا۔ اس درمیانی مدت میں طارق جمیلی کا تخلیقی  سفر جاری رہا۔ عمر کے آخری پڑائو میں جب وہ لکھنے سے قاصر تھے تو اپنا کلام اپنی اہلیہ سے ڈکٹیٹ کرایاتھا۔

جمیلی کاشعری کے مجموعہ’ جذب دروں‘ کاآغازحمد ونعت سے ہونے کے بعد غزلوں سے شروع ہوتاہے اور کتاب کے آخر میں نظموں کاحصہ ہے۔ اس حصے میں والدہ کے نام ایک اور والد کے نام دو نظموں کے ساتھ سترہ نظمیں شامل ہیں۔ ا یک مثنوی ہے’ایک عورت کی کہانی اس کی زبانی‘۔ ایک گیت ہے’ چند مچھیرے صبح سویرے لے کر نکلے جال۔ ایک نظم ’صبح ہوئی‘ بیکل اتساہی کے نام ہے جب کہ قطعات اور ثلاثی کے علاوہ متفرقات کے  تحت درجنوں اشعار شامل ہیں۔گویا کتاب کاوافر حصہ غزلوں پر مشتمل ہے۔ غزلوں کی کل تعداد63 ہے۔ اس مجموعے میں  ان کی مشہور نظم ’پورنیہ’ شامل نہیں ہے۔

طارق جمیلی کی تخلیقیت کاجائزہ ان کی غزلوں کے حوالے سے لیتے ہوئے یہ محسوس ہوتاہے کہ طارق کے اندر ایک جنیوئن فنکار موجود تھا۔ طارق جمیلی کی قوت اظہار انہیں صنف غزل کی آبیاری میں نیاپن پیداکرنے اور اپنی بات کو اپنے انداز میں کہنے پر مجبو رکرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ طارق جمیلی پامال مضامین کو بھی اپناتے ہیں تو اس میں نیاپن پیداکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طارق جمیلی جدید عہد کے شاعر تھے۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ انھوں نے جدید موضوعات کوبھی اپنایاہے اور روایتی مضامین کو بھی اپنے انداز میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی وہ نئی تشبیہات اور استعارات وضع کرنے میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ اپنی داخلی کیفیات کے اظہارمیں بھی کوئی کمی کوتاہی نہیں کرتے۔اس کاخلاصہ یہ ہے کہ طارق جمیلی کسی مخصوص نظریے، ازم اور روایت سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔انھوں نے آزاد نظم بھی کہی ہے لیکن گہری علامتوں سے گریز کیاہے۔جس کابراہ راست مطلب یہ ہے کہ وہ قاری کوفراموش کرنانہیں چاہتے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار براہ راست دل میں اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔درج بالا سطور میں جو باتیں کہی گئیں ان کی مثال کے لیے یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ان اشعار میں خالص طارق جمیلی بولتا ہوا نظر آئے گالیکن اس سے قبل طارق جمیلی کا یہ شعر بھی دیکھتے چلیں جس سے ان کانظریہ فن بھی واضح ہوجاتاہے۔ وہ کہتے ہیں       ؎

طارق تمھارا فن ہے روایت کا پاسدار

ہر دور کے تقاضوں سے غافل نہیں رہا

گویا وہ ایک طرف روایت کے پاسدار ہیں تو دوسری طرف اپنے عہد کے تقاضوں سے غافل بھی نہیں۔ یہ چیز طارق جمیلی کی شناخت ہے۔بہرکیف اب مختلف نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جس کی طرف اوپر اشارہ کیاگیا          ؎

فریب آرزو میں زندگی کیا کیا اٹھا لائی

ستم لائی قلق لائی بلا لائی قضا لائی

نہ  رو کے اشک رکتے ہیں نہ دل تھامے سے تھمتاہے

یہ شب کی خامشی کس دل شکستہ کی صدا لائی

اب کہاں فرصت کہ کوئی جا کے تعزیت کرے

فون ہی پر چند آنسو اب بہا لیتے ہیں لوگ

بے غرض کوئی کسی کے گھر پہ اب جاتا نہیں

اب کہاں ملنے ملانے کی وہ خوش اخلاقیاں

میاں طارق یہ آئینہ یہاں کس کو دکھاتے ہو

بدل کر اپنے چہروں کو سبھی محفل میں آتے ہیں

آج ہر شہر پہ صحرا کا گماں ہوتا ہے

کل تو صحرا میں بھی ہم شہر بسا رکھتے تھے

ان اشعار میں وہ سبھی کچھ محسوس کیاجاسکتاہے جن کا ذکر ناچیز نے د رج بالاسطور میں کیاہے۔ یعنی پامال مضامین کو نئے ڈھنگ سے باندھنا، داخلی کیفیات، عصری آگہی، سماجی بے راہ ر وی،انسانی رشتوں کی ناقدری اور بڑھتی دوریاں اور جدید شعرا کی طرح شہر کوجنگل سے تعبیر کرنا وغیرہ۔ حالانکہ ان اشعار کو پیش کرنے کے لیے میں نے کوئی انتخاب نہیں کیا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی عرق ریزی کرنی پڑی ہے۔ اس طرح کے ا شعار ان کے مجموعے میں جابجا  دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ طارق جمیلی نے جبراً کسی موضوع کوبرتنے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کے دل نے جو کچھ محسوس کیاہے اسے پیش کردیاہے۔

اردو شاعری میں آنکھ اوراشک پر بہت سے اشعار مل جائیںگے۔ ہر عہد کے شعرا ایسے موضوعات کو اپنے اپنے طور پر کہتے رہے ہیں۔ ایک شعر طارق جمیلی کا ملاحظہ فرمائیں اور اس کی کیفیت کو اپنے دل میں جذب کرتے ہوئے مسکرائیں بھی آنسو بھی بہائیں۔ شعر ہے       ؎

دیدۂ نم کھلے کنول ہوں گے

اشک گریہ کوئی ندی ہوگی

زندگی ایک ایسی گتھی ہے جس کی ڈور سلجھانے سے نہیں سلجھتی۔حالانکہ ہرفن کار اپنے طو رپر اسے سمجھنے کی کوشش کرتاہے پھر بھی یہ ایک سوال ہی رہ جاتاہے۔ اسی سوال کوطارق جمیلی سانسوں کے زیر و بم میں تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں        ؎

حرف اقرار ہے انکار ہے کیاہے یہ حیات

ہر نفس مجھ سے الجھتاہے سوالوں کی طرح

زندگی کی بے ثباتی ایک اٹل حقیقت ہے۔ نہ جانے کتنی بار اس کااعتراف کیاگیاہے لیکن یہ موضوع ہر شاعر کو کچھ کہنے کے لیے اکساتارہتاہے۔کچھ حقیقتیں ایسی ہوتی ہیںجوبالکل ظاہرہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود اسے سمجھنے اور سمجھانے کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ ایسے میں طارق جمیلی اسی بے ثباتی کو اپنا موضوع بناتے ہیں تو یہ حیرت کی بات نہیں ہے البتہ یہ ضرور دیکھنے کے قابل ہے کہ اسے انھوں نے کس طورپر اپنا موضوع بنایاہے۔ طارق کہتے ہیں       ؎

بھور کی بیلا طاق پہ رکھی اک بجھتی سی باتی ہوں

ساحل لگتی نیاہوں اور سانجھ کی ڈھلتی لالی ہوں

 اس شعر میں دیکھنے کی چیز زندگی کی بے ثباتی نہیں ہے بلکہ اس بے ثباتی کو اپنی زندگی سے عبارت کرکے اسے پیش کرنے کے انداز میں ہے۔ زندگی کی اس بے ثباتی کو واضح کرنے کے لیے طارق جمیلی نے اس ایک شعر میں تین مثالیں دی ہیں۔ اور تینوں کمال کی ہیں۔ اس سے شاعر کی شاعرانہ ہنر مندی آشکار ہوتی ہے۔زندگی کاالمیہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ بے ثبات ہے بلکہ اس بے ثباتی میں انسان کیا کیا خواب بنتا ہے، آرزوئیں اور تمنائیں پالتاہے لیکن و ہ بھی تکمیل کے مرحلے سے نہیں گزر پاتیں۔ ایسے میں انسان کا غم دوگنا ہوجاتاہے۔اور اسے غلط کرنے کے لیے انسان کبھی خود کوملامت کرتاہے اور کبھی تاسف کاہاتھ ملتے ہوئے کہتاہے کہ کاش وہ کوئی آرزو نہ پالتا۔ آرزوؤں کے اس کھیل میں ایسابھی ہوتاہے کہ آدمی کسی کی ذات سے امیدیں وابستہ کرلیتاہے لیکن یہ امیدیں برنہیں آتیں۔ اس صورت میں بھی آرزو کی موت ہوتی ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا انسان کاکام ہوتاہے کہ وہ آرزو رکھے تو اس کی تکمیل کے لیے کسی سے اظہار کرے یا نہ کرے؟ اگر اظہار کرتاہے اور اس کاجواب نفی میں آتاہے تو اس کا حاصل کیا؟ دونوں صورتوںمیں آرزو کی موت ہوتی ہے۔اس مقام پر اگر شاعر یہ سوچے کہ اظہار آرزو کیوں کرے جب کہ وہ پوری ہی نہ ہوتو اسے مثبت سوچ ہی کہیں گے۔ طارق جمیلی کے اس مایوسی بھرے شعر میں امید کی بات یہ ہے کہ اگر اظہار کی صورت میں بھی آرزو کی موت ہوتی ہے تو اس کا اظہار نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ طارق جمیلی کایہ شعر ملاحظہ فرمائیں جو قاری کوچونکاتا ہے       ؎

آرزو یوں بھی گھٹ کے مرجاتی

کاش کچھ بھی کہا نہیں ہوتا

آرزوؤں کے ٹوٹنے پر بہرحال مایوسی ہی ہاتھ لگتی ہے لیکن آغاز میں ہی ارمانوں کے ستارے ڈوبنے لگیں تو یہ شاعر کے لیے تشویش کی بات ہوگی اور وہ اپنے آپ پرہی یہ سوال کھڑا کرنے لگتاہے کہ آغاز کایہ عالم ہے تو انجام کیاہوگا؟     ؎

ڈوبے جاتے ہیں ستارے مرے ارمانوں کے

رات کا ہے ابھی پہلا ہی پہر کیا ہوگا

زندگی میں ملنے والے غم کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔ کبھی معاملات زندگی، مسائل حیات، کبھی معشوق کی بیزاری اور بے وفائی اور کبھی اپنوں اورپرایوں کی طرف سے دی جانے والی چوٹ۔ طارق جمیلی کے یہاں ہر طرح کے غم پائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیاگیا کہ طارق جمیلی کسی ازم سے وابستہ نہیں تھے لیکن ان کے یہاں روایت اور جدت دونوں کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ ان کے یہاں غم جاناں بھی ہے اور غم حیات کے ساتھ غم روزگار بھی ہے۔ اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ طارق جمیلی نے عشق کا شیوہ اپنایا تھایانہیں تاہم ان کے اشعار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انھوں نے عشقیہ مضامین میں بھی خوبصورت اشعار نکالے ہیں         ؎

آج کی شب کاجو مہتاب بنو بات بنے

روشنی تاروں کی مدھم ہے کوئی پل ٹھہرو

اس شعرمیں شاعریہی کہناچاہتاہے کہ ہجر میں دل فگار ہے۔ آسماں پر خوبصورت تارے بھی مدھم نظر آنے لگے ہیں۔  اس کا صرف ایک ہی مداوا ہے او روہ یہ ہے کہ ترا وصال نصیب ہو۔ ترا وصال مہتاب کی طرح ہے جس کے بعد ماند ستاروں کی روشنی بڑھ جائے گی۔ وصال کاسرور دل کو وہ طمانیت عطا کرے کہ تاروں میں بھی چمک پیداہوجائے گی۔ اس بات کے اظہار کے لیے طارق جمیلی نے جس پیرائے کاسہارا لیاہے وہ بلاشبہ قابل داد  ہے۔لیکن عشق میں اکثر یہ بھی ہوتاہے کہ حسن کو غرور کے ساتھ عشق کو اپنی وفا کاغرور بھی ہوتاہے۔ایسے میں اگر حسن جھکنا نہیں چاہتاتو عشق بھی سرنگوں ہونانہیں چاہتا۔ اس کیفیت کااظہار طارق جمیلی اس طرح کرتے ہیں         ؎

ہم کو وفا کا پاس تمہیں حسن کا ـغرور

تم آ نہیں سکتے ہو تو ہم جا نہیں سکتے

لیکن اس کے باوجود محبوب کا غم شاعر کے لیے صبا کی طرح ہے جو اشکوں کا گل کھلادیتی ہے۔ اس کااحساس شاعر کواس وقت ہوتاہے ہے اس کی پلکوں کے اشک جھلملانے لگتے ہیں۔غم کو صبا کہناایک خوبصورت تشبیہ ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں         ؎

جب بھی پلکوں پہ گل ا شک کھلا دیتے ہیں

ہم ترے غم کو صبا کہہ کے دعا دیتے ہیں

محبوب کاغم اس وقت تک دورنہیں ہوتا جب تک وصال نہ ہو۔ گویا جدائی میں یادوں کا ایک سلسلہ ہوتاہے جو ٹوٹنے کانام نہیں لیتا لیکن کچھ قرار پانے کے لیے عاشق یہ کوشش کرتاہے کہ تھوڑی دیر کے لیے محبوب کی یادوں کو بھلادے تاکہ چین سے سو سکے اس کے لیے وہ یادوں کوطرح طرح سے بہلانے کی کوشش کرتاہے۔ طارق جمیلی اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر سوچتے ہیں کہ اگر یادوں کو تھوڑی د یر کے لیے بہلاکر سلادیں لیکن پچھلے پہر اگر سوئی ہوئی یادوں کا کارواں بیدار ہوگیا تو کیا ہوگا؟ یہ شعر دیکھیں اور شاعر کے تخیل کی داد دیں         ؎

ہم تو بہلاکے سلادیں گے تری یادوں کو

کھل گئی آنکھ اگر پچھلے پہر کیا ہوگا

آخر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہجر میں محبوب کی یادوں کا سلسلہ کچھ اس طرح دراز ہوتاہے کہ اس سے نجات کی کوئی صورت ہی نہیں ہوتی۔ لاکھ ضبط کیجیے مگر         ؎

غم کی انگنائی میں تم ضبط کی چادر اوڑھو

قطرۂ اوس سبھی درد جگا دیتے ہیں

طارق جمیلی کے فکر وفن پرگفتگو ایک مضمون میں کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے اس کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ ان کے کلام سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ شرح دل کی بات ہو یا زمانے کی بدلتی اقدار کی بات ہو بڑی خوبی اور فنکاری کے ساتھ انھوں نے اپنے خیالات کو لفظوں کا پیکر عطا کیاہے۔ ان باتوں سے الگ دوسرے موضوعات  پربھی عمدہ اشعار ان کے یہاں موجود ہیں۔ یہاں صرف دو شعر پیش کرنا چاہوں گا۔ جس سے طارق جمیلی کی شاعرانہ عظمت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ شعر ملاحظہ ہوں          ؎

جنھیں دو چار تنکے کہہ رہے ہو

نگاہ برق میں وہ آشیاں ہے

کیوں آئینے پہ رکھتی ہے پوچھو تو ہوا گرد

کیاکوئی حقیقت ہے جسے ڈھانپ رہی ہے

خلاصہ کلام یہ کہ طارق جمیلی نے اپنے کلام میں اپنے اور پرائے کے غم کو اورزمانے کی روش کوجس انداز میں پیش کیاہے اس میں کوئی الجھاؤ اور کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں صاف گوئی کے ساتھ کہتے ہیں۔ اس صاف گو ئی میں شاعرانہ حسن بھی برقراررہے اس کی کوشش بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ طارق جمیلی اپنے اشعار کے ذریعے قاری پر کوئی رعب طاری نہیں کرناچاہتے بلکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں آسان لفظوںمیںاسے قاری تک پہنچائیں اور قاری بغیر کسی تردد کے ان کی باتوں کو سمجھ سکے۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ ان کے یہاں ترسیل کا مسئلہ نہیں پایاجاتا۔ یہی چیز ان کی کامیابی کی بڑی دلیل ہے۔میں اپنی بات پروفیسر نجم الہدیٰ کے ان الفاظ پر ختم کرنا  چاہتاہوں جو انھوں نے طارق جمیلی کے شعری مجموعہ’جذب دروں‘ کے دیباچے میں لکھے ہیں۔ ان سے طارق جمیلی کے فکر وفن کو سمجھنے میں ہمیں بھرپور مدد ملتی ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس   :

’’پروفیسر ابواجمل محمد طارق جمیلی کے سینے میں ایک فنکار کا دل دھڑکتاہے۔ اپنی تدریسی، سماجی انتظامی اور لسانی مصروفیات اور خدمات کے دوران بھی ان میں تخلیق کی چنگاری سلگتی رہی ہے اور وقتاً فوقتاً اس کاالتہاب فن پاروں کی صورت میں جلوہ گر ہوا کرتاہے۔ ان کی طبیعت بہت حساس واقع ہوئی ہے جوفن کار ہونے کی شرط اولیں ہے اوریہی سبب ہے کہ گرد وپیش کے مناظر ہوں یا داخلی یا خارجی زندگی کے تجربات وحوادث، قومی مسائل و مصائب ہوں یا بین الاقوامی منظر نامہ، رشتوں کی نزاکتیں اور لطافتیں ہوں یامعاشرے کے نشیب وفراز اور ناہمواریاں اور ہم آہنگیاں اور انفرادی زندگی کی چھوٹی چھوٹی جزئیات ہوں یا اجتماعی زندگی کے بڑے بڑے ہنگامے، ہمارے فن کا ر طارق جمیلی کی تخلیقات میں ان سب کے اثرات اورجلوے دیکھے جاسکتے ہیں۔‘‘ (جذب دروں،ص11)


Qaseem Akhtar

Asst. Professor

DS College

Katihar - 854105 (Bihar)

(Mob.: 9470120116

Email.: qaseemakhtar786@gmail.com

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں