9/6/21

اردو کی لسانی تاریخیں - مضمون نگار: مرزا خلیل احمد بیگ



تلخیص

اردو کے آغاز و ارتقا سے متعلق منتشر خیالات و نظریات اور قیاس آرائیوں کی کمی نہیں، لیکن اس کی باقاعدہ تاریخیں بہت کم لکھی گئی ہیں، ہر چند کہ اردو میں لسانی تاریخ نویسی کی ابتدا آج سے تقریباً سو سال پہلے ہوچکی تھی۔ اردو زبان کی سب سے پہلی تا ریخ حکیم سید شمس اللہ قادری کی ’اردوئے قدیم‘ ہے جو پہلی بار 1925 میں شائع ہوئی، لیکن اس کا مسودہ مصنف نے کئی سال قبل تیار کرلیا تھا۔ یہ ا ردو زبان کی مکمل تا ریخ نہیں ہے، اور اس میں دکن میں نثر و نظم کے ارتقا کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ اس کے تین سال بعد حافظ محمود خاں شیرانی کی کتاب ’پنجاب میں اردو‘ (1928)شائع ہوئی جس میں شیرانی نے اپنا سارا زور اس بات پر صرف کیا کہ اردو پنجاب میں پیدا ہوئی۔ متذکرہ دونوں کتابوں میں لسانی تاریخ نویسی کے اصولوں سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ شیرانی کی کتاب کی اشاعت کے ذرا بعد سید محی الدین قادری زور نے، جو لندن اور پیرس کی دانش گاہوں میں لسانیاتِ جدید کی تربیت حاصل کرچکے تھے، ’ہندوستانی لسانیات‘(1932)شائع کی۔ اس کتاب میں اردو زبان کی تاریخ قدرے سائنسی انداز میں بیان کی گئی ہے، لیکن اردو کے آغاز کے مسئلے کو ڈاکٹر زور نے الجھا کر رکھ دیاہے۔ پھر پندرہ سال کے وقفے کے بعد مسعود حسین خاں نے ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ (1948) تصنیف کی جس میں انھوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اردو دہلی و نواحِ دہلی میں پیداہوئی۔ اردو کے آغاز کا یہ اب تک کا سب سے قابلِ قبول نظریہ (Most acceptable theory)تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے چند سال بعد شوکت سبزواری نے ’اردو زبان کا ارتقا‘ (1956)لکھی جس میں انھوں نے جدید تحقیقی انداز اختیار کیا، لیکن پالی زبان کے حوالے سے ا ردو کے ارتقا کے بارے میں اپنا ایک الگ نظریہ پیش کیاجو  پراکرت اور پالی کے دھندلکے میں اردو کے آغاز و ارتقا کا سراغ لگانے کی کوشش ہے۔

کلیدی الفاظ

لسانی تاریخ، لسانی تاریخ نویسی، لسانی تبدیلی، خاندانِ السنہ، ہند آریائی، ہند یورپی، تاریخی لسانیات، تقابلی لسانیات، آریائی لسانیات، ہندوستانی لسانیات، پراکرت، اپ بھرنش، شورسینی اپ بھرنش، برج بھاشا، مغربی ہندی، ہریانوی، اردوئے قدیم، دکنی اردو، لشکری زبان، مصنوعی زبان، لسانیاتِ جدید، لسانی مماثلتیں، قواعدی عناصر، ماہرِ السنہ، بولی، تدبھو الفاظ، صوتی تبدیلی، اردو کی سہ مرکزی تقسیم، زبانوں کی اندرونی اور بیرونی تقسیم، زبانِ دہلی و پیرامنش۔

————

تاریخ‘ کو ہم موٹے طور پر گزرے ہوئے زمانے کے حالات و واقعات کا بیانیہ کہہ سکتے ہیں۔ زمانہ ہر لحظہ منقلب ہوتا رہتا ہے۔ صبح کو شام میں، رات کو دن میں، اور آج کو کل میں تبدیل ہونے میںذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ یہی گزرا ہوا کل ’ماضی‘ کہلاتا ہے، اور اسی ماضی کی داستان کو ہم ’تاریخ‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

تاریخ کا سروکار انسانی تہذیب و تمدن میں تبدیلی کے عمل سے ہے، اور تہذیب کا وجود زبان کی موجودگی کی دلیل ہے۔ زبان کا تہذیب سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ یہ تہذیب کا جزوِ لا ینفک ہے۔ دنیا کی کسی بھی تہذیب کا تصور زبان کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ جب کوئی تہذیب صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہے تو اس کی زبان بھی مردہ حالت کو پہنچ جاتی ہے۔ ماضی میں بولی جانے والی بے شمار زبانیں جن میں بعض مقتدر زبانیں بھی شامل ہیں، آج مردہ زبانیں (Dead languages)کہلاتی ہیں، کیونکہ ان کی تہذیبیں فنا ہوچکی ہیں۔مثال کے طور پر جب موہن جوداڑو اور ہڑپا یا میسوپو ٹیمیا (قدیم عراق) کے بابل (Babylon) اور نینوا (Nineveh)کی تہذیبوں نے کروٹیں بدلیں تو وہاں کی زبان کے تارِ نفس بھی ٹوٹ گئے۔

جس طرح امتدادِ زمانہ کے ساتھ انسانی تہذیب و تمدن میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ زبانیں بھی تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہیں، یہاں تک کہ ایک زبان دوسری زبان کی نمایاں شکل اختیار کرلیتی ہے، پھر دوسری سے ایک تیسری زبان معرضِ وجود میں آتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ زبانوں میں تبدیلی کا یہ سلسلہ متواتر جاری رہتا ہے۔ چنانچہ ہرفطری زبان نسبی اعتبار سے (Geneologically)کسی نہ کسی ماقبل زبان سے علاقہ رکھتی ہے۔ پھر اس ماقبل زبان کا نسبی رشتہ ماضی میں کسی اور ماقبل زبان سے استوار ہوتا ہے۔ عرفِ عام میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک زبان دوسری زبان کو جنم دیتی ہے یا زبان کی کوکھ سے زبان پیدا ہوتی ہے۔ جب نئی زبان چلن میں آجاتی ہے تو پرانی یا قدیم زبان متروک ہوجاتی ہے اور ایک خاص مدت گزر جانے کے بعد وہ ’مردہ‘ قرار دے دی جاتی ہے۔ جب کوئی زبان کسی زبان کے بطن سے پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے ساتھ سابقہ زبان کی بعض خصوصیات (Features)بھی ساتھ لاتی ہے۔ دو یا دو سے زیادہ زبانوں میں پائی جانے والی خصوصیات جب آپس میں ملتی جلتی ہوں تو ان زبانوں کو نسبی اعتبار سے مماثل زبانیں (Similar languages) کہا جاتا ہے۔ مماثل زبانوں کو ایک گروہ میں شامل کیا جاتا ہے جسے ’لسانی خاندان‘ یا ’خاندانِ السنہ‘(Language Family)کہتے ہیں۔ دنیا میں بولی جانے والی تقریباً 6,000زبانوں کو ان کی نسبی بنیادوں پر کئی لسانی خاندانوں میں تقسیم کیا گیاہے جن میں سب سے بڑا لسانی خاندان ’ہند یورپی خاندانِ السنہ‘ (Indo-European Family of Languages) ہے۔ اس کے کئی ذیلی خاندان (Sub-families)ہیں۔ انہی میں سے ایک ذیلی خاندان کا نام ہند آریائی (Indo-Aryan)ہے جس سے تعلق رکھنے والی زبانیں برِّ صغیر ہند و پاک، بلکہ جنوبی ایشیاکے ایک بڑے حصے میں بولی جاتی ہیں۔ اردو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے جس کی جڑیں ہندوستان کی سرزمین میں پیوست ہیں۔

(2)

اردو کا باقاعدہ طور پر آغاز شمالی ہندوستان (دہلی و نواحِ دہلی) میں بارھویں صدی کے اواخر میں ہوتا ہے، لیکن اس کا ’ابھار‘1000سنہ عیسوی میں شورسینی اپ بھرنش کے خاتمے کے بعدہی سے شروع ہوجاتا ہے جس کا ثبوت مسعود سعد سلمان (1046-1121) کا ’’ہندوی‘‘ دیوان ہے جو دستِ بردِ زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکا، لیکن جس کا ذکرسدید الدین محمد عوفی (1171-1242)کے فارسی تذکرے ’لباب الالباب‘ (1227/28)اور امیر خسرو (1253-1325)کی مثنوی ’’نہ سپہر‘‘(1317/18)میں واضح طور پر ملتا ہے۔ ابتدا میں اردو پر دہلی و نواحِ دہلی کی بولیوں کے اثرات پڑتے ہیں اور یہ سیال حالت میں رہتی ہے۔ اسی زمانے میں سیاسی اسباب کی بنا پر یہ دکن کا رخ کرتی ہے جہاں اس کے بال و پر نکلتے ہیں اور ادب پروان چڑھتا ہے، لیکن اسے اصلی ترقی شمالی ہند ہی میں ملتی ہے جہاں رفتہ رفتہ یہ معیاری شکل اختیار کرلیتی ہے۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ا ردو نے ابتداہی سے ’کھڑی بولی‘ کا ڈھانچا اختیار کیا جو شمال مشرقی دہلی اور اس سے متصل مغربی یوپی کی بولی ہے۔ جیسے جیسے اردو ترقی کرتی گئی اس کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتا گیا اور اس میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہوتے گئے۔ چونکہ اردو ایک ہند آریائی زبان ہے، اس لیے اس میں ہند آریائی نژاد یا انڈک (Indic) الفاظ،یعنی پراکرت اور اپ بھرنش کے ’تدبھو‘ الفاظ کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد عربی، فارسی زبانوں کے الفاظ آتے ہیں جو اردو میں تقریباً ایک چوتھائی ہیں جن سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر زندہ زبان تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہے، چنانچہ اردو زبان میں بھی عہد بہ عہد مختلف قسم کی صوتی، صرفی، نحوی اور معنیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں۔ انہی لسانیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر اردو اپنے ارتقا کے ایک دور سے نکل کر دوسرے دور میں، اور دوسرے دور سے نکل کر تیسرے دور میں داخل ہوئی جو اس کا قدیم، درمیانی اور جدید دور کہلایا۔ اردو کا قدیم دور 1200 تا 1700 سنہ ِ عیسوی کے دوران شمال و دکن میں اِس کے ارتقا پر مشتمل ہے۔ اس کا درمیانی دور 1700سے لے کر انقلابِ غدر (1857)تک قائم رہتا ہے اور جدید دور 1857تا حال قائم ہے۔ اگر تاریخی و زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو اردو زبان اپنے ارتقا کے پورے آٹھ سو سال1200)تا 2000سنہِ عیسوی) مکمل کرچکی ہے۔اس طویل عرصے کے دوران میں اس میں مختلف النوع لسانی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں، تب کہیں جا کر یہ ایک معیاری زبان بن سکی اور اسی کے ساتھ اس نے ایک جدید ترقی یافتہ زبان کا مرتبہ بھی حاصل کیا۔ اردو زبان کی اسی سلسلہ وار تاریخ کو ماہرینِ لسانیات ’لسانی تاریخ‘ کا نام دیتے ہیں۔

(3)

اردو میں،زبانِ اردو کے حوالے سے لسانی تاریخ نویسی کی روایت تقریباً سو سال پرانی ہے۔ اردو زبان کی سب سے پہلی تاریخ حیدرآباد(دکن) کے حکیم سید شمس اللہ قادری نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے وسط میں لکھی  جو ’اردوئے قدیم‘ کے نام سے پہلی با ر 1925میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد حافظ محمود خاں شیرانی، سید محی ا لدین قادری زور، مسعود حسین خاں اور شوکت سبزواری نے ا ردو زبان کی تاریخیں لکھیں، لیکن ان میں سے کسی لسانی مورخ نے تاریخ نویسی کے اصول مرتب نہیں کیے، نتیجتاً زبانِ اردو کی یہ تاریخیں کسی ایک نہج پر استوار رہنے کے بجائے افراط و تفریط کا شکار ہوکر رہ گئیں۔

راقم السطور کی ادنیٰ رائے میں اردوکی لسانی تاریخ کو موٹے طور پر پانچ اصولوں پر کاربند ہونا چاہیے جو درجِ ذیل ہیں:

.1        اردو زبان کے حسب و نسب اور خاندان کا تعین، یعنی اس امر کا تعین کہ نسلی و نسبی اعتبار سے (Geneologically)اس زبان کا تعلق کس خاندانِ  السنہ (Language family)سے ہے۔

.2         ہم رشتہ زبانوں اور بولیوں سے اردو کا تقابل اور ان کے درمیان رشتوں کی نوعیت کا تعین۔

.3         مستند دلائل اور علمی بنیادوں پر اردو زبان کی ابتدا یا پیدائش کے نظریے کی تشکیل، یعنی اس بات کا تعین کہ اردو کب، کہاں اور کیسے پیدا ہوئی؟

.4         اردو کی ساخت (Structure)میں عہد بہ عہد تبدیلیوں اور اس کے تاریخی ارتقا کا جائزہ اور اس کے مختلف ادوار — قدیم، درمیانی اور جدید دور کا تعین۔

.5         اردو کے دستیاب شدہ نمونوں اور مواد کا تجزیہ اور ہر دور میں زبان کی ہیئت و ساخت میں تبدیلی اور نشوو نما کے عمل کا مطالعہ —صوتی، صرفی، نحوی اور قواعدی تبدیلیوں کا مطالعہ۔

اس امر کا ذکر بیجا نہ ہوگا کہ لسانی تاریخ نویسی، لسانیات بالخصوص تاریخی و تقابلی لسانیات (Historical and Comparative Linguistics)سے کما حقہٗ واقفیت کی متقاضی ہے۔ شومیِ قسمت کہ اردو کے جن عالموں نے ا ردو کے لسانی و تاریخی موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے ان میں سے بیشتر لسانیات کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ انھیں ہم صحیح معنیٰ میں ماہرِ السنہ (Philologist)بھی نہیں کہہ سکتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو کی لسانی تاریخ لکھنے یا لکھوانے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ خال خال تحریروں میں اردو کے آغاز و ارتقا سے متعلق بعض ’’منتشر‘‘ خیالات ضرور مل جاتے ہیں جن کی جدید تحقیقات کی روشنی میں کوئی اہمیت نہیں۔

میر امن نے ’باغ و بہار‘ (1803)کے دیباچے میں اردوکو شہنشاہِ اکبر کے عہد کی زبان بتایا جس کی تشکیل کئی زبانوں کے الفاظ سے مل کر ایک کھچڑی زبان کی حیثیت سے ہوئی۔ مولانا محمد حسین آزاد نے تذکرۂ ’آبِ حیات‘ (1880)میں لکھا کہ ’’ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے۔‘‘سید سلیمان ندوی نے ’نقوشِ سلیمانی‘ (1939) میں یہ خیال پیش کیا کہ ’’قرینِ قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ وادیِ سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔‘‘ (ص31)۔ نصیر الدین ہاشمی نے ’دکن میں اردو‘ 1985)ایڈیشن(میں اس خیال کا اظہار کیا کہ ’’جو دعویٰ اردو کے دکن میں پیدا ہونے کا کیا جاتا ہے وہ بڑی حد تک صحیح ہوسکتا ہے۔‘‘ (ص35)۔

نصیر الدین ہاشمی کے اس خیال سے متاثر ہوکر دکن (میسور) کی ایک معروف اہلِ علم آمنہ خاتون نے اپنے کتابچے ’دکنی کی ابتدا‘ (1970)میں دکنی یعنی قدیم اردو کے دکن میں پیدا ہونے کی بات کہی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے معروف محقق سہیل بخاری کا ذکر بھی بیجا نہ ہوگا جنھوں نے اپنی کتاب ’اردو کی زبان‘ (1997)میں اردو کی پیدائش اور جائے پیدائش کے با رے میں عجیب و غریب خیالات پیش کیے ہیں، مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ اردو مہاراشٹری پراکرت سے پیدا ہوئی ہے۔)ص 266)۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں : ’’اردو کے متعلق یہ سوچنا کہ وہ یوپی یا دہلی میں پیدا ہوئی، درست نہیں ہے۔‘‘ (ص268)۔ انہی باتوں کا اعادہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’حاصلِ کلام یہ ہے کہ اردو مہاراشٹری پراکرت سے مہاراشٹر دیس میں پیدا ہوئی جہاں سے وہ مذہبی تحریکوں کے ساتھ یوپی پہنچ کر آگرے میں جم گئی۔‘‘ (ص308)۔ یہ باتیں ’ایجادِ بندہ ‘کے سوا کچھ نہیں۔ اردو کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ’لشکری زبان‘ ہے۔ یہ خیال سب سے پہلے مغربی مصنّفین نے پیش کیا، لیکن اس کی تائید ہمارے ملک کے بعض عالموں نے بھی کی ہے۔ قدیم تحریروں میں زمانۂ حال کی اردو کو ’’ہندوی‘‘ اور ’’ہندی‘‘ کہا گیا ہے۔ سنیتی کمار چٹرجی اپنی کتاب Indo-Aryan and Hindi (1942) میں اسے ’’ہندوستھانی‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ دہلی کے ترک حکمرانوں کے دربار یا لشکر میں ارتقا پذیر ہونے والی کوئی مصنوعی زبان نہ تھی...اس کا دو سرا نام ’زبانِ اردو‘ یا ’لشکر کی زبان‘ بہت بعد کی یعنی سترھویں صدی کے اواخر کی پیداوار ہے‘‘ (ص197)۔ چٹرجی نے ، یہاں ’زبانِ اردو‘ کی ترکیب میں لفظِ ’اردو‘ زبان کے معنی میں نہیں( یعنی بہ طور اسمِ خاص نہیں)، بلکہ ’لشکر‘ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ گویا کہ یہ بات ان کے ذہن میں گھر کرچکی تھی کہ اردو لشکری زبان ہے، ورنہ وہ اسے ’’لشکر میں ارتقاپذیر ہونے والی زبان‘‘ نہ کہتے۔

اردو کے آغاز و ارتقا سے متعلق میر امن، مولانا محمد حسین آزاد، سید سلیمان ندوی، نصیر الدین ہاشمی، سہیل بخاری اور سنیتی کمار چٹرجی کے یہ خیالات جو سطور بالامیں پیش کیے گئے ہیں، جدید لسانیاتی تحقیق کی رو سے رَد کیے جاچکے ہیں کہ یہ محض قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔ انھیں کسی طور سے ’نظریہ‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نظریہ سازی کے لیے منطقی طرزِ فکر اور مستند دلائل و براہین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اردو نہ تو کھچڑی زبان ہے، اور نہ یہ برج بھاشاسے نکلی ہے، اور نہ ہی یہ وادیِ سندھ میں معرضِ وجود میں آئی۔ اردو کی ابتدا دکن سے بھی نہیں ہوئی، اور نہ یہ مہاراشٹری پراکرت کی زائیدہ ہے۔ اردو کو لشکری زبان کہنا بھی کسی فسانے سے کم نہیں۔

(4)

اردو زبان کی لائقِ اعتنا اور مربوط و مدلل تاریخ جس میں لسانی تاریخ نویسی کے متذکرہ تمام اصولوں کی پابندی کی گئی ہو اور جو تحقیق کے تقاضوں کو بھی بدرجۂ اتم پوراکرتی ہواب تک نہیں لکھی گئی۔ تاہم یہاں ہم زمانی اعتبار سے اردو میں لکھی ہوئی چند ان تصانیف کا ذکر کریںگے جو کلی یا جزوی طور پر تاریخِ زبانِ اردو کے مواد اور مسائل و مباحث کے لیے جانی جاتی ہیں، خواہ ان کے مصنّفین کے نظریات ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور متغائر ہی کیوں نہ ہوں۔

1           حکیم سید شمس اللہ قادری، ’اردوئے قدیم‘ (1925)

حکیم سید شمس اللہ قادری حیدرآباد (دکن) کے رہنے والے تھے اور پیشے کے لحاظ سے ماہرِ علمِ آثارِ قدیمہ (Archaeologist)تھے۔ انھیں تاریخ سے بھی گہری دلچسپی تھی اور وہ کئی زبانیں بھی جانتے تھے۔

انھیں تاریخِ زبانِ اردو سے بھی خاص دلچسپی پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں ’اردوئے قدیم‘ کی تصنیف و تالیف عمل میں آئی جو 1925میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن مصنف کی نظرِ ثانی کے بعد 1929میں شائع ہوا اور تیسرا ایڈیشن مطبع تیج کمار (وارث مطبع نول کشور)، لکھنؤسے 1967میں طبع ہوا۔

سید شمس اللہ قادری نے ’اردوئے قدیم‘ کے ا بتدائی 33صفحات میں شمالی ہند میں  اردو کے آغاز و ارتقا پرسطحی انداز سے روشنی ڈالی ہے اور امیر خسرو (1253-1325)کے ذکر پر اس حصے کو ختم کیا ہے۔ وہ اپنی بات کا آغازسنسکرت کے ذکر سے کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ’’آریائوں کی مقدس زبان‘‘ ہے۔ پھر وہ پراکرتوں کا ذکر کرتے ہیں جو ان کے خیال میں سنسکرت میں تغیر سے بنی تھیں۔ برج بھاشا کو وہ شورسینی پراکرت تصور کرتے ہیں جس کا مرکز ’’برج‘‘ کا علاقہ تھا، لیکن جو ان کے بقول ایک وسیع علاقے میں بولی جاتی تھی اور جسے مولودِ مسیح سے قبل ایک شائستہ زبان کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ ’’زمانۂ حال کی تاریخی اور لسانی تحقیقات سے یہ امر ثابت ہوگیا ہے کہ زبانِ اردو کا منبع و مخرج برج بھاشا ہے۔‘‘1؎شمس اللہ قادری کا برج بھاشا کو اردو کا ’’منبع و مخرج‘‘ قرار دینا اب غلط ثابت ہوچکا ہے، اور اس بات کی بھی تردید ہوچکی ہے کہ پراکرت کے دور میں (جو ہند آریائی کا وسطی دور ہے) برج بھاشا کا وجود تھا۔برج بھاشا کو مولودِ مسیح سے قبل کی زبان بتانا بھی تعجب خیز امر ہے۔

سید شمس اللہ قادری نے شمالی ہند میں اردو کے آغاز و ارتقا کے جائزے کے بعد دکن اور گجرات میں اردو کے ارتقا پر روشنی ڈالی ہے اور وہاں کے قدیم شعرا اور مصنّفین کے حالات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نثر و نظم کے نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ انھوں نے متذکرہ کتاب میں دکنی اردو کے قدیم املا کی مثالیں بھی جمع کردی ہیں اور ان کا موازنہ اردو کے مروجہ املا سے کیا ہے، نیز دکنی اردو کی صوتی، صرفی اور نحوی خصوصیات سے بھی بحث کی ہے۔اس کتا ب میں قدیم اردو (دکنی اردو) کا کثیر موادجمع کردیا گیا ہے جو ایک لائق تحسین عمل ہے۔ اس کے با وصف یہ کتاب اردو زبان کی مکمل تاریخ نہیں ہے۔علاوہ ازیں اس میں کئی فرو گذاشتیں ہیں۔

2          حافظ محمود خاں شیرانی، ’پنجاب میں اردو‘ (1928)

حافظ محمود خاں شیرانی (1880-1946)کی زیرِ مطالعہ کتاب کا نام اگرچہ ’پنجاب میں اردو‘ ہے، لیکن اسے تاریخِ زبانِ اردو کے ذیل میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ زبانِ اردو کی تاریخ پنجاب کے سیاق و سباق (Context)میں بیان کرتی ہے۔

شیرانی پنجاب کو اردو کی جائے پیدائش قرار دیتے ہیں اور اس کے ثبوت میں تاریخی و لسانی دلائل پیش کرتے ہیں اور پنجاب کے اردو شعرا اور مصنّفین کے نثر و نظم کے نمونے منظرِ عام پر لاتے ہیں جن پر ان کے بقول پنجابی زبان کے اثرات پڑے ہیں، لیکن شیرانی یہ بھول جاتے ہیں کہ 1000سنہ ِ عیسوی کے بعد پنجاب میں شورسینی اپ بھرنش کے بطن سے جو زبان معرضِ وجود میں آئی وہ اردو نہیں، بلکہ پنجابی تھی جسے آج پنجاب کا ہر فرد و بشر بہ طورِ مادری زبان بولتا ہے۔ اگر اردو پنجاب میں پیدا ہوئی ہوتی تو آج اہلِ پنجاب کی مادری زبان اردو ہوتی، نہ کہ پنجابی۔

محمود شیرانی اپنی متذکرہ کتاب میں یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ’’اردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہے‘‘2؎یعنی پنجاب۔پھر وہ دوسرا نظریہ یہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے دہلی جاتے ہیں، اس لیے وہ اردو کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ ان کے اس نظریے کے مطابق ’’اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں۔‘‘3؎ان کے تیسرے نظریے کی رو سے ’’پنجابی اور اردو  اپنی صرف و نحو میں ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔‘‘4؎ اپنے انہی تینوں نظریات کو شیرانی نے ’پنجاب میں اردو‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

یہ بات بلا تامل کہی جاسکتی ہے کہ ہند آریائی خاندانِ السنہ پر محمود شیرانی کی گرفت مضبوط نہیں تھی اور وہ جدید ہند آریائی زبانوں کے ارتقا اور ان کی تقسیم اور گروہ بندی پر گہری نظر نہیں رکھتے تھے۔ اسی لیے وہ پنجابی اور دہلی و نواحِ دہلی کی بولیوں کے درمیان اختلاف کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ وہ مشرقی پنجابی اور مغربی پنجابی (لہندا) کے فرق کو بھی نہیں سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کی ابتدا کی نظریہ سازی میں ان سے چوک ہوئی۔ اردو نہ تو پنجاب میں پیدا ہوئی اور نہ پنجابی سے نکلی۔ صورتِ حال یہ ہے کہ جس زمانے میں پنجاب میں پنجابی ارتقا پارہی تھی اسی زمانے میں دہلی و نواحِ دہلی میں چند بولیاں بھی سر اٹھا رہی تھیں جن میں کھڑی بولی کو امتیاز حاصل تھا، چنانچہ یہی کھڑی بولی اردو کا ڈ ھانچا اور کینڈا (Structure)بنی اور اس پر نواحِ دہلی کی دوسری بولیوں بالخصوص ہریانوی کے اثرات پڑے جس کی تائید دکنی اردو سے ہوتی ہے۔ دہلی و نواحِ دہلی کی بولیوں کی قدامت امیر خسرو کے اُس بیان سے بھی ثابت ہوتی ہے جو انھوں نے اپنی مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ (1318)میں ہندوستان کی زبانوں کے سلسلے میں دیا ہے، بلکہ مسعود حسین خاں کا تو یہ خیال ہے کہ ’’شورسینی اپ بھرنش کی جانشین ہونے کی حیثیت سے پنجابی زبان کے مقابلے میں ہریانی اور کھڑی بولی کو زیادہ قدیم ماننا پڑے گا۔‘‘5؎

جہاںتک کہ تاریخی دلائل کا تعلق ہے تو تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ پنجاب سے دہلی کی جانب کبھی بڑے پیمانے پر نقلِ مکانی ہوئی جس نے پوری خلقت کو اُدھر سے اِدھر منتقل کردیا یہاں تک کہ اردو بولنے والوں سے پورا پنجاب خالی ہوگیا۔ یہ محض مفروضہ ہے جسے شیرانی کے ذہن کی اختراع کہہ سکتے ہیں۔ وہ خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نظریے کے ثبوت میں ان کے پاس کوئی ’’قدیم شہادت یا سند‘‘ موجود نہیں ہے۔ اب رہی بات لسانی دلائل کی۔ اس ضمن میں شیرانی کہتے ہیںکہ صرف و نحو کے لحاظ سے پنجابی اور اردو میں بیحد قربت پائی جاتی ہے۔ لیکن جب ان دونوں زبانوں کے صرفی و نحوی نیز قواعدی عناصرکا تقابل کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ان میں کافی اختلافات موجود ہیں۔مسعود حسین خاں کا تو واضح لفظوں میں یہ کہنا ہے کہ ’’پنجابی اور اردو میں بعض ایسے اہم اختلافات تا حال موجود ہیں جن کی بنا پر اردو کا پنجابی سے ماخوذ ہونا کسی طرح تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘6؎شیرانی قدیم اردو بالخصوص دکنی اردو پر پنجابی کے اثرات بتاتے ہیں، لیکن یہ ہریانوی کے اثرات بھی ہیں جو دہلی کے شمال مغرب کی بولی ہے۔ ابتدا میں اردو سیال حالت میں تھی تو اس پر ہریانوی کے گہرے اثرات مرتسم ہوئے تھے۔ اسی حالت میں وہ دکن پہنچی تھی۔ ہریانوی کے بعض اثرات دکنی اردو پر آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ بقول مسعود حسین خاں ’’قدیم اردو اور دکنی کا ’پنجابی پن‘ اس کا ہریانی پن بھی ہے۔‘‘7؎

پنجابی اور قدیم اردو (دکنی اردو) میں پائی جانے والی بعض مماثلتوں کی بنیاد پر حافظ محمود خاں شیرانی کا یہ نظریہ قائم کرلینا کہ اردو پنجاب میں پیدا ہوئی یا پنجابی سے نکلی لسانیاتی نقطۂ نظر سے قابلِ قبول نہیں اور نہ اسے عقلِ سلیم تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ اسی لیے اس نظریے کو رَد کردیا گیا۔ لسانی تاریخ نویسی کے اصولوں پر بھی یہ کتاب پوری نہیں اترتی۔

3          سید محی الدین قادری زور، ’ہندوستانی لسانیات‘(1932)

سید محی الدین قادری زور (1904-1962)ایک تربیت یافتہ ماہرِ لسانیات (Trained Linguist)تھے۔ انھوں نے لسانیاتِ جدید کی تربیت انگلستان اور فرانس کی دانش گاہوں میں قیام کرکے حاصل کی تھی۔ان کا وطنِ مالوف حیدرآباد (دکن) تھا۔یورپ سے وطن واپسی کے بعد انھوں نے ’ہندوستانی لسانیات‘ کے نام سے اردو زبان کی تاریخ لکھی جو 1932میں حیدرآباد سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کی تسوید و ترتیب میں انھوں نے جدید اصولِ لسانیات سے کام لیا، اور ہند آریائی لسانیات کے بارے میں جو نئی تحقیقات ہوئی تھیں، انھیں سامنے رکھا۔ یہ ان کی خوش نصیبی رہی ہے کہ انھیں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز (لندن یونیورسٹی) میں آریائی لسانیات کے ماہر آر.ایل.ٹرنر(R.L. Turner)اور اردواور پنجابی کے معروف اسکالر ٹی. گریہم بیلی (T. Grahame Baily) کے لکچرز سے استفادے کا موقع ملا۔

محی الدین قادری زور کی کتاب ’ہندوستانی لسانیات‘ میں لسانی تاریخ نویسی کے اصول و ضوابط کو کسی حد تک برتا گیا ہے۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ حصۂ اول میں زبان اور علمِ زبان (لسانیات) سے عمومی بحث کی گئی ہے، اور لسانی تبدیلی (Language Change)بالخصوص صوتی تغیر و تبدل پر تحقیقی انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے بعد اس کتاب میں دنیا کے لسانی خاندانوں کا ذکر ملتا ہے۔ زور نے اردو سے تعلق رکھنے والے ہندآریائی خاندانِ السنہ کا ذکر تفصیل سے کیا ہے، اور اس کی تاریخ کو لسانی ارتقا کے لحاظ سے تین ادوار —قدیم، درمیانی اور جدید ہند آریائی میں تقسیم کیا ہے۔ وہ یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں قدیم ہند آریائی دور میں کئی بولیاں رائج تھیں جو تغیر و تبدل حاصل کرکے آج ہند آریائی زبانوں کی شکل میں موجود ہیں۔

محی الدین قادری زور نے آریوں کے داخلۂ ہند کا بھی ذکر کیا ہے اور اس سلسلے میں جارج اے.گریرسن (George A. Grierson)کے اس نظریے سے بھی بحث کی ہے جس کے مطابق آریا لوگ ہندوستان میں دو گروہوں میں داخل ہوئے۔ اس نظریے کی رو سے گریرسن نے جدید ہند آریائی زبانوں کو اندرونی اور بیرونی زبانوں میں تقسیم کیاہے۔ مغربی ہندی کی بولیوں (کھڑی بولی، ہریانوی، برج بھاشا، بندیلی، قنوجی) کا تعلق اندرونی گروہ کی زبانوں سے ہے۔

زور نے جدید ہند آریائی زبانوں کو ان کی ’’لسانی اور ترکیبی‘‘ خصوصیتوں کے لحاظ سے درجِ ذیل پانچ شاخوں میں تقسیم کیاہے: (1)  شمال مغربی، (2)   جنوب مغربی، (3)  وسطی،(4)  مشرقی،  5)  جنوبی۔  اردو -ہندی کا تعلق وسطی شاخ سے ہے۔ وسطی شاخ در حقیقت گریرسن کی تخلیق کردہ ’’مغربی ہندی‘‘ ہے جس کی پانچ بولیاں ہیں جن کا ذکر اوپر آچکاہے۔ اردو-ہندی کا تعلق کھڑی بولی سے ہے جسے زور نے ’’ہندوستانی‘‘کہا ہے۔ وہ ’’ہندوستانی‘‘ کی اصطلاح اردو کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن اکثر مقامات پر یہ اصطلاح ہندی،اردو دونوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن آج ’ہندوستانی‘ نام کی کسی زبان کا وجود نہیں۔

محی الدین قادری زور نے اپنی متذکرہ کتاب کے حصۂ دوم میں اردو کے آغاز کے مختلف نظریوں سے بحث کی ہے۔ وہ دکن میں اردو کی پیدائش کے منکر ہیں۔ وہ سندھ میں بھی اردو کے پیدا ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ انھوں نے اردو کے پنجاب میں پیدا ہونے کا نظریہ بھی تقریباً رَد کردیا ہے، اور فتحِ دہلی (1193)کے بعد دہلی ونواحِ دہلی میں اردو کے معرضِ وجود میں آنے کی مستند رائے سے بھی انھیں اتفاق نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اردو نہ تو پنجابی سے مشتق ہے اور نہ کھڑی بولی سے، بلکہ اس زبان سے جو ان دونوں کی مشترک سرچشمہ تھی۔‘‘8؎ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سی زبان تھی اور کہاں بولی جاتی تھی جو پنجابی اور اردو دونوں کی مشترک سرچشمہ تھی۔ البتہ انھوں نے اردو کے پنجابی اور کھڑی بولی سے مشابہ ہونے کا ذکر ضرور کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’اردو زیادہ کھڑی بولی ہی سے متاثر ہوتی گئی،‘‘9؎اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ مسلمانوں کے صدر مقام صدیوں تک دہلی اور آگرہ رہے ہیں۔زور نے اردو پر ہریانوی کے اثر کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’یہاں ایک اور بات مد ِ نظر رکھنی چاہیے کہ اردو پر بانگڑو یا ہریانی زبان کا بھی قابلِ لحاظ اثر ہے۔‘‘10؎اس سے پہلے زور اردو کو پنجابی کے مشابہ بتا چکے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہریانوی نے قدیم اردو (دکنی اردو) کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔ دکنی اردو کی لسانی خصوصیات یا امتیازات کی توجیہ بڑی حد تک ہریانوی سے کی جاسکتی ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حافظ محمود خاں شیرانی ان خصوصیات کو پنجابی زبان سے منسوب کرتے ہیں۔

جہاں تک کہ اردو کے مخرج و منبع اور مولد و منشا کا تعلق ہے، محی الدین قادری زور نے ماہرِ لسانیات ہوتے ہوئے کوئی ٹھوس نظریہ پیش نہیں کیا۔ اس ضمن میں ان کی آرا نہایت مبہم ہیں جن سے قاری کسی حتمی نتیجے پر نہیںپہنچتا۔ وہ اردو کو کبھی پنجابی سے مشابہ بتاتے ہیںتو کبھی کھڑی بولی سے متاثرگردانتے ہیں۔ وہ اس پر ہریانوی کے ’قابلِ لحاظ اثر‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ اردو کو ایک ایسی زبان سے مشتق بتاتے ہیں جس سے پنجابی بھی نکلی ہے، لیکن اس زبان کا وہ نہ تو کوئی نام بتاتے ہیں اور نہ پتا۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ زور نے مستند دلائل و براہین کی بنیاد پر اردو کے آغازکا کوئی ایسا نظریہ پیش نہیں کیا جو قابلِ قبول ہو، اور جس کی حیثیت حرفِ آخر کی ہو!

لسانی تاریخ نویسی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ متعلقہ زبان کے عہد بہ عہد ارتقا کا جائزہ لیا جائے، چنانچہ اس خیال کے مدِ نظر محی الدین قادری زور نے اپنی متذکرہ کتاب کے حصۂ دوم میں اردو کے ارتقا سے بھی بحث کی ہے، لیکن اردو کا یہ ارتقا زمانی یعنی عہد بہ  عہد ارتقا نہیں، بلکہ مکانی اعتبار سے ہے جس میں انھوں نے اردو کی ’’سہ مرکزی تقسیم‘‘ قائم کی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’زبانِ ہندوستانی کا ارتقا پنجاب ہی سے شروع ہوچکا تھا، لیکن اس کے ثانوی مدارج دو آبہ، گجرات اور دکن میں تکمیل کو پہنچے۔ دہلی میں یہ زبان ڈیڑھ سو سال تک رہنے کے بعد گجرات اور دکن کا رخ کرتی ہے۔11؎ زور نے مکانی یا علاقائی اعتبار سے اردو کی جو ’’سہ مرکزی تقسیم ‘‘ گجراتی، دکنی اور شمالی کے نام سے قائم کی ہے اس کی لسانی خصوصیات کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کے لسانی اختلافات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ یہ ایک طرح کا بولیوں کا مطالعہ  (Dialect Study)ہے جس کی لسانیات میں بیحد اہمیت ہے۔

4          مسعود حسین خاں، ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ (1948)

سید محی الدین قادری زور کے بعد مسعودحسین خاں (1919-2010)دوسرے اردو اسکالر ہیں جنھوں نے یورپ کی دانش گاہوں میں لسانیات جدید کی تربیت حاصل کی۔ زورکی ’ہندوستانی لسانیات‘ (1932)کی اشاعت کے پندرہ سال بعد مسعود حسین خاں کا تحقیقی مقالہ ‘مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ (1948)شائع ہوا جس پر انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ.ڈی کی سند تفویض ہوئی تھی۔ مسعود حسین خاں نے لسانیات کی اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے لیے 1950)میں(اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریقن اسٹڈیز (لندن یونیورسٹی) میں داخلہ لیا، پھر کچھ عرصے بعد وہ پیرس (فرانس) گئے اور وہاں کی سوربون (Sorbonne University)سے انھوں نے ’عروضی صوتیات‘ (Prosodic Phonology)کے موضوع پر مقالہ لکھ کر 1953میں ڈی .لٹ کی سند حاصل کی۔

ہر چند کہ مسعود حسین خاں نے لسانی تاریخ نویسی کے اصول مرتب نہیں کیے، لیکن ان کی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو،جس کا ساتواں ایڈیشن ترمیم و اضافے کے بعد 1987میں شائع ہوا)،کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے اسے نوکِ قلم پر لاتے وقت لسانی تاریخ نویسی کے ممکنہ اصولوں کی پوری طرح پاسداری کی ہے، چنانچہ کتاب کے ابتدائی دو ابواب میں انھوں نے ہند آریائی کے ارتقا سے بحث کی ہے جس میں آریوں کے وطن اور ان کے داخلۂ ہند سے لے کر ہند آریائی کے عہدِ قدیم، عہدِ وسطیٰ اور عہدِ جدید پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، پھر جدید ہند آریائی زبانوں کی گروہ بندی کی ہے،اور مغربی ہندی اور اس کی بولیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ گریرسن کی جدید ہند آریائی زبانوں کی اندرونی اور بیرونی زبانوں میں تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اندرونی زبان کی شاخ میں صرف مغربی ہندی ایک ایسی زبان ہے جسے ہم خالص اندرونی زبان کہہ سکتے ہیں ...اندرونی گروہ کی نمائندہ زبان محض مغربی ہندی ہے۔ مغربی ہندی کا یہ نام مدھیہ دیش کی زبان کو گریرسن نے دیا ہے جس نے سب سے پہلے مشرقی ہندی اور مغربی ہندی میں فرق کیا ہے۔ مغربی ہندی مدھیہ دیش کی زبان ہونے کی وجہ سے ہند آریائی زبان کی بہترین نمائندہ ہے، کیونکہ اسی علاقے میں سنسکرت ، شورسینی پراکرت اور شورسینی اپ بھرنش پروان چڑھتی ہیں جن کی سچی جانشین اس علاقے کی جدید بولیاں کھڑی بولی (ہندوستانی)، برج بھاشا، ہریانی، بندیلی اور قنوجی ہیں جن کے مجموعے کو گریرسن ’مغربی ہندی‘ کا جدید نام دیتاہے۔‘‘12؎اردو کا تعلق اسی مغربی ہندی کی کھڑی بولی سے ہے۔ قدیم کھڑی بولی (بعض ماہرینِ لسانیات کے نزدیک قدیم ہندوستانی) کے نمونے شمالی ہندوستان میں تقریباً 1000سنہِ عیسوی کے بعد سے ملنا شروع ہوجاتے ہیں جو اپ بھرنش کا آخری دور ہے اور جدید ہند آریائی زبانوں کے ’’ابھار‘‘ کا زمانہ ہے۔ مسعود حسین خاں نے اپنی متذکرہ کتاب میں اردو کی ابتدا سے متعلق محمد حسین آزاد، حافظ محمود خاں شیرانی اور سید سلیمان ندوی کے نظریوں کی ٹھوس دلائل کی بنیاد پر تردید کرتے ہوئے اردو کے آغاز کا ایک منفرد نظریہ تشکیل دیا ہے جسے لسانیاتی اعتبار سے سب سے مستند اور قابلِ قبول نظریہ (Most acceptable theory)تسلیم کیا گیا ہے، چنانچہ ثلث صدی (75سال) کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اسے چیلنج نہیں کیا جاسکا۔

مسعود حسین خاں کے نظریے کی رو سے اردو فتحِ دہلی(1193) کے بعد دہلی و نواحِ دہلی میں پیدا ہوئی۔ شہر دہلی کو انھوں نے چار بولیوں کا ’’سنگم‘‘ بتایا ہے جہاں کھڑی بولی، ہریانوی، برج بھاشا اور میواتی ملتی ہیں۔ کھڑی بولی، دہلی کے شمال مشرق کی بولی ہے۔ یہ علاقہ مغربی یوپی سے متصل ہے جسے دو آبۂ گنگ و جمن بھی کہتے ہیں۔ ہریانوی دہلی کے شمال مغرب کی بولی ہے۔ یہ علاقہ صوبۂ ہریانہ سے ملا ہوا ہے۔ دہلی کے جنوب میں تھوڑی دوری پر برج بھاشا مل جاتی ہے اور جنوب مغرب میں میواتی کا چلن ہے جو راجستھانی کی ایک بولی ہے۔ ان بولیوں، بالخصوص کھڑی بولی اور ہریانوی نے اردو کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی اور   جمنا پار کی ہریانوی کے زیر اثر ہوتی ہے۔‘‘ 13؎اس امر کا ذکر بیجا نہ ہوگا کہ مسعود حسین خاں نے اردو کی ابتدا سے متعلق اپنے نظریے کی بنیاد امیر خسرو (1253-1325)کے اُس بیان پر رکھی ہے جو ان کی مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ (1318)میں ہندوستانی زبانوں کے سلسلے میں ملتا ہے۔ خسرو ہندوستان کی گیارہ زبانوں کے ذکر کے بعد بارھویں زبان کا ذکر ’دہلی و پیرامنش‘‘ کہہ کر کرتے ہیں جس سے ان کی مراد دہلی و نواحِ دہلی کی بولیاں ہیں، چنانچہ مسعود حسین خاں نہایت وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’اردو کا ماخذ یہی بولیاں ہیں۔‘‘14؎ان کی تحقیق کا ماحصل ان کا یہ بیان ہے:

’’زبانِ ’دہلی و پیرامنش‘ اردو کا اصل منبع اور سرچشمہ ہے، اور ’حضرتِ دہلی‘ اس کا حقیقی مولد و منشا۔‘‘15؎

5          شوکت سبزواری، ’اردو زبان کا ارتقا‘(1956)

شوکت سبزواری (1908-1973)کا تعلق میرٹھ(اترپردیش) سے تھا۔ تقسیمِ ملک کے بعد وہ پہلے ڈھاکہ پہنچے اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، پھر کراچی جا بسے اور وہیں رحلت فرمائی۔

شوکت سبز واری محقق اور نقاد ہونے کے علاوہ ماہرِ لسانیات بھی تھے۔ لسانیات سے ان کی دلچسپی بہت گہری تھی۔ لسانی موضوعات پر لکھی ہوئی چار کتابیں ان کی یادگار ہیں جن میں سے ایک کتاب کا نام ’اردو زبان کا ارتقا‘ ہے جو 1956میں اشاعت پذیر ہوئی۔ اس کتاب کی وجہ سے  انھیں خاصی شہرت حاصل ہوئی اور علمی دنیا میں ایک ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے انھوں نے اپنی جگہ بنالی۔

مسعود حسین خاں کی ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘(1948)کے بعد شوکت سبزواری کی ’اردوزبان کا ارتقا‘(1956)اردو کی لسانی تاریخ سے متعلق دوسری اہم کتاب ہے جس میں لسانی تاریخ نویسی کے اصولوں کی بڑی حد تک پابندی کی گئی ہے اگرچہ ان کے نظریات دوسرے ماہرین   لسانیات سے کافی حد تک مختلف ہیں۔اس کتاب میں سب سے پہلے تو انھوں نے اردو کے حسب و نسب اور خاندان کا پتا لگایا ہے اوریہ دکھلایا ہے کہ اردو ایک ہند آریائی زبان ہے جس کا تعلق نسلی و نسبی اعتبار سے ہند یورپی خاندانِ السنہ سے ہے جو ایک بڑا اور اہم لسانی خاندان ہے، پھر ہم رشتہ بولیوں اور زبانوں سے اردو کا مقابلہ کیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان بولیوں کا اردو کے ساتھ کیا رشتہ ہے۔ اردو کو محمد حسین آزاد نے برج بھاشا سے، اور محمود خاں شیرانی نے پنجابی سے ماخوذ بتایا ہے، کیونکہ یہ دونوں زبانیں اردو سے ملتی جلتی ہیں۔لیکن شوکت سبزواری نے تقابلی مطالعے کے ذریعے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ برج بھاشا اور پنجابی میں سے کوئی بھی زبان اردو کی اصل نہیں۔ ان کے خیال میں اردو میں جمع بنانے کا قاعدہ تنہا اس امر کا ثبوت ہے کہ اردو برج بھاشا سے ماخوذ نہیں۔ اسی طرح پنجابی اور اردو کے تقابلی مطالعے سے سبزواری نے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کی بعض فعلی شکلیں اور صیغے پنجابی سے زیادہ قدیم ہیں اور ان کا سلسلہ قدیم پراکرت سے جا کر مل جاتا ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اردو پنجابی سے ماخوذ ہے۔ اس سلسلے میں ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے :

’’دو یا دو سے زیادہ زبانوں کی مماثلت اور بعض اصول و اصوات میں مشابہت اپنی جگہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ وہ زبانیں متحد الماخذ ہیں یا ان میں سے ایک دوسرے کی اصل ہے۔ اس کے لیے زبان کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔ خصوصیت کے ساتھ زبان کی لسانی خصوصیات کا کھوج لگا کر یہ دیکھنا کہ ان کی ارتقا ئی تاریخ کیا ہے اور وہ کیسے اور کہاں سے آئیں۔‘‘16؎

شوکت سبزواری نے اردو کے آغاز کے جس نظریے کی تشکیل اپنی متذکرہ کتاب میں کی ہے وہ تمام نظریوں سے الگ تھلک ایک منفرد نظریہ ہے جس کی جانب کسی محقق یا ماہرِ لسانیات کی توجہ اب تک مبذول نہیں ہوئی تھی۔ یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ اردو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے اور اس کی ابتدا دیگر جدید ہند آریائی زبانوں کی طرح شورسینی اپ بھرنش کے اختتام (1000عیسوی) کے بعد بارھویں صدی عیسوی سے ہوتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اردو بارھویں صدی کے آس پاس جس بولی کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہے وہ ’کھڑی بولی‘ ہے جو مغربی یوپی (دو آبۂ گنگ و جمن) اور شمال مشرقی دہلی کی بولی ہے، لیکن شوکت سبزواری کو اس نظریے سے اختلاف ہے۔ وہ اردو کی اصل اور اس کی ابتدا کو وسطی ہند آریائی عہد میں تلاش کرتے ہیں جو ’پراکرت‘ کا عہد ہے۔ اردو کو وہ پراکرت سے ماخوذ بتاتے ہیں۔اردو پراکرت سے ماخوذ نہیں، بلکہ شورسینی اپ بھرنش سے ماخوذ ہے۔

یہاں اس امر کا ذکر بیجا نہ ہوگا کہ وسطی ہند آریائی عہد 500قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے ابتدائی پانچ سو برس (500ق م تا آغازِ سنہِ عیسوی) کو اولین یا پہلی پراکرت کہا گیا ہے۔ پالی کا ارتقا اِسی زمانے میں ہوا۔ اشوک کے کتبے بھی سنگی لوحوں پر اسی پراکرت میں نصب ہوئے۔ شوکت سبزواری کہتے ہیں:

’’اردو اور پالی دونوں کا منبع ایک ہے۔ پالی ادب، فن اور فلسفے کی زبان ہے اور ہندوستانی بول چال، لین دین اور کاروبار کی۔ پالی ادبی درجے کو پاکر ٹھہر گئی، ہندوستانی عوام کی زبان ہونے کی وجہ سے ا ور بازار ہاٹ میں بولی جانے کے باعث برابر ترشتی ترشاتی اور پھلتی پھولتی رہی۔‘‘17؎

اس سلسلے میں انھوں نے اردو اور پالی کا تقابلی مطالعہ بھی پیش کیا ہے، اور صوتی و صرفی مماثلتوں کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔

یہاں اس امر کا ذکر کرتا چلوں کہ شوکت سبزواری نے اپنی متذکرہ کتاب میں ہند آریائی لسانیات کے اکثر مسلمات سے روگردانی کی ہے، مثلاً وہ سنسکرت کو پالی کی ’’اصل‘‘ تسلیم نہیں کرتے۔ پالی کے ارتقا کا زمانہ پہلی پراکرت کا زمانہ تھا۔  اس زمانے میں جو بولیاں رائج تھیں، پالی ان میں سے ایک تھی۔ اس کا چلن مگدھ (موجودہ صوبۂ بہاراور اس کے گرد و نواح کا علاقہ)میں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گوتم بدھ (ق م c. 480-400) ماگدھی پراکرت بولتے تھے۔

شوکت سبزواری پالی کی ’’اصل‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’پالی کا کینڈا بتاتا ہے کہ اس کی اصل سنسکرت کی جگہ ویدک زمانے کی کوئی اور بولی ہے۔ سنسکرت اور پالی مساوی درجے کی زبانیں ہیں۔ ان کی بنیاد الگ الگ دو قدیم بول چال کی زبانوں پر ہے۔ دونوں مدتوں تک ادب، فن اور فلسفہ کے خیالات کے اظہار کے لیے استعمال ہوتی رہیں۔  ‘‘18؎

لیکن وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’سنسکرت میں صوتی اور صرفی تغیرات ہوئے تو اس نے اولین پراکرت یعنی ’پالی‘ کا روپ اختیار کیا۔‘‘19؎سبزواری کے ان دونوں بیانات میں جو تضاد ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔

شوکت سبزواری نے جارج گریرسن کے اس نظریے سے بھی اختلاف کیا ہے کہ اس نے شورسینی اپ بھرنش کے خاتمے کے بعد ’مدھیہ دیشہ‘ یعنی درمیانی علاقے (Midland) میں’ مغربی ہندی‘ کے نام سے ایک زبان قائم کی جس سے پانچ ملتی جلتی بولیاں ارتقا پذیر ہوئیں جن کے نام ہیں:  (1)کھڑی بولی، (2)  ہریانوی، (3)  برج بھاشا، (4)  بندیلی،  ا ور (5)  قنوجی۔ کھڑی بولی سے گریرسن ’ہندوستانی‘ مراد لیتا ہے جس کی ادبی شکل کو وہ ’اردو‘ کہتا ہے۔ شوکت سبزواری کہتے ہیں:

’’مغربی ہندی جسے کھڑی اور برج کا سرچشمہ اور ماخذ بتایا جاتا ہے ایک طرح سے فرضی اور خیالی زبان ہے...برج، کھڑی، بندیلی اور قنوجی کے علاقے میں کبھی کوئی ایک زبان نہ تھی جو ان بولیوں کے درمیان کی چیز ہو، اور جو بعد میں ان بولیوں میں بٹ گئی ہو۔ ان علاقوں میں چند ملتی جلتی زبانوں کو دیکھ کر ان کا ایک مشترک ماخذ فرض کرنا ایک ایسا فعل ہے جسے فکرِ انسانی کی اختراع سمجھنا چاہیے۔‘‘20؎

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو کا ارتقا شور سینی اپ بھرنش سے ہوا جس کا ماخذ شورسینی پراکرت ہے، لیکن شوکت سبزواری اس لسانیاتی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ’’اردو کی صرفی و نحوی خصوصیات پر ایک نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو کا ماخذ شورسینی پراکرت یا اپ بھرنش نہیں۔‘‘21؎سبزواری اردو کی بعض صوتی خصوصیات کو ’پالی‘ سے مشابہ بتاتے ہیں جو ان کے خیال میں نہ شورسینی پراکرت میں پائی جاتی ہیں اور نہ اپ بھرنش میں۔ سبزواری اپنے اس بیان کی تردید بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے  ایک مضمون ’’اردو کی اصل اور اس کی ابتدا‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اردو بے شبہ پراکرت سے ماخوذ ہے...یہ پراکرت جسے میں اردو کی اصل قرار دے رہا ہوں، سنسکرت، پالی، شورسینی، پراکرت، مغربی اپ بھرنش کے سلسلۃ الذہب کی ایک گم شدہ کڑی ہے۔‘‘22؎

شوکت سبزواری یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’قدیم ہندی کو اردو کی اصل نہیں ٹھہرایا جاسکتا،‘‘23؎جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’قدیم ہندی‘‘ ہی اردو کی ’’اصل‘‘ہے۔ قدیم ہندی سے سبزواری کی مراد قدیم کھڑی بولی ہے جو شورسینی اپ بھرنش سے ماخوذ ہے اور اردو کی ’’اصل‘‘ ہے۔ بارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں (1193میں فتحِ دہلی کے بعد) دہلی میں وارد ہونے والے مسلمانوں نے جس زبان کو ’ہندوی‘ اور ’ہندی‘ کہا اور جو بعد میں’اردو‘ کہلائی، اس کی ’’اصل‘‘ قدیم ہندی ہی ہے۔کھڑی بولی اسی قدیم ہندی کے بطن سے پیدا ہوئی اور اسی کھڑی بولی  نے اردو کا روپ اختیار کیا۔ اس اعتبار سے قدیم ہندی نو وارد مسلمانوں کی پروردہ ’ہندوی‘ اور ’ہندی‘ کی ماں تصور کی جاسکتی ہے۔ ہم اسے قدیم ترین کھڑی بولی بھی کہہ سکتے ہیں۔ مسعودحسین خاں نے اسے ’قدیم کھڑی‘ اور ’قدیم اردو‘ کے ناموں سے پکارا ہے۔ گیان چند جین لکھتے ہیں کہ ’’کھڑی بولی نہ بیرونی فاتح لے کر آئے، نہ یہ خلا میں پیدا ہوگئی۔ ہندوستان میں اس کی کوئی روایت، کوئی مورث، کوئی آبا و اجداد رہے ہوںگے۔‘‘24؎ظاہر ہے کہ کھڑی بولی کی ’’مورث‘‘ یہی ’قدیم ہندی‘ ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔

شورسینی اپ بھرنش کے خاتمے (1000سنہِ عیسوی) اور فتحِ دہلی(1193) کے درمیان کے تقریباً دوسو سال کے عرصے میں ’قدیم ہندی‘ یا قدیم ترین کھڑی بولی کے جو نمونے دستیاب ہوئے ہیںانھیں ’’اوہٹھ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان میں ناتھ پنتھی جوگیوں کے دوہے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان دوہوں کی زبان میں قدیم ہندی (قدیم کھڑی بولی) کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کے علاوہ ’بیسل دیوراسو‘ اور چندر بردائی کی ’پرتھوی راج راسو‘کے بعض حصے بھی قدیم ترین کھڑی بولی میں ہیں۔ ودیاپتی کی ’کیرتی لتا‘ بھی اسی دور کی تصنیف ہے جس میں قدیم کھڑی بولی کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ متذکرہ عہد کی سب سے اہم تصنیف ’ہیم چندر شبدانوشاسن‘ ہے جو ایک جین عالم ہیم چندر کی لکھی ہوئی قواعد ہے۔ اس میں کئی دوہے ایسے ملتے ہیں جن کی زبان قدیم کھڑی بولی ہے۔ اس میں الف (۱) پر منتہی ہونے والے الفاظ ملتے ہیں جو اردو کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔

شوکت سبزواری کی یہ عجیب منطق ہے کہ وہ شورسینی اپ بھرنش سے ارتقا پانے والی ’’قدیم ہندی‘‘ (=قدیم کھڑی بولی) کو چھوڑ کر قدیم ہند آریائی عہد کی بولیوں کو گرفت میں لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اردو انھیں بولیوں میں سے ایک ہے، اور پالی کو اس کی ترقی یافتہ، ادبی اور معیاری شکل بتاتے ہیں۔‘‘25؎  سبزواری نے اردو کے آغاز کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ بہت مبہم، الجھا ہوا اورایک لحاظ سے غیر منطقی ہے۔ وہ اردو کا آغاز پراکرت اور پالی میں تلاش کرتے ہیں، بلکہ ویدک عہد تک پہنچ جاتے ہیں جو بے سود ہے۔ اردو کا آغاز اس وقت سے ماننا ہوگا جب سے اس زبان کی لسانیاتی خصوصیات (Linguistic features) ابھرنا شروع ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اردو کا ابھار شورسینی اپ بھرنش کے خاتمے (1000سنہ عیسوی) کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے۔ اسے ہم قدیم ہندی بھی کہہ سکتے ہیں اور قدیم کھڑی بولی بھی۔ نووارد مسلمانوں نے، جو دہلی میں 1193کے بعد سکونت پذیر ہوئے، اسی زبان کو ’ہندوی‘ اور ’ہندی‘ کہا۔ مسعود حسین خاں نے اردو کے باقاعدہ آغاز کی تاریخ 1193مقرر کی ہے جو فتحِ دہلی کی تاریخ ہے۔

حواشی

1          حکیم سید شمس اللہ قادری، ’اردوئے قدیم‘ (لکھنؤ: مطبع تیج کمار، 1967)، ص6

2          حافظ محمود خاں شیرانی، ’پنجاب میں اردو‘ (لکھنؤ: نسیم بک ڈپو، لاٹوش روڈ، 1970)، ص99

3          ایضاً، ص 99                     4          ایضاً، ص 84

5          مسعود حسین خاں، ’’پیش لفظ‘‘، ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘، ساتواں ایڈیشن( علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہائوس، 1987)

6          مسعود حسین خاں، ’’اردو زبان کی ابتدا اور ارتقا کا مسئلہ‘‘، مشمولہ’اردو زبان کی تاریخ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ، اضافہ شدہ ایڈیشن(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہائوس، 2007)، ص 88

7          مسعود حسین خاں، ’’پیش لفظ‘‘، محولۂ بالا کتاب

8          سید محی الدین قادری زور، ’ہندوستانی لسانیات‘ (لکھنؤ: نسیم بک ڈپو، لاٹوش روڈ، 1960)، ص95

9          ایضاً،95 10       ایضاً، ص 95         11       ایضاً،ص 97

12       مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 56تا 57

13       ایضاً، ص 236       14       ایضاً، ص 262       15       ایضاً، ص 262

16       شوکت سبزواری، ’اردو زبان کا ارتقا‘ (دہلی: چمن بک ڈپو، اردو بازار، س ن)، ص 104تا 105

17       ایضاً، ص105       18       ایضاً، ص84         19       ایضاً، ص78

20        ایضاً، ص101      21       ایضاً، ص 102

22        شوکت سبزواری، ’’اردو کی اصل اور اس کی ابتدا‘‘، مشمولہ ’اردو لسانیات‘ از شوکت سبزواری، اشاعتِ اول( علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہائوس، 1975)، ص11

23        شوکت سبزواری، محولۂ بالا کتاب (’اردو زبان کا ارتقا‘)، ص 102

24        گیان چند جین، ’لسانی مطالعے‘، پہلا ایڈیشن(نئی دہلی: ترقی اردو بورڈ، حکومتِ ہند، 1973)، ص 176

25        شوکت سبزواری، محولۂ بالا کتاب(’اردو زبان کا ارتقا‘)، ص 105


Mirza Khalil Ahmad Beg

C/o Dr. Asna Ashraf

Ujala Medical Center

B-2247, Indira Nagar

LUCKNOW - 226016 (U.P.)

Mobile: 0 + 6387415501

E-mail: mirzakhalil2012@gmail.com

 

 

سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل تا جون 2021

2 تبصرے:

  1. اردو کی لسانی تاریخ کو اس قدر معروضیت،پر ازدلیل اور سلجھے ہوئے مزاج ومنہاج کے ساتھ پیش کرنا بیگ صاحب کا ہی خاصہ ہے۔۔۔۔۔۔مولا انھیں درازی عمر عطا کریں۔۔۔۔ان سے استدعا ہے کہ بنیادی لسانیات اور قواعد پر اردو کو دو ایک تصانیف سے نوازیں۔۔۔۔تاکہ لسانیات سے شغف رکھنے والوں کی رہنمائی ہو۔۔۔میں ذاتی طور یقینا ان کے ہاتھ سے کسی بھی تحریر کو ایک تحفہ سمجھ کر محفوظ کرتا ہوں۔۔۔ان کی تحریرات سے میں کافی استفادہ کرتا ہوں۔۔۔۔۔اردو دنیا کو ابھی بیگ صاحب کی بہت ضرورت ہے۔۔۔۔ان کا سایہ تا دیر رہے۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں