9/6/21

سرسید احمد خاں کی انشائیہ نگاری - مضمون نگار: محمد علی عالم


 

  انشائیہ نگاری کے ذریعے سرسید نے اہم مقصد اور اس کی تکمیل کے لیے بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید احمدخاں نے کئی مقاصد کی تکمیل کے لیے لندن کے سفرکا ارادہ کیا۔ اس دور تک سرسیداحمد خاں نے ہندوستان میں بسنے والی مسلمان قوم کے باشندوں کو ہی نہیں، بلکہ ملک میں اقتدار پر قابض انگریز قوم کو احساس دلانے کے لیے مختلف کتابیں تصنیف کیں۔  ان کی کتابیں ’تاریخ سرکشی بجنور، اور ’اسباب بغاوت ہند، کی اشاعت سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اس دور کے تقاضوں کے خلاف تحریر کو مقصد سے وابستہ کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ سرسید کے دور تک باضابطہ داستانیں لکھنے کا رواج تھا، جس سے عوام کی دل بہلائی اور ان کی وقت گزاری کے لیے مشغلہ دستیاب تھا۔ جبکہ سرسید نے اپنی تحریروں کو مقصدی بنانے کے لیے یہ کوشش کی کہ ظلم و ستم کے رویے کو روکا جائے۔ اس مقصدی پس منظر میں ’تاریخ سرکشی بجنور‘ اور ’اسباب بغاوت ہند‘ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

سرسید کی مقصدیت کا انداز ان کے تمام انشائیوں میں حددرجہ گہرا نظر آتا ہے۔ اگرچہ سرسید نے تہذیب الاخلاق کے مضامین کو اس صنف کی حیثیت سے پیش نہیں کیا اور اسے کسی قسم کے نام سے بھی وابستہ نہیں کیا، لیکن یہ بات واضح ہے کہ انھوں نے اپنے انشائیوں میں جس قسم کا اسلوب اختیار کیا ہے اور انشائیوں کے مواد میں جن خصوصیات کو شامل کرکے یہ مضامین تحریر کیے ہیں، اس میں موجود مقصدیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ جب انھوں نے لندن کا دورہ خاص مقصد کے لیے کیا اور ولیم میور کی کتاب کے جواب کے طور پر اپنی مشہور کتاب ’خطبات احمدیہ‘ لکھ کر اس کتاب کے ذریعے پیغمبراسلام پر لگائے جانے والے الزامات کا خاتمہ کرکے اس کتاب کو انگریزی میں ترجمہ کروایا اور تمام انگریز عہدیداروںکو یہ کتاب بھجوائی تاکہ پیغمبراسلام کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی کا ازالہ ہوجائے۔ اس اعتبار سے سرسید کی ہر تحریر میں مقصدیت کا عنصر غالب ہے، چنانچہ لندن کے سفر سے لے کر وابستگی تک انھوں نے کوئی بھی کام بغیر مقصد کے انجام نہیں دیا اور واپسی کے بعد باضابطہ اپنے رسالے کو انگریزی ادب کے معر وف مضامین سے آراستہ کردیا، اگر سرسیدکے لکھے ہوئے مضامین جو آج انشائیے کی حیثیت سے اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی تحریروں میں موجود انشاپردازی کے علاوہ مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عصرحاضر میں ادب کی مقصدیت کے سلسلے میں کئی سوالات اٹھائے جاچکے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے زیراثر باضابطہ یہ انداز واضح ہوچکا ہے کہ ادب میں اخلاقیات اور مقصدیت کا اثرکارفرما ہو، تو بلاشبہ ایسا ادب، ادب نہیں، بلکہ پروپیگنڈہ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جس کے تحت یہ بتایا گیا کہ ادب کو تخلیق سے مربوط ہونا چاہیے، بلکہ اسے کسی بھی طرح مقصدیت اور اخلاقیات کا علمبردار نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اس قسم کے تاثرات کے پس منظر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اردو میں سب سے پہلے انشائیہ کی صنف کو فروغ دینے والے سرسید احمدخاں نے اردو ادب میں اس صنف کا آغازکیا، تو اس کے توسط سے مقصدیت کو پیش نظر رکھا۔ اس مقصدیت کا نتیجہ یہ رہا کہ اردو ادب میں اس صنف کی مقبولیت کو فروغ حاصل ہوا۔  غرض حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ سرسید احمد خاں کو اپنے عہد میں سماجی بھلائی کے کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی فطرت میں اصلاحی خصوصیات موجود تھیں، اسی لیے انھوں نے اپنی ہر تحریر کے ذریعے اصلاح معاشرہ اور اصلاح ملک وقوم کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے میں درآنے والے غلط خیالات کی اصلاح اور اردوداں طبقہ میں پھیلنے والے غلط افکار کو دور کرنے کے لیے پوری کوشش کی، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس حوالے سے سرسید کی خدمات اور ان کی مقصدیت کو نمائندگی دی جاسکتی ہے۔ پروفیسر صغیر افراہیم رقمطراز ہیں:

’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی، عظیم رہنما سر سید احمدخاںؒ مرحوم کی ذا ت گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ برصغیر میں مسلم نشاۃ ثانیہ کے ایک بڑے علم بردار تھے اور انھوں نے ہندوستانی قوم میں بیداری اور علمی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انھوں نے ہندوستانی قوم کو جمود سے نکالنے اور انھیں باعزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ وہ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ انھوں نے اپنی قوم کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین ان پر تنگ تھی اور انگریز ان کے خون کے پیاسے ہورہے تھے۔ اُن کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے ان پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ سرسیدؒ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو قوم سائیس، خانساماں، خدمت گار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔‘‘

 (ماہنامہ ’تہذیب الاخلاق‘ جشن سرسید2017، مدیر صغیرافراہیم، ص نمبر325 تا 326) 

اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرسیداحمد خاں نے اپنی زندگی کا مقصد مقرر کرلیا تھا اور انھوں نے اپنی تمام تحریروں کو مقصدیت سے وابستہ رکھا۔ اس اعتبار سے ان کے لکھے ہوئے مضامین جوعصرحاضر میں انشائیے کی حیثیت سے مقبولیت رکھتے ہیں، ان تمام انشائیوں میں باضابطہ طور پرسرسید کے افکار اور ان کی مقصدیت کے ساتھ ساتھ مشرقی تہذیب و شائستگی کی خوبی اور ایشیائی مزاج کی سرگرمی کے ساتھ ساتھ براعظم ایشیا میں بسنے والے باشندوں کی زندگی کی خصوصیت جلوہ گر ہے، جس کے نتیجے میں سرسید کے انشائیوں کو باضابطہ مقصد کی تکمیل کرنے والے انشائیے قرار دیا جائے گا۔ البتہ یہ امر بحث طلب ہے کہ سرسید نے اپنے انشائیوں میں مقصدیت کو پیش نظر رکھا ہے، توعصرحاضر میں لکھے جانے والے انشائیوں میں مقصدیت کو نمائندگی دینا مناسب ہے یا نہیں، اس سلسلے میں بلاشبہ نئی بحث اور اس کے امکانات پر غور کیا جاسکتا ہے سرسید نے بلاشبہ اپنی تحریروں کا مقصد یہی بنایا تھا کہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور مذہب کے نام پر پھیلنے والی جہالت کو دور کیا جائے۔ اس کے علاوہ دوسرے طبقات میں مسلمانوں کے خلاف پیدا ہونے والی بدگمانیوں کو ختم کرنا سرسید احمد کا اولین مقصد تھا۔ اس طرح سرسید تحریک، ان کی تعلیمی تحریک اور علی گڑھ کے قیام سے لے کر تمام سوسائٹیوں کا قیام اور علی گڑھ میگزین کے علاوہ اورینٹل میگزین کے ساتھ ساتھ تہذیب الاخلاق کی اشاعت اوراس کے ذریعے پیش ہونے والے مضامین بھی بے مقصد نہیں تھے۔سرسید کی مقصدیت اور ان کی عملی کوششوں کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

’’سرسید احمد خاں کو ہر لمحہ مسلمانوں کی جہالت، کم مائیگی اور تہذیب و شائستگی سے دوری کی فکر رہا کرتی تھی، اس لیے انھوں نے مذہبی طور پر ان کے اندر سائنسی فکر پیدا کرنے کے لیے قرآن مجید کی تفسیر لکھی اور قرآن و سنت کی صحیح تصویر پیش کرنے کے لیے خطبات احمدیہ لکھی۔ وہ اس بات سے بھی غافل نہیں تھے کہ اگر ولیم میور جیسا کوئی انگریز  The Life of Mohammed  جیسی کتاب لکھ کر ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بدگمانیاں عام کرنا چاہتا ہے تو اس کا جواب دینا بھی کس قدر ضروری ہے۔ سرسید نے اپنی زیادہ تر جائیداد فروخت کرکے اس مقصد سے انگلینڈکا سفر کیا اور وہاں جاکر بنیادی حوالوں کی مدد سے ولیم میور کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اپنے مقصد پر نگاہیں مرکوز رکھنے کے باوجود وہ ہندوستانی مسلمانوں کی اصلاح کی فکر سے وہاں بھی غافل نہیں رہے اور جب ان کو وہاں پتہ چلاکہ ولایت میں بھی توہم پرستی کو دور کرنے کے لیے اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر جیسے اخبار اور رسالے نکلا کرتے تھے تو انھوں نے بھی وہیں یہ طے کرلیاکہ ہندوستان واپس جاکر وہ بھی اپنی ملت کی اصلاح کے لیے کوئی نہ کوئی رسالہ ضرور شائع کریں گے۔ تہذیب الاخلاق کی اشاعت دراصل اسی منصوبے کا حصہ تھی۔ رسالہ تہذیب الاخلاق میں وہ مسلم قوم کی توہم پرستیوں اور جہالت کی صورت حال کو بدلنے سے متعلق مضامین شائع کرنے لگے۔ ان کے بیشتراصلاحی مضامین اس زمانے میں تہذیب الاخلاق میں ہی چھپے مگر سرسید محض اسی پر بس کرنے والے کب تھے، انھوں نے اخلاقی حدپار کی کوششوں کے بعد اپنے غیرمعمولی تعلیمی منصوبے پر سوچنا اوراس سے متعلق عملی اقدامات کرنا شروع کردیے۔ان عملی اقدمات میں مدرستہ العلوم کا قیام تمام چیزوں پر مقدم تھا۔ شروع میں علی گڑھ میں قائم ہونے والا ایک چھوٹاسا مدرسہ یاسکول تھا مگر اس کی بنیاد میں تعلیم کو فروغ دینے کا ایک ہمہ جہت مقصد کرفرما تھا،،

حوالہ(ماہنامہ ’تہذیب الاخلاق‘، جشن سرسید2017 ،مدیر صغیرافراہیم، ص نمبر253 تا254)

اس اقتباس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید نے کسی بھی منصوبے یا پروگرام کے لیے بنیادی مقصد کا تعین کرلیا تھا۔ وہ اصلاح پسند جذبہ کے حامل تھے اور ان کا مقصد مشرقی تہذیب کو اہمیت دینا اور ملی جلی تہذیب کی خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے دوبڑی قوموں میں اتحاد پیدا کرکے ان کی تعلیمی اور ذہنی ترقی کے لیے اہم کام انجام دینا تھا، مسلم معاشرے میں تیزرفتاری کے ساتھ پھیلنے والی توہم پرستی اور مذہب کے نام پر روایات اور اعتقادات کو فروغ دینے سے روکنا بھی سرسید کے مقاصد میں داخل تھا۔ اسی طرح سرسید نے ہندوستان کی سرزمین میں مسلمانوں کے ذریعے انگریزوں کے بارے میں نفرت اور اس قوم کے رویے کو نظرانداز کرتے ہوئے مضامین لکھے اور انھیں ’تہذیب الاخلاق‘ میں شائع کیا، اس لیے اگر ’تہذیب الاخلاق‘کے انشائیوں کو مقصدی رویے کا حامل قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ غرض ہندوستان کی سرزمین میں سرسید احمد خاں نے اپنے قلمی جہاد کے توسط سے انشائیہ نگاری کی بنیاد رکھی۔


Mohd Ali Alam

Reseach Scholar, Dept. of Urdu

University of Mysore

Village: Lal Parsa

Post: Bahri Bankatwa

West Champaran - (Bihar)

Mob.: 6205246947

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں