11/6/21

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کے تحقیقی و تنقیدی کارنامے - مضمون نگار: ہمایوں اشرف



شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ان کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے بیک وقت تحقیق، تنقید،تذکرہ، ترجمہ، افسانہ اور ناول جیسی صنفِ ادب میں طبع آزمائی کی۔وہ عمیق مطالعے و مشاہدے اور متنوع تجربات و احساسات کے مالک تھے۔ ان کا تعلق ایک بنگالی براہمن خاندان سے تھااس لیے ان کی مادری زبان بنگلہ تھی۔ لیکن تعلیم و تعلم کے سلسلے میں انھوں نے اردو زبان کو ہی اختیار کیا تھا۔ اس لحاظ سے شانتی رنجن گنگا جمنی تہذیب کی اس روایت کے امین تھے جس کی پاسداری راجہ رام نارائن موزوں،دیا شنکر نسیم،پنڈت برج نارائن چکبست، فراق گورکھپوری، گیان چند جین اور مالک رام وغیرہ کرتے رہے تھے۔شانتی رنجن بھٹا چاریہ بنگالی نژاد تھے لیکن اردو زبان سے انھیں خاص انسیت تھی۔ موصوف اردو کے بڑے بہی خواہ تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’نہ صرف مغربی بنگال بلکہ ہندوستان کے وہ تمام علاقے جہاں جہاں اردو بولنے والوں کی دس فیصد آبادی ہے وہاں اردو کو ریاستی زبان کا قانونی حق ملنا چاہیے۔ ‘‘

شانتی رنجن بھٹا چاریہ نے اردو اور بنگلہ ادب میں متنوع کام کیے ہیں۔ میری نگاہ میں ان کے تحقیقی و تنقیدی کاموں کی وقعت ہے۔ وہ در اصل تحقیقی ذہن کے مالک ادیب تھے۔ بنگال میں اردو کو لے کر انھوں نے کافی سروے کیا اور اس سلسلے میں اعداد و شمار جمع کرنے میں اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ ڈاکٹرالف۔ انصاری نے ایک موقع پر ان کے بنگال کے ادب سے رغبت کے متعلق استفسار کیا تو اس ضمن میں موصوف نے جواب میں فرمایا تھا:

’’بنگال میں ’بنگال کے ادب‘ پر جتنا اچھا کام ہو سکتا ہے اس سے بہتر کام بنگال سے باہر کے ادب پر نہیں کیا جا سکتا او رپھر بنگال میں اتنے موضوعات ہیں کہ دوسری طرف مڑ کر دیکھنے اور سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ اگر میں صرف بنگال کے ادب پر کام کروں تو یہاں کے ادب کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ تنہا اسے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا۔‘‘ (نثر نگاران بنگالہ، مرتبہ:ڈاکٹر الف۔ انصاری،ص449)

یہاں میرا مقصد بنگال میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کے چند تحقیقی و تنقیدی کارناموں پر روشنی ڈالنا ہے۔ شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی ایک کتاب ’اردو ادب اور بنگالی کلچر‘کو مغربی بنگال اردو اکادمی نے پرنٹ ویل آفسیٹ،میکلیوڈ اسٹریٹ کلکتہ سے 1982 میں شائع کر کے اکادمی کے دفتر سندری موہن ایونیو کلکتہ14سے جاری کیا۔ یہ کتاب مصنف نے بنگلہ دیش میں ایک خادمِ اردو جناب شعیب عظیم کے نام معنون کیا ہے۔

زیر نظر کتاب پانچ تحقیقی مضامین پرمشتمل ہے۔ پہلے مضمون میں اردو اور بنگلہ زبان کے باہمی رشتے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اس مضمون میں مصنف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو اور بنگلہ دونوں جدید زبانیں ہیں اور دونوں کا ادب بھی جدید ادب ہے۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح اردو اور بنگلہ میں بھی الفاظ سنسکرت، پالی، پراکرت، اپ بھرنش، عربی، فارسی، ترکی، چینی، انگریزی وغیرہ سے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر آریائی نسل کی زبانوں  جیسے تلگو، تمل،کنڑ اور ملیا لم وغیرہ سے بھی الفاظ ان میں شامل ہو ئے ہیں۔کچھ الفاظ آدی باسی اور قبائیلی زبانوں کے بھی ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جن کی اصل(Origin)  کا اب تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔ ان الفاظ میں سیکڑوں ایسے الفاظ ہیں جو خود اردو اور بنگلہ میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور خالص اردو یا خالص بنگلہ کے الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ایک عرصے تک فارسی کے ہندوستان کی سرکاری زبان رہنے کے سبب بنگلہ اور اردو دونوں زبانوں پر عربی اور ترکی کے مقابلے میں فارسی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگرچہ اردو کے مقابلے میں بنگلہ میںعربی اور فارسی کے الفاظ کم شامل ہوئے ہیں۔یہ بھی واقعہ ہے کہ مغلوں کے زمانے سے لے کر انگریزی دورِ اقتدار کے ابتدائی دنوںتک ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہی رہی تھی۔لیکن جب ان کی حکومت مستحکم ہو گئی اور کچھ لوگوں نے کام چلانے کے لائق انگریزی سیکھ لی تب انگریزوں نے فارسی کو سرکاری دفاتر اور عدالت سے ہٹا کر پہلے دیسی زبانوں کونا فذکیا اور پھر چند سالوں کے بعد1844 میں فارسی کو پورے ملک کی عدالتی اور سرکاری کام کاج کی زبان سے ہٹا کر انگریزی کو نافذکر دیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مغلوں کے عہد میں سرکاری کام کاج میں بنگلہ کا کوئی مقام نہیں تھا اس لیے فارسی کے جیسی بنگلہ کی ترقی نہیں ہو سکی۔ لیکن جب چند برسوں کے لیے بنگلہ کو بنگال کی عدالتوں اور دفاتر میں رائج کیا گیا تو ایسی لغت کی ضرورت پیش آئی جس میں فارسی کے عدالتی اور دفتری الفاظ کے متبادل تلاش کیے جا سکیں۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر جئے گوپال ترکالنکار نے جو فارسی بنگلہ لغت تیار کی وہ 1838 میں شائع ہو کر منظرِ عام پر آئی۔ مصنف نے بنگلہ زبان کی موجودہ شکل وصورت پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا ہے کہ گر چہ آج بنگلہ زبان کے دامن سے عربی و فارسی کے وہ سیکڑوں الفاظ جو انیسویں صدی میں رائج تھے اب خارج ہو چکے ہیں پھر بھی سیکڑوں عربی و فارسی کے الفاظ کو اس نے اپنا بھی لیا ہے۔ انھوں نے کئی ایسے الفاظ کے نمونے پیش کیے ہیں جو تھوڑی سی شکل و صورت یا تلفظ کی تبدیلی کے ساتھ اس وقت بنگلہ میں مستعمل ہیں۔ انھوں نے دونوں زبانوں کے ڈھیروں الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ آج نہ صرف بنگلہ کے کتنے ہی الفاظ،محاورے اور کہاوتیں نہ صرف اردو زبان میں مستعمل ہیں بلکہ اردو کے بھی سیکڑوں الفاظ، محاورے اور کہاوتیں بنگلہ زبان میں رائج ہیں۔

اس کتاب کے دوسرے مضمون میں مصنف نے اردو شاعری پر بنگلہ کلچر کے اثرات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔مصنف کا خیال ہے کہ بنگلہ ایک ترقی یافتہ زبان ہے جو ایک عظیم کلچر کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔یہ ا دبی زبان کے علاوہ  ایک علاقائی زبان بھی ہے اس لیے اس میں لوک گیت اور لوک کہانیاں بھی شامل ہیں جس کی اردو میں بے انتہا کمی ہے۔ اس کی وجہ اردو کا شہری کلچر ہے۔ لیکن دیگر زبانوں کے ساتھ اردوکے رشتے کے استحکام کے ساتھ اس کے ادب کا فروغ بھی تیزی سے ہوتا چلا گیا۔مصنف اردو شاعری پر بنگلہ ثقافت کے اثرات کی بازیافت کے عمل میں لکھتا ہے کہ اس کی ایک وجہ تو اردو میں بنگلہ ادب کے وہ تراجم ہیں جو نند لال شیل، ناگیندر ناتھ بنرجی، پربھات چندر مکھرجی،عبدالحلیم شرر، مرزا جعفر علی خاں اثر لکھنوی، محمد یونس احمر، پرویز شاہدی،وفا راشدی، پروفیسر احسن احمد اشک وغیرہ جیسے بنگلہ اور اردو کے ادیبوں  نے کیے۔اردو پر بنگلہ تہذیب و تمدن کے اثرات کی ایک دوسری وجہ تلاشِ روزگار کے سلسلے میں اردو کے شعرا و ادبا کا ہندوستان کے دیگر علاقوں سے آکر بنگال میں قیام یا مشرقی پاکستان (مشرقی بنگال)میں ہجرت کا عمل بھی کہی جا سکتی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ اگر غالب  اور داغ دہلوی کو مستثنیٰ بھی سمجھ لیں جو وقتی طور پر یہاں آئے تھے تو پرویزشاہدی،جمیل مظہری اور ساجد ابروی جیسے شعرا کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جنھوں نے پورے انہماک اور جذبے کی صداقت کے ساتھ بنگلہ تہذیب و تمدن کے موتیوں سے اپنے شعری گلشن کو سجایا اور اردو ادب کو ٹیگور اور نذر الاسلام کی فکری و فنی عظمت سے روشناس کرایا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ ایک سرگرم محقق تھے۔ اردو اور بنگلہ کی تہذیبی روایات کے رشتے کی تلاش میں وہ کئی ذرائع سے کام لیتے ہیں۔ ان کے آبا و اجداد مشرقی بنگال کی سر زمین سے ہی آکر ہندوستان کے کلکتہ ا ور حیدرآباد میں بس گئے تھے اس لیے نہ صرف مشرقی بنگال کے جغرافیہ کا انھیںواضح علم تھا بلکہ وہاں کی تہذیب و تمدن سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ انھیں یو پی، بہار اور مغربی بنگال سے مشرقی پاکستان جاکرآباد ہو جانے والے اردو کے ادیبوں کے مسائل کا بھی علم تھا جن کا رشتہ بنگلہ تہذیب و تمدن سے ہمیشہ ہموار نہیں رہا تھا۔تاہم وہ اردو کے ان مخلص، روشن خیال اور ترقی پسند ادبا  و شعرا کی اس کاوش کو لائقِ تحسین قرار دیتے ہیںجومشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کی بقا اور فروغ کی خاطر اسے قومی زبان کا درجہ دیے جانے کے مطالبے کو نہ صرف جائز سمجھ رہے تھے بلکہ اس کی تحریک کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا۔ ڈھاکہ کے شعیب عظیم کے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’جب بنگلہ زبان کی تحریک چلی تو مشرقی بنگال کے اردو ادیبوں اور شاعروں نے حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی۔ بنگلہ زبان کو سرکاری زبان بنانے کی تحریک کی حمایت کی اور اس مہم کو مزید تقویت دینے کے لیے اپنے دستخط بھی کیے۔ ڈاکٹریوسف حسین، صلاح الدین محمد، پروفیسر بانو اختر شہود، پروفیسر امِ ِعمارہ اور حسن سعید وغیرہ نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سلسلے میں اردو بولنے والے جیل تک گئے۔ انجمن ترقی اردو مشرقی پاکستان کا مرکزی انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی سے اسی بنا پر اختلاف ہو گیا۔ یہاں تک نو بت پہنچی کہ مرکزی انجمن سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ یہاں کی انجمن ترقی اردو نے اپنے لیٹر پید پر بنگلہ زبان کو بھی نمایاں جگہ دی۔انجمن ہمیشہ بنگالی اور اردو ادیبوں کو قریب سے قریب تر لانے کے لیے کوشاں رہی۔اردو کی چند دیگر انجمنیں بھی اسی نہج پر کام کرتی رہیں جن میں دبستانِ فکر و نظر،انجمن ادب اور مجلسِ ادب وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔.......جب 1958  میں مارشل لا آیا تو مغربی پاکستان سے آواز اٹھی کہ صرف اردو کو سرکاری زبان بنایا جائے۔ اس وقت صلاح الدین محمد مشرقی پاکستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر تھے انھوں نے بیان دیا کہ دستورِ پاکستان 1956 کی رو سے یہ بات طے ہو چکی ہے کہ پاکستان کی دو سرکاری زبانیں ہوں گی اردو اور بنگلہ… اگر طے شد ہ مسئلے کوپھر اٹھایا گیا تو میں صرف بنگلہ زبان کا مطالبہ کروں گا۔‘‘

(اردو ادب اور بنگالی کلچر،ص 61-62)

زیرِ نظر مضمون سے اس حقیقت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اردو شعرو ادب میں بنگلہ تہذیب و تمدن کی عکاسی عام شعرا و ادبا کے مقابلے میں اردو کے ترقی پسند ادبا  و شعرا کے یہاں زیادہ نمایاں اور حقیقی نظر آتی ہے۔ مضمون نگار نے نمونے کے طور پر ایسے اردو شعرا کے کلام سے نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ ان شعرا نے اپنے کلام میں مشرقی بنگال کے سماجی اور سیاسی حالات کی روشنی میں اپنے تجربات کے اظہار کے علاوہ وہاں کے قدرتی مناظر اور آب و ہوا، پھل پھول، سبزی وترکاری، دھان، پاٹ، مچھلی،  چائے،پان، رس گلے،تہوار،پوجا پاٹ،ناچ رنگ اور میلے ٹھیلے وغیرہ کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

زیرِنظر کتاب کا تیسرا مضمون بنگلہ دیش کا اردو ادب او ربنگالی کلچرکی تحقیق پر محیط ہے جس کا مقصد یہ دریافت کرنا رہا ہے کہ قیام پاکستان کے دنوں سے سقوط ِڈھاکہ کے 24 سال کے عرصے میں مشرقی بنگال نے اردو کو کیا دیا ہے اور بنگلہ دیش کے وجود کے بعد اس نئے ملک میں اردو کا کیسا نیا ادب ابھرا ہے۔ مضمون نگاراس نئے ملک میں اردو زبان و ادب کے ساتھ بنگلہ کلچر کی جس ہم آہنگی کی باز یافت کرتا ہے وہ تضاد،تحیر اور اجنبیت کے درمیان ایک خوش گوار رشتے کے احساس سے معمور ہے۔اس کا خیال ہے کہ بنگال کی تہذیب،خاص کر دیہاتی تہذیب اردو ادب کے لیے نئی چیز رہی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اردو کے اہل قلم جب اس نئی سر زمین پر پہنچے تو یہاں کی آب و ہوا،زبان،غذا، رہن سہن،رسم و رواج اور طور طریقے انھیں اجنبی محسوس ہوئے۔ لیکن ان سے اردوا دب کو بے حد فائدہ بھی ہوا۔ نئے الفاظ نے جہاں اردو زبان کے دامن کو مالا مال کیاوہیں نئی تہذیب سے اردو ادب کی شناسائی نے اردو ادیبوں کے لیے بصیرت کے نئے دروازے کھولے۔ مضمون نگار کا خیال ہے کہ نئے ماحول، آب و ہوااور نئی تہذیب و تمدن سے ہم آ ّمیزی کے سبب یہاں جو نیا اردو ادب وجود میں آیا اردو ادب کے نقادوں نے اس کا اس طرح استقبال نہیں کیا جس سے اس کی قدر و قیمت کا تعین ہو پاتا۔ حیرت ہوتی ہے کہ بنگلہ ادب کے نقاد ہر نئے فن کار پر نظر رکھتے ہیں۔ بنگلہ تہذیب کے اثر ات قبول کرنے کے نتیجے میں اردو ادب کی جو نئی صورت ابھری مضمون نگار اس کاذکر کرتے ہوئے لکھتا  ہے:

’’مشرقی بنگال کے ادبا وشعرا نے بھی اردو ادب کو نئی زمین اور آسمان کی باتوں،نئی تہذیب و تمدن کی باتوں،نئی داستان، نئے اچھوتے کردار،نئے مناظر،اور بالکل ہی نئے دن رات عطا کیے ہیں۔ہر چیز نئی ہو تو اندازِبیان بھی بدل جاتا ہے۔ان نئی چیزوں کا ذکر خیر کرنے کے لیے نئے الفاظ عالمِ وجود میں آتے ہیں۔اس طرح اردو کے خزانۂ الفاظ میں بنگلہ زبان سے کئی الفاظ آگئے۔نئی علامتوں اور نئی تشبیہوں سے اردو کے فن کاروں کو کام لینا پڑا۔ ہم ان تمام نئی چیزوں کو اردو ادب میں ’رنگِ بنگالہ‘ کہہ سکتے ہیںاور اس ادب کو ’بنگال اسکول کا ادب‘ قراردے سکتے ہیں۔ ‘‘(ایضاً،ص 135)

اردو ادب میں یہ نئی تبدیلی شعر و ادب کی شعری و نثری دونوں اصناف میں ظاہر ہوئی۔ شعرا میں یہ نیا رنگ احسن احمد اشک، نوشاد نوری، اور اختر حمید خاں اختر وغیرہ کے کلام میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ نثری ادب میںاس تہذیب کا گہرا اثر فضل احمد کریم فضلی،سلیم اﷲفہمی ؔ،اظہر قادری اور حیدر صفی وغیرہ کی تخلیقات میں نمایاں نظر آتا ہے۔ اس نئی تہذیب کے اثرات نے مخمور اکبر آبادی کی’مشرق ِتاباں‘ اور احسن احمد اشک کے ’جاگتے جزیرے‘ کی نظموں،فضلی کے ناول’ خونِ جگر ہونے تک‘ اور حیدر صفی کی ’مادام‘ کی تخلیق کو ممکن بنایا۔ان کے علاوہ مثنوی سِرُّالاسرار،مصنف ڈاکٹر خواجہ معین الدین جمیل،  احسن احمد اشک  اور یونس احمر کے ذریعے بنگا لی زبان کے چند مسلم شعرا کے کلام کا اردو  ترجمہ’انتخابِ کلام ِمسلم شعراء بنگال ‘ کے عنوان سے،اختر حمید خاں اخترکے کلام کا مجموعہ ’چراغ اور کنول ‘ریاض الدین حیدرریاض کے دو مجموعہ ٔ کلام ’بازگشت‘ اور’گل بانگ‘ احمد احسن اشک کا ’برق و باراں‘، پروفیسر حسن عظیم آبادی کی غزلوں، نظموں، رباعیوں اور قطعات کا مجموعہ ’زمستاں‘ اسرار پریم نگری کا مجموعہ کلام ’اجزائے پریشاں‘ اور ’ضیائے صبح‘، شاہین غازی پوری کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ’رگِ ساز‘مخمور اکبر آبادی کی پانچ ایسی نظموں پر مشتمل مجموعہ جو خصوصی طور پر مشرقی بنگال کے حوالے سے کہی گئیں ’مشرقِ تاباں‘ اشک بنارسی کا مجموعہ کلام ’روحِ شاعر‘، مشرقی بنگال کی انقلابی شاعری کااردو ترجمہ ’آہنگِ انقلاب‘ اس میں 29 بنگالی شعرا کی منتخب ایک ایک نظم کا ترجمہ اور ساتھ ہی بنگلہ رسم الخط میں اصلی نظمیں بھی شامل ہیں۔  ان کے علاو ہ تحقیقی، تنقیدی اور ادبی تصانیف کے حوالے سے بھی اس عہد کا دامن خالی نظر نہیں آتا۔ لیکن 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد صورتِ حال میں نمایاں تبدیلی پائی جاتی ہے۔سقوطِ ڈھاکہ کے بعد زیادہ تر اردو ادبا و شعرا  بدلے ہوئے حالات میں بنگلہ دیش سے یا تو پاکستان ہجرت کر گئے یا اپنے سابق وطن ہندوستان لوٹ گئے۔

کتاب کے اگلے مضمون میں مضمون نگار نے ل۔احمد اکبر آبادی کی ادبی خدمات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ل۔احمد اکبر آبادی کی ادبی حیثیت ہمہ جہت ہے۔ وہ بہ یک وقت افسانہ نگار، مقالہ نویس، نقاد،محقق،اور مترجم کے طور پر معروف رہے ہیں۔ انھوں نے بنگال کی تہذیبی زندگی کو اپنے افسانوں میں بخوبی پیش کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں بنگال کی زندگی کی حقیقی عکاسی ملتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں بنگلہ زبان کے جو الفاظ استعمال کیے ہیں اس سے اردو زبان و ادب کا دامن وسیع ہوا ہے۔          

مصنف نے کتاب کے آخری مضمون میں بنگال کی سر زمین سے تعلق رکھنے والے دو ناولوں کا بھی جائزہ پیش کیا ہے۔ان میں ایک ناول فضل احمد کریم فضلی کا ناول ’خون جگر ہونے تک‘ ہے اوردوسرا  ناول ہے قرۃ العین حیدر کا ’آخرِ شب کے ہمسفر ‘۔مصنف کا خیال ہے کہ ان دونوں ناولوں میں بنگالی کلچر کو جس حسن و خوبی سے پیش کیا گیا ہے اس کی نظیر اردو ادب میں اور کہیں پائی نہیں جاتی۔ مصنف کے خیال سے نہ صرف اتفاق لازم ہے بلکہ اس کے پیش کردہ مطالعے کا حاصل اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ مضمون نگار نے تحقیق کے ہر مرحلے میں جس ایمانداری، محنت لگن اور جانفشانی سے کام لیا ہے اس نے اس کے مطالعے کے نتائج کو قابلِ قدر بنا دیا ہے۔

بنگال میں اردو زبان و ادب‘شانتی رنجن بھٹا چاریہ کے نو تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ 1976 میں یہ مجموعۂ مضامین، نصرت پبلشرز، لکھنؤ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ زیر نظر کتاب میں جو مضامین شامل ہیں، ان کے عنوانات ہیں اردو میڈیکل تصانیف کا پہلا مصنف، چند یوروپین مصنّفین اردو اور ان کی تصانیف، بعض کمیاب اخبارات و رسائل، اردو طبی تصانیف، بنگال میں  غالب کے شاگر، معتقدین اور مخالفین، تذکرۂ شاعرات، انیسویں صدی میں شائع شدہ مجموعہ ہائے کلام، اردو صحافت کے دو سو سال اور’حجاب :ایک طوائف، ایک شاعرہ‘۔ یہ تمام تحقیقی مضامین ان کی کھوج بین فطرت استدلالی اور معروضی زاویۂ نظرکے بین ثبوت ہیں۔ ان مضا مین میں انھوں نے اپنی تحقیق کو مدلل اور معروضی انداز میں مستند حوالوں کے ساتھ پیش کیاہے۔اردو میڈیکل تصانیف کا پہلا مصنف، چند یوروپین مصنّفین اردو اور ان کی تصانیف، بعض کمیاب اخبارات و رسائل، اردو طبی تصانیف، بنگال میں  غالب کے شاگر،معتقدین اور مخالفین، انیسویں صدی میں شائع شدہ مجموعہ ہائے کلام اور ’حجاب:ایک طوائف، ایک شاعرہ‘بعض نئے مواد اور مبسوط محاکمے کی وجہ سے فکر انگیز اور قابل لحاظ مضامین ہیں، جن کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔

ان کی ایک اور عمدہ تحقیقی تصنیف ’بنگالی ہندوئوں کی اردو خدمات‘ ہے۔ یہ کتاب 1964 میں پہلی بار زیور طبع سے آراستہ ہوئی اور ادبی حلقے میں کافی پسند کی گئی۔ شانتی جی کی اس کتاب پر سابق صدر جمہوریۂ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین نے بھی چند تعریفی کلمات تحریر کیے جو اس کتاب میں شامل ہیں۔ اس قابل قدر تحقیقی کتاب پر شانتی رنجن بھٹا چاریہ کو رابندر ناتھ ٹیگور ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ زیر نظر کتاب میں محقق نے ان بنگالی ہندو ادبا و شعرا کی اردو خدمات سے روشناس کرایا ہے جن کی مادری زبان تو بنگلہ تھی لیکن ان لوگوں نے اردو ادب کے فروغ میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ یہ کتاب ان بنگالی دانشوروں کی اردو خدمات پر محیط ہے جو بنگال میں مختلف اوقات میں اردو کی ترقی اور ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل رہے۔ اس گراں قدر تحقیقی تصنیف کی بدولت ہی ان کی شناخت محقق کی حیثیت سے ہوتی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ہی بعض لوگوں نے اس موضو ع پر کئی تحقیقی مقالے قلم بند کیے۔ اسے یقینا تحقیق کا ایک عمدہ نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ میری نگاہ میں تو یہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ہے۔

مختصرتاریخ ادب بنگلہ‘(جلد اوّل وجلد دوم)بھی شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی وقیع تحقیقی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1975 میں انجمن ترقی اردو ہند، دہلی سے شائع ہوئی۔ اس میں بنگلہ ادب کی تاریخ کو نہایت اختصار و جامعیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ بنگلہ ادب کے ارتقائی سفر کو جاننے کے لیے یہ آج بھی ایک انتہائی اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔

شانتی رنجن جی کی ایک اور اہم تحقیقی کاوش ’کلکتہ میں اردو کا پہلا مشاعرہ اور پرنس ولسن کا یادگار مشاعرہ‘ ہے۔ واضح رہے کہ آزادی سے قبل سرزمین بنگال پر اس اولین کل ہند طرحی مشاعرے کا انعقاد ہوا تھا جس میں وحشت کلکتوی، سالک لکھنوی، پرویز شاہدی، شمس عظیم آبادی، ابراہیم ہوش، نواب دہلوی، جرم محمد آبادی، رضا مظہری، نوح ناروی، محمد قاسم میکش، اسحاق لکھنوی، محضر لکھنوی، دل لکھنوی، حیرت الٰہ آبادی، زخمی لکھنوی، سید محمود طرزی، سحر لکھنوی، واصف بنارسی، ذکی لکھنوی، بے خود دہلوی، قمر صدیقی اور عبد الباری آسی جیسے باکمال استاد شعرا مدعو کیے گئے تھے۔ اس مشاعرے کے لیے جو مصرعۂ طرح دیا گیا تھا وہ ہے         ؎

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

مصنف کی اطلاع ہے کہ اس مشاعرے کا افتتاح اے کے۔ فضل الحق کے ہاتھوں ہوا تھا اور صدارت کے فرائض خواجہ ناظم الدین نے انجام دیے تھے۔ لیکن بعض لوگوں نے شانتی جی کی اس اطلاع کو غلط قرار دیا ہے۔ بہر طور اس تاریخی مشاعرے کا انعقاد 13جنوری 1941 کو پرنس ولسن کی رہائش گاہ پر ہوا تھا۔

شانتی رنجن نے اپنی ایک اہم کتاب’غالب اور بنگال‘ میں مرزا غالب کے سفر کلکتہ اور قیام کلکتہ کی روداد کو اجمال کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب 1977 میں منظر عام پر آئی او رعلمی و ادبی حلقوں میں بنظر استحسان دیکھی گئی۔ ان کی ایک اور تحقیقی تصنیف ’آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو‘ ہے، جس میں انھوں نے سرزمین بنگال سے شائع ہونے والی کتب، اخبارات اور رسائل و جرائد سے متعارف کرایا ہے۔

ان کی ایک اور وقیع کتاب ’اقبال، ٹیگور اور نذرل،تین شاعر، ایک مطالعہ‘ 1978 میں اشاعت پذیر ہوئی۔ شانتی رنجن نے اس میں بنگلہ زبان کے دو عظیم شاعر رابندر ناتھ ٹیگور، نذر الاسلام اور اردو کے علامہ اقبال کی شخصیت اور فن کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔

تذکرہ شعرائے ٹالی گنج‘ مطبوعہ 1993 میں انھوں نے ماضی کے ایک مشہور و معروف اردو مرکز ٹالی گنج کے نامور شعرا و ادبا کے احوال و آثار اور نمونۂ کلام کے علاوہ وہاں کی تاریخی عمارات و مقامات کا خاکہ پیش کیا ہے۔

’’اردو اور بنگال، آزادی کے بعد بنگال میں صحافت، خواتین بنگال کی اردو خدمات، تذکرہ تصانیف بنگلہ، رابندر ناتھ ٹھاکر:حیات و خدمات اور’آفتاب علم و ادب ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی:حیات و خدمات‘ا ن کی وہ تحقیقی و تنقیدی کتابیں ہیں جن پر گفتگو لازمی ہے۔ مقالے کی طوالت کے سبب فی الوقت ان سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔

شانتی رنجن بھٹا چاریہ لسانی تحقیق سے بھی شغف رکھتے تھے۔ ماہر لسانیات ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی کی صحبت میں بیٹھنے کے سبب اس میدان میں ان کی دلچسپی بڑھی۔ اس حقیقت کا اعتراف خود انھوں نے ان الفاظ میں کیا ہے:

’’لسانیات سے جو کچھ میری دلچسپی ہے، اس کی اصل وجہ مرحوم ڈاکٹر سنیتی کمار چٹر جی سے میرے گہرے تعلقات تھے۔ اور مجھے اس کا شرف حاصل ہے کہ تقریباً دس سال تک ان کے قریب رہا ہوں۔ ان کی محبت نے مجھ جیسے نا لائق میں بھی لسانیات کا کچھ ذوق پیدا کر دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج اس موضو ع پر کچھ لکھنے کی ہمت کر بیٹھا۔ ‘‘

شانتی رنجن نے باقاعدہ ایک کتاب تحریر کر کے ڈاکٹر سنیتی کمار چٹر جی کی حیات و خدمات سے اردو والوں کو متعارف کرانے کا کارنامہ انجام دیا۔ علاوہ ازیں ان کے دس مقالات پر مشتمل کتاب ’مغربی بنگال کی زبانوں سے اردو کا رشتہ‘ ہے جو دراصل لسانیات پر مبنی ان کا ایک قابل قدر کارنامہ ہے۔ لسانی موضوعات پر خامہ فرسائی بہت کٹھن کام ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ شانتی رنجن اس دشوار گزار کام کو بھی پختگی اور تیقن کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں۔

شانتی رنجن بھٹا چاریہ نے اردو، بنگلہ اور مغربی بنگال کی علمی ادبی، صحافتی، تاریخی، سماجی اور سیاسی تناظرات کا محاسبہ اور محاکمہ کرتے ہوئے جو کتابیں تصنیف کیں ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی یہ کتابیں مستقبل کے محققین اور مؤرخین ادب کو چراغ راہ دکھاتی رہیں گی۔

 

Dr. Humayun Ashraf

P.G, Department of Urdu

Vinoba Bhave University

Hazaribagh-825301(Jharkhand)

Mob:09771010715

Email: dr.h.ashraf@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2021 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں