11/6/21

اردو ہندی کا باہمی رشتہ - مضمون نگار: عبدالحفیظ

 



  تلخیص

اٹھارہویں صدی تک اردو اور ہندی میں تفریق نہیں ملتی۔ رسم الخط کے فرق کے ساتھ ہندوی، ہندی، اردوے معلی، ہندوستانی وغیرہ مختلف ناموں سے مسلسل ارتقاپذیر رہی، انیسویںصدی کے شروع میں فورٹ ولیم کالج کے زیراثر اس میں نمایاں فرق سامنے آیا۔ ہندی اور اردو کی تفریق کی بنیاد انگریزوں نے ڈالی۔انگریزوں کے، اردو کو مغلوں کی پیدا کی ہوئی زبان اور ہندی کو ہندوئوں کی زبان، قرار دینے کے باوجود اردو شعروادب میں مشترکہ کلچر کی ترجمانی اور سیکولر روایات کی پاسداری کا وصف ہردور میں برقرار رہا۔

اردو اور ہندی کی ابتدائی تاریخ مشترک ہے۔ دونوں کی بنیاد کھڑی بولی پر قائم ہے۔ قدیم اردو پر پنجابی اور ہریانوی کے گہرے اثرات ہیں تو قدیم ہندی پر برج اور اودھی کا رنگ غالب ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اردو اور ہندی کو بھگتوں اورصوفیوں نے سہارا دیا۔ شاعروں اور ادیبوں نے تخلیقی توانائی عطا کی۔ گرونانک، نام دیو، کبیر اور امیرخسرو جیسے عظیم بھگتوں اور صوفیوں نے اس کی سرپرستی کی توسورداس، محمدقلی قطب شاہ، ولی، میرامن اور نظیر جیسے بے شمار شاعروں اور ادیبوں نے اس مشترکہ زبان کی آبیاری میں حصہ لیا۔

ایک لمبے عرصے تک ساتھ ساتھ سفرکے بعد آج اردو اور ہندی دو جداگانہ زبانوں کے طورپر ارتقا پذیرضرور ہیں۔ دونوں کی ادبی روایت بھلے ہی مختلف ہیں۔مگر دونوں کا لسانی اشتراک ان کے بنیادی رشتوں کی مضبوطی کی دلیل ہے۔ دونوں میں مصوتوں کی مکمل ہم آہنگی ہے۔ مصمتوں کا اشتراک بھی نوے فی صد تک ہے۔ صرفی و نحوی ڈھانچا ایک سا ہے۔ افعال اور مرکبات کا نظام مشترک ہے۔ محاوروں اور کہاوتوں میں بھی مکمل اشتراک و اتحاد ہے۔ اس لحاظ سے اردو اور ہندی ایک دوسرے کی معاون زبانیں ہیں جن میں جڑواں بہنوں کا رشتہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کی طاقت ہیں...

کلیدی الفاظ

اردو، ہندوی، ہندی، ہندستانی،دہلوی، گجری، دکنی، ریختہ، اردوئے معلی، فورٹ ولیم کالج، مشترکہ تہذیب، لسانیاتی اشتراک، افعال، مرکبات، محاورات، شمس الرحمن فاروقی،  ڈاکٹر رام آسرا راز،   موہن داس کرم چند گاندھی،  امرت رائے،  ڈاکٹر گیان چندجین،  ڈاکٹر تاراچند، گوپی چند نارنگ، سجا د ظہیر،  ڈاکٹر مسعود حسین خاں،  حافظ محمود شیرانی،  ڈاکٹر حکم چند نیر

اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ ابتدائی دور میں اردو زبان کا نام ہندوی، ہندی اور ہندستانی تھا۔ اس کے علاوہ دہلوی، گجری، دکنی، ریختہ، زبانِ ہندوستان اور اردوئے معلی کے نام سے بھی اس کو یاد کیا جا تا رہا۔ اسے اردو زبان کا نام اٹھارہویں صدی کے اواخر میں دیا گیا۔ مشہور و معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی کی مدلل تصنیف ’’اردو کا ابتدائی زمانہ ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو‘‘  کے متعدد مستحکم دلائل سے پایہ ثبوت تک پہنچا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

اردو‘ کا استعمال اٹھارویں صدی کے ربع آخر کے پہلے نہیں ملتا۔ زبان کے نام کے طورپر اس لفظ(اردو) کی ز ندگی غالباً ’زبان اردو ے معلا ے شاہجہاں آباد‘ کی شکل میں شروع ہوئی۔ اور اس سے مراد تھی’ شاہجہاں آباد کے شہر معلیٰ/قلعہ معلّی/دربار معلّی کی زبان‘۔ ایسا لگتا ہے کہ شروع شروع میں اس فقرے سے ہماری اردو زبان نہیں،بلکہ فارسی مراد لی جاتی تھی۔ مرور ایام کے ساتھ یہ فقرہ مختصر ہو کر ’’زبان اردو ے معلّی، پھر ’زبان اردو‘، اور پھر ’اردو‘ رہ گیا۔‘‘1؎

ماہرین ِزبان کی اکثریت کے مطابق اردو ایک جدید ہندآریائی زبان ہے اور اس کی اصل کھڑی بولی ہے جو دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی میں دہلی اور مغربی اترپردیش کے بیشتر علاقوںمیں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ کھڑی بولی پر مسلم حکمرانوں کی زبانوں نے گہرا اثر ڈالا۔ تیرہویںصدی تک کھڑی بولی فارسی، عربی، ترکی اور نواح دہلی کی دیگر بولیوں کا اثر قبول کرکے ایک نئی زبان بن گئی تھی، جس کے ابتدائی نمونے امیرخسرو کے کلام میں ملتے ہیں۔اگلی تین صدیوں میں اس کا ارتقا گجرات و دکن میں ہوا۔ اٹھارہویں صدی تک یہ زبان عوامی رابطے کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ شعروادب کی ایک منفرد زبان کے طورپر مستحکم ہو گئی۔ اس وقت تک شمالی ہندوستان میں اردو کے علاوہ برج اور اودھی ترقی یافتہ زبانیں ضرور تھیں اور ان میںشعروشاعری کی روایت بھی مو جو د تھی۔

اٹھارہویںصدی عیسوی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان میں انگریزوں کا عمل دخل شروع ہوا۔ انھوںنے ہندوستان پر قبضہ جمانے کا منصوبہ بنایا جس کے لیے انھوں نے سازشیں کرنا شروع کیں۔ کلکتے میں فورٹ ولیم کالج قائم کرکے زبان کے جھگڑے کی بنیاد رکھی،  اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر انگریزوں کی گرفت مضبوط ہوگئی تو انہوں نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی حکمت عملی کو اپنی حکومت کی بنیاد بنایا۔  برطانوی حکام نے جب یہ محسوس کیا کہ یہاں کی دونوں بڑی قومیں باہم شیر و شکر ہو کر ان کے خلاف بر سر پیکار  ہو نے کے لیے پر تول رہی ہیں اوریہاں کی مقامی زبانیں جو سیاسی بیدا ری کا  وسیلہ ہیں  باغیانہ اظہار کی علامت بن کر پیش رفت کر رہی ہیں تو انھوں نے زبانوں کے خلاف بھی سازشیں شروع کردیں۔ اولاََنام کا سہارا لے کر ہندی کو ہندوؤں کی قدیم زبان اور اردو کومسلمانوں کی زبان سے موسوم کیا۔ آگے چل کر انگریزوں نے ہی اپنی سازشوں کے تحت اردو ہندی تنازع کھڑا کیا۔ اس جھگڑے کی تفصیل میں جائے بغیر اردو اورہندی کا تاریخی پس منظر بتا نا زیادہ ضروری معلوم ہو تا ہے جس سے دو نوں کے مستحکم رشتے کی روایت کا پتہ چل سکے۔

 اردو کا تاریخی پس منظر

شمالی ہندوستان میں مسلم حکومت کا قیام، تہذیبی اور لسانی نقطۂ نظر سے ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔ غزنوی بادشاہوں نے گیارہویںصدی عیسوی کے اوائل میں پنجاب میں حکومت قائم کی جو تقریباً دوسو سال قائم رہی۔ اس عرصے میں مسلمان سارے پنجاب میں پھیلے ہوئے تھے جن میں سے بیشتر کی زبان فارسی تھی اور کچھ ترکی بولنے والے بھی تھے۔ اس میل جول کے نتیجے میں پنجاب میں بولی جانے والی قدیم پنجابی پر مسلمانوں کی زبان کا گہرا اثر پڑا اور پنجابی کی ایک جدید اور ترقی یافتہ شکل سامنے آئی۔ اسی بنیاد پرحافظ محمودشیرانی نے اردو کی جائے پیدائش پنجاب ہونے کا دعویٰ کیا۔ یہ دعویٰ صحیح یا غلط ہو سکتا ہے مگر پنجابی کا فارسی سے متاثر ہونا حقیقت ہے۔

پنجاب میں تقریباً دوسو سال قیام کے بعد مسلم حکمرانوں نے دہلی کا رخ کیا جو بعد میں اقتدار کا مرکز بن گئی۔ دہلی سلطنت کے قیام سے نواح دہلی کی بولیاںمسلمانوں کی زبان سے متاثر ہوئیں۔ اب حکمراںطبقے کی زبان فارسی بھی خالص نہیں تھی بلکہ اس میں پنجابی کی آمیزش ہوچکی تھی۔ دہلی اور نواح ِدہلی کی دو نوں بولیاں کھڑی اور ہریانوی پہلے مرحلے میں اور بعد کے مرحلے میں برج بھاشا اورپنجابی آمیز فارسی سے متاثر ہوئیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ اثر قبول کرنے والی بولی، کھڑی بولی تھی جو سوسال کے عرصے میں نئے رنگ وروپ میں سامنے آئی۔ حکمراں طبقے نے اسی زبان میںعوام سے روابط مستحکم کیے۔ حکمرانوں کی سرپرستی کے سبب یہ زبان ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اہمیت کی حامل ہوگئی اور رفتہ رفتہ عوامی رابطے کی زبان بن گئی۔ علاء الدین خلجی کے فتح ِدکن کے ساتھ یہ زبان دکن پہنچی اور دکن کے مختلف لسانی علاقے میں رابطے کی زبان بننے کے ساتھ شعروادب کی زبان بھی بن گئی۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو کا بنیادی ڈھانچہ کھڑی بولی کا ہے جس پر پنجابی، ہریانوی اوربرج بھاشا کے اثرات نمایاں ہیں۔ چونکہ فارسی کے زیراثر کھڑی بولی نے اپنا رنگ و روپ بدلا اس لیے فارسی اس کے خمیر میں شامل ہوگئی۔ یہی سبب ہے کہ اردو کے ذخیرئہ الفاظ کا پچھتّر فیصد سے زائد سرمایہ ہندوستانی ہے صرف ر سمِ خط کی بنیاد پر اردو کی نمایاں شناخت اس کی فارسیت بتائی جاتی ہے۔

کھڑی بولی اپنے نئے رنگ وروپ میں ابتدائی دور میں ہندوی،ہندی اور دہلوی کہلائی۔ گجرات میںگجری اور دکن میں دکنی کہی گئی۔ دکن میں کھڑی بولی اردو اس لیے بھی اپنی جگہ بنا نے میں کامیاب ہوئی کہ اہل دکن نے فارسی سے قصداََپرہیز کیا۔ چنانچہ دکن میں اردو کے ارتقا کے تقریباً تین سو سالہ دور میں اس زبان پر ہندوستانی عناصر کا غلبہ رہاہے۔ اٹھارہویںصدی میں جب یہ زبان پھرسے شمالی ہند پہنچی تو یہاں کے شعرا  نے اس کی صفائی کی۔ صفائی یا اصلاح زبان کے اس عمل میں اردو کو اس کے خمیر سے جوڑا گیا یعنی اردو میں فارسی کا نمک تیز کیاگیا۔ اس کے باوجود اردو کا پچھتّر فی صد ہندوستانی پن اپنی جگہ قائم رہا اور زبان شعری اظہار کے لیے زیادہ چست و درست ہوگئی۔ مغلوں کے دور میں برج بھاشا بھی فارسی سے متاثر ہوکر نئے ذائقے کے ساتھ شعری و ادبی زبان بن گئی۔ اس طرح فارسی کی چاشنی سے لبریز دو متوازی شعری دھارے بیک وقت بہنے لگے۔ ایک کھڑی بولی اردو کا اور دوسرا برج بھاشا کا دھارا۔ مرکز سے دورپورب میں ایک تیسرا دھارا اودھی کا بھی تھا۔

جب کھڑی بولی اردو، فارسیت سے دامن بچاتے ہوئے دکن میں پروان چڑھ رہی تھی تو اس وقت شمالی ہندوستان میں برج بھاشا، فارسی اثرات قبول کرکے یہ زبان عوامی رابطے کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ شعروادب کی ایک منفرد و مستند زبان کے طورپر مستحکم ہو گئی۔ اورپھر جب شمال و جنوب ایک ہوگئے تو کھڑی بولی اردو کا دھارا آگے چل پڑا۔

ہندی کا تاریخی پس منظر

ہندی اور اردو ایک ہی قبیلے کی زبانیں ہیں دونوں کی بنیاد ایک ہے۔ یہ دونوں کھڑی بولی کے دو روپ ہیں۔ ابتدا سے اٹھارہویںصدی عیسوی تک ہندی اردو کا فرق محسوس نہیں کیا جاسکتاتھا۔ زبان کا نام یا رسم الخط کاکوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اٹھارہویںصدی میں دونوں کا فرق محسوس کیا جانے لگا۔ یہ فرق سنسکرت اور فارسی کے گہرے اثر اور رسم الخط سے نمایاں ہوا۔ چونکہ کئی سوسال تک ہندوستان میں فارسی کا بول بالا رہا اس لیے جدید ہندوستانی زبان پر فارسی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ یہ اثر سب سے زیادہ کھڑی بولی پر پڑا۔ اس کے بارے میں مولوی عبدالحق بجا طور پر لکھتے ہیں :

’’کئی صدی سے فارسی کی تعلیم کا رواج عام تھا۔ یہ کسی ایک مقام سے مخصوص نہ تھا بلکہ بنگال، بہار، دوابہ، پنجاب، گجرات، دکن، مدراس سبھی جگہ یہ رائج تھی، ہمارے اخلاق و آداب، طور طریقے، نشست و برخاست، طرز کلام وغیرہ پر فارسی کا اثر صاف نظر آتا تھا اور یہ سب مسلمانوں ہی پر موقوف نہ تھا۔ ہندو مسلمان سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ بات بات پرفارسی امثال اور جملے، سعدی و حافظ، رومی و جامی یا خسرو کے اشعار بے ساختہ زبان سے نکل جاتے تھے۔ گلستاں بوستاں، دیوانِ حافظ، یوسف زلیخا، سکندر نامہ اور شاہ نامے کا پڑھنا قومی شعار ہوگیا تھا۔ ہر گھر میں یہ کتابیں نظر آتی تھیں۔ اس وقت کے ہندو مصنفین کے یہاں بھی وہی طرزِ بیان وہی طرزِ تحریر شعری اصطلاحات تو کیا حدیث و نصِّ قرآن تک بے تکلف لکھ جاتے۔ اس زمانے کی کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ کسی مسلمان کی لکھی ہوئی نہیں ہے۔ قومی یگانگت میں تہذیب کی یکسانی کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ ‘‘ 2؎

جب فارسی کا زور کم ہوا تو ہندوستان کی قدیم ترین زبان سنسکرت کا اثر تیز ہونے لگا۔ اسی کے ساتھ دیوناگری رسم الخط کا چلن بھی بڑھا۔ اس طرح فارسی رسم الخط میں فارسی آمیز کھڑی بولی، اردو کہلائی اور دیوناگری رسم الخط میں سنسکرت آمیز کھڑی بولی نے ہندی کا نام پایا۔

انیسویںصدی سے پہلے ہندی کی شکل میں برج اور اودھی میں لکھا گیا ادب موجود تھا۔ شری کرشن جی کی جنم بھومی متھرا اور اس کے آس پاس کاعلاقہ برج بھاشا کا مرکز تھا۔ فارسی سے متاثر ہونے کے باوجود برج بھاشا پر حاوی اثر سنسکرت کا تھا۔ کرشن بھگتی کے نغمے برج میں لکھے گئے۔ اسی لیے برج نے متھرا اور آگرہ کی سرحد پار کرکے پریاگ، کاشی اور اجودھیا کے راجاؤں کے درباروں تک جا پہنچی۔ برج کے اہم مصنفوں اور شاعروں میں سورداس، مغل شہنشاہ اکبر، عبدالرحیم خان خاناں، رسکھان کیشو، چنتامنی، بھوشن، متی رام وغیرہ رہے۔مذہبی جذبات کی ترجمانی کرنے کے سبب برج بھاشا کا دائرہ وسیع ہوااور ترقی کرتی رہی۔

برج کے علاوہ ہندی کی قدیم شکل اودھی بھی ایک خاص عقیدت کی ترجمانی کرتی رہی۔ اودھی کامرکز رام چندرجی کی جنم بھومی اجودھیا کا علاقہ تھا۔ تلسی داس نے اپنا عظیم کارنامہ ’رام چرترمانس‘ اودھی میں پیش کیا۔ ملک محمدجائسی کی پدماوت کو بھی اودھی کے شاہ کاروں میں شمار کیا جاتاہے۔اودھی میں لکھے گئے پریم مارگی شاعروں کے تخلیقی کارنامے اور برج میں بھگتی کال اور ریت کال کے شعرا کے کارنامے، ہندی زبان و ادب کی تاریخ کا قابل قدر حصہ ہیں۔ مذہبی نقطۂ نظر سے برج اور اودھی کو مقدس زبانوں کی حیثیت حاصل رہی۔ سجادظہیر نے اسی بنیاد پر کہا ہے کہ ’’ہندو تصورات و ادب کا ایک نرمل دھارا مسلمانوں کے عہدحکومت میں بھی بڑی شان و شوکت سے بہتارہا۔‘‘

 اردو ہندی کی تفریق میں فورٹ ولیم کالج کا رول

انگریز افسروں کو ہندوستانی زبان اور تہذیب سے واقف کرانے کے لیے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیاگیا۔ 1800 میں قائم ہونے والے اس کالج میں ہندوستانی زبان کے صدر ِشعبہ ڈاکٹرجان گلکرسٹ تھے۔ انگریزوں کو تعلیم دینے کی غرض سے کالج میں قصے کہانیوں کی کئی کتابیں لکھوائی گئیں، زیادہ تر کتابیں دوسری زبانوں سے ترجمہ کی گئیں۔ اس طرح اردو نثر کی ترقی میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات کا ہر کوئی معترف ہے۔ مگر اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کالج کو انگریزوں نے اپنے سامراجی اور نوآبادیاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ کالج کے ذریعے لسانی تفریق کا بیج بویا۔ سامراجیوں نے دیکھاکہ ہندوستان میں مختلف علاقائی بولیوں کے درمیان فارسی کو مرکزیت حاصل ہے۔اس نے ہندوستانیوں کو زبان و تہذیب کے ایک اتحاد میں باندھ رکھا ہے۔ تو انھوں نے مشترکہ تہذیب کے اس اتحاد کو توڑنا ضروری سمجھا۔ اس مقصد کے لیے مشترکہ عوامی زبان یعنی اردو کو فارسی سے جوڑکر اسے مغلوں کی زبان قرار دیا۔ دوسری طرف دیوناگری رسم الخط میں سنسکرت آمیز کتابیں بھی لکھوائیں۔ ان کتابوں کے ذریعہ کھڑی بولی کے ایک ایسے طرز کو عام کیا جو سنسکرت آمیز ہونے کے سبب مشترکہ عوامی زبان سے مختلف تھا۔ یہیں سے برطانوی حکام اردو اور ہندی کی دو الگ الگ راہیں متعین کروانے میں کامیاب ہوئے۔ مشترکہ زبان میں تفریق کے اس عمل کے نتائج کو ڈاکٹررام آسرا راز نے اس طرح بیان کیاہے:

’’اس سے پہلے اردو ہندی کی ملواں زبان کے جو نمونے ملتے ہیں ان میں عربی، فارسی اور سنسکرت کے ملے جلے الفاظ کے استعمال سے وہ اجتناب نہیں پایا جاتاتھا جو بعد کی دونوں مخصوص زبانوں میں عموماً پایا جانے لگا۔ ناسخ کی تحریک اصلاحِ زبان نے اردو فارسی الفاظ کی کثرت کا رجحان تو پیدا کرہی دیاتھا، للولال کی پریم ساگر نے ہندی میںسنسکرت الفاظ کی بھرمار کے رجحان کو اور بھی زیادہ شہ دی۔ رفتہ رفتہ دونوں زبانوں میں یہ قابلِ افسوس رجحانات اس حدتک بڑھتے گئے کہ ہندی والے عربی فارسی کے عام فہم الفاظ کے استعمال سے گریز کرنے لگے اور اردو والوں کو سنسکرت کے تدبھو، یعنی ترمیم شدہ الفاظ جو اردو کی سرشت میں رچ بس گئے تھے، کا استعمال بھی ناگوار گزرنے لگا۔‘‘3؎

فورٹ ولیم کالج نے علاقائی زبانوں کو بڑھاوا دینے کی آڑ میں لسانی تقسیم اور مذہبی منافرت کو بھڑکانے کا کام کیا۔ انگریزوں کی یہی لسانی پالیسی تعلیمی زبان کے سلسلے میں بھی کارفرما رہی۔ لارڈمیکالے کی سفارش پر نچلی سطح پر ہندوستانی زبانوں کو اور اعلیٰ سطح پر انگریزی کو ذریعۂ تعلیم قرار دیاگیا۔ علاقائی زبانوں کو فروغ دینے کے بہانے انگریزی زبان کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش تھی۔ ان کی یہ کوشش بھی آگے چل کر کامیاب ہوئی۔

ہندی ہندوؤں کی اور اردو مسلمانوں کی زبان ہونے کی غلط فہمی

زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں زبانوں کو مذہب سے جوڑنے کا کام سامراجی قوتوں اور تقسیم کی سیاست نے کیا۔ ہم آئے دن مشاہدہ کرتے ہیںکہ ہندوستان کے تمام ہندوؤں کی زبان ہندی نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح اردو تمام ہندوستانی مسلمانوں کی زبان نہیں۔ بنگالی ہندو اور مسلمان دونوں کی زبان بنگلہ ہے۔ کرناٹک اور تمل ناڈو کے مسلمان کنڑ اور تمل بولتے ہیں۔ اگر زبان کا کوئی مذہب ہوتا تو دنیا بھر میں جتنے مذاہب ہیں اتنی ہی زبانیں ہوتیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہندوستان کی جدیدآریائی زبانوں پر مسلمانوں کی فارسی، ترکی اور عربی کا اثر پڑا۔ اس اثر سے یہاں کی زبانوں میں خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اس کے باوجود کسی ایک آریائی زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ کسی زبان کے بولنے والوں میں ایک خاص مذہب کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو اور دوسرے مذاہب کے لوگ کم ہوں۔

اردو اور ہندی ہندوستان کی جدیدآریائی زبانیں ہیں ان کی مشترکہ طورپر مختلف مذہب کے ماننے والوں نے آبیاری کی۔ بول چال میں استعمال کرنے کے علاوہ شعروادب کی تخلیق میں بھی ہندومسلم کی کوئی تفریق نہیں رہی۔ قدیم دور پر نظر ڈالیں تو اودھی میں ملک محمدجائسی کی پدماوت، شیخ عثمان کی چتراولی، برج بھاشا میں عبدالرحیم خان خاناں اوررس کھان جیسے بہت سے شعرا اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہیں۔ اسی طرح قدیم و جدید دور کے بے شمار ہندو شاعر و ادیب بھی اس الزام کی تردید کرتے ہیںکہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ مثال کے طورپر لالہ ٹیکارام تسلی، لالہ کانجی مل صبا، جسونت سنگھ پروانہ، راجارام نرائن موزوں، منشی گھنشیام لال عاصی، پنڈت دیاشنکرنسیم، پنڈت برج نرائن چکبست، فراق گورکھپوری، پریم چند، کرشن چندر، اپندرناتھ اشک جیسے بے شمار غیرمسلم شاعروں اور ادیبوں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

اسی طرح کئی ہندو ادیبوں نے فارسی زبان کی مشہور و معروف تصنیفات کے اردو میں ترجمے کیے۔ جیسے مول چند منشی نے شمشیر فانی اور فردوسی کے شاہنامے کا اردو میں منظوم ترجمہ کر کے اردو ادب میں رزمیہ نظموں کااضافہ کیا۔ طوطا رام شایا ںنے مہابھارت منظوم کے علاوہ امیر حمزہ منظوم معروف بہ طلسم ِشایاں اور الف لیلہ منظوم لکھیں۔ منشی لالتا پرشاد شفیق نے ـ’’بہار شفیق کے نام سے چہار درویش کا منظوم ترجمہ کیا۔دیوان جانی بہاری لال راضی رئیس ِآگرہ کی تصنیفات گلستاں بوستاں اور انوار سہیلی اردو میں شائع ہو چکی ہیں۔ منشی ما تاپرشاد نیستاں نے فسانۂ عجائب کو نظم کیا۔ اردو ہندی کو مذہبی رنگ دینے کا کام ایک سازش کے تحت پہلے انگریزوں نے اور بعد میں کچھ اہل سیاست نے بھی اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے کیا۔

انیسویںصدی کے شروع میں فورٹ ولیم کالج کے قیام سے حصول آزادی تک تقریباً ڈیڑھ سو سال کے عرصے کو کچھ لوگ بھلے ہی ہندی اور اردو کے مسابقت کا دور کہتے ہوں مگر اکثریت نے دونوں کے گہرے رشتے کو ہی سراہا اور اس کی تائید کی۔ کچھ اقتباسات اور بیانات درج ذیل ہیں جس سے ہمارے نقطئہ نظر کی تائید ہو تی ہے۔  اقتباسات ملاحظہ ہوں:

مہاتما گاندھی کی رائے

’’ہندی بھاشا میں اسے کہتا ہوں جسے اتر میں ہندو اور مسلمان بولتے ہیں اور جو دیوناگری یا اردو لکھاوٹ میں لکھی جاتی ہے… ہندوستان کے اتری حصہ میں مسلمان اور ہندو دونوں ایک ہی بھاشا بولتے ہیں۔ فرق صرف پڑھے لکھوں نے پیدا کیاہے۔ یعنی پڑھے لکھے ہندو، ہندی کو سنسکرت بھری بنا ڈالتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بہت سے مسلمان اسے سمجھ نہیں پاتے۔ لکھنؤ کے مسلمان بھائی فارسی لدی اردو بول کر اسے ایسی شکل دے دیتے ہیں کہ ہندو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ دونوں غیرزبانیں ہیں اور عام جنتا کے بیچ ان کی کوئی جگہ نہیں۔‘‘............’’ہندوستانی کا مطلب اردو نہیں بلکہ ہندی اور اردو کی وہ خوبصورت ملاوٹ ہے جسے اتری ہندوستان کے لوگ سمجھ سکیں اور جو ناگری یا اردو لکھاوٹ میں لکھی جاتی ہو۔ یہ پوری راشٹربھاشا ہے، باقی جو کچھ ہے وہ ادھورا ہے۔ پوری راشٹربھاشا سیکھنے والوں کو اب دونوں ہی لکھاوٹیں سیکھنی چاہئیں۔ راشٹر پریم کا ٹھیک یہی تقاضاہے۔‘‘4؎

سجادظہیر کا موقف:

’’ناسخ اور اس زمانے کے شعرا نے اردو کو صاف کرنے کا جو بیڑا اٹھایا تھا اس کا مقصد یہ ہرگز نہ تھاکہ ٹھیٹھ ہندی یا سنسکرت آمیز الفاظ کو ترک کردیا جائے۔ ان کی کدو کاوش کا مدعا الفاظ اور محاوروں کا صحیح اور مناسب استعمال تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جملوں کی بندش سست اور ڈھیلی نہ ہو۔ اور یہ ایک بہت ضروری کام تھا۔ اگر انھیں ٹھیٹھ ہندی الفاظ سے نفرت ہوتی تو ان میں سے ایک نے رانی کیتکی کی کہانی نہ لکھی ہوتی۔ جس میں فارسی، عربی اور گنوار الفاظ کو ترک کرکے گویا خالص اردو یا ہندی لکھی گئی ہے۔

تیسرے یہ کہ اردو میں فارسی اور مروّجہ عربی الفاظ کے استعمال سے وطن سے مغائرت کا جذبہ ظاہر نہیں ہوتا۔ آٹھ سوسال سے شمالی ہندوستان میں فارسی کلچر کی سب سے بڑی زبان تھی۔ اب جو لوگ، ان میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی شامل ہیں، اپنے اس آٹھ صدی کے تہذیبی ترکے کو ہندستان کی کھڑی بولی میں شامل کرتے ہیں۔ایسا ترکہ جواب بالکل ہندستانی بن گیا تھا، وہ اردو میں غیرملکی فضا پیدا کرنے کے مجرم کس طرح کہے جاسکتے ہیں؟  انھوں نے تہذیب و تمدن کے ُان شاندار درختوں کو جو صدیوں سے یہاں کی سرزمین میں پھل پھول رہے تھے۔ اردو کے نئے لگائے ہوئے باغ میں منتقل کرکے ہمارے کلچر کو مالامال کیا۔ اس کا ثبوت،کہ یہ ایک فطری اور ضروری عمل تھایہ ہے کہ اردو کے بعض ہندو اساتذہ کے کلام میں مسلمانوں کے مقابلے میں فارسیت زیادہ نمایاں ہے۔ مثلاً لکھنؤ کے پنڈت دیاشنکر نسیم کی مثنوی گلزارنسیم، میرحسن کی مثنوی سحرالبیان کے مقابلے میں زیادہ فارسی آمیزہے۔

کھڑی بولی میں فارسی اور فارسیت کی آمیزش اس عہد میں اتنی ہی فطری اور لا بُدی تھی جتناکہ کیشوداس، دیو اور بھوشن کی برج بھاشا میں سنسکرت کی آمیزش۔ دونوں اپنے اپنے روایتی تہذیبی مرکز سے کسب ِفیض کرکے اپنی اپنی زبانوں کا دامن وسیع کر رہے تھے۔‘‘9؎

اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ جدیدہندی نے کھڑی بولی کا ڈھانچہ لیا لیکن اس میں ان الفاظ، بندشوں اور ترکیبوں کو اور خیالات اور ادبی روایات کی روح پھونکی جو ہندو تہذیب کے زیراثر صوبوں سے اودھی، برج بھاشا اور شمالی ہند کی دیگرعوامی بولیوں میں (مثلاً بریلی، راجستھانی، میتھلی) میں برابر موجود تھیں اور جن کا مسلسل ارتقا ہورہا تھا۔ مسلمانوں کے عہدحکومت میں اس میں زبردست تیزی آئی اور خود مسلمانوں نے اس کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ وہ عوام جو شمالی ہند کے گاؤں، گاؤں میں کبیر کے دوہے، تلسی کی رامائن، میرابائی اور سورداس کے گیت آلھا اور اودل سننے اور سمجھنے کے عادی تھے۔ وہ طبقے جو برج بھاشا کی زبردست اور زندہ ادبی تحریک کو تین سو سال تک برابر آگے بڑھاتے رہے تھے، ان تمام لوگوں کے لیے جدید ہندی، فرقہ پرستی یا تنگ نظری کی پیداوار نہ تھی، وہ ان کے تہذیبی ارتقا کا منطقی نتیجہ تھی۔

مشترکہ تہذیب کی ترجمانی

اردو زبان و ادب گنگاجمنی تہذیب کی پیداوار ہے۔ اردو کو ہندی سے الگ کرکے دیکھنامناسب نہیں۔ اردو ہندی کی قدیم تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ دونوں ہی نے مشترکہ تہذیب کو پروان چڑھایا۔ عربی، فارسی اور سنسکرت کے عالم امیر خسرو درویش صفت ماہر موسیقی تھے اور مقامی زبانوں سے انھیں خاص شغف تھا۔ ان کے کلام میں کھڑی بولی اور فارسی الفاظ کی آمیزش جابہ جا نظر آتی ہے۔ اسی لیے انھیں بیک وقت ہندی اور اردو دونوں زبانوں کا پہلا شاعر تسلیم کیا جا تاہے۔  ادبی و تہذیبی لین دین کے سبب مشترکہ ادبی و تہذیبی روایات پروان چڑھتی رہیں۔ مثال کے طورپر اردو کی شعری اصناف یعنی غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ وغیرہ فارسی سے ماخوذ ہیں تو بارہ ماسہ، گیت اور دوہے ہندی سے لیے گئے ہیں۔ جدیدہندی شاعری میں غزل کی صنف اپنا لی گئی ہے۔

ادبی اور تخلیقی رویوں پر غور کریں تو اردو ہندی میں تشبیہات و استعارات اور تلمیحات و کنایات میں ہندایرانی کلچر کی ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ چنانچہ رام کے ساتھ رحیم، مکہ و مدینہ کے ساتھ کاشی، متھرا، ہری دوار، حور و ملائک کے ساتھ کرشن کی گوپیاں، رستم کے ساتھ ارجن، دجلہ و فرات کے ساتھ گنگا و جمنا، عید کے ساتھ ہولی و دیوالی، گل و لالہ کے ساتھ گلاب اور چنبیلی کے تہذیبی حوالوں نے اردو اور ہندی ادب کو اتحاد کے رشتے میں باندھاہے۔ مثال کے طورپر مختلف عہد کے شعراکے یہ اشعار بطورِ نمونہ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہو ں     ؎

اے صنم تجھ جبیں اُپریہ خال

ہندوئے ہر دوار باسی ہے

تجھ عشق میں جل جل کر سب تن کوں کیا کاجل

یہ روشنی افزا ہے انکھیاں کوں لگاتی جا

 

(ولی)

کہا رام جی کی ہے تم پر دیا

چندرما سا مالک ترے ہوئے گا

کچھ ایسا نکلتاہے پوتھی میں اب

خرابی ہو اس پر کسی کے سبب

 

(میرحسن)

جھگڑا نہ کوئی مذہب و ملت کا کرے یاں

جس راہ میں جو آن پڑے خوش رہے ہر آں

زنار گلے یا کہ بغل پیچ ہو قرآں

عاشق تو قلندر ہے نہ ہندو نہ مسلماں

کافر نہ کوئی صاحب اسلام رہے گا

آخر وہی اس کا اک نام رہے گا

 

(نظیر اکبرآبادی)

سمت کاشی سے چلا جانب متھرابادل

برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

گھر میں اشنان کریں سروتدان گوکل

جاکے جمنا میں نہانا بھی ہے اک طول امل

 

(محسن کاکوروی)

 شاعری کے علاوہ اردو کے ابتدائی زمانے کے ڈرامہ نویسوں نے اپنے ڈراموں اور ناٹکوں میں ہندو دیو مالا سے کثرت سے استفادہ کیا ہے۔ہندوؤں کے مذہبی قصّوں اور روایتوں کو ڈرامائی شکل میں پیش کرنے میں واجد علی شاہ اختر پیش پیش رہے ان کی منظوم ڈرامے کی شکل میں لکھی ہو ئی رادھا اور کرشن کی لیلا بہت مشہور ہوئی۔امانت کی ’اندر سبھا‘کااصل قصہ بھی ہندو دیو مالا سے ماخوذ ہے۔اسی طرح بیتاب دہلوی کے ’مہا بھارت‘ آغا حشر کاشمیری کے ’سور داس‘، ’سیتا بن باس‘ اور گنگا ترن وغیرہ میں ہندوستانی عناصر کا بول بالا ہے۔ غزلوں اور ڈرامے کے علاوہ رباعیوں پر بھی مقامی ماحول کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اردو رباعی کو ہندی دوہوں اور چوپائیوں نے بے حد متاثر کیا۔ میر تقی میر اور مرزا اسداللہ خاں غالب کی یہ رباعیاںبطور مثال ملاحظہ ہوں       ؎

راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے

مائل دل کو تنک فضا پر رکھیے

بندوں سے کچھ کام نہ نکلااے میر

سب کچھ موقوف اب خدا پر رکھیے

 

(میر تقی میر)

دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب

دل رک کے بند ہو گیا ہے غالب

وللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں

سونا سو گند ہو گیا ہے غالب

 

(مرزا غالب)

غزل، ڈرامے اوررباعیوں کی طرح اردو کی بہت سی مشہور ومعروف مثنو یوں میں نہ صرف ہندو دیو مالا سے استفادہ کیا گیا ہے بلکہ اُن کے مذہبی قصوں اور روایتوں پر ہی اِن کا انحصار ہے۔گیت کو عموماََ ہندی ادب کا سرمایہ سمجھا جا تا رہا ہے مگر اس سے متا ثر ہو کر اردو شعراء نے بھی وقتی تقاضوں کے مطابق مختلف موضوعات پر کثرت سے گیت لکھے ہیں اور آج تو فلمی گیتوں کی مقبولیت نے زبان میں ہندی، اردو کی تمیز کو بھی ختم کر دیا۔گیت لکھنے والوں نے کھڑی بولی، برج بھاشا، عربی اور فارسی کے الفاظ بلا دریغ استعمال کیے۔ اور گیت کی بحروںکے  قید کی پرواہ بھی نہ کی۔گیتوں کی زبان جو دونوں اسکرپٹ میں لکھی جاتی ہے لسانی ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔جیسے یہ گیت ملاحظہ ہو    ؎

اس بھیڑ میں کیسے درشن ہو

میں شُدر سا اک بھٹکا راہی

آیا ہوں دیتا پریم دُہائی

ڈر ہے کسی سے آج نہ تیرے کارن مجھ سے اَن بَن ہو

اس بھیڑ میں کیسے درشن ہو

ہم دیکھنا چاہیں دیکھ نہ پائیں

بھیڑ میں بھی گھُس کر پچھتائیں

تو ہی بتا یہ شُودر کریں کیا اونچوں کا جب شاسن ہو

اس بھیڑ میں کیسے درشن ہو...                     (ڈاکٹر مسعود حسین)          

لسانی اشتراک

دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو کی وسعت اور بقا کی ضمانت کا راز اس کی ہمہ گیری اور اپنے گرد و نواح کی زبانوں او ر بولیوں کے الفاظ کو اپنانے اور اپنے اندر جذب کرنے میں ہے۔ جو اس کے وجود میں آنے کا سببِ خاص بھی رہا ہے۔ اسی فطری اصول کے تحت وہ آج بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ روزِ اول سے ہی اردو زبان ہندوستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں سے ہم آغوش ہوتی رہی ہے۔اور عربی، فارسی، سنسکرت، ہندی حتی کہ انگریزی کے الفاظ سے اس کی رفاقت رہی۔ جس کے سبب اس کے ذخیرۂِ الفاظ میں وسعت ہو تی رہی۔ ساتھ ہی اس کی قبولیت کا دائرہ بھی بڑھتا رہا۔یہا ں تک کہ اردو سبھی کو اپنی زبان لگنے لگی۔سنسکرت کے کچھ ایسے قدیم الفاظ جو اردو میں مستعمل ہیں اور ان کی قدامت کا گمان تک نہیں ہو تا بطورِ مثال پیش ہیں جیسے: پر جا، سورج، راجا، رانی، روگ، سماج، سیٹھ، کانا، گوپی، گیان، مورتی، نگر، ناٹک، نیچ، گھمنڈ، گپت، یگ اور یودھا وغیرہ

اردو اور ہندی میں ادبی و تہذیبی سطح پربھلے ہی فرق ہومگر لسانی سطح پر ان میں جڑواں بہنوں جیسی قربت ہے۔دونوں کی گرامر میں ہم آہنگی،نحوی، صرفی، صوتی اور لٖفظی سطحوں پر یکسانیت اس کا بیّن ثبوت ہیں۔ بنیادی رشتے :جیسے ماں، باپ،، دادا، دادی، نانا، نانی،تایا، تا ئی،بھائی، بھابی، بہن، بہنوئی، بیٹا، بیٹی، بھتیجا اوربھتیجی وغیرہ،  بنیادی اعضاے جسم : جیسے سر، آنکھ، گال، کان، ناک، ہونٹ، منہ، گردن، کندھا، ہاتھ، پائوں، چھاتی، کمر اور پیٹ وغیرہ،،  بنیادی ضمائر:  جیسے میں، ہم، تم، وہ وغیر،بنیادی افعال : جیسے آنا، جانا،کرنا، کھا نا، پینا، چلنا، مارنا، پیٹنا وغیرہ،گنتی کے الفاظ جیسے ایک، دو، تین، چار، چھ، بارہ، بائس، پچیس وغیرہ، جانوروں کی آوازوں کے لیے مستعمل الفاظ جیسے شیر کا دہاڑنا، ہاتھی کا چنگھاڑنا، گھوڑے کا ہنہنا نا، کتے کا بھونکنا،کوئل کی کو کو، کبوتر کی غٹر غوں،کوے کی کائیں کائیں، مرغ کی ککڑوںکوں وغیرہ اسی طرح رہائش گاہوں کے مخصوص نام: جیسے فوج کی چھاؤنی،سادھو کی کُٹیا، بادشاہ کا محل، فقیر کا تکیہ، غریب کی جھونپڑی وغیرہ،  اردو، ہندی میں مشترکہ طور پر مستعمل ہیںاس کے علاوہ ڈاکٹرگیان چندنے ایک لمبی فہرست تیار کی ہے جس میں انھوںنے اردو کے بنیادی اور امتیازی عناصر کا نقشہ پیش کیاہے۔ ان کے مطابق اردو کے بنیادی افعال،بنیادی تصریفی قواعد، بنیادی ضمائر، بنیادی اعداد وغیرہ کھڑی بولی سے ماخوذ ہیں جو اردو اور ہندی میں مشترک ہیں۔ لسانی اشتراک کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا۔ دونوں کے مصوتوں،مصمتوں، جملوں کی ساخت، افعال کے استعمال، مرکبات اور محاورات و ضرب الامثال بھی مشترک ہیں۔

   مصوتوں اور مصمتوں کا اشتراک

 اردو کے مصوتے بھی ہندی کی طرح حروف اور علامات دونو ں شکلوں میں پائے جاتے ہیں۔ اردو میں ’ا‘، ’و‘ اور ’ی‘ یہ تین مصوتے حروف کی شکل میں ہیں جب کہ باقی مصوتے زبر، زیر اور پیش کی شکل میں ہیں۔ ہندی کے مصوتوں کی علامتی شکلیں چھوٹی اور بڑی ماتراؤں میں بٹی ہوئی ہیں۔ ہندی کے دس حروف علت کی علامتی شکلیں اردو میں بھی موجود ہیں۔ جیسے: جب (     َ  زبر    )، جال (الف)، جس (      ِ  زیر)،دین (      ِ  ی)، دم (      ُ پیش)، خون (اُو)، نیک (اِے)، بیل (اَے)، لوگ (اَو)، غور (اَو)۔ اس طرح اردو اور ہندی کے مصوتے مشترک ہیں جو ہندآریائی آوازوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

مصوتوں کی حدتک اردو اور ہندی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اردو کے مصمتوں کی دنیا وسیع ہے۔ اردو کے مصمتے عربی، فارسی اور ہندی تینوں کی آوازوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس طرح اردو مصمتوں کو تین خانوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے: (1) وہ آوازیں جو خالص ہندی ہیں (2) وہ آوازیں جو فارسی، عربی اور ہندی تینوں میں مشترک ہیں (3) وہ آوازیں جو عربی و فارسی کی ہیں۔ ان کا نقشہ حسب ذیل ہے:

خالص ہندی مصمتے:

بھ  پھ  تھ  ٹھ  دھ  ڈھ  ڑھ  جھ  چھ  کھ  گھ  ٹ  ڈ  ڑ

عربی و فارسی اور ہندی کے مشترک مصوتے:

ب  پ  ت  ج  چ  د  ر  س  ش  ک  گ  ل  م  ن  و  ہ  ی

خالص عربی و فارسی آوازیں:

ص  خ  ذ  ز  ض  ط  ظ  ع  غ  ف

جین صاحب کے نقشے میں شامل بعض مصمتے جو عربی سے لیے گئے ہیں، قریب المخرج ہیں۔ یعنی ان کی ادائیگی یا آوازوں کا نکالنا ہندوستانیوں کے لیے ایک جیسا ہے۔ مثلاً :ت اور ط،ذ ز ض ظ، س اور ث، الف اور ع۔ اس لیے بعض ماہرین ان مصمتوں کو الگ شمار نہیں کرتے بلکہ ایک آواز کو ادا کرنے والے مختلف حروف مانتے ہیں۔ اردو اور ہندی مصمتوں کا زیادہ اختلاف اسی امر میں ہے۔ ورنہ ق، خ، غ اور ز جیسی آوازیں ہندی میں نقطے لگاکر ظاہر کی جاتی ہیں۔ اس طرح اردو کے بیش تر مصمتے ہندی سے مشترک ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اسی بنیاد پر کہا ہے کہ گنتی کی چند آوازوں کو چھوڑکر اردو اور ہندی کا مصمتوں کا ڈھانچہ تقریباً ایک جیساہے۔

افعال کا اشتراک

اردو اور ہندی میں افعال کی سطح پر جو اشتراک ہے اسے دیکھتے ہوئے دونوں کو الگ الگ زبان قرار دینا عجیب لگتاہے۔ اردو اور ہندی میں مشترک افعال کئی طرح کے ہیں: (1) بنیادی اور خالص ہندوستانی افعال مثلاً: آنا، جانا، کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، ہنسنا، رونا، نہانا، دھونا، ملنا، بچھڑنا،بننا، بگڑنا، لینا، دینا وغیرہ۔ (2) عربی و فارسی اور ہندی افعال کی ملاوٹ سے بنائے گئے افعال مثلاً: بدلنا، خریدنا، بخشنا، قبولنا، آزمانا، تراشنا، فرمانا، گزرنا، داغنا، ورغلانا، کفنانا، دفنانا وغیرہ۔ (3)مرکب افعال یعنی دو افعال کی ترکیب سے بنائے گئے الفاظ جیسے: گرپڑنا، بول اٹھنا، مار ڈالنا، سن لینا، چلا آنا، بتا دینا وغیرہ۔ ان کے علاوہ اسم اور صفت کی ترکیب سے بنائے گئے سیکڑوں افعال اردو اور ہندی میں مشترک ہیں۔ اردو اور ہندی کے اشتقاقی اور تصریفی قاعدے بھی تقریباً ایک جیسے ہیں۔اس کے علاوہ اردو اور ہندی کا نحوی ڈھانچا بھی کم و بیش ایک جیساہے۔

مرکبات کا اشتراک

مرکب الفاظ سے مراد وہ لفظ ہیں جو دو لفظوں یا دو ٹکڑوں سے ملاکر بنائے گئے ہوں۔ اردو میں مستعمل مرکب الفاظ کی کئی صورتیں ہیں۔ پہلی صورت فارسی اور ہندی کے میل سے بنے مرکبات کی ہے۔ مثلاً نیک چلن، سفر خرچ، گھرداماد، کمر توڑ، منھ زور وغیرہ۔ دوسری صورت عربی و فارسی کے میل سے بنے مرکبات کی ہے۔ جیسے نازک خیال، نمک حرام، نیک بخت، شیش محل، خوب صورت وغیرہ۔ تیسری صورت عربی اور ہندی لفظوں سے بنے مرکبات کی ہے جیسے دودھ شریک، موتی محل، جیب کترا، کفن چور، امام باڑہ وغیرہ۔سابقوں اور لاحقوں کی مدد سے بنائے گئے مرکبات کی ایک بڑی تعداد ہے۔ کسی مستقل لفظ سے پہلے کوئی لفظ یا لفظی ٹکڑا جوڑکر ایک نیا لفظ بنا لیا جاتاہے۔ ایسے الفاظ میں پہلے جوڑے گئے لفظ یا لفظی ٹکڑے کو سابقہ کہتے ہیں۔ جیسے بے شرم، بدحال، کم زور، خود غرض، لاجواب، اَن پڑھ، اٹل، نڈر، اَدھ پکا وغیرہ۔ کسی مستقل کے بعد کوئی لفظ یا لفظی ٹکڑا جوڑکر جو مرکب بنایا جاتاہے اس میں بعد والے لفظ یا لفظی ٹکڑے کو لاحقہ کہتے ہیں۔ جیسے عقل مند، خوش بو، سنگ تراش، چمک دار، قانون داں، ماہ وار، بڑھاپا، تیراک، لکھ پتی، لڑکپن، گھبراہٹ، سیلاب وغیرہ۔اردو کے مذکورہ قسم کے مرکبات یکساں طورپر ہندی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔

 محاوروں اور کہاوتوں کا اشتراک

ترقی یافتہ زبانوں میں محاوروں اور کہاوتوں کا بڑا ذخیرہ ہوتاہے۔ محاوروں اور کہاوتوں کے استعمال سے بیان میں وضاحت کی خوبی، زور، اثر اور حسن پیدا ہوتاہے۔ محاورے زبان کی ترقی کا پتہ دیتے ہیں تو کہاوتیں زبان کے سماجی اور تہذیبی پس منظر کو نمایاں کرتی ہیں۔ اردو میں مستعمل ہزاروں محاورے اور سیکڑوں کہاوتیں ہندی میں بھی رائج اور مستعمل ہیں۔ ڈاکٹررام آسرا راز نے ایسے محاوروں کی درجہ بندی کرتے ہوئے ایک لمبی فہرست پیش کی ہے جو اردو اور ہندی میں یکساں طورپر استعمال ہوتے ہیں۔ نمونے کے طورپر کچھ مثالیں درج ذیل ہیں  :

اعضائی محاورے:   آنکھ بھر آنا، آنکھیں پھیرنا، بغلیں جھانکنا، چھاتی پر مونگ دلنا، کمرباندھنا، منھ پھیرنا، ناک کٹ جانا، ہتھیلی پر سرسوں جمانا وغیرہ۔

حیوانی محاورے: اڑتی چڑیا پکڑنا، اپنا الّو سیدھا کرنا، پَر تولنا، بھیگی بلی بننا وغیرہ۔

پوشاکی محاورے: آستین کا سانپ ہونا، پگڑی اچھالنا، چولی دامن کا ساتھ ہونا وغیرہ۔

موسمی محاورے: برس پڑنا، ہوادنیا، طوفان اٹھانا وغیرہ۔

خورد و نوشی محاورے: دال میں کالا ہونا، گھی کے چراغ جلانا، ٹیڑھی کھیر ہونا وغیرہ۔

فلکیاتی محاورے: زمین آسمان کے قلابے ملانا، چار چاند لگنا وغیرہ۔

آبی محاورے: الٹی گنگا بہانا، لہریں گننا وغیرہ۔

نباتاتی محاورے: گل کھلانا، باغ باغ ہونا، پھول جھڑنا وغیرہ۔محاوروں کے علاوہ ضرب الامثال یا کہاوتوں میں بھی اردو اور ہندی کی سرحدیں الگ نہیں ہیں۔ اندھیرنگری چوپٹ راجا، چور کی داڑھی میں تنکا، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور اس قسم کی سیکڑوں کہاوتیں اردو اور ہندی کا مشترک سرمایہ ہیں۔

اردو اور ہندی ہندوستان کی دو اہم آریائی زبانیں ہیں۔ دونوں کی ابتدائی تاریخ مشترک ہے۔ دونوں کی بنیاد کھڑی بولی پر قائم ہے۔ قدیم اردو پر پنجابی اور ہریانوی کے گہرے اثرات ہیں تو قدیم ہندی پر برج اور اودھی کا رنگ غالب ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اردو اور ہندی کو بھگتوں اور صوفیوں نے سہارا دیا۔ شاعروں اور ادیبوں نے تخلیقی توانائی عطا کی۔ گرونانک، نام دیو، کبیر اور امیرخسرو جیسے عظیم بھگتوں اور صوفیوں نے اس کی سرپرستی کی توسورداس، عبدالرحیم خان خاناں، رس کھان، جائسی، محمدقلی قطب شاہ، ولی، میرامن اور نظیر جیسے بے شمار شاعروں اور ادیبوں نے اس مشترکہ زبان کی آبیاری میں حصہ لیا۔ اٹھارہویں صدی تک اردو اور ہندی کی تفریق و تقسیم نہیں ملتی۔ رسم الخط کے فرق کے ساتھ ہندوی، ہندی، اردوے معلی، ہندوستانی وغیرہ مختلف ناموں سے مسلسل ارتقاپذیر رہی، انیسویںصدی کے شروع میں فورٹ ولیم کالج کے زیراثر اس میں نمایاں فرق سامنے آیا۔ ہندی اور اردو کی تفریق کی بنیاد انگریزوں نے رکھی۔انگریزوں کے اردو کو مغلوں کی پیدا کی ہوئی زبان اور ہندی کو ہندوئوں کی زبان قرار دینے کے باوجود اردو شعروادب  میں مشترکہ کلچر کی ترجمانی اور سیکولر روایات کی پاسداری کا وصف ہردور میں برقرار رہا۔

ایک لمبے عرصے تک ساتھ ساتھ سفرکے بعد آج اردو اور ہندی دو جداگانہ زبانوں کے طورپر ارتقا پذیر ضرور ہیں۔ دونوں کی ادبی روایت بھلے ہی مختلف ہیں۔مگر دونوں کا لسانی اشتراک ان کے بنیادی رشتوں کی مضبوطی کی دلیل ہے۔ دونوں میں مصوتوں کی مکمل ہم آہنگی ہے۔ مصمتوں کا اشتراک بھی نوے فی صد تک ہے۔ صرفی و نحوی ڈھانچا ایک سا ہے۔ افعال اور مرکبات کا نظام مشترک ہے۔ محاوروں اور کہاوتوں میں بھی مکمل اشتراک و اتحاد ہے۔ اس لحاظ سے اردو اور ہندی ایک دوسرے کی حریف نہیں بلکہ معاون زبانیں ہیں جن میں جڑواں بہنوں کا رشتہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کی طاقت ہیں۔

حواشی

1          اردو کا ابتدائی زمانہ: شمس الرحمن فاروقی، آج، کراچی 2009،ص16

2          مرحوم دہلی کالج:عبدالحق، انجمن ترقی اردو(ہند) نئی دہلی، 1989،اشاعت سوم، ص 23-24

3          اردو اور ہندی کا لسانیاتی رشتہ :ڈاکٹر رام آسرا راز ،  جمال پرنٹنگ پریس، جامع مسجد، دہلی، 1975، ص 53

4          مشترکہ زبان:موہن داس کرم چند گاندھی          انجمن ترقی اردو (ہند)،  علی گڑھ ص8

5          اردو ہندی ہندستانی: سجاد ظہیر، بمبئی کتب پبلشرز، بمبئی، 1947  ص28-29





Dr. Abdul Hafeez

School of Humanites

Indera Gandhi Open University (IGNOU), Maidan Garhi

New Delhi, Delhi 110068

Mob.: 9450115426, Email.: drhafeez76@gmail.com

 


سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل تا جون 2021

2 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ
    اردو اور ہندی کے باہمی رشتے کے سلسلے میں یہ مضمون بہت ہی عمدہ اور قابل ستائش ہے
    اللہ تعالٰی مضمون نگار کو سعادت دارین نصیب فرمایے
    آمین
    عبدالسلام قاسمی گڈا جھارکھنڈ

    جواب دیںحذف کریں

تازہ اشاعت

خواجہ حسن ثانی نظامی کا اسلوب، مضمون نگار: عزیز احمد خان

  اردو دنیا، نومبر 2024 خواجہ حسن ثانی نظامی درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشینوں میں سے تھے۔ ان کی پیدائش 15 مئی 1931 کو ہوئی تھی۔...