19/7/21

اکیسویں صدی میں ہندوستان کا اردو افسانہ - مضمون نگار شہاب ظفر اعظمی

 



اکیسویں صدی اردو فکشن کے لیے بہت زرخیز ثابت ہوئی ہے۔قلم کاروںاور قارئین دونوںکونثری اصناف میں سب سے زیادہ اردو فکشن نے ہی متوجہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ یہ صدی ’فکشن کی صدی‘ کے طور پر پہچان قائم کررہی ہے۔میںیہ بات مبالغتاً نہیں حقیقتاً کہہ رہاہوں کیونکہ اس صدی کی دو دہائیوں میںجس تواتر کے ساتھ افسانوی مجموعے اس کی مقبولیت، افسانہ نگاروں اور افسانہ پسند قارئین کے بیدارمغز ہونے کا ثبوت فراہم کیاہے۔ 2017 میںمعروف ناقد ڈاکٹر نعیم انیس نے اپنی کتاب ’اکیسویں صدی میںاردو افسانہ‘ میںنئے افسانوی مجموعوںکی جو نامکمل فہرست بنائی ہے اس میں محض سترہ سالوں میں 350   افسانوی مجموعے شمار کروائے گئے ہیں۔اس تناسب کا خیال رکھا جائے تو دو دہائی میں یہ تعداد تقریباً 500 تک پہنچ جاتی ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ صدی افسانوی ادب کی صدی کے طور پر شناخت قائم کررہی ہے۔

اکیسویں صدی میں اردو افسانہ لکھنے والوں کی کئی نسلیںایک ساتھ لکھ رہی ہیں۔کچھ ترقی پسند تحریک کی یادگار ہیں،کچھ جدیدیت کی دین ہیں،کچھ مابعد جدیدیت کے قائل اور کچھ بالکل نئے زمانے یعنی اکیسویں صدی کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے۔اِن تمام لکھنے والوں میںکم وبیش سب نے عصری مسائل کو اپنے فکشن میں برتا ہے۔ موضوعات کی تخصیص نہیں رہی ہے۔مثبت اور منفی کی خانہ بندی نہیں رہی۔افسانہ چاہے بیانیہ ہو یا علامتی، جدید  رہاہو یا غیر جدید،عصری موضوع ہر زمانے میں اور ہر طرح کے افسانوں میں موجود رہا۔اس سلسلے میں اقبال مجید، رتن سنگھ، شفیع جاوید، جیلانی بانو سے حسین الحق، عبدالصمد، شوکت حیات، سلام بن رزاق،انیس رفیع،علی امام، شموئل احمد اور بعد میں سید محمد اشرف، نورالحسنین، مشرف عالم ذوقی، نگارعظیم، قمر جہاں، خورشید حیات، ثروت جہاں اور صغیر رحمانی وغیرہ کی نسل تک کے متعدد افسانے بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔

موجودہ جدید ترین عہد جسے اکیسویں صدی کے نام سے جانا جاتاہے،یہ موضوعاتی،فکری اور تہذیبی اعتبار سے گذشتہ صدی سے کئی معنوں میں مختلف ہے۔یہ عہد انفارمیشن ٹکنالوجی کا عہد ہے،انٹرنیٹ،ویب سائٹ،  پورٹل، ای میل،ایس ایم ایس، واٹس اپ، ٹوئٹر، گوگل سرچ،  وکی پیڈیا موبائل، انٹر نیٹ،  ای کتب، ای لائبریری نے اسکول کالج اور یونیورسٹی ہی نہیںہماری زندگیوں میںبھی انقلاب پیدا کردیاہے۔نئے مسائل، نئے موضوعات اور نئے راستوں سے آشنا کیا۔مگر دوسری طرف زندگی کو سہل اور آسان بنانے کی جتنی راہیںہموار ہوئیں،آسائشوں کے دروازے بھی کھل گئے۔ کاریں، فلیٹس، موبائل اور ٹیبلیٹ ہمارے لیے اسٹیٹس سمبل بن گئے۔انسان کی پوری توجہ مادی آسائش، پرائیویسی حصول دولت پر ہو گئی۔نتیجہ یہ ہواکہ فحاشی،ہوس پرستی،قتل وغارت گری، زنا، درندگی اور غیر انسانی افعال نے معاشرے کو اپنی گرفت میںلے لیا۔انسانیت کا زوال آخری حد کو پہنچ گیا اور رشتوں کا تقدس باقی نہ رہا۔ اب مسائل کا ایک نیا انبار ہے جو اسے اپنی گرفت میںلے کر مثبت اور توانا قدروں کی جانب سوچنے کا بھی موقع نہیںدیتا۔چنانچہ وہ فکشن نگار جو بیسویں صدی سے لکھتے آرہے ہیں یا وہ جنھوں نے اسی صدی میںلکھنا شروع کیاہے،دونوں کے یہاں اِس عہد کے نئے مسائل شعوری یا غیر شعوری طور پر حاوی ہیں۔ ایک طرف جیلانی بانو، عبدالصمد، غضنفر، حسین الحق، سلام بن رزاق،شوکت حیات،شموئل احمد،طارق چھتاری، سید محمد اشرف، بیگ احساس، نورشاہ، خورشید حیات،انیس رفیع، نورالحسنین، شاہد اختر، ذکیہ مشہدی،ترنم ریاض،نگار عظیم،احمد صغیر،صغیر رحمانی،اسرار گاندھی،مشرف عالم ذوقی، مشتاق احمد نوری، غزال ضیغم، دیپک بدکی، اسلم جمشیدپوری، فیاض رفعت، عشرت بیتاب، اقبال متین، انجم عثمانی، مشتاق اعظمی،ف س اعجاز، صدیق عالم، حمید سہروردی، اقبال حسن آزاد، شہیرہ مسرور، قاسم خورشید، فخرالدین عارفی،عشرت ظہیر اور ابن کنول وغیرہ ہیںجو ماقبل صدی سے لکھ رہے ہیںمگر نئی صدی کے مسائل و موضوعات نے بھی انھیںاپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ دوسری طرف نئے لکھنے والے بھی خاصی تعدا د میںہیں جن کے موضوعات نئی صدی کے مسائل کے ساتھ ہی شروع ہوئے ہیں۔ایسے افسانہ نگاروں میں کہکشاں پروین، مسرورتمنا، اشرف جہاں، شبیر احمد،پرویز شہریار،ایم مبین، سید احمد قادری، فہیم اختر، فاروق راہب، بلراج بخشی، وحشی سعید، یسین احمد، خالد جاوید، اشتیاق سعید، سلمیٰ صنم، بشیر مالیرکوٹلوی، صادقہ نواب سحر، شائستہ فاخری، تسنیم فاطمہ، افشاں ملک، شبانہ رضوی، غزالہ قمر اعجاز، فرقان سنبھلی، ارشد نیاز،مشتاق احمد وانی، مہ جبیں انجم، زیب النسا، ریاض توحیدی، ابرارمجیب، آشا پربھات، عشرت ناہید، شہناز رحمان، نشاں زیدی، احمد رشید، نوشابہ خاتون، رخسانہ صدیقی، عنبری رحمان، اختر آزاد، مہتاب عالم پرویز، نیاز اختر، نصرت شمس، شارقہ شفتین، سلمان عبدالصمد، سفینہ، شفقت نوری، نہال آڑھوی، ترنم جہاں شبنم،وسیم عقیل شاہ،مستمر،محمد علیم اسماعیل،رومانہ تبسم اور ذاکر فیضی وغیرہ کے نام آتے ہیں۔میں یہاںپر واضح کردوں کہ کسی نسل کا  ذکر کرتے ہوئے فہرست سازی قطعی مقصود نہیںاس لیے مثالاً جن کے نام یاد آرہے ہیں ذکر کررہاہوں۔اس سے کہیں زیادہ نام ہو سکتے ہیں جو اپنے عہد کی نمائندگی کرتے ہیں۔اِن تمام لکھنے والوں نے عہد حاضر کے جن مسائل کو خصوصی طور پر اپنے افسانوں میں برتاہے وہ ہیں ماحولیات کا تحفظ،پانی کی قلت، مذہبی منافرت، شدت پسندی، مسلک کی لڑائی، فرقہ پرستی، دہشت گردی، عورتوں کی آزادی، روایتی عورتوں کے خانگی مسائل، تانیثی احتجاج، انسانیت کا زوال، خودغرضی و بے ضمیری، وطن سے محبت، انسان کی جنسی کج روی، زرد صحافت اور دلت طبقات کے مسائل وغیرہ۔کچھ افسانوں کے نام شمار کرتے ہوئے مثالاً ایک دو ا فسانے پر گفتگو کرنے کی کوشش کروں گا۔مثلاً ماحولیات کے تحفظ،پانی کی قدروقیمت،شجر کاری کی اہمیت پر جو افسانے لکھے گئے ہیں ان میں مہتاب عالم پرویز کا افسانہ ’کارواں‘ مہ جبین نجم کا افسانہ’بے جڑ کا پودا‘ فرقان سنبھلی کا ’آب حیات‘ اور اختر آزاد کا افسانہ ’پانی‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان میں ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ شجر کاری،پانی کی قدروقیمت اور آلودگی یعنی Pollution کے مسائل خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔

پانی،پودے اور ماحول : نئی صدی میں پورے ملک میں رائج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مہ جبیں نجم نے اپنے افسانے ’بے جڑ کا پودا‘ میں اسی فکر کو فنکاری سے برتا ہے۔ کہانی میں ایک درخت اور اس کا نگہبان بس دو کردار ہیں اور دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ ان دونوں کی محبت میںکمی ہوجاتی ہے اور درخت سوکھنے لگتاہے۔کہانی بیانیہ کی تہ داری کے سبب مختلف ابعاد کی حامل ہے۔پیڑ کا سوکھنا محبت کے فقدان کی علامت بھی ہو سکتاہے۔مگر ظاہری سطح پر یہ کہانی تحفظ ماحولیات کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ ایک طرف پانی کے تحفظ کا درس دیتی ہے تو دوسری طر ف پیڑ پودوں کی بقا کی اہمیت واضح کرتی ہے جس کا تعلق پانی کے وجود سے ہی ہے۔اسی لیے کہانی کے اختتام پر جب پیڑ کی زندگی کے لیے پانی کی ضرورت پڑتی ہے تو نگہبان اس کی تلاش میں نکل پڑتاہے:

’’نگہبان مجھے دلاسہ دے کر پانی کی تلاش میں نکل پڑا۔

دن ڈھل گیا،وہ نہیں لوٹا تو مجھے تشویش ہونے لگی۔ مگر رات کے پر پھیلانے سے پہلے وہ لوٹ آیا۔ بدحال۔ تھکا ماندہ... مگر اس کے ہاتھوںمیںپانی دیکھ کر میرے نازک وجود میں سرور کی لہریں دوڑ گئیں۔اس نے وہ پانی مجھ پر چھڑکا تو مجھے لگا جیسے میرے تن سے جڑیں پھوٹ رہی ہوں۔‘‘(افسانوی مجموعہ’پیاس‘، 2004 )

گویا پیڑ پودوں کی بقا پانی پر منحصر ہے۔افسوس ہم پانی کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ زندگی کے وجود کے لیے سب سے ضروری چیز پانی کا تحفظ نہیں کرسکے ہیں۔ اسی لیے فرقان سنبھلی اپنے افسانہ ’آب حیات‘ میں ایک کردار سے کہلواتے ہیں کہ :

’’ہمارے سیارے پر ہر سہولت اور ہر شے موجود ہے جو کسی بھی آکاش گنگا میں پائی جاتی ہوگی لیکن ہمارے بزرگوں نے ترقی کی اندھی خواہش میں نہ صر ف کنکریٹ کے جنگل کھڑے کیے بلکہ تالاب پاٹ ڈالے،ہرے بھرے پیڑ کاٹ ڈالے اور یہاں تک کہ قدرت کے ساتھ دشمنی کی کہ سیارے کی آب وہوا آلودہ ہو گئی،پانی سوکھ گیا۔ندی نالے ختم ہو گئے۔ یہاںکی مخلوق پانی کی قلت سے تِل تِل مرنے لگی۔‘‘ (مجموعہ ’آب حیات‘ 2010)

فرقان سنبھلی نے پانی کی قدروقیمت او راس کے تحفظ کو زندگی و دنیا کی بقا کے لیے بنیاد قرار دیاہے۔

مذہب،نفرت اور دہشت: مذہبی شدت پسندی ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے،جس نے منافرت کی ایسی دیوا رکھڑی کی ہے کہ بدامنی،فرقہ واریت اور فسادات ہمارا مقدر ہو گئے ہیں۔فسادات اور فرقہ واریت پر یوں تو پہلے سے افسانے لکھے جاتے رہے ہیں،مگر موجودہ عہد میں مذہبی شدت پسندی اور منافرت کو افسانہ نگاروں نے نئے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں خورشید اکرم کا افسانہ ’مذبح کی بھیڑیں‘،  ذوقی کاافسانہ ’لیباریٹری‘ ایم مبین کا ’نئی صدی کا عذاب‘ خورشید حیات کا ’انسانیت کے دشمن‘ صغیر رحمانی کا افسانہ ’داڑھی‘  ارشد نیاز کا ’یہ جہاد نہیں انتقام ہے‘اور ریاض توحیدی کا افسانہ ’جنت کی چابی‘ وغیرہ پڑھے جاسکتے ہیں۔

مثلاً خورشید حیات نے ’انسانیت کے دشمن‘ میں دو دوستوں کی طنزیہ کہانی رقم کی ہے جن میں ایک ہندو ہے اور دوسرا مسلم۔یہ دونوں نئی نسل کے ان نوجوانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں جن کے ذہن ہر قسم کی فرقہ واریت، شدت پسندی اور منافرت سے آزاد ہیں۔یہ ایک صالح، امن پسند اور محبتوں سے بھرپور معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں۔مگر سیاست اور فرقہ واریت اۡنہیں ایسے حالات سے دوچار کردیتی ہے جسے وہ سمجھنے سے قاصر ہیں:

’’رحیم میرے بھائی، ابھی کوئی ہندو نہیں، کوئی مسلمان نہیں،سبھی انسانیت کے دشمن ہیں۔چلو ہم دونوں اِس شہر،جنگل سے دور چلیں۔غموں سے لدے ہوئے دونوں راکیش اور رحیم ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، ان کے معصوم ذہن میںطرح طرح کے سوالات ابھر رہے تھے مگر وہ اپنے سوالوں کا جواب کس سے پوچھیں؟کس سے مانگیں؟ (مجموعہ ’ایڈز‘  2000)

اسی نفرت اور شدت پسندی کو کشمیر کے تناظر میں ریاض توحیدی نے ’جنت کی چابی‘ میں ایک نئے کینوس پر پیش کیاہے۔

جنت کی چابی‘ یا اِس طرح کے دیگر افسانے دراصل دہشت گردی،مذہبی منافرت اور شدت پسندی کی صورت میں عصر حاضر کے اۡن المیوں کا آئینہ ہیں جو ہمارے معاشرے میںتیزی کے ساتھ پنپ رہے ہیں۔

سیاست،فرقہ واریت اور قومی یک جہتی: اِس طرح کے مسائل کا تعلق ہماری سیاست سے بھی ہے۔ سیاست اور ملک کی سیاسی صورت حال پر مشرف عالم ذوقی کے افسانے گلدان،لیباریٹری،ذکیہ مشہدی کا ’بھیڑیے سیکولر تھے‘  شاہد اختر کا ’کتے‘  ابرار مجیب کا ’رات کا منظر نامہ‘ اور احمد رشید کے افسانے ناخدا،مداری اور اندھا قانون وغیرہ پڑھے جاسکتے ہیں۔

مگر ان افسانہ نگاروں نے سیاسی صورت حال سے پیدا شدہ تاریکی میں روشنی بکھیرنے والے کرداروں کو بھی گڑھا ہے۔ہمارے ملک کی بنیاد قومی یک جہتی اور وسیع المشربی پر قائم ہے۔صدیوں سے ہند و مسلمان اس ملک میں ایک ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں اور ان میں باہمی تعلقات بھی ہیں۔کبھی کبھی ان کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں۔اس کا فائدہ سیاسی پارٹیاں اٹھاتی ہیں۔ نئے افسانہ نگاروں نے اکثر اپنی کہانیوں سے ہندو مسلمان کے درمیان خلیج کو کم کرنے اور محبت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذوقی کے افسانے مگر نینی،ہجرت،قیصر اقبال کا افسانہ ’مٹی‘ شفیع مشہدی کا ’پنڈدان‘ سید احمد قادری کا ’زندگی کے لیے‘ مجیر احمد آزاد کے افسانے پہچان، تاریک راتیں اور قیام نیر کا افسانہ ’دھوپ سایہ‘ وغیرہ اسی قبیل کی کہانیاں ہیں۔ مثلاًسید احمد قادری کے دو کردار دیکھیے شیخ رحمت اور مکند پرساد،جن کے درمیان نہر کے پانی کے بٹوارے پر جھگڑا ہوجاتاہے اور گائوں دو گروپ میں منقسم ہو جاتاہے۔اسی دوران زبردست سیلاب آگیا اور افراتفری مچ گئی۔ رمضان کا مہینہ تھا، سارے گائوں نے سب سے اونچی جگہ یعنی مندر کو پناہ گاہ بنالیا۔ افطار کا وقت آگیا۔شیخ رحمت نے سوچا افطار کیسے ہو؟ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک بھیڑ کو چیرتاہوا مکند پرساد اور ان کا بیٹا ارون سامنے آیا۔ان کے ہاتھ میں پنڈت کی تھالی تھی، جس میںکئی طرح کے پھل تھے اور لوٹا میںپانی تھا۔ مکند پرساد شیخ رحمت کے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور بولا’’تم لوگ روزہ سے ہو،سمئے ہو گیاہے،روزہ کھول لو‘‘۔شیخ رحمت نے مکند پرساد کی باتیں سنیں اور ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ جلدی سے کھڑے ہو گئے اور مکند پرساد کو گلے لگاتے ہوئے کہا’’ انسانیت ایک ایسا رشتہ ہے جس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔‘‘(افسانوی مجموعہ ’ملبہ2015)

اسی طرح مجیر احمد آزاد ’برگد‘ میں سماجی ہم آہنگی کا درس دیتے ہیںکہ چودھری ونشی دھر کی شخصیت برگد کے پیڑ کی طرح ہے جس کے سائے میں ہندو مسلمان راحت اور سکون پاتے ہیں۔رحمان شاہی’سانپ کا پھن پکڑنے والے‘  میں یہ دکھاتے ہیں کہ گائوں کے بھولے بھالے عوام آپس میں مل جل کر رہتے ہیں لیکن نیتا جی کی طرح کوئی خرافاتی سیاست کا کھیل کھیل کر سماجی اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کرتاہے۔اس طرح تمام نئے افسانہ نگار نہ صرف سیاسی دائوں پینچ سے قارئین کو واقف کراتے ہیں بلکہ ملک کی سالمیت،سماجی ہم آہنگی کا درس دے کر سماج کو بہتر اور پرامن بنانے میں تعاون کرتے ہیں۔

تانیثیت،بغاوت اور نسائی حسیت: ’عورت‘ ہمیشہ اردو فکشن کا مرکزی موضوع رہی ہے۔اۡنہیں موضوع بنانے والوں میں عورتیں خود بھی رہیں اور مردوں نے بھی اپنے طور پر انھیں پیش کیا۔نئے زمانے میں تانیثیت،نسائی حسیت اور نسوانیت کے حوالے سے عورتوں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش فکشن نگاروں نے کی ہے۔موجودہ عہد کی عورت روایتی عورتوں کے برعکس خوداعتمادی اور جرات کا مظاہرہ کرتی ہے۔وہ مجبور نہیں رہی،اپنے مسائل سے خود نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔وہ خود کو Empower بھی کررہی ہے۔ اور اپنی ہم جنس خواتین کو Empower   کرنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔ اشرف جہاں کا افسانہ ’اکیسویں صدی کی نرملا‘  نفیس بانو شمع کا ’برف کا آدمی‘  غزال ضیغم کا ’سوریہ ونشی چندرونشی‘ شائستہ فاخری کا ’اداس لمحوںکی خود کلامی‘ رفیعہ شبنم عابدی کا ’کہو قبول ہے‘  غزالہ قمر اعجاز کا ’کھوکھلے ر شتے‘ کہکشاں پروین کا ’تواپر کی عورت ‘ تسنیم فاطمہ کا ’آدھا چاند‘ سلمیٰ صنم کا ’یخ لمحوں کا فیصلہ‘ ترنم جہاں شبنم کا ’کوکھ کی تلاش‘ عشرت ناہید کا ’آج کی حوا ‘  اور رخسانہ صدیقی کے ’وجود‘ میں عورت ایک خاص تیور کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔یہ عورت آج کی عورت ہے جو سماج کی ناانصافیوں کو برداشت تو کرتی ہے مگر اسے نوشتہ ٔ تقدیر سمجھ کر قبول نہیںکرتی۔نگار عظیم کا افسانہ ’حصار‘ دیکھیے جس میں زاہدہ اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے اپنے شوہر کے سامنے تن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔زاہدہ تعلیم یافتہ تھی اس لیے تعلیم کی اہمیت سے واقف تھی۔اۡس کا شوہر مزمل بیٹی کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہیں تھا۔ اپنی بیٹی کا کالج کے دوستوں کے ساتھ ایک گروپ فوٹو دیکھ کر مزمل آگ ببولا ہو جاتاہے۔زاہدہ سے تو تو میں میں کے بعد وہ بیٹی کو گھسیٹ کر ایک طرف لے گیا اور زاہدہ کو کئی تھپڑ رسید کردیے کہ بیٹی کی بے راہ روی کا ذمہ دار وہ اسی کو مانتا تھا۔ایسے میں زاہدہ کے اندر کی عورت بیدار ہوگئی:

’’تھپڑ کھانے کے بعد زاہدہ سنبھلی... اور اپنی تمام قوت بٹور کر دہاڑی...بس...خاموش... ہاتھ میرا بھی اۡٹھ سکتاہے۔میری بیٹی پڑھے گی اور ضرور پڑھے گی۔بیوی کی مضبوط آواز اور اٹل قوت ارادی دیکھ کر مزمل بھونچکا سا رہ گیا‘‘( گہن)

اسی طرح سلمیٰ صنم عورتوں کے ساتھ عدم مساوات اور جانبدارانہ رویے سے دلبرداشتہ ہیںاس لیے عورت کے حقوق منواتے ہوئے ان کے لہجے میںسہمناکی کے بجائے بلا خوفی ہے۔انھیں ان مراعات سے کدہے جن سے رحم اور ترس کی بو آتی ہے۔وہ معاشرہ جس کی کم وبیش نصف آبادی عورت پر مشتمل ہے محض اس لیے اسے آزادی سے محروم نہیںرکھا جاسکتا کہ وہ عورت ہے۔اس کے لیے اختیارات و قوانین کا معیا رجدا کیوں؟یہ سوال بار بار صادقہ نواب سحر،ثروت خان،سلمیٰ صنم،اشرف جہاں، شائستہ فاخری، افشاں ملک سے شہناز رحمان تک سب نے اٹھائے ہیں۔سلمیٰ صنم کی کہانی ’یخ لمحوںکا فیصلہ‘ کی ثانیہ اپنے فیصلے کا حق نہیںکھونا چاہتی۔اسی لیے شوہر منصور کی خواہش کہ ’لڑکی ہے اس لیے حمل ضایع کردو‘ اور دھمکی کہ ’ایسانہ کرنے پر وہ دوسری شادی کرلے گا‘کے باوجود ثانیہ بیٹی کو جنم دینے کے اپنے حتمی فیصلے پر اٹل رہتی ہے۔ ثروت خان کی ’مانکی‘ کی عزت نفس پر حملہ ہوتا ہے تو وہ شوہر پر ہاتھ اٹھا دیتی ہے،شائستہ فاخری کی ثانیہ غفور بڑے اعتما د کے ساتھ شوہر کو طلاق دے کر آزادی حاصل کرتی ہے اوراشرف جہاں کی عورت بیٹی کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ ’عورت کی شکتی کچھ ارن کرنے میں ہے‘۔ صادقہ نواب سحر کے افسانے ’راکھ سے بنی انگلیا ں کی تبسم زیدی،اختر آزاد کے ’شدھی کرن‘ کی ’عورت‘،تبسم فاطمہ کے حجاب کی ’نجمہ باجی‘ نورالحسنین کے’زہر‘ کی اوشا اوربشیر مالیر کوٹلوی کے افسانہ ’سلگتے لمحوں کا حساب‘ کی نیلما میں بھی ایسی ہی عورت دکھائی دیتی ہے۔گویا اکیسویں صدی کے افسانوں میںعورت کا ایک نیا روپ ابھر کر سامنے آتا ہے جس نے حالا ت کا مقابلہ کرنا سیکھ لیاہے اورجو مردوں کے شابہ بشانہ چل کر سماج اور ملک کو بہتر بنانے میں نمایاں رول ادا کررہی ہے۔

دلت،انصاف اور احتجاج: دلت کردار اور دلت طبقے کے مسائل ہندستانی سماج کا اہم حصہ رہے ہیں اور دوسری زبانوں میںماقبل صدی سے ہی اہم موضوع کے طور پر برتے جاتے رہے ہیں۔مگر اردو میں دلت مسائل پر افسانے نسبتاً کم لکھے گئے ہیں۔ہمارے سینئر لکھنے والوں میں پریم چند،کرشن چندر،عصمت چغتائی،خواجہ احمد عباس، سلام بن رزاق،انور قمر،ساجد رشید،غضنفر،شوکت حیات اور جابر حسین وغیرہ نے دلت کہانیاں لکھی ہیں مگر اس میں زیادہ رفتار اکیسویں صدی میں پیداہوئی ہے۔شموئل احمد، مشتاق احمد نوری، ذوقی، رحمان شاہی، صغیر رحمانی،احمد صغیر، قاسم خورشید،اختر آزاد اور مجیر احمد آزاد وغیرہ کے یہاں دلت موضوعات پر کہانیاںکثرت سے ملتی ہیں۔ احمد صغیر نے تو ایک مجموعہ ہی مکمل طور پر دلت افسانوں کا پیش کردیاہے جو ’کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے‘ کے نام سے دلت ڈسکورس کو آگے بڑھاتاہے۔دلت موضوع پر اکثر افسانہ نگاروں نے احتجاج اور انتقام کے بجائے حالات کی تبدیلی کی ضرورت پر زور دیاہے۔احمد صغیر کے افسانے تعفن، شدھی کرن، پیاسی زمیں پیاسا آسماں، اسلم جمشیدپوری کا افسانہ ’بنتے مٹتے دائرے‘ صغیر رحمانی کا ’ناف کے نیچے‘ مجیر احمد آزاد کا ’ڈوم‘ وغیرہ اس سلسلے میں نمائندہ کہانیاں کہی جاسکتی ہیں۔

گویا جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے، نئے افسانوں میں وہ سب کچھ ہے جو ہماری آج کی زندگی کو متاثر کررہاہے۔نئے افسانہ نگار اپنے عہد کے مسائل اور مزاج سے باخبر ہیں او ر ظاہری طور متاثر کرنے والے واقعات و حالات سے گزر کر ان کے اسرارورموز تک پہنچ جاتے ہیں۔اس لیے ان کے افسانے محض تہذیب اور قدروں کی بے ضابطگی،بے اصولی اور آزادروی کو نہیں درشاتے،بلکہ دھڑکتے دل اور بے چین روح کی حقیقتوں کو پیش کرتے ہیں۔گویا نئے افسانہ نگاروں کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے۔انھوں نے قومی،ملکی مسائل اور تغیرات کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں،معمولی اور غیراہم حادثوں کو بھی افسانے کا موضوع بنایاہے جو بظاہر غیر اہم ہوتے ہیں مگر ان کے بطن سے قدروں کے زوال، رشتوں کی ناقدری، کرپشن، استحصال اور بے بسی جیسے مسائل سر ابھارتے ہیں اور قاری کو دعوت فکر دیتے ہیں۔

فن،اظہار اور اسلوب: موضوعات کے علاوہ فنی ٹریٹمنٹ، تکنیک اور اسلوب کے اعتبار سے بھی کچھ نئے افسانہ نگاروں کے یہاں تبدیلی کی ایک جھلک ملتی ہے۔اۡن کے افسانوں میں اۡس طرح کا بیانیہ یا علامتی اظہار نہیں پایا جاتا جس طرح جدیدیت کے دور میں افسانوں میں پایا جاتاتھاکہ عام قاری کی اکتاہٹ کا سبب بن جائے۔نئے افسانے نئی لفظیات اور تہ دار معنویت کے ساتھ قاری کو جوڑے رکھتے ہیں۔یہ پورے اعتماد کے ساتھ اظہار و اسلوب کے تجربات کررہے ہیں۔ نئی ترکیبوں، نئی تشبیہات اور نئے الفاظ و محاورات کے ساتھ وہ مروجہ اسالیب کو نئی جہت بخشنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کے افسانوں پر عینیت پسندی کے بجائے حقیقت پسندی اور عقلیت زیادہ حاوی ہے۔سائنسی اصطلاحات،انگریزی ہندی الفاظ اور گلوبل ولیج کے طور پر انٹر نیٹ یا سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میںرائج ہونے والی زبان ان کے افسانوں کی زبان بن رہی ہے۔زبان ہی نہیں افسانوں کی ہیئت اور تکنیک پر بھی سوشل میڈیا اور فلمی تکنیکوں کے اثرات مرتسم ہورہے ہیں۔کولاژ تکنیک،مکالماتی تکنیک اور Patches   کے سہارے لکھے جانے والے افسانے مشرف عالم ذوقی،اسلم جمشیدپوری،اختر آزاد،خورشید حیات سے سلمان عبدالصمد، اویناش امن، فرقان سنبھلی اور رومانہ تبسم وغیرہ تک پائے جاتے ہیں۔یہ واضح بیانیہ کا استعمال کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ ’’برہنہ حرف نگفتن کمال گویائیست‘‘ کی طاقت سے بھی واقف ہیں اس لیے اپنی کہانیوں میں تہہ داری،معنویت اور تاثیر پیدا کرکے تخلیقی افسانوی اسلوب پر گرفت کا بھی اظہار کرتے ہیں۔یہ کرداروں اور واقعے کے اعتبار سے زبان کا استعمال کرتے ہیںاور کوشش کرتے ہیںکہ مصنوعی زبان کے بجائے حقیقی اور رائج زبان میںکہانی کہی جائے تاکہ حقیقت نگاری مجروح نہ ہو۔چنانچہ انگریزی،ہندی یا علاقائی زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے انھیں کہیں جھجھک محسوس نہیں ہوتی۔ روزمرہ کی زبان میں چونکہ انگریزی ہندی یا علاقائی لفظیات گھۡل مل گئی ہیں اس لیے ان کا افسانوں میں در آنا تعجب خیز نہیں شرط یہ ہے کہ استعمال میںت خلیقیت، روانی اور برجستگی برقرار رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ افسانہ نگاروں نے ایسی لفظیات کو نہ صرف بخوبی متن کا حصہ بنایاہے بلکہ کبھی کبھی افسانوں کے عنوانات میں بھی اسے شامل کرکے بدلتے اسلوب کی جانب اشارہ کردیاہے۔مثلاً فزکس،کیمسٹر ی، الجبرا  (مشرف ذوقی)  بیسمنٹ (جابر حسین) سنسکرتی کا پانچواں ادھیائے (ذکیہ مشہدی)لالی پاپ (اشتیاق سعید)پشپ گرام کا اتہاس (ابرارمجیب) ریلٹی شو(اختر آزاد) ہستک چھیپ (ابن کنول) لافٹر شو(سلام بن رزاق) پنک پینتھر (شائستہ فاخری)کپل وستو (عشرت ظہیر) اور دکھ نکلوا (اسلم جمشید پوری)وغیرہ۔نئے افسانوں کی زبان میں علاقائی،مقامی اور انگریزی لفظیات کے استعمال سے بیانیہ میں نیاپن اور حقیقی رنگ پیدا ہواہے جو افسانوی اسلوب کے لیے نیک فال ثابت ہوگا۔

آخری بات: مختصر یہ کہ موجودہ افسانوں میں عہد نو کے جتنے موضوعات،مسائل اور اسالیب ہو سکتے ہیں وہ سب برتے جارہے ہیں اور تشفی بخش تعداد میں افسانے سامنے بھی آرہے ہیں۔موضوعات و مسائل اور زبان کے لحاظ سے نہ تو اردو افسانہ کم تر ہے اور نہ ہی تہی دامن۔مگر ایک سوال ذہن میںضرور پیدا ہوتا ہے کہ نئی صدی میں بھی دو دہائی کا عرصہ بیت گیا،افسانوںکی ایک معتد بہ تعداد سامنے آچکی،مگر اب تک اِن افسانہ نگاروں میں سے اکثر نے نمایاں شخصیت قائم کیوںنہیںکی؟ یا ان کے افسانوں نے وہ توجہ حاصل کیوں نہیں کی جنہیں بلا تردد اردو افسانوںکے کسی انتخاب میں بغیر کسی اختلاف کے شامل کیا جاسکے۔اِس کی دو وجوہات  مجھے فوری طور پر نظر آتی ہیں۔ اول تو یہ کہ ہمارے نئے افسانہ نگار بہت جلد confidence  Over کا شکار ہو جاتے ہیں۔وہ اپنی ذہانت اور تجربہ پر تو اعتماد کرتے ہیں مگر مطالعے اور مشوروں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ تمام بڑے افسانہ نگاروں نے یہ مانا ہے کہ لکھنے کے لیے مطالعے کا وسیع ہونا ضروری ہے۔ جتنا زیادہ مطالعہ ہوگا،تحریر میں اتنی زیادہ نیرنگی،قوت اور تاثیر پیدا ہوگی۔سوشل میڈیا نئے لکھنے والوںکو بہت جلد پہچان دے دیتاہے،مختلف سائٹس پر افسانہ پہنچ کر ڈھیر سارے لائکس اور کمنٹس بٹورلیتاہے اور افسانہ نگار کو غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس کے فن میںکسی قسم کی کمی نہیں ہے۔ جبکہ ادب میںلکھنے والے کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کی تعریفیں تنقید کا معیار نہیں،اور نہ ہی صد فی صد حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں۔نئے لکھنے والے کاتا اور لے دوڑی کا شکار بھی ہیں۔ وہ فوراً افسانے کی اشاعت اور اس کا معاوضہ چاہتے ہیں۔وہ افسانے پر سخت تنقید برداشت نہیںکرپاتے،یہاں تک کہ کسی مضمون میں ان کا نام شامل نہ کیا جائے تو وہ ناقد کو ہی معتوب قرار دے دیتے  ہیں۔ ادب کی تاریخ میں ایسا نہیںہوتا۔ مقبولیت دھیرے دھیرے حاصل ہوتی ہے اور فن میں پختگی بھی آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے۔صبر وتحمل سے نئے لکھنے والوں کو اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب وہ اۡس منزل پر پہنچ جائیںکہ کسی بھی تحریر میں ان کا ذکر ناگزیر ہو جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ افسانہ صر ف موضوع یا مسئلے سے افسانہ نہیںبنتاہے۔کسی کہانی کو افسانہ بنانے کے لیے موضو ع سے زیادہ اسلوب پر توجہ دینی پڑتی ہے۔یعنی موضوع تو اہم ہے مگر لکھنے والے کا اس کے ساتھ فنی ٹریٹمنٹ کیسا رہا ہے؟ اظہار کا کون سا اسلوب اس نے اپنایا ہے؟ جب تک اس پر توجہ نہیں ہوگی،افسانہ ’کامیاب افسانوں‘ کی فہرست میں شامل نہیںہو سکے گا۔ جس طرح شعر موضوع اور اسلوب کو ملاکر’ بنایا‘ جاتاہے اسی طرح افسانہ بھی صناعی کا تقاضا کرتا ہے۔ اسے بنانا پڑے گا۔میں نے پہلے بھی ایک جگہ لکھا تھا کہ ادب کو غیر ادب سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ ’اسلوب‘ ہے۔یعنی اصل مسئلہ ’اسلوب‘ کاہے۔اسلوب افسانے کو کہانی سے آگے بڑھا کر ’فن پارہ‘بناتاہے۔یہ درست ہے کہ ہر موضو ع اپنا اسلوب خود لے کر آتاہے مگر اِس اسلوب کو شتر بے مہار بننے سے روکنا فنکار کا کام ہے۔ آج زیادہ تر نئے افسانہ نگاروںکا حال یہ ہے کہ اۡن کے یہاں موضوع،طرزِبیان پر حاوی ہے۔کس موضوع پر قلم اٹھایاجائے،اِ س پر بہت توجہ دی جارہی ہے مگر اس موضوع پر افسانہ کیسے لکھاجائے اِس پر کم سوچا جارہا ہے۔ پاپولرلٹریچر اور ادبی تحریر میںیہی تو فرق ہے۔پاپولر لٹریچر میں صرف کہانی پیش کی جاتی ہے جبکہ ادبی فن پارے میں ’فن ‘ بھی پیش کیا جاتاہے۔لہذا جب تک ہمارے نئے افسانہ نگار موضوع کے ساتھ ساتھ اسلوب اور فنی ٹریٹمنٹ پر توجہ نہیںدیں گے، ان کے افسانے تعداد میں تو اضافہ کریں گے،ہمارے ادبی ذخیرے میں اضافے کا باعث نہیں بن سکیں گے۔عہد حاضر کے افسانہ نگاروں کو اِس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔

 

Dr.Shahab Zafar Azmi

Associate Professor

Department of Urdu

Patna University,Patna (INDIA)800005

Email: drshahabzafar.azmi@gmail.com

Mob: 8863968168

 

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں