19/7/21

حسان الہند مولانا احمد رضا خاں - مضمون نگار: محمد یٰسین

 



مولانا احمدرضا خاں نے شاعری کے تمام اصناف میں باکمال شاعری کی ہے۔ آپ کی شاعری میں تغزل کا رنگ زیادہ گہرا نظر آتا ہے۔ غزل کے انداز میں حمد، نعت، منقبت، قصیدہ وغیرہ خوب خوب کہا۔ علاوہ ازیں مثنوی، قطعات، رباعیات میں طبع آزمائی بھی کی ہے۔ مولانا کی قادر الکلامی کو دیکھ کر دنیائے اردو ادب کے بڑے بڑے علما، شعرا، ماہرین انگشت بدنداں ہیں۔ ان کے اشعار اور دوسرے شعرا کے اشعار میں تھوڑا موازنہ کرتے ہیں۔

 شکیل بدایونی کا ایک شعر ہے جس میں استعارے کا استعمال ہے     ؎

اے میرے ماہ کامل پھر آشکار ہوجا

اُکتا گئی طبیعت یاروں کی روشنی ہے

شاعر نے یہاں اپنی محبوبہ کے لیے اصل معنی ترک کر کے ’ماہ کامل‘ کے مجازی معنی کا استعمال کیا ہے اپنی معشوقہ کے لیے۔ وہیں احمدرضا خاں کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں  استعاروں کو زندگی کا سکون و آرام بتایا ہے      ؎

آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب

سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا

نعمتیں بانٹتا جس سمت و ذی شان گیا

ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا

واللہ جو مل جائے میرے گل کا پسینہ

مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہئے دلہن پھول

اٹھادو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے

زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے

کعبہ کے بدر الدجیٰ تم پہ کروڑوں درود

طیبہ کے شمس الضحیٰ تم پہ کروڑوں درود

اب یہاں تشبیہ کے کچھ اشعار موازنے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ میر تقی میر کا مشہور زمانہ شعر ہے       ؎

نازکی ان کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے

شاعر نے بڑے فنکارانہ انداز میںاپنے محبوب کے ہونٹ کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دی ہے۔

احمدرضا خاں اپنے محبوب کی شان میں کیا لاجواب اشعار کہے ہیں: ملاحظہ ہوں۔ جس میں نبی کریمؐ  کے نازک اور مبارک ہونٹوں کی سچی تصویر پیش کی ہے        ؎

پتلی پتلی گلِ قدس کی پتیاں

ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام

ماہر چاند پوری کا ایک شعر ہے       ؎

چاند سے چہرے میں بکھری ہے وہ زلف عنبریں

رات کیوں ہے آج اتنی دل ربا معلوم ہے

شاعر نے اس شعر میں اپنے محبوبہ کے چہرے کو چاند سے مشابہت کی ہے احمدرضا لکھتے ہیں       ؎

دل کرو ٹھنڈا میرا وہ کف پا چاند سا

سینے پہ رکھ دو ذرا تم پہ کروڑوں درود

ان اشعار میں احمدرضا خاں اپنے محبوب یعنی محمد رسول اللہ ؐ کے تلوؤں کی مثال چاند سے دی ہے         ؎

ریش خوش معتدل مرہم ریش دل

ہالۂ ماہ ندرت پہ لاکھوں سلام

احمدرضا خاں نے نبی کریمؐ کے چہرۂ مبارک اور داڑھی شریف کو ہالہ ٔ ماہ یعنی چاند کے ارد گرد جو کنڈل ہوتا ہے اس سے تشبیہ دی ہے بہت ہی خوبصورت انداز میں تصویرکشی کی ہے۔

صنعتِ مبالغہ میں اردو شعرا نے تو ایک سے بڑھ کر ایک شعر کہے ہیں یعنی حد سے مبالغہ کرنا اسی ضمن میں امیر مینائی کا شعر ہے         ؎

ہنس پڑے آپ تو بجلی چمکی

بال کھولے تو گھٹا لوٹ آئی

لیکن مولانا نے ایسے جو اشعار کہے ہیں اس میںمبالغے کی کوئی بات ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی جو شان  قرآن میں بیان کی ہے اس کو انھوں نے شعری پیرائے میں بڑی فنکاری سے پرو دیا ہے        ؎

اے رضا خود صاحب قرآن ہے مداح حضور

تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

ہماری اردو شاعری میں صنعت اقتباس کا بھی استعمال کچھ شاعروں نے کیاہے یعنی اپنے شعر میں قرآن مجید کا ایک ٹکڑا لے کر مصرعے کو مکمل کرتے ہیں۔آئیے غالب کے دو مصرعے دیکھتے ہیں اور غالباً ایسے اشعار صرف دو ہی ہیں          ؎

دھوپ کی تابش آگ کی گرمی

وقنا ربنا عذاب النار

جاں مطرب ترانہ ٔ ھل من مزید ہے

لب پر وہ سنج زمزمۂ الاماں نہیں

آئیے علامہ اقبال کے کچھ اشعار پیش کرتے ہیں         ؎

رنگ اوادنی میں رنگین ہو کے اے ذوق طلب

کوئی کہتا تھا کہ لطف ِ ما خلقنا اور ہے

زندگی از دھر و دھر از زندگی ست

لا تسبو االدھر فرمان نبی ست

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے

منہ کے بل گرکے ھو اللہ احد کہتے تھے

چشم اقدام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے

علامہ اقبال کے علاوہ اردو کے بہت سے شعرا نے صنعتِ اقتباس کا استعمال اپنے اپنے اشعار میں اپنی فنی صلاحیت سے کیا ہے لیکن احمدرضا خاں کے کلام میں صنعتِ اقتباس کی موجودگی اتنی کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ اس کو ایک مضمون میں بیان کرنا مشکل ہے کچھ اشعار مثال کے طور پر آئیے دیکھتے ہیں           ؎

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر

بول بالا ہے ترا  ذکر ہے اونچا تیرا

غنچے مایوحیٰ کے جو چٹکے دنی ٰکے باغ میں

بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محر م نہیں

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم کو منصب

جو گدا بنا چکے اب اٹھو وقت بخشش کرو قسمت عطایا

مژگان کی صفیں چار ہیں، دو ابرو ہیں

والفجر کے پہلو میں لیال عشر

دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا

من رای کیسا ؟ یہ آئینہ دکھا یا نور کا

ک گیسو ہ دہن ابرو آنکھیں ع ص

کھیٰعٰص ان کا چہرہ ہے نور کا

صنعتِ تضاد میں بھی احمدرضا خاں کا کوئی جواب نہیں۔اس صنعت میں ان کے ہزاروں اشعار ہیں ان کو یہاں پیش کر پانا بہت مشکل ہے۔ کچھ اہم اشعار ہم ضرور نقل کریں گے اور ساتھ میں اکابرین ِ اردو کے شاعروں کے اشعاربھی مثال کے طور پر تحریر کریں گے جس سے احمدرضا خاں کی وصف کی توضیح و موازنہ بھی ہوجائے گا۔

مرزا اسد اللہ خاں غالب کا شعر ہے      ؎

فرش سے تا عرش، واں طوفاں تھا موج ِ رنگ  کا

یا زمین سے آسمان تک سوختن کا باب تھا

اس شعر میں فرش و عرش کا تضاد دکھایا گیا ہے۔

اکبرالٰہ آبادی کا شعر ہے       ؎

نگاہ ناز بتاں پر نثار دل کو کیا

زمانہ دیکھ کے دشمن سے دوستی کرلی

 یہاں پر دوستی اور دشمنی ایک دوسرے کے ضد میں شعری پیرائیے میں لایا گیا۔

اصغر گونڈوی کا شعر ہے        ؎

اس عالم ہستی میں نہ مرنا ہے نہ جینا ہے

تونے کبھی دیکھا نہیں، مستوں کی نظر سے

اس میں مرنا اور جینا دو متضاد کو پیش کیا گیا ہے۔

فیض احمد فیض کا شعر ہے       ؎

وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی

ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے

اس شعر میں وصل کی ضد ہجر، سبک کی ضد گراں اور ’ تھی ‘ کی ضد ’ ہے‘ ہے۔

جگر  مرادآبادی کا شعر ہے       ؎

خدا جانے محبت کون سی منزل کو کہتے ہیں

نہ جس کی ابتدا ہی ہے، نہ جس کی انتہا ہی ہے

اس شعر میں ابتدا اور انتہا دومتضاد الفاظ ہیں۔

 احمدرضا خاںکے اشعار کو دیکھتے ہیں کہ صنعت تضاد کو بڑی فنی خوبیوں و صلاحیتوں سے اردو شعری پیرائے کو مزیّن و آراستہ کیا ہے      ؎

بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا

کھل گیا گیسو ترا، رحمت کا بادل گھر گیا

نہ آسمان کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا

حضور خاک مدینہ خمیدہ ہونا تھا

نار و دوزخ کو چمن کردے بہار عارض

ظلمت حشر کو دِن کردے نہار ِ عارض

کبھی خاک پر پڑا ہے، سر چرخ زیرپا ہے

کبھی پیش در کھڑا ہے۔ سر بندگی جھکایا

ہلکا ہے اگر ہمارا پلّہ

بھاری ہی ہے تیرا وقار آقا

صنعت ِ تلمیح کے کچھ اشعار کا موازنہ کرتے ہیں :

مرزا اسد اللہ خاں غالب کا شعر ہے        ؎

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر

لیکن آنکھیں روزنِ دیوار زنداں ہوگئیں

فانی بدایونی کا شعر ہے       ؎

طور نے جل کر ہزاروں طور پیدا کردیے

ذرہ ذرہ میرے دل کی خاک کا دل ہوگیا

مولانا احمدرضا خاںکے اشعار دیکھتے ہیںجس میں صنعت تلمیح بڑی فنکاری سے پیش کی گئی ہے          ؎

تیری مرضی پاگیا، سورج پھر الٹے قدم

تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چِر گیا

اس شعر میں جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نماز عصرقضا کو ادا کرنے کے لیے حضور اقدسؐ  نے سورج کو واپس ہونے کا حکم دیا تھا اسی واقعے کو اس شعر میں بحسن خوبی پیش کیا ہے        ؎

اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم

جانور بھی کریں جن کی تعظیم

سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم

پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں

اس مصرعے میں جانوروں کے سجدے اور سنگریزوں کے آقا علیہ السلام پر درود و کلمہ ٔ شہادت اور مصرعۂ ثانی میں معجزۂ شق القمر یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے معجزہ کی طرف اشارہ ہے۔

حسن ِتعلیل کے کچھ اشعار دیکھتے ہیں۔

مرزا غالب کا شعر ہے        ؎

میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستان کھل گیا

بلبلیں سن کر میرے نالے غزل خواں ہوگئیں

فیض احمد فیض کا شعر ہے       ؎

رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام

موسم گل ہے تمھارے بام پر آنے کا نام

مولانا  احمدرضاخاںکے اشعار میں حسن ِ تعلیل کا کس فنی صلاحیتوں سے استعمال کیا گیا ہے وہ لائق ستائش ہے       ؎

خم ہوگئی پشت فلک اس طعن ِ زمین سے

سن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا

چمن طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو

حور بڑھ کر شکن ناز پہ وارے گیسو

رخ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی

رہ گیا بوسہ دہ ِ نقش کف ِ پا ہو کر

مولانا احمدرضا خاںنے سبھی اجزائے ترکیبی میں شعر کہے ہیں یہاں پر سبھی ترکیبوں کا ذکر کر پانا بہت مشکل ہے۔ شاعری کی شاید ہی کوئی ایسی صنعت ہو جس کو انھوں نے کلام آراستہ نہ کیا ہو۔ جب کہ اردو ادب کے صفِ اول کے شاعر کہلانے والے نامور شاعروں کے دیوان اردو شاعری کی بہت سی صنعتوں سے محروم ہیں۔ آپ کی تمام شاعری کا جائزہ لینے میں اہل ادب تأمل نہ کرتے اور فن و ادب کے کمال کے ترازو میں رضا کے اشعار اور دیگر شعرائے اردو ادب کے اشعار کا موازنہ کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا اہل ادب نے تنگ نظری اور تعصب پذیر ذہنیت کا ثبوت دیا فن و ادب سے وابستگی رکھنے والے با صلاحیت اور دانش ور طبقے کو بھی طوطا چشمی کا مرض لگ گیا جو عدل قائم کرنے میں ناکام رہے اردو ادب میں ایک عظیم سخن ور کو نظر انداز کیا گیا۔ کاش ایسا نہ ہوتا تو اہل اردو ادب رضا کے کلام کو بطور مثال پیش کرتے۔ جس نے تمام صنعتوں میں اشعار کہہ کر فن شاعری کو سر بلندی عطا کی ہے۔ جس کا اعتراف کرنا پڑے گا        ؎

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

میرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے

تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ

میری چشم عالم سے چھپ جانے والے

بگڑا جاتا ہے کھیل میر

آقا آقا سنوار آقا


Dr. Mohammad Yaseen

A-380, G.T.B

Nagar Karela

Allahabad - 211016

Mob.: 9336084416

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2021 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں