23/7/21

محی الدین قادری زور بہ حیثیت شاعر - مضمون نگارـ زنیرہ

 



سید محی الدین قادری زور ایک درویش صفت انسان تھے۔ زور بحیثیت محقق، ماہر لسانیات، ماہر دکنیات، ماہر مخطوطات، نقاد، افسانہ نگار کے تعلق سے کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں لیکن بات اگر بحیثیت شاعرکی جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ بس ایک تخلص زور ہی رہ گیا ہے۔ اس تعلق سے ہمارے ناقدین کی بھی نظرکم ہی گئی ہے۔اس کے پیچھے وجہ کیا رہی ہے اس تعلق سے بہت سے سوالات ہمارے اور آپ کے ذہن میں آسکتے ہیں جیسے کہ کیا زور کی شاعری ہی ایسی تھی کہ اس پر توجہ نہ دی جائے یا پھر زور کی دیگر خدمات نے ایک بطور شاعر کی پہچان بننے نہیں دیا ؟ ان سوالوں کے جواب ہمیں ان کی شعری خصوصیات کے اجاگر ہونے کے بعد ہی مل سکیں اور کچھ اسی تعلق سے میں نے چند باتیں اس مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

زور کو شعر کہنے کا فن ورثے میں ملا تھا۔ان کے والد حضرت زعم بھی ایک شاعر تھے یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زور ایک موروثی شاعر تھے۔علاوہ ازیں ان کی طبیعت بھی فطرتاً شعر گوئی کی طرف مائل تھی اور کچھ زندگی کے تجربات و مشاہدات نے انھیں وسعت نظری بخشی۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ زور نے اپنی ذات اور شخصیت کے اظہار کے لیے ادب کی جن اصناف کا سہارا لیا ان میں سے ایک شاعری بھی ہے،یہ اور بات ہے کہ زبان کی دیگر خدمات نے انھیں اس طرف دیکھنے کا بہت ہی کم موقع دیا اور ان کی شاعری کے کل اثاثے میں 5نظمیں چاندنی، آسماں کی زبان سے، افسانۂ محبت، رہبر منزل کی جدائی، جامعہ عثمانیہ اور نو نہالانِ دکن، فارسی میں ایک نظم ’خیر مقدم ‘کے عنوان سے ہے اور غزلوں میں ان کی 16غزلیں اور چند متفرق اشعار شامل ہیں۔

زور کی شاعری پر جب ہم تنقیدی نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ زور کی یہ شاعری غمِ جاناں اور غمِ دوراں سے عبارت ہے۔ ان دونوں نے مل کر زور کی زندگی میں اتنے انتشار پیدا کر دیے تھے کہ ان کو کہنا پڑا      ؎

ہم اور غمِ دوراں کی خلش،ہم اور غمِ جاناں کی تپش

کچھ لوگ ابھی تک فردائے قیامت بیٹھے ہیں

 ہمارے لیے یہ غور و فکر کا مقام ہے کہ زور کی زندگی میں اتنے مسائل ہونے کے باوجود بھی انھوںنے زندگی کے کسی موڑ پر ہمت نہیں ہاری اور ہر مشکل کا سامنا بڑے ہی بہادری سے کرتے رہے۔ادب ہوکہ زندگی دونوں ہی میں جوش اور ولولے کے ساتھ بے لوث خدمات انجام دیتے رہے انھیں اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ زندگی تو فانی ہے ہی اور ایک انسان کی خدمت اور کام ہی ہیں جس کی بدولت وہ ہمیشہ یاد رکھے جا سکتے ہیں اس لیے انھوں نے کہا کہ        ؎

یوں تو کرنے کو بہت کام ہیں لیکن اے زور

کام آتا ہے ہنر کوئی نہ خدمت کے سوا

موت سے بھی مریں گے نہیں زورہم

زندگی میں جو کچھ کام کر جائیں گے

زور کی ہمہ جہت شخصیت کی بہترین عکاس ان کی شاعری ہے۔کہنے کو تو یہ صرف 5نظمیں اور 16غزلیں ہیں لیکن ہر غزل کا ایک ایک شعر ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔موضوعات کے تنوع کے بنا پر ان کی یہ غزلیں کسی شاعر کے دیوان سے کم نہیں ہیں۔ان کے یہاں عشق کی نیرنگیاں اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔وہ محبوب کو اپنی آنکھوں میں یوں بسائے ہوئے ہیں کہ    ؎

میری آنکھوں میں جلوہ اپنا دیکھو

یہ ہر دم دیکھتے ہو آئینہ کیا

اسی طرح وہ کبھی کبھی محبوب کے خیالوں میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ انھیں محبوب کے پاس ہونے کا گماں ہوتا ہے        ؎      

سوچتا ہوں کہ کہیں تم تو نہیں آنکلے

ایک ہلچل سی مچی رہتی ہے جب دل کے قریں

اتنا اچھا اور سچا شعر کہ بے ساختہ دل کہہ اٹھے کہ واہ یہ زورکا کما ل ہے۔

ایک عاشق کے دل میں اپنے محبوب کے دیدار کے لیے جو تڑپ اور بے چینی ہوتی ہے اس کی جھلک بھی ہمیں زور کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔محبوب کا شوق دیدار زور کے یہاں ایک آتشِ شعلہ بن گیا ہے جس کی دھیمی دھیمی آنچ میں ان کے جذبات شعرکے سانچے میں ڈھل کر ان کے اس شوق کی ترجمانی کچھ یوں کرتے ہیں         ؎

کبھی تو ایک جھلک سی دکھائیے ہم کو

ابھی تک آس لگائے ہیں انتظار میں

اور جب عاشق کے اصرار پر محبوب کبھی ملاقات کے لیے رضامند ہو بھی جاتا ہے تو ملاقات سے پہلے انتظار کی جو گھڑی ہوتی ہے وہ کس قدر جان لیوا ہوتی ہے یہ ایک طرح کی اضطراری کیفیت ہوتی ہے طرح طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آتے رہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی محبوب کے آنے نہ آنے کے اندیشے بھی اس کو ستاتے رہتے ہیں اس کی بے لاگ تصویر زور کے اس شعر میں دیکھ سکتے ہیں        ؎

جی جی کے انتظار میں مرتے رہیں ہیں ہم

آخر وہ آتے آتے نہ آئیں تو کیا کریں

اتنا ہی نہیں محبوب سے ملاقات کے وقت ایک عاشق کی جو دلی کیفیت ہوتی ہے اس کا اظہا ربھی زور کے یہاں ملتا ہے۔ ان کے کچھ شعر ایسے ہیں جو اس کیفیت کو تمام تر سچائیوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ملاقات کے ان لمحات میں محبوب کی ایک ایک ادا عاشق کے جذبات کو کس طرح سے بھڑکاتی ہے اس تعلق سے زور کا یہ شعر دیکھیے    ؎

وہ ناز و ادا میں سر گرمی سو رنگ سے جب دکھلاتے ہیں

جذبات کو لے کر پہلو میں سر گرم وفا ہو جاتا ہوں

ہر عاشق کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ معشوق کی توجہ کا مرکز بنارہے اور محبوب کی اسی توجہ اور محبت کی طلب کی حسرت زور کے یہاں اتنا زور پکڑ لیتی ہے کہ انھیں اس بات پر زور دے کر کہنا پڑتا ہے کہ     ؎

ایک نگاہِ غلط انداز سہی دیکھ تو لیں

آپ کے چاہنے والوں میں یہاں ہیں کچھ لوگ

لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود بھی لگتا ہے کہ شاعر کو عشق میں ناکامی ہی ہاتھ لگتی ہے اور انھیں محبوب کے در سے نامراد اور خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔محبوب کی اس بے اعتنائی اور بے وفائی سے وہ ٹوٹ جاتے ہیں ان کا یہ درد کبھی شکوہ بن کر لبوں پر آتا ہے تو کبھی اپنی اس کیفیت پر وہ خود سے نالاں نظر آتے ہیں۔اس سلسلے سے دو شعر دیکھیں جو ان کی ان دونوں ہی طرح کی کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں         ؎

وہ بزم غیر میں جھوٹے فسانے

انھیں یاد آئے گی میری وفا کیا؟

تیرے در پر جو آیا پھر نہ اٹھا

یہی دنیا میں تھا اک آسرا کیا؟

عشق کی یہ ناکامی اور نامرادی زور کو توڑ کر رکھ دیتی ہے لیکن یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ جب زخم حد سے بڑھ جاتا ہے تو دوا بن جاتا ہے ایسا ہی کچھ زور کے ساتھ بھی ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اس کے بعد ان کے قلب سے جو صدا نکلتی ہے وہ دیگر عاشقوں کے لیے نصیحت کا کام کرتی ہے۔زور یہ نہیں چاہتے ہیں کہ کوئی اور عشق میں گرفتار ہو کر مصیبتوں کو مول لے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ        ؎

یہ راہ سوچ سمجھ کر ہی اختیار کریں

وہ سوئے دار چلے ہیں جو کوئے یار میں ہیں

غمِ جاناں کے بعد غمِ دوراں کی تپش نے زور کو تجربات و مشاہدات کی آگ میں جھلسا کر کندن بنا دیا تھا اس لیے وہ کبھی فلسفئہ حیات کی بات کرنے لگے تو کبھی دنیا کی بے ثباتی کا اظہار اور کبھی فکر روزگار نے انھیں اس طرح آ لیا کہ مجبوراًانھیں کہنا پڑا        ؎

اچھا نہیں شکوہ شام و سحر مگر

افکار روزگار ستائیں تو کیا کریں

یہ مثل ہے کہ جب مصیبتیں آتی ہیں تو ہر طرف سے آتی ہیںشاید کہ زور کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔غمِ جاناں نے تو انھیں پریشان کیا ہی تھا بچی کھچی کسر غمِ دوراں نے پوری کر دی تھی۔اس طرح زور نے زندگی کے اتنے رنگ دیکھے کہ زندگی ہی پر ان کا بھروسہ نہ رہا ایسے موقعے پر ان کے اشعار دنیا اور ہستی کی بے ثباتی کا اظہار کرتے ہیں           ؎

ٹوٹے جو روز سر پر بلائیں تو کیا کریں

وہ بھی ہنسا ہنسا کر رلائیں تو کیا کریں

ہر دم نئے نئے یہ دکھاتی ہے شعبدے

ہستی کا پھر فریب نہ کھائیں تو کیا کریں

اے زور نہ کر راحت کی ہوس دنیا ہے یہ سب دھوکہ کی جگہ

چشمہ بھی سراب آتا ہے نظر جب پیاس بجھانے جاتا ہوں

حیرت کی بات یہ ہے کہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں دونوں نے مل کر بھی زورکو دنیا و جہاں سے بے خبر نہ ہونے دیا ایسے کڑے وقت میں بھی انھوں نے ایک مصلح کی طرح سماج اور معاشرے کی اصلاح کا بیڑا ٹھا یا اور لوگوں کو انسان دوستی، محبت اور آپسی بھائی چارگی کا سبق سکھایا، دلوں میں کدورت اور بغض جگہ نہ لیں اس کے لیے اخلاقی درس دیا اس تعلق سے انھوں نے جو اشعار کہے ہیں وہ آفاقیت لیے ہوئے ہیں مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کریں       ؎

ہم نے سیکھا ہی نہیں آپ کی چاہت کے سوا

کام آیا نہیں دنیا میں محبت کے سوا

دل ہو بیدار تو انسان سمجھ سکتا ہے

قوتیں اور بھی ہیں دولت وثروت کے سوا

زور کو غریب اور محنت کش لوگوں سے بلا کا لگائو تھا اور ان کے ناگفتہ بہ حالات انھیں دیکھے نہیں جاتے تھے یعنی کہ زور ایک دردمند دل رکھتے تھے۔وہ دوسرے اور خاص کرغریب اور کسان طبقے کی حالت پر افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں جو انسان دوستی کی بہترین مثال ہے شعر دیکھیں کہ       ؎

کیا ستم ہے وہی بے نام و نشاں رہتے ہیں

جن غریبوں کے پسینوں سے نکھرتی ہیں زمیں

زور اخلاقی قدروں اور تہذیب کے پاسدار بھی تھے۔وہ دور اندیش بھی۔ روزانہ کی مصروفیات نے آپسی رشتوں کی محبت کواثر انداز کیا ہے آئے دن ہونے والی اخلاقی قدروں میں گراوٹ،محبت و بھائی چارگی کی کمی،جدید تہذیب کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اس وقت ہی اس پایے کے اشعار کہے تھے جو آج بھی فٹ بیٹھتے ہیں۔وہ یوں کہ شعر دیکھیں         ؎

ہنوز ایسے بھی انسان روزگار میں ہیں

کبھی سحر کے کبھی شب کے اعتبار میں ہیں

تو کبھی نالاں ہو کر یوں بھی کہا ہے کہ       ؎

انسان مر چکا ہے مشینوں کا دور ہے

اب کیا کسی کو زہرکہ،امرت پلائیے

اتنا ہی نہیں زور امن کے بھی پیامبر تھے۔وہ تمام عالم میں امن کے خواہاں نظر آتے ہیں۔

زور نے اپنی زندگی میں لاکھ مصیبتوں کا سامنا کیا لیکن ایسے کٹھن اور کڑے وقت میں بھی انھوں نے اپنا حوصلہ نہیں کھویا اور نا ہی کبھی ناامیدی کا شکار ہوئے یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے اشعار میں بھی یہی امید دکھائی دیتی ہے۔وہ لوگوں کو پر عزم،ہمت و حوصلہ سے لبریزاور کسی بھی حال میں امید کا دامن نہ چھوڑنے اس کے ساتھ ہی جہد مسلسل کی ترغیب دیتے ہیں۔اشعار دیکھیے        ؎

اپنی تقدیر بنتی ہے تدبیر سے

اب نہ دشمن کا ڈھونڈوں کرم ساتھیو

ولولے دل کے مگر سرد نہ ہونے پائے

مضمحل ہو کے بھی جذبات نہ سونے پائے

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ زور کی ان غزلوں میں موضوعات کا اس قدر تنوع ہے جس کی بنا پر اگر ہم کہیں کہ ان کی یہ16غزلیں ایک مکمل دیوان ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

موضوع کے ساتھ ساتھ اگر ہم ان کے فن پر نظر ڈالیں تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ زور نے اپنی غزلوں کے اکثر اشعار میں متضاد الفاظ کولانے کی سعی کی ہے بلکہ کسی کسی غزل کے تو سبھی اشعار میں لفظوں کا یہ تضاد دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کے اس طرح  استعمال سے شعر کے ظاہری حسن کے ساتھ معنوی حسن میں بھی اضافہ ہوا ہے نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں        ؎

آپ کے شوق میں جیتے ہی رہے مر مر کے

اور زمانے نے یہ سمجھا کہ یہ مر جائیں گے

فردا کے انتظار میں کٹتی ہے زندگی

بہتر ہے روز وشب کا پردہ نہ اٹھائیے

اسی طرح ان کے یہاں بے شمار تضاد الفاظ ملتے ہیں جیسے۔ زہر امرت، شام وسحر،جینا مرنا،بننا بگڑنا،خزاں بہار، افسانہ حقیقت،بلند پست،خوشی غم،قید آزاد وغیرہ جن کی مدد سے زور نے اپنی غزلیہ دنیا کو سجا رکھا ہے۔کہیں کہیں یہ تضادات تکرار کی شکل بھی اختیار کرکے ایک طرح کی موسیقیت اور ترنم پیدا کرتے ہیں جس کو برتنے میں انھیں مہارت حاصل تھی۔شعر         ؎

انقلاب زمانہ ہے شاید یہی دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا بن گئے

ہم جو بن بن کے بگڑے تو بندے بنے،وہ بگڑتے بگڑتے خدا بن گئے

زور نے اپنے اشعار میں محاوروں کا بھی بر محل استعمال کیا ہے۔یہ محاورے ان کے اشعار میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ شعر کے ظاہری حسن کو دوبا لا کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں معنی خیز بھی بناتے ہیں۔انھوں نے بڑے ہی سلیقے سے محاوروں کو اشعار کی قالب میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔اس تعلق سے یہ شعر دیکھیے       ؎

گنا کرتے ہو راتوں کو جو تارے

یہ آخر زور تم کو ہو گیا کیا؟

الغرض زور کی شاعری کا موضوعی اور فنی جائزہ لینے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ زور کو فن شاعری پر گرفت تھی  اور وہ ایک اچھے شاعر تھے۔

افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ناقدوں کی نظر اس طرف نہیں گئی ہے۔زور کو بحیثیت محقق،نقاد،ماہر لسانیات مان کر ان پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن بحیثیت شاعر چند ایک مضمون کے علاوہ کچھ نہیں ملتا،ماناکہ زور نے شاعری کم کی لیکن ان کی یہ کم شاعری اتنی بھی کم تو نہیں تھی کہ اس پہلو سے انھیں یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔



Zunera

Room No: 104, L.H.7, South Campus

University of Hyderabad - 500046

Mob.: 9493011532

Email.: zuneraabrar2014@gmail.com

 

 

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں