26/7/21

تلوک چند محروم اور ادب اطفال - مضمون نگار۔ محمد محسن رضا

 


تلوک چند محروم بیسویں صدی کے شعری و ادبی منظر نامے پرایک ایسا نام ہے جن کی تعریف اقبال جیسے شاعر نے بھی کی۔ لالہ کرم چند مدیر ’پارس‘ نے اقبال سے ایک بار مخزن میں شائع ہونے والے شعرا کے بارے میں دریافت کیا کہ آپ اپنے علاوہ کس کو بہترین شاعر مانتے ہیں تو اقبال نے جواب دیا’جو سب سے اچھا تھا اس کا انتقال ہوگیا (اسی وقت سرور جہان آبادی کا انتقال ہوا تھا) اور موجودہ شعرا میں تلوک چند محروم ہی سب سے اچھا کہنے والا ہے۔‘ محروم بھی اقبال سے بہت عقیدت رکھتے تھے جب وہ یورپ سے لوٹ کر آئے تو محروم نے ان کے استقبال میں نظم بھی لکھی جو مخزن میں شائع ہوئی اور اقبال نے اسے دیکھ کر تلوک چند محروم کوتشکر نامہ بھی لکھا۔ 1

تلوک چند محروم کی ولادت یکم جولائی 1887 کو دریائے سندھ کے کنارے ایک انتہائی پسماندہ گائوں میں ہوئی۔ جب انھوںنے اپنی تعلیم کا آغاز کیا تو ایسے اسکول میںان کا داخلہ ہوا جہاں کوئی لائبریری بھی نہیں تھی اور نہ شعر وادب کا ذوق رکھنے والے اساتذہ تھے۔ تاہم انھیں کہیں سے ’دیوان ذوق‘ مل گیا جسے پڑھ کر بہت متاثر ہوئے اور شعری ذوق کو جلا ملی۔پھر بعد میں دیوان غالب جب ہاتھ لگا تو اس کے اسیر ہوگئے اور مسلسل اسے اپنے مطالعے میں رکھتے تھے۔ تلوک چند محروم پیدا ئشی شاعر تھے اور ان کے اندر شعرو ادب کا فطری ذوق موجود تھا۔چنانچہ تیسری، چوتھی جماعت سے شعر موزوں کرنے لگے تھے اور آٹھویں جماعت تک ان کی نظمیں اساتذہ کو بھی حیرت زدہ کرنے لگیں۔ دوران اسکول سالانہ معائنہ کے لیے ایک بار ڈویژنل انسپکٹر آف اسکولز نے اسکول کا دورہ کیا۔ انسپکٹر ادبی ذوق بھی رکھتے تھے چنانچہ تلوک چند محروم کو ان کے سامنے پیش کیا گیا اور کچھ سنانے کی فرمائش کی گئی۔ انھوںنے ایک مرثیہ اور ایک نظم ’خدمت والدین‘ کے عنوان سے پیش کی جسے سن کر انسپکٹر بہت خوش اور متاثر ہوئے اور مرثیے کی ایک نقل ڈائریکٹر سر رشتہ تعلیم کو بھجوا دی اور پھر وہاں سے خوب تعریف و توصیف ملی۔ بظاہر یہ معمولی واقعہ ہے لیکن اس سے ان کے ادبی و شعری ذوق کو بڑی تقویت ملی اور شعری میدان کے وہ شہسوار ہوگئے۔ 2 تلوک چند محروم کی شخصیت اور شاعری کے اتنے پہلو ہیں کہ ان سب پر گفتگو کرنے کے لیے ایک ضخیم تحقیقی مقالے کی ضرورت ہے۔ سردست محروم کی شاعری کے ایک گوشے یعنی ادب اطفال پر گفتگو مقصود ہے۔

بچوں کا ادب اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے مقصود بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت ہے۔ بچے کسی بھی ملک کا مستقبل ہوا کرتے ہیں اور اس ملک و قوم کی ترقی کا دار و مدار انھیں پر ہوتا ہے۔ اس لیے انھیں بہتر تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا بنیادی فریضہ ہے۔ ادب اطفال بچوں کی ذہنی و فکری نشو و نما میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ چناںچہ دنیا کی تمام زبانوں میں اس پر خاص توجہ دی جاتی ہے اور بچوں کے ادیبوں کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ اردو میں بھی اس پر کافی کچھ لکھا گیا اور اب بھی سلسلہ جاری ہے۔ادب اطفال چوںکہ کم سن اور کم عمر بچوں کے لیے ہوتا ہے اس لیے اس میں بچوں کی نفسیات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ادب اطفال پر لکھنے والا شاعر و ادیب ضروری نہیں کہ کامیاب ہو ہی جائے۔ تلوک چند محروم شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے اور زندگی بھر بچوں کو پڑھانے لکھانے میں مصروف رہے اس لیے بچوں کی نفسیات و کیفیات سے بحسن و خوبی واقف ہیں۔اس لحاظ سے ادب اطفال کی تخلیق میں وہ انتہائی کامیاب ہیں۔ اس میدان میں اسمٰعیل میرٹھی کے بعد محروم کا نام بہت اہم ہے۔ چناںچہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور ’بہار طفلی‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: ’’اس میدان کے قائد کی حیثیت سے مولوی اسمٰعیل میرٹھی کے بعد مرد مجاہد کی حیثیت سے اردو شاعری میں حضرت محروم کا نام نامی لیا جاسکتا ہے۔‘‘ 3

تلوک چند کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ انھوںنے اپنی تخلیقی صلاحیت کو نہایت آزاد ی کے ساتھ استعمال کیا مگر بے لگام نہیں ہونے دیا۔ زندگی کے معمولی سے معمولی شعبوں اور آدمیوں کو موضوع تخلیق بنایا اور ان کے دکھ درد کو محسوس کیا۔غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے اس کے خلاف مسلسل آواز بلند کی اور ہندوستان کی شان میں بے شمار نظمیں لکھیں۔ ان کے دل و دماغ میں ہر طبقے کے افراد اور سماج کے لیے بے انتہا گنجائشیں تھیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ کسی خاص طبقے یا افراد تک محدود نہیں رہے بلکہ ہر ایک کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہے اور بہتر معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں ہمیشہ اپنا تعاون پیش کرتے رہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی نظمیں بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ محروم کی زندگی کا خلاصہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:

’’انھوں نے جوانوں، بوڑھوں، بچوں، سرفروشوں، وطن پرستوں، جاں بازوں، دہقانوں، محنت کشوں، غم زدوں، ہجر نصیبوں سب کو اپنے دل میں جگہ دی۔ سب کے درد کو اپنا درد اور سب کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا۔ انھوںنے ہر صنف سخن میں اظہار خیال کیا۔ رباعی کے میدان میں ان کا لوہا استادوں نے بھی مانا۔ لیکن وہ نظم کے مرد میدان تھے۔ وہ حالی، سرور، اسمٰعیل، چکبست، شوق، اکبر اور اقبال کی آنکھیں دیکھے ہوئے تھے۔ مخزن کی تحریک میں شامل رہے تھے اور اس روایت کو اپنے شعور کا حصہ بنا کر انھوںنے قدم آگے بڑھایا، اور نظم کے خزانے میں ذاتی، اخلاقی، سماجی، تاریخی،وطنی اور قومی مضامین کا انبار لگا دیا۔ ان کا دل چوٹ کھائے ہوئے تھا، ذاتی صدموں، نجی محرومیوں اور اخلاقی زوال کے ہاتھوں؛ اور انھیں گہرا رنج تھا، قومی افلاس اور بد حالی کا اور ملکی نفاق اور غلامی کا؛ یہ دل زدگی اور درد مندی ان کے کلام میں موج تہ نشین کی طرح جاری و ساری ہے اور اسی نے اسے تاثیر کی وہ دولت عطا کی ہے جس پر کبھی زوال نہیں آسکتا۔ ان کا خطاب کسی ایک فرقے یا سماج کے ایک طبقے سے نہیں تھا۔ یہ پورے ملک اور پوری قوم سے تھا، بلکہ پورے عالم انسانیت سے تھا۔ وہ وسیع معنوں میں انسانیت کے شاعر تھے۔ انھوںنے شرافت و صداقت، حق گوئی و بے باکی، غیرت و حمیت، حریت پسندی و وطن دوستی، رواداری و یگانگت و غیرہ قدروں پر اس وقت زور دیا جب غلامی نے ہمارے احساس کے دھارے کو کند کردیا تھا اور صنعتی زندگی کی حشر سامانی میں ہم خود کو بھولنے لگے تھے۔ محروم کی شاعری اس لحاظ سے ہماری عزیز ترین متاع ہے کہ اس میں ہمارے پچھلے پچاس برسوں کی سماجی زندگی کی نبض چلتی ہوئی اور ہماری قومی تحریکوں کا دل دھڑکتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس نے پچھلی نصف صدی میں ہمارے کئی سماجی اور ملکی تقاضوں کو پورا کیا۔ دو تین نسلوں کی ذہنی تربیت میں اہم حصہ لیا اور جمالیاتی و تخلیقی سطح پر ان قدروں کی پاس داری کی جن پرا یمان تازہ کرنے کی ضرورت ہر دور میں محسوس ہوتی رہے گی۔ محروم کی یاد تازہ کرنا گویا اپنے ذہنی اور ادبی سرمائے کی قدر کرنا اور اس سے محبت کا ثبوت دینا ہے۔‘‘ 4

شعر و ادب کے بارے میں تلوک چند محروم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ وہ افادی ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیںکہ فنی کمزوریاں معاف ہیں بلکہ فنی سطح پر کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ سماج کے لیے اس میں افادی پہلو بھی ہونا چاہیے۔ محروم کو سیاست اور سماج کا گہرا شعور تھا اور وہ اسے شاہراہ ترقی پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی ذہنی و فکری اور شعری و ادبی تشکیل میں مناظر فطرت، محرومیت اور محزونیت کے جذبات اور اخلاقیات اورسماجی شعور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ محروم کا عہد اردو شاعری خصوصا نظم نگاری کے حوالے سے عہد زریں تھا۔ اس عہد میں سرور جہان آبادی، اقبال، اکبر الہ آبادی، اور اسمٰعیل میرٹھی جیسے جید نظم نگار موجود تھے اور ہر طرف ان کی نظم نگاری کا شور تھا، ان کی موجودگی میں اپنی علیحدہ شناخت قائم کرنا بہت مشکل امر تھا۔ تاہم محروم کی تخلیقی اپج نے نظم، غزل اور رباعی تینوں میں اپنی انفرادیت قائم کی۔ محروم کے جذبات میں اخلاص و متانت، سنجیدگی اور سچائی پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کے بارے میں نیاز فتح پوری کہتے ہیں:’’لیکن محروم کا رنگ ان سب سے علیحدہ تھا۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حالی کا اثر سب سے زیادہ محروم نے ہی قبول کیا۔ وہی سادگی بیان، وہی پر خلوص لہجہ، وہی صداقت جذبات، اور وہی سب کچھ جو ایک مخلص دوست کہہ سکتا ہے۔ ان کے یہاں نہ مجاہدانہ جوش و خروش ہے، نہ سرفروشانہ تبلیغ، لیکن صداقت اتنی زبردست پائی جاتی ہے کہ اس سے متاثر نہ ہونا ممکن نہیں۔‘‘ 5

ادب اطفال کے حوالے سے تلوک چند محروم کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انھوںنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ذوق و شوق کو نکھارنے کے لیے بہت سی نظمیں لکھی جو مجموعے کی شکل میں’بہار طفلی‘ کے نام سے 1960 میں اور ’بچوں کی دنیا‘ کے نام سے 1964 میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔ بہار طفلی میں چوبیس طبع زاد نظمیں، پانچ ترجمہ شدہ نظمیں اور قطعات کے علاوہ فرہنگ میں مشکل الفاظ کے معانی بھی درج ہیں۔ بچوں کے لیے جتنی نظمیں لکھی جاتی ہیں ان کا بنیادی مقصد تعلیم، حسن اخلاق اور پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنا ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں تلوک چند محروم کی نظمیں مکمل کامیاب ہیں۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی شعر و ادب تخلیق کیا اور اس کے پیچھے ان کی بنیادی منشا یہی تھی کہ اصلاح معاشرہ پر توجہ دی جائے۔ بچوں کے معاملے میں وہ انتہائی نبض شناس اور ان کے مسائل پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں سادہ اور دل نشیں انداز میں نغمہ و آہنگ سے لبریز بچوں کو متاثر کرتی ہیںاور حسن اخلاق و اقدار کی تعلیم دیتی ہیں۔محروم کے اس مجموعے میں بچوں کے لیے سبق آموزاور زندگی کے لیے نصیحت آموز نظمیں ہیں۔ چناںچہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور اس کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

’’اس چمنستان سخن کا ہر ورق ایک ’دبستان‘ بنا ہوا ہے۔ ہر نظم ایک سدا بہار گلستاں کا منظر پیش کرتی ہے۔ شاعر ہر نظم کے موضوع کے ساتھ خود کو اس سلیقے سے وابستہ کرتا ہے کہ وہ بھی بچوں کی برادری کا ایک فرد معلوم ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح صفائی، تندرستی، جھوٹ اور ادب پر حضرت محروم کی نظمیں بڑی ہی عمدہ، معیاری اور بچوں کے اخلاق و اطوار کو سنوارنے والی ہیں۔ ’محنت‘ عنوان والی نظم کورس میں شامل ہونے کے سبب بچوں میں کافی مقبول رہی ہے۔ ویسے ان کی بیشتر نظمیں درسی کتابوں اور بچوں کے رسالوں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ جن سے استفادہ کرکے آج کے بچے کل کے اچھے شہری بن رہے ہیں۔6

بہار طفلی کا آغاز ایک خوب صورت دعا سے ہوتا ہے جس میں خدا کی قدرت اور نصرت نہایت سادگی کے ساتھ اور دل چسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد دل و دماغ پر ایک تاثر طاری ہوجاتا ہے اور ذہن میں اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر ’خدا کا شکر، سال نو مبارک،بچوں کو نیا سال مبارک، ہمارا دیس، کام، سویرے اٹھنا،اچھے کام، کتاب، بلبل،محنت، صفائی، دشمنی، ہم ہرگز جھوٹ نہ بولیں گے، جھوٹ بڑا پاپ ہے،ادب، بد زبانی سے پرہیز کرو، تندرستی ہزار نعمت ہے اوراچھا آدمی‘ وغیرہ جیسے عنوان سے نظمیں ہیں جن میں سے ہر ایک سادہ و سلیس زبان اور دلچسپ پیرایہ میں نصیحت آمیز ہیں۔ نئے سال کی مبارکباد دینے کے لیے جو نظم لکھی گئی ہے اس میں نیک تمنائوں اور دعائوں کے ساتھ ساتھ نئے سال میں کچھ بہتر کرنے کا عزم اور ہمت و حوصلہ بھی موجود ہے۔ پہلے مصرع میں سال نو کی مبارکبادی پیش کی جاتی ہے اور دوسرے میں ہی دعا اور نصیحت آمیز گفتگو شروع ہوجاتی ہے۔ تاہم نظم میں ناصحانہ خشکی کے بجائے دل چسپی اور تر و تازگی کا احساس برقرار رہتا ہے۔ایک بند ملاحظہ فرمائیں         ؎

مبارک سال نو اے نو نہالان وطن! تم کو

خدا دل کی امنگوں میں کرے ذوق عمل پیدا

چڑھیں پروان ننھے ننھے پودے آرزوئوں کے

ہوں ان میں نیکیوں کے خوب صورت پھول پھل پیدا

اسی طرح اپنی نظم ’کتاب‘ میں بچوں سے مخاطب ہوکر کتاب کی اہمیت و معنویت پر توجہ دلائی جاتی ہے اور بچوں کے ذہنوں نشین کرائی جاتی ہے کہ دنیا کے دوستوں کی محبت دائمی نہیں بلکہ کبھی کبھی اس میں دراڑ آسکتی ہے، تاہم کتاب ایسی دوست ہے جو کبھی جدا نہیں ہوسکتی اور ہمیشہ اس سے سرخروئی اور ناموری ہی حاصل ہوگی اگر اس کو اپنا رفیق بنا لیا جائے۔ذیل کا شعر دیکھیں        ؎

بہتر کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے

بہتر کوئی شفیق نہیں ہے کتاب سے

دوسرا مجموعہ ’بچوں کی دنیا‘ کے نام سے ہے جس میں ’اونچے ارادے، اچھا بچہ، صبح ہوئی، پہلے کام پیچھے آرام، مور، سچائی، سگرٹ، استاد کی چھڑی، بہت بولنا عیب ہے، پرندوں کو ایذا نہ پہنچائو، قرض اور وقت کی پابندی‘ وغیرہ طبع زاد نظمیں ہیں۔ اس کے علاوہ دس نظمیں ترجمہ کی ہوئی ہیں اور اخیر میں فرہنگ بھی شامل ہے۔ان نظموں میں اچھی عادتوں کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے تو بری عادتوں سے باز رہنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مناظر فطرت کی خوب صورتی بھی بچوں کے ذہن و دماغ میں نقش کرنے کے لیے نظم کی گئی ہیں۔ مثلا’اچھا بچہ، صبح ہوئی اور پہلے کام پیچھے آرام‘ ایسی نظمیں ہیں جن میں اچھی عادت کی خوبیاں بیان کرکے انھیں اپنانے کی دعوت دی گئی ہے۔ اسی طرح ’سگرٹ، بہت بولنا عیب ہے، جھوٹ اور پرندوں کو ایذا نہ پہنچائو وغیرہ اس قسم کی نظمیں ہیں جن میں بری عادتوں کی خامیاں بیان کرکے ان سے بچوں کو باز رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادب اطفال کا بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ بچوں میں اچھی باتوں کی رغبت دلانا اور بری باتوں سے نفرت پیدا کرنا۔ ’پہلے کام پیچھے آرام‘ کا ایک بند ملاحظہ کریں           ؎

پہلے تم کام کرو، بعد میں آرام کرو!

کام کے وقت جو آرام کیا کرتے ہیں

آخر کار وہ ناکام رہا کرتے ہیں

سخت نادان ہیں وہ لوگ برا کرتے ہیں

تلوک چند محروم اس عہد کے نظم نگار ہیں جب جدید نظم کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا تھا۔ اس عہد کی نظموں میں سماجی اور سیاسی موضوعات بڑی تیزی سے شامل ہورہے تھے اور حب الوطنی کا ایک مستحکم جذبہ فروغ پارہا تھا۔ آزاد، حالی، اکبر، اور اسمٰعیل میرٹھی کی نظم نگاری اپنے عروج پر تھی۔ اقبال، ظفر علی خاں اور برج موہن کیفی وغیرہ کی نظمیں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی تھیں۔ محروم نے بھی اس صنف میں خوب طبع آزمائی کی اور مختلف سیاسی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر بے شمار نظمیں کہی۔ حب الوطنی پر اتنی کثرت سے نظمیں لکھی ہیں کہ ایک ضخیم مجموعہ کلام تیار ہوگیاجو ’کاروان وطن‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے جس میں ایک سو اسّی سے زائد نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں ہندوستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔تلوک چند محروم نے بہ یک وقت غزل، نظم اور رباعی میں اپنی تخلیقی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ان کے کلام میں تازگی اور برجستگی کی ایک لہر، فکر و خیال کی پاکیزگی اور اخلاص موجود ہے۔ بہار طفلی کے حوالے سے نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں:

’’بہار طفلی ایسی نظموں کا مجموعہ ہے جو بچوں اور لڑکوں کے لیے کہی گئی ہیں۔ بچوں کی ذہنیت اور ان کی نفسیات بالکل جداگانہ ہوتی ہے۔ ان کی ذہنی تربیت کے لیے ایسی نظمیں درکار ہیں جو صحیح معنوں میں بچوں کی طبیعت کے موافق ہوں اور ان کی سلیقہ سے تربیت کر سکیں۔ حضرت محروم نے جو نظمیں کہی ہیں وہ بچوں کے ذہن اور نفسیات کے عین مطابق اور موافق ہیں۔ ان کو بچے نہ صرف شوق اور دل چسپی سے پڑھتے ہیں بلکہ یہ ان کی تربیت کا ایک بہترین سبق ثابت ہوئی ہیں۔‘‘ 7

غرض کہ اردو میں ایسے شاعر و ادیب کم یاب ہیں جنھوںنے بہ یک وقت تین صنف سخن میں اپنی شناخت مستحکم کی ہو، ان میں تلوک چند محروم کا نام نمایاں ہے۔ محروم نے ایسے ماحول میں جہاں تعلیم و تربیت کا کوئی نظم و نسق نہیں تھا اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور اپنی منفرد شناخت قائم کرنے میں وہ کامیاب ہوکر زندۂ جاوید ہوگئے۔مناظر فطرت ہو، سیاست ہو، ثقافت ہو یا تعلیم و تربیت ان تمام پہلوئوں کو انھوںنے نظم کا خوب صورت لباس پہنا دیا۔ بقول سیدہ جعفر ’’جس طرح حسن نظامی اردو نثر میں اپنے عنوانات کی ندرت اور انفرادیت کے لیے مشہور ہیں اسی طرح محروم نظم میں اپنے اچھوتے عنوانات کے لحاظ سے منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔‘‘8 تلوک چند محروم نے بچوں کے لیے جتنی نظمیں لکھی ہیں ان میں الفاظ کی تراش خراش اور سادگی زبان کا خاص خیال رکھا ہے اور نظم کا عنوان بھی دل چسپ اور معنی خیز منتخب کیا ہے۔ انگریزی کی اہم نظموں کا ترجمہ بھی انھوں نے اتنی عمدگی سے کیا ہے کہ ان پر تخلیق کا گمان ہوتا ہے۔ محروم نے مناظر فطرت کی دلکش عکاسی کے ساتھ ساتھ محرومیوں پر بھی خوب خوب نظمیں لکھی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سائکی میں مناظر فطرت رچے بسے ہوئے ہیں اور محرومیوں کے عکس بھی۔ چوںکہ تلوک چندمحروم نے وادی سندھ کے ایک انتہائی پسماندہ گائوں اور کھلی فضائوں میں اپنا بچپن گزارا۔ دریائے سندھ کی وجہ سے یہ علاقہ انتہائی سبزہ زار ہوا کرتا تھا اور ایک خوش نما ماحول ہوتا تھا۔ مگر پانی کا بہائو جب کبھی زیادہ ہوتا تو یہاں کے لوگوں کے لیے مصیبتیں کھڑی ہوجاتیں اور زندگیاں مشکلوں میں پھنس جاتیں۔ یہ سارے پس منظر ان کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ محروم کی شخصیت کے متنوع پہلو ہیں ان میں سے جن پر بھی نظر ڈالی جائے ایک مکمل پہلو سامنے آتا ہے۔ تاہم دیگر پہلوئوں اور گوشوں سے یکسر قطع نظر کرکے گوشہ اطفال کو ہی نظر میں رکھا جائے اور ان کی نظموں کا تجزیہ کیا جائے پھر بھی ان کی شاعرانہ عظمت اور خدمت قائم و دائم رہے گی۔ 

حواشی

1       جگن ناتھ آزاد، ص31

2       جگن ناتھ آزاد، حیات محروم،انجمن ترقی اردو ہند، 1987، ص22

3       ڈاکٹر محی الدین زور، دیباچہ بہار طفلی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، 1960، ص10

4       گوپی چند نارنگ،آثار محروم(پگڈنڈی امرتسر کا محروم نمبر)، مرتبہ گوپی چند نارنگ، 1968،ص5-6

5       نیاز فتح پوری، کاروان وطن، مکتبہ جامعہ،1960،ص 23

6       دیباچہ بہار طفلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، 1960،ص12

7       آثار محروم(پگڈنڈی امرتسر کا محروم نمبر)، مرتبہ گوپی چند نارنگ، 1968،ص 99-100

8       آثار محروم(پگڈنڈی امرتسر کا محروم نمبر)،مرتبہ گوپی چند نارنگ، 1968، ص104


 

Dr. Md Mohsin Raza

Govt. Sr. Sec. School

Gadhi Jheelpatti ka Maan

Bharatpur - 321024 (Rajasthan)

Email.: mohsinrazajnu@gmail.com

Mob.: 9540859041

 

 


 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں