26/7/21

قمر اقبال قرض مٹی کا چکانے کے لیے زندہ ہوں- مضمون نگار۔ عظیم راہی

 





یادش بخیر!  بات1977 کی ہے جب میں گورنمنٹ کالج اورنگ آباد میں پی یو سی سائنس کا طالب علم تھا۔  اس وقت میں بڈی لین میں رہا کرتا تھا۔ پڑھنے لکھنے کا شوق تو بچپن سے ہی تھا۔ چھٹی جماعت میں اسکول کے نصاب میں شامل نظموں کے خلاصے لکھے۔ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے مختلف موضوعات ‘جو اسکول میں اساتذہ دیا کرتے تھے اُن مضامین کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ کالج میں داخل ہونے پر باقاعدہ افسانہ نگاری کا آغاز ہوا۔ ان دنوں عزیزخسرو(مرحوم) کے برادرخورد عبدالحمید میرے خاص دوست اور کلاس فیلو تھے۔ ہماری دوستی بہت گہری تھی۔ اکثرحمید کے ساتھ بڈی لین میں واقع دفتر ’اورنگ آبادٹائمز‘ جانے کا اتفاق ہوتا اور پھر حمید کے گھر، جو اس وقت اپسراکینٹن کے عقب میں سول ہاسپٹل کے احاطے میں واقع تھا وہاں ہماری بیٹھک رہا کرتی تھی۔ ایک دن حمید نے قمراقبال مرحوم سے میرا تعارف کروایا۔ انتہائی خوبرو ، صحت مند اور بڑی متاثرکن شخصیت کو میں بس دیکھتا رہ گیا اور پھر ان کی بے حد نرم و ملائم لہجے میں گفتگو کے سحر میں کھو گیا۔ حمید نے بعد میں انھیں بتایا کہ ’میرے یہ دوست ہیں اور محمدعظیم الدین راہی کے نام سے افسانہ لکھتے ہیں ۔‘ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ بڑے تپاک سے ملے اور نہایت گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے ، خواہش ظاہر کی کہ میں اپنے افسانے اشاعت کی غرض سے اورنگ آبادٹائمز میں دیا کروں۔ پھر کیا تھا اندھا کیا مانگے اور کیا چاہے۔ اورنگ آبادٹائمز میں میرے افسانوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

پہلا افسانہ ’نفرت کا جنم‘ کے عنوان سے 22جنوری 1978 کی اشاعت میں ادبی صفحہ ’رفتارِادب‘ میں بڑے اہتمام سے شائع ہوا اور یہیں سے قمراقبال کی شفقتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اب تو تقریباً روزانہ حمید کے ساتھ میری ان سے ملاقات ہوتی۔ وہ مجھے مفید مشوروں سے نوازتے، صحیح رہنمائی کرتے اور مناسب حوصلہ افزائی کرتے رہتے ، جس کے نتیجے میں میرے لکھنے پڑھنے کے شوق کو جلا ملی۔ اس ادبی ماحول نے میرے ذوق و شوق کو صحیح سمت اور رفتار عطا کی اور میں خوب لکھنے لگا اور پھر یوں ہوا کہ ہر ہفتے میرے افسانے، تو کبھی منی افسانے ادبی صفحہ ’رفتارادب‘ کی زینت بنتے گئے، جس سے کچھ لوگوں کو شکایتیں بھی ہوئیں۔ لیکن قمراقبال بدستور مجھے اسی اہتمام سے مسلسل چھاپتے رہے اور یوں مجھے ان سے قریب آنے کا موقع ملا۔ ان کی شاعری سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ شاعری سے دلچسپی پر یاد آیا کہ شروع شروع میں ‘  میۡں خود بھی شعر اور نظمیں کہتا تھا۔ ایک بار میں نے جمشیدپور کے فساد کے پس منظر میں لکھی اپنی نظم سنائی      ؎

شہر فولاد اب پگھلتا ہے

خون انسان کا بن کر آب

اب وہاں یوں بہتا ہے

جیسے ساری چیزیں سستی ہو

بس ایک لہو ہی انسان کا سستا ہے

شہر فولاد اب پگھلتا ہے

نظم سن کر تعریف تو کی لیکن مشورہ دیا کہ’’ شاعری کے چکر میں مت پڑو، نثرہی تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ قمراقبال کے ہم عصر شاعر رؤف انجم کے لفظوں میں    ’’بات میں وزن ہو‘تو اسے پیش کرنے کے لیے ‘کسی اور وزن کی ضرورت نہیں‘‘ لہٰذا قمراقبال کے مشورے میں مجھے وزن نظر آیا اور میں پابند شاعری سے باز آگیا۔ یوں ان کی مناسب رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے اپنے ادبی سفر پر آگے بڑھنے لگا۔

1980کے بعد ان کے توسط سے دفتر ’اورنگ آبادٹائمز‘ میں دیگر ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات کے مواقع حاصل ہوئے ، جن میں نورالحسنین ، عارف خورشید ، قاضی رئیس اور وحیدکلیم کے ساتھ فاروق شمیم (جو اس وقت دفتر میں بطور خوشنویس برسرکار تھے) شامل تھے۔ اور یوں اچھا خاصا ادبی ماحول میسر آگیا جو مجھ جیسے مبتدی کے لیے کسی سائبان سے کم نہ تھا۔ ان سینئر اور ادبی دوستوں کے علاوہ بھی قمراقبال سے ملنے دیگر ادیب و شاعر وہاں آتے تو حمید کے توسط سے ان سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ 1982 میں سرکاری ملازمت اختیار کرنے کے بعد وہاں جانا میرا معمول بن گیا۔ اپنی پہلی شفٹ کی ڈیوٹی پوری ہونے کے بعد دفتر ’اورنگ آبادٹائمز‘ کی نچلی منزل پر حمید کی ’ٹائمز ژیراکس‘ کی دکان میری بیٹھک بن گئی۔ اکثر سہ پہر میں جب وہاں پہنچتا قمراقبال دفتر سے نکلنے کی تیاری میں رہتے۔ بڑے تپاک اور محبت سے ملتے۔ اِدھراُدھر کی باتیں ہوتیں اور وہ کچھ بتائے بغیر اپنے شغل کی طرف روانہ ہوجاتے۔ لیکن انھوں نے مجھے کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا۔ یہ ان کے مزاج کی بڑی اعلیٰ ظرفی تھی۔

 قمراقبال نہایت وجیہہ، صحت مند پٹھان تھے۔ لیکن گفتگو اس قدر نرم لہجے میں کرتے کہ سامنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور ہر وقت زیرلب مسکراہٹ رہتی۔ میں نے انھیں ہمیشہ مسکراتے دیکھا اور غصے میں کبھی نہیں دیکھا ہاں! کبھی کبھار اگر کسی بات پر غصہ آبھی جاتا تو سرخ و سپید چہرہ اس قدر سرخ ہوجاتا کہ انھیں اس حالت میں دیکھ کر پھر کسی میں آنکھ ملانے کی ہمت نہیں ہوتی اور ان کی خاموشی ہی غصے کا جواز بن جاتی۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا۔ ویسے بھی وہ بہت کم بات کرنے کے عادی تھے۔ زیادہ تر مسکراہٹ سے کام چلاتے اور تفصیل میں جانے کے بجائے پوری بات اختصار میں کہنے کا انھیں ملکہ حاصل تھا۔ اکثر میں چائے کا اصرار کرتا تو کبھی کبھار پاشابھائی کے ہوٹل میں جو اس وقت دفتر سے بہت قریب تھا آجاتے۔ چائے پیتے اور فوری دفتر کی سمت نکل پڑتے اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے۔’ اداریہ‘ ، ’بات سے بات ‘اور’ ہزل‘ لکھنا ان کے معمول میں شامل تھا۔ اس کے علاوہ کچھ اہم خبروں کا تجزیہ وغیرہ بھی لکھتے کیوںکہ اس اخبار کے اندرونی صفحات کی ترتیب ان ہی کے ذمے تھی۔ جب ادبی احباب کے ساتھ روزبروز میرا ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ اکثرمختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی تو پھر کوئی نہ کوئی موضوع ان کے ہاتھ آجاتا جو ان کے ٹیبل ورک کے اہم کام میں بیحد کام آتا۔ یعنی فوراً اس موضوع پر ہزل ہوجاتی۔ ہفتے میں اکثر دو ایک بار کسی نہ کسی احباب پر یا پھر مجھ پر ہزل ہوجاتی یا پھر ہزل کے کسی شعر پر لطیف انداز میں میری طرف اشارہ ہوجاتا۔ اکثر احباب ان کو میرے بارے میں کوئی بات کہہ دیتے یا کوئی نکتہ اور  Hint  دے دیتے، ان کو تحریک مل جاتی اور فوراً ہزل نازل ہوجاتی۔ میں کبھی جزبز ہوتا تو کبھی خوش ہوجاتا کہ چلو قمرصاحب کی ہزل کا موضوع یعنی روئے سخن آج میری طرف ہے۔ انھوں نے اس طرح مجھ پر کئی ہزلیں کہیں جو ان کی محبتوں کا بین ثبوت ہے۔ ویسے اکثر احباب کو وہ اپنی ہزلوں کا موضوع بناتے لیکن اس معاملے میں وہ مجھ پر کچھ زیادہ مہربان تھے۔

 اس بات پر ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت مجھے یاد آرہا ہے کہ میری پہلی کتاب کی کتابت عزیزکاتب کے ذریعے عارف خورشید کی نگرانی میں ہوئی تھی، اس کتاب کی چھپائی کے بعد چند کاپیاں ان کے گھر پر رکھی ہوئی تھی ، اس وقت عارف خورشید کا مکان کٹ کٹ گیٹ کے قریب تھا اور 1985 سے میری رہائش بھی روشن گیٹ کے علاقے میں ہوگئی تھی۔ ان دنوں ، ان کی بکریوں کی تجارت خوب چل رہی تھی۔ اتفاق سے ایک بکری نے میری اس کتاب کو شاید روٹی سمجھ کر منہ لگایا اور سونگھ کر چھوڑ دیا۔ عارف خورشید نے یہ منظر دیکھا اور یہ بات قمراقبال کو بتائی اور کیا کہا مجھے پتہ نہیں۔ دوسرے ہی دن اورنگ آباد ٹائمز میں ’بکری اور کتاب‘ کے عنوان سے ایک عمدہ ہزل شامل تھی۔ قمراقبال کی ہزلوں کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی ہزلوں کے عنوان دیا کرتے تھے۔ جس سے پڑھنے والوں کا اشتیاق اوربڑھ جاتا تھا۔ اُن کی ہزلوں کی مقبولیت کایہ عالم تھا کہ اکثر لوگ اسی وجہ سے اخبار خرید کر پڑھتے تھے۔ اس طرح نئے نئے موضوعات انھیں احباب سے ملا کرتے تھے اور یوں خوب ہزلیں ہوجایا کرتی تھی جو ان کے دفتری کام کا اہم حصہ بھی تھا۔

قمراقبال ہمیشہ ہی نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ‘ان کی مناسب رہنمائی کرتے ، مفید مشوروں سے نوازتے، ساتھ ہی پکی سیاہی میں نام چھپوانے کے بجائے مطالعہ اور محنت پر توجہ دلاتے، لکھنے کی مشق اور شاعری میں مسلسل ریاض کرنے کی تلقین کرتے اور یوں حوصلہ بڑھاتے رہتے۔ اِس بات سے سب واقف ہیں کہ علم و ادب کے گہوارہ اور شاعری کے شہر اورنگ آباد نے کئی قابل ذکر شاعر پیدا کیے لیکن قمراقبال کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے خود کئی شاعر پیدا کیے۔ میری مراد ، اپنے حسن سلوک اور مخلصانہ رویے کے سبب انھوں نے اپنے شاگردوں کی ایک اچھی خاصی ٹیم تیار کردی اور شاعری کا بڑا سازگار ماحول پیدا کیا تھا۔ اس وقت کے نئی نسل کے کئی ابھرتے شاعروں میں  موجود صلاحیتوں کی پہچان اور ان کے اندر چھپے امکانات کو روشن کرنے میں بھی انھوں نے ایک اہم رول ادا کیا‘ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میری پہلی پسند رہی ہے ۔ جتنے شعر مجھے قمراقبال کے آج یاد ہیں شاید اتنے کسی اور شاعر کے نہیں ہیں۔ حالانکہ یہ میری کمزوری رہی ہے کہ اکثر اشعار مجھے پوری صحت کے ساتھ یاد نہیں رہتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک خاص بات یہ بھی قابل ذکر لگتی ہے کہ قمرصاحب نے کسی نجی محفل میں مجھے اپنے شعر نہیں سنائے۔ نہ ہی کبھی ایسا اتفاق ہوا اور مشاعروں میں بھی وہ کبھی کبھار ہی شریک ہوتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے شعروں کو گنگنانے کی میری عادت شاید ان سے میری قربت اور ایک جذباتی لگاؤ اور بے پناہ محبتوں کا نتیجہ ہے کہ ان کی شاعری ہمیشہ میرے مطالعے میں رہی اور میرے ذہن میں گونجتی رہی۔ ’موم کا شہر‘ اور ’تتلیاں‘ کا اکثر آموختہ ہوجاتا ہے۔ ان کے ایسے چند اشعار جو مجھے ازبر ہیں پیش کررہا ہوں۔ ملاحظہ کیجیے       ؎

اس نے کچھ پہلے ہواؤں کو ہدایت دی ہے

شمع کی پھر انھیں ہاتھوں میں امانت دی ہے

گھروں میں آسکیں مکتب سے بچے

کم از کم شہر میں تب تک امان رکھ

لمس اس ہاتھ کا بچوں کی ہنسی ماں کی دعا

یہ جو تحفے ہیں فقط گھر سے ملا کرتے ہیں

مرگیا زہر کا وہ اک ہی پیالہ پی کر

ہم کو اک دن نہ ملے زہر تو زندہ نہ رہیں

ملے وہ شخص تو کیوں آج ہم کو پہچانے

کہ کل کے ساتھ ہی رشتے تمام کل کے گئے

مانا جھلس گئیں مرے ہاتھوں کی انگلیاں

آندھی کی زد سے میں نے دیا تو بچا لیا

راکھ ہونے پر بھی شعلوں کی دعا لی ہم نے

آگ دیکھی جو کہیں دل میں چھپالی ہم نے

خوشبو کو ہوا راز میں رکھتی نہیں لیکن

اکثر ترے آنے کی خبر تک نہیں ہوتی

خودکشی چپکے سے کرنے نہیں دیتے مجھ کو

چند چہرے ہیں جو مرنے نہیں دیتے مجھ کو

لوگ جینے کے غرض مند بہت ہیں لیکن

میں مسیحا کو بچانے کے لیے زندہ ہوں

اک بات جو کتاب مقدس میں درج ہے

آثار سب وہی ہیں قیامت کو کیا ہوا

چند ثلاثیاں دیکھیے       ؎

تھے عجب کرب و اضطراب میں ہم

خود کو لفظوں میں منتقل کر کے

سوگئے چین سے کتاب میں ہم

——

یاد ہے وہ فساد کا منظر

رو رہی تھی گلی میں اک بچی

اپنی گڑیا کو گود میں لے کر

——

وہ پڑوسی جو ملک ہوتے ہیں

ان کے بچھڑے ہوئے سبھی رشتے

سرحدوں سے لپٹ کے روتے ہیں

——

رہ کے خاموش خود کو سمجھا لے

غم کسی کو بھی حادثے کا نہیں

سب ہیں تفصیل پوچھنے والے

قمراقبال کی شاعری پڑھ کر آپ یقینا لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ اُن کے پاس ایسے اشعار بھی بہت ہیں جو زبان زد خاص و عام ہیں۔ چلیے شاعری سے پھر اُن کی ہمہ جہت شخصیت کی سمت آگے بڑھتے ہیں۔

اورنگ آبادٹائمز کے دفتر روزانہ جانے آنے سے اور نیچے کے حصے میں حمید کی ٹائمز ژیراکس کی دکان میں بیٹھک کے سبب دفتر کے پورے اسٹاف سے قریب ہوگیا تھا۔ عزیزبھائی بھی مجھے اپنے چھوٹے بھائی کی طرح ہی عزیز رکھتے تھے اور سبھی بڑی محبت سے پیش آتے تھے اور ان سب سے ایک رشتہ سا بن گیا تھا اور رفتہ رفتہ جیسے میں بھی دفتر کا ایک فرد بن گیا تھا۔ ایک عرصے تک اکثر ملنے جلنے والے یہی سمجھتے تھے کہ میں بھی وہیں کام کرتا ہوں۔ ان سب کی انسیت اور اپنائیت نے مجھے وہاں کا اسیر بنا دیا تھا جہاں قمراقبال کی وجہ سے ایک اچھا خاصا ادبی گروپ  ان کے اردگرد رہتا تھا۔ انھوں نے اپنے حُسن سلوک سے اس حلقے کو اور وسیع بنا دیا تھا۔

جب میرے افسانے اور دیگر تخلیقات بڑی تعداد میں اور تواتر سے چھپنے لگیں تو کچھ یار لوگوں نے اسے تعلقات کا شاخسانہ قرار دیا اور کچھ احباب نے یہ بھی کہا کہ مقامی اخبار میں مسلسل چھپتے رہنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ تم کنویں کے مینڈک بن کر رہ جاؤ گے۔ اس بات کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ پھر میں نے دیگر شہروں کے بڑے اخبارات کو افسانے بھجوانے شروع کیے۔ اورنگ آبادٹائمز کے ایکس چنج میں جو اخبارات دفتر آیا کرتے تھے ان میں میرے افسانے چھپنے لگے۔ اس کی اطلاع قمرصاحب بڑے خوش ہوکر دیتے اور وہاں جانے پر اخبار میرے سامنے رکھ دیتے۔ اس طرح انھوں نے میرا حوصلہ مزید بڑھایا اب میں نے رسائل و جرائد کو افسانے ، منی افسانے بھیجنا شروع کردیا۔ (یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اسی دور میں جوگندرپال نے منی افسانے کو افسانچہ کا خوبصورت اور خالص اردو نام عطا کیا اور پھر منی افسانہ افسانچہ کے نام سے موسوم ہوکر عالمگیر شہرت کاحامل ہوا۔ ) جس کا خاطرخواہ نتیجہ نکلا اور مناسب پذیرائی کے ساتھ مزید حوصلہ بلند ہوا اور میں کمرشیل سرکاری پرچوں اور پھر خالص ادبی رسالوں میں بھی چھپنے لگا۔ (جن میں آج کل ، ایوان اردو ، شاعر ، بیسویں صدی ، استعارہ وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔) اس سلسلے میں اورنگ آباد ٹائمز اور قمراقبال میرے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی سبب میرا ادبی حلقہ بھی وسیع تر ہوتا گیا اور ادبی احباب کے ساتھ غیرشعوری طور پر مسابقتی دور شروع ہوا، جس نے میرے لکھنے پڑھنے کے شوق کو جنون دیا۔  میری محنت رنگ لائی۔ میری مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہوگیا اور مقامی حد سے میں ملکی سطح پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوا۔ شدت سے لکھنے اور کثرت سے چھپنے کے سبب میرے دو مجموعے ایک افسانوں کا دوسرا منی افسانوں کا تیار ہوگیا اور 1986 میں منی افسانوں کا پہلا مجموعہ ’پھول کے آنسو‘ کے نام سے ترتیب دیا جو 1987 میں مالیگاؤں سے چھپ کر منظرعام پر آیا۔ جس کی رسم رونمائی ممتاز افسانہ نگار قاضی مشتاق احمد کے ہاتھوں انجام پائی اور مہمان خصوصی کے طور پر قاضی سلیم شریک محفل تھے۔ اس تقریب میں نورالحسنین نے میرا خاکہ اڑایا ‘ یعنی خاکہ پڑھ کر سنایا۔ جسے بے حد داد ملی اور خاکے کا یہ جملہ بطور خاص کہیں نہ کہیں آج بھی کوڈ ہوتا رہتا ہے کہ ’’جس عمر میں نوجوان شادی کر کے دلہن لاتے ہیں عظیم راہی کتاب چھپوا کر لائے ہیں۔‘‘ اس پر کسی منچلے نے یہ بھی کہا کہ نکاح تو ایک قاضی پڑھاتا ہے مگر یہاں دو دو قاضی صاحبان موجود ہیں۔ شاید کتاب کی رونمائی اور نکاح کے ایجاب و قبول میں یہی فرق ہوتا ہو۔ یہ تقریب رسم اجرا17اکتوبر1987 کو انجام پائی تھی۔ اس دن قمراقبال نے ’رفتارِادب ‘کا پورا ایک صفحہ میرے لیے مختص کردیا تھا۔ جس میں قاضی مشتاق احمد اور نذیرفتح پوری کے مضامین کے علاوہ قمرؔاقبال کا مختصر مگر جامع ادارتی نوعیت کا محبتوں سے لبریز مضمون ’’خدا ترے جنوں کا سلسلہ دراز کرے‘‘ کے عنوان سے شامل تھا۔اس طرح میرا پہلا گوشہ میرے لکھنے کے ابتدائی دور میں قمراقبال نے شائع کر کے میری بے حد حوصلہ افزائی کی اور بذات خود تقریب میں شرکت کے لیے نوکھنڈہ محل وقت مقررہ پر تشریف لائے جہاں یہ پروگرام منعقد تھا۔ لیکن پروگرام شروع ہونے میں تاخیر ہوگئی تھی تو احباب کے پاس یہ مسیج رکھ دیا تھا کہ ’’عظیم سے کہنا کہ میں مبارکباد دینے آیا تھا۔‘‘ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی اور ایک بڑے فنکار کے بڑے پن کی دلیل ہے۔ جو ‘ اب دیکھنے نہیں ملتی۔ یہ بات مجھے تا عمر یاد رہے گی کہ بڑا فنکار کیسا ہوتا ہے۔ یونان کے عظیم مفکر ہومر کے قول کے مطابق ’اچھا انسان ہی اچھا فنکار ہوتا ہے‘ اور اس قول پر قمراقبال کی شخصیت ، باوجود چند بشری تقاضوں اور فطری کمزوریوں کے پوری اترتی ہے۔

ان کی محبتوں کے کئی سلسلے اس وقت مجھے یاد آرہے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بات کا ذکر کروں اور کس محبت کا تذکرہ کروں اور وہ کون سی بات کہوں اور سناؤں کہ جس سے سرپرستی کی چھاؤں کا احساس میرے لیے اور سوا ہوجائے۔ میرے والد کے انتقال کے وقت بھی انھوں نے بڑا دلاسہ دیا تھا اور ایک بزرگ کی حیثیت سے اس موقع پر بڑی تسلی دے کر میری ہمت بندھائی تھی۔ زندگی کے تئیں ذمے داریوں کا احساس دلایا تھا۔ مالیگاؤں سے اورنگ آباد ٹائمز کے تحت ’شامنامہ‘ کے اجرا کے موقع پر بھی بڑی محبتوں سے نوازا تھا۔ حالانکہ یہاں ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ پہلی بار یہاں وہ دل کے مریض بنے تھے۔ لیکن بڑے ہمت والے آدمی تھے۔ واپسی پر ایسے ہشاش بشاش لوٹے کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ بیمار بھی ہوئے تھے اور سفر کی پوری روداد طویل ہزلیہ نظم کی شکل میں دوسرے دن اخبار میں نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی ، جس میں انھوں نے قاضی سلیم کے قافیے پر راہی عظیم کو ملا کر ایک بار پھر اپنی محبتوں کا ثبوت دیا تھا۔ گوکہ یہ شعر ہزلیہ تھے لیکن ان کے اندرون محبتوں کا خزینہ تھا۔ قربتوں کا وسیلہ تھااور خلوص کا نذرانہ تھا۔ میں وقتی طور پر ناراض ہوکر اس بات پر خوش بھی ہوا تھا۔ اور ایک بار پھر یار دوستوں میں، میۡں موضوع بھی بنا تھا اور شاید اسی لیے کسی نے کہا کہ’ عظیم راہی کو مقبولیت بہت ملی ہے۔‘ لیکن یار لوگ یہ بھول جاتے ہیںکہ مقبولیت کی قیمت بھی بہت چکانی پڑتی ہے اور اس مقبولیت میں میری محنتوں اور جذبۂ جنوں کے ساتھ قمراقبال جیسے کئی سینئر دوستوں کی ڈھیر ساری محبتیں اور بزرگوں کی دعائیں بھی شامل حال رہی ہیں۔

قمراقبال کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔ کھنڈوہ میں قیام کے دوران وہاں ان کی شاعری کا عروج ، مشاعروں کی سرگرمیاں اور پھر ان کی ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ناندیڑ میں ایک عرصے تک سکونت رہی اور پھر ملازمت کی قیدوبند کو چھوڑ کر اپنی آزاد طبیعت کے باعث آزادی کی زندگی گزار کر اپنے شہر خجستہ بنیاد اورنگ آباد آگئے اور یہاں آکر اورنگ آباد ٹائمز میں کام شروع کیا اور یوں ان کا صحافت سے رشتہ جڑ گیا جہاں آخر تک اس روزنامہ سے جڑے رہے۔ صحافت کی ذمے داریوں کی وجہ سے ان کی تخلیقی سرگرمیوں میں کمی بیشی بھی آتی رہی لیکن انھوں نے صحافت کے رشتے سے جڑ کر شاعری اور علم و ادب کے سلسلے کو برقرار رکھنے میں بڑی کامیابی حاصل کی کہ صحافت تو اچھے اچھے فنکاروں کی تخلیقی صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے۔ شاید اسی لیے وہ اپنے قمراقبال بننے کے بارے میں کہتے ہیں کہ       ؎

اپنے ہی نگر کی گلیوں میں جب غیروں جیسا حال ہوا

اقبال محمد خان سے کوئی اک روز قمراقبال ہوا

دراصل اپنوں سے غیروں جیسا سلوک ‘ رشتوں کی سردمہری اور سماج کی بے مروتی نے انھیں یہ کہنے پر مجبور کیا اور طبیعت کی حساسیت نے انھیں فنکار بنا دیا۔ بقول ڈاکٹر ارتکازافضل : ’’متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کی طرح قمراقبال کے ذاتی حالات اور سماجی مسائل کو ان کی تخلیقی حسیت کی تہذیب میں بڑا دخل ہے۔ ان کی شاعری کی جڑیں کسی مجرد یا بے معنی لفظی نظام سے نہیں پھوٹتیں یا یہ محض ایک لفظی گورکھ دھندا نہیں بلکہ زندگی کے دل گداز اور ٹھوس تجربات کا نچوڑ ہے۔‘‘(موم کا شہر، ص6) غزل میں انھوں نے اپنا رنگ پیدا کرنے ‘ اپنے فن کے لہو میں کئی سورج اتارے اورغزل کوایک نیا لہجہ دے کر ادب کو نئی زندگی دی ۔ دیکھیے      ؎

اتارے ہیں لہو میں کتنے سورج

غزل کا رنگ تب آیا غزل میں

غزل کو اک نیا لہجہ دیا ہے

غزل نے مجھ کو لیکن کیا دیا ہے

 لیکن ادب نے انھیں کیا دیا ہے اس کا اظہار یوں کرتے ہیں           ؎

مردہ ادب کو دی ہے نئی زندگی قمر

بیمار خود پڑے تو دوا کو ترس گئے

لیکن اِس کرب کے باوجود وہ قلم کی اہمیت اور اُس کی حرمت کو خوب سمجھتے تھے۔ شاید اسی لیے کہا کہ       ؎

دنیا تھی ایک طرف تو قلم دوسری طرف

میں نے بڑھا کے ہاتھ قلم کو اٹھا لیا

اس طرح قمراقبال جو ہمہ گیر شہرت کے حامل شاعر تھے۔ غزل میں ان کا لہجہ رومانی ہونے کے ساتھ زندگی کے تمام تر تجربوں کو سمیٹ کر ان سے جڑ کر جس عمدگی سے انھوں نے ان موضوعات کو اپنی شاعری میں جس سلیقے سے برتا وہ ان ہی کا حصہ رہا ہے۔ غزلیں ہو یا ثلاثی ، یہاں تک کہ ہزلوں میں بھی ان کا اپنا ایک الگ انداز تھا جو پڑھنے والے کو متاثر کرتا ہے جو ان کی انفرادیت ہے۔ اُن کی شخصیت کی تمکنت کو اُن کی شاعری میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جو شاید اُن کو اپنے محبوب سے ملا تھا   ؎

ملا تھا وہ قمر کو تمکنت سے

اسی انداز سے آیا غزل میں

لہٰذان کی غزلیہ شاعری جس قدر متاثر کن ہے اسی قدر اُن کی ہزلیہ شاعری بھی قاری کو متوجہ کرتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی شاعری زندگی کے تجربوں سے مزین اور عصری حسیت سے معمور ہے۔ میرے نزدیک سچی شاعری کی یہی پہچان ہے۔ بشرنواز کے لفظوں میں ’’قمراقبال کا لہجہ نرم رواں اور متوازن ہے اور یہ ان کے سچے شاعر ہونے کی دلیل ہے کہ انھوں نے کسی مروجہ فیشن کی ریس میں اسے تبدیل نہیں کیا اور اپنی بات کہنے کا سلیقہ بھی تثلیثات ہوں یا نظمیں ، غزلیں سبھی میں قمراقبال کا لہجہ پہچانا جاسکتا ہے اور یہ بات کئی شعرا کو برسوں کے ریاض کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتی۔‘‘ (ص16) قاضی سلیم نے ان کی شاعری میں موجود عصری حسیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ : ’’قمراقبال وقت کی ریزہ ریزہ پھسلتی ریت کو ایک لمحے کے لیے سہی اپنی مٹھی میں تھام کر دکھا سکتا ہے، لوگو ! یہ تمہارے عصر کی سچائی ہے ، کل تم اسے پہچان بھی نہ پاؤ گے۔ اس لیے یہ نقش جو میری فکرونظر کے عدسوں نے ریکارڈ کیا ہے اسے پڑھو ، یہ تم کو اپنی پہچان میں ممدومددگار ہوں گے۔‘‘ (تتلیاں) ان تمام خوبیوں کے سبب اُن کی شاعری آج بھی ویسی ہی تازہ لگتی ہے جب انھوں نے اپنی شعری کائنات آباد کی تھی یہ شاعری اب بھی پڑھنے والوں کے دلوں پر راج کرتی ہے اور ان کی کمی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ شاید اسی لیے کبھی انھوں نے کہا تھا         ؎

نام پر رونے والے ہماری قمر

ہیں ابھی چند احباب اس شہر میں

لیکن اس تخلیقی سفر کی تفصیل میں کسی اور وقت کے لیے اٹھائے رکھتا ہوں کہ فی الحال میرا موضوع ان سے میری وہ ملاقاتیں ، قربتیں وہ باتیں اور محبتیں ہیں اور اسی بے پناہ جذباتی لگاؤ اور قربتوں کے سبب ، میں ایک طویل عرصے سے ان پر قلم اٹھانے سے قاصر رہا ہوں۔ حالانکہ قربتوں کے اس رشتے اور رفاقتوں کے سلسلے کا عرصہ صرف ایک دہائی پر مشتمل ہے یعنی 1978 سے 1988 تک ، جبکہ ان کی جدائی کو آج تقریباً 30؍برس ہوچکے ہیں لیکن ان کی یاد آج بھی میرے دل میں اسی طرح برقرار ہے ۔ محبتوں کا جذبہ ویسے ہی موجزن ہے اور ان کی موت کا غم پہلے دن کی طرح تازہ ہے کہ رحلت سے ایک روز قبل میرا افسانہ ’کفرٹوٹا خدا خدا کر کے‘ شائع ہوا تھا۔ دوسرے دن کی اشاعت میں ان کے مستقل کالم ’بات سے بات‘ میں انھوں نے بڑا اچھا کمینٹ کیا تھا وہ محبت میں کبھی بھول نہیں سکتا۔لیکن و ہ جملہ اب مجھے یاد نہیں رہا۔ مختصر یوں کہ قمراقبال میرے ادبی سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

قمراقبال ان کی محبتوں اور نوازشوں کے کئی سلسلے جو ‘ان کی یاد کے بادل بن کر ایک عرصے سے میرے ذہن و دل کے آسمان پر چھائے ہوئے ہیں ، مگر جذبات کی آندھی میں چاہتے ہوئے بھی میں ان سے نکل نہیں پایا ہوں۔اس دنیائے فانی سے انھیں اچانک رخصت ہوئے تقریباً تین دہائیاں بیت گئی ہیں لیکن آج بھی ان کی یادیں دل و دماغ پر اسی طرح چھائی ہوئی ہیں کہ میں محبتوں کے ان حصاروں سے نکلنے کی کوششوں میں مزید اُن میں گھرتا جاتا ہوں۔ آج بڑی ہمت سے ، اپنے ان آدھے ادھورے خیالات کو کسی طرح یکجا کرنے کی اپنی سی سعی کی ہے کہ اب بھی میرے ذہن کے نہاں خانوں میں ان کی وہ ساری باتیں اسی طرح محفوظ اور تروتازہ ہیں۔ ان کی یاد آتے ہی دل میں اب بھی ایک کسک سی اٹھتی ہے۔ کاش ، ان کی زندگی کچھ اور طویل ہوجاتی تو آج دنیائے ادب کے افق پر قمر کی چمک دمک کچھ الگ ہی ہوتی اور قمراقبال کی شاعری کا روشن قمر کچھ الگ ہی انداز میں تابناک ہوتا، روشنیاں پھیلاتا اور ضیا پاشیاں کرتا۔ لیکن یہ روشنی بھی کیا کم ہے کہ ہم تمام اہل ادب آج تک انھیں یاد کرتے ہیں اور تاعمر یاد کرتے رہیں گے کہ وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں گے۔

بقول خود قمراقبال            ؎

خود کی خاطر نہ زمانے کے لیے زندہ ہوں

قرض مٹی کا چکانے کے لیے زندہ ہوں


 

Dr. Azeem Rahi

Aurangabad - (MS)

Mob.: 9423781787

 

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2021

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں