27/7/21

دریسی و اکتسابی عمل میں روحانی ذہانت کا کردار- مضمون نگار: محمد اکبر القادری

 



  

انسانی دماغ کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتناخود انسان۔ اس طرح وہ مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا۔ اس سفر میں اسے مختلف ادوار اور ذہانتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی جسمانی طاقت ہی اصل محور تھی۔ پھر ایک دور آیا کہ اعدادو شمارذہانت کا معیار سمجھے جانے لگے لیکن اس کا مکمل اور واضح تصور 20 ویں صدی کے اوائل میں اس وقت آیا جب ولیم اسٹرن نامی ایک ماہر نفسیات نے مقیاس ذہانت یا آئی کیوکی اصطلاح ایجادکی اور پھر 1904 میں الفریڈ بنے نے پہلے انسانی ذہانت کی پیمائش والا ٹیسٹ ایجاد کیا۔ یہ ابتدائی دور تھا، جب ذہانت کو ناپا اور پرکھا جا رہا تھا کہ یہ کیا ہوتی ہے؟ اور کہاں سے آتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس مقیاس کے ذریعے کسی فرد کی ذہنی قابلیت کا اس کی طبعی عمر اور ماحول کے مطابق اندازہ لگایا جاتا ہے فی الوقت یہ مقیاس بہت ہی کارآمد اور مقبول ہے۔

ذہانت کے نظریات

عمومی ذہانت: اسپیرمین نے اپنے تجربات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انٹیلی جنس ایک عمومی علمی قابلیت ہے جسے پیمائش اور عددی طور پر ظاہر کیا جاسکتا ہے نیزیہ کہ ذہانت کی ساری اقسام باہمی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ گویا اگر کوئی شخص کسی آئی کیو ٹیسٹ کے ایک شعبے کو اچھی طرح سے عبور کرجاتا ہے تو وہ باقی شعبوں میں بھی خاصا اچھا ہوگا۔

متعدد ذہانتیں: ہاورڈ گارڈنرجو اس نظریے کے بانی ہیں انھوں نے آٹھ مختلف اقسام کی ذہانتوں کا ذکر کیا اور دعویٰ کیا کہ ان ذہانتوں کے درمیان کسی باہمی تعلق کی ضرورت نہیں۔ یعنی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی اچھی طرح سے کئی زبانیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو لیکن تجزیاتی صلاحیت سے محروم ہو۔

ذہانت کا سہ رخی نظریہ: سٹرن برگ نے نیا نظریہ پیش کیا جس میں اس نے ذہانت کو بنیادی طور پر تین ذیلی اقسام میں بانٹا ہے، یعنی: تجزیاتی ذہانت، تخلیقی ذہانت اور عملی ذہانت۔

یہاں مرکوزنظر ڈاکٹر گارڈنرکانظریہ ملٹی پل انٹیلی جنسزہے، اسی نظریے کی بناپر روحانی ذہانت تک رسائی ممکن ہوسکی،حالاں کہ ہاورڈ گارڈنرنے سائنس کے مقداری معیارکو مجازبناتے ہوئے روحانی ذہانت کو ملٹی پل انٹیلی جنسزمیں شامل نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ اس کے بجائے، انھوں نے’وجودی ذہانت‘ کا مشورہ دیا۔

روحانی ذہانت کی اساس

اگرچہ روحانی ذہانت کا تصور نسبتاً نیا ہے، لیکن اس کا تصور مذہبی کتابوں، نفسیات، نیورولوجی اور فلسفہ کے شعبوں میں  موجودہے، خاص طور پر مشرقی تصوف اور مقامی عقائد میںاس کا ذکر ملتا ہے۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامی ثقافت میں روحانی ذہانت پر واضح طور پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ روحانی ذہانت قرآن کی آیات، پیغمبر ؑکے الفاظ کی وسعت کوسمجھنے میں معاون سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں روحانی ذہانت سے لطف اٹھانے والوں کو اشرافیہ کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ حقیقت کے جوہر کو سمجھ سکتے ہیں اور تخیلاتی سرحدوں کو عبورکرسکتے ہیں۔ اسلامی کتابوں کے مطابق، تقویٰ اور پرہیزگاری روحانی ذہانت کے موثر عوامل ہیں۔ مزید کارل ینگ کا کام، عصر حاضر کے اسکالرز کے لیے روحانیت کے موضوع پر مشعل راہ ہے۔

روحانی ذہانت سے وابستہ دیگر نفسیاتی نظریات میں ڈابروسکی (1967) شامل ہیں، انھوں نے اپنے نظریے میں فرد کے سوچنے کے عادی طریقوں کو ترک کرنے اور ہمدردی،سا  لمیت اورجذبہ ایثارکو اپنانے کی صلاحیت کے متعلق بیان کیا۔ ماسلو (1968) کا نظریہ خودشناسی، جس میں انصاف، خوبصورتی، سچائی، سخاوت، اور انفرادیت جیسی اقدار پر زور دیا گیاہے۔ لیکن سب سے پہلے واضح طورپر ڈانا زہر نے اپنی کتابRewriting the 1967Corporate Brainمیں متعارف کرایا۔

روحانی ذہانت کیاہے؟

روحانی ذہانت: ذہانت کا ایک اعلیٰ عنصر ہے جوانسانی شخصیت میں حقیقی ذات(یا روح) کی خصوصیات اور صلاحیتوں (دانشمندی، ہمدردی، سا لمیت، خوشی، محبت، تخلیقی صلاحیتوں اور امن) کو متحرک کرتی ہے۔ روحانی ذہانت اپنے وسیع ترمعانی و مقاصد میں زندگی کی اہم صلاحیتوںاور کام کی مہارتوں کو بروئے کار لاناہے (رچرڈ گریفتھس) امونس (2000)حسب منشا روحانی معلومات کا استعمال کرکے روزمرہ کے مسائل کو حل کرکے مقصداصلی کی حصولیابی روحانی ذہانت ہے۔

وِگلس ورتھ (2002) روحانی ذہانت: افراد کے اندرونی اور بیرونی امن کو برقرار رکھتے ہوئے دانشمندی اور ہمدردی کے ساتھ برتائو کرنے کی اہلیت ہے، چاہے وہ صورتحال سے قطع نظر ہو۔

کنگ(2008) روحانی ذہانت: ان غیر ماد ی ذہنی صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جن کی حقیقت عقل سے ماوراہے، خصوصاًوہ جن کے وجود کی نوعیت ذاتی اور شعور کی بلندوبالا مقام سے متعلق ہیں۔

تھورسن (2001) کے مطابق: کائنات کی تفہیم کے لیے روحانی ذہانت فطری طورپرانسان کی ذاتی ذہانت (علم، تعریف اور خود آگہی، سماجی ذہانت، مردم شناسی) سے نشوونماپاتی ہے۔

نسیل (2004) کے مطابق: روحانی ذہانت کسی کی اس صلاحیت کا نام ہے جواسے خودی کی معرفت تک پہنچاتی ہے اور روحانی و عملی مسائل کے حل کرنے کی طرف رہنما ئی فراہم کرتی ہے۔

زہر اور مارشل کے مطابق روحانی ذہانت زندگی کے پیچیدہ مسائل کو بآسانی حل کرنے نیز زندگی اور اس کے تمام پیچ وخم کی گتھیوں کوسلجھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

محققین کا مانناہے کہ جوافراد روحانی ذہانت کے مالک ہوتے ہیں وہ مسائل کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کے لیے روحانی ذرائع استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ باشعوربھی ہوتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کو مقدس تصورات سے مربوط کرنے پرقادربھی ہوتے ہیں۔

حالیہ برسوںمیں متعدد عالمی تحقیقات کے ماہرین نے اس خیال کی تائید کی ہے کہ بعض روحانی عقائد جسمانی عمل اور دماغی صحت کے ساتھ مثبت طور پر وابستہ ہیں۔ جن میں سے سولاتی ونجفی کی تحقیق یہ آشکارکرتی ہے کہ 65طلبا تناؤ اور پریشانی سے نجات کے لیے مذہبی امور سے استفادہ کرتے ہیں۔ اسٹیورڈ اور جوائے نے یہ بتایاکہ احساس روحانیت دماغی صحت اور ہم آہنگیت کے ساتھ مثبت طور پر وابستہ ہیںاور مذہبی طلبا دیگرطلبا کے مقابلے میں زیادہ ہم آہنگیت کے حامل اور اعلیٰ ترین تعلیمی نتائج سے لطف انداز ہونے والے ہوتے ہیں۔ 

روحانی ذہانت کے اصول

خود آگہی، بیساختگی، بامقصدیت، احساسِ ہمدردی،  تمدنی فرق کا احترام، غلطیوں سے سیکھنا، تشکیل نو کی قابلیت اور پیشہ ورانہ احساس وغیرہ۔

روحانی ذہانت کی خصوصیات

مارشل اور زہر (2000) کا یہ خیال ہے کہ روحانی ذہانت ایک فطری قابلیت ہے جسے ہم عقلی مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے سبب زندگی کولازوال تو نہیں مگرخوبصورت بنایاجاسکتاہے۔ انھوں نے ترقی یافتہ روحانی ذہانت کی خصوصیات کو اس طرح بیان کیا:

اعلی سطحی خودآگہی

صلح پسندانہ رویہ

تکالیف و مصائب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت

مشکل سوالات کا پرسکون انداز میں جواب دینے کی استطاعت

تخیلات اور اقدار سے تاثرپزیری

مختلف چیزوں کے مابین روابط دیکھنے کا رجحان

غیر روایتی سرگرمیوں سے کنارہ کشی

روحانی ذہانت کے عوامل

طرز زندگی: محنت، وقت کی پابندی، ذہانت، جسمانی عمل جیسے کہ ورزش(نماز،یوگا) اور باقاعدگی سے مراقبہ کرنا۔

روشن خیالی: روحانی مسائل، مقدس نصوص کو پڑھنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں طبیعت کامیلان۔

الٰہیات: خدا کے ساتھ روابط،روحانی قوت، اور خدائی طاقت کا احساس، بچپن میں دانشورانہ سرگرمیوں میں دلچسپی جیسے مذہبی تقریبات میں شرکت اور والدین کے ذریعے مقدس متون کو پڑھنا۔

حسی ادراک کی کثرت: وہ تجربات جن کو مافوق الفطرت یا چھٹے احساس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

نفسیاتی الجھن: روحانی آگاہی جو تکلیف دہ تجربات سے دوچار ہوتی ہے۔

خدمت خلق: روحانی سرگرمیاں کرنا جو معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوں۔

روحانی ذہانت کے اجزا

امونس(2000) نے پانچ عناصر کی تجویز پیش کی ہے:

(الف) مسائل کے حل کے لیے روحانی وسائل استعمال کرنے کی اہلیت

(ب) شعور کی بلندوبالامنازل میں داخل ہونے کی صلاحیت

(ج)    پاکیزہ احساس کے ساتھ روزمرہ کی سرگرمیوں کوانجام دینے کی اہلیت

(د)      جسمانیت اور مادیت پربرتری کی استطاعت

(ز)     زندگی کوعفت و پاکدامنی کا نمونہ بنانے کی قابلیت

 مایر(2000)نے امونس کے تجویزکیے گئے پانچویں روحانی جز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ:

’’عفت و پاکدامنی کا تعلق ذہانت سے زیادہ شخصیت سے ہے۔‘‘ اس کے بعد امونس نے بناکوئی جواب دیے اس پانچویں شق کو حذف کردیا۔

تعلیم میں روحانی ذہانت کا کردار

ذہانت تعلیم میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ جب کہ تعلیم جسم اور ذہانت کے فروغ کے لیے ذرائع مہیا کرتی ہے اور اس عمل کو کارآمد بنانے میں مرکزی رہنمائی اساتذہ کی ہوتی ہے۔ اس لیے اساتذہ کو جذباتی اور روحانی طور پر پختہ ہونا چاہیے تاکہ وہ طلبہ کی روحانی ضروریات کوفروغ دے سکیں۔

تعلیمی خدمات انجام دینے سے قبل زیرتربیت اساتذہ کے کورس میں ان کی جذباتی و روحانی نشوونماکے لیے موادکی شمولیت عصرحاضرمیں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اساتذہ طلبا کے کردار کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کے جذباتی، منطقی، معاشرتی اور روحانی دائرے کی نشوونما پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ اسی لیے صرف روحانی ذہانت والے اساتذہ کا طلبا کی ترقی کوفروغ دینے میںاہم رول ہوتا ہے۔

روحانی ذہانت کے فروغ کے ذرائع

ذہانت کی دیگر اقسام کی طرح،کچھ لوگ پیدائشی طورپرہی دوسروں کے مقابل یا اعلیٰ روحانی ذہانت رکھتے ہیں۔ تمام مذہبی روایات یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک مخصوص طریقوں کے ذریعے اپنے ایس کیوکو ترقی یافتہ بنا سکتا ہے۔ جس سے کسی کو راہب یا راہبہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایسے اوہام اور غلط فہمیاں جو کسی بھی شخص کواپنی حقیقی شخصیت کی شناخت سے روکتی ہیں ان کودور کرنے کے لیے کچھ طریقے ہیں۔جتنا زیادہ ان طریقوں پر عمل کیا جائے گا اتنی تیزی سے روحانی ذہانت کی نشوونماہوگی۔ روحانی ذہانت کے نشوونماکے کچھ ذرائع مندرجہ ذیل ہیں:

مراقبہ: مراقبہ خودآگہی یا بیداری کا بہترین ذریعہ ہے۔ مراقبے کے عمل سے لوگ اپنے آپ کااحتساب بخوبی کرسکتے ہیں اور اپنی شخصیت کے تمام پہلوؤں سے واقف بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ عمل کسی شخص کو اپنے خیالات اور احساسات پر قابو پانے، خوبی وخامی میں امتیازکی صلاحیت کو بڑھانے وغیرہ کے ساتھ ساتھ بہترین انتخاب کرنے میں بھی معاون ہو گا۔ مزید اس سے خوابیدہ حالتیں بیدار ہونے، روحانی طور پر علوم منتقل ہونے اور اللہ تعالیٰ کی توجہ اور قرب خیالی سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ ذہنی سکون کے ساتھ اخلاقی برائیوں کا مادہ ختم ہوجاتا ہے۔

عکاسیت: ماضی میں دوسروں کے ساتھ تعامل و برتاوٗ کے تجربات کا جائزہ لینے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر وقت نکالنا، اس سے خود کو خیالات اور احساسات کی اندرونی دنیا اور عمل کی بیرونی دنیا کا تعلق اور ان اعمال کے نتائج کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی سہولت ملتی ہے۔

مربوط ہونا: یہ روحانی طاقت کا اہم ترین وسیلہ ہے۔ اس وسیلے کے جڑنے سے خود کو بااختیار بنانا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان روحانی ذہانت کی گہرائی اور وسعت دونوں میں اضافہ کرتا ہے۔کیوں کہ اندرونی افراتفری کو صاف کرنے اور اپنے شعور کو مرکوز کرنے کے لیے اعلیٰ ماخذ سے حاصل شدہ توانائی ضروری ہے۔

مشق: نئی تعلیم، نئی بصیرت، نئے احساسات صرف نظریات ہیں۔ یہ انسان کی زندگی کو تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے جب تک کہ وہ عمل میں نہ لائے جائیںاور وہ نئے طرز عمل کی تشکیل کے سانچے میں ڈھل کر اظہارِخیال کے عمل میں کاملاور وہ نئے طرز عمل کی تشکیل کی اجازت دیکرکے پھر اظہار خیال کے عمل میں کامل ہوجائیں۔ روحانی ذہانت کی نشونماکو برقرار رکھنے کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں۔

ادب کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ، روحانی ذہانت تربیت سے بہتر ہوسکتی ہے۔ جوانی کا دور روحانی ذہانت کی تربیت کے لیے ایک اہم دور ہے کیونکہ اس دور میں ایس کیو میں ایک ذیلی ذخیرہ اس میں اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تدریسی واکتسابی عمل میں روحانی ذہانت

تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے صرف علمی ذہانت اور آئی کیوواحد عوامل نہیں ہیں بلکہ دیگر مختلف علمی ذہانتیں بھی ہیں جیسے کرسٹلائزڈ انٹلیجنس، جذباتی ذہانت، سماجی ذہانت اور روحانی ذہانت جو علمی،عملی اور زندگی کی کامیابیوں کا پیش گو ہوتی ہیں۔ رہی بات روحانی ذہانت کی تو طلبا اسکولوں میں مذہبی تعلیم، اخلاقی تعلیم اور روحانی سرگرمیوں (جیسے نماز اور اخلاقیات کی مشق) کے ذریعے روحانی ذہانت کے عناصر پر آگہی حاصل کرتے ہیں۔ ہندوستان کی چند ریاستوں نے ہی اپنے اسکولوں میں اخلاقیات کوبحیثیتِ ایک مضمون منتخب کیاہے، حالاں کہ  اخلاقی تعلیم کی اہمیت عصرحاضرمیں نہایت ہی ضروری ہے۔ اس اقدام سے یقینا یہ کہا جا سکتا ہے کہ طلبا کو نہ صرف اکیڈمک معلومات فراہم کی جائے گی بلکہ مثبت اقدار(مذہبی تعلیم، اخلاقی تعلیم اور روحانی سرگرمیاں) بھی فراہم کی جائیںگی جو طلباکے روشن مستقبل پر زور دیتی ہیں۔ روحانیت کے پُرکشش تصورات کی بناپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ روحانیت طلبہ کے لیے زندگی کے مقاصد کے حصول جیسے مستقبل میں بہتر زندگی کے لیے تعلیمی اہداف تک رسائی کے لیے رہنما اصول ثابت ہوسکتے ہیں۔

طلبا کی تعلیمی کامیابی میں کمی والدین اور اساتذۂ کرام کے مابین ایک اہم تشویش بنی ہوئی ہے۔ والدین کی معاونت، اساتذہ کی مدد، ہم جولیوں کا تعاون، اسکول کی سہولیات اور ماحولیات کچھ ایسے عوامل ہیں جن پرکافی تحقیقات کی گئی ہیں اورسبھی نے اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ یہ عوامل طلبا کی تعلیمی کامیابی میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ عوامل اور بھی ہیں جن کا طلباکی تعلیمی کامیابی پرگہرا اثر پڑتا ہے جیسے اقدار، محرکات، محنت اور کام کی اخلاقیات (اورنسٹین، 2010)۔ ان اقدار کا اظہار روحانی ذہانت کے ان عناصر کے ذریعے کیا جاسکتا ہے جو اخلاقیات کے اکتساب اور اقدار پر مرکوز ہے۔ ان مثبت اقدار کی مدد سے،اساتذہ طلبا کو تعلیمی میدان میں درپیش مسائل کی گتھی سلجھانے کے قابل بنا سکتے ہیں۔

n

Mohammad Akbarul Qadri

Ph. D. Scholar, Dept. of Education

University of Madras - 600005 (Tamil Nadu)

Mob.: 8885485920

 

 ماہنامہ اردو دنیا، جون 2021

 

 

 

 

 

 


1 تبصرہ:

  1. معافی کے ساتھ.
    موضوع کے پہلے لفظ تدریسی کے شروع میں آپ ت کو لکھنا بھول گئے ہیں.

    جواب دیںحذف کریں