27/7/21

علمِ ماحولیات اور اردو کا ثانوی نصاب تعلیم - مضمون نگار: آصف مبین

 



علمِ ماحولیات کی حیثیت ایک لازمی اور ناگزیر علم کی ہے۔ ایک مستقل سائنس کے طور پر متعارف ہونے سے قبل اور قومی تعلیمی پالیسی1986  کے نفاذ سے پہلے بھی یہ علم متفرق عنوانات پر اسباق کی شکل میں ہماری تعلیم کا حصہ رہا ہے۔ ابتدائی اور ثانوی درجات کے لیے زبان و ادب کی کتابوں میں: موسم، کھیتی باڑی، جھیل تالاب اور ہمارے اطراف پائے جانے والے زندگی کے دیگر عنوانات پر مضامین اور نظمیں’ علمِ ماحولیات‘ کا حصہ رہے ہیں۔ مولوی اسماعیل میرٹھی صاحب کی ریڈریں، اس باب میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ اپنی ادبی حیثیت کے ساتھ ساتھ؛ اِن کتابوں میں ایک معتد بہ حصہ گاؤں، دیہی زندگی اور اُس کی مصروفیات پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ واضح رہے کہ ملکی پیمانے پر نصاب کی تیاری اور اس کے لیے کتابوں کی فراہمی کے ذمے دار مقتدر ادارے این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ نے تیسری، چوتھی اور پانچویں جماعت کے نصاب میں علمِ ماحولیات کو ـ’آس پاس‘ کے نام سے شامل کیاہے۔ لیکن حیرت ہے کہ چھٹی سے بارہویں جماعت تک اس کا کہیں پتا نہیںچلتا۔ اِس کا ایک سادہ جواب تو یہ ہے کہ علوم اور اُن پر مبنی مضامین بڑھتے جاتے ہیں، لہٰذا تمام مضامین کو نصاب تعلیم میں کھپانا بھی ایک کارے دارد والی بات ہے۔ لیکن اِس مشکل کا ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ آمدہ موضوعات کو پہلے سے موجود متعلقہ مضامین میں جوڑا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر علم ماحولیات کو سائنس، جغرافیہ، ادب اور کسی حد تک تاریخ کے مضامین میں بسہولت داخل کیا جاسکتا ہے(تاریخ کے مضمون میں حیوانات، نباتات اور جمادات کے مطالعۂ زندگی کے نام سے)۔  اِس پس منظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر علمِ ماحولیات کو لازمی یا اختیاری مضمون کے بجائے مثلاً زبان کے نصاب میں توجیہی اسباق کے رُوپ میں شامل کردیا جائے تو نصاب کا بوجھ بھی کم ہوجائے گا اور ’ہماری زبان‘ میں ’ہمارا ماحول‘ بھی شامل ہوجائے گا۔ اِسی خیال کے تحت این.سی. اِی.آر.ٹی. سے شائع درجہ پنجم، ہشتم،نہم اور درجہ دہم یا ہائی اسکول میں زبانِ اُردو کے نصاب پر نظر ڈالی گئی ہے۔

سائنس اور ٹکنالوجی کے طفیل انسان نے زندگی کے مختلف شعبوں میں شاندار ترقی کی جس کی وجہ سے انسان کو آج اس قدر سہولتیں حاصل ہوگئی ہیں جن کا وہ چند دہائیوں قبل تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن اس شاندار ترقی کے جہاں بہت سارے مثبت پہلو ہیں وہیں کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ اُن میں سب سے اہم ہے ماحولیاتی عدم توازن۔  حالیہ برسوں میں ماحولیاتی عدم توازن کے نتیجے میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافے، بالائے بنفشی شعاعوں سے محفوظ رکھنے والی اوزون پرت میں شگاف، موسموں کی ناوقت تبدیلی اور مختلف قسم کی آلودگیوں کی وجہ سے، بے شمار مسائل اور نِت نئی بیماریوں نے جنم لیا ہے۔ شہر کاری (Urbanization) میں غیر منضبط پھیلاؤ اور قدرتی ذرائع کے استعمال میں توازن کی کمی کی وجہ سے بیسویں صدی میں دنیا کے آدھے سے زیادہ سبز خطے اپنے قیمتی وسائل سمیت معدوم ہوگئے۔ اہلِ دانش اور خاص کر انسانی مستقبل کے تعلق سے فکرمندی رکھنے والے سائنس دانوں نے اِس بات سے آگاہ کیا ہے کہ آسائش اور لذت کوشی کی تلاش میں فطری وسائل کے اندھادھند استعمال نے زمین پر موجود حیاتی تنوع(Biodiversity) اور ماحولیاتی نظام  (Ecosystem) دونوں کی بقا اور وجُود پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ماحول کی یہ ٹُوٹ پُھوٹ اُس گھر کی ٹُوٹ پھُوٹ ہے جس میں نوعِ انسانی کے ساتھ ساتھ حیوانات، نباتات، جمادات اور فضائی زندگی کی ایک وسیع دُنیا آباد ہے۔ علمِ ماحولیات کی اہمیت اور ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات کی نشاندہی کی خاطرمثالاً ایک آلودہ کار[Pollutant] ’مصنوعی روشنی‘ کے نقصانات کی طرف درج ذیل پیراگراف میں اشارہ کیا گیا ہے۔

’’زندگی، لکھوکھا سال سے زمین پر روزوشب کے اُس منضبط نظام کے سہارے چل رہی تھی، جو نباتات اور حیوانات کی طبیعت میں رچ دیا گیا ہے۔ پودے اور جانور دن و رات کے اِسی چکر کے تحت روزمرہ کے معمولات مثلاً خوراک کا حصول، تولید، نشوونما، نیند اور شکاریوں سے بچاؤ، جیسے اعمال کو انجام دیتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے ذریعے رات میں کی جانے والی روشنی اِس قدرتی چکر کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ شکاری جاندار شکارکرنے کے لیے روشنی کا اور شکار اپنے بچاؤ کے لیے تاریکی کا سہارا لیتے ہیں۔ اس روشنی کی وجہ سے اندھیرے میں زندگی بتانے والی مخلوقات کی زندگی خطرات میں پڑ گئی ہے۔

(اِس پیراگراف کے لیے ویب سائٹ www.darksky.org/ light-pollution  پر موجود مضمونLight Pollution Effects on Wildlife and Ecosystems سے مدد لی گئی ہے۔)

 اطالوی و امریکی سائنسدانوں کے ذریعے پیش کیے گئے آلودگی کے عالمی اشاریے کے مطابق؛ رات کے وقت ہونے والی روشنیوں کے باعث، دنیا کی ایک تہائی آبادی کی نگاہوں سے کہکشاں اوجھل ہوگئی ہے۔ اور یہ صرف شبِ ماہتاب کے نظارے کی بات نہیں، نوری آلودگی کی وجہ سے؛ آنکھوںمیں چندھیاہٹ اور فضامیں چمک کا اضافہ ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں، مصنوعی روشنی کی کثرت نے فضا میں ایک چمکیلی چادر تان دی ہے جو رات میں نظر آنے والے تاروں کو اوجھل کررہی ہے۔نوری آلودگی نے انسانوں سے رات کے آسمان کا حسن ہی نہیں، بہت کچھ چھینا ہے۔ اِس آلودگی نے نہ صرف بری نظامِ حیات بلکہ سمندری زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ مصنوعی اُجالے کی یہ کثرت جنگلاتی اور سمندری نظامِ زندگی کو اُلجھن میں ڈال کر اُن کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم برقی آلودگی کو؛ ضرورت کے مطابق روشنی کو محدود یا بالکل ہی بجھا کر، کنٹرول کرسکتے ہیں، ختم کرسکتے ہیں۔ ورنہ حالت تو یہ ہے کہ شہری علاقوں کی فضا، آج سے دوسو برس قبل کے مقابلے سیکڑوں بلکہ ہزاروں گنا زیادہ چمکدار ہوچکی ہے اور ہم معاملے کی خطرناکی کا صرف اندازہ کرسکتے ہیں۔

(مختصر از رپورٹ،Chronicle, August-2016،صفحہ، 54 اڈیٹرN.N.Ojha)

علمِ ماحولیات:

ٹیلر(Taylor-1936)  نے ماحولیات کی تشریح کرتے ہوئے اُسے حیاتی سائنس کی ایک ایسی شاخ بتایا تھا جو جاندار اجسام اور ان کے ماحول کے درمیان تعلقات  کا مطالعہ کرتی ہے۔( ماحولیاتی مطالعہ، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی، حیدرآباد)لیکن پچھلے دو دَہوں سے علم ماحولیات نے ایک مستقل سائنس کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اورآج اِس کا مطالعہ اور تدریس اِس  نئی حیثیت میں جاری ہے۔ ماحولیات اور حیاتی تنوع کی بقا کے تئیں بیداری، قدر افزائی اور اُس کے مسائل کے حل میں تعلیم ایک بنیادی رُول ادا کرسکتی ہے۔ ہمار ے تعلیمی نظام کو ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تینوں مرحلوں میں ماحول اور ماحولیات پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ہوجاتا ہے تو یقیناً یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ماحول اور ماحولیاتی اشتراک (یہاں ماحولیاتی اشتراک سے مراد حیوانات، نباتات اور جمادات کے وہ افعال ہیں جنھیں وہ فطری ذمے داریوں کے تحت انجام دیتے ہیں) ترقی کریں گے اَور یہ کوشش انفرادی اور اجتماعی ہردو سطح پر وسائل کے مناسب ترین استعمال کے لیے قدروں اور رویوں کی تشکیل کرے گی۔

ماحولیات کے تئیں عالمی بیداری:

حیاتی تنوع پر خطرات اور اس کے تحفظ پر برازیل کے صدر مقام ریو ڈی جنیرو(Rio De Janeiro) میں 1992 میں ’ماحول اور ترقی‘  پر 3 تا 14 جون ایک کانفرنس منعقد ہوئی جو ارض چوٹی کانفرنس (Earth Summit)  کے نام سے مشہور ہوئی۔ اِس کانفرنس میں 154 اقوام نے شرکت کی اور ایجنڈا21 جاری کیا۔ ایجنڈے میں اور باتوں کے ساتھ مندرجہ ذیل شقیں بھی شامل تھیں:

1       عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ صحت مند اور پیداواری زندگی گزاریں۔

2       ہر ملک کو قدرتی وسائل کو استعمال کرنے کی آزادی ہے۔

3       ماحولیاتی نظاموں جیسے سمندر، دریا وغیرہ کا تحفظ

4       زمینی وسائل کا تحفظ، جنگلات کی کٹائی کی روک تھام اور حیاتی تنوع کا تحفظ

5       جنگلات کو ترقی دینا اور اس کے تحفظ سے دنیا کو سبز دنیا میں بدلنا(ماحولیاتی مطالعہ،ص112)

جوہانسبرگ (جنوبی افریقہ) میں 26 اگست تا 4 ستمبر 2002 دوسری چوٹی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں قابلِ بقا  ترقی(Renewable Energy) پر زور دیا گیا۔

(ماحولیاتی مطالعہ،ص113)

ماحولیاتی تعلیم ہندوستان میں:

ماحولیاتی شعور کو اُجاگر کرنے کے لیے ماحولیاتی تعلیم کی ضرورت کو ہندوستان میں بہت دیر سے محسوس کیا گیا۔ 1988 میں مہتا بمقابلہ مرکزی حکومتِ ہند کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد تمام سطحوں پر ماحولیات کی تعلیم کا آغاز کیاگیا۔ یہ ارادہ کیا گیا کہ بچپن سے ہی بچوں کو ماحولیات کا شعور دیا جائے۔ طلبہ کے ساتھ عوام میں بھی ماحولیاتی شعور کو بیدار کرنے کے اقدامات کیے جائیں نیز انھیں یہ بتایا جائے کہ وہ قدرتی وسائل سے بہتر استفادہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ اس طرح اقدار پر مبنی ماحولیاتی تعلیم طرزِ زندگی میں تبدیلی لائے گی۔ ماحولیات کی تباہی سے حاصل ہونے والی ترقی دراصل ہم سب کی تباہی ہے۔ کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کوکم کرنے کے لیے ہمیں دوبارہ فطری زندگی کی طرف لوٹنا (Back to Nature کا نعرہ)ہوگا۔

(ماحولیاتی مطالعہ، ص82-83)

قومی تعلیمی پالیسی1986 میں تعلیم کے سبھی مراحل کے طلبا کے بیچ ماحولیاتی شعور اور ماحولیات کے تحفظ کے تئیں بیداری پر زور دیا گیا ہے۔نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کے ذریعے2013 میں شائع ایجوکیشنل ایڈمنسٹریشن(Educational Administration: Structure, Processes and Future Prospectus) میں تعلیمی پالیسی اور پروگرام ہیڈنگ کے تحت آٹھ بڑی اسکیمات گنائی گئی ہیں جو بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں:

1       ضلعی ابتدائی تعلیمی پروگرام

2       سبھی کے لیے تعلیم' مہم

3       صلاحیت میں افزائش پروگرام

4       کستوربا گاندھی گرلس اسکول

5       تعلیمِ بالغان

6       تعلیمِ حِرفہ

7       اسکولی تعلیم میں ماحولیات کا تعارف

8       معذور طلبا کے لیے انٹیگریٹیڈ ایجوکیشن

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ 319 صفحات کی اِس کتاب میں علمِ ماحولیات پر سِوااِس ایک ذیلی عنوان اور قومی تعلیمی پالیسی کے ذکر کے کچھ بھی نہیں ہے۔

(Educational Administration by National University of Educational Planning and Administration-67-p40)

اُردو ثانوی نصابِ تعلیم:

این.سی.اِی.آر.ٹی.کی درجہ پنجم کی کتاب میں علمِ ماحولیات پر مستقل کوئی سبق نہیں البتہ ایک سبق جو مشہور شاعر اختر شیرانی کی نظم ہے ‘دریا کنارے چاندنی‘  کے عنوان سے ہے۔ نظم میں چاندنی کے ظاہر ہونے، چھانے اور دریا کی لہروں پر منعکس ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔ ٹھنڈی ہوا، اُجلی فضا اور رات کے سناٹے کا تذکرہ ہے۔ تیسرے بند میں بدلی آنے اور چاندنی کو چھُپا لینے کا ذکر ہے جبکہ چوتھے اور آخری بند میں گجردم شاعر اپنے مسکن پر واپس آجاتا ہے اور نظم ختم ہوجاتی ہے۔ یہ سبق جیسا کہ کہا گیا ’علمِ ماحولیات‘ پر نہیں لیکن ‘ماحول سے متعلق‘ ضرور ہے۔ )ابتدائی اُردو،برائے درجہ پنجم-2012)

اگلی کتاب درجہ ہشتم کی ہے اور نومبر 2013 میں شائع ہوئی ہے۔ جونیر ہائی اسکول کی اِس کتاب میں بھی کوئی مضمون براہ راست ماحولیات کی اہمیت پر نہیں، البتہ ماحول میں موجود قدرتی مظاہر میں سے ایک مظہر پر ہے۔ ایک سبق شاہنامۂ اسلام کے خالق حفیظ جالندھری کی نظم ’لو پھر بسنت آئی‘ ہے۔ سبق میں موسمِ بہار کی آمد، اور ماحول اور انسانی طبیعت پر اُس آمد کے اثر کوبیان کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے کا دوسرا سبق روش صدیقی کی نظم ’شبنم‘ ہے۔ شبنم کی حقیقی صورت گری میں شاعر نے خلاقانہ طبیعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ شبنم کی ننھی بوندوں کو تارے، موتی، ہیرے اور رات کے آنسوؤں سے تشبیہ دے کر شاعرنے نظم کی لڑی میں الفاظ کے موتی پرو دیے ہیں۔

)اپنی زبان، برائے درجہ ہشتم-2013)

درجہ نہم کی درسی کتاب میں ماحول سے متعلق محض ایک سبق عبدالحلیم شرر کا ’دیہاتی زندگی‘ کے نام سے ہے اور ماحولیات کے سلسلے میں ہندوستان کی دیہی زندگی جو نمائندہ کردار ادا کرسکتی ہے، اُس کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ اِسی درجے کی معاون درسی کتاب کا ایک سبق ’بدلی کاچاند‘ جو شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی نظم ہے،کو ماحول سے متعلق قرار دیا جاسکتا ہے۔

(نوائے اُردو،برائے درجہ نہم-2013 (

درجہ دہم یا ہائی اسکول کی اُردو زبان کی درسی کتاب تقریباً 100 صفحات پر مشتمل ہے۔ ثانوی درجات تک کے اُردو نصاب میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں علمِ ماحولیات پر  اسلم پرویز صاحب کا مضمون ’ماحول بچائیے‘ شامل ہے۔ مضمون کی شروعات کچھ اِس طرح ہے:

’’ایک عام آدمی کی نظر میں ماحولیاتی مسئلہ بھی ایک ’سائنسی مسئلہ‘ہے جس پر سائنس داں بحث کرتے رہتے ہیں۔ اُس کے خیال میں یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں وہ دلچسپی لے یا جس پر غور وفکر کیا جائے۔ لیکن ذرا بتائیے کہ کیا ہم کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ آج کل کینسر کا مرض اتنی شدت کیوں اختیار کرگیا ہے، دِل کے امراض کیوں عام ہورہے ہیں، لوگوں کو سانس کی تکلیف کیوں ہورہی ہے، موسموں کا چلن کیوں بگڑ گیا ہے، برسات کی وہ رُتیں اور جھڑیاں کیوں ختم ہوگئی ہیں، دریاؤں کاپانی گدلا اور کنوؤں کا پانی زہریلا کیوں ہوگیا ہے، تازہ ہوا کے وہ جھونکے کہاں چلے گئے کہ جو روح کو شاد کیا کرتے تھے، موتی کی طرح شفاف پانی کے وہ قدرتی چشمے کہاں کھو گئے جن کی تہہ کا حال اُوپر سے ہی نظر آجاتا تھا۔ یقیناً یہ ایسے مسائل ہیں کہ جن کا تعلق ہم سے اور ہماری فنا و بقا سے ہے۔ اور اب اگر یہ کہا جائے کہ ان تمام مسئلوں کا سیدھا واسطہ ہمارے بگڑتے ہوئے ماحول سے ہے تو کیا اب بھی آپ ماحولیاتی مسئلے کو محض ایک سائنسی مسئلہ کہیں گے؟ـ("نوائے اُردو،برائے درجہ دہم-2012)

علمِ ماحولیات کی تعریف کو ہائی اسکول کی سطح پر کچھ اِس سادگی سے سمجھایا ہے:

’’قدرت نے دنیا کی ہر چیز کو ضرورت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ یہاں ہر ایک چیز دوسری چیز کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتی ہے۔ اِس آپسی تعلق کو سمجھنے اور سمجھانے کا نام ’ماحولیاتی سائنس‘ ہے۔‘‘  (ایضاً)

اِس کتاب میں علمِ ماحولیات پر مبنی اس مکمل سبق کے ساتھ نظموں کے کچھ اسباق بھی ماحولیات سے متعلق موجود ہیں۔ ان میں جوش ملیح آبادی کی نظم ’گرمی اور دیہاتی بازار‘ اور اختر شیرانی کی نظم ’اُو دیس سے آنے والے بتا‘ بھی شامل ہے جس میں دیہات کی سادہ اور محبت سے بھرپور زندگی کا نقشہ بے تکلف فطری انداز میں کھینچا گیا ہے۔( ایضاً)

 

Mohd Mubeen Asif

J-68, B3, Flat-1, G/F, Abul Fazal Enclave

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi - 110025

Mob.: 9990289656

 

 ماہنامہ اردو دنیا، جون 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں