28/7/21

مفتی صدرالدین خان آزردہ کی مذہبی، ادبی اور قومی خدمات - مضمون نگار۔ سید عینین علی حق

 


 

ہندوستان مختلف مذاہب کی آماجگاہ رہا ہے،جہاں مذہبی عقائد کا عمل دخل دیکھا جا تارہا ہے،  مذہب وہ شے ہے جس کی بنیاد پر حکومتیں تشکیل پاتی ہیں اور منہدم کر دی جاتی ہیں، جس بات کو انگریزوں نے نہیں سمجھا اور ہندوستانیوں کے مذہبی جذبات کو پارہ پارہ کرنا شروع کر دیا۔ انگریزوں کے تئیں نفرت پیدا ہونے کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ بنگال کے دمدم اور بارک پور میں سور اور گائے کی چربی سے آلودہ کارتوس سپاہیوں کو دیے جاتے تھے اور کارتوس کو بندوقوں میں ڈالنے کے لیے دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا، جس سے ہندئوںاور مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے اور ہندو مسلم سپاہیوں نے متحدہ طور پر مخالفت کرتے ہوئے مذہب کے منافی قرار دیا۔ سپاہیوں نے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کیا تو انگریزوں نے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی اور سپاہیوں کو  بیڑیاں پہنا کر زندان میں ڈال دیا۔ سیدھے سادے ہندوستانیوں پر انگریزوں نے قطعی مروت نہیں کی اور لوگوں کو سزا دی گئی جب کہ ان لوگوں نے بے پناہ قربانیاںدی تھیں۔

غدر کے خوں چکاں واقعات ہندوستانیوں کے لیے بربادی کا پیغام لے کر آئے تھے لیکن ملک کا ہر ایک فرد متحد اور انگریزوں کے خلاف سینہ سپر تھا، کسی بھی مذہب و ملت کی کوئی تفریق نہیں تھی، اس بغاوت نے پورے شہر کو اپنی زد میں لے لیا اور راتوں رات متعدد فرنگی موت کی آغوش میں جاچکے تھے ، اس واقعے نے انگریزوں کی نیند حرام کر دی۔ دومجاہدین منگل پانڈے اور ایشوری پانڈے نے انگریزوں پر حملہ کردیاجس کے بعدمنگل پانڈے کو گرفتار کرکے سزائے موت دی گئی۔ یہ وہ واقعات تھے جس نے باغیوں کو رد عمل پر مجبور کردیا۔ باغیوں  نے دریائے جمنا کو کشتیوں سے پار کیا اور کلکتہ دروازے سے فصیل بند شہر میں داخل ہوئے۔ دوپہر ہوتے ہوتے متعدد انگریز اور دیگر یورپی ا ن کی بندوقوں اور تلواروں کا نشانہ بن چکے تھے کئی ہندوستانیوں کو پھانسی کی سزا دے دی گئی ۔

انہی درد ناک ماحول کے پیش نظر علمائے کرام کے وفد نے بہادر شاہ ظفر سے ملاقات کی اورجنگ آزادی کا منصوبہ تیار کیا۔ 1857 میں انگریزوں کے خلاف ایسی جنگ لڑی گئی کہ ایوانِ فرنگ لرزہ بر اندام ہو گیا،جس کی گونج پورے بر صغیر میں سنی گئی۔ ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی میں علمائے کرام کا کردار کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ، ملک کے تئیں علما کے خلوص اور حب الوطنی کا عالم یہ تھا کہ انگریز قابض بھی نہیں ہوئے تھے کہ انھوں نے انگریزوں کے ناپاک ارادوں کی ناکامیوں کے لیے تیاریاں شروع کردی تھیں۔آزادی کے لیے ہندو،مسلم ،سکھ، عیسائی اور خصوصاًعلمائے کرام نے مل کرانگریزوں سے جنگ کی، اس بات سے انحراف نہیں کیا جا سکتا ہے کہ 60فیصد سے زائد علمائے کرام کی قربانیاں ہندوستان کی آزادی میں شامل ہیں، جوتاریخ کے اوراق میں عیاں ہیں۔

 انہی علما میں ہمہ جہت اوصاف اور فضل و کمال کے مالک مفتی صدر الدین آزردہ تھے۔ انھوں نے سیاست، مذہب، حکومت اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کی اعلیٰ مثالیں پیش کی تھیں اور قوم کی تعمیروترقی کے ساتھ ساتھ مذہبی مقامات کے محافظ بھی ثابت ہوئے تھے، اگر وہ نہ ہوتے تو غالباً جامع مسجد کے بھی کچھ وہی حالات ہوتے جو انگریزوں نے شاہ جہاں کے ذریعے 1650 میں تعمیر کردہ مسجد اکبر آبادی کا کیا تھا۔ مفتی صدرالدین آزردہ کے آبا و اجداد کشمیری تھے،آپ دہلی میں پیدا ہوئے۔ 18ویں اور19ویں صدی میں جن عظیم علمائے کرام سے دلی کی علمی و ادبی اور مذہبی محفل آباد تھی اور پورے ہندوستان میں جن خانوادوں کے علم کا ڈنکا بج رہا تھا،انھیں میں لطف اللہ کشمیری کے خانوادے کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔ لطف اللہ کشمیری کے جدِاعلیٰ خواجہ بہائ الدین خوارزمی فاروقی مغل دورِ حکومت کے عہدِ اکبری میں دہلی آئے اور یہیں بس گئے۔ صاحبِ کشف و کرامت خیرالدین ابولخیرؒ بھی انھیں کی اولاد میں سے تھے۔ مولانا فخر الدین جیسی عظیم ہستی بھی اسی خاندان میں پیدا ہوئی اور انھیں کے بھائی لطف اللہ کشمیری کے گھر مفتی صدرالدین آزردہ جیسے ماہرفن اور جید عالم دین پیدا ہوئے۔

آزردہ کی پیدائش 1204ہجری12دسمبر 1789 میں پرانی دہلی کے چتلی قبر علاقے میں ہوئی۔آزردہ کو بیک وقت کئی علوم میں دسترس حاصل تھی۔صرف و نحو، منطق و فلسفہ،معانی و بیان،ادب وانشا، فقہ و حدیث اور تفسیر و اصول وغیرہ میں آپ یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔مفتی آزردہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد لطف اللہ کشمیری سے حاصل کی اور علمِ منقولات کے لیے خانوادہ ولی اللہ کی طرف رجوع کیا۔حضرت شاہ عبدالعزیز، حضرت شاہ عبدالقادر اورحضرت شاہ رفیع الدین آپ کے علوم نقلیہ کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں اور معقولات کا درس آپ نے استاذِ مطلق علامہ فضلِ حق خیرآ بادی کے والد علامہ فضلِ امام فاروقی خیرآبادی سے لیا۔شاہ عبد العزیز (1239/1824)اور فضل امام خیرآبادی (1244 / 1829 ) کے گھرانے۔ اس دور میں دو بڑی درس گاہیں تسلیم کی جاتی تھیں اور دہلی و اطراف ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھر کے طلبا یہاں آکر ان سے شرفِ تلمذ حاصل کرتے تھے۔مفتی صدر الدین آزردہ 1827 سے 1844  تک صدر امین اور15جون 1844 سے 1857 صدر الصدور دہلی کے عہدے پر فائز تھے،یہ بات غور طلب ہے کہ انگریزوں کے ذریعے ہندوستانیوں کو دیا جانے والا یہ سب سے بڑا عہدہ تھا، جس پر آزردہ فائز تھے۔ آزردہ نے اپنے خانوادے کی وراثت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، وہ بھی تازندگی درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ان کی سخاوت کافی مشہور تھی، جس محفل میں ہوتے میرکارواں ہوتے اور اپنے شاگردوں کے لیے وہ محض استاذ نہیں بلکہ ان کے والدین کا کردار نبھایا کرتے۔مورخین لکھتے ہیں کہ جامع مسجد دہلی میں واقع مدرسہ دارالبقا کے طلبا کو مفتی آزردہ وظیفہ دیا کرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں مولوی بشیر الدین احمد دارلبقا اور آزردہ کی سخاوت کے حوالے سے رقم طراز ہیں        ؎

’’مسجد کے جنوبی دروازے کی طرف دارالبقا کا دارالعلوم تھا۔ اگلے زمانے میں اس میں طالب العلم رہتے تھے اور معقول و منقول پڑھا کرتے تھے۔ یہ مدرسہ اسی زمانے میں بالکل خراب و برباد ہوکر ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ مولوی صدرالدین خاں صاحب صدر الصدور نے اپنی عالی ہمتی سے بصرف زر خطیر اس کو مرتب کیا اور شاہجہانی طور پر جو جو حجرے اس کے ٹوٹ گئے تھے ان کو نئے سرے سے بنوایا تھا۔ طلبا کی خبرگیری خود فرماتے تھے۔ دارالشفا اور دارالبقا بہت پہلے ہی سے خستہ حالت میں تھیں۔غدر57کے بعد یہ دونوں عمارتیں گراکر صاف میدان کردیا گیا، یہ دونوں عمارتیں بھی مسجد کے ساتھ ہی ساتھ بنی تھیں۔‘‘ (واقعات دارالحکومت، جلددوم،ص113)

مفتی صدر الدین کو بطور مجاہد آزادی یاد کیا جاتا رہے گا ، آزردہ نے تمام صعوبتیں برداشت کیں لیکن پیشانی پر شکن تک نہیں آنے دیا۔ دہلی میں علامہ فضل حق خیر آبادی اور مفتی صدرالدین آزردہ غدر کی جنگ میں مجاہدین کی قیادت کررہے تھے۔ مرادآباد میں مفتی کفایت علی کافی، آگرہ میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی و مولانا احمداللہ مدراسی، روہیل کھنڈ میں مفتی عنایت احمد کاکوروی اور مولانا رضا علی خاں بریلوی مجاہدینِ آزادی کے قائد و رہنماتھے۔ان علما نے دہلی کی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا جس کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑے۔

جنرل بخت خاں روہیلہ نے جنگ کا بگل پھونکا تو دہلی میں بھی علما نے انگریزوں کے خلاف ایک فتویٰ جہاد جاری کیا،اس فتوی جہاد پرمفتیان کرام کے دستخط تھے ، جن میں مفتی صدر الدین آزردہ بھی شامل تھے۔فتویٰ جہاد اخبارالظفر دہلی سے صادق الاخبار دہلی نے نقل کرکے مورخہ 26جولائی 1857 میں شائع کیا۔یہ اخبار نیشنل آرکائیوز میں محفوظ ہے۔ صدرالصدور دہلی مفتی صدرالدین آزردہ کو عہدہ صدرالصدور سے برطرف کر دیا گیا،جائداد ضبط کر لی گئی،آپ کی ذاتی لائبریری جس میں تقریباً تین لاکھ روپیوں کی کتابیں تھیں،برباد کر دی گئی۔ آزردہ پر غم والم کے یہ پہاڑ 1273ھ میں ٹوٹے ۔لیکن مفتی آزردہ کے ہمدرد پنجاب کے کمشنر جان لارنس نے تمام جرم سے انھیں بری کردیا۔

جنگ آزادی ہند 1857 کے دوران، مفتی صدرالدین آزردہ لال قلعے میں بہادر شاہ ظفر سے ملنے جاتے رہے اور انقلابی مجاہدین ہدایات اور مشاورت کے لیے ان کے گھر آتے تھے۔ آزادی ہند 1857 کے ہنگامے کے بعد نصف جائداد ضبط ہوگئی۔مفتی صدر الدین آزردہ عرصہ دراز تک حوالات میں قید رہے بعد میں رہائی ملی لیکن عہدے سے بھی برطرف کر دیے گئے ۔

آزردہ اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔شعر وسخن کا سلسلہ جوانی سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ اردو میں پہلے شاہ نصیر سے اصلاح لی اور آخر میں میر نظام الدین ممنون  اورمجرم مراد آبادی سے مشورۂ سخن کیا کرتے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہوئی کہ کلام دیوان کی صورت میں مرتب نہیں ہوا۔آزردہ نے شعرائے اردو کا ایک تذکرہ بھی لکھا تھا،جو اب ناپید ہے۔ریختہ اور دیگر کتابوں میں موجود ان کے نمونۂ کلام سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ شاعری میں ثقیل الفاظ لانے کے قائل نہیں تھے۔ ان کی شاعری کا اسلوب نہایت ہی شستہ اور سہل ہے         ؎

اس درد جدائی سے کہیں جان نکل جائے

آزردہ! مرے حق میں ذرا تو بھی دعا کر

ان کا دوسرا شعر دیکھیں         ؎

وہ اور وصل کا قاصد نہیں نہیں

سچ سچ بتا یہ لفظ انہی کی زباں کے ہیں

مفتی صدرالدین آزردہ سے مرزا غالب کے دوستانہ مراسم تھے، غالب کے خطوط میں آزردہ کا ذکر مختلف حالات میںپڑھا جا سکتا ہے۔دونوں کے درمیان نوک جھونک بھی خوب ہوا کرتی تھی، کچھ باتیں اکثر نقل کی جاتی ہیں۔ غالب کی شاعری میں بھاری بھرکم اصطلاحات کے استعمال پر وہ انھیں پسند نہیں کرتے تھے، مگر دونوں کی رغبت کا عالم یہ تھا کہ ایک دفعہ جب مقروض غالب پرادائیگی کے مطالبات بڑھے تو آزردہ نے غالب کے قرض کی ادائیگی کی اور غالب کو بچا لیا۔ کچھ ایسا ہی رویہ غالب کا تھا، شیفتہ تذکرہ مرتب کررہے تھے اور آزردہ کا ذکر نہیں کیا، لیکن غالب نے ان کی توجہ مرکوز کرائی اور تذکرۂ شیفتہ میں آزردہ شامل ہوئے۔

 بدقسمتی سے ان کی تمام شاعری فسادات اور تباہی کی نذرہو گئی۔ اب ان کی شاعری کا ذکرصرف مختلف تذکروں میں ملتا ہے۔ منشی ذکا اللہ دہلوی لکھتے ہیں :

’’ دہلی کی جامع مسجد جو شہر کی تمام مسجدوں کی ناک تھی انگریزوں نے ایسے نکٹا بنادیا کہ سپاہ کی بیرک اس کو بنایا۔ اس میں پیشاب پاخانہ سے پرہیز نہ کیا۔سکھوں نے سۡور ذبح کرکے پکائے۔کتے جو انگریزوں کے ساتھ تھے وہ درگاہ شریف میں پڑے پھرتے تھے۔‘‘

(تاریخ عروج انگلشیہ)

دہلی کی فتح کے بعد انگریز فوج نے شہری آبادی سے خوف ناک انتقام لیا۔ لوگوں کو بے دریغ قتل کیا۔ سیکڑوں کو پھانسی پر چھڑھا دیا گیا۔ ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑا دیے گئے۔ بہت سے مقتدر اور متمول مسلمانوں کی جائدادیں تباہ ہو گئیں اور اقتصادی حالات اس قدر خراب ہوئے کہ ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔ مفتی صدر الدین آزردہ کے نامکمل کاموں اور ان کے نظریات کو ان کے شاگردوں نے فروغ دیا۔ نواب یوسف علی خان والی رام پور، نواب صدیق حسن خان رئیس بھوپال، مولانا ابوالکلام کے والد مولانا خیر الدین،مولانا فیض الحسن خاںاور سر سید احمد خان وغیرہ جیسے مشاہیر ان کے شاگردوں میں سے تھے۔اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان کرکے ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کیااور ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔اس جنگ کے بعد خصوصا مسلمان زیر عتاب آئے۔  یوں مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دیے گئے اور مسلمان جدید علوم و فنون سے محروم کر دیے گئے۔ آزردہ حضرت نظام الدین اولیائ ؒسے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ ان کے کلام سے محبوب الہٰی نظام الدین اولیا کے تئیں احترام ظاہر ہے۔ آزردہ اپنے ایک شعر میں لکھتے ہیں       ؎

نہ چھوڑیں گے محبوب الٰہی کے در کو

نہیں گو ہم اس آستانے کے قابل

مفتی صدر الدین آزردہ فالج کے مرض میں مبتلا ہوکر 81  برس کی عمر میں 16جولائی 1868(24ربیع الاول 1285 ہجری)کو دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اور درگاہ حضرت چراغ دہلیؒ کے صحن میں دفن کیے گئے۔ آزردہ نے لاڈو بیگم سے شادی کی تھی مگر لاولد تھے، البتہ انھوں نے اپنی اہلیہ کے بھانجے محمد احسان الرحمن خان کو گود لیا تھا۔

کتابیات

1       تذکرۂ آزردہ، مولفہ :مفتی صدالدین آزردہ، مرتبہ ڈاکٹر مختار الدین احمد، انجمن ترقی اردو پاکستان، 1974

2       مفتی صدر الدین آزردہ: عبدالرحمن پرواز اصلاحی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،دہلی،جولائی1977

3       واقعات دارالحکومت دہلی، بشیر الدین احمد، اردو اکادمی دہلی 1919

 

Syed Ainain Ali Haque

B-91, Second Floor, Hayat Enclave Loni

Ghazibad - 201102

Mob.: 9268506925

Email.: alihaq_ainain@yahoo.com

 

 

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں