28/7/21

کرتار سنگھ دگل کی اردوڈراما نگاری - مضمون نگار۔ اقبال احمد


 


سر زمینِ پنجاب ازل سے ہی مختلف نسلوں کے افراد سے آباد ہے اور مختلف مذاہب و عقائد یہاں کی رنگارنگ زندگی کا جزو ہیں۔یہاں تھوڑے فاصلے سے یا کہیں کہیں گردوارے، مسجد، مندر اور گرجا گھر اکٹھے بھی نظر آتے ہیں۔ جو اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ یہ علاقہ سیکولر ہے اوران مختلف مذاہب و عقائد کے باوجود پنجاب میں ہمیشہ سے ہی اتحاد،اتفاق ہے۔ دراصل یہی باطنی احساس اور نفسیاتی و جذباتی ہم آہنگی کا تصور قومیت کی تشکیل کرتا  ہے اورکسی قوم کو متحد رکھنے میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ پروفیسر محمد جمیل اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:

’’پنجاب پانچ دریاؤں، پیروں، پیغمبروں، صوفی اوتاروں کی دھرتی ہے، جس کی جواں مردی، سرفرازی، دانشوری اور مہمان نوازی کی شہرت آج بھی باقی ہے۔ جہاں پر مختلف مذاہب کے تصورات و خیالات شامل ہیں۔ یہیں کے آب دریا نے لوگوں کے دلوں میں پیار و محبت، امن و آشتی کا پیغام دیا ہے... پنجابیوں میں آپسی رواداری  الفتوں اور محبتوں کا پیغام زندگی کے سفر کے ساتھ  رواں دواں ہے۔ ‘‘(اردو فارسی اور پنجاب،ص 107-8)

اسی متحدہ قومیت کے تصور کو قائم رکھنے کے لیے ایک ایسی زبان کی ضرورت تھی جسے اس خطے کے تمام افراد سمجھ، بول اور پڑھ سکیں۔ جب برصغیر ہند میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ عربی و فارسی زبانیں آئیں اور ایک عرصہ تک فارسی یہاں کی سرکاری و درباری زبان بھی رہی اور بیرونی زبانیں یہاں کی مقامی زبانوں کے ساتھ میل جول کے باعث ایک نئی مخلوط زبان نے جنم لیا جسے مختلف ادوار اور علاقوں میں الگ الگ ناموں سے پکارا جاتا رہا اور بالآخر اردو کے نام سے موسوم ہوئی۔

اس بات کے کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ بلا شبہ اردو زبان کے جنم داتا مسلمان رہے ہیں مگر اردو محض مسلمانوں کی ہی زبان نہیں ہے اور نہ ہی اسے مذہب کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔ اس زبان کی ترویج و اشاعت میں ہمارے غیر مسلم ادبا و شعرا کا ایک بہت بڑا حصہ ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ برابر کے شراکت دار ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ امام مرتضیٰ نقوی لکھتے ہیں کہ :

’’اردو کو اس کی دلکشی اور رعنائی کے باعث ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگوں نے اپنایا ہے۔ہندو ہوں یا مسلم سکھ ہوں یا عیسائی۔ہندوستان کے ہر گروہ اور فرقے نے اس میں اپنے لیے پناہ ڈھونڈی ہے ۔‘‘

(اردو ادب میں سکھوں کا حصہ،ص 5)

تقریباً دو سوا دو صدیوں پر محیط اردو ادب کے منظرنامے کا جائزہ لینے سے اردو کے غیر مسلم ادبا میں صرف سکھ قلمکاروں کے ہی اَن گنت ایسے نام سامنے آتے ہیں جو اردو کے خدمت گزاروں اور جاں نثاروں میں شامل ہیں۔ اردو نظم ونثر، صحافت۔ خطابت، ڈرامہ، تنقید و تحقیق وغیرہ غرض ہر صنف اور ہر دور میں سکھ قلمکاروں کی خدمات اردو زبان و ادب کو حاصل رہی ہیں۔ اردو میں سکھ شعرا کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن نثر کے میدان میں ان کی تعداد شاعری کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ڈاکٹر سیفی پریمی لکھتے ہیں کہ:

’’آج ہمارے سامنے سکھ شاعروں کی طویل فہرست موجود ہے جنھوں نے نعت،قصیدہ، سلام وغیرہ مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ ‘‘

(اردو ادب میںسکھوں کا حصہ،ص 11)

اسی طرح سکھ نثر نگاروں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

’’سکھوں میں وقیع نثر نگار بھی ہیں۔ ان کی نگارشارت آل اندیا ریڈیو سے نشر کی جاتی ہیں۔انھوں نے ریڈیو کے لیے فیچر لکھے ہیں۔بمبئی میں فلم کے مکالمے سپردِ قلم کیے ہیں... ممتاز کہانی کار،ناول نویس، ڈرامہ نگار اور نقاد ہیں۔ بعض تخلیقات پر حکومتِ ہند نے انعام بھی دیا ہے۔‘‘

(اردو ادب      میں سکھوں کا حصہ،ص 11-12)

اردو کی دیگر نثری اصناف کے ساتھ ساتھ سکھ قلمکارو ں نے ڈرامے کے فروغ میں بھی اہم کردارادا کیا ہے اور اردو کے چند گنے چنے بلند پایہ ڈرامہ نگاروں میں سکھ ڈرامہ نگاروں کا نام بھی شامل ہے جن میں ایک اہم نام کرتار سنگھ دگل کا بھی ہے۔

کرتار سنگھ دگل کا شمار صرف پنجاب کے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے اہم قلمکاروں میں ہوتا ہے۔ دگل کا جنم یکم مارچ 1917کو راولپنڈی میں ہوا تھا۔ فارمین کرسچن کالج لاہور سے ایم۔ اے کرنے کے بعد 1942 میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت حاصل کی اور اس کے علاوہ نیشنل بک ٹرسٹ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ دگل کا نام پنجابی زبان و ادب میں تو کافی اہمیت رکھتاہی ہے اس کے علاوہ وہ، اردو، ہندی اور انگریزی میں بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کا پنجابی اردو اور ہندی کاکل ادبی سرمایہ جو 41 کہانیوں کے مجموعوں، 33ڈراموں، 14 ناولوں، 9 تحقیقی و تنقیدی کتابوں، دو سوانح حیات اور 8 شعری مجموعوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان میں ان کی مجموعی تخلیقات 41ہیں جو ناولوں،افسانوں اور ڈراموں پر مشتمل ہے۔دگل کے عرصۂ حیات کے ساتھ ساتھ ان کے فن کی عمر بھی کافی طویل رہی مگر اس طویل عرصے میں انھوں نے دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو ادب کوبہت کم تخلیقات عطا کی ہیں مگر جو دی ہیں وہ کافی بلند پایہ،منفرد اور شاہکار ہیں۔ ادب میں دگل کے مقام کے متعلق ڈاکٹر انعام الرحمن لکھتے ہیں کہ:

’’پنجابی اور اردو ادب میں ان کا مقام وہی ہے جو انگریزی ادب میں ملک راج آنند اور خوشونت سنگھ،اردو ادب میں سعادت حسن منٹو،راجندر سنگھ بیدی اور اوپندر ناتھ اشک کا ہے‘‘

(پنجاب میں اردو ڈرامے کی روایت :تفہیم و تجزیہ، ص 402)

کرتار سنگھ دگل کی سلطنتِ اردو نثرنگاری کی سرحدیں صرف افسانے اور ناول تک ہی محدود نہیں ہیںبلکہ انھوں نے صنفِ ڈرامہ میں بھی قابل قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ کرتار سنگھ دگل اردو کے ایک اہم اور مایہ ناز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کا ڈرامہ ’دیا بجھ گیا‘ اور ایک ڈراموں کا مجموعہ ’اوپر کی منزل ‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’اوپر کی منزل‘دس ڈراموں پر مشتمل ہے۔ دگل نے زیادہ تر ایکانکی ڈرامے لکھے ہیں اور پنجاب کے ایکانکی ڈراما نگاروں، اوپندر ناتھ اشک، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی کے ساتھ ان کا نام لیا جاسکتا ہے۔ ’ایکانکی ڈراما‘ ڈرامے کی ایک ایسی قسم ہے۔جسے انگریزی میں ون ایکٹ پلے(One Act Play) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ون ایکٹ پلے میں سب سے زیادہ اہمیت مرکزی کردار کی رہتی ہے، جس کا پلاٹ بہت مختصر ہوتا ہے اور اس کے سبھی کردار مرکزی کردار کو ایک ایکٹ میں پیش کرتے ہیں۔ دگل کا شمار اردو کے ان چند ڈراما نگاروں میں کیا جاتا ہے جن کے ڈرامے فنی اعتبار سے کامیاب اور مکمل کہے جاسکتے ہیں۔انعام الرحمن لکھتے ہیں کہ :

’’دگل نے اپنے فن کا لوہا اس وقت منوایا جب ان کے ارد گرد کرشن چندر،سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی جیسے افسانہ اور ڈرامہ نگارموجود تھے۔ریڈیو ڈراموں میں جو مقبولیت دگل کو ملی کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی‘‘

(پنجاب میں اردو ڈرامے کی روایت :تفہیم و تجزیہ، ص405)

کرتار سنگھ دگل کاایک مخصوص وصف جو انھیں دوسرے ڈرامہ نگاروں سے ممیز کرتاہے وہ یہ ہے کہ ان کے چند ڈرامے مونو لوگ Monologue ہیں۔مونولوگ سے ایسے ڈرامے مراد لیے جاتے ہیں۔ جن میں صرف ایک ہی کردار ہو۔اس طرح کے ڈرامے ریڈیو کے لیے لکھے جاتے تھے اور ان کے اکثر و بیشتر ڈرامے ریڈیو کے لیے ہی لکھے گئے ہیں۔ان کے مشہور ریڈیو ڈراموں میں دیا بجھ گیا، پرانی بوتلیں،اپنی اپنی کھڑکی اور’اوپر کی منزل‘ شامل ہیں۔یہ ڈرامے پنجاب اور بیرونِ پنجاب ریڈیو کے علاوہ اسٹیج پر بھی دکھائے گئے ہیں۔ ’اوپر کی منزل‘ان کے مونولوگ ڈرامے کا بہترین نمونہ ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی خیال ان مردوں کی کہانی ہے جو اپنی بیویوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس ڈرامے کا مرکزی کردار ایک مرد ہے جو اپنی بیوی پر شک کرتا ہے۔ نمونے کے طور پراس ڈرامے کے کردار کی خودکلامی کو ملاحظہ کریں:

’’مرد:۔ (بھرائی ہوئی آواز میں )

کبھی ایسا ہوا ہے

دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے

کہ کوئی پینتیس سال کی بیوی

پھر سے عشق کرنے لگ جائے

کبھی ایسا بھی ہوا ہے

کہ کوئی تین بچوں کی ماں

کسی پرائے مرد کے لیے پاگل ہو اٹھے

کبھی کسی نے یہ بھی سنا ہے

پندرہ سال ایک چھت کے نیچے رہ کر

کوئی یوں آزاد ہو جائے‘‘

(اوپر کی منزل،ص 100-101)

انھوں نے اپنے ڈراموں کو صرف پنجابی ہی نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب اور معاشرت کے پس منظر میں بھی پیش کیاہے۔ہندوستان کے تقریباً ہر طبقے کی ترجمانی ان کے ڈراموں میں ملتی ہے۔ان کے ڈراموں کے کردار امیر،غریب،فقیر اور متوسط غرض ہر طرح کے لوگ ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک ڈرامہ’جھوٹے ٹکڑے‘ میں ایک فقیر اور رئیس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے۔

’’ایک: فقیر ( گلی میں )  بابا اللہ کے نام پر ایک ٹکڑا روٹی! میں بھوکا ہوں۔

بڑھیا: یہ کم بخت پھر آگیا۔

فقیر گاتے ہوئے

’’چڑی چونچ بھرلے گئی ندسی نہ گھٹیو نیر‘‘

بڑھیا :۔ یہ پیچھا نہیں چھوڑے گا عشو اسے کچھ دے کر ٹالو۔‘‘ (اوپر کی منزل ص270)

مکالمے ڈرامہ کی جان ہوتا ہے اور ڈرامے کی کامیابی اسی پر منحصر ہوتی ہے۔ مکالمے سے ہی کسی شخص کے ذہنی رجحان،نفسیات اور مزاج کا پتہ چلتا ہے اور یہ ڈرامہ نگار کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ اپنے کردار سے کس قسم کا مکالمہ ادا کروائے۔ دگل نے مکالمہ نویسی کے حوالے سے تمام تر باریکیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ڈرامے تحریر کیے ہیں۔ان کے اکثر و بیشتر ڈرامے ریڈیو کے لیے ہی لکھے گئے ہیںاور ریڈیو ڈرامے چونکہ بصری نہیں بلکہ سمعی ہوتے ہیں اس لیے اس کمی کو مکالموں، صوتی اثرات اور تخیل سے پورا کیا جاتا ہے۔ ان کے ڈراموں کے مکالمے، کرداروں کی انفرادیت ان کے شعور اور عمل کو ظاہر کرتے ہیں۔ موقع  ومحل کی وضاحت بھی مکالمات سے ہی ہوتی ہے۔ ان کے ڈراموں کے مکالمے عام طور پر مختصر ہیں اور جہاں کہیں طویل مکالمے ہیں انھیں چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ نمونے کے طور پر ان کے ڈرامہ ’دیا بجھ گیا‘ سے یہ طویل مکالمہ ملاحظہ کریں:

’’نوراں

بیٹا جو تیرے جی میں آئے کر

تو اس گھر کی مالکن ہے

آج میں کتنی خوش ہوں

کشمیر یہ جنت

کشمیر یہ فرشتوں کا دیش

جہاں پریاں آکر ٹہلتی ہیں

حوریں جہاں آکر سستاتی ہیں‘‘

اسی طرح تقریباً ایک سے زائد صفحے پر مشتمل یہ طویل مکالمہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں منقسم ہے۔ دگل کے مکالمے کرداروں کی آمدورفت کو ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ تخیل کی بیداری اور ریڈیو اسلوب کے لیے بہت ہی موزوں ہیں۔

کرتار سنگھ دگل کے ڈراموں کے پلاٹ مربوط اور متناسب ہیںان میں عضویاتی وحدت موجود ہے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں کے واقعات اور کرداروں کے انتخاب کرنے میں اختصار اور اہمیت کا خاص دھیان رکھا ہے۔ وہ کم سے کم وقت میں اہم واقعات اور کرداروں کو پیش کرنے کے فن سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے ڈراموں کے پلاٹ کی تینوں منازل یعنی آغاز، درمیان اور انجام سبھی صاف اور واضح ہوتے ہیں۔ دگل اپنے ڈراموں کے پلاٹ کی ترتیب و تعمیر میں انجماد اور ایجاز و اختصار سے کام لیتے تھے۔ ان کے پلاٹ اپنے اندر ایک معتدل قسم کی رومانیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے المیہ اور طربیہ دونوں قسم کے ڈرامے لکھے ہیں۔ المیہ ڈراموں کی تخلیق آسان نہیں ہوتی اس کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے اس لیے ڈرامہ نگار کے لیے یہ از حدضروری ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے اندر ایسے جذبات پیدا کرے جس سے وہ کامیاب کرداروں کی تخلیق کرسکے۔

دگل کے المیہ ڈراموں میں امانت، جھوٹے ٹکڑے، اور ’دیا بجھ گیا‘ بہت ہی کامیاب ڈرامے ہیں۔ ان کا ڈرامہ امانت ایک ایسی نوجوان لڑکی کی کہانی ہے، جو جوانی میں موت کے منھ میں چلی جاتی ہے۔مرتے وقت اس لڑکی کے جذبات ایک مکمل تصویر بن کر ہماری آنکھوں  کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس ڈرامے کا اختتام کچھ یوں ہوتا ہے۔

’’لڑکی؛ اب سن میری چھاتی کی طرف چل پڑی ہے

میرا گلا رک رہا ہے

میری آنکھوں کے سامنے جیسے تارے گھوم رہے ہیں

میری آخری سانس تک

ابّا میں جارہی ہوں

امّی میں جارہی ہوں

بھیا میں جارہی ہوں

بہنو میں جارہی ہوں

میں جا.....

لڑکی کی آواز رک جاتی ہے۔‘‘

(اوپر کی منزل ص 212)

اسی طرح ’چھوٹے ٹکڑے‘ میں بھی دگل نے ایک غریب گھرانے کا نقشہ کھینچا ہے، جس کا ایک نوجوان غربت اور فاقوں کے باوجود بھی اپنی خوداری کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔  جھوٹے ٹکڑوں کو وہ نوجوان حقارت سے دیکھتا ہے اور ملامت کرتا ہے۔مکالمے ملاحظہ کریں :

’’ باپ : تمھیں کیا ہورہا ہے

برکت : یوں خیرات دے کر سیٹھ نے ہماری غربت کا منھ چڑایا ہے

باپ : بیٹا!

برکتـ یہ تمھارے ہاتھ میں ٹارچ کیسی ہے

باپ: حبیب سیٹھ نے دی تھی

برکت ـ : چاند کی چاندنی دیکھو کیسے کھلی ہوئی ہے اور سیٹھ نے اسے ٹارچ دی ہے۔ اندھیرے سے بچنے کے لیے چوروں سے بچنے کے لیے۔ ادھر مٹھائی دیتے ہیں ادھر چوروں سے بچانے کا انتظام کراتے ہیں۔ہمارا کوئی بیری نہیں ہے۔ہمارے پاس ہے ہی کیا جو کوئی چرا لے جائے گا۔ میں ایسی مٹھائی کو ہاتھ نہیں لگاؤ ں گا۔

بڑھیا: اب لے ہی آئے ہیں تو کھا ہی لے

برکت:مجھے اس میں سے بو آتی ہے۔ میں اسے چھونے تک کو تیار نہیں۔‘‘

(ٹوکری کو فرش پر پھینک دیتا ہے۔)

(اوپر کی منزل، ص301-302)

المیہ ڈراموں میں دگل کو کافی حد تک کامیابی ملی ہے بلکہ کامیاب ہوئے ہیں لیکن طربیہ ڈرامے لکھتے وقت ان کا قلم ذرا دھیما چلتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سوچ سوچ کر اور رک رک کر لکھ رہے ہیں۔ان کے طربیہ ڈرامے رومانیت سے سرشار ہیں۔ ان کے طربیہ ڈرامے ’اپنی اپنی کھڑکی‘میں وہ ایک دوشیزہ کے جذبات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:

’’میرا: کھڑکی بڑی اور چھوٹی کیا کھڑکی میں سے تو کسی کی جھلک ہی لینی ہوتی ہے ایک نظارہ اور کوئی مدہوش ہو جاتا ہے۔ کھڑکی بڑی اور چھوٹی کیا دیکھنا یہ ہے کہ کھلتی کس طرف ہے نیلے آسمان کی جانب یا کسی بدرو کی طرف۔ کھڑکی بڑی اور چھوٹی کیاکھڑکی میں سے تو ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔محبوب کے دیس کی حسین یادیں۔‘‘

(اوپر کی منزل،ص 143)

دگل نے اپنے ڈراموں میں جہاں کہیں عورت کا کردار پیش کیا ہے وہ ہمیں صرف مشرقی عورت کے روپ میں ہی  نظرآتی ہے۔یعنی جس میں توہم پرستی بھی ہے، ایثار بھی ہے،محبت کا پیکر و مجسمہ بھی ہے اور زندگی کے نشیب و فراز سے واقف بھی ہے۔ دگل کے ڈراموںکے نسوانی کرداروں میں نوراں،راجی،میرا اورپروین وغیرہ اس کا اہم نمونہ ہیں ۔

المختصر کرتار سنکھ دگل نے اپنے ڈراموں کے ذریعے زندگی کے تمام پہلوؤ ں کی نمائندگی کی ہے۔ انھوں نے نہ صرف اردو ادب کو بہت سے ڈراموں اور کہانیوں سے نوازا ہے بلکہ پنجابی ادب کو بھی ڈھائی سو کے قریب کہانیاں عطا کی ہیں۔ ان کی تخلیقات میں انسان دوستی، اتحاد، رفاقت،نئے دور کی بشارت، وطن پرستی، سماجی شعور، ہندوستان کی معاشرت کا نقشہ اور قومی تصورات وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے فنی کارنامے ثابت کرتے ہیں کہ دنیا کی کسی بھی زبان پر کسی مخصوص طبقے اور مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔زندگی کو سنوارنے اور نکھارنے میں زبان و ادب کا ایک اہم رول ہوتا ہے۔ کرتار سنگھ دگل نے بھی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی اس کام کو انجام دیا ہے۔ بلاشبہ اردو ڈرامہ نگاری میں ان کا ایک اہم مقام ہے۔ اردو ڈرامہ نگاری بالخصوص پنجاب کی اردو ڈرامہ نگاری کے حوالے سے انھیں ہمیشہ یا د رکھا جائے گا۔ دگل کو ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم بھوشن سمیت ان گنت اعزازات اور ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔


 

Iqbal Ahmed

Research Scholar

Deptt. of Persian,Urdu & Arabic

Punjabi University

Patiala- 147002 (Punjab)

Email:oafgme9111@gmail.com

Contact  9682619937

 

 ماہنامہ اردو دنیا، جون 2021


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں