29/7/21

مراثیِ انیس میں ڈرامائی عناصر - مضمون نگار۔ جاوید حسن

 



مرثیہ ایک زمانے تک مذہبی شاعری تک محدود رہا۔ اُنیسویںصدی تک آتے آتے اس کی ایک ادبی شکل بن گئی۔ اِس سلسلے میں میر ضمیر اور میر خلیق کی خدمات سے ہر کوئی واقف ہے کہ کس طرح ان دونوں تخلیق کاروں نے اپنی ذہانت اور جودت طبع سے کئی اہم تبدیلیاں ایسی کیں جس سے مرثیے کا دامن وسیع ہوتا گیا۔ اس کے بعد میر ببر علی انیس اور مرزا سلامت علی دبیر کا نام آتا ہے جنھوں نے صنف مرثیہ کو عظمت بخشی۔ رَثائی ادب، جس میں مرثیے کو بجا طور پر  بنیادی مقام حاصل ہے،پر فی زمانہ بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ صنف مرثیہ اورانیس و دبیر پر لکھے جانے کا سلسلہ ہنوز جاری بھی ہے۔ بقول پروفیسر شارب ردولوی:

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مرثیے کو انیس جیسا ماہر فنکار،ندرت فکر،وسعت نظر،گہرا مشاہدہ،تجربہ،انسانی نفسیات سے واقفیت،اپنے سامعین کی کیفیت اور جذبات کا نباض نہ مل جاتا تو شاید مرثیہ فن کی اس معراج تک نہ پہنچ پاتا جہاں آج وہ نظر آتا ہے۔ ‘‘ 

 ہم سب جانتے ہیں کہ ڈراما اور مرثیہ بنیادی طورپر دو مختلف اصناف ہیں،لیکن میر انیس کے مرثیے کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ اس کی حدیں المیہ ڈرامے کی حدود سے جا ملتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مراثیِ انیس میں بھی وہ تمام خصوصیات اور عناصر ہمیں مل جاتے ہیں جو ڈرامے کے مخصوص عناصر شمار ہوتے ہیں۔ جیسے قصہ، کردار، مکالمہ، اورتصادم وغیرہ کے علاوہ سب سے اہم عنصرکتھارسس  یا تزکیہ نفس یا طہارت نفس جو کہ مصنف کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ اِس روشنی میں اگر ڈرامے کے عناصر اور مرثیے کی ہئیت او رعناصر کو دیکھیں تو ظاہر ہے اِن میں کوئی تعلق نہیں ملتا لیکن واقعۂ کربلا ایسا المناک سانحہ ہے جس میں رزمیہ بننے کے امکانات پوشیدہ ہیں۔

میر انیس کسی ڈرامے کی تخلیق نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ ایک حقیقی واقعے کو مختلف طریقوں سے اپنی شاعری میں بیان کر رہے تھے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مرثیہ لکھتے وقت ا گر چہ اَنیس کے سامنے ڈرامے کے عناصر نہیں تھے لیکن اُن کے مرثیوں کو پڑھتے ہوئے ہمیںیہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ تمام لوازمات جو کسی واقعے کو ایک کامیاب ڈرامے میں تبدیل کرتے ہیں، انیس کے مرثیوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پرحسینؓ کی فوجِ مخالف سے گفتگو، خاص طور پر حُر او راِبن ِسعد کے درمیان مباحثے،حضرت زینب کی عباس اور عون و محمد سے بات چیت نیز اآلِ رسولؐ کی رجز وغیرہ میں ایکشن یا حرکت کی بے شمار مثالیںہم دیکھ سکتے ہیں، جس سے انیس کے مرثیوں میں ڈرامائی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔راقم نے اس مطالعے کو ڈرامے کے دو عناصر ترکیبی یعنی کردار نگاری اور مکالمے تک محدود رکھا ہے۔

کردار نگاری کے  ضمن میں یوں تو بہت سے ایسے کردار ملتے ہیں مگرسر دست صرف ایک کردار کے بارے میں بات کرتے ہیں اور وہ بے مثال کردار ہے حضرت ِحُرکا۔ اِس سلسلے میں معروف فکشن نگار ڈاکٹرخالد جاوید اپنے ایک مضمون بعنوان ’انیس کے منظر نامے کا ایک وجودی کردار ‘ میں لکھتے ہیں :

 ’’انیس کی کردار نگاری کے جوہر بھی دَر اصل منظر نامے سے ہی کھُلتے ہیں۔ اُن کے یہاں کردار کی تشکیل،اُس کا ارتقا اور اُس کے تمام تخلیقی امکانات بیانیہ میں نہیں بلکہ منظر نامے میں نظر آتے ہیں۔ ‘‘

( رسالہ جامعہ،جلد نمبر100، جولائی- دسمبر، 2003)

میرے خیال سے یہ منظر نامہ ایک ڈرامائی کیفیت میں سمایا ہوا ہے۔ ارسطو نے یونانی المیوں کے حوالے سے کتھارسِس     ( تزکیہ نفس یا طہارت نفس) کا جو تصوّر پیش کیا تھا اُس کے مطابق المیے کا ہیرو شجاعت، بہادری، ذہانت اور حسن کا مرکز تو ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بڑے مقصد کے لیے اپنی قربانی بھی دیتا ہے۔ یوں اگر ہم دیکھیں تو تمام مرثیوں میں طہارتِ نفس کا یہ پہلو بدرجۂ اتم موجود ہے اور اُردو میں مثنوی کو چھوڑ کر دوسری ایسی کوئی صنف سخن نہیں جس میں ڈرامائی کیفیت یا ڈرامے کی حرکیات سے اتنا زیادہ کام لیا گیا ہے جتنا کہ مرثیے میں ہمیں نظر آتا ہے۔ڈاکٹر خالد جاوید اپنے مذکورہ بالا مضمون میں آگے لکھتے ہیں کہ :

’’حُر کا کردار انیس کے مرثیے کا ایک وجودی کردار نظر آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اُس عہد میں نہ صرف دوسرے مرثیہ نگار کے یہاں بلکہ کسی دوسری صنف سخن میں بھی ایسے کردار کا تصور ممکن نہ تھا۔ ... انیس کا کارنامہ یہی ہے کہ یہ مرثیہ اس کردار کے حوالے سے بہت اہم قرار پاتا ہے بلکہ یہ مذہبی اور تاریخی کردار (حُر) اُردو کی کلاسیکی شاعری کا بھی ایک نا قابلِ فراموش کردار بن جاتا ہے۔‘‘ ( رسالہ جامعہ،جلد نمبر100، جولائی-دسمبر، 2003)

 جنگ کرتے ہوئے جب حُر زخمی ہوکر زمین پر گر پڑتے ہیں تو اس وقت کا منظر اور ان کے درمیان گفتگو  ملاحظہ کیجیے         ؎

نیم وا چشم سے،حُر نے رُخِ مولا دیکھا

زیر سر، زانوئے شبّیر کا تکیہ دیکھا

مُسکرا کر،طرفِ عالمِ بالا دیکھا

شہ نے فرمایا کہ اے حُرِ جری کیا دیکھا؟

عرض کی،حُسنِ رُخِ حور نظر آتا ہے

فرش سے عرش تلک نور نظر آتا ہے

——

باغِ فردوس دکھاتا ہے مجھے اپنی بہار

صاف نہریں ہیں رواں،جھوم رہے ہیں اشجار

شاخوں سے،میری طرف بڑھتے ہیں میوے ہر بار

حوریں لاتی ہیں جواہر کے طبق بہر نثار

ہے یہ رضواں کی صدا، دھیان کدھر تیرا ہے ؟

دیکھ اَے شاہ کے مہمان! یہ گھر تیرا ہے

——

قبلہ رو کیجیے لاشہ میرا  اے قبلۂ دیں !

پڑھیے یاسین کے اب دم باز پسیں

کوچ نزدیک ہے، اے بادشہ عرش نشیں!

لیجیے، تن سے نکلتی ہے مری جانِ حزیں !

بات بھی،اب تو زباں سے نہیں کی جاتی ہے

کچھ اُڑھا دیجیے مولا! مجھے نیند آتی ہے

حُر کو ایک وجودی کردار ثابت کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد جاوید نے اپنے مضمون میں حُر کی شہادت کو ایک انفرادی موت سے تعبیر کیا ہے اور بقول ان کے دراصل یہ اپنے وجود کا عرفان ہونے کے بعد کی موت ہے جو ایک نیند کی طرح ہے، نیند جو ایک ساتھ نشاط انگیز اور اُداس ہے ’’جب چپ چاپ چادر اوڑھنے کو جی چاہے تو یہ ایک انفرادی موت ہے جس کا اجتماعی تصّور مرگ سے کوئی علاقہ نہیں ۔‘‘

کردار نگاری پر مختصر اظہار خیال کے بعد آئیے بات کرتے ہیں مکالمے کی۔ڈرامے میںکرداروں کواپنی ذات کی نمائندگی کرتے ہوئے خود اپنے افعال ومکالمات سے اپنی شخصیت کو اجاگر کرنا پڑتا ہے۔کرداروں کی نفسیات اورجذبات کونمایا ںکرکے ان کی شخصیت کوموثر بنانے میں درجہ ذیل تین صورتیں معاون ہوتی ہیں۔ (1) کسی کردار کی دوسرے کردار سے گفتگو (2)کسی کردار کے بارے میں دو کرداروں کا اظہار خیال اور(3) واقعات اور ڈرامے کی اندرونی فضا سے کرداروں کی شخصیت پرروشنی پڑنا۔کردار نگاری کے سلسلے میں وقار عظیم کا ایک قول اہمیت کا حامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ کردار کی گفتگو اور اس کی حرکات و سکنات سے جہاں ایک طرف کردار کی شخصیت اور اس شخصیت کے انفرادی پہلو ابھرتے اور اجاگر ہوتے ہیں، دوسری طرف ان ہی دو چیزوں سے ڈراما نگار اور بہت سے کام لیتا ہے۔ کردار اپنی باتوں میں اور اپنی حرکتوں سے پلاٹ کے چھپے ہوئے حصوں کی تکمیل کرتے جاتے ہیں، وہ انھیں دونوں چیزوں سے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہی دونوں چیزیں ناظر کے اس انہماک (جو ڈراما دیکھنے کی بڑی ضروری شرط ہے) اور اس کے اس اشتیاق کو جس پر اچھی کہانی کا انحصار اور دار و مدار ہے، قائم رکھنے کا سب سے موثر وسیلہ ہیں، یہی دونوں چیزیں ارتقاکی ساری منزلیں طے کرنے میں پلاٹ کی راہ نما بنتی ہیں۔ اور ان ہی کے سہارے سے اس کی ابتدائ اور اس کے نقطئہ عروج اور اس کے خاتمے میں صحیح قسم کا ربط تسلسل اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور یہی دونوں چیزیں اس مجموعی تاثر کو برقرار رکھنے کی خدمت انجام دیتی ہیں جو اچھے ڈرامے کا طرئہ امتیاز ہے‘‘۔

کسی بھی ڈرامے میںمکالمے کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ ڈرامے کا سب سے اہم جزو ہے مگر بعض دفعہ فکشن میں بھی اس سے کام لیا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مرثیہ جو کئی اصناف کی خوبی اپنے اندر سموئے ہوتا ہے، متعدد جگہ اس کی وجہ سے ایک متاثر کن فضا نظر آتی ہے جس سے واقعات کے بیان میں بھی کافی مدد ملتی ہے۔مکالمے حرکت و عمل کو قوت بخشنے اور قصّے کو آگے بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں،  ڈرامے میں مکالمے مختصر اور برجستہ ہوتے ہیں لیکن ان کے اختصار میں گہری معنویت موجود ہوتی ہے۔ ایسے مکالمے ڈرامے کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں پروفیسرمحمد حسن اپنی کتاب ’ادبیات شناسی‘ میں لکھتے ہیں:

’’مکالمے تین صورتوں سے خالی نہیں ہوتے اور اگر وہ ان تینوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ کرتے ہوں تو ڈرامے میں ان کی گنجائش نہیں۔یا تو مکالمہ کہانی کو آگے بڑھاتا ہو۔ یا کردار کے کسی پہلو کو واضح اور اس میں تبدیلی یا ارتقا ظاہر کرتا ہو یا فضا پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہو۔‘‘ 

 مکالمے ڈرامے کی جان ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے مکالمے لکھتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ مکالمہ نگاری بے جان اور بے اثر ہو جاتی ہے: مثلاً مشکل زبان اور اُلجھے ہوئے فقرے، بے موقع اور بے ربط اور ایسا اسلوب و ادا جو کردار اور ماحول کے لیے مناسب نہیں ہوتے مکالمے کے لیے معیوب سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح طویل فقرے اور جا بجا واعظانہ پند و نصیحت کا انداز یا خو دکلامی کی بہتات یا طویل خود کلامی وغیرہ بھی مکالمے میں عیب کا باعث ہوتی ہیں۔ اس کے بر عکس مناسب و موزوں نیز سلیس و فصیح زبان کا استعمال; برمحل، برجستہ، اور چست فقرے جو سلاست اور فصاحت کے آئینہ دار ہوں اور سادہ و مختصر گفتگو جو عام فہم ہونے کے ساتھ موقع ومحل کے لحاظ سے مناسب ادائیگی کے قابل ہوں مکالمے میں حسن پیدا کرتی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ مراثیِ انیس میں بے شمار ایسے موثر مکالمے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر میر انیس کے مرثیوں کے چند بند ملاحظہ کیجیے     ؎

اُٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار

ڈیوڑھی تک آئے،ڈھالوں کو روکے رفیق و یار

فرمایا مُڑ کے، چلتے ہیں اَب بہرِ کارزار

کمریں کسو جہاد پہ، منگوائو راہوار

دیکھیں فضا بہشت کی،دل باغ باغ ہو

اُمّت کے کام سے،کہیں جلدی فراغ ہو

——

بولے قریب جا کے،شہ آسماں جناب

مضطر نہ ہو، دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب

مغرور ہیں،خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب

خود جا کے دکھاتا ہوں اِن سب کو رہِ صواب

موقع نہیں بہن، ابھی فریاد و آہ کا

لائو تبرّکات، رِسالت پناہ کا

بی بی زینب کی عون و محمد سے گفتگو کا ایک انوکھا انداز ملاحظہ کیجیے          ؎

کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم

آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم

کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا؟

اماّں ! کسے ملے گا عَلَم نا نا جان کا ؟

——

زینب نے تب کہا،کہ تُمھیں اِس سے کیا ہے کام ؟

کیا دخل مُجھ کو ؟ مالک و مختار ہیں امام

دیکھو نہ کیجو بے اَدَبانہ کوئی کلام!

بگڑوں گی میں،جو لوگے زباں سے علم کا نام

لو جائو بس کھڑے ہو الگ،ہاتھ جوڑ کے

کیوں آئے تُم یہاں  علی اکبر کو چھوڑ کے

——

سر کو،ہٹو،بڑھو،نہ کھڑے ہو عَلَم کے پاس

ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں،شاہِ فلک اَساس

کھوتے ہو اور،آئے ہوئے تُم مرے حواس

بس !قابلِ قبول نہیں ہے یہ التماس

رونے لگوگے پھر، جو برا یا بھلا کہوں

اس ضد کو بچپنے کے سوا اور کیا کہوں؟

 مراثی انیس کے مذکورہ بالا مختلف بند میں جو مکالمے پیش کیے گئے اسے مکالمہ نگاری کی بہترین مثال قرار دی جا سکتی ہے۔ مکالمے کے ساتھ ساتھ انیس کے بیشتر مرثیوں میں منظر نگاری کی بھی بہت عمدہ مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً جنگ کے روزوہاں کے حالات کا نقشہ کس طرح کھینچا گیا ہے،اس بند میں ملاحظہ کیجیے          ؎

گرمی کا روزِجنگ کی، کیوں کر کروں بیاں؟

ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں

وہ لُوں کہ الحذر،وہ حرارت کہ الاماں

رن کی زمیں تو سرخ تھی،اور زرد آسماں

آب خنک کو خلق، ترستی تھی خاک پر

گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مراثیِ انیس میںڈرامے کے بہت سے عناصر مشترک ہیں۔ اخیر میں پروفیسر شارب ردولوی صاحب کی بات پرمیں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں کہ ’’ رثائی ادب بالخصوص منظوم رثائی ادب جو ہمارے ادب کا بڑا وقیع حصہ ہے وہ سمٹتا جا رہا ہے۔ رِثائی ادب کی تخلیق ہو یا فروغ دونوں کا معاملہ زبان کی تعلیم اور اصناف میں اس کی تدریس سے وا بستہ ہے جس کی طرف توجہ زبان اور رِثائی ادب دونوں کے تحفظ کی ضمانت ہوگی۔‘‘

 

Dr. Jawaid Hassan

Guest Teacher, Department of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

Mob.: 9718483089

 

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2021 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں