29/7/21

اردو ادب و صحافت کے امام: افتخار امام صدیقی- مضمون نگار۔ شمع اختر کاظمی




 ماضی سے عہد حاضر تک اردو کے بے شمارادبی و نیم ادبی رسائل و جرائد شائع ہوئے لیکن تجزیہ نگاروں اور علم و ادب کے پارکھیوں نے پہلے آگرہ اور پھر ممبئی سے نکلنے والا رسالہ ماہنامہ ’شاعر‘ کو ادبی رسالوں کا سرتاج ہی نہیں قافلۂ سالارکہا۔ ’شاعر‘ کو یہ افتخار حاصل ہے کہ ہر دور میں اسے ممتاز و مقتدر اہل قلم کا تعاون حاصل رہا، بلکہ اردو ادب کے قابل قدر قلم کاروں نے اپنی تخلیقات کے شاعر میں شائع ہونے پر فخر محسوس کیا۔ 

شاعر کے تاحال ایڈیٹر افتخار امام احمد صدیقی 16 ستمبر 1947کو آگرہ میں پیدا ہوئے اور طویل علالت کے بعد 4 اپریل 2021 کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ وہ ایک ایسے گھرانے کے چشم و چراغ تھے جو نہ صرف شعر و ادب کا شیدائی بلکہ شعرا و ادبا کا قدردان، منکسرالمزاج، مہمان نواز اور انتہائی مہذب بھی ہے۔ اپنے والد محترم اعجاز صدیقی کی رحلت کے بعد تاجدار احتشام صدیقی کے ایما پر رسالہ شاعر کی باگ ڈور افتخار امام صدیقی نے سنبھالی۔غالباً یہ مارچ 1978 کا زمانہ تھا۔ ادبی رسالے کے مسائل اور اس کا کرب ان پر ظاہر تھا پھر بھی اپنے اسلاف کی ادبی وراثت کو زندہ رکھنے کی خاطر بہت ساری قربانیاں دیں۔ شاعر جیسے تاریخ ساز رسالے کو ایک تاریخی تسلسل سے ہم کنار رکھا۔ خرابیِ صحت کے باوجود اردو زبان کے کسی رسالے یا مجلے کی طویل مدتی اشاعت، ادبی صحافت کے چٹیل میدان میں لالہ و گل کھلانے کے مترادف ہے۔ 

ایک متحرک و متنوع شخصیت کا نام افتخار امام صدیقی تھا جن کی ذات بہت سارے اوصاف کی جامع خوبیوں کی حامل تھی۔ صحافتی، علمی، ادبی ہر میدان میں ایک انفرادی مقام رکھتے تھے۔ باکمال شاعر و صحافی ہی نہیں باوصف انسان بھی تھے۔ جن کا ذہن و قلم ہمہ دم تروتازہ رہا۔ وہ اپنی فطری ذہانت کے ساتھ اپنے چاہنے والوں پر خلوص پسند مشوروں کے لعل و گہر لٹاتے۔ شاعری ‘ ادب و صحافت کی روشنائی سے انسانیت کی راہ اجالنے والے افتخار امام جنھیں رب العالمین نے کمال خوبیوں سے نوازا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی برسوں کنج تنہائی میں گزاردی، جس گھر میں شعور کی آنکھیں کھولی وہاں ہر طرف شعرو سخن کے چرچے تھے، شعرا و ادبا کی آمدورفت تھی، ادبی محفلوں کی دھوم اور طبیعت میں خداداد شعری صلاحیت تھی، یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ممبئی اور پھر عالمی مشاعرے کے ایک مقبول ترین غزل گو شاعروں کی صف میں شمار کیے جانے لگے۔ ان کے کلام میں غیر صالح خیالات و جذبات کا کہیں گذر نہیں۔ قربان جایئے کہ بڑھتی ہوئی عمر اور نقاہت کے باوجود تخلیقی قوتوں میں کوئی فرق پڑا نہ یادداشت میں بلکہ حافظہ غضب کا رہا۔ شاعری ذاتی تجربات و ذہنی کیفیات کی دین رہی وہ عالمگیر سطح پر عام انسانوں کے مسائل اور مقتدر جماعت کے کارناموں سے بھی واقف تھے        ؎

ایسا نہ ہو کہ خواب ہی ہوجائے آدمی 

آبادیوں میں پھیلتے جنگل کو روکیے

جب افکار کے دریچے کھلتے تو لفظیات کی تلاش اور جملوں کے دروبست انھیں حیران نہیں کرتے۔ نئے اچھوتے لفظ اور جملے خلق کرتے۔ ایسی ایک دنیا ان کے سوچ کینوس میں آباد تھی اس کا بھلا مشاہدہ رسالہ شاعر کے ہر شمارے میں کیا جاسکتا ہے۔ کسی فنکار، انشا پرداز کی شخصیت و کردار اور اس کے کارناموں کا اختصار نویسی کے ساتھ لفظوں کی جادوبیانی سے ایسا مرقع تراشتے کہ قلم کار پردۂ خفا سے کاغذ پر اترآتا۔ محسوس یہ ہوتا گویا چند جملوں میں تخلیق کار کو اس کی فنی خوبیوں اور کارناموں کے حوالے سے قاری کے روبرو کردیا گیا ہو۔ ایسی تحریری تصویر کشی سے ان کے باریک بین، گوہر شناس اور بصیرت افروز نقدو نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ 

افتخار امام صدیقی کی طبیعت میں کمال بے نیازی کا غرّہ تھا۔ تمکین و تمکنت کے جذبے سے نہاں حلم و انکساری بھی دامن گیر تھی لیکن مزاج میں نہ خودسری اور نہ درشتی تھی وہ پرخلوص، مشفقانہ احترام کے جذبے سے نہال تھے۔ کرب تھا تو برسوں کی بے کراں تنہائی کا، وہ ہمیشہ رجائیت پسند رہے۔ ہزارہا کرب آزار و تنہائی کے نئے چراغوں کی باتی بڑھاتے، ان کے ظاہر و باطن میں کوئی فرق نہ تھا۔ نیک طینت، شریف النفس، خوش فکری اور نرم خوئی ان کے کردار و افکار کو اونچا بناتی تھی۔ کبھی کبھی گفتگو کے دوران خاموشی کا لمحہ طویل ہوجاتا یہ بیماری کا تقاضہ تھا یا فطرت کا خاصہ، پتہ نہیں۔ یہ فرض کفایہ مانی بھائی (ناظر نعمان صدیقی) ادا کرتے۔ ایک محفل پسند شاعر کی ایسی اتھاہ خاموشی میں پنہاں صبر ان کے کرب کو سمجھنے پر دلالت کرتا ہے۔ وہ علم و ادب کے سفیر تھے۔ اپنا کرب اپنے سینے میں سمیٹے ادب کے قاری کو ادب فہمی اور ادب نوازی کے ہزارہا طریقے بتاتے رہے۔ زندگی میں ماندگی کے کئی موڑ آئے مگر مثبت انداز فکر اورحوصلے سے سب کا رخ موڑ دیا۔ حادثے انھیں آزماتے رہے اور عارضے اپنا شکار بناتے رہے۔ یہاں تک کہ بصارت اور سماعت تھک گئیں۔ مطالعے کی خاطر بلوری شیشے کا سہارا لیتے، جسم کی ہڈیاں خستہ جاں ہوچکی تھیں۔ ہمہ وقت بھائی مانی سائے کی طرح ساتھ رہتے۔ بقول مانی بھائی۔ ’’ ہم تو اب زرد پتہ ہیں کب جھڑ جائیں پتہ نہیں، مگر یا اللہ مجھے افتخار کے بعد اٹھانا میرے بعد ان کا کیا ہوگا...؟ یہ ایک بھائی کی اپنے بھائی کے لیے ایسی دردمندی کہ جس میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر پنہاں تھا۔ اپنا گھربار، بیوی بچے، کہیں آنا جانا وہ سب کچھ بھائی افتخار کی دیکھ ریکھ پر قربان کر بیٹھے تھے۔ 

افتخار امام صدیقی نے اپنی معذوری کو ہمیشہ مثبت انداز میں قبول کیا۔ کبھی شکوہ سنج نہ رہے۔ برسوں گوشہ نشینی کا کرب جھیلا پھر بھی انسان دوستی کا فریضہ ادا کیا۔ ٹرین حادثے میں زخمی ہوئے اور پھر لگاتار کوئی نہ کوئی افتاد انھیں آزماتی رہی۔دو دہائیوں سے زائد عرصہ وہ صاحب فراش رہے۔ پے در پے عارضے کا حملہ مگر واللہ کیا ذات رب پر توکل کامل، ہمہ وقت ان کا دماغ منصوبے ترتیب دیتا، جدت پسندی شاعر کے ہر شمارے میں دیکھی جاسکتی تھی۔ ادبی اختراع اور یادداشت کی درستگی پر سخت حیرت کہ اس لاغر و ناتواں جسم کا دماغ اتنا توانا... آخر یہ ناتواں جسم کس قدر بوجھ برداشت کرتا، حافظہ اور حوصلہ جسم و جاں سے مطابقت بھی نہیں رکھتے تھے۔ اپنے ایک شعر میں انھوں نے درست ہی کہا        ؎

کون ہے کس کی دعاؤں کی چھاؤں میں

چل رہی ہے سانس تلواروں کے بیچ

مرحوم کی حمدونعت، سلام و منقبت جیسی تقدیسی شاعری اپنی پوری تابانی کے ساتھ دین فطرت سے مستعار نظر آتی ہے۔ حتی کہ نظموں اور غزلوں میں بھی ان کے پاکیزہ خیالات، معاشرے و سماج کی فکرمندی، انسانیت و اقدار کے زوال کا درد اور فطرت کا عکس ان میں نظر آتا ہے۔ انھوں نے امریکہ، کینیڈا، لندن، پاکستان اور خلیجی ممالک کے مشاعروں میں شرکت کی۔ ان کے دو شعری مجموعے ’چاند غزل‘ اور ’یہ شاعری نہیں ہے‘ زیر ترتیب تھے۔ حمد اور نعت کی بھی دو کتابیں ترتیب دے چکے تھے۔ افتخار صاحب کی غزلوں کو اپنی آواز سے سجانے والوں میں چترا سنگھ، جگجیت سنگھ، چندن داس، پنکج اداس اور سدھا ملہوترا ہیں۔ 

مستقل علالت اور کمزوری کے باوجود وہ بستر ہی سے ماہنامہ شاعر کی ادارتی ذمے داری کو ادا کررہے تھے۔ شاعر کے متعدد خصوصی شمارے شائع ہوئے جس نے ادبی رسالوں میں اپنی منفرد پہچان بنائی۔ اردو کی نئی بستیوں کے قلم کاروں کو متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ زندگی کے آخری ایام تک تقریباً سو قلم کاروں سے تحریری انٹرویو لیے، باصلاحیت خواتین کی ادب کی راہ تک رہنمائی کی اور شاعر کے صفحات ان کے اعتراف ذات میں پیش کیے۔ شاعر ان کی ادارت میں مارچ 1978 سے تاحال بلاناغہ اسی آن بان اور شان سے جاری ہے جس طرح ان کے والد مرحوم اعجاز صدیقی اور دادا سیماب اکبرآبادی نے جاری رکھا تھا۔ رسالہ شاعر کا طرۂ امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں خالص ادبی و لسانی مواد کو زیربحث لایا جاتا ہے۔ ادبی نظریات، ترجیحات و تبادلۂ خیال ترسیل کا ذریعہ بنتے ہیں جو اپنے عہد کے لسانی رجحانات اور افکار و مزاج کا عکاس ہوتے ہیں۔ 

شاعر کے ایک قدیم شمارے میں کائنات، آدمی، نظریہ اور زندگی کے عنوان سے تحریر کردہ اداریے اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ نثرنگاری کے فن میں بھی انہیں مہارت حاصل تھی۔ ایک خودساختہ مشن کے ذریعے نئے قلم کاروں کو دعوت فکر دیتے رہے ہیں۔ شاعر کے اداریے میں وہ لکھتے ہیں۔

’’سوال یہ ہے کہ کیا نظریے کے بغیر ادب تخلیق نہیں ہوسکتا...؟ سوال یہ بھی ہے کہ نظریے کے بغیر زندگی بسر کی جاسکتی ہے کہ نہیں...؟ مگر میں فکرمندہوں نئی نسل کے لیے جو ترقی پسندی یا جدیدیت کے الجھاؤ میں پڑے بغیر ادب تخلیق کرنا چاہتی ہے یا ادب تخلیق کررہی ہے۔ دراصل نظریہ یا رجحان جو بھی کہہ لیں، اس نے قلم کار اور قاری دونوں ہی کا مزاج خراب کردیا ہے۔ ترقی پسندوں نے اپنا ادب اور جدیدیوں نے اپنا ادب دونوں ہی نے انتہا پسندی کی بھی انتہا کردی۔ نظریہ مذہبی ہو یا مادی، نظریہ ساز بھول جاتے ہیں کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ نا ابتدا کی خبر ہے نا انتہا معلوم سانسوں کا شور اور اپنے ہونے کا تھوڑا بہت ادراک اور اپنے آس پاس کو ٹھیک ٹھاک رکھنے کی خواہش اور خواہش کی تعمیر، ارتقا پذیر دنیا میں کوئی بھی آئیڈیا لوجی بہت دور تک نہیں جاتی، اپنا اچھا برا کردار ادا کرتی ہے، یا تو ختم ہوجاتی ہے یا پھر شکل بدل لیتی ہے۔ شب و روز کے تسلسل میں چلتے پھرتے آدمی کی بنیادی جبلتیں مر تو نہیں گئیں۔ ایک دوسرے سے خوفزدہ آدمی سرحد وںسے باہر کب آیا ہے...؟ ہاں اتنا شائستہ ضرور ہوگیا ہے کہ بہت پہلے پتھروں سے اپنا دفاع کرتا تھا۔بیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے اس نے جدید مہلک ہتھیار بنالیے ہیں۔ آدمی کے بنیادی مسائل اپنی جگہ ہیں اور اس کی ساری تگ و دَو اسی کے لیے ہیں۔ کوئی پل کوئی لمحہ ایسا نہیں جس نے آدمی کو اپنی بنیادی ضرورتوں سے بے نیاز کردیا ہو۔ طاقت، اقتدار اور تحفظ کسی بھی نظریے کا تصور اور نفاذ ان کے بغیر ممکن نہیں۔ نظریوں کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کسی بھی نظریے کے اچھے برے اثرات تو مرتب ہوتے ہیں، کسی عالمی سماج کی تشکیل و تعمیر کا خواب دیکھنے کی عملی صورتوں میں اختلاف بھی شامل ہوتا رہتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اس کی نفسیاتی و جمالیاتی سطحیں بھی اپنا دفاع کرتی رہتی ہیں۔ 

اردو میں نقاد و دانشور یہ تو بتارہے ہیں کہ عالمی سطح پر جدید فکری صورت حال کیا ہے۔ سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی سطح پر نظریوں کو اب کس طرح دیکھا جارہا ہے۔ وہ باخبر تو ہیں اور بضد بھی کہ جو اطلاعات وہ فراہم کررہے ہیں انہیں تسلیم کیا جائے۔ لیکن چونکہ ان کا اپنا کوئی فکری نظام نہیں ہے۔ لہٰذا نئی نسل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسے اب بھی ترقی پسند نظریے کے تحت اپنا ادب تخلیق کرنا ہے یا پھر جدیدیت یا مابعد جدیدیت کے رجحان کو اپناتے ہوئے اپنا تخلیقی نظام قائم کرنا ہے۔ مگر ایک تیسری صورتحال بھی ابھر رہی ہے۔ (تیسری دنیا نہیں) اور وہ یہ کہ بغیر کسی نظریاتی وابستگی کے آزادانہ طور پر ادب تخلیق کیا جائے۔ تمام نظریوں کی کسی مشترک فکری اساس کے بغیر۔

تخلیقی ذہن، نظریوں کا پابند نہیں ہوتا،  اگر وہ بڑا اور سچا فن کار ہے تو اپنا نظریہ خود پیش کرتا ہے۔ وہ نظریوں سے سچ کو اخذ کرتا ہے اور اسی کا آزادانہ اظہار کرتا ہے۔ خاموشی کو لفظ دیتا ہے، لفظوں میں اپنی آواز رکھتا اور یہ آواز سفر کرتی ہے۔ اس آواز کی روح جتنی توانا ہوگی، آواز باقی رہے گی، روشن رہے گی، عہد بہ عہد سفر کرے گی اور ہر عہد کو منور کرے گی۔ 

فن کار چاہے جس آئیڈیا لوجی سے وابستہ ہو اسے سچ بولنا ہے‘ سچ لکھنا ہے وہ اپنے فکری رویوں سے فن پارے کو جیتا ہے اور اجتماعی آئیڈیالوجی کو سنوارتا ہے‘ نا کہ نظریے کا مبلغ بن جاتا ہے۔ اردو میں مبلغ و مقلد بہت ہوئے ہیں مگر جنوئن یا جئنیس فنکاروں کی کمی رہی ہے۔ سچا فنکار قطعی آزاد مزاج ہوتا ہے وہ کہیں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا کھلی آنکھوں اور کشادہ ذہن سے دیکھتا اور سوچتا ہے۔ اپنے آپ میں جذب کرتا رہتا ہے۔ ہم عصر اردو ادب میں فلسفۂ جمالیات اور تنقید کے دبستانوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن تخلیقی ذہن بہرحال ان دبستانوں میں قید نہیں ہوتا وہ ان میں رچ بس جاتا ہے اور پھر ان سے ابھر جاتا ہے۔ ساری کوششیں اسی کے لیے ہونی چاہئیں جو عموماً ہوتی نہیں ہیں۔ کیونکہ نئے قلم کاروں کو گمراہ کرنے والی تنقیدی تحریریں اپنا کام بھی کرتی رہتی ہیں۔ آج بھی یہی ہورہا ہے۔ 

مگر نئے قلم کاروں کو نہ صرف یہ کہ اپنے عہد کو پوری طرح محسوس کرنا ہے بلکہ آنے والے زمانوں کی دھمک کو بھی سننے کی سعی پیہم کرنا ہے۔ نظریہ چاہے سیاسی ہو سماجی یا مذہبی، انتہاپسندی سے بچتے ہوئے اس سے استفادہ کرنے اور ادب و فنون میں اس کے مناسب نفوذ کا شعور پیدا کرنا چاہیے۔ میں مذہب کو برا نہیں سمجھتا مگر ان کے خلاف ہوں جو مذہب کی گفتگو کرنے والوں کو بنیاد پرست کہتے ہیں۔ نظریوں کی زندگی یا موت کی بحث میں مذہب زیر بحث آنا چاہیے مگر وہ مذہب نہیں جو سیاسی ہو۔‘‘

افتخار امام صدیقی کی مقبولیت اور عظمت کا راز دراصل ان کی صلاحیتوں اور بے پایاں فکر و فن میں پوشیدہ ہے۔ گو کہ وہ ایک منفرد لب و لہجے کے جدت پسند شاعر تھے لیکن انھیں اداریہ نگاری میں یدطولیٰ حاصل تھا۔ اردو میں اداریہ نگاری کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہ مشکل فن ایک بیدار متنوع ذہن چاہتا ہے۔ اداریے کے مطالعے سے حالات حاضرہ سے لے کر ادب، تاریخ، فلسفہ، طنز و مزاح سب کچھ صحافی کے قلم کی زد پر رہتا ہے اور جن کے پاس بے پناہ مدیرانہ صلاحیتیں، ادب و شاعری تینوں جوہر موجود ہوں تو ان کی زبان اور ذہن میں خلاقانہ شان پیدا ہوجاتی ہے تب اداریہ دل و دماغ کی تربیت کا فریضہ ادا کرتا ہے، ادبی مسائل کی گرہ کشائی کرتا ہے ادب کے کھوکھلے پن کو اجاگر کرتا ہے اور ادب کی صالح اور دیرپا قدروں کے فروغ میں حصہ لیتا ہے۔ رسائل و جرائد کے اداریے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ کن قدروں کا پاس دار ہے۔ اس کا مزاج کیسا ہے۔ افتخار امام صدیقی کے اداریے ہمیشہ منفرد، نئے موضوعات و ادبی مسائل پر اپنا اشارتاً نہیں بلکہ واضح طور پر اپنا مدعا بیان کرتے، کسی خاص نظریے اور موضوع کے تحت تحریر کیے جانے والے اداریے عصری حسیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ انھوں نے مدیرانہ، مدبرانہ اور شاعرانہ زبان میں بسا اوقات حق اداریہ ادا کیا۔ مختصر اور جامع اداریے بھی تحریر کیے مگر اپنی اثرپذیری سے ایک جہاں کو متاثر کیا۔ ان کی تحریروں میں الفاظ اور جملے بھرتی کے نہیں ہوتے بلکہ ہر لفظ اور جملے سے معنی کا ایک جہاں ابھرتا تھا۔ ادب، جمالیات اور صحافت سے متعلق اپنا واضح نظریہ ’افتخار‘ رکھنے والے ’امام‘ نے ادب اور ادبی صحافت کی خدمت کو اپنا وظیفۂ حیات بنالیا تھا۔ رسالہ ’شاعر‘ کے اداریے کے ذریعے انھوں نے میدان ادب میں فرمانروائے فکر و فن کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ اپنی بات کو نئی سوچ، نئے رنگ، نئے احساس، نئی زبان، نئی لفظیات اور نئے جملوں کے قالب میں ڈھال کرقاری کو نئی طرز تحریر سے آشنا ہی نہیں کیا بلکہ نئی اسلوبی راہیں بھی دریافت کیں۔ انھوں نے اعترافی ادب میں بھی اسی جدت طبع سے کام لیا۔ اداریہ نگاری ایسا بحرذ خار کہ اچھے اچھوں کو اس میں ڈوبتے دیکھا گیا۔ اس کی تھاہ پالینا سب کے بس کی بات نہیں۔ 

زبان ویسے بھی تغیر بذیر شئے ہے اور اردو زبان تو بہت سے چولے بدل کر ہم تک پہنچی ہے۔ یہ کسی کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں، یہ خود ساختہ زبان و زماں، ذہنوں ذہن سفر کرتی سوچ کو لفظ عطا کرتی، مزدور، کاریگر، صنعت کار، فنکار اور تخلیق کاروںکے الفاظ، سوچ فکر، خودداری اور خود اعتمادی کے ساتھ مسکراکر سب کو اپنا محبوب بناکر اور اپنا نیا روپ دکھا کرآگے بڑھ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں صدی سے جاری ہے۔ کچھ جگمگاتے، حیرت زدہ کرتے، سنہرے الفاظ کے جادو کی چھڑی اپنے دیوانوں کو سونپ کر کہیں اور نکل جاتی ہے۔ جدیدلفظوں کی یہ شہزادی ہر دور میں آتی رہی ہے اور آئے گی۔ 

افتخار امام نے نصف صدی سے زائد عرصے تک کاروان ادب و صحافت کی سالاری کی، تہذیب و ثقافت کے دیے روشن کیے ان کی واحد دلچسپی ادب، ادبیات اور ادبی صحافت سے تھی۔ محبت اور جاںنثاری کے جس شعبے سے وہ اٹھتے تھے وہ ان کی پسندیدہ اور تخلیق کردہ تھی۔ اخباری صحافت کی بنسبت ادبی صحافت کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔  چونکہ ادبی رسائل سیاست دانوں کے بیان اور تقریر نہیں چھاپتے نہ تبصرے کرتے نہ تصویر شائع کرتے ہیں۔ وہ سیاسی پارٹیوں کے اتار چڑھاؤ اور ابن آدم کے خرید و فروخت کے دام تک نہیں بتاسکتے۔، کسی معجون اعظم، قرص مقوی کے اشتہار ہوں یا ضرورت رشتہ کا اشتہار وہ شائع نہیں کرتے۔ اپنی پوری توجہ، زبان و ادب، لسانیات، ادبی مسائل، ادبی شخصیات، اجرا و وفات پر رکھتے ہیں۔ یہ ایسا جرم کہ جس کی وجہ سے ان کا حلقۂ اشاعت، تعداد اشاعت دونوں متاثر و محدود ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی طباعت کے مصارف، اشاعت کی مشکلات، کاغذ کی فراہمی، سرکیولیشن کا مسئلہ مسلسل سر پر سوار رہتا ہے۔ وزیروں، سفیروں اور سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کو ان سے کوئی نسبت بھی نہیں ہوتی۔ ان کی نظر کرم ایسے خشک رسالوں تک بھلا کیوں پڑے...؟ اس پر افتاد یہ کہ ادبی رسائل اپنے معیار و وقار کے دائرے میں محبوس اور زرآمد کے ذرائع مفقود۔ رسالے کا وقت پر شائع ہونا ہی بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایسے مسائل سے اکیلے شخص کا گزر نا پل صراط طے کرنے کے برابر ہوتا ہے جس کا اعتراف افتخار صاحب نے برجستہ اپنے اداریے میں بارہا کیا تھا۔ تمام اخراجات کا بار ان کے نوک قلم پر ٹکا ہوا تھا۔ ساتھ ہی زندگی کی ضروریات، مسائل اور شکم کے تقاضے بھی تھے۔ اپنی ذہانت اور جدوجہد سے رسالہ شاعر کو بلندی تک پہنچایا۔ ایک خوددار، آزردہ اور خلوت انجمن پسند انسان، صحافت کے کالے بازار میں معاش اور ادب کی خاطر یرقانیت کے کاروبار کا جھولا لٹکائے برسوں کھڑا رہا مگر اس کے ہاتھ اور کردار ہمیشہ اجلے رہے۔ وہ دنیا سے چلا گیا۔ اپنے پیچھے مال و زر نہیں عزت و افتخار چھوڑگیا۔ 

ایک دین دار، متقی، پرہیزگار، نیک طنیت انسان جن کی فطرت میں انکساری اور متحمل مزاجی رچی بسی تھی، شاعروں، ادیبوں اور تخلیقی فن کاروں کی قدر و منزلت کرنے والے افتخار امام جیسے محسن اردو کی غیر معمولی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کسی کی موت کے بعد ان کے حوالے سے ہم سب بارہا باتیں کرتے ہیں۔ موت نے کیسے کیسے باغ و بہار شخص سے ہمیں محروم کردیا جن کا ہم احترام کرتے ہیں۔ ان کے لیے تعزیتی کالم لکھنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔ 

شاعر خاندان نے جس طرح مصائب و افتاد کا سامنا کیا اور ثابت قدم رہے۔ نامساعد حالات کے باوجود ثابت قدمی کی بنیاد بیگم اعجاز صدیقی رہیں۔ محترمہ نسیم بانو اعجاز صدیقی دراصل حالات کے مارے اس خاندان کی سب سے بڑی طاقت و قوت تھیں۔ ماہنامہ شاعراور شاعر خانوادے کو ایک برانڈ بنادیا۔ اس کی حرمت اور دائمیت کو قائم رکھنے میں محترمہ نسیم بانو اعجاز صدیقی کا کردار اہم ہی نہیں اساسی نوعیت کا حامل بھی ہے۔ 

افتخار امام صدیقی نے جس گھرانے میں آنکھیں کھولی، بچپن گزرا، وہاں خونی رشتوں کا ہی نہیںبغرض ملاقات آنے والوں کا بھی احترام کیا جاتا، ادبا و شعرا کا خیرمقدم ہوتا، آگرہ سے ممبئی تک ہر دور میں زبان و ادب سے وابستہ خواتین بصد شوق ملاقات کو جاتیں تو خانوادۂ سیماب کی مستورات ان کی خوب پذیرائی اور خاطر مدارت کرتیں۔ ایک ملاقات کے دوران افتخار صاحب نے بتایا کہ 

’’ہمارے بچپن کے زمانے میں مہنگائی ایسی نہ تھی لوگ بڑے مخلص تھے۔ کوئی تخلیق کار خاتون ہمارے گھر ملنے آتیں تو گھر کی عورتیں انہیں گھیر لیتی، خوب خاطر ہوتی، ہماری دادی جان ان کی آمدورفت کے اخراجات اور جوڑے انہیں دیتیں، ہتھیلی پر کچھ نذرانے بڑے شوق سے رکھتیں اور پھر کسی قریبی رشتے سے وابستگی باندھ لیتیں اور ہمیشہ اسی رشتے سے ان کا ناطہ جڑ جاتا۔ یہ ہمارے ادبی خاندان کی تہذیبی روایت رہی ہے۔۔۔‘‘

آج ایک خوش خلق اور مشفق شخصیت ہماری نگاہوں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگئی۔ افتخار صاحب کی موت ایک بڑا ادبی خسارہ ہے۔ جس کا ازالہ تقریباً ناممکن ہے ان کی مقبولیت اور شہرت کو سرحدوں میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ماہنامہ شاعر جو عنقریب اپنی اشاعت کے سو سال مکمل کرلے گا۔ بلاشبہ افتخار امام صدیقی اردو کی ادبی صحافت کا افتخار تھے۔ افسوس کہ ادب کے اس ’’امام‘‘ کی آواز ہمیشہ کے لیے بے صدا ہوگئی۔ 

پتہ نہیں پہلے پہل میں نے انھیں بھائی کب کہا یا انھوں نے مجھے بہن کا درجہ دیا لیکن اس مقدس رشتے کا تمام حسن انہوں نے قائم رکھا۔ ہمیشہ میرے ساتھ ان کا برتاؤ ایک محترم بھائی کے خلوص کی صداقت کا مظہر رہا۔ وہ سراپا مہر و مروت رہے۔ اردو ادب و صحافت سے محبت اور رشتوں کی نگہبانی کرنے والے میرے محترم بھائی میں بڑی خوبیاں تھیں         ؎

درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے 

سب دھواں ہوجائے گا ‘ ایک واقعہ رہ جائے گا


Shama Akhtar Kazmi

12/14, Sai Nagar, 

Gaibi Nagar, 

Bhiwandi - 421302 (M.S.)

Mob.: 9284690949





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں