18/8/21

عالمگیریت اور تعلیم: باہمی رشتے اور اثرات - مضمون نگار: آفتاب عالم

 



عالمگیریت ایک ایسا حقیقی اور لا محدود عمل ہے جس نے اس دنیا میں موجود ہر شخص اورہر فرد یہاں تک کہ دنیاکے مادّ ی اور غیر مادّ ی دونوں طرح کی اشیا کوغیر معمولی طور پر متاثر کیا ہے۔ عالمگیریت اکیسوی صدی کے زبان زد الفاظ میں سے ایک ہے جس کے لغوی معنی ـ ’دنیا میں پھیل جانا‘ اور ’دنیا پر چھاجانا‘ہے۔ اس نے دنیا کے تمام ممالک کی جغرافیائی سرحدوں کو کمزور کردیااور علاقائی و ملکی معیشت کو ایک عالمی معیشت سے صرف مضبوطی سے جوڑا ہی نہیں بلکہ ان کے مابین موجود آپسی پابندیوں کو بھی تقریباً ختم کردیاہے۔ عالمگیریت نے زندگی کے ہر زاویے اور میدان میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ دنیا کا کوئی شعبہ، کوئی ملک اور زندگی کا کوئی پہلو عالمگیریت کے اثر سے بچ نہیں سکا اور یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ پھر ایسے حالات میں شعبہ تعلیم اور تعلیمی عمل کیسے عالمگیریت کے اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ درحقیقت تعلیم اور عالمگیریت دونوں میں ایک مضبوط رشتہ ہے۔ دونو ں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی رشتہ رکھتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ دونو ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔  عالمگیر یت اب حقِ انتخاب نہیں بلکہ زندگی کا ایک جزوِلا ینفک بن گئی ہے۔

عالمگیریت کا تصور اور تعریف

 عالمگیریت کے سبب جدید دنیا بغیر جغرافیائی سرحدوں اور کسی قسم کی رکاوٹوںکے دیکھی جا رہی ہے۔ عالمگیریت دنیاکی معاش کو جوڑنے اور مصنوعات، خیالات، کلچر، تہذیب و تمدّن، سائنسی اختراعات اور ٹکنالوجی وغیرہ کے باہمی تبادلے کے عمل کا نام ہے۔ عالمگیریت عالمی طور پر یکجا ہونے کا عمل ہے جو چیزوں کے باہمی تبادلے کے عمل کے ذریعے پیدا ہو تی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ اس کا مطلب ملکوں کے سرحدوں سے پرے معاشی سرگرمیوں میں اچانک اضافہ ہے۔

بیک ((Beck)  نے  اس کی تعریف اس طرح کی ہے کہـ نیٹ ورک کی توسیع اور شناختوں اور مختلف امکانی قوتوں کے ذریعے پوری دنیا کے ممالک کی خود مختاری کو کم کرنے کا ایک عمل عالمگیریت ہے۔ روبرسٹن نے عالمگیریت کو ذرایٔع ترسیل و ابلاغ اورمواصلات  کے زاویے کا سمٹ جانا ہے۔ اسی طرح، لیوک نے ٹکنالوجی کی توسیع پر توجہ دی اور زور دے کر کہا کہ عالمگیریت پوری دنیاکو ایک عالمی گاؤں میں ڈھالنے کا عمل ہے تاکہ افراد معلوماتی اور مواصلاتی ٹکنالوجی کے جدید آلات کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرسکیں۔ واٹرس کے مطابق (1995، ص 3) عالمگیریت کو ایک معاشرتی تبدیلی کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے جہاں معاشرتی اور ثقافتی پہلوؤں پر جغرافیائی سرحدوں کا اثر کم ہو رہا ہے اور لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو عالمگیریت کا مقصد عالمی طورپر معاشرتی تعلقات میں اضافہ  ہے جو دور دراز کے علاقوں کو اس طرح جوڑتاہے کہ مقامی واقعات سے دور درازمیں رونما ہونے والے واقعات متاثر ہوتے ہیں۔

لہٰذا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمگیریت ملکوں اور ریاستوں کی  جغرافیائی سرحدوںکو کم کرنے اور اسے ختم کرنے کا عمل ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلووں جیسے ثقافت، معاشرتی تعامل، معیشت، سیاست اور دیگر تمام پہلوؤں کومتاثر کرتا ہے۔ غیرواضح سرحدوںکا مطلب یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ اگر بات چیت ایک ہی درجے اور حیثیت والے لوگ یا جماعت کے ما بین ہو تو غیر جانب دارانہ ہوسکتی ہے۔ تاہم، اگر بات چیت غیر مثاوی حیثیت یا طاقت والے لوگ یا جماعت کے ما بین ہے تو طاقتور افراد کمزور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

 عالمگیریت کے اقسام

1  ثقافتی عالمگیریت: ثقافتی عالمگیریت کاتعلق ثقافت کے ایک مضبوط عنصر کی توسیع سے ہے۔ عام طور پر مستحکم اور ترقی یافتہ ممالک کی ثقافت عالمی پیمانے پر غالب رکھی جاتی ہے تاکہ اس کے ذریعے ممالک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کو ثابت کیا جا سکے۔ ثقافتی عالمگیریت ایک ایسا عمل ہے جہاں مقامی ثقافت ایک خاص شرح سے کم ہوتی جاتی ہے اور وہ عالمی ثقافت سے بدل دی جاتی ہے۔

2 معاشی عالمگیریت: معاشی عالمگیریت مختلف پہلووںپر مشتمل ہے جیسے بین الاقوامی کمپنیاں جو ملکوں کے خاص قوانین و ضوابط کی پیروی کیے بغیر عالمی سطح پر کام کرتی ہیں۔یہ کمپنیاں ٹیکس کے ذریعے ملک میں منافع لاتی ہیں اور بہت ہی اثرورسوخ کا حامل ہوتی ہیں کیونکہ وہ کسی ملک کی قوانین کے پابند نہیں ہیں نیز اس کے اختیارات ریاستوں سے بالا تر ہیں۔ معاشی عالمگیریت میںقومی معاشی فنڈ ) آئی ایم ایف)  جیسی بڑی تنظیمیں شامل ہیں جو ترقی پذیر ممالک کو قرض اور فنڈ مہیا کراتی ہیں۔ جونس کے مطابق،  علامتی اشیا اور خدمات کے بہاؤ کے ساتھ دو علاقوں کے مابین تبادلے کی آزادی، ممالک کو حاصل مخصوص قدرتی وسائل اور جغرافیائی فوائدکی وجہ سے علاقائی مخصوص اشیا کی پیداوار میں توازن، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، عالمی منڈیوں کی بابت لچکدار ردّعمل، غیر قومی مالیاتی منڈیاں اور مزدوروں کی آزاد نقل و حمل وغیرہ معاشی عالمگیریت میں شامل ہیں۔

3 سیاسی عالمگیریت: سیاسی عالمگیریت کا مانناہے کہ ملکوں اور علاقائی حکومتوںکی طاقتیں عالمگیریت کی وجہ سے کم ہو رہی ہیں۔ جونس کے مطابق، سیاسی عالمگیریت کو عالمی سطح پر مختلف طاقت کے مراکز اور ملکوں کی خود مختاری کی عدم موجودگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔یہاں مقامی مسائل پر بحث عالمی برادری کے تعلّق سے ہوتی ہے، طاقتور بین الاقوامی تنظیمیں قومی تنظیموں پر غالب رہتی ہیں، مختلف مراکزپر مبنی عالمی تعلقا ت قومی ریاست (Nation-State) کی ا قدار کو کمزور اور عالمی سیاسی ا قدار کو مظبوط کرتی ہیں وغیرہ۔ لہٰذا کسی خاص ملک اور ریاست کا شہری ہونے کی اہمیت کم ہو چکی ہے۔

عالمگیریت کے نظریات

عالمگیریت کے متعلق تین اہم نظریات ہیں اور ہر ایک نقطہ نظر عالمگیریت کے تعلق سے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤںپر بحث کرتی ہے۔ تینوں مختلف نظریات مندرجہ ذیل ہیں:

1غیر معمولی  عالمگیریت کا نظریہ (Hyper- Globalist Perspective):   اس نظریہ کے حامل لوگوں کا کہنا ہے کہ تاریخِ ماضی اور موجودہ معاش دونوںنے مل کر ایک نیا رشتہ پیدا کیاجہاںسارے ممالک معاشی اور سیاسی طورپر متحد ہورہے ہیں نیز ان معاملات میں سارے ممالک کا متحد ہونا ضروری ہے تاکہ عالمگیریت کی دنیا میں کامیاب ہو سکیں اوریہ سچائی ہے کہ جو ممالک متحد نہیں ہوئے وہ اس عالمگیریت کی دنیا میںپیچھے رہ گئے۔ اس نظریے کے حامل لوگوں کا مانناہے کہ دنیا کی معاش حکومتوں کے اختیارمیں نہیں بلکہ موجودہ بازارکے ضبط و تسلط میں ہے اور صنعت و حرفت، تجارت اورعالمی معاشی بازارنے معیشت کو حکومتوں کے اختیار سے نکال کر بازارکے اختیار میں لا دیاہے۔ مجموعی طورپر بات یہ ہے کہ انفرادی حکومتوںکی طاقتیں کم ہوئی ہیں اور عالمگیریت نے معیشت کے بند و بست کی انفرادی حکومتوںکے اختیارات کو کم کر دیا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ’صارفیت پسند نظریہ‘ کی تبلیغ اور اشتہار روایتی شناخت کو توڑنے کی راہ میں پہلا قدم ہے۔جب آزاد خیال جمہوریت دنیامیں پھیلے گی معاشی اور سیاسی تنظیم کے عالمی اصولوں کی نشوونما ہوگی او رپھر ا ن سب کے بعد ایک حقیقی عالمگیریت ممکن ہوگی۔ دوسرے نظریات کے مقابل اس نظریے کے حاملین دنیا کی ساری معیشت کو ایک ہی اکائی کے طورپردیکھتے ہیں۔

تشکیک کانظریہ(Sceptical Perspective):  تشکیکی نظریے کے حامل حضرات عالمگیریت کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں اور دنیا کو عالمگیریت کے بجاے علاقا ئیت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں نیز اس حقیقت کومستردکرتے ہیں کہ عالمی ترقیاتی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ایک عالمی ثقافت کی ترقی ہورہی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ دنیا عالمگیر ہو رہی ہے لیکن مختلف خطے کے آپس میں ملنے کی وجہ سے ہے اور ماضی اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ دنیا ایک معاشی منڈی نہیں بن رہی ہے بلکہ علاقائی معاشی شعبوں کی ایک توسیع اور ملکوں کے مابین تجارتی تعاون ہے مثلاًترقی یافتہ اور صنعتی ممالک آپس میں تجارت کرتے ہیں اور ایک تجارتی بلاک بناتے ہیں پھر آہستہ آہستہ ترقی پذیر ممالک سے مصنو عات خرید نا شروع کرتے ہیں اور ان ممالک کو اس بلاک میں شامل کر لیتے ہیں۔اس نقطہ نظر کا ماننا ہے کہ بین ممالک تجارت کو آسان بنانے اور عالمی معیشت کو چلانے کے لیے ایک مظبوط ملک کی ضرورت ہے ورنہ طاقتور ممالک کمزور وترقی پذیر ممالک میں تجارت کے نظام کو چلائیںگے۔ ان کا ایک عالمگیر دنیا میں یقین ہے لیکن یہ ماننا ہے کی عالمگیریت کی شروعات علاقائیت سے ہو کر ایک عالمگیر معیشت کی طرف جاتی ہے۔

تبدیلی کا نظریہ(Transformationalist Perspective):  یہ نقطہ نظر دوسرے نظریات سے دو طریقوں سے مختلف ہے، اول، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عالمگیریت کے پیچھے کو ئی انفرادی وجہ (مارکیٹ یا معاشی منطق) نہیں ہے اورعالمگیریت کو ایک ایسا رجحان سمجھا جاتا ہے جو سالوں سے آہستہ آ ہستہ ترقی کررہی تھی۔ دوئم، محققین کا کہنا ہے کہ عالمگیریت کے عمل کے نتائج کا تعین مشکل ہے اور عالمگیریت ایک غیر معلوم رجحان ہے جس کا اثر سالوں تک نظر نہیں آئے گا۔ ان کاماننا ہے کہ عالمگیریت کے سبب کچھ عام تبدیلیاں ہو ئی ہیںلیکن یہ کہنامشکل ہے کہ یہ تبدیلیاں کس معین سمت میں ہوئیں نیز یہ نقطہ نظرکسی تاریخی واقعات یا عوامل کی وضاحت نہیں کر تا جس سے عالمگیریت کی تعریف ہو تی ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی حکو متوں کی طاقتیں بڑھ رہی ہیں لیکن ان حکومتوں کی نوعیت بدل رہی ہے اور عالمگیریت کے عمل کو متاثر کرنے والے عوامل کی حد زیادہ ہے اور عالمگیریت کے نتائج بہت غیر یقینی ہیں۔

 تعلیم پرعالمگیریت کا اثر

 عالمگیریت نے موجودہ وقت میں تعلیم کی ضرورت کو بڑھادیا ہے اور بہت سارے ممالک کے لیے یہ مشکل کر دیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو کافی مقدار میں اور اعلی معیار کی تعلیم مہیا کرائے۔ عالمگیریت کا زور اس بات پر ہے کہ دنیا میں موجود ہر فردکی رسائی ہر درجے کی تعلیم تک ہو اور اس کی وجہ سے آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

تعلیم کونجی کرنا: عالمگیریت نے مصنوعات کی پیداوار کے ساتھ ساتھ ساری خدمات جس میں تعلیم شامل ہے کو نجی کرنے پر زور دیا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ عالمی تجارتی تنظیم  (ڈبلو ٹی اوWTO/)نے ان ساری خدمات کو اپنے معاہدے میں شامل کیا ہے جس پر دنیا کے اکثر ممالک کے دستخط ہیں۔بنیادی تعلیم کو پہلے نجی کیا گیا اور پھر اعلی تعلیم کو بھی آہستہ آہستہ نجی کیا جارہاہے، اس کی مثال یہ کہ ہندوستان میں نئی تعلیمی پالیسی 2020نے بھی تعلیم کو نجی کرنے پر زور دیا ہے۔

تعلیم کی تجارت:  عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلو ٹی اوWTO/) عالمگیریت کی سہولت کی غرض سے معاشرتی زندگی کے تمام شعبوں کوبین الاقوا می سرمایے کے لیے کھول دیا جس میں عام خدمات جیسے تعلیم شامل ہیں اورتاجروں کو تعلیم کی خدمات کوآگے بڑھانے میں سہولت فراہم کیا۔ خدمات کی تجارت کے بارے میں عالمی تجارتی تنظیم کے عام معاہدے میں قومی خدمات جیسے تعلیم کی تجارت کی مسلسل آزادی شامل ہے۔مستقبل میں سماجی زندگی کے سارے پہلوئوںکی تمام خدمات کے سا تھ سرمایہ کاری ہو گی جبکہ یہ تنظیم سماجی زندگی کے سارے پہلوئوںکو سرمایہ کاری کے قابل ما نتی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلو ٹی اوWTO/) پوری دنیا کا واحد طاقتور ادارہ ہے جس کی اطاعت کے لیے امریکہ اور یورپی یونین بھی مجبور ہیں جبکہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈخصوصاًترقی پذیر ممالک کو متاثر کرتے ہیں۔

تعلیم کی عالمی رسائی: عالمگیریت کی وجہ سے موجودہ وقت میں زندہ رہنے اور ترقی کے لیے ہر فرد کو تعلیم حاصل کر نانہایت ہی ضروری ہے۔ تعلیم سے متعلق یونیسکوترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک میں تحقیقات کرتا ہے اور ان ممالک کو مالی تعاون بھی فراہم کرتاہے جن کو اتنے وسائل اور سرمایہ میسرنہیں ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو عالمی سطح کی معیاری تعلیم مہیا کراسکیں۔ مختلف ممالک میں متعلقہ حکومتوں کی مدد سے مختلف تعلیمی منصوبے چلائے جاتے ہیں جیسے ہندوستان میں سروشکشا ابھیان( ایس ایس اےSSA/) اورراسٹریہ مادھمک شکشا ابھیان  ( آر ایم ایس اےRMSA/ ) اور اب دونوں کا مجموعہ سمگرا شکشا ابھیان وغیرہ تاکہ ہر طبقہ، ذات، نسل،خطہ،مذہب اور صنف کے لوگوں تک معیاری تعلیم پہنچ سکے۔

تعلیم کی آزادی:  عالمگیریت تعلیم جیسی عوامی خدمات کی فراہمی میں حکومت کے کردار کو کم کرنے اور محدود کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس اکیسوی صدی نے ریگولیٹری میکانزم کے ساتھ تعلیم کو ایک آزاد منڈی میں بطور انڈسٹری بنادیا ہے۔عالمگیریت کا تقاضا ہے کہ تعلیم کے شعبے میںلائسنسنگ کے ساتھ ساتھ تجارتی آزادی ہو اور تعلیمی اداروں کو آزادی کے ساتھ ساتھ کاروباری کارپوریشن کی طرح کام کرنے کا مکمل اختیارہو۔

تعلیم میں ٹیکنالوجی کا استعمال: یہ عالمگیریت کا اثر ہے کہ پوری دنیا معلومات سے بھرپور معاشرے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ معلومات اور مواصلات کی ٹکنالوجی (آئی سی ٹیICT/) کی بڑھتی ہوئی ضرورت اورتکنیکی گزیٹ کا استعمال، مصنوعی ذہانت، ای لرننگ، آن لائن کلاس، معنوی درسگاہیں، ڈیجیٹل پلیٹ فارم، ڈیجیٹل لائبریری، ڈیجیٹل ڈھانچہ وغیرہ اس عالمگیریت کی مرہون منت ہیں۔ تعلیم میں آئی سی ٹی اور ٹیکنالوجی کا استعمال طلبا، اساتذہ  اور انتظامیہ کو موجودہ نظام تعلیم میںرہ کر بہتر انداز میں کام کرنے کا موقع فراہم کر تا ہے۔ اکیسویں صدی میں پوری دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے جیسے بڑے اعدادو شمار، مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت وغیرہ کے میدان میں تیزی سے ایجادات اور اختراعات ہور ہیں ہیں۔ 

عالمی سطح کی معیاری تعلیم:  دنیا میں  معیاری تعلیم اور اس کے نظام کے لیے کی جارہی کوششیں عالمگیریت کے اثرات کی عکاسی کر تی ہیں اور موجودہ وقت میں معیاری تعلیم دنیا میں نہایت ضروری ہو گئی ہے۔ عالمگیریت نے تعلیم جیسی خدمات میں بھی ایک مسابقتی مارکیٹ تیار کیا ہے  اور یہ لازم کردیا ہے کہ ہر فرد بین الاقوامی معیار کی تعلیم حاصل کرے اور ہر ادارہ اسی معیار کی تعلیم فراہم کرے تاکہ عالمی مارکیٹ میںبرقرار رہ سکے اور ترقی کر سکے۔ ڈیلر کمیشن کی رپورٹ اکیسویں صدی کی نسل کی رہنمائی کے لیے عالمگیریت کے پیش نظر تیار کی گئی تھی اور اس رپورٹ نے معیاری تعلیم کے چار ستون پیش کیے جیسے یہ سیکھناکہ کیا اور کون سی چیزیں جاننا ہے، کیا کر نا ہے اور کیسے کر نا ہے، کیابنناہے اور کیسے بننا ہے اور یہ سیکھنا کہ سماج میں کیسے ساتھ رہنا ہے۔

  تعلیم کی عالمگیریت: اکیسویں صدی نے تعلیم کی عالمگیریت کے عمل کو تیز کر دیا اور پوری دنیا نے اس کی اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے۔اوریہ متعدد شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے غیر ملکی طلبا کے لیے داخلے کی سہولت، دنیا کے کسی حصے میں پیشہ ورانہ ملازمت اختیار کرنا، مختلف ممالک کے ماہرین تعلیم کے ساتھ تحقیقات کرنا، دو ملکوں اور کئی ممالک کے مابین اساتذہ کا تبادلہ، نامور بین الاقوامی یونیورسٹیاں، معروف بین الاقوامی مدارس، معزز بین الاقوامی تعلیمی ادارے، ہزاروں آن لائن کورسزاور مختلف ممالک میں سیٹلائٹ کیمپس وغیرہ۔ تعلیم کو عالمگیر ہوناہی ہے کیوں کہ پورا معاشرہ عالمگیریت کی راہ پر گامزن ہے۔

آن لائن اور فاصلاتی تعلیم: تعلیم کو عالمگیر بنانے اور اس کو دنیامیں موجود ہر فرد تک پہونچانے کے لیے آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ان کے ذریعے ہر فرد کو اپنی ضرورت کے حساب سے علم حاصل کر نے کا موقع فراہم کیا جاتاہے۔ تعلیم ایک مسلسل عمل ہے اور انسان پوری زندگی سیکھتاہے  لہٰذا زندگی کے ہر مرحلے میں اس کے لیے سیکھنے کا راستہ ہموار ہو نا چاہیے۔ آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کے ذریعے افراد کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم جاری ر کھ سکتے ہیں اور ان کی وجہ سے تعلیم سستی اور آسان بھی ہوئی ہے۔ اب لوگ مدارس، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور دوسرے تعلیمی ادارے میں گئے بغیر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں  اور ان کی وجہ سے دنیا میں خواندگی کی شرح بڑھی ہے۔

سائنس اورٹکنالوجی کی تعلیم پر زور:  اس عالمگیریت کے وقت میں سائنس اورٹکنالوجی کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور اس میدان میںمختلف معروضی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ سائنس اورٹکنالوجی کی اہمیت اور ضرورت میں اضافے نے ان کی تعلیم پر زور کو بڑھادیاہے۔اسی وجہ سے سائنس اورٹکنالوجی کے میدان میں نئے نئے کورسز اور سبجکٹس شروع ہو رہے ہیں اورنئے نئے ڈپارٹمنٹ اور ادارے نیز لیب کھل رہے ہیں۔آج کے اس دور میں ہر ملک سائنس اورٹکنالوجی کی تعلیم پر زور دے رہا ہے جیسا کہ نئی قومی پالیسی 2020 نے بڑی باریکی سے تعلیم اور ٹکنالوجی کے باہمی رشتے  پر غور کیا  اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیا۔آج کی معیشت مکمل طور سے سائنس اورٹکنالوجی پر منحصر ہو چکی ہے اور جو ملک سائنس اورٹکنالوجی  میںجس قدر آگے ہے اسی اعتبار سے اس دنیا میں قدر اور مرتبہ رکھتاہے۔

پیشہ ورانہ تعلیم:عالمگیریت کا بنیادی مقصد پیداوار بڑھانا اور تعلیمی نظام کو ایک آلہ بنانا ہے تا کہ وہ طلبا کو تیار کرے کہ طلبا دنیا کی موجودہ مارکیٹ میںمعاشرے کے ثمرآور رکن کے طورپر مقابلہ کر سکیں اور اس مادّیت کے دور میں بغیر کسی احتیاج کے خوشحال زندگی گزار سکیں۔بڑھتی ہوئی حرفت کی نوعیتیں، نئی نئی ٹکنیکل ایجادات، تحقیقی اختصاص اور اسی اعتبار سے خاص مہارتوں کی ضرورت نے پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ پیشہ ورانہ تعلیم زیادہ محسوس ہونے کی وجہ سے اس کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جا چکا ہے بلکہ اس کی طرف طلبا اور والدین کا رجحان بھی بڑھ رہاہے۔

نصاب میںمسلسل بدلائو:  جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمگیریت کے اس دور میں زندگی اور معاشرے کے ہر شعبے میں ہر روز نئی نئی اختراعات اور ایجادات ہو رہی ہیں اور ان سب کا اثر بالواسطہ اور بلا واسطہ تعلیم پر ہورہا ہے۔ اس تیزی سے بدل رہے معاشرے کو دیکھتے ہوئے ضرورت کے حساب سے تعلیم اور خصوصاً نصاب میں مسلسل بدلائو کیا جاتاہے۔ یہ نصابی بدلائوکبھی کم اور کبھی زیادہ اور پالیسی کے درجے پر بھی ہوتاہے پھر عالمی اور قومی اداروں کو اس کی پیروی کی لیے کہا جاتاہے جیسے قومی نصاب تعلیم فریم ورک( این سی ایفNCT/) 2005 اور ڈیلر کمیشن رپورٹ 1996۔ وقت اور حالات کے اعتبار سے معلوماتی مواد اور تدریسی عمل دونوں میں بدلاؤ اور سدھار ہوتے ہیں۔

تعلیمی پالیسی:عالمگیریت کا اثر تعلیم پر ہر زاویے سے ہے  لہذا تعلیمی پالیسی کیسے اس کے اثرسے باہر رہ سکتی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کی سب سے پہلے تعلیم پالیسی کے درجے پر ہی متاثر ہوئی۔ عالمگیریت کا اثردنیا کے سارے ممالک ( ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ )کی تعلیمی پالیسیوں میں دیکھاجاسکتاہے  اور اس کی واضح مثال ہمارے ملک کی نئی تعلیمی پالیسی 2020 ہے جس نے بنیادی اور اعلی تعلیم کی نج کاری، عالمی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں کی ملک میں آمد، ملکی تعلیم کی مرکزیت اور تعلیم کو ڈیجیٹل کرنے پر زور دیاہے۔

تعلیمی نظم ونسق:تعلیمی نظم ونسق پر بھی عالمگیریت کا عمل ا ثر انداز ہواہے اور پوری دنیا میں اس کے متعلق رائج طور طریقے میں تبدیلی کا باعث بناہے۔ عالمگیریت کی وجہ سے تعلیمی اداروں کا نظم و نسق کاروباری اداروں اورد یگر عام انتظامی محکمات کی طرح ہو گیاہے۔ تعلیم کی مرکزیت کا باعث بھی  عالمگیریت کو مانا جاتاہے۔ 

تعلیم اور اس کا تصور:

محققین اور ماہرین تعلیم کی مختلف تعریفیں کر تے ہیں اور مختلف انداز میں اس کی وضاحت بھی کر تے ہیں لیکن مختصر یہ کہ تعلیم حصول علم کا ایک تا حیات عمل ہے جو انسانی زندگی اور طرز عمل میں مثبت تبدیلیاں لاتی ہے۔ مہاتما گاندھی اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہـ ’تعلیم سے میری مراد بچے اور انسان کے جسم، دماغ اور روح میں پائی جانے والی ہمہ جہت صلاحیتوںکو باہر نکالناہے‘۔ تعلیم سیکھنے کی سہولت فراہم کرنے، یا علم، ہنر، اقدار، اخلاقی عقائد اور عادات کے حصول کا عمل ہے۔در حقیقت، تعلیم صرف کلا س روم کی چہاردیواری کے اندر ہی نہیں ہوتی بلکہ تعلیمی اداروں کے باہر اپنے تجربات سے کہیں بھی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے۔تعلیم کی بنیادی تین قسمیں ہیں، رسمی تعلیم، نیم رسمی تعلیم اور غیر رسمی تعلیم۔

عالمگیریت پر تعلیم کے اثرات

تعلیم کا بھی عالمگیریت کے عمل میں ایک اہم رول ہے اور تعلیم بالواسطہ اور بلاواسطہ عالمگیریت کے عمل میں اہم کردار نبھانے والے اسباب اور وجوہات کو متاثر کرتی ہے۔عالمی معیشت کی ترقی نے ان ممالک کے لیے امکانات کو بڑھادیا  جن کی تعلیم کا معیار اچھاہے لیکن دوسری طرف ان ممالک کے لیے مشکلات پیداکردی جن کے یہاں تعلیم کا معیار اچھا نہیں ہے۔ تعلیم پوری دنیا میں انسانی وسائل کی ترقی کا بہتر ین واحد ذریعہ ہے۔ اچھے وسائل اور معاشی پالیسیاں رکھنے والے ممالک کو ٹکنالوجی، برآمدات اور فی کس آمدنی میں تیزی سے ترقی ملتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب بھی کر تے ہیں۔ عالمگیریت کے اس دورمیں ان ممالک کو مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے جہاں انسانی وسائل کی کمی ہے۔ مزید برآں، یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی آزاد بازار میں مقابلہ کرنا مشکل محسوس ہوتاہے جب تک کہ وہ معیاری تعلیم و تربیت اور تحقیق میں سرمایہ کاری نہ کریں۔ معیاری تعلیم انسانی ترقی اور وسائل کی برق رفتارترقی اور اعلی پیداوار کا باعث ہے۔ معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے تعلیم ہمیشہ ہی ایک عنصر رہی ہے جیساکہ بہت ساری سائنسی تحقیقات نے اشارہ کیا ہے۔

عالمگیر تعلیم:  عالمگیر تعلیم کامقصد بین الاقوامی معاشرت اور عالمگیر شہریت نیز عالمی اخوت اور انسانیت کی ضرورت اور اہمیت پر زور دینا اور بین الاقوامی مکالمے اور تعاون کو رائج کر ناہے۔ عالمگیر تعلیم  بین الاقوامی افہام و تفہیم اور آپسی معاونت کی دعوت کے ساتھ ساتھ علاقائی تہذیب و تمدّن اور ثقافت بلکہ انفرادی تہذیب پر بھی زور دیتی ہے۔   عالمگیر تعلیم لوگوںکو اس بات کا درس دیتی ہے کہ قوم، مذہب، ذات، نسل، علاقہ اورجنس وغیرہ  جیسے محدود سوچ اور سمجھ سے اوپر اٹھ کر عالمی بصیرت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا مقصد عالمی اخوت، عالمی امن و امان، سماجی انصاف، بین الاقوامی معاونت و شراکت کا حصول اور آپسی اختلافات کے باعث اسباب جیسے حرص، خودغرضی، حسد و کینہ، نفرت و عداوت اور عدم مساوات وغیرہ سے تحفظ ہے۔   عالمگیر تعلیم پوری انسانیت کے لیے ایک خوشگوار مستقبل ہے جو ہر فرد کو ایک بہتر زندگی گزارنے کی راہ دکھاتی ہے۔

حوالے

1       الیگزینڈر سی اور کے کارویک (2007)۔حکومتیں، برآمدات اور نشوونما:  عالمگیریت کے چلینجیز اور مواقع کا جواب۔ عالمی معاش، (1)30، 177-194

2       بیشوپ ٹی اور اڈمس ٹی (2011)۔ عالمگیریت: رجحانات اور نظریات۔ جرنل آف عالمی تجارتی تحقیق، (1)10 117-130

3       چینمائی  ایس (2005)۔ تعلیم اور کلچر پر عالمگیریت کے اثرات،  نئی دہلی

4       جاروس پی(2000)۔ عالمگیریت، آموزیشی معاشرہ اور مقابلہ جاتی تعلیم (3)36، 343-355

5       جانس پی ڈبلو (1998)۔ عالمگیریت اور بین الاقوامیت: عالمی تعلیم کے ڈیموکریٹک تناظر۔ مقابلہ جاتی تعلیم،(2)34،  143-155

6       روزا  ایم اور فاطمہ ایس ایف (2017)۔ تعلیم پر عالمگیریت کا اثر۔ تھیاگاراجر کا لج اُف پرسیپٹرس، 39۔

7       اسٹوارت ایف (1996)۔  عالمگیریت اور تعلیم۔ تعلیمی نشوونماکا بین الاقوامی جرنل، (4)16، 327-333

8       جاروس پی  (277)۔ عالمگیریت، تازندگی تعلیم اورعلمی معاشرہ : عمرانی تناظر۔ رائوٹلج۔

 

Aftab Alam

Assistant Professor

College of Teacher Education (MANUU)

Darbhanga, Ilyas Ashraf Nagar

Chandanpatti, Laheria Sarai

Darbhanga - 846001 (Bihar)

Mob.: 8285835517

 

  ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں