23/8/21

آمنہ ابوالحسن: اردو افسانے کا ایک معتبر نام - مضمون نگار : ارشاد شفق

 



خواتین افسانہ نگاروں میں آمنہ ابوالحسن ایک بڑا نام ہے۔موصوفہ کی پیدائش 10مئی 1941 کو حیدر آباد میں ہوئی۔ ان کا اصل نام سیدہ آمنہ اور قلمی نام آمنہ ابوالحسن تھا۔ ابتدائی کہانیاں انھوں نے بچوں کے ایک رسالے ’تارے‘کے لیے لکھیں،لیکن باقاعدہ طور پر ادبی زندگی کا آغاز  1951 میں کیا۔اگرچہ انھوں نے بہت کم عمری میں لکھنا شروع کردیا تھالیکن شعور کی پختگی کے بعد ان کی پہلی کہانی ’ساقی‘میں شائع ہوئی۔اس کے بعد آمنہ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کے متعدد افسانے برصغیر کے معیاری رسائل میں شائع ہوئے جن میں ’بیسویں صدی‘، ’شاعر‘ اور ’آجکل‘ اہم ہیں۔ افسانے کے علاوہ انھوں نے کئی ناول بھی لکھے جن میں ’سیاہ سرخ سفید‘، ’تم کون ہو‘اور ’واپسی‘کافی مشہور ہوئے۔ ’واپسی‘ پر انھیں یوپی اور بہار اردو کادمی کی جانب سے انعام بھی ملا۔ افسانوی دنیا میں ان کے دو افسانوی مجموعے ’کہانی ‘ اور ’بائی فوکل‘ ان کی شناخت قائم کیے ہوئے ہیں۔

آمنہ ابوالحسن کا فکری شعور جس زمانے میں پروان چڑھا وہ ترقی پسند تحریک کا عہد تھا۔اگرچہ انھوں نے آزادی کے بعد لکھنا شروع کیا تاہم جس دور میں ان کی ذہنی آبیاری ہوئی اس دور میں ترقی پسند تحریک کی لہر چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی،لیکن آمنہ اس تحریک سے متاثر نہیں ہوئیں۔انھوں نے اپنے افسانوی موضوعات عام انسانی زندگی سے اخذ کیے اورجو کچھ بھی لکھا اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر لکھا،یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔پروفیسر قمر رئیس ان کی انفرادیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آمنہ ابوالحسن کے افسانے حقیقت نگاری کی توانا روایت کے آئینہ دار ہیں۔ان کا تعلق مصنفین کی درمیانی پیڑھی سے ہے۔آمنہ اپنے افسانوں میں لطیف اور نازک جذبات کی کامیاب ترجمانی کرتی ہیں۔ ان کی سبھی کہانیاں شاعرانہ حسن سے معمور ہوتی ہیں۔خوف ودہشت اورعدم تحفظ کی آگ میں جلتا ہوا انسان،آمنہ کی تخلیقی فکر کا مرکزی نقطہ ہے۔‘‘

(آزادی کے بعد اردو افسانہ دہلی میں،قمررئیس،مشمولہ ’شاعر‘ ہم عصر اردو ادب نمبر،مئی تا دسمبر1997-98،ممبئی،ص 342)

آمنہ نے اپنے افسانوں میں دور جدید کی بڑھتی اور سسکتی زندگی کی پیچیدگی،انسان کی کرداری گراوٹ، فرد کی نفسیاتی اور داخلی  کربناکی، متوسط طبقے کاسماجی اور معاشی اُتار چڑھاؤ، اقدار کی پامالی،نئے معاشرے کی کجروی، مغربی تعلیم کی بے راہ روی، فرقہ وارانہ فساد، انسانی خود غرضی، تہذیبی پیچیدگی،شکست خوردگی، معاشرتی کربناکی،سماجی ہیجان انگیزی،معاشرے کی مثبت ومنفی صورتحال کی جستجو،نئی تہذیب وکلچر کی عکاسی،نسلوں کی کشاکش،تہذیبی تضادات،انسانی ہوس پرستی اور بے انصافی، کے علاوہ رشتوں کے الجھائووغیرہ جیسے جیتے جاگتے موضوعات کو افسانوی صفحات میں جگہ دے کرایسے مستحسن انداز میں پیش کیا ہے،جس کے مطالعے کے بعد قاری کو ان کی ذہانت،علمیت اور تخلیقیت کے نئے نئے باب رو شن ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ موصوفہ کاطبقاتی شعور بہت پختہ اور نکھرا ہوا ہے۔ انھیں اپنے ارد گرد کے ماحول اور معاشرے کی تبدیلی کا بھر پور احساس تھا۔ انھوں نے سماج سے کٹ کر ایک آزاد فرد کی طرح زندگی گزار نے پرکبھی اکتفا نہیں کیا۔مختصر یہ کہ موضوعاتی طور پر آمنہ کے افسانے اپنے عہد کے متنوع مسائل سے ترتیب پاتے ہیںجس پر کسی تحریک یا رجحان کا لیبل چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔

آمنہ ابوالحسن ہمیشہ زندگی کے مثبت پہلو کی قائل رہیں۔ ان کے افسانوں میں اقدار زندگی کو سمجھنے،اسے بہتر بنانے،قسمت اور خدا پر یقین رکھنے کا درس ملتا ہے، جس کی تہہ میں فکری بلوغت کی صداصاف سنائی دیتی ہے۔ ان کے اس نہج کے افسانے جہاں انھیں اپنے عہد کے مفکر ومدبّر کا درجہ دلاتے ہیں وہیں موصوفہ کی بصیرت اور مشاہدات کا آگہی نامہ بھی بن جاتے ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لے کر افہام وتفہیم کے نئے نئے در وا کرتے ہیں۔اس موضوع پر ان کے دو افسانے’برجو‘ اور ’طواف‘ ہیں جس میں زندگی کو مثبت سمت کی طرف لے جانے کا اشاریہ موجود ہے۔افسانہ ’طواف‘کی ہیروئین (ناظرہ)ساری زندگی دھوکہ کھانے اور اپنا بچہ کھودینے کے بعد بھی صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔وہ ماں باپ کو ٹھکرا کراپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرتی ہے جس کی سزا بھی اسے ملتی ہے لیکن مایوسی کو بالائے طاق رکھ کراپنے سارے غم بھول جاتی ہے۔اسی طرح افسانہ ’برجو‘ کا مرکزی کردار جو پیشے سے جنگل میں لکڑیاں کاٹنے والا ایک مزدور ہے،اسے جنگل کی ہر شے سے محبت ہوتی ہے لیکن اس کا دوست اسے شہر جاکر نوکری کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔وہ اس کی بات مان کر شہر بھی جاتا ہے لیکن اچانک ایک دن کھیت میں سانڈ گھسنے سے وہ چوکیداری کی نوکری چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ کسی اور جنگل میں پہنچ جاتا ہے اور باقی کی زندگی وہیں گزارتا ہے۔ اس افسانے میں آمنہ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رزق دینے والا اللہ ہے اور بندہ اگر اپنی محنت میں ثابت قدم رہے تو اسے اور اس کی آنے والی نسل کو رزق ہمیشہ ملتا رہتا ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے جس سے موصوفہ کے نظریات کا بھر پور اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

’’دلوں کا طواف کرویہی کعبہ کا طواف ہے۔ جو بھی انسان سے محبت نہیں کرتا وہ کبھی خدا سے محبت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ تڑپنا ایک تجزیاتی عمل ٹہرا اور جو انسان تڑپنانہ جانے وہ بھلے ہی اپنی پیدائش کا منطقی مصرف پورا کرے مسکین بن کر جیے اورعمر تمام کرے لیکن جو دھوپ بن کر زمانہ پر نہ پھیلے اور عود عنبر کی طرح اپنے آپ میں نہ سلگے وہ درحقیقت زندگی کا مفہوم کیا سمجھے۔‘‘

(برجو،آمنہ ابوالحسن،مشمولہ ماہنامہ شاعر،مدیر افتخار امام صدیقی،جلد 70،شمارہ1،ممبئی،ص12)

آمنہ بدلتی دنیا اور گزرتے وقت کی نباض ہیں،وہ اپنی باریک بین نظرسے نئی تہذیب میں ڈھلے معاشرے اور اس سے پیدا شدہ برائیوں کابغور مطالعہ کرتی ہیںاور اسے اپنی فکری آنچ میں تپا کر افسانے کے قالب میں ڈھالتی ہیں۔وہ موڈرن معاشرے کی برائیوں اور بے اعتدالیوں کو بڑی فنکاری سے پیش کرتی ہیں۔ان کے افسانے اپنے عہد کی معاشرتی زندگی اور اخلاقی اقدار کے مثبت ومنفی رجحان کے ترجمان ہیں۔ان کے یہاں نئی اور پرانی تہذیب کو سمجھنے کا شعور بہت پختہ اور متاثر کن ہے،جو ان کے ذاتی غم کا سانحہ بننے کے بجائے معاشرتی حقائق کی صحیح اور سچی تصویر واضح کرتا ہے۔’اندھیرے کا خوف‘، ’پرنو‘ اور ’گہن‘ جیسے افسانے موڈرن معاشرے کی برائیوں اور بے اعتدالیوں پر مبنی ان کے بہترین افسانے ہیں۔ ’اندھیرے کا خوف‘ میں موصوفہ نے مغربی ممالک میں رہنے والے مسلم طبقے کی عکاسی کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح یہ طبقہ اپنے تمام مشرقی عقائد اورمذہبی اصولوں کو بھول کر مغربی تہذیب میں ڈھل جاتاہے۔ ’پرنو‘ میں انھوں نے موڈرن معاشرے میں بچوں کی پرورش صحیح ڈھنگ سے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہونے والی منفی تبدیلیوںاور سوچ کو موضوع بنایا ہے۔ موڈرن معاشرے کے والدین اپنے بچوں کی تمام تر ذمے داریاں ملازمہ کے سر ڈال دیتے ہیں اور ملازمہ کم عقل اور پڑھی لکھی نہ ہونے کے سبب جو باتیں بچوں کے ذہن میں پیوست کرتی ہیں، وہ ساری زندگی محفوظ رہتی ہیں۔ افسانہ ’گہن‘ میں انھوں نے ایک شخص کی محض ایک غلطی سے اس کی پوری زندگی کو تباہ ہونے کی تصویر دکھائی ہے،جس سے پورا معاشرہ اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ وہ پوری زندگی اپنی ماں کا کہنا نہ ماننے پر پچھتاتا رہتاہے:

’’اپنی ماں کی درد بھری سسکیاں اس کے کانوں میں گونج کر اسے مزید بے حال کر گئیں۔ماں نے کتنا سمجھایاتھا۔کتابوں کو اپنا سب سے اچھا دوست سمجھ۔مگر اس نے سب پربھروسہ کیا۔‘‘

(گہن،آ منہ ابوالحسن،مشمولہ ’بائی فوکل ‘،موڈرن پبلشنگ ہائوس، دریاگنج،نئی دہلی،1990،ص63)

آمنہ فرد کے نہاں خانوں میں ڈوب کراس کی ذات وکردارکا محاسبہ کرتی ہیں۔ انھیں فر د کے داخل میں جھانکنے اور اس کے جذبات واحساسات کو ٹٹولنے پر عبور حاصل ہے۔وہ معاشرے کے جیتے جاگتے کرداروں کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنے کے بجائے اس کی اندرونی کیفیت کو اہمیت دیتی ہیں۔ افسانہ ’بائی فوکل‘ میں موجود مرکزی کردار آفاق کی اندرونی کیفیت کو انھوں نے جس فنکاری سے پیش کیا ہے وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آفاق پوری زندگی اپنے طرز پر جیتا ہے لیکن نوادرات جمع کرکے مطالعہ کرنے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ اب تک اس نے جو زندگی بسر کی ہے اس کا ماحصل کچھ بھی نہیں، چنانچہ وہ سخت ذہنی کرب میں مبتلا ہوکر ساری زندگی سکون کا متلاشی رہتا ہے۔وہ ہمیشہ اپنے خاندان،اپنے لوگ اور اپنی ذات کو اہمیت دیتا ہے اور دوسرے طبقے یا معاشرے کے دیگر افراد کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتاجس کی وجہ سے ہمدردی،ایثارا ورقربانی جیسے جذبات سے وہ محروم رہ جاتا ہے۔افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ ہوں:

’’کاش وہ کسی غریب کے ذہن ودل میں اتر کر وہاں سے ایک نظر اس کی ٹوٹی پھوٹی تاراج دنیا کو دیکھ لیتا تو شاید پھر اسے کسی ’بائی فوکلـ‘ کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ تب وہ یقینا مکمل مطمئن اور ناقابل تسخیر ہوجاتا۔مگر ساری دنیا کو دیکھ کر ہر ہر چیز پا کر بھی آفاق نے کسی غریب کے ذہن ودل کو کہاں دیکھا۔اس کی محرومیوں کو کہاں جانا، اس کی دردمندی کی توفیق خود میں کہاں پیدا کی تھی۔‘‘

(بائی فوکل،آمنہ ابوالحسن،مشمولہ ’بائی فوکل‘، موڈرن پبلشنگ ہائوس، دریاگنج،نئی دہلی،  1990، ص142)

آمنہ کے افسانوںمیں اصلاح کا پہلو بھی ابھرتا ہے۔وہ سماج اور فرد کی برائیوں کو قاری کے سامنے لا کر اس کی اصلاح کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔افسانہ ’دریچہ‘ میں وہ ایک نوجوان لڑکی کی ذہنی تربیت کرتی ہیں۔ افسانہ ’چاپ‘ میں وہ والدین کے ذریعے بچوںکی اصلاح کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ افسانہ ’عفریت‘ میں موصوفہ جہاں فساد کی ہولناکیاں دکھا کر مذہب،ملک اور قوم کے نام پر لڑانے والے افراد پر طنز کرتی ہیں وہیں معاشرے کو امن پسندی کا درس بھی دیتی ہیں۔افسانہ ’مولی‘ میں وہ معاشرے کی اس ذہنیت کی اصلاح کرتی ہیں جو معذور بچوں کو کبھی برابری کا درجہ نہیں دیتا۔ ’شیشے کی دیوار‘ میں وہ ایسے افراد کی اصلاح کرتی نظر آتی ہیں جو ظاہری دکھاوے کی وجہ سے ساری زندگی مسائل کے شکار رہتے ہیں۔اس نہج کے افسانوں میں موصوفہ زمان ومکان کے لوازمات ڈھونڈکر انھیں حل کرنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں، لیکن ان کی یہ کوشش اپنے ہم عصروں میں انھیں تقلیدی روش اختیار کرنے سے جہاں محفوظ رکھتی ہے،وہیں افسانوں کے مختلف موضوعات کی بھیڑ میں انھیں انفرادیت بھی عطا کرتی ہے۔

آمنہ نے اپنے افسانوں کے پلاٹ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے ترتیب دیے ہیں۔ ان کے افسانے سیدھے سادے انداز میں چل کر قاری کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں۔پلاٹ کے برعکس زبان وبیان اور اسلوب کے لحاظ سے وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز رہی ہیں۔ ان کے افسانوں میں بیانیہ کا عنصر بہت مضبوط ہے۔ ان کے اسلوب میں تجسس کا عنصربھی برقرار ہے جو قاری کو کہانی کے اختتام تک باندھے رکھتا ہے۔موصوفہ کے بعض افسانوں میںحقیقت نگاری کے روایتی اسلوب کا تاثر اُبھرتا دکھائی دیتا ہے لیکن اس تاثر میں کہیں تکرار یا یکسانیت کی فضا نظر نہیں آتی۔ افسانوی مجموعہ ’بائی فوکل‘ کے برعکس ’کہانی‘کے افسانوں میں حقیقت اور تخیل کا تضاد ہے۔ ان افسانوں میں فلسفیانہ بحث اور شاعرانہ انداز کے علاوہ طنز کا عنصر بھی اُبھرتا ہے لیکن ان کا طنز بے مقصد ہونے کے بجائے معاشرتی مسائل کو اُبھارتا ہے۔ دراصل آمنہ کے اسلوب کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں معاشرتی اقدار اور فرسودہ روایات سے بغاوت تو کرتی ہیں لیکن اسلوب اور کہانی کے روایتی سانچے کو توڑنے کو تیار نہیں ہوتیں۔لفظوں کے استعمال میں انھوں نے بہت مصلحت سے کام لیا ہے۔ان کے اسلوب میں لفاظی، سطحیت اور جانب داری کا عمل دخل نہیں ہے۔ انھوں نے تخلیق کی بنیادی وہیئتی کیفیات کو جس منفرد انداز میں پیش کیا ہے وہ ان کے ہم عصروں کے یہاں ناپید ہے۔ ان کے فکر وشعور ان کے افسانے کے تخلیقی اشارات اور ارشادات کو فعالیت عطا کرتے ہیں۔ فکر وزبان کی سطح پر موصوفہ کے افسانے جذباتی عقیدت،محسوسات اور مفکرانہ خصوصیات کا مظہر بن کر قاری کو اپنے حصار میں لینے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔پروفیسر قمر رئیس ان کی زبان پر گرفت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’آمنہ ابوالحسن کا طرز بیان انتہائی دلکش اور جاندار ہے جو ان کے معجزبیان اور قادرالکلام ہونے کی دلالت کرتا ہے۔ آمنہ ابو الحسن جگہ جگہ ایسے پتے کی باتیں اپنے دل نشین انداز میں کہہ گزرتی ہیں کہ جن سے ان کے پختہ شعور،بالغ نظری،باریک بینی اور نفسیات پر حاوی ہونے کے ثبوت ملتے ہیں۔آمنہ صاحبہ نے کبھی اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے سہارے اختیار نہیں کیے بلکہ اپنے منفرد طرز نگارش،لطافت بیان اور جاندار کردار نگاری کے ذریعے ادبی دنیا میں اپنا بلند مقام بنایا اور برابر بلندی کی طرف مائل ہیں۔‘‘

(بحوالہ شاعر،ہم عصر اردو ادب نمبر،مئی تا دسمبر1997-98،ممبئی،ص 341)

کردارنگاری کے سلسلے میں آمنہ نے معاشرے کے مختلف طبقوں کے کردارپیش کیے ہیں۔ آمنہ کے کردار معاشرے کے چلتے پھرتے افراد ہیں اس لیے انسان ہونے کی وجہ سے ان میں بشری خوبیان اور خامیاں دونوںموجود ہیں۔وہ اپنے کردارکو فرشتہ بنا کر پیش کرنے کے بجائے ان کے منفی اور مثبت دونوں پہلو کو اہمیت دیتی ہیں۔اس کی وضاحت انھوں نے اپنے افسانوی مجموعے ’کہانی‘کے دیباچے میں کی ہے۔وہ لکھتی ہیں:

’’زندگی کی عمدہ اقدار اور توانارجحانات کی دل سے موئید رہی ہوں اور ادیبوں،فنکاروں،دانشوروں کی ذمے داری بھی یہی سمجھتی ہوں کہ وہ اپنے ساتھ یا پیچھے آنے والے انسانی کارواں کی اسی سمت رہنمائی کریں جہاں حیات کے صالح اور صحت مند حقائق ان کے منتظر ہوں۔انسان اپنے ماحول اور اپنی ساری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ سچا انسان نظر آئے۔دنیا سے ماوریٰ کوئی فرضی کردار نہیں۔‘‘

(حقیقت،مشمولہ’کہانی‘،آمنہ ابوالحسن، پبلشرمصطفی علی اکبر،مارچ 1965،ص10)

آمنہ کے افسانوں کے بیشتر کردار پلاٹ میں آنے والی تبدیلیوں سے اپنا رُخ بدلتے نظر آتے ہیں اس لیے ان کے افسانوں میں متحرک (Active)کرداروں کا عمل دخل زیادہ نظر آتا ہے جو کہانی کو عروج تک پہنچانے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔  ان کرداروں کی انفرادیت بیان کرتے ہوئے سیدہ جعفر نے لکھا ہے:

’’آمنہ ابوالحسن کی کہانیاں اس لیے جاندار اور متحرک ہوتی ہیں کہ انھوں نے دنیا کے نگار خانے میں واقع تصویروں پر محض سرسری نظر نہیں ڈالی بلکہ ان تصویروں میں مختلف رنگوں کے امتزاج اور ان کی معنویت کو سمجھنے کی پر خلوص کوشش کی ہے۔ آمنہ ادب کو مختلف خانوں میں بند کردینے کا رجحان نہیں رکھتیں بلکہ اپنے کرداروں کو ان کی بشری صفات وخصوصیات پیش کرنے کا قابل غور سلیقہ رکھتی ہیں۔‘‘

(بحوالہ شاعر،ہم عصر اردو ادب نمبر،مئی تا دسمبر1997-98، ممبئی، ص،341-42)

اس طرح دیکھیں تو آمنہ کے افسانوں میں زندگی اور فن دونوں کا امتزاج بھر پور موجود ہے۔ان کے افسانوں میںزبان وبیان اور اسلوب کے نئے نئے پہلو اُبھرتے ہیںجس کو پڑھنے کے بعد عمل اور ردّعمل کی نئی نئی راہیں وا ہوتی ہیں۔میرے خیال سے ان کے افسانے اردو کے اہم اور اچھے افسانوں میں جگہ پانے کے مستحق ہیں۔

 

Dr.Irshad Shafaque

H.No: 1/A, BL No: 23, Kelabagan,

Po: Jagatdal, Dist: 24 Pgs(N),

Pin: 743125, (West Bengal)

Ph: 8100035441

Email: Irshadnsr5@gmail.com

 

 

 


 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں