26/8/21

کشمیر کی درد آشنا: ترنم ریاض - مضمون نگار: قدوس جاوید

 



’’میرا عظیم وطن، میرا کشمیر، نرم خو، حلیم اور حسین کشمیریوں کی  زمین۔ دانشوروں،فنکاروں اور دستکاروں کا خطہ، ریشم و پشم، زعفران زاروں اور مرغزاروں کی سرزمین، پہاڑیوں اور وادیو ں کا مسکن،یہ جنتِ بے نظیر، جس کی پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ موجود ہے،جس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔قدیم ترین زبان و تہذیب کا مرکز کشمیر، رِشیوں، مُنیوں کا کشمیر،شیخ العالم اور لل دید کا کشمیر، شاکیہ منی کی پیش گوئی کا بودھ گہوارہ کشمیر، کشیپ رشی اور پرور سین کا کشمیر، للتا دتیہ اور سوئیہ کا کا کشمیر، اشوک، کنشک، کلہن، اور بڈشاہ کا کشمیر، حبہ خاتون کا کشمیر،ارنی مال کا کشمیر ۔‘‘

یہ اقتباس، اسی کشمیر کی خاک سے اٹھنے والی ایک غیر معمولی قلم کار خاتون ترنم ریاض کے ناول ’برف آشنا پرندے‘ سے ماخوذ ہے۔اس اقتباس کے الفاظ، کشمیر کے تئیں ترنم ریاض کے فخر آمیز عشق اور عقیدت مندی کا مظہر ہی نہیں، اس حقیقت کا اشاریہ بھی ہے کہ ’اٹوٹ انگ‘  اور ’شہہ رگ‘ کی دو چکیوں کے بیچ پستی ہوئی کشمیر ی سائکی، معاشرت، سیاست اور ثقافت کے پاکیزہ  منظر نامے کو لہو کی چھینٹوں سے بدنما بنانے کی کیسی کیسی کوششیں اور سازشیں کی گئیں اور صرف ’ برف آشنا پرندے‘  ہی نہیں، کم و بیش ترنم ریاض کی ہر تحریر کسی نہ کسی زاویے سے ان کے وطن عزیز کشمیر کو لازماً مَس کرتی نظر آتی ہے۔

محمد الدین فوق، چراغ حسن حسرت، پریم ناتھ پردیسی اور نور شاہ کے فکشن، اور زینب بی بی محجوب، مہجور،غلام رسول نازکی اور حکیم منظور  کے شعری سرمایے کی امین  ترنم ریاض کشمیر کے معروف علاقہ ’کرن نگر ‘میں ایک معزز گھرانے میں (9اگست1960) کو پیدا ہوئیں۔ اسکول اور کالج کے بعداول تو انھوں نے کشمیر یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔اے کیا اور پھر کشمیر یونیورسٹی سے ہی ’ایجوکیشن‘ میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا۔ ترنم ریاض کی شادی کشمیر کے مشہور ادیب، پروفیسر ریاض پنجابی سے ہوئی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مواقع ملنے کے باوجود ترنم ریاض نے کہیں باضابطہ ملازمت نہیں کی۔ یہاں تک کہ جب ان کے شوہر مشہور سوشل سائنٹسٹ اور ادیب، J.N.U کے پروفیسر ریاض پنجابی کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر (جنوری2008، جون2011) مقرر ہوئے تو کئی شعبوں کی جانب سے آفر کے باوجود ترنم ریاض نے کو ئی عہدہ قبول کرنا منظور نہ کیا۔ البتہ وہ کئی یونیورسٹیوں اور باوقار تعلیمی اداروں کے ساتھ ’وزٹنگ  فیلو‘اور ’گیسٹ پروفیسر‘ کے بطور وابستہ رہیں۔ 2014 میںانھیں SAARC Literary Award  سے نوازا گیا۔ غالباً اس سے قبل اور بعد یہ اعزاز جموں وکشمیر کے کسی اور قلم کار کے حصے میں نہیں آیا۔ ترنم ریاض تا دمِ حیات، وزارت ثقافت (حکومت ہند) کی ’سینئر فیلو‘ کی حیثیت سے بھی سرگرم رہیں۔ترنم ریاض نے  ہندوستان  کے کئی صوبوں کے تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے علاوہ مختلف ممالک میں ’سارک ‘ کے کئی ’لٹریری فیسٹول میں اجلاس کی صدارت کی اور اپنی شعری اور نثری تخلیقات بھی پیش کیں۔ 2005 میں اسلام آباد پاکستان میں منعقدہ ’ورلڈ اردو کانفرنس ‘ میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 2010 میں کراچی پاکستان میں ہونے والے ’امن کی آشا‘ لٹر یری فیسٹول میں بھی ترنم ریاض نے شرکت کی۔ 2011 میں انھوں نے کناڈا میں ’انڈین رائٹرس فیسٹول ‘میں لیکچر دیا اور کولمبیا یونیورسٹی میں اپنی شعری تخلیقات سے سامعین کو مسحور کیا۔ مرزا غالب، قرۃالعین حیدر، وارث علوی پر ان کے لیکچرس یادگار مانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق، تصوف، تانیثیت اور مشترکہ تہذیب کے موضوعات پر ان کے مضامین خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ترنم ریاض ایک عمدہ شاعرہ بھی تھیں اور کشمیر کی معاصر شاعرات رخسانہ جبیں اور شبنم عشائی کی طرح وہ بھی ملکی اور بین الاقوامی مشاعروں میں مدعو کی جاتی رہیں۔

ترنم ریاض کو ہندوستان، پاکستان اور کناڈا کے علاوہ قطر اور ریاض ( سعودی عرب ) میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ ترنم ریاض کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، مثلاً پرانی کتابوں کی خوشبو، بھادوں کے چاند،  زیرسبزہ محوِخواب وغیرہ۔ ترنم ریاض کی شاعری کے مزاج اور معیار کا اندازہ ان کی ایک غزل کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے          ؎

میں درد جاگتی ہوں زخم زخم سوتی ہوں

نہنگ جس کو نِگل جائے ایسا موتی ہوں

وہ میری فکر کے روزن پہ کیل جڑتا ہے

میں آگہی  کے تجسس کو خون روتی ہوں

مری دعا میں نہیںمعجزوں کی تاثیریں

نصیب کھولنے والی میں کون  ہوتی ہوں

شجر کو دیتی ہوں پانی تو آگ اُگلتا ہے

میں فصل خار کی چُننے کو  پھول بوتی ہوں

 فضا میں پھیل گیاہے،تری زبان کا زہر

میں سانس لینے کی دُشواریوں پہ روتی ہوں

ترنم ریاض کے ادبی اعمال نامے میں تقریباً بیس تصنیفات شامل ہیں۔ ترنم ریا ض نے دو ناول لکھے ہیں۔پہلا ناول ’مورتی ‘ کے نام سے 2004 میں شائع ہوا۔  جس میں ایک حساس (مجسمہ ساز )عورت کی نفسیاتی کشمکش اور شوہر کے رویے کے سبب ’انا‘کی شکستگی کو بڑی سادگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اگر ’مورتی‘ کو ابتدائی تانیثی ناولو ں میں شمار کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ترنم ریاض کا دوسرا ناول ’برف آشنا پرندے ‘پہلی بار 2009  میں شائع ہوا اور اب تک اس ناول کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ترنم ریاض کے مختصر ناولوں کا ایک مجموعہ 2005 میں ’فریبِ خطائے گُل‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں: یہ تنگ زمیں (1998)، ابابیلیں لوٹ آئیں گی(2002)،  یمبرزل (2004)، مرا رختِ سفر(2008)

اردو فکشن کے معتبر نقاد وارث علوی نے اپنی کتاب ’گنجفہ باز ِخیال ‘میں لکھا ہے :

’’ترنم ریاض ایک غیر معمولی صلاحیت کی افسانہ نگار ہیں۔ترنم ریاض کے یہاں اچھے افسانے اتنی وافر تعداد میںملتے ہیں کہ ہمواری اور ثروت مند ی کا احساس ہوتا ہے۔ترنم ریاض کی ایک بڑی خوبی ان کی فن کارانہ شخصیت کی سادگی ہے۔ ان کے یہاں کوئی  Artistic Pretensions نہیں،کوئی بلند بانگ دعوے نہیں،کوئی تکنیک کی طراریاں نہیں۔کہیں نظر نہیں آتا کہ استعارے، علامتیں  اور اساطیر مُنہ میں سو کینڈل پاور کا بلب لیے جلوہ افروزہیں۔  ان کے یہاں کاوش اور کاہش کی جگہ برجستگی اور بے ساختگی ہے ‘‘۔           ِ

 ترنم ریاض کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی ’ اجنبی جزیروں میں ‘کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ ترنم ریاض ساہتیہ اکیڈمی، منسٹری آف کلچر اور ادبی سمیناروں کے لیے تنقیدی مضامین بھی لکھتی رہیں۔ان مضامین کو انھوں نے ’ چشمۂ نقشِ قدم‘کے نام سے ترتیب دیا تھا،لیکن بحیثیت مجموعی میرے خیال میں ترنم ریاض کو ان کے شاہکار کشمیر مرکوز ناول’برف آشنا پرندے ‘ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ برف آشنا پرندے،کشمیری سائیکی، سماج اور ثقافت کا رزمیہ ہے۔ اکیسویں صدی میں یوں تو ’نا دید‘ (جوگندر پال )، چاندنی بیگم (قرۃالعین حیدر )، مکان (پیغام آفاقی )، مسلمان (مشرف عالم ذوقی )، اور دویہ بانی ( غضنفر ) اور برف آشنا پرندے کے بعد یا ساتھ ساتھ جو کئی شاہکار ناول منظر عام پر آئے مثلاً ’اماوس میں خواب‘ ( حسین الحق)، جہاں تیرا ہے یا میرا (عبدالصمد )، فائر ایریا (الیاس احمد گدی )، عندلیب بر شاخ شب (شائستہ فاخری )، کہانی کوئی سناو متاشا (صادقہ نواب سحر )، خواب سراب (انیس اشفاق )، ندی(شموئل احمد )، بُلہا کیہ جاناں میں کون ‘(ذکیہ مشہدی ) اور شبیر احمد کے ’ہجور آما‘ سے لے کر محسن خان کے ’ اللہ میاں کا کارخانہ ‘ تک ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ ناول سامنے آئے لیکن ان میں ترنم ریاض کے ناول ’بر ف آشنا پرندے ‘کا انفراد و امتیاز یہ ہے کہ اس ناول میں پہلی بار سِکھ دور سے لے کر ڈوگرہ دور تک کے جبر اور صبر کے واقعات کمال فنی و جمالیاتی در و بست کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ تاریخی،سیاسی،سماجی اور ثقافتی نشیب و فراز اور انتشار و بحران نے کشمیری عوام کی نفسیات،جذبات اور محسوسات پر کس قدر منفی اثرات مرتب کیے ہیں،ترنم ریاض نے اس کی تصویر کشی ناول کے کرداروں،شیبا،پروفیسر دانش، پروفیسر شہاب، نجم خان، سلیم میاں،ثریا بیگم،سیمیں، خدا بخش، سکینہ بیگم اور باب صاحب وغیر ہ کے حوالے سے بڑی خوبی سے کی ہے۔ ترنم ریاض نے کشمیر کے مختلف طبقوں کے ان کرداروں کے شعور اور لاشعور میں اتر کر،لا محدود امکانات کے ساتھ جس طرح ان کاImpersonal Narration کیا ہے اس کی بنا پر برف آشنا پرندے کی موضوعی پرواز کشمیر سے شروع تو ہوتی ہے لیکن اس کا آسما ن آفاقی ہے۔اس ناول میں ’بیانیہ ‘کا ایسا منفرد روپ ملتا ہے جس میں کردار کی خارجی زندگی سے کہیں زیادہ داخلی زندگی کی وضاحت کی گئی ہے۔ ترنم ریاض نے کشمیر اور اہل کشمیر کے تئیں استحصالی قوتوں کے Colonial Attitude کے خلاف اہل کشمیر کی احتجاجی سوچ کا  اظہار اس طرح کیا ہے:

’’عجب محرومی تھی اس وادی کی معصومیت اور سادگی کی، کہ کوئی دوسرے خطوں سے اور کوئی سمندر پار سے آکراس کی قسمت کا مالک ہو جاتا تھا۔افغانوں اور سکھوں نے اگر کوئی کسر چھوڑی تھی تو وہ ڈوگرہ راج میں پوری ہو گئی۔‘‘ (ص 259)

آزادی سے قبل کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے گئے، ویسے مظالم ’ابو غریب‘ کے عقوبت خانوں میں امریکیوں نے عراقیوں پر بھی نہ ڈھائے ہوںگے۔اس کا اندازہ ’گلگِت بیگار ‘کے حوالے سے درج ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے :

’’۔۔۔۔گلگت ‘ ریاست جموں کشمیر کی آخری سرحد تھا۔۔۔۔ جہاں بد نصیب کشمیریوں کو (بیگار کے لیے )سالم و ثابت بھیجا جاتا تھا،اور اکثر ان کے جسم کا ایک ٹکڑا یعنی ’سر‘ واپس آتا تھا،بہت سے سر،لاریوں میں ٹُھنسے ہوئے بے شمار سر۔بچ گئے افراد کی لاشوں کی بجائے اُن کے مجبور و مظلوم وارثوں کے حوالے ان کے عزیزوں کے ’سر ‘ کیے جاتے تھے کہ کوئی کیوں غلام قوم کے لواحقین کی سالِم لاشیں ان کے حوالے کرتا اور وہ انھیںصحیح طرح سپرد خاک کرکے اپنے مجروح سینوں پر جدائی کی سِل رکھ لیتے۔‘‘(ص261)

برف آشنا پرندے میں ترنم نے کشمیر کی تاریخ نہیں دُہرائی ہے بلکہ تاریخی حقائق کی تہوں کو کھولا ہے اور جو کچھ ہاتھ آیا ہے انھیں گرفت میں لے کر بڑی مہارت کے ساتھ ناول کے اصل موضوع کی طرف لوٹ آئی ہیں۔ لیکن ناول کے بیانیہ کو آگے بڑھانے اور اپنے نقطہ نظر کو مستحکم کرنے کی غرض سے کشمیر کی دلدوز تاریخی جہات کو بھی مزید واضح بھی کرتی گئی ہیں:                                                ’’سن انیس سو اکتیس سے لے کر سن چھیالیس تک کشمیر کی عوامی تحریک نہ صرف برِصغیر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لی گئی تھی۔‘‘ (ص 260)

’’اس تاریخی حقیقت سے چشم پوشی کی جاتی ہے کہ جب سرحدوں پر قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا،وادی کشمیر پُر سکون تھی، غیر مسلم اقلیتیں،مسلم اکثریت کے حفظ وامان میں شادماں تھی۔پوری وادی میں لوگ ٹولیاں بنا بنا کر عوام کو صبر و تحمل کی تلقین کر رہے تھے۔     

حملہ آور خبردار،ہم کشمیری ہیں تیار      

شیرکشمیر کا کیا ارشاد،ہندو مسلم  سکھ اتحاد۔‘‘ ( ص272)

آزادی سے پہلے،پُرکشش نعروں اور وعدوں سے پوری ریاست گونج رہی تھی:             

 1  ’’سرداری عوام کا حق ہے۔یہ ملک ہمارا ہے،اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔‘‘شیخ محمد عبداللہ(ص 269)

2  ’’کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں‘‘۔ جواہر لعل نہرو(ص 270)

3   ’’اب جب کہ پورا برِ صغیر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوب گیا ہے،مجھے کشمیر سے روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔ مہاتما گاندھی۔ (ص 272)

ترنم ریاض اردو اور ہندی ادبیات کے علاوہ مغربی ادبیات کے بھی جدید ترین تخلیقی رویوں، رحجانات اور نظریات کا گہرا شعور رکھتی تھیں۔اسی لیے ان کی تخلیقات میں، خواہ وہ شاعری ہو یا افسانہ،ناول ہو یا سماجی یا تنقیدی مضامین،ہر جگہ ان کی فکریات،اظہار و بیان اور اصناف کے فنی و جمالیاتی تقاضوں کے برتائو میں اجتہاد اور آزادہ روی کے عناصر کا غلبہ نظر آتا ہے۔دراصل ترنم ریاض کے ادبی سفر کا زمانہ1980کے آس پاس سے شروع ہوتا ہے۔یہ وہ زمانہ ہے جب اردو میں سوسئیر کے نظریۂ لسان اور رولاں بارتھ اور دریدا کے ساختیات،پس ساختیات اور ردِ تشکیل وغیرہ نظریات کے زیر اثر جدیدیت کا رحجان مجہول اورمابعد جدید تصور مضبوط و مستحکم ہورہا تھا۔ عالمی سطح پر تخلیقی اور تنقیدی ادب میں داخلی اور خارجی ہر اعتبار سے اجتہاد اور تجربہ پسندی کا رحجان عام ہو رہا تھا۔خاص طور پر گیبریل گارسیامارکیز کے ناول’تنہائی کے سو سال ‘ کی مقبولیت، اور روسی ہئیت پسندوںجیکوبسن اور شکلووسکی کے علاوہ  جولیا کرسٹیوا  وغیرہ کے، ’ادب میں زبان کی کار کردگی‘ اور ’ادب کی ادبیت ‘ جیسے نظریات کی مقبولیت کے بعد عالمی سطح پر (تخلیقی اور تنقیدی )ادب میں تعمیری اور انسان دوست بصیرت مندی کو برتنے کا جو رحجان عام ہوا، اردو میں اس کی عمدہ مثالیں قرۃالعین حیدر اور لالی چودھری کے بعد ترنم ریاض کے یہاں بھی ملتی ہیں۔اگر’ برف آشنا پرندے‘ اور ترنم ریاض کی دیگر تخلیقات کی بھی سنجیدہ قرأت کی جائے تو ادب عالیہ سے متعلق یہ بات درست معلوم ہوگی کہ کسی بھی فن کار کے فن کے انفراد اور اعتبار کا ایک جواز یہ بھی ہوتا ہے کہ جس معاشرے اور ثقافت کے حوالے سے اس فن کار کا فن پارہ ( ناول،افسانہ، نظم یا شعر ) لکھا گیا ہے، اس معاشرے کی سائیکی اور ثقافت کی ’تعمیر نو‘ کے امکانات بھی اس فن پارے میں موجود ہوں۔ اس اعتبار  سے بحیثیت مجموعی ترنم ریاض کا فن (فکشن،شاعری اور مضامین )کشمیری سائیکی کا بے باک ترجمان توہے ہی، ساتھ ہی فکری اعتبار سے اہلِ کشمیر / قارئین کو،کشمیر کی ’تعمیر نو‘کے امکانات سے رُو برو کرنے کی کامیاب کوشش سے بھی عبارت ہے۔  

Quddus Javed

Ex. Head Dept of Urdu

Kashmir University- 190006 (J&K)

Mob.: 9419010472

 

 


 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں