3/9/21

اکیسویں صدی میں اردو فکشن تنقید - مضمون نگار: نظیر احمد گنائی

 



فکشن کی اصطلاح گو کہ ناولوں اور افسانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، تاہم اس کا اطلاق تھیٹر، فلموں، ٹیلی ویژن ڈراموں پر بھی ہوتا ہے۔ یہاں پر فکشن ناول اور افسانے پر لکھی جانے والی اہم تنقیدی نگارشات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اکیسویں صدی میں اردو فکشن تنقید کا منظر نامہ سامنے آ سکے۔ساتھ ہی موجودہ دور کے فکشن نگاروں کی پہچان بھی ہوجائے گی۔

اردو فکشن تنقید کے ابتدائی نقوش مغربی نقادوں کے یہاں ملتے ہیں۔ان نقادوں میں سب سے پہلے ہومرکا نام اول درجہ کا اہمیت رکھتا ہے۔ایسے نقاد بہت کم ملیں گے جنھوں نے فکشن کی تنقید لکھی ہو۔ہومر کے بعدیہ سلسلہ دریداتک جاری رہا۔مغرب کے بعد اس نے مشرق کا رُخ کیااور ترقی کے منازل طے کیے۔فکشن کی تنقید میں بھی ادب کی دیگر اصناف کی طرح روز اول سے تجربے ہوتے آرہے ہیں۔ اکیسوی صدی کا فکشن نفسیاتی کشمکش، معاشی بدحالی، جنسی بے راہ روی اور سماج میں پھیلی برائیوں پر زور دیتاہے۔ ادیب علامتوں، اشاروں اور  رمزوکنایہ کے ذریعے اپنی بات قارئین تک پہچانے کی کوشش کرتا ہے۔دور حاضر میں اردو تنقید کے تعلق سے پروفیسر صغیر افراہیم لکھتے ہیں:

’’اکیسوی صدی کی تنقید کا تقریباً ہر دبستان’’قاری اساس ‘‘ہے۔اب مطالعۂ متن میں خالق کے بجائے اس کے قاری کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ بلکہ Stanley Fish  تو اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے اس کے نزدیک کاغذ پر لکھی گئی تحریر صرف قرات میں ہی با معنٰی بنتی ہے اور قاری اپنی قرات سے متن موجود بناتا ہے۔مصنف اساس یا موضوعاتی تنقیداب رفتہ رفتہ قاری اساس مطالعہ کے لیے جگہ خالی کر رہی ہے اور متن کی قرات کے حوالے سے مطالعۂ ادب کے نئے دبستان وجود میں آ رہے ہیں۔‘‘ (معاصر فکشن کی تنقید :  زبان کے حوالے سے)

انسانی زندگی جس شکست وریخت، پیچ و خم اور انقلاب سے دو چار ہوتی ہے اس کے اظہار کا سب سے بہترین وسیلہ بننے کی صلاحیت اگر کسی صنف میں ہے تو وہ ناول ہے کیونکہ ناول معاشرہ،فرد اور ذات کے نہ صرف خارجی عوامل و عناصر کو پیش کرتا ہے بلکہ تضاد وتصادم اور اس کے محرکات کو بھی اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ زندگی اور معاشرے سے گہرے تعلق کے باوجود ناول کو اپنے وجود اور اہمیت کے لیے ہر دور میں سنگھرش کرنا پڑا ہے۔دور حاضر میں جن معروف اردو ناول نگاروں نے، ناول کو زندہ جاوید کر دیا ان میں کچھ نام یہاں قابل ذکر ہیں۔ رحمن عباس (نخلستان کی تلاش،روحزن )، نورالحسنین (ایوانوں کے خوابیدہ چراغ)، عبدالصمد (بکھرے اوراق،  یادوں کی سیاہی ، شکست کی آواز )، ترنم ریاض (بر ف آشنا پرندے )، شمس الرحمن فاروقی (کئی چاند تھے سر آسماں)، پیغام آفاقی (پلیتہ )، اقبال متین(چراغِ تہِ داماں)، مشرف عالم ذوقی (نالۂ شب گیر، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ)، (شفق) بادل، قابوس) شائستہ فاخری (نادیدہ بہاروں کے نشان، صدائے عندلیب برشاخ شب)، غضنفر(وش ماتھن،  شوراب)، (مانجھی )صلاح الدین پرویز  (دی وار جرنلس)جتندربلو (وشواس گھات )ثروت خان (اندھیرا پگ )،محمد علیم (میرے نالوں کی گمشدہ آواز)، شموئل احمد (مہاماری، اے دل آوارہ )ڈاکٹر اختر آزاد (لیمی نیٹیڈ گرل)، احمد صغیر (جنگ جاری ہے )، صادقہ نواب سحر (کوئی کہانی سناؤ متاشا)، آچاریہ شوکت خلیل (اگر تم لوٹ آتے)، افسانہ خاتون (دھند میں کھوئی روشنی)، نسرین ترنم (ایک اور کوسی )، آشا پربھات (دھند میں آگا پیڑ )، انیس اشفاق (دکھیاری )، شبر امام (جب گاؤں جاگے)، ظفر عدیم (انجو شوفر )، علی امجد (کالی ماٹی)، غیاث الدین (زوال آدم خاکی )وغیرہ۔

اکیسوی صدی کی شروعات سے ہی اردو ناول کا مطالعہ اوردائرہ تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔اردو ناولوں کا ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں ترجمے کا عمل زور و شور سے ہو رہا ہے۔ساتھ ہی حالیہ برسو ں کے دوران ناول کے فن اور تنقید کے مباحث میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملاہے۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ناول سب سے زیادہ زیر بحث صنف کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔اس حوالے سے کئی کتابیں اور بہت سارے مضامین یا مقالات ہمارے سامنے آئے ہیں جن میں اکیسویں صدی کے ناولوں پر تنقید پیش کی گئی ہو۔ان کتابوں اور مضامین میں سے چند کاتذکرہ یہاں قابل ذکر ہے۔کتابیں، جیسے پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی کی مرتب کردہ کتاب (معاصر اردو ناول) ، ناز قادری (اردو ناول کا سفر )، محمد کامران شہزاد (فکشن اور تنقید کا تازہ اسلوب)،  ڈاکٹر منصور خوشتر (اردو ناول کی پیش رفت)، رحمن عباس کی ترتیب کردہ کتاب (اکیسوی صدی کی دہلیز پر اہم اردو ناول)، مضامین، جیسے مشرف عالم ذوقی (اردو ناول کی گم ہوتی ہوئی دنیا)، پروفیسر مناظرعاشق ہرگانوی (ہم عصر اہم ناولوں کے تنقیدی شذرات)، (اکیسوی صدی میں اردو ناول)، محمد حمید شاہد ( معاصر اردو فکشن :  ہیئت اور اسلوب کے تجربے )،( فکشن کی تنقید میں تفہیم کا کردار )، پروفیسر اسلم جمشید پوری (2018 کا فکشن اور فکشن تنقید۔ ایک جائزہ)، شہناز رحمن (اردو ناول میں اسلوب کے تجربے)،  شہاب ظفر اعظمی (اکیسویںصدی میں اردو ناول:  ایک تنقیدی مطالعہ )، ڈاکٹر صلاح الدین درویش (اکیسویں صدی کی دو سری دہائی کے دس بڑے ناول) وغیرہ ۔

مندرجہ بالا کتابوں میں اردو ناول پر جو تنقیدی آرائ پیش کی گئی ہیںوہ قابل ستائش ہیں۔ان ادیبوں نے ناول کے فن پر بات کی ہے اور ناول میں غیر ضروری چیزوں پر کسی جگہ اعتراض کیا ہے اور کسی جگہ کھل کر تنقید کی ہے۔ فنی لوازمات میں زبان وبیان، اسلوب،کردار نگاری، مکالمہ نگاری،منظر کشی اور نقطۂ نظر،ان سبھی اجزائ کا بغور مطالعہ کر نے کے بعدان نقادوں نے اپنے تنقیدی خیالات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔اسی طرح مندرجہ بالا مضامین میں ناول کا فن،ناول کا اسلوب اورناول کی تکنیک پر بحث کرتے ہوئے ادیبوں نے اپنے خیالات پیش کیے ہیں اور ساتھ ہی بعض جگہوں پر تنقیدی رائے بھی پیش کی ہے۔فکشن کے نقاد کہیں کہیں تضاد کا شکار بھی ہوئے ہیں کسی نے ناول کو پرکھ کر اسے اہمیت دی ہے تو کسی نے فن پر اعتراضات کرکے اسے ردکیاہے۔

بدلتے وقت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اس بدلتے دور میں داستان کا رواج ختم ہوا،ناول کا عروج دیکھا گیا۔اس ٹکنالوجی کے دور میں ناول پڑھنے کا چلن بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔دورحاضر میں مختصر کہانی نے جنم لیا اور مقبولیت پائی اور لوگوں نے اس کو بے حد پسند کیا کیونکہ یہ ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکتا ہے اور سامعین یا قارئین کے ذہن پر ایک تاثر چھوڑ دیتا ہے۔افسانے نے برصغیر میں ایک صدی تک راج کیا۔ اس میں نئے نئے تجربات ہوئے، موضوعات کا تنوع پایا گیا،کہانی پن کی کمی بھی دور کی گئی۔

رواں صدی میں جن افسانہ نگاروں نے بہترین افسانے لکھے ساتھ ہی ان افسانوں کے مجموعے بھی منظر عام پر لائے۔ان افسانہ نگاروں میں مرد و زن دونوں شامل ہیں جنھوں نے شاہکار افسانے لکھ کر اردو فکشن کو ایک اعلیٰ مقام بخشا۔ 2000 سے لے کر اب تک بے شمار افسانہ نگار منظر عام پر آئے اور قارئین کے پیش نظر لاتعداد افسانوی مجموعے لا کر داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ چند مشہور و معروف افسانہ نگاروں کے نام یہاں قابل ذکر ہیں۔ ترنم ریاض (ابابیلیں لوٹ آئیں گی)، آنند لہر (انحراف)، سریندر پرکاش (حاضر حال جاری)، فہمیدہ ریاض (خط مرموز)، انیس رفیع (کرفیو سخت ہے )، پیغام آفاقی (مافیہ )، عبدالصمد (میوزیکل چیئر)، دیپک کنول (ہم تیرے ہو گئے)، اقبال مجید (تماشا گھر)، ذکی مشہدی (صدائے باز گشت )، ایم مبین (نئی صدی کا آغاز )، نور شاہ (بے ثمر سچ )، زاہد مختار (جہنم کا تیسرا کنارہ )، بیگ احساس (حنظلہ )،  پرویز شر یار (بڑے شہر کا خواب )، مسرور جہاں (پل صراط)،غضنفر(حیرت فروش )عابد سہیل (غلام گردش )،  نشاں زیدی (آنگن میں چاند)، تبسم فاطمہ (تاروں کی آخری منزل)، شبیر احمد (چوتھا فن کار)، رابعہ الربا(رات کی کہانی )، سلام بن رزاق (زندگی افسانہ نہیں)،  رشیدامجد (صحرا کہیں جسے)، نور الحسنین (فقط بیان تک )، مسرورتمنا (مہکتے خواب )، مسعود جامی (ہم تو دبے ہیں صنم )، افشاںملک (ا ضطراب)، دیپک بدکی (اب میں وہاں نہیں رہتا )،سلیم خان (لہو لہو منظر )، ناصر عباس نیر (خاک کی مہک)،سلمیٰ صنم(قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں )، بشیر مالیرکو ٹلوی (فکریں )، شموئل احمد(کوچۂ قاتل کی طرف)، کہکشاں پروین (مور کے پاؤں)، عشرت ظہیر(خوابوںکا قیدی)، مشتاق احمد وانی (کیا حال ہے جاناں)،احمد حسنین (میری چاہت کی گلاب )،ارشد منیم (خون کا رنگ )، طارق شبنم (گمشدہ دور) وغیرہ ۔

تنقید ادب پارے کی شناخت اور پہچان قائم کرنے میں اہم کردار نبھاتی ہے۔کیونکہ جب تک ادب پارے میں فنی خوبیوں اور خامیوں کی نشاند ہی نہ کی جائے تب تک اس ادب پارے کی اہمیت کاا ندازہ لگا نا مشکل ہوتا ہے۔ہر تخلیق کا ر کے ذہن میں تخلیق سے متعلق بھی شعور کی کوئی سطح ضرور ہوتی ہے۔ اکیسویں صدی میں ادیبوں نے اردو افسانے پر تنقید ی کتابیں لکھیں ہیں یا بہترین مضامین لکھے ہیں جن میں انہوں نے اردو افسانے پر اپنے تنقیدی خیالات کا برمحل اظہار کیا ہے۔دورحاضر میں اردو فکشن تنقید پر جو کتابیں یا مضامین لکھے گئے ہیں ان کی فہرست درج ذیل میں پیش خدمت ہے۔کتابیں جیسے :  پروفیسر اسلم جمشید پوری (جدیدیت اور اُردو افسانہ ،ترقی پسند اُردو افسانہ اور چند اہم افسانہ نگار )، پروفیسر صغیر افراہیم  (اردو فکشن:تنقید اور تجزیہ )،ڈاکٹر احمد صغیر (اردو افسانے کا تنقیدی جائزہ 1980 کے بعد )،  ڈاکٹر ریاض توحیدی (معاصر اردو افسانہ :تفہیم و تجزیہ(جلد اول)، ڈاکٹر احمد صغیر (بہار میں اردو فکشن۔ ایک تنقیدی مطالعہ )، ڈاکٹر نوشاد منظر (افسانہ اور افسانہ نگار،( ترتیب)) ڈاکٹر شہناز رحمن (اردو فکشن تفہیم،تعبیراور تنقید)،ڈاکٹر نعیم انیس (اردو کی معروف خواتین افسانہ نگار اور ان کی خدمات، اکیسویں صدی میں اردو افسانہ (مرتب)،ارشاد سیانوی (نئی صدی میں اردو افسانہ )،محمد حمید شاہد(اردو افسانہ اور افسانے کی تنقید)وغیرہ۔

مضامین جیسے:  شہنازرحمن (احمد ندیم قاسمی کے افسانے میں عورت )، رضوان بن علائ الدین (احمد ندیم کے افسانوں میں دیہات)، پروفیسر اسلم جمشید پوری (2017کا فکشن اور فکشن تنقید :  ایک جائزہ)، مسعود جامی (اردو افسانے کے رجحانات)، پروفیسر صغیر افراہیم (جدید  اردو افسانے کے امتیازات )، محمد حمید شاہد(فکشن کی تفہیم میں تنقید کا کردار(کراچی )، شہناز رحمن (اردو فکشن میں عالمی مسائل)،  سلمان بلرام پوری (معاصر اردو فکشن کا منظر نامہ )،گوپی چند نارنگ (نیا افسانہ  : روایت و انحراف اور مقلدین کے لیے لمحۂ فکریہ )، ڈاکٹر نوشاد منظر (انتظار حسین اور افسانے کی تنقید )۔

اس ٹکنالوجی کے دور میں اردو فکشن تنقید نے بھی ترقی کی اور زور و شورسے ادیبوں نے فکشن تنقید کی رفتار میں اضافہ کیا۔ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں پر کتابیں، مضامین کے مجموعے،ناولوں اور افسانوں کے انتخاب، ناولوں پر تجزئیے،افسانوی تذکرے،ناولوں کے تقابلی مطالعے، افسانوں کے تقابلی مطالعے وغیرہ مختلف نوعیت کی فکشن تنقید منظر عام پر آرہی ہے۔اکیسویں صدی کی آمدسے پہلے فکشن تنقید لکھنے والوں میں پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسرگوپی چند نارنگ،پروفیسر شمس الرحمن فاروقی،وارث علوی اور انور سدید وغیرہ قابل  قدر ہیں۔ان کے بعد جن ادیبوں نے فکشن تنقید کی روایت کو آگے بڑھایا ان میں ابوالکلام قاسمی، شمس الحق عثمانی، ارتضیٰ کریم،عظیم الشان صدیقی،علی احمد فاطمی،صغیر افراہیم،  قمر الہدیٰ فریدی،مبین مرزا، اعجاز علی ارشد،ظہور الدین، قدوس جاوید،سلیم آغا قزلباش،اسلم آزاد،خالد علوی،صبا اکرام اورخالد اشر ف وغیرہ۔ ان کے علاوہ دورحاضر میں فکشن تنقید لکھنے والوں کے ایک گروہ نے اس کے مقام کو بام عروج تک پہنچایا، جن میں خاص کر درج ذیل نام قابل ذکر ہیں :  مشرف عالم ذوقی،ترنم ریاض،نگار عظیم، حقانی القاسمی، ہمایوں اشرف، اسلم جمشید پوری، احمد صغیر، شہاب ظفر اعظمی، مولا بخش،خورشید حیات، راشد انور راشد،  فوزیہ اسلم،نعیم انیس،محمد اسلم پرویز،نجمہ رحمانی، صاحب علی، کہکشاں پروین، ریاض توحیدی، عشرت ناہید، اسما نینی، فرقان سنبھلی،الطاف انجم،مشتاق احمد وانی، ابو بکر عباد، بشیر مالیر کو ٹلوی،نشا ں زیدی، تحسین گیلانی، سلمان عبدالصمد، رابعہ الربا،ضیا اللہ نور،غضنفر اقبال،محمد نسیم جان، غالب نشتر،احمد طاریق،تسلیم فاطمہ امروہوی، ارشد اقبال، شہناز رحمن، جاوید انور،منصور خوشتر،ارشاد سیانوی، صالح رشید، مہنازعبید،رضوانہ پروین،محمد حمید شاہد،رضوان بن علا الدین، ڈاکٹر نوشاد منظر،سلمان بلرام پوری وغیرہ۔

  مجموعی طور پر اگر اردو فکشن پر بات کی جائے گی تودو رحاضر میں جس طرح فکشن لکھنے والوں کا گروہ سامنے آیا ہے اسی طرح فکشن تنقید لکھنے والوں کی بڑی تعداد بھی ابھر کر منظر عام پر آئی۔ فکشن تنقید لکھتے ہوئے ادیبوں نے ناولوں میں بیان کیے گئے مسائل اور مو ضوعات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ان ادیبوں نے موضوعات کے علاوہ ناول کی فنی جزئیات پر بھی اپنے تنقیدی نگارشات پیش کیے ہیں۔ جیسے پلاٹ، کردارنگاری، مکالمہ نگاری، منظر نگاری،نقطۂ نظراور زبان و بیان پر بھی الگ الگ تجزیہ کرکے ہر جز میں وضاحت کے ساتھ خوبیوں اور خامیوں کو اُجاگر کیا ہے۔

دور حاضر میں اردو افسانے پر جو تنقید لکھی جارہی ہے وہ دراصل تنقید کم تجزیہ زیادہ نظر آتی ہے۔ کیونکہ شخصیت پرستی ادب کی طرف مائل ہوتی جارہی ہے۔ پھر بھی ایسے بہترین نقاد موجود ہیں جو حق کی بات کرتے ہیں اور بڑے بے باک انداز میں ادب پارے کی خامیوں اور خوبیوں کو پرکھ کر اس پر اپنی تنقیدی رائے پیش کرتے ہیں۔


Nazir Ahmad Ganai

S/O: Gh Hassan Ganai

R/O: Frisal Kulgam - 192232 (J&K)

Mob.: 7889779687





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں