12/11/21

حیرت فرخ آبادی: ایک معتبر شاعر - مضمون نگار: نصیر افسر

 



جوہونہار طالب علم آٹھویں جماعت میں ہی شاعری کا آغاز کرے اور ایک نظم میں اپنے کلاس فیلو محمد آفاق کی دکھ بھری زندگی کی روداد لکھ دے وہ یقینا مستقبل میں ایک اچھا شاعر ہونے کا پتہ دیتا ہے۔یہ معاملہ کسی اور کانہیں بلکہ اس شاعر کا ہے جس کا اصلی نام جیوتی پرساد مصرا ہے اور اردو کا ادبی حلقہ اسے حیرت فرخ آبادی کے نام سے جانتا اور پہنچانتا ہے۔

حیرت فرخ آبادی صاحب کی پیدائش 8فروری 1930کو اتر پردیش کے ضلع بہرائچ میں ہوئی تھی۔ان کے والد محترم جناب متھرا پرساد مصرا ضلع فرخ آباد کے مشن ہائی اسکول میں دینیات کے استاد تھے اور نوزبانوں میں دسترس حاصل کی تھی۔کئی چرچوں کے پاسٹر بھی تھے۔ ان کے والد ایک حادثے کے شکار ہوئے اور1935 میں 41سال کی عمر میں اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔والد کے انتقال کے بعد ان کے خاندان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹو ٹ پڑا۔سب سے چھوٹا بھائی ڈیڑھ سال کا اور سب سے بڑی بہن 14 سال کی تھی۔سات بھائی بہنوں کی ذمے داری ان کی والدہ پر آپڑی۔جو خود بھی پلورسی کی بیماری سے ٹھیک ہوئی تھیں۔ چھوٹے بیٹے کو اسپتال کےBaby fold میں رکھوایا۔تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کو الگ الگ ہاسٹل میں ڈالا اور خود ہر دوئی میں لڑکیوں کے ہاسٹل میں میٹرنMetronکی نوکری کی۔چھٹیوں میں جب سارے بچے گھر پر ہوتے تو دووقت کا کھانا بھی مشکل سے ہوپاتاتھا۔اس انتہائی غریبی کی زندگی گزارنے میں حیرت  صاحب کو ایک دردمند دل کی آشنائی عطاہوئی جو ان کے پورے کلام میں جھلکتی ہے۔حساس اور دردمنددل نے حیرت  صاحب کو ایک بہت ہی نیک اور اچھا انسان بنایا اور اس غریبی نے ان کو قنوطی کے بجائے ایک رجائی شاعر بنادیا۔دوسروں کا دکھ درد ان کا اپنا دکھ درد ہوگیا۔ہائی اسکول اور انٹر پاس کرنے کے بعد 1952 میں حیرت صاحب اپنی منجھلی بہن کے پاس گورکھپور چلے گئے۔وہاں انہوں نے سینٹ اینڈ ریوز کا لج میں داخلہ لیا۔ انھیں انگریزی ادب، اردو ادب اور فلسفہ پڑھنے کا موقع مجنوں  گورکھپوری صاحب سے ملا۔تھوڑے ہی عرصے میں حیرت صاحب نے اپنے آپ کو مجنوں صاحب کی نظروں میں ایک محنتی طالب علم ثابت کرلیا تو مجنوں صاحب نے بھی پڑھائی کے سلسلے میں ان کی مدد کرنا شروع کردی۔ ایک دن حیرت صاحب نی اپنی نظم’ایک غریب طالب علم‘ کی اصلاح کرنے کی درخواست مجنوں صاحب سے کی تو انھوں نے کہا کہ بیٹا اصلاح سے شعر دوغلا ہوجاتا ہے۔ میری اصلاح کے بعد اس نظم میں 75 فیصد الفاظ اور خیالات میرے ہوجائیںگے اور تم 25 فیصد رہ جائو گے تو حیرت صاحب نے اُن سے کہا کہ ہم نئے لکھنے والے کیا کریں۔ انھوں نے کہا بیٹا اساتذہ کے کلام سے لائبریری بھری پڑی ہے وہاں روز جائو اور ڈھائی تین گھنٹے ان  کا کلام پڑھو۔ دوتین ہزار شعر یاد ہو جائیںگے اور تم خود اپنی غلطیاں سدھار لوگے۔جب فراق گورکھپوری صاحب چھٹیوں میںگورکھپور تشریف لاتے تو مجنوں گورکھپوری صاحب کی رہائش گاہ پہ گھنٹوں ادبی گفتگو ہوتی اور حیرت صاحب ان دونوں اساتذہ حضرات کی کار آمد گفتگو سے استفادہ کرتے اور درمیان میں ان کی خدمت بھی کرتے جاتے۔ اساتذہ کرام کی بے حد حوصلہ افزائی اور قارئین کی پذیرائی کے علاوہ خود کے ذوق وشوق نے حیرت صاحب کو اچھے نوجوان شعراکی صف میں لاکھڑا کیا جس سے آپ کے ذوق کی تسکین بھی ہوتی رہی اور شعر کہنے کے شوق کی مسلسل آبیاری بھی ہوتی رہی۔نتیجہ یہ ہوا کہ اتر پردیش کے مشاعروں کے علاوہ اطراف کی ریاستوں کے مشاعروں میں بھی مدعو کیے جانے لگے۔ آپ کی شاعری حقیقت پر مبنی اور عام فہم ہونے کی وجہ سے مقبولیت کو دعوت دینے لگی اور لوگوں کے دلوں میںاۡترتی چلی گئی۔

تلاش رزق آپ کو جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی لے آئی جہاں آپ نے 1960 میں شہر سے 15 کیلو میٹر دور واقع نیوری کے رہائشی اسکول وکاس ودیالیہ کے شعبۂ انگریزی کے ہیڈ کی حیثیت سے ملازمت شروع کی۔ آکاشوانی رانچی سے نشریات بھی شروع ہوگئیں اور بعد ازاں دوردرشن ودیگر چینلس سے بھی نشریات ہونے سے نئے شہر کے اردو حلقہ میں مقبولیت بڑھتی گئی۔ان جگہوں پر آنے جانے سی ریاست کے نامور شعرائے کرام جیسے پرکاش فکری، وہاب دانش، صدیق مجیبی، پرویز رحمانی، اسلم بدر، نظر رانچوی، اثررانچوی،  توحید رانچوی، شان بھارتی، رونق شہری،غیاث انجم، علی منیر، نصیر افسر، نہال حسین وغیرہ سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔

معروف ادبا ویونیورسٹی کے اساتذہ کرام میں پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسر انوار احمدخان،پروفیسر سمیع الحق، پروفیسر احمد سجاد، پروفیسر ابوذر عثمانی، پروفیسر سید شمیم الدین، پروفیسر منظر حسین، پروفیسرحسن مثنیٰ،پروفیسر عبدالقیوم ابدالی، پروفیسر کہکشاں پروین، پروفیسر ہمایوں اشرف کے علاوہ بے شمار ادب نواز حضرات سے رابطہ قائم ہوتا گیا جس سے احباب کا دائرہ بڑھتا ہی چلاگیا۔انھیں اس بات پر فخر ہے کہ پورے ملک میں ان کے احباب پھیلے ہوئے ہیں ادبا،شعراکے علاوہ قارئین کی ایک بڑی تعداد ہے۔

جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے تو آپ کا یہ ماننا ہے کہ آپ نے شاعری کے چار ادوار دیکھے ہیں یعنی روایت، ترقی پسندی، جدیدیت ومابعد جدیدیت۔چونکہ ان کی شاعری روایتی دور میں شروع ہوئی ہے اس لیے ان کی شاعری میں روایت کا پاس ولحاظ خصوصی طور پر نمایاں ہے۔ جیسے جیسے ادوار بدلتے گئے قدریں بھی بدلتی گئیں۔ یہ بات یقینی طور سے کہی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی شاعر ادوار کی تبدیلی اور زمانے کے بدلائو سے اچھوتا نہیں رہ سکتا ہے۔ وہ اپنے دور کی تلخیوں اور کرب ودرد سے ناآشنا نہیںرہ سکتاہے۔ وقت کی تبدیلی ہمیشہ حیرت صاحب کی شاعری پراثر انداز رہی ہے۔اس لیے وہ کہتے ہیں کہ           ؎

وقت کے ساتھ بدل جاتا ہے اندازسۡخن

شاعرآزاد ہے لہجے کئی اظہار کے ہیں

آپ کی کئی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں جن میں بطور خاص ’نوائے ساز دل‘،حس التماس اور اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو کر مقبول عام ہوا۔ہندی میں آپ کی کتاب ’جوکریدے گھائو من کے‘ نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے’حیرت فرخ آبادی،فن اور فنکار‘ مرتب کی جس میں پوری اردو دنیا کے نامور ناقدوں کے قریباً 45مضامین اور 20 خطوط اور ان کا منتخب کلام شائع کیا ہے جو حیرت صاحب کے کلام کی مقبولیت ثابت کرتاہے۔حیرت صاحب کئی سالوں سے انجمن بقائے ادب، رانچی(رجسٹرڈ)میں صدر کی حیثیت سے اردو ادب کی خدمت میںلگے رہے۔ تادم حیات یعنی اکیانوے سال کی عمر تک تمام مقامی مشاعروں، کوی سمیلنوں میں شرکت کرتے رہے۔اور کورونا وبا کے وقفے کو چھوڑ کر اب بھی روزانہ تین گھنٹے صبح اور تین گھنٹے شام کو متفرق کمپٹیشن میں بیٹھنے والوں کو اسکول کے لڑکے لڑکیوں کو انگریزی پڑھاتے رہے۔ میرا ان کا ساتھ1973سے ہے عمر میں وہ مجھ سے کئی سال بڑے ہیں لیکن ہمیشہ مجھے اپنے چھوٹے بھائی کی طرح پیار کرتے ہیں۔ میں ناقدتو ہوں نہیں لیکن ہندوستان  کے کئی مشہور ناقدین کے مضامین میںسے ایک ایک دود و جملے نقل کرنا چاہتاہوں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ مشاہیر ادب حیرت صاحب کی شاعری کے بارے کیا کہتے ہیں۔

ڈاکٹر فضل امام: ’’حیرت کی شاعری میں دھرتی کی سوندھی سوندھی خوشبو قلب ونظر کو سرور بخشتی ہے اور دل ودماغ کو فرحت عطا کرتی ہے۔ دراصل حیرت کی شاعری ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں فسانۂ ہستی کے مختلف عناوین اپنے سیاق وسباق کے ساتھ مل جاتے ہیں۔‘‘

شمس الرحمٰن فاروقی: ’’آپ کا کلام بہت خوب ہے یقیناً آپ نے اردو غزل کی روایت اور اس کے اصولوں کو پوری طرح حاصل کیا اور برتا ہے۔چونکہ آپ انگریزی زبان کے استادر ہے ہیں اور اس پرطرہ یہ کہ مجنوں گورکھپوری کے شاگرد بھی رہے ہیں،لہٰذا آپ کی شاعری میں روایتی مضامین سے پرہیز نظرآتاہے۔‘‘

وہاب اشرفی: ’’حیر ت زندگی کے جس موڑپر ہیں تجربے اور مشاہد ے کا ایک وسیع خزانہ فطری طور پر انہیں حاصل ہوچکاہے چنانچہ انھیں نئے مضمرات کو بس میں کرنے کی جہت غیر فطری نہیں بنتی اور وہ نئے امکانات سے باخبر ہوکر غزل کو تازہ بکا ربنا نے میں کامیاب نظرآتے ہیں۔ان کا ایک رخ انگریزی شعروادب کا گہر امطالعہ جس کے وہ ایک عرصے تک استاد رہے ہیں۔ایسے میںانہیں معلوم ہے کہ نئے ٹرینڈز(Trends)اور اس کے کیا مطالبات ہوتے ہیں۔لہٰذا ان کے کلام میں وہ عنصر سرے سے نہیں جسے ہم غیر متوازن کہہ سکیں۔‘‘

عبد القیوم ابدالی: ’’یہ دردوغم یہ شاعری حیرت اسی کی دین ہے ممنون ہوں مشکور ہوں کیا کیا دیا’دیوانگی

حیرت بھائی جس دیوانگی کی بات کررہے ہیں وہ بلاتفریق مذہب وملت انسان کا انسان سے حددرجہ پیار ہے جسے انھوں نے دیوانگی کا نام دیا ہے۔دیوانگی وہ بلا ہے جو دیواروں میں قید نہیں رہ سکتی۔فطرت نے ان کے خمیر میں نہ جانے کہاں کی مٹی ملاکر گوندھی ہے کہ کبھی صندل کی خوشبو آتی ہے، کبھی گلاب کی اور کبھی عود کی۔پھر بھی ان کی شاعری میں حزن ویاس کی ایک عجیب سی فضا کا احساس ساہوتاہے۔لگتا ہے جیسے شام کا ایک ملگجا اندھیرا ہرسو چھا یا ہوا ہے۔حیرت صاحب کی یہ دیوانگی انھیں اور ان کی شاعری کو ایک الگ پہچان عطاکرتی ہے۔‘‘

8فروری 2020 کو ہماری انجمن بقائے ادب اور حیرت صاحب کے خاندان نے مل کران کی 90 ویں سالگرہ کا جشن منایا۔اس تقریب میںجھارکھنڈہائی کورٹ کے جسٹس وکرم آدتیہ پرساد،رانچی یونیورسٹی کے سبکدوش وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹرانوار احمد خان، جھارکھنڈ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولس جناب کمل نین چوبے گورکھپور کے پروفیسر عبیداللہ چودھری اورراقم الحروف نے حیرت کی زندگی اور ان کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ لیکن صد افسوس کہ بر صغیر کا ایک مشہور ور معروف شاعر جناب جیوتی پرساد مصر، عرف حیرت فرخ آبادی کا 11 جولائی کی رات پونے بارہ بچے اپنے رہائشی مکان واقع کھوسلہ ہائوس ، نارتھ آفس پاڑہ، ڈورنڈہ ، رانچی میں انتقال ہو گیا۔ وہ دوران گفتگو اکثر مجھے کہتے تھے کہ میں تو اس دنیا سے جانے کے لیے تیار بیٹھا ہوں۔ انھوں نے اپنے دونوں بیٹیوں کو تاکید کر رکھی تھی کہ جب ان کا آخری وقت آئے ، طبیعت بگڑ جائے توکسی بھی ہسپتال میں داخل نہ کرایا جائے اور گھر پر ہی رہنے دیا جائے۔ ایسا انھوں نے اس لیے کہا تھا کہ 51 دنوں قبل  ان کی شریک حیات کا لمبی بیماری کے بعد انتقال ہو گیا تھا اور لاکھوں روپئے خرچ کرنے کے بعد بھی صحت یاب نہ ہو سکی تھیں۔

اب حیرت صاحب کااس طرح دار فانی سے کوچ کرجانا اردو ادب کا بڑا خسارہ ہے۔

 

Naseer Afsar

D-1, Friends Compound

Rahmat Colony, P.O: Doranda

Ranchi - 834002 (Jharkhand)

 

ماہنامہ  اردو دنیا، ستمبر 2021

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں