8/11/21

محرکِ تعلیم مصلحِ ملک و ملت نواب مشتاق حسین وقارالملک - مضمون نگار: ناشر نقوی


 


ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی 1857  کے دوران ملک کی مسلم آبادی میں تعلیمی شعور بیدارکرنے والی اہم ترین شخصیات میں نواب وقارالملک مشتاق حسین زبیری کا کلیدی رول رہاہے۔ آپ اپنے زمانے کے مشہور سیاست داں،مصلحِ قوم، ماہر تعلیم، مترجم اور منتظم تھے جن کی غیر معمولی صلاحیتوں کو پرکھ کر تعلیم اور ادب کے سرخیل سرسیداحمد خاں نے وقارالملک کو اپنی علی گڑھ تحریک کا علمبردار بنایاتھا۔ یہ وہ تحریک تھی جس کے زیرِ اثر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم ہوئی اور ہندوستانی مسلمانوں میں تعلیم کا شعور عام ہوا۔

نواب وقار الملک کے لقب سے مشہور،مشتاق حسین کے اجداد کا تعلق تومیرٹھ سے تھا لیکن ان کا ننہال امروہہ کارہا۔ آپ کی ولادت 24 ؍مارچ 1841  کو میرٹھ میں ہوئی، ابھی چھ مہینے ہی کے تھے کہ مشتاق حسین کے والد فضل حسین زبیری کا انتقال ہوگیا جس کے کچھ عرصہ بعد وقارالملک کی والدہ مقبول النسائ بیگم بیٹے کو لے کر امروہہ آگئیں اور اس طرح وقار الملک اپنے نانا کے گھرمحلہ شاہی چبوترہ کا حصہ بن گئے اور ان کا اپنا وطن امروہہ بن گیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بھی امروہہ ہی میں حاصل کی اور ابتدائی عملی زندگی بحیثیت ٹیچر بھی امروہہ سے ہی شروع کی۔

وقارالملک کا امروہہ سے جوعشق رہااس کے ثبوت ان کے وہ کارنامے ہیں جو امروہہ کی ترقی کی بنیاد کہے جاسکتے ہیں۔ آج امروہہ میں جوسرکاری ہسپتال،سرکاری کالج اور دہلی مرادآباد ریلوے لائن ہے وہ وقار الملک کی ہی محنت کا ثمرہ ہے۔جب پہلی بار 1902 میں دہلی مرادآباد ریلوے لائن ڈالی جارہی تھی تو اس کی تجویز قصبہ جویا سے قریب موجودہ این ایچ 24 کے ساتھ ساتھ تھی۔ اس پر وقارالملک کو اعتراض ہوا جو انھوں نے مرکزی حکومت تک کیا۔ ان کے احتجاج کو قبول کرتے ہوئے حکومت نے ریلوے کاموجودہ روٹ بنایا اور اس طرح امروہہ کو ریلوے لائن ملی تھی۔

وقارالملک کے شعور نے جب آنکھیں کھولیں تواس وقت ہندوستان انگریزوں کا غلام تھا اور ملک کی آزادی کے لیے پہلی تحریک 1857 اپنے شباب پرتھی، ادھرانھوں نے محسوس کیاکہ مسلمانوں میں تعلیم کا وہ چلن نہیں ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ انھوں نے پہلے خود اور پھر دوسرے لوگوں کو اردو فارسی کی رسمی تعلیم کے ساتھ انگریزی زبان سے وابستہ کیا۔ 1859 میں وقارالملک 18 ؍برس کی عمرمیں امروہہ کے تحصیل اسکول میں ٹیچر بن گئے لیکن یہ ملازمت عارضی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ضلع مرادآباد میں سخت قحط پڑا تھا اور سرسید احمد خاں ایک اعلیٰ افسر کی حیثیت سے مرادآباد آگئے تھے۔ وقارالملک کے پھوپھا منشی امام الدین اس وقت مرادآباد کے تحصیل دار تھے جن کے توسط سے وقارالملک سرسید احمد خاں سے قریب ہوئے اور قحط کوکنٹرول کرنے والے محکمے سے وابستہ ہوگئے۔ وقارالملک نے اس وقت بنائے گئے ’محتاج خانہ‘میں جو فلاحی کام کیے انھوں نے سرسید احمدخاں کا دل جیت لیاتھا۔

1865 میں وقارالملک کا تقررسررشتۂ تعلیم میں ہوگیا اور اب وہ براہِ راست سرسید احمد خاں کے دستِ راست ہوکر علی گڑھ منتقل ہوگئے،  جہاں ان کی صلاحیتوں کے جوہر کھلتے چلے گئے۔ سرسید احمد خاں نے مشتاق حسین پر بہت بھروسہ کیا اور ان کی سروس بُک میں انھوں نے لکھا:

’’منشی مشتاق حسین کی دیانت داری پر مجھے ایسا یقین ہے جیسا اپنی موت پر جس عہدے پر یہ شخص مامور ہے اس سے بہت زیادہ بڑے عہدے کی عمدہ قابلیت اس میں موجود ہے۔‘‘ (سیداحمد خاں:صدرالصدور)

منشی مشتاق حسین نے تیرہ برس انگریزی حکومت میں مختلف عہدوں پر رہ کر گزارے۔ ان کے اندربھی انگریزوں سے نفرت تھی اور عبادات سے محبت، اس لیے ایک انگریزافسر نے جب ان کی نماز پر اعتراض کیاتو حکومت کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا جس کے چرچے دکن کی حکومت تک پہنچے۔ مشتاق حسین کی جرأت، ہمت اور حمیت سے متاثر ہوکر حیدرآباد کے وزیراعظم سرسالار جنگ نے سرسیداحمد کی فرمائش پر مشتاق حسین کو حیدرآباد بلاکر سرکاری تنخواہ سے چار گنازیادہ مشاہرہ دے کردکن کی حکومت میں شامل کرلیا۔ 1875  میں مشتاق حسین سب سے پہلے ریاست دکن کے ناظم دیوانی مقرر ہوئے ان کی محنت، لگن اور ان کے حسن انتظام سے متاثر ہوکر سالار جنگ نے موصوف کو ایک ہی برس کے اندر گلبرگہ کا ’صدر تعلق دار‘مقرر کردیا۔ دس برس اہم عہدوں پر رہ کر مشتاق حسین دکن کے ایک صوبے کے گورنربن گئے اور اس طرح بعد کوپورے دکن کے ریونیوسکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔

دکن میں بہترین انتظامی کارکردگیوں کے لیے مشتاق حسین کو حکومت دکن کی جانب سے متعدد اعزازات اور خطابات سے بھی سرفراز کیاگیا۔ ان خطابات میں ’نواب وقارالدولہ‘، ’خاں بہادر‘، ’انتصارِ جنگ‘ اور ’وقار الملک ‘ اہم ہیں۔ اس آخر الذکر خطابِ سے ہی مشتاق حسین کی آخر عمر تک پہچان رہی۔

وقارالملک کی بے پناہ مقبولیت جب دکن میں ہوئی تو علاقائی عہدہ داروں میں حسداور احساسِ کمتری بھی بڑھنے لگاجس کاشکار وقارالملک بھی ہوئے۔ سالار جنگ کے کان وقارالملک کے خلاف بھرے جانے لگے اور انھیں بتایاگیا کہ یہ موصوف برطانوی سامراجیت کے خلاف ہیں۔ سالار جنگ انگریزوں کے اس لیے حامی تھے کہ انگریزوں نے ان کی محدوددکنی سرکار کو مصلحتاً نہیں چھیڑا تھا۔ انگریزوں کی مخالفت کے جرم میں وقارالملک پہلے 1879  میںبر طرف ہوئے اور پھر1892 میں مستقل طور پر حیدرآباد کو خیرباد کہہ کر اور اپنی پینشن کو برقرار رکھواکر اپنے وطن امروہہ لوٹ آئے جس وقت امروہہ آئے اس وقت ان کی پینشن سات سو روپے ماہانہ تھی۔

وقارالملک کے حیدرآباد جانے سے پہلے اور حیدرآباد میں قیام کے دوران جو سرسید احمد خاں کی تعمیر اور تعلیمی تحریکات سے رشتہ تھا وہ بدستور برقرار رہا چنانچہ حتمی طور پر جب وقارالملک دکن کی ملازمت سے سبکدوش ہوکر امروہہ آگئے توپھرسرسید کی علی گڑھ تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ سرسیداحمد خاں نے وقارالملک کو امروہہ سے علی گڑھ بلالیا اور اپنے مشہور زمانہ رسالے’ تہذیب الاخلاق ‘کو جاری رکھنے کی ذمے داری سونپ دی۔ اس رسالے کے لیے وقارالملک نے متعددومنثور بندی اصلاحی اور ترغیبی مضامین لکھنے شروع کئے جنھیں نہ صرف عوام نے بلکہ خودسرسید احمد خاں نے خصوصی طور پر سراہا۔ یہ مضامین دوچار صفحات کے نہیں ہوتے تھے بلکہ ایک ایک مضمون 70 سے 80 صفحات پر مشتمل ہوتاتھا۔ قابلِ ذکر ہے کہ ’تہذیب الاخلاق‘کے ایسے ہی مضامین کواردوادب کی تاریخ میں اردو نثرکے آغاز سے تعبیر کیاجاتاہے۔ سرسید احمدخاں کی علی گڑھ تحریک کا ابتدائی اردو نثر نگاری میں کلیدی رول رہاہے اور اس رول میں سرسید کے ساتھی وقارالملک کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔

وقارالملک کے متذکرہ تحریری کاموں کے علاوہ تدبیری اور تعمیری کارنامے بھی بہت نمایاں رہے ہیں۔ موصوف نے سرسید احمد خاں کے دست راست ہوکر علی گڑھ کی سائنٹفک سوسائٹی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سوسائٹی کی نگرانی میں علی گڑھ کالج تھا جو بعد کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے روپ میں ہندوستانی مسلمانوں کے تعلیمی وقار کی علامت بن کر گذشتہ سو برس سے قوم وملت کو عزت دے رہاہے۔ ابتدا میں اس یونیورسٹی کے لیے دامے، درمے اور قدمے کام ہوئے جو بڑے صبرآزما تھے۔ وقارالملک نے ازخود اس کے لیے بہت بڑی رقم چندے میں دی اورپھراپنے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دکن سے بڑی رقم جمع کرنے اور یونیورسٹی کی عمارتیں بنوانے میں وقارالملک نے دن ورات ایک کرکے جوکام کیے ہیں انھیں فراموش نہیں کیاجاسکتا۔

 یہ وہ زمانہ تھا جب شاطرانگریز نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مندہوں۔ اس وقت کے منصبدار اور زمیندار اپنی اگلی نسلوں کے لیے تعلیم کی طرف متوجہ نہیں تھے۔ ایسے حالات میں وقارالملک نے قریہ قریہ شہرشہر جاکر نئی نسلوں کو تعلیم سے وابستہ کیا۔ یونیورسٹی کے لیے طلبا کا جو پہلا ہوسٹل بنااس کے پہلے وارڈن نگراں وقارالملک ہی بنے۔ ہوسٹل کے بچوں کے لیے ان کی جانفشانی کے چرچے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ کا اہم باب ہیں۔ یونیورسٹی کے ابتدائی تعمیری امور میں اکثر ٹرسٹینر کے جذباتی فیصلوں سے وقارالملک الگ ہوجاتے تھے جس کے سبب ان میں اور سرسیداحمد خاں میں دوری بھی ہوئی لیکن موصوف ہمیشہ اپنے موقف پر قائم رہتے تھے درحقیقت سرسیداحمد خاں اور وقارالملک میں یہ بات قدرے مشترک تھی کہ دونوں ایک سی طبع افتاد کے مالک تھے دونوں صاف گواوراپنے موقف میں شدت پسند تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ دونوں اپنی نیک نیتی کے سبب اختلافات جلدہی دورکرلیتے تھے، 1892  سے 1912  تک وقارالملک نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہندوستان میں تعلیمی بیداری کی تاریخ کا اہم باب ہیں۔

علی گڑھ میں رہ کر سائنٹفک سوسائٹی کے دوسرے اہم کاموں میں فرسودہ رسم ورواج کو ترک کرنے کی بھی تحریک شامل تھی۔ وقارالملک نے اجتماعی اور انفرادی طور پر اس سمت جوپیش رفت کی وہ بھی مسلم تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھی جاتی رہیں گی۔ شادی بیاہ کے موقع پر فضول خرچی کو روکنے کے لیے وقارالملک نے اہم کام کیے اور بے جامصارف سے عوام کو بچاکر غریب اور بے سہارا نادار لوگوں کی مدد کرنے کی تحریک دی اپنے ایک مضمون میں وقارالملک نے تہذیب الاخلاق میں لکھا:

’’صاحبو! جب ضرورت کی حالت میں تم نفل نماز چھوڑ سکتے ہوتو بے جارسموں کا ترک کر دینا تمھارے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس تجویز کے ذریعے ہم اپنی قوم کو خست کی تعلیم نہیں کرتے بلکہ صرف دولت کے مصرف کو بدل دیتے ہیں اور ایک ضروری اور فضول خانے کی رقم کو اٹھاکر نہایت ضروری خانے میں رکھ دیتے ہیں۔

اگرسماج سے پیاس پیاس کی آواز بلند ہورہی ہوتو نفل نماز کو چھوڑکر ڈول اسی ہاتھ میں لے لواور پانی بھرکر پیاسوں کی پیاس بجھاؤ۔

وقارالملک نے اپنے اس تعمیری جذبے کو امروہہ آکر بھی جاری رکھا۔ امروہہ کے غربااور مسکینوں میں جاجاکر وہ نہایت سلیقے کے ساتھ مدد کرتے تھے اور کہتے تھے۔

بہت لمبی فہرست میرے ایسے متعلقین کی ہے جن کا رزق خدا نے میرے ساتھ اتاراہے۔ مجھ سے جہاں تک ممکن ہے میں نے اپنے اوران سب کے قوتِ لایموت کے واسطے پوری کفالت شعاری سے کوشش کی ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ وقار الملک نے نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے مالا مال کرنے کے لیے  امروہہ سے متصل سات گاؤں، (مِلک پہاڑ موو،ڈھاکی، شیخوپورہ،کورال، سلطانپور انتقام علی خاں، پٹّی وغیرہ) کی آراضی جو 11 ایکڑ کے قریب تھی، وقف کی تھی۔، جس کا ریکارڈ آج بھی’ نواب مشتاق حسین وقارالملک وقف رجسٹرڈ‘ کے صدر منصور احمد صدیقی ایڈوکیٹ کے پاس موجود ہے۔امروہہ سب رجسٹرار کے دفتر میں اس وقف کا اندراج 12 جون سنہ 1915 کو ہوا تھا۔

وقارالملک ایک باعمل مصلح قوم تھے۔ موصوف نے اپنے والدین کی وقتی ناراضگی کو برداشت کی لیکن اپنی شادی بغیر کسی شور شرابے کے ساتھ کرنی پسند کی تھی۔ وقارالملک کی تربیت میں ان کے بیٹے محمد احمد بارایٹ لا،ہوکر انگلستان سے لوٹے جو غالباً امروہہ کے پہلے ’بارایٹ لا‘ تھے افسوس کہ جب وہ امروہہ لوٹ کر آئے تو زیادہ عرصے زندہ نہ سکے۔ وقارالملک کی تین بیٹیاں ہوئیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوئیں۔

مشتاق حسین وقارالملک کا انتقال 28 جنوری 1917  کو امروہہ ہی میں ہوا۔ ان کی موت کا غم پورے ہندوستان نے منایا۔ علی گڑھ کی تعلیمی فضائیں اداس ہوئیں۔ علی گڑھ تحریک کے لوگوں نے چاہاکہ وقارالملک کی قبر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قبرستان میں بنے لیکن وقارالملک کی خواہش کے مطابق انھیں امروہہ ہی میں دفن کیاگیا۔

وقارالملک کے بارے میں یہ بھی پڑھنے کو ملاکہ انھوں نے تین کتابیں بھی لکھیں لیکن باوجود بسیار تلاش کے ان کے نام مجھے نہیں مل سکے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وقارالملک سے منسوب ایک ہال آج بھی ان کی عظمت کا پتہ دے رہا ہے۔ امروہہ کی سابق چئیرپرسن بیگم آفتاب سیفی کی خدمات قابل قدر ہیں جنھوں نے اپنی چیئرمین شپ میں امروہہ میونسپل کونسل سے ’وقارالملک‘ گیٹ تعمیر کرایا۔میڈم نے ہی پہلی بار وقار الملک کی شخصیت پر ایک کتاب شائع کی تھی جس سے امروہہ کی اس عظیم شخصیت کی عظمتوں کا اندازہ شہر والوں کو ہوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امروہہ میں وقارالملک کی قبرکو بھی خوبصورت مقبرے کی شکل دی جائے تاکہ تعلیم سے عشق کرنے والے عقیدت مند اور امروہہ والے اپنے وطن کے اس فرزند کے مزار پر جاکر فاتحہ پڑھتے رہیں اور خود پر فخر کرتے رہیں۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے وقارالملک کی جو تاریخ کہی وہ مند رجہ ذیل ہے۔

نواب وقارالملک وملت

افشاندسوئے جناں رکابش

برلوحِ مزار اور شتم

انجام بخیر، باخطابش

وقار الملک انجام بخیر

1335 ھ مطابق 1917

مختصر یہ کہ ہندوستان کی آزادی، اردو ادب کی تاریخ اور ہماری قومی و مِلی تہذیب نواب وقار الملک کی شخصیت پر ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ ساز ہستیوں کو یاد کرتے رہیں تاکہ اگلی نسلیں گذشتہ شخصیات سے تحریکِ حیات لیتی رہیں۔

 

Prof. Nashir Naqvi

Mahal: Darbar Kalan

Amroha - 244221 (UP)

Mob.: 9814960786

 

 

 


 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں