موجودہ ترقی یافتہ دور میں ہر روزیادگاری جلسے ہوتے ہیں۔
دولت مندوں، جنگی سورماؤں، فلمی ہستیوں پر،
علاقائی سیاست، لسانی اہمیت، سماجی اور ثقافتی ضرورت پر۔ تحریکات، رجحانات،
نظریات یا پھر ان سے وابستہ شخصیات پر سمیناروں کا ایک سلسلہ ہے۔ شہرت کے لحاظ سے
اِن برپا ہونے والے یادگاری جلسوں میں اُن چھوٹے بڑے ادیبوں اور دانشوروں کو بھی
شامل کرلیا جاتا ہے جو اپنی تشہیر اور تعلقات اور معاملات کے تانے بانے بُننے اور
اُن کا پروپیگنڈا کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ انھیں اعزازات اور انعامات سے نوازا
جاتا ہے، جشن ہوتے ہیں، مقدس یادوں کا سیلاب امنڈتا ہے اور پھر ان سب کو یکجا کرنے
کے لیے کتابیں ترتیب دی جاتی ہیں، یادگاری مجلے نکلتے ہیں، سمینار، ویبینار منعقد
ہوتے ہیں، البتہ اِن دنیاوی منصوبوں کے تناظر وتفکر میں وہ شامل نہیں ہونے پاتے جو
حرص وہوس اور شہرت ومقبولیت سے دُور،تعمیری وتشکیلی خدمات انجام دینے میں مشغول
رہتے ہیں اور علمی، اصلاحی، فلاحی مقاصد کو پائیداری عطا کرنے کے لیے بھیڑ بھاڑ
اور چمک دمک کے ماحول سے خود کو ممکن حد تک الگ رکھتے ہیں۔ اِس عمل سے فائدہ
اُٹھاتے ہوئے ابن الوقت، ابوالوقت کی گوشہ نشینی کے اصل مقصد کو فراموش کرتے یا
پھر اُن کو اپنے توسط سے اُجاگر کرتے ہیں لیکن نظام فطرت ایسے مجاہدِ علم وعمل کے
دامن میں رنگا رنگ گُل بوٹے ٹانکنے اور قدم بوسی کے لیے مجبور ہوتاہے۔
در اصل آج ضرورت ایسے ہی کرداروں کو ابھارنے اور نفسا
نفسی کی بھیڑ میں گُم ہوجانے والی شخصیات کی بے لوث خدمات اُجاگر کرنے کی ہے جنھوں
نے اپنے آپ کو انسانی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔ ایسا کرکے ہم نہ صرف اُن کے عزم
و حوصلے کا اعتراف کریں گے بلکہ نئی نسل کو ایک تعمیری سوچ بھی مہیا کریں گے۔ اس
مثبت قدم سے ہم پردۂ خفا میں رہنے والی شخصیات کی عزت نہیں بڑھائیں گے بلکہ خود
اپنی علم دوستی اور مردم شناسی کے طرۂ دستار میں انسانیت اور شرافت کے پھول سجالیں
گے۔ اوراِس عملِ صالح سے خود ستائی اور خود نمائی کے غُبار کوتھوڑا کم کرسکیں گے۔
ایسے ہی نامورمگر گوشہ نشین شخصیات میں ایک نمایاں نام
سید زین العابدین کاہے، جنھوں نے اپنی 73سالہ زندگی کابیشتر حصہ نمودونمائش سے
بچاتے ہوئے ملک وملت کے نام وقف کردیا تھا۔ شاید اسی سبب اُن سے متعلق ادبی، علمی
اور تعمیری خدمات کا افسوس ناک حد تک فقدان ہے۔ پھر بھی اِس تشنہ پہلو پر حالی،
اسماعیل پانی پتی، مرزا حیرت جھنجھانوی، شیخ محمدعبداللہ، سرراس مسعود، عبدالباقی،
مولوی بشیر الدین، اخلاق احمد، عبداللہ جان، مولوی عبدالماجد، مصطفی حسین منظر،
مقتدیٰ خاں شروانی، ظفر علی خاں، نقاش کاظمی، نواب احمد سعید خاں چھتاری، غلام
پنجتن، جسٹس ہدایت اللہ، فرخ جلالی، اشتیاق عارف، افتخار عالم، اصغر عباس، کی تحریروں
سے روشنی پڑتی ہے۔ اِس روشنی میں جہانِ عابدین کو احاطۂ تحریر میں لینے کے کئی
زاویے بنتے ہیں۔ مثلاً بچپن کے واقعات، مدرسے کے احباب، مختلف شہروں کی کیفیات،
مناصب، عدالتی خدمات، سماجی سروکار، سرسید سے وابستگی، علی گڑھ تحریک کو استحکام
شامل ہوسکتے ہیں۔
شخصیت کو احاطۂ تحریر میں لیں تو سید زین العابدین،
مفتیوں کے جعفری خاندان میں 14جون 1832 مطابق 12محرم الحرام 1248ھ کو محلہ قضیانہ،
قصبہ مچھلی شہر، ضلع جونپور میں پیدا ہوئے۔ دادا، سید محمدحسن اور والد سید محمدحسین،
عربی وفارسی کے عالم تھے۔ گھر کاماحول مذہبی تھا۔ والدہ کا تعلق دُور دراز واسطے
سے سرسیداحمد خاں کے خاندان سے تھا۔ ابتدائی تعلیم قریب کے مدرسے میں اور ثانوی
تعلیم قصبہ کے اسکول میں حاصل کی۔ وکالت کی ڈگری کلکتہ یونیورسٹی سے لی۔
ملازمت کا آغاز بنارس سے ہوا۔ مرزا پور، بریلی، غازی
پور، شاہجہاںپور، مرادآباد میں پوسٹنگ رہی۔ سب جج کی حیثیت سے 1885 میں ریٹائر
ہوئے۔ اعزازی طور پر جج کہلائے۔ حکومتِ وقت کی جانب سے خان بہادر کا خطاب ملا۔ پینشن
کے ساتھ تین سال ریاست رامپور کی جوڈیشیل کونسل کے ممبر بنے۔ 1889 میں مستقل طور
پر علی گڑھ آگئے۔
ذمے داری کا احساس اس سے بھی عیاں ہے کہ اہل وعیال کے
ساتھ ساتھ تمام متعلقین کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ اُن کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں
تھیں۔ آل اولاد کی پرورش کے ساتھ اُن کی نگہداشت سے وابستہ افراد کو بھی ممکن مدد
پہنچاتے۔ سب سے بڑے بیٹے سید زین الدین ڈپٹی کلکٹر ہوئے۔1939 میں اُن کا علی گڑھ میں
انتقال ہوا۔ یونیورسٹی قبرستان میں تدفین ہوئی۔ عبدالباقی، اخلاق احمد، خان بہادر
مولوی بشیر الدین، مقتدیٰ خاں شروانی، نقاش کاظمی کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ میرس
روڈ پر انھوں نے ’’حمید منزل‘‘ کے نام سے جو مسکن بنوایا تھا، اُسے ان کی بیٹی رفیقہ
بیگم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دے دیا تھا۔ دوسری روایت کے مطابق حمید منزل نہیں
بلکہ اُس کوٹھی کا نام حامد منزل تھا جو عبداللہ گرلس کالج کے چوراہے پر واقع تھی
اور جسے یونیورسٹی نے رفیقہ بیگم سے خرید لیا تھا۔ بہر حال سید ضیائ الدین اور سید
نور الدین بھی اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ چوتھے بیٹے سید عین الدین نے آئی سی ایس
افسر کی حیثیت سے تمام ذمے داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے اپنے والد کا نام روشن کیا۔
سید عین الدین کا 1952میں انگلستان میں انتقال ہوا۔ اُن کے بیٹے سید عین العابدین،
سرسیدنگر،علی گڑھ میں یکم جنوری 1983 کو، 62 سال کی عمر میں رحلت فرماگئے۔ بیٹیوں
نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی خصوصاً بیٹی واجدہ بیگم اور اُن کی بیٹی ساجدہ بیگم
اعلیٰ ادبی ذوق رکھتی تھیں۔ چوتھی نسل کی نمائندگی میں نمایاں نام سید نور العابدین
اور طیبہ عابدین کے شامل کیے جاسکتے ہیں تو پانچویں پشت میں حنا قدوائی جیسے کئی
نام سامنے آتے ہیں۔
سید زین العابدین کی مثالی شخصیت بننے کے مدارج
مرادآباد سے شروع ہوتے ہیں، جہاں وہ سرسید کے قریب آتے ہیں۔ 1861 کی ابتدا میں
سرسید کی اہلیہ پارسا عرف مبارک بیگم کا مُرادآباد میں انتقال ہوتاہے اور اسی برس
زین العابدین کی بیگم اس جہانِ فانی سے رخصت ہوتی ہیں۔ دونوں کی تدفین فیض گنج روڈ
پر واقع شوکت باغ حویلی کے پاس، دور سہی مگر مسجد کے سائے میں ہوتی ہے۔ کتبے پر
درج ہے ’’سرسید کی اہلیہ کے پہلو میں ان کی عزیز ترین سہیلی اور رازدار، اہلیہ
مولانا زین العابدین دفن ہیں۔‘‘ اس سے اس کا بھی علم ہوتا ہے کہ جیسے ایک سہیلی
دوسری کی جُدائی براشت نہیں کرسکی، اور بعد از مرگ ہمیشہ کے لیے دونوں ایک جگہ
آرام فرما ہوئیں۔ اکتوبر 1863 میں سرسید، نواب عبداللطیف کی محمڈن لٹریری سوسائٹی
کی دعوت پر ’ترغیبِ تعلیم انگریزی‘ کے موضوع پر خطبہ پیش کرنے کے لیے کلکتہ گئے
تھے۔ وہاں کی تعلیمی ترقیات سے وہ اس حد تک متاثر ہوئے کہ تین ماہ بعد غازی پور میں
انھوں نے محمدعبدالصمد، حافظ محمدعلی قادری اور دیگر بہی خواہان کی مدد سے سائنٹفک
سوسائٹی کاخاکہ تیار کیا، جس نے جلد ہی عملی شکل اختیار کی۔ 1864 میں زین العابدین
اس سائنٹفک سوسائٹی کے ممبر بنے۔
شخص سے دل پذیر شخصیت بننے کے مدارج طے کرنے پر مثالی
کردار وجود میں آتاہے۔ زین العابدین کا یہ اعلیٰ انسانی کردار سرسید کی قربت کارہینِ
منت ہے۔ وہ 1864میں فکری اور عملی طور سے سرسید سے وابستہ ہوئے۔ 1889 میں سرسید کی
درخواست پر باقاعدہ علی گڑھ منتقل ہوئے، اور پھر اپنے آپ کو باغِ سرسید کی آبیاری
کے لیے وقف کردیا۔ انھیں علم تھا کہ 1876میں سرسید نے علی گڑھ کو وطنِ ثانی بنالیا
ہے اور اب اُن کی مستقل توجہ ایم۔اے۔ او۔ کالج اور قوم کی تعلیم وتربیت پر مرکوز
ہوچکی ہے۔ 1883 میں جب سرسید نے ’محمڈن سول سروس فنڈ‘ قائم کیا تو زین العابدین نے
بے حد خوشی کا اظہار کیا بلکہ سول سروس کے امتحان میں شرکت کرنے والوں کی حوصلہ
افزائی کے لیے خط لکھا اور چندہ بھی ارسال کیا۔ اُن کے ریٹائر ہونے سے چند ماہ قبل
اطلاع ملی کہ سرسید کو لارڈ فرن نے سول سروس کمیشن کا ممبر مقرر کیا ہے، تو وہ اس
خبر سے باغ باغ ہوگئے۔ زین العابدین ریاست رامپور کی جوڈیشیل کونسل کے ممبر کی حیثیت
سے رامپور میں مقیم تھے کہ سرسید نے انھیں سید محمود کی شادی میں شرکت کے لیے مدعو
کیا، اور ساتھ ہی ساتھ یہ درخواست بھی کی کہ آپ میرا ہاتھ بٹانے کے لیے اب مستقل
طور پر علی گڑھ آجائیے۔ زین العابدین نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور اگلے سال
1889 میں علی گڑھ آگئے۔
علی گڑھ تحریک کے اساسی پہلو اُجاگر کرنے کے لیے عہدِ
سرسید کو مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے۔ رفقائے سرسید، احباب سرسید، معاون
ومددگار اور دستِ راست سرسید پر ان گنت تحریریں موجود ہیں۔ خود سرسید نے اپنے رفیقوں
کا ذکر بڑی اپنائیت اور خلوص کے ساتھ کیا ہے لیکن اعتبار، اعتماد، محبت اور
جھنجھلاہٹ کا جو برملا اظہار زین العابدین کی شکل میں اُبھرتا ہے، وہ اُن کے دیگر
احباب کے ذکر میں جلوہ گر نہیں ہونے پاتا ہے۔ ثبوت کے طور پر سرسید کے اُس خط کا
اقتباس ملاحظہ ہو جو انھوں نے 26اپریل 1894 کو لکھا تھا:
’’مکرمی
زینو بھیّا
ابھی تمھارا خط پہنچا، کچھ شبہ نہیں کہ تم کو مجھ سے
جُدا ہونے کا ایسا ہی رنج ہے جیسا کہ تم نے لکھا، مگر تم تو اُس رنج کو کسی قدر
لکھ بھی سکے، مگر مجھ کو تمھارے چلے جانے سے جو رنج ہے وہ لکھا بھی نہیں جاسکتا۔
زبان کُھجلاتی ہے اور کوئی یہاں نہیں کہ اُس کو بُرا کہوں۔ دل میں غصہ آتا ہے اور
کوئی یہاں نہیں ہے جس پر غصّہ نکالوں۔ ہاتھ کُھجلاتے ہیں اور کوئی یہاں نہیں ہے جس
کو ماروں۔ حقیقت میں تمھارے جانے سے مکان سونا نہیں ہوا بلکہ دل سُونا ہوگیا۔ صبح
اُٹھ کر خدا یاد نہیں آتا مگر تم یاد آتے ہو۔‘‘
اسلامیہ انٹر کالج اٹاوہ کے بانی ڈاکٹر مولوی بشیر الدین
جنھوں نے علی گڑھ تحریک کاابتدائی دور اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اُن کا سرسید
اور رفقائے سرسید کے ساتھ بہت قریبی اور گہرا ربط تھا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی
(صدر شعبۂ اردو، نگراں علی گڑھ میگزین) نے بشیر صاحب کی ضعیفی کے باوجود سیدِوالا
گہر اور ان کے احباب کے تعلق سے اپنے تاثرات بیان کرنے کی درخواست کی جسے انھوں نے
قبول کیا۔ میگزین کے ایڈیٹر نسیم قریشی نے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر نثار قریشی کو
اس کام پر مامور کیا اور انھوں نے کئی نشستوں میں بشیر صاحب کے تاثرات کو قلم بند
کیا، جنھیں ’علی گڑھ تحریک کے معمار‘ کے عنوان سے مذکورہ میگزین کے خصوصی شمارے
(55تا 1953) میں شائع کیا گیا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’زین
العابدین دبلے پتلے تھے، قد لمبا تھا، داڑھی لمبی تھی، بڑے خوش مزاج، وضع دار اور
شریف طبیعت انسان تھے۔ اُن کا ذکر آتا ہے تو محبت وشرافت کی زندہ تصویر نگاہوں کے
سامنے پھر جاتی ہے۔‘‘
مولوی بشیر الدین مزید فرماتے ہیں:
’’مولوی
زین العابدین کی ذات محبت وفداکاری کا پیکر جمیل تھی۔ یہ گویا سرسید میں اس قدر
کھوگئے تھے کہ من تو شدم تو من شدی کا نقش اُبھرآیا تھا۔ سرسید بھی ان کو بے
انتہا چاہتے تھے۔ زینو کہہ کر پکارتے تھے۔ اکثر فحش قسم کا مذاق بھی ہوتا تھا۔ سرسید
سے ان کے عشق کا یہ عالم تھا کہ جب سرسید کا انتقال ہوا، اور ان کا مزار بننے لگا
تو یہ دھوپ میں چھتری لیے بیٹھے رہتے تھے اور سارا سارا دن اسی طرح گزار دیتے تھے۔
مولوی زین العابدین نے اپنی دولت، قوتِ عمل اور محبت سے سرسید کے کاموں میں جو
آسانیاں پیداکیں، وہ اُن کی فداکاری کا ایک روشن نمونہ پیش کرتی ہیں‘‘۔ (ص255)
سرسید کے ہم نوا، قدم سے قدم ملاکر چلنے والے، ان کے
خلاف ہونے والے اعتراضات کا مدلل جواب دینے، اور تمام حساب کتاب رکھنے والے، مثبت
سوچ کے مالک، زین العابدین نے، عمر کے آخری پڑاؤ میں اپنی اکلوتی بہن کو اُس کا
حصّہ دے کر جو جائیداد بچی اُسے فروخت کرکے سرسید کے مشورے سے ایک ایکڑ زمین خریدی
جس میں کچی اینٹوں سے بنگلہ بنا تھا، چھت پھوس سے ڈھکی ہوئی تھی۔ حفاظت کے خیال سے
انھوں نے میدان کے چاروں طرف خاردار تاروں سے احاطہ بندی کرائی جس کی وجہ سے وہ
تار والے بنگلے کے نام سے مشہور ہوا۔ سرسید کی وفات سے قبل انھوں نے بنگلے کو ایم۔
اے۔ او۔ کالج کے نام وقف کردیا، اس وصیت کے ساتھ کہ میرے بعد میری اولاد نہ تو اس
جائیداد کی حقدار ہوگی اور نہ اپنے تصرف میں لاسکے گی۔ اولاد دراولاد تربیت ایسی
کہ انھوں نے نہ صرف وصیت پر فخر کیا بلکہ ہمیشہ ادارے کے لیے کچھ کرنے کی سعادت
تلاش کرتے رہے۔
یادگار عمارتوں کا انحصار ان کی پائیدار بنیاد اور مضبوط ستون پر ہوتی ہے۔ نقش ونگار اور چمک دمک کا ذکر تو عام طور پر کیاجاتا ہے، مگر اساس اور اساسی ستون کا ذکر اس اہتمام سے نہیں کیا جاتا ہے۔ علی گڑھ تحریک کی تعمیر وتشکیل میں زین العابدین نے بڑا کردار ادا کیاہے۔ سرسید مردم شناس اور معاملہ فہم انسان تھے۔ اس لیے وہ ادارے کو ایک ظاہری شکل دینے اور اس کے تنظیمی ڈھانچے کو زین العابدین کے سپرد کرکے مطمئن ہوگئے تھے۔ سرسید کے پیش نظر اُن کے مناصب، عدالتی اور سماجی خدمات کے ساتھ اُن کا بے لوث جذبہ تھا، زین العابدین سرسید کی توقعات پر پورے اُترے اور انھوںنے زندگی کے آخری سترہ برس باغِ سرسید کی آبیاری میں صرف کیے۔ مبصرین رقم طراز ہیں کہ وہ علی الصباح ٹہلنے نکلتے، تعمیرات کا معائنہ کرتے، پھر دن بھر کے منصوبے بناتے۔ اُن کے عزم وحوصلے کو دیکھ کر بیماری بھی اُن کے سائے سے گُریز کرتی تھی۔ 1904 میں قوتِ مدافعت لڑکھڑائی۔ بیمار ہوئے، اور سخت بیمار ہوئے۔ انہی دنوں سرلاٹوش، لیفٹیننٹ گورنر صوبہ جات متحدہ (موجودہ اترپردیش)، ممتاز بورڈنگ ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے علی گڑھ آئے تھے۔ صحت کی خرابی کی اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے عیادت کو پہنچے۔ پھر سنگِ بنیاد رکھا۔ انھوں نے آرام کا مشورہ دیا، مگر زین العابدین آرام کو حرام سمجھتے تھے۔ بیماری نے طول پکڑا اور وہ 27ستمبر 1905، مطابق 2رجب 1323ھ کو اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ رفقا نے اس کا خیال رکھا کہ جس طرح دونوں کی بیگمات ایک ہی احاطہ میں (مرادآباد میں) آرام فرما ہیں، اسی طرح، ایک دوست کی اپنے عزیز ترین دوست کے قریب، تدفین ہونی چاہیے۔ ان کی تدفین کا یہ عمل اِس کا غماز ہے کہ زین العابدین جس طرح حیات میں سرسید کے بے حد قریب تھے، اسی طرح بعد از مرگ بھی ان کے قریب ہیں۔
Prof. Sagheer Afraheim
Ex. Head Dept. of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202001 (UP)
Email.: s.afraheim@yahoo.in
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں