2/11/21

شمیم کرہانی کی انقلابی شاعری - مضمون نگار: اعظم عباس شکیل

 



بیسویں صدی کے ادائل میں ایسے شعرا کی لمبی فہرست ہے جو آزادی ملنے سے پہلے اپنے قلم سے وار کرتے رہے اور آزادی کے بعد بھی عوام میں حب الوطنی کے جذبے سے سرشار گیتوں، نغموں اور نظموں سے مجاہدین وطن کو  حوصلہ اور ہمت دیتے رہے ہیں۔ آزادی ملنے سے پہلے یہ اہل قلم  اپنے نوک قلم کو ہتھیار بنا کر  غیر ملکی حکومت پر کاری وار کر تے رہے ہیں اور ساتھ ہی  مظلوم عوام کے دلوں میںجوش، جذبہ اور ہمت پیدا کر رہے تھے اور عمل کی ترغیب دے رہے تھے۔ انھیں شعرا میں ایک ممتاز نام تھا شمیم کرہانی۔

  سید شمس الدین حیدر عرف شمیم کرہانی کی پیدائش  1913  میں ہوئی تھی جب  یہ ملک غلام تھا۔ ان کے شباب کے دن آئے تو  جنگ آزادی بھی اپنے شباب پر تھی۔ انقلاب نے اپنے قدم گاڑ دیے تھے۔ زمانہ انگڑائی لے رہا تھا۔ فنکار اور با لخصوص شاعر کا دل عموماًــ  بہت حساس ہوتا ہے۔ اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہونا فطری ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں غزل کے ایک شعر سے شاعری شروع کرنے والے شمیم کرہانی بھی جلد ہی انقلاب کے بل کھاتے ہوئے سمندر میں کود پڑے۔ علی جواد زیدی، حسرت موہانی جیسے قلمکار تو عملی طور پر میدان کارزار میں سینہ سپر تھے جنھوں نے نوجوانوں کی رہبری کی اور جیل کی صعوبتیں بھی جھیلی ہیں۔  تو پھر شمیم کرہانی جیسا حساس شاعر بھلا کیسے چپ رہ سکتا تھا۔

برق  و  باراں‘  شمیم کرہانی کا  شائع ہونے  والا پہلا شعری انتخاب تھا۔ اسے انجمن ترقی پسند مصنّفین نے خود  1939 میں انڈین بُک ڈپو، لکھنؤ کے  زیر انتظام سرفراز قومی پریس،لکھنؤ سے  چھپوایا  تھا۔ اس کے بعد  اگست  1942 میں ہندوستان میں بڑے پیمانے پر آزادی کے حصول کے لیے جو حالات نے ایک نیا موڑ لیا اس سے متاثر ہوکر شمیم کرہانی نے جو نغمے لکھے انھیں  1946 میں ’روشن اندھیرا‘ کے نام سے سرفراز پریس، لکھنؤ سے چھپوایا۔  اس کتاب میں جناب علی جواد زیدی کا بیش قیمت مقدمہ بھی ہے جس سے اس وقت کے حالات کے ساتھ شمیم  کرہانی کی انقلابی شاعری پر بھی ان کا خاطر خواہ تبصرہ موجود ہے۔

انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بنیاد سجاد ظہیر، ملک راج آنند وغیرہ نے  1935 میں رکھی تھی جس نے اردو  ادب کا رُخ روایتی شاعری سے یکسر موڑ دینے کی کوشش کی تھی۔ ساری دنیا میں جب عالمی جنگ کے بعد ہل چل مچی تھی، مارکسی نظریہ فروغ پا رہا تھا  تب سامراجی راج کے چنگل سے نکلنے کے لیے ہندستان ہی نہیں اور بھی خطوں میں انقلاب کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ دبے، پسے، غریب مزدوروں اور مظلوموں کے حق میں آواز اٹھ رہی تھی۔ ایسے حالات میں انجمن  ترقی پسند مصنّفین نے طے کیا کہ ادبی تخلیقات کا رُخ بدلنا چاہیے۔ چنانچہ ادیبوں اور افسانہ نگاروں نے پسماندہ لوگوں کی مشکلوں اور مصیبتوں کو محور بنا کر ادب تخلیق کرنا شروع کیا۔ شمیم کرہانی نے پوری طرح اس سے متاثر ہو کر نظمیں اور گیت تخلیق کرنے شروع کیے۔ ایسی ہی تخلیقات کے انتخاب کا نام ’برق و باراں‘ ہے۔ یہ کتاب فہرست کے بعد سب سے پہلے جس صفحے سے شروع ہوتی ہے اس پر صرف ایک مصرع لکھا ہے          ؎

مرا  ہندوستاں  بے  چین  ہے آزا د  ہونے کو

(شمیم)

شاعر کے دل میں آزادی حاصل کرنے کی خلش جاگ چکی تھی۔ یہ آزادی سادہ لفظو ں میں صرف جغرافیائی قید سے آزاد ہونے کی لیے نہیں تھی۔ یہ سماج میں پھیلی ہوئی غربت، جہالت، اونچ نیچ  اور بے شمار برائیوں سے چھٹکارا پانے کی جنگ تھی۔ جہاں ایک طرف اپنے ملک کو انگریزی حکومت سے آزاد کرانا مقصود تھا تو وہیں دبے کچلے انسانوں کو جگانے کا کام بھی تھا۔

   شمیم کرہانی مشرقی اترپردیش کے ایک بڑے زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے جب آنکھ کھولی تو ابھی زمینداری کی تمام آن بان شان باقی تھی۔ نوکر چاکر اور حاکم اور رعایا کا تصور ابھی باقی تھا۔ حالانکہ ان کا خاندان تہذیب و تمدن اور ادبی  ذوق و شوق کا حامل تھا۔رعایاپر ظلم تو درکنار ان کا خاندان سخاوت کے لیے مشہور تھا۔لیکن دور ایسا تھا جب  عام طور پر رعایا پر حاکم کی غلامی فرض مانی جاتی تھی۔ ظلم اور زیادتی کی کہانیاں بھی عام تھیں۔ اس کے علاوہ  سماج میں غیر ضروری  رسم و رواج اور قدامت پسندی نے عوام  اور خصوصاً  گاؤں اور دیہات میں غربت اور جہالت کا ماحول پیدا کیا ہوا تھا۔  انجمن ترقی پسند مصنّفین اسی ظلم و زیادتی کے خلاف مارکسی نظریے کے ساتھ قائم کی گئی تھی تا کہ اہل قلم حضرات اپنی تحریر سے سماج میںخوش آئند انقلاب لاسکیں۔ چنانچہ منشی پریم چند اورعلی عباس حسینی جیسے ادیبوں نے اپنی کہانیاں، ناولیں اور افسانے گاؤں کے پس منظر میں لکھنے شروع کیے اور سماجی برائیوں کو اجاگر کیا۔ شاعروں نے بڑے زور  و  شور سے گیت، نظم وغیرہ لکھنا شروع کیا جو عوام میں مقبول ہونے لگے۔ جہاں جوش ملیح آبادی جیسے شاعر نے اپنے قلم سے الفاظ کے شعلے اگلنے  شروع کیے وہیں شمیم  جیسے شاعروں نے اپنے گیتوں سے سینوں میں دبی آگ کو بھڑکا نا شروع کیا۔

برق و باراں‘  شمیم کا ایسا شعری انتخاب ہے جس  میں  شامل کچھ  تو نظمیں اور گیت مزدورں، کاریگروںاور سماج کے پچھڑے ہوئے لوگوں کو موضوع بنا کر کہی گئیں ہیں یا پھر جوانوں اور جیالوں کو للکارا گیا ہے کہ وہ اٹھیں اور غاصبوںکے چنگل سے اپنے ملک کی مٹی کو آزاد کرائیں۔ اس کتاب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر ایک حصہ شروع ہونے سے پہلے ایک  ورق پر صرف  ایک مصرع شاید بطور عنوان لکھا ہے۔  پہلا حصہ جس میں گیارہ نظمیں ہیں اس کی پہلی ہی نظم  ’میں آگیا میدان میں‘ ملک کے سوئے ہوئے جوانوں کو جگاتے ہوئے ایک عظیم انقلاب کے لیے میدان ِ عمل میں آنے کی دعوت دیتی ہے۔ شاعر خود بے توجہی اور بے خبری کی چادر ہٹاتے ہوئے آ گے آتا ہے اوراپنے ہم وطنوں کو ان کے حال سے مطلع کرتے ہوئے مستقبل کی راہ دکھاتا ہے۔ اس نظم میں  9  بند ہیں جس میں تمام عالم میں پھیلے ہوئے انتشار کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ نظم کا خالق شیطان کے بہکاوے میںنہ آتے ہوئے اپنے سماج کی برائیوں کو دور کرنے کے لیے آخر میدا نِ عمل میں کود پڑتا ہے۔ اسے بہرحال اپنے وطن میں ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں اس نظم کا پہلا اور آخری بند          ؎

 ماں کی چھاتی کوٹتا  تھا  مامتا  کا   اضطراب

نیند میں تکتے رہے بچوں کے عارض کے گلاب

منتظر  تھا  سیج پر پھولوں کی،  بیوی  کا  شباب

شوق کا  آغوش  پھیلائے ہوئے انداز خواب

سب کو ٹھکرا کر مگر میں آگیا  میدان میں

سارا  عالم  ایک  طوفانی  نظارے کی  طرح

ہر قدم پر مشکلیں پُر  زور  دھارے کی طرح

ہمسفر  مایوس، افسردہ،  شرارے کی  طرح

اک کرن مشرق میں تنکے کے سہارے کی طرح

اُس کرن کو  دیکھ کر  میں آگیا  میدان میں

اس کے علاوہ ا س  حصہ میں دس نظمیں اور ہیں۔ اس میں  قومی گیت، جوان جذبے، آغازِ بیداری، انقلاب، آماجگاہِ بغاوت وغیرہ وہ نظمیں ہیں جو جوان دلوں میں حرارت پیدا کرنے والی ہیں، اکسانے والی ہیں او ر سرمایہ داری اور انگریز حکومت کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہونے کی ترغیب دینے والی ہیں۔ دیکھیے ’جوان جذبے‘   میں کیسے جوش دلاتے ہیں         ؎

یہ ظلم ِ شہنشاہی، جس  وقت  مٹا دیں گے

سوئی ہوئی دنیا کی قسمت کو  جگا  دیں گے

افلاس  کے سینے سے شعلے جو  لپکتے   ہیں

محلوں میں  امیروں کے وہ آگ لگا دیں گے

ہیں آج  بغاوت  پر تیار جواں جذبے

جلاد حکومت کی  بنیاد  ہلا   دیں  گے

ان اشعار میں مجھے وہی تیور نظر آرہے ہیں جو  علامہ اقبال کے مشہور اشعار میں ہیں          ؎

 اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو  جگا دو

کاخ  ِ امرا  کے  در  و  دیوار  ہلا  دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

 اس کھیت کے ہر خوشہ  ٔگندم کو جلا دو

اسی باب میں ایک نظم ہے  ’فرشتے کی سیر‘۔ اس کو  پڑھیے تو لگتا  ہے جیسے یہ ایک منظوم ڈرامہ ہے جس میں  9  سین ہیں۔ نظم شروع ہوتی ہے، گویا  پردہ ٔ سیمیں  اٹھتا ہے         ؎

رات آدھی آ چکی تھی، کل جہاں خاموش تھا 

دیدہ  ٔ  ہستی  وفور ِ خواب سے مد ہوش تھا

اس کے بعد      ؎

ناگہاں بجلی سی چمکی اور فلک کا در کھلا

اک  فرشتہ  اس فضائے تلخ میں داخل ہوا

اور  پھر  وہ  فرشتہ  ’نور کا پیکر‘  آدم زاد کو  سارے عالم کی سیر کا مژدہ  سناتا  ہے۔ اس کو  اپنے ساتھ ہوا کے پروں پر لے  اڑتا ہے۔ پہلے وہ تمام عالم کے دلکش نظارے جنھیں خلاق  ِ عالم نے خلق کیا ہے اس کا نظارہ کراتا ہے۔پردہ  ٔ غیب کھلتا  جاتا ہے۔ وہ خوب صورت زمین جسے آدم  و  حوا  نے  جنت سے آکر سجایا تھا اور      ؎

چاند کی زرپاش کرنوں میں وفور ِناز  سے

جگمگاتی تھی یہی  دنیا  عجب انداز  سے

پردہ پھر اٹھتا  ہے  اور  اس  بار منظر بدل جاتے ہیں۔  اس  کرہ ارض کا  دوسرا  رُخ نظر آنے لگتا ہے جہاں  قیامت کے منظر زمین  پر نظر آنے لگتے ہیں۔  انسان میں  در آئے ہوئے شیطان نے اس جنت کو  جہنم سے بد تر بنا دیا ہے۔ ہر طرف عورتوں، بچوں، مزدوروںاور محنت کشوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ ظلم و استبداد کی نئی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں۔ لوٹ مار، قتل و غارت اور آگ زنی کا منظر ہے      ؎

 دل میں غیظ آلود  لہریں پیچ وخم کھانے لگیں

 دفعتاً آنکھیں  ملک کی آگ برسانے لگیں

کج  ہوئے  لب اور یہ  نکلی صدائے جاں گزا

  ظلم کے  پتلے   اسی عالم پہ  تجھ کو ناز  تھا؟

آدم زاد  ا ن نظاروں کو دیکھ کر  فرط  ِ خوف سے بے ہوش ہو  جاتا ہے۔

دوسرے حصے میں چار نظمیں فخر ہندوستان، تحفۂ درویش، شاعر اور ’آزاد مسافر‘کے عنوان سے شامل ہیں۔ ’آزاد مسافر‘کے صرف دو شعر ملاحظہ فرمائیے جس میں کیا ہمت اورخود اعتمادی کا مظاہرہ ہے      ؎

وہ موج  ِ ہوا  ہوں میں جس کا، پایاں ہی نہیں، ساحل  ہی  نہیں

اے  طالب منزل میرے لیے، محدود کوئی منزل  ہی  نہیں

وہ دل کو  یقین  ِ جوانی ہے،  پتھر  بھی  نظر  میں   پانی ہے

نا ممکن  بھی  امکانی ہے،  مشکل  تو  کوئی  مشکل  ہی  نہیں

تیسرے حصے میں تین نظمیں ہیں جنگجو ہندوستانی، جمنا کے تیر اور ’کانی عورت‘ تیسری نظم  کانی عورت مختصر ہے مگر چونکانے والی ہے۔ ایک دلکش اور خوبرو  دوشیزہ دریا کے کنارے ٹہلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ شاعر اس کے حسن میں کھونے کو تھا کہ وہ قریب آتی ہے اور شاعر حیران رہ جاتا ہے کہ اس کی ایک آنکھ میں بینائی نہیں ہے۔ وہ اپنے اس نقص پر شرماتی ہوئی گزر جاتی ہے اور تب دیکھیے شاعر کا ذہن کہاں پہنچ جاتا ہے۔ یہ نظم کے آخری دو اشعار ہیں       ؎

دیکھتے ہی  ہو گیا  دل  اس  تصور  سے  دو  نیم

مسلم  و ہندو  بھی ہیں اک ماں کی دو آنکھیں شمیم

پھوٹ جائے ایک پھر کس  طرح منھ دکھلائے گی

مادر  ِہندوستاں  بھی   تو  یونہی  شرمائے  گی

چوتھے حصے میں چار نظمیں ہیں خواب، شہر، جوانی کی نیند، اور ’آزادی کا حق‘ نظم ’شہر‘ ایک ایسے شہر کا مرقع ہے جس میں  ہر طرف افرا تفری کی تصویر ہے،  شور ہے، ہنگامہ ہے، امیر  اور  غریب کی تفریق ہے اور یہ سب تضاد اس قدر بڑھا  ہوا ہے کہ یہی انقلاب کا پیش خیمہ بن جاتاہے۔یہ ان مصرعوں سے شروع ہوتی ہے: ع۔ شور،  ہنگامہ، بغاوت، قتل، غارت، اژدہام/مکر ،  خود بینی، ستم رانی،  خباثت،  انتقام:  اور ختم ہوتی ہے       ؎

آفتاب  اک اور  بعد ِ  آفتاب آنے کو  ہے

انقلاب آنے کو ہے، اب انقلاب آنے کو ہے

 اگلے حصے میں پانچ نظمیں ہیں برسات کی شام، مغنی، معیار جمال، دیہاتی عورت اور ’اے غزل گو‘ دیہات میں برسات کی ایک شام گلرنگ منظر بکھیر رہی ہے، گھاس کے قالین بچھے ہیں، دور تک دھان کے لہلہاتے کھیت  ’جیسے کوئی سو گیا ہو سبز چادر تان کے‘  وغیرہ وغیرہ۔ شاعر نے اس نظم میں بہترین منظر کشی کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ دہقان کی آنکھیں بارش ہوتے دیکھ چمک جاتی ہیں اور اس کے دل میں ایک نئی امید کی کرن جاگ اٹھتی ہے      ؎

شام ابرو برق ہے  یا صبح ِ رنگیں عید کی

روئے دہقاں پر چمکتی ہے کرن امید کی

مغنّی‘  میں  مغنی لحن ِ غم انگیز چھیڑتا ہے، ماحول سوگوار ہو جاتا ہے         ؎

دل میں اک موج ِ تپاں اٹھتی ہے بل کھائی ہوئی

سانس جو سینے سے آتی ہے وہ گھبرائی ہوئی

شاعر اس فرسودہ طرز فکر سے اکتا جاتاہے اور کہتا ہے کہ اس لحن ِ غم انگیز کو اب زنگ لگ چکا ہے۔ اب اسے انقلابی آب و رنگ دے۔ آخری شعر ہے        ؎

  ایسے نغمے چھیڑ دے جن سے وطن بیدار ہو

تیرے طوفانی ترانوں میں یہ بیڑا پار ہو

معیار  ِ جمال‘ میں شاعر تخیل کی پری کو جو حسین ِ پاکباز ہے، مہ جبین  ِ خوش خصال ہے اسے بوڑھوں کا معیار ِ جمال بتاتا ہے۔ عورت کے وجود کو رسم و رواج، جہالت اور محض خاتون خانہ کے حصار سے نکلنے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ مجازنے آنچل سے پرچم بنا لینے کا مشورہ دیا تھا تو شمیم  نے کیا کہا دیکھیے      ؎

آ  مری محفل میں ! جان ِ  جذبہ ٔ  بیدار  بن

تھی کھلونا آج تک، اب قوم کی تلوار  بن

چھٹے حصے میں چار نظمیں ہیں کسان کا سفر، آگے چل کر، ڈومن، بھوکا بھکاری۔

 کسان کا سفر، گاؤں کے چھوٹے سے اسٹیشن پر کھڑی اک ریل گاڑی پر سوار ایک مزدور کام کے لیے شہر جاتا ہے  اور کھڑکی کے باہر ایک غریبی کی ماری لاغرسی عورت  اپنے شوہر کو  رُخصت کرنے کھڑی ہے۔ سیٹی بجتی ہے، گاڑی کھسکتی ہے اور ادھر گھبرائی ہوئی عورت چکرا کر گر جاتی ہے۔ بہترین منظر کشی کرتے ہوئے نظم یوں ختم ہوتی ہے         ؎

اُس طرف گاڑی چلی اور اس طرف یہ دل جلی

صید ِ زخمی کی طرح، جھومی، رکی،  اور گر  پڑی

جن سے جاں مضطر، نگہ بیتاب، دل غمگین ہیں

پردہ ٔ  افلاس  پر  ایسے  ہزاروں  سین ہیں

آگے چل کر‘ بھی ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں ایک وسیع کھیت کا منظر ہے جہاں کسان، اس کی شریک ِ حیات کھیت جوتنے میں مشغول ہیں اور ان کے ساتھ ان کا ننھا بچہ بھی مٹی میں کھیل رہا ہے اور ماں ایک طرف اپنے شوہر کا ہاتھ بٹا رہی ہے اور دوسری طرف بچے پر بھی برابر نظر رکھے ہے۔ اسے پڑھیے تو ایک خوبصورت منظر نامے کا لطف آتا ہے۔’ڈومنی‘ اور ’بھوکا بھکاری‘ میں بھی پسماندہ کرداروں کی مجبوری اور سرمایہ دارانہ نظام کی بالا دستی کا ذکر ہے۔

ساتویں حصے میں  تین نظمیں ہیں دیسی نمائش، بسکٹ والی اور ’قدامت کا مقبرہ‘ان نظموں میں بھی غربت، قدامت پسندی اور سرمایہ داروں کی زیادتیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آٹھویں اور آخری حصے میں آٹھ نظمیں ہیں  نیا ادب، کنور کی تفریح، یقین صحت، جہالت مرد ہ باد، پانی کا گھر، لیڈر، 1939 اور ’نوجوانوں سے‘ان نظموں میں بھی  غریبی  اور پسماندگی کو اپنے وطن ِ عزیز سے نکال پھینکنے  کا  جذبہ حاوی نظر آتا ہے جو پہلی نظم  ’نیا  ادب‘ کے اس آخری شعر سے ظاہر ہے        ؎

مجھ کو باغوں میں نہ اونچے اونچے کاشانوں میں ڈھونڈھ

ڈھونڈنا ہو تو غریبوں کے سیہ  خانوں میں  ڈھونڈھ

کنور کی تفریح‘  یہ نظم بھی اونچ نیچ اور سرمایہ داری کے خلاف ہے مگر اس میں رُخ بدل گیا ہے۔ یہاں کنور یعنی شہزادے صاحب اپنے محل سے کچھ دور چہل قدمی کرتے ہوئے ایک دوشیزہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ سر پر اپلوں کا بوجھ لیے ان کے قریب سے گزر جاتی ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ دونوں کے بیچ دولت  و  ثروت کی کھائی ہے، متعصب سماج ہے، اس کو اپنی رانی بنانے کے لیے بیتاب ہو جاتے ہیں۔ جب سماج بیچ میں آتا ہے تو وہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔راج  اور تاج سے ٹکرا جاتے ہیں اور نظم اس شعر پر تمام ہو جاتی ہے      ؎

 جہاں  سے ظلم  کا  لاشہ اٹھا کے دم لوں  گا

یہ  فرق  شاہ  و گدا  کا  مٹا کے دم لوں  گا

پانی کے گھر‘  قومی یکجہتی پر مبنی شدید طور پر ایک جذباتی نظم ہے۔  اس کا پہلا اور آخری شعر ملاحظہ فرمائیں          ؎

ہائیں  یہ کیا  ایک  اسٹیشن  پہ  دو  پانی  کے گھر ؟

ایک  پر لکھا  ہوا   ’ہندو‘، ’مسلماں‘  ایک  پر ؟

بھائی  بھائی   کے  لہو  کے  واسطے   بیتاب  ہے

اور  اس جھگڑے  میں خود  ہندوستاں بے آب ہے

آخری نظم  ’ نوجوانوں سے‘  جوش اور جذبے سے بھر پور ہے۔  وہ نوجوانوں سے للکار کے کہتے ہیں      ؎ 

اٹھو نوجوانو!  اٹھو  نوجوانو!

سنو  وہ بگل  کی  صدا  آ رہی ہے

فضاؤں میں موسیقیت  چھا رہی ہے

کوئی  فوج  بڑھتی چلی  آ رہی  ہے

اٹھو نوجوانو!  اٹھو  نوجوانو !

اٹھو  اور  جوشِ   جوانی  دکھا  دو

بڑھو  اور آگے بڑھو  بڑھتے  جاؤ

اٹھاؤ    نشانِ    بغاوت    اٹھاؤ

اٹھو نوجوانو!  اٹھو  نوجوانو!

اس کتاب میں جو نظمیں اور گیت شامل ہیں ان کے تیور کا  اندازہ شاید ہو گیا ہوگا۔  تمام کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شمیم کے لہجے میں وہ چنگھاڑتے ہوئے الفاظ نہیں ہیں جو  صرف جوش  ملیح آبادی کا  ہی خاصہ ہے۔ مگر شمیم کی نظموں میں بھی وہی آگ ہے، وہی تڑپ ہے لیکن اکثر  نرم اور خوب صورت الفاظ میں سجائے ہوئے اور لطیف پیرائے میں پیش کی گئی ہے۔ یہ کتاب  1939 میں  شائع ہوئی ہے یعنی اس میں آزادی حاصل ہونے سے تقریباً  10  سال پہلے کی نظمیں ہیں۔ شمیم آزادی کے  بعد بھی قومی یکجہتی اور حب الوطنی پر نظمیں کہتے رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی کے انتقال پر ان کی نظم  ’جگاؤ نہ باپو کو نیند آگئی ہے‘  نے  عوام و خواص دونوں کو بے حد متاثر کیا اور وہ بہت مقبول ہوئی۔ 

 

Azam Abbas Shakeel

Flat No.: 83, AIMS Apartment

Mayur Kunj

Delhi - 110096

Mob.: 9717581666

 

ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں