23/2/22

فائز دہلوی کے کلام میں مقامی رنگ - مضمون نگار : نفاست کمالی

 



شمالی ہند میں جدید تحقیق کے مطابق نواب صدرالدین خاں فائز دہلوی اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں ان کے آباو اجداد سلطنت مغلیہ کے منصب داروں میں سے تھے اور خود بھی منصب امارت اور جاگیر سے سرفراز تھے۔ غالباً اس لیے وہ اپنے نام کے شروع میں ’نواب ‘ کا اضافہ کرتے تھے۔

فائز دہلوی کا زمانہ سیاسی طور پر بڑے انتشار کا تھا۔ سلطنت مغلیہ دن بہ دن زوال کے تاریک غار کی طرف جا رہی تھی۔ آئے دن بادشاہ تبدیل ہو رہے تھے۔ سیاست کی طاقت بکھر رہی تھی لیکن اردو اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ ترقی کے زینوں کی طرف گامزن تھی۔شمال میں اردو شاعری اپنا اعتبار قائم کر رہی تھی جبکہ اس وقت تک دکن میں شعروادب کے انبار لگ چکے تھے خصوصاً صنف مثنوی نے بڑی ترقی کر لی تھی۔ فائز کا بہر حال یہ کارنامہ ہے کہ وہ اپنی منصبی ذمے داریوں کوپوراکرتے ہوئے اردو کے دامن کو اپنی شاعر ی سے ’دامانِ باغباں‘اور ’کف گل فروش‘ بنا رہے تھے اوراس طرح انھوں نے شاعری میں اپنی ایک امتیازی حیثیت بنالی۔ فنی اور ادبی حیثیت سے اگر چہ فائز دہلوی کا مرتبہ زیادہ بلند نہیں ہے لیکن قدامت کو ذہن میں رکھتے ہوئے فائز کی شاعری کا ناقدانہ جائزہ لیں تو فائز کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔

فائز دہلوی بنیادی طور پر فارسی کے شاعر ہیں اور ان کے فارسی کلام کا ایک بڑا ذخیرہ آج بھی موجود ہے پھر بھی ان کو شہرت ان کے اردو دیوان کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ انھوں نے اردو میںباضابطہ شاعری اس وقت شروع کی جب 1720 میں ولی کا دیوان دہلی پہنچا۔ اس سلسلے میں جمیل جالبی اپنی کتاب ’تاریخ ادب اردو‘ میں لکھتے ہیں :

’’انھوں نے رواج زمانہ کے مطابق دیوان ولی کے آنے کے بعد1132ھ بمطابق 1720میں یا اس کے بعد اردو میں شاعر ی شروع کی۔‘‘

(جمیل جالبی: تاریخ ادب اردو، جلد دوم،  نمبر301

اس سے قبل بہت سے اہل قلم کی طرح اردو کو فارسی زبان کے مقابلے میں حقیر اور بازاری سمجھتے تھے انھوں نے جملہ اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن غزل گوئی اور نظم نگاری کو فوقیت حاصل ہوئی۔فائز کے زمانے میں ایہام گوئی کا دور  دورہ تھا۔ حاتم، ناجی، آبرو، مضمون، یکرنگ وغیرہ اردو کے تمام سربر آوردہ شعرا اس رنگ سے رنگے ہوئے تھے۔بعد میں یہ رنگ ہلکا پڑگیا اور شاعروں نے اس طرز کو چھوڑ دیا اور دوسروں کو بھی اسے ترک کرنے کی تلقین کی لیکن فائز ایہام گو شاعر نہیں ہیں انہوں نے ولی دکنی کا اثر قبول کرکے انھیں کے طرزپر شاعری شروع کی ان کی 46غزلوں میں سے 33 غزلیں ولی کی ہی طرز پر لکھی گئی ہیں۔خطبۂ کلیات میں خود فائز کے اپنے آغاز شباب کی حدت،شوخی اور آزاد روی کا ذکر کیا گیا ہے اپنی عاشقانہ اور رومانی افتاد طبع کی وجہ سے کبھی بھی مضمون آفرینی کی کوشش نہیں کی۔شوق کے غلبے میں جو کچھ محسوس کیا بلا کم وکاست لکھ دیا اوراس طرح انھوں نے شاعری میں اپنی امتیازی حیثیت بنالی۔انھیں امتیاز وخصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہندوستانی یا مقامی رنگ کی بھی جلوہ گری ہے۔

ان کے کلام میں ہندوستانی عناصر اور مقامی رنگ کی عکاسی بڑی خوبی سے کی گئی ہے۔فارسی اور ہندوستانی عناصر کے امتزاج سے ان کی شاعری میں گنگا جمنی حُسن پیدا ہو گیا ہے۔ابتدا میں ان کی شاعری کی بنیاد فارسی شاعروں کی روایتوں پر کھڑی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں فارسی کے اصناف غزل،قصیدہ،مثنوی،اردو میں لائی گئیں۔خیالات اور مواد میں تقلید کی گئی اس طرح فارسی شاعری کی بیجا تقلید اردو شاعری کی روایت بن گئی اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اردو شاعری ولی سے غالب کے زمانے تک خارجی اور معنوی حیثیت سے صرف فارسی شاعری کی نقالی کرتی رہی یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں ہمیشہ اصلی تجربات و مشاہدات اورذاتی جذبات واحساسات کی کمی محسوس کی گئی حد تو یہ ہے کہ اردو شعرا بیت کے علاوہ مضامین بندش الفاظ و تراکیب تشبیہات واستعارات میں کورانہ تقلید کرنے لگے نقادوں نے اس سلسلے میں اردو شاعری پر کافی تنقیدیں کی ہیں جو بجاہیں۔محمد حسین آزاد اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’آب حیات‘ میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

’’ تعجب ہے کہ فارسی شاعری نے اس قدر خوش ادائی اور خوش نمائی پیدا کی ہے کہ ہندی بھاشا کے خیالات جو خاص اس ملک کے حالات کے موجب تھے انھیں بھی مٹا دیا چنانچہ خاص وعام پپیہے اور کوئل کی آواز چمیلی کی خوشبو کو بھول گئے۔نسرین وسنبل جو کبھی دیکھی نہ تھی ان کی تعریف کرنے لگے رستم اور اسفند یار کی بلندی کو ہ اَلوَنداور بے ستون کی بلندی اور جیحوں اورسیہون کی روانی نے وہ طوفان اٹھا یا کہ ارجن کی بہادری ہمالیہ کی ہری ہری پہاڑیاں برف سے بھری چوٹیاں گنگا جمنا کی روانی  کو با لکل روک دیا۔‘‘

(آب حیات)بحوالہ کلیم الدین احمد اردو شاعری پر ایک نظر  ص2)

کلیم الدین احمد کہتے ہیں :

’’فارسی شاعری نے کچھ ایسا سبز باغ دکھا یا ہے کہ شعرا اپنی فطری ذہانت اور طباعی،اپنی قوت اور جدت طرازی سے دست بردار ہو کر فارسی شاعری کی تقلید میں منہمک ہو گئے۔‘‘(اردو شاعری پر ایک نظر)

حقیقت بھی یہی ہے کہ اردو شعرا ہندوستانی ماحول اور آب وہوا میں رہ رہے تھے لیکن ایرانی ماحول کا نقشہ اپنے کلام میں پیش کر رہے تھے۔لیکن فائز دہلوی اور نظیر اکبر آبادی  اس سے مستثنیٰ ہیں۔ان کی شاعری ایرانی فضا میں سانس نہیں لیتی ہے۔ہندوستانی عناصر سے اپنے کلام کو آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں اس سلسلے میں فائز کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے مسعود حسین رضوی تحریر کرتے ہیں :

’’ اردو شاعری پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ مقامی رنگ سے خالی ہے لیکن فائز کا کلام اس اعتراض کی زد سے دور ہے وہ تشبیہوں،استعاروںا ور تلمیحات میں خالص ہندوستانی چیزوں سے زیادہ کام لیتے ہیں۔‘‘

(مقدمہ، دیوان فائز مسعود حسین رضوی ادیب ص830)

فائز ہندوستانی زندگی،ہندوستانی رسم ورواج، تہوار اور میلوں کا منظر اپنے کلام میں بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں مجنون گورکھپوری نے نظیر کے بارے میں لکھا ہے جو فائز پر بھی صادق آتا ہے :

’’نظیر پہلے شاعر تھے جن کو میں نے زمین کی چیزوں کے متعلق باتیں کرتے ہوئے پایا۔پہلی دفعہ میں نے محسوس کیا کہ شاعر کا تعلق روئے زمین سے بھی ہے۔‘‘

فائز سراپا ہندوستانی ہیں۔ان کے سوچنے کا انداز، تخیل،فکر اور ان کا اسلوب بیان ان کے پیش کردہ مناظر حتی کہ ان کی تشبیہات واستعارات بھی سو فیصد ہندوستانی نظر آتے ہیں فائز کا یہ کمال ہے کہ ہماری زندگی کی چلتی پھرتی تصویر پیش کر دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے کلام میں بھر پور صداقت اور واقعیت کی جھلک ملتی ہے۔نظموں کے چند عنوانات دیکھیے       ؎

تعریف پنگھٹ،تعریف ہولی، بیان میلہ بہتہ، تعریف جوگن، دروصف کاچن،تعریف تمبولن،در وصف بھنگیرن،تعریف گوجری،درگاہ قطب وغیرہ۔

پنگھٹ کا تعلق پورے طور پر ہندوستان سے ہے اس کے نام ہی سے ایک خاص رومانی فضا کا تصور ذہن میں ابھر تا ہے۔جہاں لڑکیاں اور عورتیں پانی بھرنے کو جمع ہوتی ہیں۔کیا ہی خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔عاشق مزاج حضرات اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔فائز نے اپنی فنکاری اور تخلیقی قوت سے تمام جزئیات کے ساتھ اس منظر کو پیش کر دیا ہے چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

کیا جب سیر میں پنگھٹ کا گلزار

کنویں کے گرد دیکھی فوج پنیہار

ہر اک پنیہار واں اک اپچھرا تی

کنویں کے گرد اندر کی سبھا تی

لے آئی تھی ججریاں اک سندر

لے جاتی اک گگریاں سیس پر دھر

سبن کی رنگ رنگ لہنگا وساری

کنارے ان کے تھی ٹانکی کناری

ان اشعار میں سارے الفاظ تلمیحات وتشبیہات ہندوستانی ہیں۔پنگھٹ پر ساری لڑکیاں انھیں اپسرا ہی نظر آئیں معلوم ہوتا ہے کہ فائز کی نگاہ میں کوئی بدصورت عورت تھی ہی نہیں۔

نظم ’’تعریف ہولی بھی ایک کامیاب اور دلکش نظم ہے۔اس کے واقعات اور مناظر بڑے ہی دلکش انداز میں پیش کیے گئے ہیں ان کی رنگ رلیاں اور گل چھڑے کا مزہ لے لے کر تبصرہ کرتے ہیں۔گلال،ابیر،کیسر کے چھینٹے پھینکے جاتے ہیں مرد عورت مستی میں ہنسی مذاق اور ٹھیٹھول کرتے ہیں خوشی اور مسرت میں رقص کرتے ہیں فائز کہتے ہیں           ؎

لے ابیر اور گجابھر کر رومال

چھڑکتے ہیں اور اڑاتے ہیں گلال

سب کے تن میں ہے لباس کیسری

کرتے ہیں صد برگ سوں سب ہمسری

ناچتی گا گا کے ہوری دم بدم

جیوں سبھا اندر کے دربار ارم

بعد میں اس روایت کو نظیرنے کافی آگے بڑھایا اور ہولی کی رنگینی کو زیادہ موثر طریقے سے پیش کیا۔ فائز سے پہلے قلی قطب شاہ  نے بھی ہولی بسنت وغیرہ پر خوبصورت نظمیں کہی ہیں۔

نظم ’بیان میلہ بہتہ‘ میں ایک بازار کی تصویر کشی ملتی ہے جو لال قلعے کے لاہوری دروازے پر لگتا تھامنظر نگاری سے صداقت جھلکتی ہے۔لوگوں کا ریلا آرہا ہے،شور و غل بڑھ رہا ہے،بازار وں کی چہل پہل بھی بڑھ رہی ہے،ماہ جبیں عورتیں بھی بازار کی رونق میں اضافہ کر رہی ہیں۔کہیں تاشہ،حلوائی،گلفروش،تمبولن،شراب فروش ہیں کہیں بھکتوں کا ہجوم ہے تو کہیں بھانڈ اور نٹ  کا ہنگامہ۔ سبھی اپنی دکانیں سجائے بازار میں جلوہ افروز ہیں ذرا فائز کی زبانی سنیے        ؎

آج بہتے کا یار میلا ہے

خلق کا اس کنارے ریلا ہے

مرد وزن سب چلے ہیں اس جاں پر

خلق پھیلی کنارے دریا پر

بہل وگاری میں سب چلے نسواں

کوچۂ بازار میں ہوں چیں چاں

اک جانب میں بھانڈ کا ہے شور

دیکھنا ان کا اہل دل کو ضرور

اس زمانے میں جب کہ اردو شاعری گھٹنوں کے بل چل رہی تھی۔ فائز کی نظموں میں تخیل کی فراوانی، تخلیقی صلاحیت،قوت مشاہدہ اورتجربات واحساسات کی تیزی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے وہ بڑی سادگی سے سارے مناظر پیش کر دیتے ہیں۔

کاچن،تمبولن،بھنگیرن،گوجرن یہ تمام مختلف پیشہ ور عورتیں ہیں اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن فائز نے ایک عام ہندوستانی نظر سے دیکھا۔ان عورتوں کے ہندوستانی حسن اور لباس سے بہت متاثر ہیں۔فائز نے اس زمانے کی عام روش کے خلاف پست طبقے کی گنوار عورتوں کے حسن اور طور طریقے کو اجاگر کیا ہے۔بعد میں جوش ملیح آبادی نے جامُن والیاں اور دیگر مزدور پیشہ جفاکش عورتوں کی تعریف میں نظمیں لکھیں۔وہ عام زمینداروں اور رئیسوں کے مقابلے میں نچلے طبقے کی حمایت کرتے تھے۔ ان کی نظم ’تمبولن ‘ کے چند اشعار پیش ہیں          ؎

ایک تمبولن دیکھی میں دل ربا

ماہ رخاں بیچ بہت خوش ادا

بانکری تھی ہاتھ میں اس کے ہری

بیٹھی دکان میں وہ جوں پری

ہونٹا اوپر زیب دیتی تھی دھڑی

گَل میں تی موتیاں کی اس کو لڑی

کیلے کے گابھے سے ملائم دو ہات

دیکھ کے مرجھا تے تھے کیلے کے پات

نت دل عشاق کی چوری کرے

ہاتھ میں لے اپنی گلوری کرے

ان اشعار کی یہ خوبی ہے کہ عورت کے حسن وادا کے ساتھ عشوہ وغمزہ اور چاہنے والے کے ساتھ اس کے برتاؤ کو بھی پیش کیا گیا ہے۔

تشبیہات واستعارات کی شیریں ادائیگی کی فکر میں کبھی کبھی شاعر بہک بھی جاتا ہے اوردور ازکار تشبیہات انقباض پیدا کرتی ہیں لیکن فائز نے تشبہیات و استعارات کی پیش کش میں بڑی تخلیقی بصیرت اور فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسعود حسین رضوی ادیب لکھتے ہیں :

’’وہ تشبیہوں استعاروں اور تلمیحوں میں خاص ہندوستانی چیزوں سے زیادہ کام لیتے ہیں مثلاً پلک کو کٹاری،نرم اور نازک گول باہوں کو کمل کی ڈنڈی اور کیلے کا کابھا،ناک کو چمپے کی کلی سے دلکش،رفتارکو موڑ اور مست ہاتھی کی چال سے تشبیہہ دیتے ہیں حقیقت بھی یہی ہے کہ تشبیہات اور استعارات سے ان کے قوت مشاہدہ اور فن کا رانہ بصیرت کا بخوبی اندازہ ہو جاتاہے۔‘‘

(مقدمہ،دیوان فائز دہلوی سید مسعود حسین رضوی ادیب  ص83)

اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں            ؎

خوش نما تھا اس کے پگ میں پائے زیب

پیر نارنگی و تلوے تھے سیب

کنک سوں سفادار وہ بدن

کنول ڈال ہے ہاتھ گال ہے چرن

دو کنول دو گل ہیں گال

کلی چمپے کی ناک کو ہے مثال

آوارہ اور اوباش لوگ بھنگیر خانے میں اس طرح پھیلے ہوئے ہیں جیسے آشیانے پر کوے اودھم مچا رہے ہیں۔کوا ہندوستانی پرندہ ہے۔کوّے کا غول کبھی کبھی جو منظر پیش کرتا ہے وہ ہندوستانیوں سے پوشیدہ نہیں۔ہندی شاعری کی پیروی اور تقلید میں معشوق کا استعارہ چاند سے اور عاشق کا چکور سے پیش کیا جاتاہے جیسے   ؎

 سب چکورے بھنگیر خانے پر

جیسے کوّے ہیں آشیانے پر

فائز نے اپنی شاعری   میں ہندؤں کے مذہبی عقائد اور معاشرتی طریقوں کا بھی ذکر کیا ہے جیسے اندر کی سبھا،اپچھرا وغیرہ فائز کی نظموں میں ان کی غزلوں کی بنسبت ہندوستانی عناصر یا مقامی رنگ زیادہ ہیں لیکن ان کی غزلیں بھی مقامی رنگ سے بالکل عاری نہیں ہیں۔ خاص کر عشق میں ان کی ارضیت اور معشوق کی سج دھج بالکل ہندوستانی ہے۔طرز ادا اور لب ولہجہ پر خالص برج بھاشا اور دہلی کی بولیوں کا اثر ہے۔غزل کے ایک شعر کی طرز ادا ملاحظہ ہو      ؎

حسن بے ساختہ لبھاتا ہے مجھے

سُرمہ انکھیا ں میں لگایا نہ کرو

اس طرح کے اور بھی اشعار ہیں جن کی تلاش میں جانے پر طوالت پائے قلم تھام لیتی ہے۔

فائز کی شاعری کا محاکمہ کرتے ہوئے جمیل جالبی لکھتے ہیں :

’’فائز کی شاعری میں کوئی گہری معنویت نہیں ہے لیکن آبرو، ناجی اور دیگر شعرا کے یہاں سے زیادہ مقامی رنگ ملتا ہے۔ان کی شاعری کی فضا ان کے ذخیرۂ الفاظ اور ان کے رمز و کنایے میں ہندوئیت کی چھاپ گہری ہے۔ یہی وہ رنگ سخن ہے جو فائز کو اردو کے دوسرے شاعروں سے مختلف کرتاہے۔‘‘

(ڈاکٹر جمیل جالبی :تاریخ ادب اردو، حصہ دوم  ص305)

اتنی بات تو تسلیم کرنی ہی ہوگی کے فائز دہلوی نے فارسیت کے اس دور میں مقامی رنگ اور ہندوستانی عناصر کی جلوہ گری سے اردو شاعری کے دامن کو وسیع اور زبان کو تقویت بخشی ہے یہ ان کاطرۂ امتیاز ہے۔



Dr. Nafasat Kamali

Asst Professor

Guest Faculty, Dept of Urdu

C M College, Qila Ghaat

Darbhanga - 846004 (Bihar)

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر 2021



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں