3/3/22

ہمارا تعلیمی نظام اور بدلتا ہوا تکنیکی منظرنامہ - مضمون نگار: محمد احسن

 





 

 علم و اہمیت کا اعتراف روزِ اول سے ہر مہذب معاشرے نے کیا ہے۔تعلیم یافتہ عوام ہی ایک بہتر سماج اور ایک ترقی یافتہ ملک و قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔ کسی ملک و قوم کے عروج و زوال کی کہانی میں تعلیم کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔ انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جن قوموں نے تعلیم کو اپنا شیوہ بنایا، دنیا ان کے سامنے سرنگوں ہوتی چلی گئی۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر دنیا کے  بیشتر ممالک اپنے شہریوں کو بہتر تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیںاور اپنی سیاسی، معاشی و اقتصادی صورتِ حال، تہذیب و ثقافت اور نظریے کو سامنے رکھ کر اپنا تعلیمی نظام و ضع کرتے ہیں، نیز قومی، سماجی اور معاشرتی حالات و ضروریات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے طویل المیعاد پالیسیاں تر تیب دے کر اپنے ہدف کو حاصل کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں جب ہم اپنے ملک کے نظامِ تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیمی نظام پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے ہم ابھی سست رو ہیں، یا اپنی تعلیمی منصوبہ بندی میں اس ہدف کو حاصل نہیں کر سکے جو مقصود تھا۔

ہندوستان کو آزاد ہوئے 74برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ ہماری شرحِ خواندگی 77  فیصد کے آس پاس ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام جو انگریزوں سے ورثے میں ملا، بہت حد تک غیر شمولیاتی تھا۔آزادی کے بعد ایک مضبوط قوم کی ترقی کے حصول کے لیے ہندوستان نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ اس کا مقصد آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر اور مضبوط ہندوستان کی تعمیر کرنا ہے جو صحیح معنوں میں جدید فکر اور خوشحالی کا باعث ہو۔ اس کے حصول کے لیے ہمارے ملک کی سب سے بڑی طاقت یعنی ہماری نوجوان آبادی کو صحیح رخ فراہم کرنے کے لیے انھیں یکساں مناسب تعلیمی مواقع مہیا کرنے ہوںگے۔ تاکہ ہم اپنی نوجوان آبادی کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔ اس کے لیے ایک عمدہ تعلیمی نظام کی ضرورت ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس کا احساس بھی ہے لیکن اس میں کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اس سمت میں  بالخصوص اعلیٰ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی کتنی کوشش کر رہے ہیں۔

اس تناظر میں جب ہم اپنے ملک کی اعلیٰ تعلیمی صورتِ حال پر نظر ڈالتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہندوستان میں  طلبا اور اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے مواقع کے درمیان  ایک بڑا خلاہے۔ ہمارے یہاں  اعلیٰ تعلیم  میں داخلے کا تناسب 27فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک  امریکہ، برطانیہ، جاپان، شمالی کوریا اور چین کے مقابلے نسبتاً کم ہے۔ حکومتِ ہند کی وزارت تعلیم نے 2022تک 32 فیصد اعلیٰ تعلیم میں داخلے کا ہدف رکھا ہے۔2001 سے اب تک اعلیٰ تعلیم میں مجموعی داخلے  کے تناسب میں چار گنا اضافہ  ہوچکا ہے یعنی ہم اعلیٰ تعلیم میں 32فیصد داخلے کے ہدف کو  حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں اضافے کے باوجود اس شعبے کے سامنے متعدد چیلنجز جیسے فارغ التحصیل افراد کی عدم ملازمت، تعلیم کا ناقص معیار، کمزور حکمرانی، ناکافی مالی امداد اور پیچیدہ ریگولیٹری معیارات کا سامنا ہے۔

آج کے حالات صحیح معنوں میں غیر یقینی، پیچیدہ اور مبہم  ہیں۔ برق رفتار ٹکنالوجی، تیزی سے معلومات کا بہائو  عالمی سطح پر باہم مربوط Supply Chain اور فنانشیل مارکیٹ غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے اور اس میں کسی بھی لمحے کوئی نہ کوئی تغیر رونما ہوجاتا ہے۔ اس تکنیکی اور عالمگیر بدلتے منظرنامے کے اثرات ہندوستان کی نوجوان آبادی کے تعلیم اور کیریئر پرروز بہ روز  بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی شعبوں کو اس بدلتی ہوئی صورتِ حال و ضروریات کے مطابق تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ 51,649سے زیادہ اعلیٰ تعلیم کے شعبوں کے ساتھ ہندوستان دنیا کے ایک بڑے اعلیٰ تعلیمی شعبوں والا ملک ہے۔ ان کثیر التعداد تعلیمی اد اروں سے ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن ان میں اعلیٰ تعلیمی معیار کا فقدان ہے۔ فارغ التحصیل افراد کے لیے   فرسودہ اور علمی سطح سے مطابقت نہ رکھنے والا غیر موزوں اور فرسودہ نصاب، درس و تدریس کا ناقص معیار، تحقیق کی عدم موجودگی یا ناقص تحقیقی معیار، کمزور لائحہ عمل، تدریس و فنی تعلیم کی مشکلات، محدود رسائی، یونیورسٹی اور صنعت میں باہمی ربط کا فقدان، اور ضرورت سے کم رقوم کی فراہمی وغیرہ چند ایسی خامیاں ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔نیز ہندوستان کے تعلیمی نظام کو عالمی سطح پر مسابقتی، موزوں و مناسب بنانے کے لیے پرائمری سے اعلیٰ تعلیم کی سطح تک جدّت و تبدیلی کے نقطہ نظر کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔

 Brookings India کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم میں داخلے لینے والے 50فیصد سے زائد طلبہ گریجویشن کے صرف تین کورس بی اے، بی ایس سی، بی کام میں داخلہ لیتے ہیں جو یونیورسٹیوں سے ملحقہ کالجوں کے ذریعے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان میں اکثر میںکسی قسم کی جدت و اختراع کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی ہے، یا یوں کہیں کہ بہت کم ہوتی ہے۔ سخت اصول و ضابطے سے بندھے ہوئے ہندوستان کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے،مالی و سائل کی کمی سے بھی دوچار ہیں۔ ان میں عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرنے کی وہ صلاحیت اور مستعدی نہیں جس کی ضرور ت ہے۔ ہندوستان میں ایسے اداروں کا بھی فقدان ہے جو تیزی سے بدلتی ہوئی مانگ و ضرورت کے لیے چاق و چوبند اور مستعد ہوں۔ نیز جو اپنے نصاب میں ضرورت کے مطابق  بغیر تاخیر کیے ہوئے تبدیلی لاسکیں۔

ہمارے سامنے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ مشرقی ممالک کی تاریخ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی سطح کی تعلیم وہ  کلید ہے جو معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے تمام دروازے کھولتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں عوامی بنیادی تعلیم اور فنڈنگ کی جو اہمیت ہونی چاہیے اس کا فقدان رہا ہے۔

دہلی کی ایک بھرتی اور مہارت کی تشخیص کرنے والی کمپنی Minds Aspiriing  کا کہنا ہے کہ 85 فیصدلبرل آرٹس فارغ التحصیل اور 75 فیصد انجینئرنگ گریجویٹس ہندوستانی اور ملٹی نیشنل اداروںمیں قابلِ ملازمت نہیں ہیں  اور یہی سبب ہے کہ ہندوستانی صنعت و  زراعت کی پیداواری صلاحیت دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے کم ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہو ا کہ ہمارے 80فیصد انجینئرنگ طلبا علمی معیشت میں روزگار حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ اور ان میں صرف  2.5 فیصد انجینئرنگ طلبا مصنوعی ذہانت اور ٹیکنیکل مہارت رکھتے ہیں جو موجودہ دور میں صنعت کے لیے لازمی ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام میں ایڈ ہاک تبدیلیوں سے بے روزگاری جیسے مسئلے کو حل کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی کے مقابلے ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم کا حصول آسان ہوا ہے۔ نتیجتاً تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے  لیکن یہ اضافہ روزگار میں مواقع کی فراہمی اور دستیابی کے تناسب سے میل نہیں کھاتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں بہتر روزگار کے حصول کی دوڑ میں ہر 100میں سے 70امیدوار اعلیٰ تعلیمی یافتہ ہوںگے۔ اس وقت کاروباری گھرانے ایسے امید واروں کو ترجیح دیں گے جو اپنے میدان میں یا اُن سے منسلک شعبے میں خاطر خواہ تجربہ رکھتے ہوں  اور تربیت یافتہ ہوں۔ موجودہ  ’نالج اکنامی‘  کے دور میں تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ تربیت یافتہ ہونا بھی لازمی ہوتا جا رہا ہے۔ اب کسی ایک مخصوص علم پر اکتفا کرکے روزگار کے میدان میں مقابلہ آرائی دشوار کن ہوگی۔  ’نالج مکس ‘  کے زمانے میں  ’ ہرفن مولا‘  ہونا بھی روزگار حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوگا۔لیکن اس سے یہ مراد قطعی نہیں کہ ماہرین اور متخصص افراد کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ماہرین کی بھی ضرورت ہوگی لیکن اس قدر نہیں جتنی ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ روزگار حاصل کرنے کے لیے تازہ گریجویٹس کے ساتھ سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ان میں بنیادی تصورات اور مہارتوں کا فقدان ہے جو آج کی صنعت کے لیے لازمی ہے۔نیز تکنیکی معلومات کی تفہیم کی کمی، کلائنٹ ہینڈلنگ اسکلس کا فقدان اور متعلقہ شعبے کی عدم معلومات اس شعبے کی وہ چند خلیج ہیں جن کو پُر کیے بغیر ہمارے فارغ التحصیل طلبا بر سرِ روزگار نہیں ہو سکتے۔

ماہرین کے مطابق ہمارا ثانوی تعلیمی نظام، گریجویشن میں داخلے کے لیے سلیکشن کا طریقہ کار، درس و تدریس کا معیار، مضمون میں دلچسپی اور تعلیمی شعبے میں کارپوریٹ سیکٹر کی عدم شمولیت جیسی متعدد وجوہات ہیں، جو ہمارے فارغ التحصیل گریجویٹس کی روزگار حاصل کرنے صلاحیت کی شرح کو مزید کم کرتے ہیں۔ جبکہ اس شعبے سے وابستہ Stakeholders کا نقطہ نظریہ ہونا چاہیے کہ وہ ان وجوہات کی نشاندہی کریں کہ جن کے سبب Employability Gaps میںروز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔صحیح معنوں میں روزگار کے فاصلے کو ختم کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ تاہم ان خامیوں کی وجوہات کی شناخت، ان کی مقدار کا تعین  اور قلیل مدتی پیشہ وارانہ و طویل مدتی منصوبہ بندی کر کے اس خلیج کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ 

آج کے علمی معیشت کے ابھرتے ہوئے منظرنامے میں اعلیٰ تعلیم کا کردار کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک بالخصوص ہندوستان کے تعلق سے کثیر الجہت ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تدریسی معیار کی کمی، مالی اعانت، تعلیم میں اصول و نظریات پر ضرورت سے زیادہ توجہ اور عملی علم کی بجائے تدریس کے روایتی طریقے، نجکاری، سہولیات کی عدم دستیابی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی، کوٹا سسٹم وغیرہ وہ مسائل ہیں جو ہمیں سست رو کر رہے ہیں۔ اس سبب ہمارے بیشتر تعلیمی ادارے اذیت ناک دور سے گزر رہے ہیں۔

 کیا ان مسائل کا حل ہمارے پاس ہے ؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ہمیں خود مختار اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے جو اپنے نصاب کی تشکیل اور تعلیمی معاملات پر آزادانہ فیصلے لینے کا اختیار رکھتے ہوں، ان اداروں کو جدید پروگراموں کو تیار کرنے کی آزادی ہو۔ جو فارغ التحصیل افراد کو نہ صرف ملازمت یا نوکری کا متلاشی بنائیں بلکہ اپنے میدان میں رہنما بھی بنائیں اور اپنی روایتی تین سالہ ڈگری فارمیٹ( جو اپنی افادیت کو کھو چکا ہے )کے مطابق ہونے کی قید سے آزاد ہوں۔ آج ہمیں علمی، سیاسی اور سماجی قیادت کے لیے عالمی معیار کے اداروں کی ضرورت ہے اور ہمارے یہاں اس کی عمدہ مثالیں IITS, NITS, IIBMS اور دیگراعلیٰ تعلیمی  اداروں کی صورت میں موجود ہیں۔

 آج ٹکنالوجی نے انسان کی جگہ لے لی ہے۔ اب صنعت و زراعت میں ا نسانی مدا خلت ر فتہ رفتہ کمزور یاختم ہورہی ہے۔ ٹکنالوجی نے ہر چیز پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر شعبے میں ایسے افراد تیار کرنے ہوںگے جو بدلتے ہوئے تکنیکی منظر نامے کے ساتھ مطابقت پیدا کر سکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے بیشتر اعلیٰ تعلیمی اداروں نے اس بدلتی ہوئی حقیقت سے پیدا شدہ چیلنجز کا پوری طرح سامنا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کیا ہے ،  لیکن ہم ان چیلنجز کا بخوبی حل نکال سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ملک کی  اصل طاقت ہمارا  انسانی وسائل اور علمی نظام ہے ،  جس نے ہزاروں سال کا سفر طے کرکے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تعلیمی نظام اورملک کوترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ قوموں کی تعمیر میں تعلیم کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ بہتر معیار ِ تعلیم سے ہماری آنے والی نسلوں کی سربلندی ہوگی۔  نیز تعلیم جمہوریت کی جڑوں کو مستحکم اور مضبوط کرتی ہے۔ چنانچہ عصر حاضر میں معیاری تعلیم کی ضرورت پہلے سے زیادہ بلکہ ناگزیر ہے۔ انسانی وسائل کی صلاحیت اور قابلیت کا دارو مدار تعلیمی نظام پر منحصر ہے یعنی موجودہ حالات میں ترقی کا واحد منبع تعلیم یافتہ عوام ہے۔ تعلیم ہی وہ عمل ہے جس سے انسان کا جسم، دماغ اور کردار بنتا، سنورتا اور مضبوط ہوتا ہے۔نیز تعلیم ہی وہ عمل ہے جو ہماری شخصیت کو نکھارتا اور ہمہ جہت بناتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان پر مزیدغور و فکر کریں  اور  ہائر ایجوکیشن کا اعلیٰ معیار قائم کرنے کا ہدف لے کر ایک طویل مدتی ایکشن پلان مرتب کریں۔ اُن اصولوں کو نصاب میں شامل کریں جو بدلتے ہوئے تکنیکی منظر نامے سے مطابقت رکھتے ہوں اور ایسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو فروغ دیں جن میں خودمختاری، اور نصاب میں جدّت طرازی کے ذریعے ہر شعبے میں قائدین پیدا کرنے کی صلاحیت ہو۔بین الاقوامیت کے فروغ، جدید معیشت کی عالمگیری نوعیت، علم ثقافت اور تا عمر سیکھنے سکھانے اور تعلیم جاری رکھنے کے تصورنے بین الاقوامی اور قومی حوالے سے اعلیٰ تعلیم کو ایک نیا رخ اور نمایاں حیثیت عطا کی ہے۔ ان بدلتے ہوئے حالات کے مد نظر ہندوستان کے تعلیمی ادارو ں کو  عالمی معیار پر پورا اترنا ہوگا اور ایسے سند یافتہ افراد تیار کرنے ہوں گے جو اعلیٰ اداروں کے ہم پلہ ہوں۔ ایسے فارغ التحصیل افراد صرف ملازمت کے متلاشی ہی نہیں ہوں گے بلکہ ملازمت دینے والے بھی بنیں گے۔کیونکہ ہندوستان ایک بہت بڑا انسانی وسائل والا ملک ہے۔ اس توانائی کو صحیح  اور مثبت انداز میں استعمال کرکے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں بے پناہ مواقع میسر ہیں لیکن ان مواقع سے استفادہ کیسے کیا جائے اور ان کو دوسروں تک کیسے پہنچایا جائے، اس پر ازسر نو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل اعلیٰ تعلیمی اداروں کو عالمی معیار پر لائے بغیر ہم اپنے ملک کی ترقی کی شرح کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔



Dr. Mohammad Ahsan

12, Ahemdabad Palace Road

Kho-e-Fiza

Bhopal - 462001 (MP)

Email.: ahsanmohd16862@gmail.com

 


ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں