8/3/22

اپنی ذات میں انجمن: خلیق انجم - مضمون نگار: تجمل حسین

 



          خلیق انجم کی پیدائش 22 دسمبر 1935 کو دہلی میں ہوئی ان کا پیدائشی نام غلام احمد تھا لیکن بچپن میں جب انھیں غلام غلام کہہ کر پکارا جانے لگا تو ان کا نام بدل کر خلیق احمد کر دیا گیا۔ بعد میں جب ادب سے ان کو دلچسپی ہوئی تو انھوں نے اپنا ادبی نام خلیق اقبال رکھا، لیکن اپنے بچپن کے دوست ڈاکٹر اسلم پرویز کے مشورے پر خلیق اقبال کو بدل کر خلیق انجم کر دیا اور یوں ادب کی دنیا میں خلیق انجم کے نام سے مشہور ہوگئے۔

ڈاکٹر خلیق انجم کا خاندانی پس منظر یہ ہے کہ ان کے آبا و اجداد روہیلے پٹھان تھے اور پیشے کے اعتبار سے سپاہی اور ننیہال علم و حکمت سے آراستہ ایک علمی گھرانا تھا اور پیشہ تدریس سے وابستہ۔ بچپن میں ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اس لیے ان کا بچپن بہت زیادہ خوشحال نہ تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد ڈاکٹر خلیق انجم کی والدہ قیصر سلطانہ نے اپنی اولاد کی پرورش وپرداخت میں جس ذہانت، متانت،بردباری اور عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا تھا خلیق انجم کی ترقی و اولوالعزمی میں ماں کے اس کردار کا بہت بڑا دخل نظر آتا ہے۔ اینگلو عربک ہائر سیکنڈری اسکول دہلی میں تعلیمی سلسلہ شروع ہوا تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہوتا ہوا ان کا یہ تعلیمی سفر دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو تک پہنچا۔ دہلی یونیورسٹی میں انھوں نے ایم،اے مکمل کرنے کے بعد مرزا مظہر جان جاناں کی شخصیت پر پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا مرحلہ مکمل کیا اور اس طرح اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہوکر اپنی تالیفات و تصنیفات نیز دیگر علمی خدمات کی بدولت علم و ادب کے آسمان پر خلیق انجم کی شکل میں درخشاں ستارہ بن کر چمکے۔

خلیق انجم کی شخصیت کا مطالعہ کرنے اور ان کی ادبی، تنقیدی و تحقیقی کتابوں پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کثیر الجہات شخصیت کے حامل تھے ان کی تالیفات و تصنیفات کا دائرہ کسی ایک صنف تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کی تحریریں اردو ادب کی مختلف اصناف مثلاً ترجمہ، تنقید، تحقیق،صحافت اور خاکہ نگاری وغیرہ دیگر اصناف پربھی مشتمل ہیں۔ان کی کتابوں کی تعداد ساٹھ سے بھی زیادہ ہے اس لیے ان سب کا تذکرہ کرنا یہاں ممکن نہیں لیکن اہم کتابیں جنھوں نے ادبیات کی دنیا میں ان کا نام روشن کیا ان میں پانچ جلدوں میں خطوط غالب کی تدوین، آثارالصنادید، معراج العاشقین، مرزا محمد رفیع سودا اور متنی تنقید وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

خلیق انجم کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ غالب شناس ہیں۔ غالب کے حوالے سے اردو ادب میں ویسے تو مختلف لوگوں نے کام کیا ہے لیکن غالبیات کے باب میں خلیق انجم کا کام سب سے مختلف ہے۔ غالب سے  ان کی ذہنی و علمی مناسبت کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے گہر بار قلم سے غا لبیات کے باب میں اہم اضافے ہوئے۔پانچ جلدوں میں خطوط غالب کا کام اتنا اہم اور تفصیلی ہے کہ یہی واحد کام انھیں ماہرین غالبیات کی صف میں نمایاں مقام عطا کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے نہ صرف خطوط غالب کو پہلی مرتبہ مکمل اور تصحیح شدہ متن کے ساتھ پیش کیا ہے بلکہ غالب کی زندگی اور ان کی دیگر ادبی کاوشوں کا بھی مختلف کتب کی صورت میں تحلیل و تجزیہ کیا ہے۔

خطوط غالب کی ترتیب کے علاوہ بھی انھوں نے غالبیات کے ضمن میں چار مستقل کتابیں مرتب کیں۔ غالب کی نادر تحریریں 1961 غالب اور شاہان تیموریہ 1974 غالب کچھ مضامین 1991 غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ 2004۔ان کے علاوہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں انتخاب خطوط غالب کے نام سے شائقین غالب کی علمی تشنگی کو دور کرنے کے لیے پیش کیا۔

غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ نامی کتاب غالبیات کے باب میں اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں خلیق انجم نے بنیادی طور پر غالب کے سفر کلکتہ اور کلکتے میں پیش آنے والے ادبی معرکے کو دیگر سابقہ اور لاحقہ کے ساتھ جوڑ کر اس طرح تفصیل سے بیان کیا ہے کہ غالب کی زندگی کے جملہ نقوش ہماری آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غالب ابھی ہمارے دور کے ہیں اور یہ تمام واقعات ابھی حال میں پیش آئے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ غالب نے کلکتہ میں قیام کے دوران کلکتے کے تین مشاعروں میں شرکت کی تھی۔ پہلا مشاعرہ یکم جون1828،دوسرا مشاعرہ 8 جون 1828 اور تیسرا مشاعرہ 15 جون 1828 کو منعقد ہوا تھا۔

خلیق انجم کے خزینہ تصنیفات و تالیفات میں متنی تنقید بہت انمول ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ڈاکٹر خلیق انجم نے پہلی بار منظم شکل میں اردو والوں کو متنی تنقید کے اصول و فروع سے کلی طور پر متعارف کرایا۔ورنہ ہمارے یہاں حالت یہ تھی کہ متنی تنقید اور تدوین متن کی باریکیوں میں لوگ ایسے الجھے ہوئے تھے کہ  دونوں میں فرق کرنا عام قاری کے لیے تو دور کی بات تھی بعض اہم ناقدین اور محققین کے لیے بھی دشوار جن تھا۔ اس کا اندازہ ہم ڈاکٹر گیان چند جین کی اس تحریر سے لگا سکتے ہیں:

خلیق انجم نے انگریزی اصطلاحوں  Textual Criticismکا ترجمہ کرکے متنی تنقید کے نام سے کتاب لکھی۔ متنی تنقید سے ذہن قدر بلندی کی طرف جاتا ہے اور التباس کا موجب بنتا ہے،کسی درس گاہ میں ایک صاحب نے امتحان کا پرچہ بنایا اور اس کا مسودہ مجھے دکھایا۔انھوں نے غلط فہمی کی بنا پر ایک سوال لکھا تھا۔ مندرجہ ذیل عبارت کی متنی تنقید کیجیے ان کی مراد محض تنقید تھی جو متن کی لفظیات پربطور خاص مرکوز ہو۔ تنقید کے لفظی اور صحیح معنی یہی معلوم ہوتے ہیں اس لیے اس فن کو متنی تنقید نہ کہہ کر تدوین متن یا متنی تدوین کہنا بہتر ہے۔

(بحوالہ تحقیق کا فن: ص 427 )

ڈاکٹر گیان چند جین کی کتاب کے مذکورہ اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ متنی تنقید کی اصطلاح سے نالاں ہیں ان کا ماننا ہے کہ اس سے التباس کا خطرہ ہے اور اسے دراصل متنی تنقید کا نام نہ دے کر تدوین متن یا متنی تدوین کا نام دینا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی متنی تنقید محض انگریزی اصطلاح کا ترجمہ ہے اور متنی تنقید در اصل تدوین متن یا متنی تدوین کا ہی دوسرا نام ہے۔ پروفیسر گیان چند جین کے مذکورہ اقتباس میں متنی تنقید کے حوالے سے سب سے اہم سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ اس اصطلاح سے التباس کا خطرہ ہے لیکن کیا یہ بات صحیح ہے کہ محض ا لتباس کے خطرے کی وجہ سے کسی اصطلاح کا استعمال ترک کر دینا چاہیے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے اصول پر عمل کرنے کا سلسلہ اگر شروع کر دیا جائے گا تو پھر ادبیات کی دنیا میں موجود اکثر مصطلحات سے ہمیں ہاتھ دھونا پڑے گا۔کیونکہ ہر کس و ناکس کے غلط استعمال سے کسی بھی اصطلاح کے ترک استعمال کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم تقریبا تمام مصطلحات علمیہ سے دستبردار ہو جائیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ تدوین متن میں سب سے بنیادی اور اہم کام متنی تنقید کا ہی ہے۔تنقید متن کی اہمیت کو ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنی کتاب متنی تنقید میں بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے چنانچہ وہ متنی تنقید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’متنی تنقید نام ہے اس متن کی بازیافت کا جو مصنف نے لکھا تھا یا لکھنا چاہا تھا، اور اگر کسی وجہ سے متن میں کچھ غلطیاں راہ پا گئی ہیں تو انھیں درست کرنا متنی نقاد کاکام ہے ۔‘‘ (ایضاً، ص27)

یہاں یہ بات ذہن مشین ہونی چاہیے کہ ادبی تنقید اور متنی تنقید دونوں کے الگ میدان ہیں چنانچہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خلیق انجم اپنی کتاب متنی تنقید میںرقم طراز ہیں :

’’تنقید ادبی ہو یا متنی دونوں سائنس ہیں،دونوں کے کچھ اصول اور ضابطے ہیں۔ادبی تنقید کے اصول زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں جبکہ متنی تنقید کے اصول نہیں بدلتے البتہ اسے زیادہ سے زیادہ سائنٹفک بنانے کے لیے مزید اصولوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان دونوں کی راہیں کبھی بالکل  ایک اور کبھی ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتی ہیں۔دونوں کا مقصد سچائی کی تلاش ہے۔ دونوں اپنے مواد کی تشریح اور تجزیہ کرتے ہیں لیکن متنی نقاد کو اس سے بحث نہیں کہ جو متن اس نے تیار کیا ہے وہ دل کش ہے یا غیر دلکش۔وہ ادبی معیار پر پورا اترتا  بھی ہے کہ نہیں۔اگرچہ متنی نقاد کو ادبی تنقیدی صلاحیتوں سے پورا پورا فائدہ لینا ہوتا ہے لیکن پسند نا پسندکا اسے حق نہیں ہے۔‘‘(ایضاً، ص 30 )

ڈاکٹر خلیق انجم کی مذکورہ وضاحت سے یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ متنی اور ادبی تنقید کے حدود اور امتیازات مختلف ہیں۔ اس میں خلیق انجم نے متنی اور ادبی تنقید کے حدود کا تعین جس طرح کیا ہے اس سے ان دونوں کے مابین موجود امتیازات کی وضاحت بھی ہوتی ہے اور دونوں میں موجود مشابہت کی صراحت بھی۔ بہرکیف یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ متنی تنقید ادبی تنقید کے بہ نسبت زیادہ معروضی ہے اس لیے اس کا تعلق بڑی حد تک تکنیکی امور سے ہے۔

 خلیق انجم کی زندگی اور علمی و ادبی سفر کے مطالعے سے ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ ان کی زندگی میں دہلی اور دہلی سے وابستہ افراد کا بہت بڑا دخل تھا ان کی جملہ تصنیفات پر نظر ڈالنے سے یہ اندازہ یقین میں بدل جاتا ہے کیونکہ ان کے علمی گوشے کا بڑا حصہ غالب اور سرسید کی زندگی اور تالیفات و تصنیفات پر محیط ہے اور ان دونوں کا تعلق براہ راست دہلی سے ہی ہے۔ سر زمین دہلی اور یہاں موجود آثار قدیمہ سے خلیق انجم کو خصوصی دلچسپی تھی۔ ان کی بیگم پروفیسر موہنی انجم کہتی تھیں کہ دہلی کی تاریخی عمارتوں سے انھیں اس قدر لگاؤ تھا کہ وہ اتوار کے دن اکثر بطور تفریح گھر سے باہر مع اہل و عیال دہلی کے کسی تاریخی مقام پر جاتے اور وہاں بیٹھ کر اس عمارت کے تاریخی پس منظر پر گفتگو کرتے ہوئے اہم اور ضروری معلومات سے ہم سب کو آگاہ کرتے اور ان کا معمول تھا کہ ایک کیمرہ اپنے ساتھ رکھتے اور اس عمارت کی تصویر اپنے کیمرے میں قید کر کے اسے اپنے پاس محفوظ کرلیتے۔پروفیسر موہنی انجم کی یہ بات مختلف قرائن سے درست اور صحیح بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان کی مختلف اہم کتابیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں۔ چنانچہ آثار الصنادید میں انھوں نے دہلی کی عمارتوں کی جو تصویریں منسلک کی ہیں ان تمام تصویروں کو انھوں نے بذات خود کھینچا تھا اور اس طرح دہلی کے آثار قدیمہ اور یہاں کے رسم و رواج سے متعلق دیگر کتابیں بھی اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ انھیں دہلی کی تاریخی عمارتوں اور یہاں کے تہذیب و تمدن سے  شدید لگاؤ تھا اسی لگاو کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے دہلی کے آثار قدیمہ اور یہاں کے تہذیب و تمدن کے حوالے سے اتنی  اہم کتابیں مرتب کیں کہ ان کی زبان سے خود دہلی کی تاریخ نے ایک مکالمہ قائم کرلیا ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

دہلی میں ایک کروڑ سے زیادہ کی آبادی سانس لیتی ہے لیکن خود دہلی شہر اپنے مکینوں میں سے کچھ کے اندر بھی آباد ہے اور ان کے وجود میں سانس لیتا ہے خلیق انجم کا شمار ایسے منتخبات میں کیا جانا چاہیے۔دہلی ان کے لیے صرف ایک شہراور جائے پیدائش نہیں بلکہ ایک روایت، ایک ثقافت، ایک تاریخ اور ایک تجربہ بھی ہے۔ خلیق انجم اس کے بدلے ہوئے موسموں میں، اس کے دکھ سکھ میں، اس کے مسئلوں اور بکھیڑوں میں شامل ر ہے۔ ان کی اپنی ہستی میں جس بستی کی چھاپ سب سے زیادہ گہری دکھائی دیتی ہے اور خلیق انجم کے تشخص کا وسیلہ بنتی ہے وہ یہی بستی ہے۔  (بحوالہ مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا: ص 13-14)

پروفیسر شمیم حنفی کا یہ بیان ڈاکٹر خلیق انجم اور دہلی کے مابین جو رشتہ تھا اسے بالکل واضح طور پر سامنے لاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا بیشتر ادبی سرمایہ دہلی اور افراد دہلی کے ارد گرد ہی گھومتا ہے دہلی اور آثار دہلی سے متعلق ان کی اہم کتابوں میں رسوم دہلی 1965 دہلی کے آثار قدیمہ 1988دہلی کی درگاہ شاہ مرداں 1988 اور مرقع دہلی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

دہلی اور آثار دہلی سے متعلق خلیق انجم کی مرتب کردہ کتاب آثار الصنادید اپنی نوعیت اور شہرت کے لحاظ سے سب سے اہم ہے یہ کتاب بنیادی طور پر سر سید کی تصنیف ہے لیکن حالات زمانہ اور گردش رنگ چمن نے دہلی کی تصویر میں بڑی تبدیلی پیدا کردی تھی اس کی وجہ سے اس کتاب میں بیان کردہ مقامات مجہول سے ہو گئے تھے لیکن خلیق انجم نے اس کتاب کو از سر نو مرتب کرکے اس میں مذکور مقامات کی مجہولیت ختم کردی اور اس کتاب کی افادیت برقرار رہی۔یہ کتاب سر سید کی زندگی میں دو بار شائع ہوئی۔ پہلا ایڈیشن 1847 میں مطبع سید الاخبار سے شائع ہوا جبکہ دوسرا ایڈیشن 1854 میں مطبع سلطانی سے منظر عام پر آیا۔ دونوں ایڈیشن میں بنیادی فرق یہ تھا کہ سرسید نے ایڈیشن میں ترمیم و اضافے سے کام لیا اور پہلا ایڈیشن جو چار ابواب پر مشتمل تھا وہ اب گھٹ کر تین ابواب میں سمٹ کر رہ گیا۔خلیق انجم نے اس کتاب کی ترتیب میں دوسرے ایڈیشن کو بنیاد بنایا لیکن اس میں انھوں نے اس بات کا اہتمام کیا کہ سر سید نے پہلے ایڈیشن کے جس خاص حصے کو دوسرے ایڈیشن میں شامل نہیں کیا تھا اسے بھی انھوں نے اپنی مرتب کردہ کتاب میں جگہ دی اور اس طرح باب سوم جو شاہجہان کے اندرون کے حالات پر مشتمل تھا  اور دہلی کے آثار قدیمہ کے بیان میں اہم تھا اسے بھی اس کتاب میں شامل کر لیا۔

خلیق انجم کی تخلیقی مہارت اور ادبی نگارشات میں ان کی کتاب  مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا  بہت اہمیت کی حامل ہے۔یہ کتاب 2008 میں انجمن ترقی اردو دہلی سے شائع ہوئی۔یہ کتاب شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہے۔ ان میں شاہد احمد دہلوی، رشید احمد صدیقی،جمیل جالبی، عبدالسلام ندوی، استاد رسا دہلوی، امتیاز علی خاںعرشی، نورالحسن نقوی، مہندر سنگھ بیدی اور جگن ناتھ آزاد وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔

ان کے علاوہ خلیق انجم کی دیگر اہم کتابوںمیں حسرت موہانی 1995،گجرال کمیٹی اور اس سے متعلق دیگر کمیٹیوں کا جائزہ 1998،بابائے اردو مولوی عبدالحق (بچوں کے لیے) 1992،کربل کتھا کا لسانی مطالعہ 1970، (اس کی ترتیب میں گوپی چند نارنگ بھی شامل تھے) مرزا محمد رفیع سودا 1965 اور گل کاری وحشت کا شاعر: مجروح 2000 وغیرہ اہم ہیں۔

خلیق انجم کی کثیر الجہات شخصیت کی ایک اہم اور بنیادی جہت یہ بھی ہے کہ انھیں فن ترجمہ نگاری سے بھی خصوصی دلچسپی تھی۔اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے مختلف کتابوں کا ترجمہ کیا اور ترجمہ نگاری کے فن پر فن ترجمہ نگاری کے نام سے ایک اہم کتاب بھی مرتب کی۔ ان کی ترجمہ کردہ کتابوں میں تاراس بلبا 1957 (نکولائی کوگول کے انگریزی ناول کا اردو ترجمہ) کے علاوہ مرزا مظہر جان جاناں کے خطوط 1962(فارسی خطوط کا اردو ترجمہ) دلّی کے آثار قدیمہ1988 (عہد وسطی کی پچیس فارسی تاریخوں میں د لّی کے آثار قدیمہ کی تفصیلات کا اردو ترجمہ) اورمرقع دہلی 1993 (فارسی متن کی ترتیب اور ترجمہ)شامل ہیں۔

ان کتابوں کے علاوہ خلیق انجم نے انجمن ترقی اردو دہلی سے شائع ہونے والے اردو ادب اور ہماری زبان جیسے رسالے میں مختلف مضامین اور اداریے لکھے۔مختلف کتابوں پر لکھے گئے ان کے پیش لفظ اور تبصرے اسی طرح مختلف موضوعات پر تحریر کردہ مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہایت فعال اور متحرک بھی تھے۔ 

خلیق انجم کا انجمن ترقی اردو دہلی سے تقریبا 37 سال تک مسلسل وابستہ رہے۔اس مدت میں اردو ادب کی ترقی کے ضمن میں ان کی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے اس مختصر سے مضمون میں اس کی تفصیل پیش کرنا ممکن نہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ڈاکٹر خلیق انجم بذات خود ایک انجمن تھے۔ان کی پوری زندگی اردو زبان وادب کی ترویج و اشاعت سے عبارت ہے۔ اپنی بیش قیمت کتابوں اور تحقیق و تدوین سے متعلق دیگر تحریروں سے انھوں نے اردو ادب کے دامن کو بیش قیمت جواہر ریزوں سے مالا مال کیا۔ اس اہم ناقد اور محقق سے اردو دنیا 18 اکتوبر 2016 کو محروم ہوگئی۔


 

Tajammul Husain

Research Scholar, Dept of Urdu

Jamia Millia Islami

New Delhi - 110025

Mob.: 9716422138





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں