10/3/22

حامدی کاشمیری کی اکتشافی تنقید: نظری اساس - مضمون نگار: مسعود احمد

 



تنقید بھی الہامی یا کشفی ہو سکتی ہے، یہ چونکانے والا نظریہ ہے۔ہمارے یہاں اس نظریے کے بنیاد گزار حامدی کاشمیری ہیں۔ان کا دور جدیدیت کے دور سے ہم آہنگ ہے۔کم و بیش جدیدیت کے ابتدائی دور سے ہی انھوں  نے تنقیدی دنیا میں قدم رکھا۔موصوف تنقید سے اکتشافی عمل کو پورا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔انھوںں نے یہ تقاضا یکا یک نہیں کیا بلکہ وہ اس نظریے سے پہلے اصلاحی تنقید،رومانوی تنقید،ترقی پسند تنقید اور نفسیاتی تنقید کا بغور مطالعہ کرچکے تھے۔

متذکرہ دبستانوں میں ان کی توجہ نفسیاتی تنقید پر رہی۔نفسیاتی تنقید کی ابتدا فرائڈ(Sigmund Freud) کے نظریۂ تحلیل نفسی سے ہوتی ہے۔انھوں نے اس نظریے میں انسانی ذہن کو تین سطحوں میں تقسیم کیا ہے۔ شعور،تحت الشعور اور لاشعور۔مذکورہ نظریے کی بنیاد سائنس ہے، تاہم اسے دوسرے علوم میں بھی خاطر خواہ برتا گیا۔اس تصور کوادب نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔اس میں بھی اولیت شاعری کو حاصل ہے۔شاعر کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرائڈ نے خود کہا کہ میں جہاں بھی انسانی نفسیات کی تلاش کو گیا، وہاںمیں نے اپنے سے پہلے ایک شاعر کوموجود پایا۔گویا شاعر ماہر نفسیات سے بھی ایک قد م آگے کا مقام رکھتا ہے۔اس طرح نفسیاتی تنقید کا ایک علیحدہ دبستان وجود میں آتا ہے۔اس تنقید کا منصب فن پارے کے ساتھ فن کار کی نفسیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہے۔تحلیل نفسی کے اس عمل اور ادب کے رشتے پر روشنی ڈالتے ہوئے حامدی کاشمیری لکھتے ہیں:

’’ادب کی تخلیق میں متذکرہ بالا نفسیاتی محرکات کے علاوہ بعض شعوری اور لاشعوری الاصل محرکات کی نشاندہی بھی ہو سکتی ہے۔ان میں عدم تحفظیت اور ادھورے پن کا نفسیاتی احساس ہے جو معاندانہ ماحول، بچپن کی محرومیوں،جسمانی حدبندیوں،سماجی دبائو،اخلاقی بندشوں،تنہائی اور فطرت کے دشمنانہ روپ سے پیدا ہو سکتا ہے۔عدم تحفظیت اور ادھورے پن کے احساس کو موت کی بھیانک،نہ ٹلنے والی اور ناقابل فہم قوت دو چند کرتی ہے۔چنانچہ فن کار کو ایک دائمی نفسیاتی کرب کا سامنا رہتا ہے۔اس کرب سے بچنے یا اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے وہ ایک مثالی دنیا کی تخلیق کرتا ہے اور بقول گراہم ہاگ’جن خواہشوں کی تکمیل حقیقت مسترد کرتی ہے،فن ان کا متبادل فراہم کرتا ہے۔‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوتا ہے؟۔کیا فن تحفظیت اور تکمیلیت کے احساس کی ضمانت بن جاتا ہے؟ظاہر ہے ایسا نہیں ہوتا۔ شیکسپیئر کے المیہ ڈرامے،ورڈس ورتھ کی لوسی نظمیں، میر اور غالب کا کلام اور ایلیٹ کی نظمیں انسان کے عوارض کا مداوا نہیں کرتیں،وہ اس کے برعکس زندگی کے المیے کے احساس کو شدید تر کرتی ہیں۔اس لیے نفسیاتی محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے فن کار کی باطنی زندگی کی گہرائیوں میں اتر کے،کسی ایسی خلقی خصوصیت کی تلاش ناگزیر ہے جو بنیادی محرک کا درجہ رکھتی ہے اور آفاقی تقاضوں سے عہدہ بر آہونے کی قوت رکھتی ہے۔

(حامدی کاشمیری، اکتشافی تنقید کی شعریات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،2015،ص21)

فن پارہ اور فن کار کے نفسیاتی مطالعے کے سلسلے میں حامدی کاشمیری ایک قدم اور آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کے مطابق ایک نقاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دوران تخلیق پیش آنے والے تجربات میں شامل ہو۔ ایسا کرنے کے لیے اسے فن کار کے باطن میں جھانکنے کی مشکل سے گزرنا ہو گا۔صرف نقاد خود ہی شامل نہ ہو،بلکہ اس عمل میں اسے قاری کی شرکت کو بھی لازمی بنانا ہے۔ بظاہر اس اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حامدی کاشمیری فن پارے سے زیادہ اہمیت فن کار کو دے رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔دراصل حامدی کاشمیری فن پارے سے معانی برآمد کرنے کے قائل نہیںہیں۔ معانی و مفہوم تلاش کرنے والی تنقید کو وہ درسی یا تشریحی تنقید کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ان کا نقاد سے یہ مطالبہ رہتا ہے کہ وہ فن پارے کے اندرون میں داخل ہو۔اس اندرون سے وہی تجربات حاصل ہوں گے جن سے فن کار دوران تخلیق گزرا ہے۔تو کیا یہاں پر حامدی کاشمیری فن کار کی شخصیت کو دوبارہ ٹھونس رہے ہیں۔؟ نہیں، وہ ان تجربات سے آگہی کا حصو ل فن پارے میں فن کے موجود لہو سے کرنا چاہتے ہیں۔اس عمل میں وہ نقاد سے یہ تقاضا بھی کرتے ہیں کہ یہ تجربات قاری تک بھی اسی صورت میں پہنچنے چاہئیں۔

یہاں حامدی کاشمیری نقاد پر دوہری ذمے داری عائد کرتے ہیں۔پہلے تو فن کار کے دوران تخلیق کیے گئے تجربات سے گزرنا ہی جوکھم بھرا کام ہے،پھر اس عمل میں قاری کی شرکت کو بنائے رکھنا نقاد کو مزید امتحان میں ڈال دیتا ہے۔حامدی کاشمیری اس نظریے کے قائل بیسویں صدی کے چھٹے دہے سے ہیں۔یہ دور جدیدیت کا دور آغاز مانا جاتا ہے۔جدیدیت نے ترقی پسندی کے برعکس کلاسیکیت کی جانب رجوع کیا۔اس رجحان سے منسلک ادیبوں اور نقادوں نے فن پارے میں فن کار کی انفرادی حیثیت پر زور صرف کیا۔مزید برآں اس رجحان کے تحت متن کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔اس رجحان کے بعد مابعدجدیدیت کے نام سے ایک نئے رجحان نے سر اٹھایا۔ساختیات و پس ساختیات کا ظہور بھی اسی دور میں ہوا۔ ان تمام رجحانات میں فن پارے کو مرکزی عنصر کے طور پر دیکھا جاتا رہا۔ساختیات و پس ساختیات کا زور متن کے لسانیاتی مطالعے پر تھا۔اسے دوسرے لفظوں میں ہیئت پسندی بھی کہا جاتا ہے۔

حامدی کاشمیری نے ان تمام رجحانات کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ان کی ابتدائی تحریریں جدیدیت سے متاثر نظر آتی ہیں۔تاہم جلد ہی انھوں  نے اپنے لیے ایک نئی راہ تلاش کرلی۔ان کی اسی جستجو کی بدولت اکتشافی تنقید کا نظریہ سامنے آیا۔ایک مفروضہ رائج العوام ہے کہ اچھا تنقیدی ذہن ہی اچھی تخلیق کر سکتا ہے۔اس مفروضے میں قدرے صداقت ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تخلیق کار کے لیے پہلے باقاعدہ نقاد بننا ضروری ہے؟۔یا نقاد کا تخلیق کار ہونا لازمی ہے؟۔جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں صفات شانہ بہ شانہ چلتی ہیں۔لیکن اگر ہم شعر کے الہامی یا کشفی ہونے پر مکمل اکتفا کر لیں تو پھر تنقیدی ذہن کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے۔؟ایسی صورت حال میں ہمیں شعر کے حوالے سے اپنے عقیدے کو بدلنا پڑتا ہے۔ اس عقیدے کی تبدیلی کے ساتھ ہی ہم شعر میں ریاضت کے قائل ہوجاتے ہیں۔

اکتشافی تنقید کیا ہے۔؟ اس کا تقاضا کیا ہے۔؟ ادب میں اس کی ضرورت کیوں پڑی۔؟ ان تمام سوالات کو حامدی کاشمیری کی زبانی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔موصوف نے ’اکتشافی تنقید کی شعریات‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب میں تنقیدی مضامین شامل ہیں۔یہ مضامین کتابی شکل اختیار کرنے سے پہلے مختلف جرائد و رسائل میں چھپ کر ادبی حلقوں میں بحث کا موضوع بن چکے تھے۔بعد میں انھیں حامدی کاشمیری نے کتابی صورت میں یک جا کر دیا۔دراصل حامدی کاشمیری یکایک ادب میں اکتشافی نظریہ کو پیش نہیں کرتے۔وہ پہلے کائنات اور انسان کے باہمی رشتے میں اکتشافی نقطہ نظر اپناتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ بہت سارے سوالات اٹھاتے ہیں۔یہ سوالات ان کے مضمون بعنوان ’آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز‘ میں درج ہیں۔موصوف کے ایسے سوالات میں درج ذیل سوالات اہمیت رکھتے ہیں:

1      انسان فطرت پر قابو پانے کی سعی مکمل کیوں کرتا ہے؟

2      ایسا کرتے وقت اسے جس متناقض صورت حال کا سامنا کرنا   پڑتا ہے وہ اسے resolveکرنے کے جتن کیوں کرتا ہے؟

3      وہ دیگر مخلوقات کی طرح اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات حاصل کر کے خاموشی سے سپرد خاک ہونے پر راضی کیوں نہیں؟

4      وہ کائنات کے مشکل ترین مسائل پر کیوں سوچتا ہے؟

5      اپنی سوچ کو مخالف حالات سے متصادم پا کر اپنے آپ کو مختلف الجھنوں کا ہدف کیوں بننے دیتا ہے؟

6      ایسا کر کے وہ خود ہی ذہنی پریشانی کو کیوں دعوت دیتا ہے؟

ایسے سوالات کم و بیش زندگی کے ہر شعبے سے جڑے انسان کے ذہن میں گردش کرتے ہیں۔صوفیا کے نزدیک کشف و عرفان محبوب حقیقی سے ملنے کے اہم ذرائع ہیں۔جب انسان اپنے مالک حقیقی سے صحیح معنوں میں لو لگا تا ہے تو اس پر بہت سے اسرار کا پردہ منکشف ہوتا ہے۔وہ کائنات کی باریکیوں سے خاطر خواہ جانکاری لینے کا اہل ہو جاتا ہے۔کائنات ایک تغیر پذیر شے ہے۔اس میں آئے روز نئے نئے واقعات و حادثات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔اقبال کے لفظوں میں یہاں تغیر کے سواکسی بھی شے کو دوام حاصل نہیں ہے۔غالب بھی اسی کائناتی تغیر کے معتقد نظر آتے ہیں۔ان کا یہ شعر اس معمے کی صحیح ترجمانی کرتا ہے       ؎

آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

اس خیال کو اقبال نے دہرایا اور کہا     ؎

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

کائنات کایہی مکاشفاتی عمل انسانی تجسس کا باعث بنتا ہے۔ہر نئی کائناتی تبدیلی کے ساتھ انسانی ذہن فکر کی ایک نئی منزل کوسر کرتا ہے۔حامدی کاشمیری اس ضمن میں کائنات اور انسان کے رشتے کو بیان کرتے ہوئے انسانی تجسس Curiosityکی وکالت کرتے ہیں۔وہ اسے انسان کی بہترین خوبیوں میں شمار کرتے ہیں۔

وہ اپنی اکتشافی تنقید کے نظریے میں انسان کے اسی تجسس سے بحث کرتے ہیں۔وہ فن پارے کو ایک ایسے تجربے سے موسوم کرتے ہیں جو لسانی نظام کے تحت معرض وجود میں آیا ہو۔موصوف جدید یت کے نقادوں کی طرح فن پارے کی انفرادیت کے قائل ہیں۔وہ متن کے آزاد مطالعے پر متفق ہیں۔البتہ ان کا استدلال اس بات کو لے کر ہے کہ اگر چہ ہم متن سے خالق متن کو بے دخل بھی کر دیں تب بھی خالق متن کے بین المتن گردش کر رہے لہو سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے۔یہ نقاد کا منصب ہے کہ وہ اس لہو کی تپش اور روانی دونوں کو محسوس کرے۔اس لہو کے پیچھے کارفرما تجربات کا سراغ لگائے۔اور ان تجربات کو اس طرح منظر عام پر لائے کہ وہ قاری کے لیے کسی پریشانی کا سبب نہ بنیں۔حامدی کاشمیری اکتشافی تنقید کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:

1      ’’شاعری بنیادی طور پر ایک طلسم کارانہ تخلیقی فن ہے۔ شاعر لفظ و پیکر کے علامتی برتائو سے تجربات کے طلسم کدے تخلیق کرتا ہے۔ان طلسم کدوں تک عام قاری کی رسائی ممکن نہیں،اس لیے ایک صاحب نظر نقاد کی رہنمائی ناگزیر بن جاتی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 66)

2      ’’تنقید کا کام،جیسا کہ ذکر ہوا شعری لسانیات کے وسیلے سے تخیلی دنیا کی سایہ گوں فضائوں میں صاعقہ پوش وقوعات کی شناخت کرنا ہے، اور قاری کو ان کی ندرت، معنویت اور جمالیاتی تاثیر کا احساس دلانا ہے یعنی تنقید کو ایک اکتشافی کردار انجام دینا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 66)

حامدی کاشمیری نے اول الذکر اقتباس میں قاری کی درجہ بندی کی ہے۔ان کے نزدیک قاری کی دو قسمیں ہیں۔ایک باذوق قاری جسے نقاد بھی کہا جاتا ہے اور دوسرا عام قاری۔عام قاری فن پارے کامطالعہ کسی مخصوص نقطۂ نگاہ سے کرتا ہے، اس کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہوتا ہے۔ اس قسم کے قاری کا مقصد متن سے صرف حظ حاصل کرنا ہوتا ہے۔یہاںایک اور بات کا اعادہ ہوتا ہے کہ حامدی کاشمیری قاری اساس تنقید کے مبلغ ہیں۔جب وہ نقاد سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے تخلیقی تجربوں سے گزرتے وقت قاری کو بھی شامل رکھنا ہے تو اس سے قاری کی موجودگی کا صاف اشارہ ملتا ہے۔لیکن اس امر میں اولیت باذوق قاری یانقاد کو حاصل ہے۔کیونکہ عام قاری متن کے درون خانہ میں داخل نہیں ہو سکتا ہے۔اگر داخل ہو بھی جائے تب بھی تخلیقی تجربات میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا اس کے بس سے باہر ہے۔

ادب اور تھیوری میں پیدا کی جانے والی تفریق کو حامدی کاشمیری نے غیر ضروری بتایا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ادب میں سر اٹھانے والی ہر تحریک،رجحان،یا نظریے کو ابتدا میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑاہے۔سرسید کی اصلاحی تحریک ہو یا ترقی پسند تحریک،رومانوی تحریک ہو یا ادب کی نفسیاتی توضیح،جدیدیت و مابعد جدیدیت اور ساختیات و پس ساختیات جیسی تھیوریز اور رجحانات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیاہے۔وجہ یہی بیان کی جاتی رہی کہ ان رجحانات سے ادب کی اصل روح مجروح ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان رجحانات کے مخالفین نمایاں مبلغین کی صورت میں سامنے آئے۔حامدی کاشمیری 1960 سے اس نظریے کے قائل ہیں کہ متن کا مطالعہ اکتشافی نقطہ نگاہ سے کیا جاناچاہیے۔ایسا کرتے وقت بنیادی حیثیت معنی کی نہ رہ کر تخلیقی تجربے کی ہو جاتی ہے۔اس تجربے کی وکالت مغربی نقادوں میں کولرج،ایلیٹ اور بریڈلے وغیرہ کے یہاں ملتی ہے۔تاہم ان علما نے تجربے کو شعر کے معنی و مفہوم کے طور پر لیا ہے۔یہاں پرحامدی کاشمیری اپنے نظریے میں ان سے مختلف نظر آتے ہیں۔ان کے نزدیک تجربہ دراصل تخلیقی نوعیت کا ہے۔اس کا منشا متن سے معانی برآمد کرنا بالکل نہیں۔اگر معانی(ظاہری و باطنی) برآمد کرنا ہی سب کچھ ہے تو پھر یہ تنقید درسی یا تشریحی کہلائے گی۔اس صورتِ حال میں تنقید اپنے اصل منصب سے انصاف نہیں کر سکے گی۔اس لیے نقاد کو تخلیقی تجربے میں شامل ہوکر متن کے اسرار کو منکشف کرنا ہے۔ یہاں پر حامدی کاشمیری شعر اور تنقید کے انکشافی رشتے کو واضح کرنے کے لیے مختلف مغربی و مشرقی علما کا سہارا لیتے ہیں۔

شعر کے الہامی نظریے کو متذکرہ بالا عالموں کی زبانی بیان کر کے حامدی کاشمیری اپنے نظریے کے لیے زمین ہموار کر رہے ہیں۔ادب کے اسی الہامی پہلو کو وا کرنے اوراس سے خاطر خواہ مستفید ہونے کے لیے تنقید کو بھی کشف کا سہارا لینا ہو گا۔بظاہر اس تنقیدی نظریے کا اطلاق مشکل نہیں ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔لیکن غور کرنے پر ہر باذوق قاری اس نظریے کا حامی نظر آنے لگتا ہے۔یہ تنقیدی عمل قاری کوایک نوع کا اعتماد فراہم کرتا ہے۔اس اعتماد کی بدولت قاری کو متن پیاز کے چھلکے کی مانند نظر آنے لگتا ہے۔یہی اعتماد ہر نقاد کو دوسرے نقاد سے منفرد و ممتاز کرتا ہے۔موصوف کے اس تنقیدی نظریے پر علما  نے اعتراضات جتائے۔یہاں تک کہ اردو ادب کے نظریہ ساز نقاد شمس الرحمن فاروقی نے ان کے متعلق کہا کہ حامدی کاشمیری چاہتے تو تھیوری سے دامن بچا کر نکل سکتے تھے،لیکن انھوںں نے یہ عمل شعوری طور پر انجام دیا جو کہ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ سید محمد عقیل نے اپنی خود نوشت ’گئو دھول‘ میںحامدی کاشمیر ی کے اس تنقیدی نظریے پر استہزایہ انداز میں اعتراض کیا۔ہم جانتے ہیں کہ سید محمد عقیل آخری دم تک ترقی پسند تحریک کے حامی رہے۔  اس تحریک کی محبت یا لگائو میں انھوںں نے شمس الرحمن فاروقی پر بھی ایسے متعدد الزام لگائے جنھیں پڑھ کر قاری دم بخود رہ جاتا ہے۔وہ سید اعجاز حسین کو رسالہ ’شب خون‘ کا برائے نام ایڈیٹر بنا دینے کا ذمے دار بھی فاروقی صاحب کو ٹھہراتے ہیں۔ترقی پسندی اور جدیدیت کی سرد جنگ میں سید محمد عقیل احتشام حسین کے اس جملے کی کھل کر تائید کرتے ہیںکہ ’شب خون‘رسالہ آگے چل کر ہمارے کلاسیکی ادب پر شب خون مارے گا۔سید محمد عقیل نے اپنی خود نوشت میں احتشام حسین کے اس جملے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ’شب خون‘ اور جدیدیوں بالخصوص شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے اچھوتے انکشافات کیے ہیں۔ان کے نزدیک حامدی کاشمیری بھی جدیدیت سے وابستہ مفکرین میں سے ہیں۔اپنے اس دعوی کی دلیل میں وہ حامدی کاشمیری کی کتاب ’معاصر تنقید‘کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں حامدی کاشمیری کی جانب سے ترقی پسندوں کے خلاف اپنایا گیا رویہ دراصل ان کے جدیدیت پسند ناقدہونے کا ثبوت ہے۔موصوف کی یہ رائے کافی مضحکہ خیز ہے۔ایک جانب وہ اس بات کے شدت سے قائل ہیں کہ تنقید جانب داری کو برداشت نہیں کر سکتی،دوسری جانب ان کی یہ رائے بذات خود جانب داری کی مثال ہے۔

سید محمد عقیل نے ان باتوں کا اظہار اپنی خودنوشت سوانح حیات میں کیا ہے۔ان کا یہ اقتباس اس بات پر دال ہے کہ حامدی کاشمیری اچھے تخلیق کار ہیں اور انھیں اسی پر قناعت کر لینی چاہیے۔تنقید میں ان کی سعی غیرضروری معلوم ہوتی ہے۔انھوںں نے حامدی کاشمیر ی کی تنقید پر متعصبانہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حامدی کاشمیر ی اپنی کتاب ’معاصر تنقید‘ میں ترقی پسند تحریک کے متعلق کیا کہتے ہیں، جس سے سید محمد عقیل چراغ پا ہو گئے۔

 حامدی کاشمیری نے اپنی کتاب ’معاصر تنقید‘ میں اکتشافی نقطۂ نظر کو برقرار رکھا ہے۔ان کی یہ کتاب پہلی بار جنوری 1992 میں شائع ہوئی۔اس کتاب میں موصوف مروجہ تنقیدی نظام سے حد درجہ غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق معاصر تنقید میں کم و بیش تمام نقادوں کی جانب سے صحافتی،درسی یا تشریحی طریقہ کار روا رکھا گیا ہے۔ نیز فن کے بجائے فن کار کی شخصیت،ماحول اور تحریکی وابستگی کو اساسی حیثیت دی گئی ہے۔جس سے تنقید کی روح مجروح ہوتی ہے۔ایسا کرتے ہوئے نقاد،نقاد نہ رہ کر ایک شارح،مورخ یا مبصر بن جاتا ہے۔حامدی کاشمیری اپنی اس کتاب میں کچھ حد تک کلیم الدین احمد کے طرف دار نظر آتے ہیں۔انھوں نے کلیم الدین احمد کی کتاب ’اردو تنقید پر ایک نظر‘کو تنقیدی دنیا میں پہلی معروضی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ کلیم الدین احمد کی اردو تنقید کے متعلق دی گئی آرا کو موصوف نے نعرہ حق سے تعبیر کیا ہے۔حامدی کاشمیری اپنے نظریہ تنقید کو کلیم الدین احمد کی اسی کوشش کی اگلی کڑی گردانتے ہیں۔ان کے مطابق جب کلیم الدین احمد نے اردو میں تنقید کے وجود کو فرضی کہا (اور یہ سچ تھا)تو ناقدین آگ بگولہ ہو گئے۔وہ اس سلسلے میں سید احتشام حسین اور سید اعجاز حسین کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔

اسی طرح حامدی کاشمیری نے آل احمد سرور اور احتشام حسین کے اقتباسات بھی درج کیے ہیں۔موصوف کے مطابق ان علما کے یہ اقوال دراصل ان کی ادبی بوکھلاہٹ کی پیداوار ہیں۔ان کے مطابق کلیم الدین احمد نے مروجہ تنقیدی بتوں کو للکارا،نتیجتاً انھیں ایسے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا۔

غالباً حامدی کاشمیر ی کے اسی موقف نے سید محمد عقیل کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا کی کہ وہ ان کی تنقید کو متعصبانہ، معاندانہ و جانبدارانہ کہیں۔حالانکہ حامدی کاشمیری کتاب کے آغاز میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ میرا یہ مطالعہ معروضی اور فن اساس ہو گا۔اس میں اگر کسی نقاد کا نام شامل نہ ہو تو اسے میری پسند و ناپسند یا تعصب سے منسوب نہ کر کے زیر نظر مطالعے کی نوعیت اور اسکوپ پر محمول کیا جائے۔ایسا نہیں ہے کہ حامدی کاشمیری نے اس کتاب میںصرف ترقی پسند تنقید کی سرزنش کی ہے۔ انھوںں نے جدیدیت اورمابعد جدیدیت کے زیر اثر منظر عام پر آنے والی تنقید کی خامیوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ان کے مطابق بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد کی تنقید سے ادب شناسی کے نئے امکانات روشن ہوئے۔البتہ یہ تنقید بھی فن کے مستور تخلیقی تجربے تک قاری کی رسائی کو ممکن نہیں بنا سکی۔باوجود حامدی کاشمیر ی کے اس واضح اعتراف کے سید محمد عقیل انھیں جدیدیت کا حامی نقاد ثابت کرنے سے گریز نہیں کرتے۔سید محمد عقیل کا یہ رویہ متعصبانہ اور ترقی پسند نقادوں سے غیر ضروری لگائو کی عکاسی کرتا ہے۔انھیں سید اعجاز حسین سے گہری انسیت تھی۔ایسے میں حامدی کاشمیری اعجاز حسین پر تنقید کر کے سید محمد عقیل کے وار سے کیسے بچ سکتے تھے۔اس لیے موصوف نے موقع پاتے ہی حامدی کاشمیری کو نقاد کے منصب سے غائب کرنے کی سفارش کر دی۔حامدی کاشمیری  کے اس نظریہ تنقید کو قمر رئیس نے اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ موصوف نے حامدی کاشمیری کی کتاب ’معاصر  تنقید‘ پر بات کرتے ہوئے اسے بیسویں صدی کی گمراہ کن کتاب قرار دیاہے۔انھوں نے اپنے مضمون ’اکتشافی تنقید کا نظریہ: ایک جائزہ‘ میں حامدی کاشمیری کو جدیدیت کا کٹر حامی بتایا ہے۔ان کے مطابق حامدی کاشمیری اپنے اکتشافی تنقید کے مطالعے میں بدترین جانبداری اور افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حامدی کاشمیری کا کوئی ذاتی نظریہ نہیں ہے۔ ان کے خیال میںحامدی کاشمیری جس ’تخیلی صورت حال‘ پر بار بار زور دے کر اپنی انفرادیت کا سکہ جمانا چاہتے ہیں وہ دراصل شاعری کے تجربے کی لسانی،تخلیقی اور جمالیاتی تکمیل ہے۔

علاوہ ازیںدوسرے ادیبوں نے حامدی کاشمیری کے اس نظریے پر کھل کر تنقید کی۔ایسی تنقیدو ں کو پڑھ کریہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے حامدی کاشمیری کے خلاف کوئی منظم سازش کام کر رہی تھی۔اس سلسلے میں پروفیسر افضل امام کا نام نمایاں ہے۔ انھوں  نے ’تذکرے‘ میں چھپے اپنے ایک مضمون بعنوان ’معاصر تنقید‘ میں حامدی کاشمیری کے خلاف خوب بھڑاس نکالی۔موصوف کی جانب سے اپنائے گئے موقف کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے لگتا ہے کہ ان کا مطمح نظر حامدی کاشمیری کے نظریہ تنقید کے بجائے ان کی شخصیت ہے۔اپنے متذکرہ مضمون میں وہ اس طرح گویا ہیں۔

’’فاضل مصنف اپنی جس نئی اکتشافی تنقید کا ذکر فرماتے ہیں وہ اردو میں ہی کیا یورپی زبانوں میں بھی تقریباً ناپید ہے۔غالباً پروفیسر حامدی کاشمیری کچھ اس طرح کی اکتشافی تنقید کے ایک نئے دبستان کے بانی بننا چاہتے ہیں۔بہر کیف میں اسے تعصباتی تنقید پر محمول کروں گا۔‘‘

(حامدی کاشمیری، اکتشافی تنقید کی شعریات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،  دہلی، 2015، ص67)

افضل امام کے اس اقتباس سے دو باتوں کا اعادہ ہوتا ہے۔پہلی یہ کہ اس طرح کی تنقید مغربی ادب میں ناپید ہے۔ ان کی اس دلیل پر ہمیں اعتراض ہے۔ اعتراض کی دو وجوہات ہیں۔پہلی یہ کہ حامدی کاشمیری اپنے نظریے کی وضاحت میں بار بار کہہ چکے ہیں کہ اکتشافی تنقید کا نظریہ ان کا ذاتی ہے اور وہ اسے ترقی یافتہ ادب میں ایک نئے تجربے کے طور پر دیکھتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ اس تنقید کا مغربی ادب میں نہ ہونا کوئی عیب نہیں،خوبی ہے لیکن اس خوبی کو برداشت کرنے کا مادہ ہمارے نقادوں میں نہیں ہے۔نقادوں کے اس طرح کے رویے سے ان کے احساس کم تری کا اندازہ ہوتا ہے۔ہم اسی علم،تصور یا نظریے کو قبول کرتے ہیں جس پر مغرب زدگی کی مہر ثبت ہو۔اس میں بھی ہم Selective ہو جاتے ہیں۔ ترقی پسند نقاد یا جدیدیت،مابعد جدیدیت، ساختیات و پس ساختیات سے منسلک علما اگر مغربی تصور نقد کا اطلاق اردو ادب پر کریں تو ٹھیک ہے۔ یہی کام اگر کلیم الدین احمد یا حامدی کاشمیری کریں تو معتوب ٹھہرا دیے جاتے ہیں۔یہ انتہائی متعصانہ رویہ ہے۔اپنے لوگوں کو برداشت نہ کرنا کسی بھی ڈسپلن اور قوم کے حق میں مفید ثابت نہیں ہو سکتاہے۔

دوسری بات میں، افضل امام اسے متعصبانہ تنقید کہتے ہیں۔اس کی وجہ حامدی کاشمیری کی جانب سے نئی تنقید کے بانی بننے کی کوشش کو بتاتے ہیں۔یہ بات اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے۔ان کے اس یک طرفہ فیصلے کے بعد حامدی کاشمیری نے ان اعتراضات کا جواب دینے کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا۔اسی دوران ’معاصر تنقید‘ پر ڈاکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر خورشید احمد، شافع قدوائی اور ڈاکٹر افضال حسین کے مابین ایک مباحثہ ہوا۔انھوں  نے ’معاصر تنقید‘ کی خوبیاں شمار کرتے ہوئے اسے فکر انگیز کتاب قرار دیا۔البتہ انھوں  نے اس میں اپنائے گئے طریق نقد کی صحت پر بعض شبہات کا اظہار کیاہے۔

ڈاکٹر خلیق انجم،ڈاکٹر خورشید احمد،شافع قدوائی اور ڈاکٹر افضال حسین نے حامدی کاشمیری کے نظریہ تنقید پر کافی اعتراضات جتائے ہیں۔حامدی کاشمیری نے موٹے طور پر تین اعتراضات کو اپنی کتاب ’اکتشافی تنقید کی شعریات ‘ میں درج کیا ہے۔ پھر ان کے مفصل جوابات بھی دیے ہیں:

اس میں موصوف نے اپنے تنقیدی نقطہ نظر کو مزید واضح انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔وہ بار بار اسی امر پر زور دیتے ہیں کہ متن کے خود مکتفی مان لینے کے باوجود بھی متن کی رگ و ریشے میں مصنف کے گردش کر رہے لہو سے انکار ممکن نہیںہے۔نقاد کا یہ کام ہے کہ وہ اس لہو کی حرارت کو محسوس کرے۔اس احساس کے دوران اسے خود متن کے رگ و ریشے میں اترنا ہو گا۔ساتھ ہی اس عمل میں قاری کی شرکت کو بھی یقینی بنانا ہے۔تبھی جا کر تنقید کا حق ادا ہو سکے گا۔ورنہ تنقید کی نوعیت درسی یا تشریحی یا صحافتی اندازسے آگے نہیں بڑھے گی۔حامدی کاشمیری کے اس تنقیدی نظریے کو خاطر خوا ہ پزیرائی نہیں ملی، البتہ شمس الرحمن فاروقی،گوپی چند نارنگ،عتیق اللہ اور قدوس جاوید جیسے علما نے چند حوصلہ افزا  خیالات کا اظہار ضرور کیا ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے مطابق حامدی کاشمیر ی کے خیالات و نظریات سے مکمل اتفاق رکھنا ضروری نہیں اور مجھے بھی نہیں ہے تاہم ان کی علمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔گوپی چند نارنگ نے حامدی کاشمیری کی اس کوشش کو تنقید ی دنیا میں ایک نئی روشنی سے تعبیر کیا۔قدوس جاوید کے نزدیک متن کا مکاشفانہ مطالعہ حامدی کاشمیری کا خاصہ ہے۔

مختصراً یہ کہ حامدی کاشمیری ادبی تعصب کا شکار ہوئے ہیں۔ ادب میں نئے تجربات یا تصورات کو متعارف کرانے کا سلسلہ حامدی کاشمیری سے شروع نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس وقت تک حقیقت پسندی،رومان پسندی، ترقی پسندی، جدیدیت ومابعد جدیدیت وغیرہ جیسے نظریات کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا چکا تھا۔کیا وجہ ہے کہ حامدی کاشمیری کے اس نظریے سے علمی اختلاف کم اور ذاتی اختلاف زیادہ کیا گیا؟کیا اس لیے کہ حامدی کاشمیری اپنا کوئی حلقہ بنانے میں ناکامیاب رہے؟جیسے فاروقی اور نارنگ صاحب نے بنائے یا حامدی کاشمیری کا کشمیری ہونا ان کا عیب مانا گیا؟ بہر حال حقیقت جو بھی رہی ہو، اتنا طے ہے کہ حامدی کاشمیری کی جانب سے یہ ایک نئی،بے باک  اور بت شکنی کی عملی پہل تھی۔وقت آنے پر اسے اس کا جائز و مناسب مقام ضرور ملے گا۔


Masood Ahmed

Room No.: 302 E, Bramhamputra Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 7042181225

 

 

 

 


 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں