11/3/22

تمل ناڈو میں اردو کے لوک گیت - مضمون نگار : عائشہ صدیقہ جے

 



        لوک ادب سے مراد وہ ادب جس کو عوام نے جنم دیا ہو۔ کوچہ وبازار میں، قریہ اور دیہات میں، اور کھیت کھلیانوں میں جو لوک ادب پروان چڑھتا ہے عام طور پر اس کا جنم داتا کوئی ایک شخص نہیں ہوتا بلکہ پورا معاشرہ ہوتا ہے۔ لوک ادب کے منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ اس کی روایت انتہائی توانا اور اس کی حدیں نہایت وسیع رہی ہیں۔ عورت اور مرد کے رشتے سے پیدا ہونے والے مختلف مراحل و مسائل لوک گیتوں کا موضوع رہے ہیں۔بچے کی پیدائش سے جڑے مختلف رسوم کی ادائیگی، ہجر ووصال کی کیفیت کا بیان، اخلاقیات کا درس ، عوام کی امنگیں اور آرزوئوںکا بیان لوک گیتوں میں ملتا ہے۔ علاوہ ازیں ،اردو لوک گیتوں کا ایک بڑا حصہ شادی بیاہ کے گیتوں پر بھی مشتمل ہے۔ اردو میں عوامی ادب یا لوک ادب،لوک گیتوں اور لوک کہانیوں کی شکل میں ملتا ہے ۔وہ بڑی حد تک ان عوامی آثار کی بازیافت ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتارہا ہے۔ یہ لوک گیت اگر چہ اجتماعی ذہن کی پیداوار ہیں، لیکن ان کی تخلیق انفرادی سطح پر بھی ہوئی ہے ۔ان گیتوں کے سوتے دلوں سے پھوٹے ہیں۔ اجتماعی خوشیاں اور اجتماعی غم کی تصویریں لوک گیتوں کا حصہ رہی ہیں۔ یہ لوک گیت بڑی حد تک ہمارے فکری احساسات و جذبات کا آئینہ ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ لوک ادب کا ایک بڑا سرمایہ ماضی کی تصویریں پیش کرتا ہے۔ لیکن ان تصویروں کی بازیافت کے بغیر حال کا نہ کوئی خاکہ بن سکے گا اور نہ ہی اسے کسی روایات سے وابستہ کیا جاسکے گا۔

        لوک گیتوں کی روایات سے متعلق چند تمہیدی کلمات کے ساتھ میں اپنے اصل موضوع کا رخ کرتی ہوں۔ لوک گیتوں کو جس طرح ہندوستان کے طول و عرض میں ہماری خواتین نے اپنے سماجی کام کاج کے موقعے پر چاہے وہ شادی بیاہ کا موقعہ ہو، یا بچوں کی ولادت کی خوشیاں ہوں، یا عید برات کا موقعہ ہو، یا مولود شریف وقرآن خوانی کی محفلیں ہوں ، لوک گیت گا کر اپنی حصہ داری و شرکت کا ثبوت دیا ہے۔ اسی طرح صوبہ تمل ناڈو کی خواتین بھی لوک گیتوں کے حوالے سے پیچھے نہیں رہیں، بلکہ اس میدان میں وہ اپنے وجود کا احساس دلاتی رہیں۔ میں نے اپنے اس مقالے کو تمل ناڈو کے صرف پانچ شہروں میں رائج لوک گیتوں تک محدود رکھا ہے۔ جن میں کرشنگری، ترپاتور، آمبور ، سیلم اورکوئمبتورشامل ہیں۔

        جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ جولوک گیت سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچے ہیںوہ بیشترعوامی سطح یا ناخواندہ خواتین کی زبان ہی سے اداہوئے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ان لوک گیتوں کو محفوظ کرتے اور کتابی شکل دیتے ،لیکن اس کی طرف ہمارے دانشوروں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس لیے لوک گیتوں کا ایک بڑاحصہ محفوظ ہونے سے رہ گیا۔لوک گیتوں کی حفاظت نہ ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے لوک گیتوں میں جوزبان استعمال ہوئی ہے وہ خالص عوامی زبان ہے جسے ہماری خواتین اپنے روز مرہ میں استعمال کرتی ہیں۔ ہمارے دانشوروں کو چونکہ اس میں کوئی خاص ادبی اہمیت کا پہلو نظر نہیں آیا اس لیے یہ گیت ہر دور میں نظر التفات سے محروم رہے۔ ویسے بھی تمل ناڈو میں جن لوک گیتوں کاذخیرہ دستیاب ہے، وہ بیشتر دکنی زبان میں ہی ہے جو یہاں کے اردو والوں کی عوامی بولی ہے۔

        کرشنگری، تمل ناڈو کا ایک قدیم شہر ہے جہاں اردو بولنے والے تقریباً ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے سکونت پزیر ہیں۔یہ شہر اپنی تہذیبی قدروں کے اعتبار سے بھی خاص پہچان رکھتا ہے ۔مختار بدری، عثمان فہمی اور منیر رشیدی  جیسے باکمال شعرائ کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ کرشنگری کے علاقے میں شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کے قریبی رشتہ دارکس طرح اپنا رول ادا کرتے ہیں اس کی تصویر کشی لوک گیت کے ان اشعار سے ہوتی ہے۔ شادی کے دن دلہن کو پھوپیاں اور خالہ مائیں کس طرح اسے سنوارتی سنگارتی ہیں ملاحظہ کیجیے  :

اُجالے کے پارے چوڑیاں گَجگَجائیں

 لاڈیلی بھتیجی کو پھوپیاں پھول بنائیں

 

لمبے لمبے بال نانا۔۔۔نانی پالے

 جا فل کے جھاڑ تلے خالہ چوٹی دالے

 

اجالے کے پارے آسمان بھر کو تارے

 بھئی تیری شادی کو ایسی ساڑی لارے

        یہاں آپ نے غور کیا ہوگاکہ پھوپی، خالہ اور بھائی اپنا اپنا کردار نبھاکر دلہن کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ نانا ،نانی اپنی نواسی کے بالوں کی پرورش میں کتنا دھیان رکھتے تھے۔ آج یہ تصور ہمارے سماج سے ختم ہوگیا ہے۔ نواسی کے بالوں کو پالنا تو دور کی بات نواسی کے لیے خیر کی بات کرنا بھی ناپید ہوگیا ہے۔

        ترپاتور ، کرشنگری سے کچھ ہی دوری پر آباد ایک تاریخی شہر ہے۔ یہاں کے مسلمان تمل اور اردو دونوں زبانیں بولتے ہیں جو اردو بولنے والے مسلمان ہیں وہ اپنے گھروں میں دکنی بولتے ہیں ۔ یہاں جو دکنی بولی جاتی ہے وہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہی ہے جو مدراس، بنگلور، کرنول وغیرہ کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ البتہ لہجے کے فرق سے ترپاتور کی دکنی اردو اپنی علٰحیدہ پہچان رکھتی ہے۔

        شادی کے لیے لڑکی کی جستجو کرنا ہر دور میں ہر گھرانے کی رِیت رہی ہے۔ آج بھی لڑکی کی تلاش میں لڑکے والے کوئی بھی کثر باقی نہیں رکھتے البتہ لڑکی کے انتخاب کے بارے میں والدین کی سوچ بدل گئی ہے ۔ آج کے بیشتر والدین چاہتے ہیں کہ لڑکی پڑھی لکھی ہو ، کام کرنے والی ہو اور مالدار گھرانے کی ہو، جبکہ آج سے پچاس ، ساٹھ سال پہلے والدین کی سوچ کیا تھی اور وہ کس طرح کی لڑکی کو پسند کرتے تھے اس کا اندازہ اس لوک گیت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو شہر ترپاتور کے لوک گیتوں کے ذخیرے سے دستیاب ہوا ہے۔ملاحظہ ہوں  :

چھوکری پھول میں پھول دِسنا جی

بھولی صورت قبول دِسنا جی

 

بہووکو دیکھے تو پھول مرجانا

پیاسی آنھوں کی پیاس مرجانا

 

لٹکے چوٹیاں تو ناگ ڈر جانا

بیٹی دنیا میں نام کر جانا

 

ہنڈیاں دھونے کی اُس کو عادت ہو

سارے گھر بار کو کھلا دے کر

 بُھکاّ سونے کی اس کو عادت ہو

 

پا ک سیتا ہو سچی مائی ہو

پورے اللہ میاں کی گائی ہو

        یہاں آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اس وقت روپیے پیسے اور جوڑے گھوڑے کی بجائے لڑکی کے چہرے مُہرے اور بالوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔ اس وقت لڑکی پڑھی لکھی ہونے کا تصور بھی نہیں تھا۔ اس کے برعکس یہ دیکھا جا تا تھا کہ لڑکی ہانڈی برتن دھونے میں کس قدر مہارت رکھتی ہے اور اس میں قوتِ برداشت یعنی بھوکا پیٹ سونے کی عادت کتنی ہے ۔غرض آج والدین کی سوچ کس قدر بدل گئی ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں مذکورہ بالا لوک گیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہاں ہم یہ بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ اس دور میں خانگی زندگیاں بہت کم ایسی ہوں گی جسے ناکام کہا جاسکتاہے۔ جبکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں شادی کے فوراً بعد پڑھے لکھے جوڑوں کے درمیان جو نفرتیں اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں اس کے اسباب کیا ہیں اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

        آمبور ضلع ویلور کا ایک صنعتی شہر ہے ۔یہ شہر عربی مدرسوں کے لیے جانا پہچانا جاتا ہے۔آمبور سے کچھ ہی فاصلے پر واقع دَرَسگاہ دارالسلام عمرآباد دینی علوم کی تعلیم کے لیے دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھتا ہے۔ آمبور میں اردو بولنے والوں کی ایک قابل لحاظ آبادی موجود ہے۔ اگر چہ یہاں کے مسلمانوں کی مادری زبان دکنی ہے لیکن اردو کے بڑے بڑے ادیبوں و شاعروں کا تعلق آمبور سے رہا ہے ۔جیسے: مقبول آمبوری، فہیم آمبوری، دانش فرازی، کاوش بدری، علی اکبر آمبوری وغیرہ۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر لڑکی اور لڑکے والے اور ان کے رشتہ دار ایک دوسرے کو طنز وملامت کا نشانہ بناتے ہیں یہ طنز صرف وقتی ہوتا ہے جیسا کہ غالب  نے کہا تھا کہ :’’ دل کے بہلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے‘‘۔ طنز کے یہ تِیرونشتر چونکہ زیادہ گہرے نہیں ہوتے اس لیے تھوڑی دیر کے لیے گھرانوں میں دلچسپیوں اور خوشیوں کے سامان مہیا کرنے کے لیے برسائے جاتے ہیں ۔ شادی کے بعد دلہا اور دلہن اپنی اپنی ساسوں کے تحفوں پر کس طرح طنز کا نشانہ بنا تے ہیں۔ اس کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے ،جو آمبور کے لوک گیتوں کا حصہ ہے ۔گیت کے بول ملاحظہ کیجیے  : 

        لڑکا کہتا ہے  :

دلہن میری شمع، دلہا ہے پروانہ

 ساس نے جو جوڑا بھیجا کیسا ہے پرانہ

 پہنے گی دلہن تو ہنسے گا زمانہ

 

        لڑکی جواب دیتی ہے  :

اماں نے جو جوڑا بھیجا کیسا ہے شاہانہ

 پہنے گی دلہن تو دیکھے گا زمانہ

 دلہن میری شمع، دلہا ہے پروانہ

 

        پھر لڑکا کہتا ہے  :

ساس نے جو زیور بھیجا کیسا ہے پرانا

پہنے گی دلہن تو ہنسے گا زمانہ

 دلہن میری شمع، دلہا ہے پروانہ

        یہاں آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اس گیت کے بول نہات صاف شستہ و رواں زبان میں کہے گئے ہیں ۔ کرشنگری اور ترپاتور کے مقابلے میں آمبور کے خواتین و حضرات پر شستہ زبان کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں، تو غلط نہ ہوگا کہ آمبور کے عوامی گیتوں میں بھی ایک طرح سے شستہ و رواں زبان دیکھی جا سکتی ہے جو اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ آمبور کے وہ باذوق گھرانے ہیں جن کی گُھٹی میں اردو پڑی ہوئی ہے۔

        سیلم تمل ناڈو کا ایک خوبصورت شہر ہے ۔یہاں کے مسلمانوں کی مادری زبان تمل اور دکنی ہے جو گھرانے دکنی زبان بولتے ہیں ان کی زبان پر بھی تمل کے اچھے خاصے اثرات دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ علاقہ کبھی اردو کا مرکز نہیں رہا ، اس لیے تمل ناڈو میں اردو کی تاریخ میں اس کی شمولیت کسی بھی زاویے سے نظر نہیں آتی، البتہ لوک گیتوں کی روایت یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ آمبور اور وانمباڑی کے جن خاندانوں نے روزگار کی تلاش میں یہاں ہجرت کی تھی ان گھرانوں میں آج بھی دکنی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ شادی بیاہ سے تعلق رکھنے والے لوک گیتوں کے بول جو آج بھی سیلم میں مقیم ،دکنی گھرانوں میں گُنگُنائے جاتے ہیں ۔ اپنے بھائی سے متعلق ایک بہن کے تاثرات و خواہشات کو آپ اس گیت میں محسوس کرسکتے ہیں۔گیت ملاحظہ ہو:

بسم اللہ میں بول کر بات کریوں شادی کی

 آمین بولو بھائی مبارک جوڑے کی

 

 شب گشت نکلے بھائی حُسینی گھوڑے پو

 وہ گھوڑا چمکے گا سلطانی سیرے پو

 

 بھائی جی، بھاوج کیا کرتیں معلوم نئی

 سُہنے کی سوئی لے کر زَر بھرتیں شالوں میں

                    

عارس ، دیکھو کیوں سوتیں کروٹ

 تیرے نوشو آکو کھڑیں جلدی اُٹھ کر بیٹھ

 

 ہماری جی بھاوج کریلے پکائی

 ہمیں ننداں گئے تو مَحلے مَحلے چُھپئی

       

میں اب کوئمبتور کی طرف آتی ہوں۔ اسی طرح کا ایک اور لوک گیت جو کوئمبتور کے لوک ادب کا حصہ ہے آپ کی توجہ کی نذر کررہی ہوںاس گیت میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ،کہ شا دی کے بعد شوہر ِنام دار کی محبت نے لڑکی کے دل پر ایسے نقش چھوڑے ہیں کہ وہ اپنے خاص رشتے داروں کی پیش کش کو بھی ٹھکرادیتی ہے۔ گیت کا یہ منظر ملاحظہ کیجیے  :

 ’’برفی کا بنگلہ ۔۔۔جلیبی کی کھڑکی‘‘

 ساس آئی بلانے، گلسر لائی پنانے

 میں نئی آتی ماں ۔۔۔میں نئی آتی ماں

سسرے آئے بلانے، چھتری لائے مارنے

میں نئی آتی ماں ۔۔۔ میں نئی آتی ماں

 

دیور آیا بلانے ، زیور لایا پنانے

میں نئی آتی ماں۔۔۔ میں نئی آتی ماں

 

نند آئی بلانے، سُیاں لائی چُبانے

 میں نئی آتی ماں۔۔۔ میں نئی آتی ماں

 

دُلہا آیا بلانے، اسکوٹر لایا بٹھانے

میں جاتیوں ماں۔۔۔میں جاتیوں ماں

        میں نے اپنے مقالے مین جن لوک گیتوں کا تذکرہ کیا ہے بھلے وہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں اُن کے گیت کار نہ شاعر ہیں نہ شاعرات بلکہ وہ گھریلو عورتیں ہیں جو شادی بیاہ، تہواروں، عید براتوں ا ور میلے کھیلوں کے موقع پر تُک بندی کر لیتی ہیں اور اِن گیتوں کو اپنی ہی آواز سے مزین بھی کرتی ہیں، یہ گیت ہمارے سماج کا وہ شفّاف آئینہ ہے جن میں اردوبولنے والے عوام کی روح رقص کرتی نظر آتی ہے۔

 

Ayesha Siddiqua

# 163/ 72

N.S.K Street

Old Pet,

Krishnagiri - 63500   (Tamilnadu)                               

E-mail:ayeshadoulath555@gmail.com





1 تبصرہ: