11/3/22

ساجدہ زیدی کی شعری کائنات - مضمون نگار : ڈاکٹر مسرت

 



          ساجدہ زیدی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہیں۔ان کی پہچان ایک شاعرہ اور تخلیق کار کے طور پر بھی قائم ہے۔ ساجدہ زیدی ایک ممتاز شاعرہ،فکشن نگار،ڈرامہ نویس اور تنقید نگار ہیں۔ ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔سیل وجود،آتش سیال، آتش زیر پا اور جوئے نغمہ۔منظوم ڈراموں کا ایک مجموعہ اور طبع زاڈ ڈراموں کا ایک مجموعہ شائع ہوا۔تنقید کے میدان میں بھی ساجدہ زیدی خاص شہرت رکھتی ہیں۔ان کے دو تنقیدی مضامین کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔علاوہ ازیں ایک ناول بھی منظر عام پر آیا۔

          ساجدہ زیدی نے اپنی شاعری کا مواد اپنے ارد گرد رونما ہونے والے حالات و حادثات سے لیا ہے۔ساجدہ زیدی کی شاعری میں انسانی درد و کرب،رشتوں کی پامالی کے احساسات کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردری کے جذبے بھی ملتے ہیں۔ساجدہ زیدی کی شاعری کا’’میں‘‘ان کی شاعری کا اہم حصہ ہے۔یہ ’میں‘ ان کی ذات سے منسوب ہے۔ان کی نظم’’قرار جاں کہاں ہے‘‘ملاحظہ کیجئے:

دل وحشی یہ کہتا ہے قرار جاں کہاں ہے؟

کیا احساس کے ٹکڑے سمیٹوں۔۔۔

کیا کسی بے نام

رشتے کا پتہ ڈھونڈوں؟

کتابوں کی گزرگاہوں میں کھو جاؤں۔۔۔

کہ فکر و فلسفہ کی؍ریگزاروں میں نکل جاؤں؟

غموں کے رمز ڈھونڈوں۔۔۔

یا۔۔۔طرب کے جام چھلکاؤں

نشاطِ زیست کے اک جام میگوں میں بکھر جاؤں؟

کہ اس سیل روانِ وقت کی ہم رقص ہو جاؤں۔۔۔

تلاش زیست میں اور جستجوئے حرف و معنی میں

ردائے نیلگوں کے پار جاؤں

رازِ ہستی کا پتہ ڈھونڈوں

جو روح عشق لرزاں ہے فضائے دیر میںاس میں سما جاؤں

رموزِ غم میں دل کا مدعا پاؤں

کہ اس دار فنا کے رمز پا جاؤں عدم کے بن میں کھو جاؤں

یہ دردِ ہجر۔۔۔جو احساس کا تارِ گریباں ہے

اسے کس طرح سلجھاؤں؟

          ساجدہ زیدی کی اس پوری نظم میں اپنی ذات کے تئیں حساسیت نمایاں ہے۔مذکورہ نظم میں اس انسان کی شکل واضح نظر آتی ہے جو تن تنہا اپنی زندگی کی آزمائشوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔

ٍ          انھوں نے اپنے احساسات کو جوں کا توں بیان نہیں کیا بلکہ اپنے تجربات و احساسات سے جو تاثرات ابھریں ان کو تخلیق کے پیکر میں ڈھالا۔شاعری احساس سے عبارت ہے اور اسی احساس کوانھوں نے فکر کے سانچے میں ڈھال کر اپنی نظموں میں ابھارا ہے۔زندگی کے تئیں ان کا رویہ منفرد ہے:

چلیں کوئی سمت ایسی ڈھونڈیں

کہ جس کے گہرے گھنے اندھیروں میں

کھو بھی جائیں

تو چسم بینا سے دیکھ پائیں

قدم بڑھائیں

تو گوشہ در گوشہ

کنج در کنج

ایسی مدہوش کن نئی رہگذاریں آئیں

جو ہر قدم کو سفر بنائیں

                                                (مسرور راہیں)

          ان کا ماننا ہے کہ ان کو تخلیقی ترغیب اپنے باطن کی آوازوں سے ملی۔انھوں نے ذاتی غموں کو کائناتی بنا کر پیش کیا۔ انسانی المیوں اور نا انصافیوں سے وہ آنکھیں نہیں چرا پاتیں۔ جھوٹ کی حکمرانی سے ان کو سخت نفرت ہے۔اقدار کی ناقدری پران کا لہجہ سخت ہو جاتا ہے۔ان تمام کیفیات کا ملا جلا احساس ان کی شاعری میں موجود ہے۔

          ساجدہ زیدی اپنے شعور سے زندگی کی بے ثباتی کو پیش کرتی ہیں۔وہ صرف جذبات سے کام نہیں لیتیں بلکہ زندگی کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔ ان کی نظموں میں وجودیت کے فلسفے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔نظم’کب سے محو سفر ہوں‘دیکھیں:

ساجدہ!

کن یگوں کی مسافت سمیٹے ہوئے

اس بیاباں میں ہوں ہی بھٹکتی رہوگی

ان بگولوں کے ہمراہ یوں رقص کرتی رہوگی

کتنے صحراؤں میں آبلہ پائی کے نقش چھوڑے ہیںتم نے

کتنی بیدار راتوں سے مانگا ہے تم نے خراج تمنا

ساجدہ! کچھ کہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہجر کے کن زمانوں میں اشکوں کی مالا پروئی

کن حسابوں چکایا ہے قرض جنوں

کون سے مرحلوں سے گزارا ہے

یہ اضطراب دل وجان و روح بدن

کس طرح جان سے گزرے ہیں طوفان غم۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کس طرح تند آندھی کی یلغار میں

تم نے اپنی ردا کو سنبھالا

کیسے یخ بستہ تنہائیوں میں

جشن روح و دل و جاں منایا

شعلۂ آرزو میں کیسے حرف و نوا کو پتایا

جاگتی رات کی تیرگی کو

 کس طرح مطلع نوریزاں بنایا

کتنے سجدوں سے اپنی جبیں کو سجایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

ساجدہ زیدی کا کمال یہ ہے کہ دکھوں اور غموں کی فراوانی اور شدت کے باجود ان کا لہجہ تلخ اور کاٹ دار نہیں ہوتا۔ زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کے باوجود بھی وہ زندگی کو بوجھ نہیں سمجھتیں بلکہ پوری صداقت سے زندگی کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔     

          ساجدہ زیدی کی نظموں میں ہجر و وصال کے ساتھ ساتھ یاس و نا امیدی کی کیفیت بھی موجود ہے۔ ان کا غم روایتی غم سے مختلف ہے۔ مٹتی انسانی اقدار، فراموش ہوتی انسانیت، اور رواداری ان کو مضطرب رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں مایوسی کی کیفیت اور ذہنی کرب نمایاں ہے لیکن وقت اور حالات کے پیش نظرایسی کیفیات دیکھنے کو ملتی ہیں:

شکستہ آئینے کو

توڑ کر

بھی کیا ملے گا اب

شکست کے حصار سے

یہ کارواں نکل نہ پائے

                                                (حصار)

ساجدہ زیدی بنیادی طور پر شاعرہ ہیں۔انھوں نے نظم نگاری پر زیادہ توجہ صرف کی ہے۔غزل کی شاعری ان کے یہاں برائے نام ہی ہے۔اپنی نظموں کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار انھوں نے ان الفاظ میں کیا ہے:

’’میرے ذاتی المیوں کو انسانی تدبیر کے المیوں سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ ہجر و وصال کے نشاط و الم اور زندگی کے دوسرے نشاط و الم میں کوئی کیفیاتی بعد نہیں ہوتا۔ اب یہ اور بات ہے کہ اکثر نظموں میں داخلی اور ذاتی لے تیز ہے اور بعض پر خارجی حالات کی لے حاوی ہے۔‘‘

(آتش زیر پا،سیمانت پرکاشن، نئی دہلی،1955، ص:11)

          جدیدیت کی تحریک کے زیر اثر بہت سی تبدیلیاں ادب میں بھی رونما ہوئیں۔ بے چہرگی، لامتناہی کیفیت، ابہام، فرد کی تنہائی جیسے جذبات 1960کے بعد کے ابھرنے والے شاعر و ادیبوں کے یہاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ان کے یہاں نسائی جذبات و احساسات کی عکاسی بھی بے باکانہ انداز میں ملتی ہے۔ساجدہ زیدی کی بعض نظموں میں عورت کی ان کیفیات کا بھی بیان کیا گیا ہے جو صرف عورت سے ہی منسوب کی جاسکتی ہیں:

آئو اس ایک لمحے کی لذت میں

ہر آرزو کو سمو دیں

 ہر آسودگی سے ملائیں نگاہیں

جسم میں دو جسم و جاں

ایک ہی شاخ کے پکے پھل کی طرح ایسے ٹوٹیں،

کہ جیسے شکست بدن ہی میں تکمیل ہے زندگی کی،

چلو ایک ساعت کے

اس بجر دخار میں غوطہ زن ہوں

کہ دھل جائے ذہنوں کی ساری کدورت

سیاست، مذاہب، شکوک

اور سب فلسفوں کی نفاست

(لمحۂ موجود)

          مذکورہ نظم میں انھوں نے عورت کے فطری روپ کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے عورت کے اس روپ کو ابھاراہے جو اس کی فطرت کا خاصہ رہاہے۔ لیکن یہ اظہار صرف جنسی لذت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں ایک نئے رشتے کی نوید بھی ہے۔ یہ صرف جنسی لذت کا ذریعہ نہیں بلکہ انسانی رشتوں کو بروئے کار لانے کا عمل بھی ہے۔

          ساجدہ زیدی کی نظمیںاسی ماحول اور اسی معاشرے کی عکاسی کرتی ہیںجہاں انسانوں کے اندر ایک گہری بے بسی اور مایوسی سرایت کر گئی ہے۔ ہم مادی چیزوں میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ اب ہمیں ہر چیز احساس سے عاری لگنے لگی ہے۔ساجدہ زیدی کی اکثر نظموں میں ایسے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے جہاں پر انسان دکھ میں مبتلا نظر آتا ہے۔ ان میں زندگی کی رمق دمق ختم سی ہو گئی ہے۔زندگی کی صعوبتوں کے باوجود بھی ان کے یہاں زندگی کے تئیں مثبت رویہ ملتا ہے۔ بے یقینی اور لاحاصلی کی کیفیت کے باوجود بھی ان کے دل میں کسی کا قرب اور ساتھ حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ جو تاریک راہوں میں اپنے وجود سے روشنی پیدا کر سکے:

ایک امید سی دل میں

کہ نومیدی کے اس جنگل میں

کہیں شاید کوئی مسکن ہو جہاں

یہ دل زار ٹھہر جائے

ذرا سستائے

اور پھر رخت سفر باندھ کے آگے بڑھ جائے

اس مسیحا کا وجود

واہمہ تھا کہ حقیقت مجھے معلوم نہیں

ْْْْْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب مگر وہ بھی نہیں

(انکشاف)

          ساجدہ زیدی کی بیشتر نظموں میں ابہام جگہ جگہ نمایاں ہے۔ یہ بھی جدیدیت کی تحریک کے پیش نظر سامنے آیا ہے۔ تحریک ورجحانات کا سب سے زیادہ اثر ادب پر پڑتا ہے۔ جدیدیت کی تحریک نے بھی ادب میں غیر معمولی تبدیلی پیدا کی نتیجتاََ اس دور کے ادیب بھی اس سے اپنا دامن نہ بچا سکے۔ساجدہ زیدی کی شاعری ہر موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔زندگی کی کشمکش، استحصال، آزادی، تصادم ان کے اہم موضوعات ہیں۔  اقدار کی شکست و ریخت بھی ان کی شاعری میں واضح نظر آتی ہے:

ْْْْْْْْْْْْمیں بتاؤں تمھیں خاموشی کی دیرینہ زباں سے یہ راز

اس تمدن کے کھنڈر میں اے دوست

جھوٹی اقدار کے کھوٹے سکے،

جسم و جاں، قلب ونظر کے بدلے

ہاتھوں و ہاتھ اب بھی لیے جاتے ہیں

          (مشرق و مغرب کا نقطۂ اتصال)

          ساجدہ زیدی نے اپنی نظموں میں عشق و محبت کے لطیف جذبات کی بھی عکاسی کی ہے۔انھوں نے داخلی جذبات و احساسات کو شعری پیکر عطا کیا ہے۔داخلی جذبات کی ترجمانی ان کی شاعری میں اکثر مقامات پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے ان بے نام جذبوں کو بھی زبان دینے کی کوشش کی ہے جو عوررت سے منسوب سمجھے جاتے ہیں اور ہماری روایات کا حصہ ہیں۔ داخلی خود کلامی کا اظہار ان کے یہاں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ان کی کئی نظمیں جذباتی کشمکش کی ترجمانی کرتی ہیں:

کبھی محسوس ہوتا ہے

میں خوشبو ہوں

میں نغمہ ہوں

میں خود معصوم ہونٹوں کی ہنسی ہوں

دل کی دھڑکن ہوں

اک درد ہوں

سوز مجسم ہوں

(وجدان)

ساجدہ زیدی کی شاعری صرف اپنی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنے ارد گرد بھی نظریں مرکوز کی ہیں اور معاشرے میں پھیلی بے راہ روی پر بھی تیکھے طنز کیے ہیں۔کہیں کہیں ان کا لہجہ بہت تلخ بھی ہو گیا ہے۔ طبقاتی کشمکش پر بھی ان کا دل کڑھتا ہے اور وہ اس کا اظہار برملا کرتی ہیں:

ننگے زخموں کو پہناؤ، کبھی بے جان ہنسی کی پوشاک

تاکہ تم دیکھنے والوں کی نگاہوں کے ترحم سے بچو

اس سے بڑھ کر بھی کوئی نشتر و پیکاں ہوں گے گے؟

          (سناٹے کی آواز)

بے سرو سامانی اور ناامیدی کا احساس آج کے انسان کا مقدر بن گیا ہے۔ انسانوں نے انسانوں سے دوری بنا لی ہے۔ہر ایک اپنی ذات کے خول میں سمٹ کر رہ گیا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے بالکل بے خبر ہو چکا ہے۔شاعرہ کو کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو ایک دوسرے کے غم کا شریک ہو۔جو زندگی کی تاریک راہوں میں اپنے وجود کا احساس کرا سکے:

جستجو کا صحرا

نگاہوں کے بگولے

دل کی آنچ

کسی تراہے پر جھلستی دوپہر میں

رک گیا ہے زیست کا رقص تمام؟

کون میرا ہم سفر تھا

کس کو میں آواز دوں؟

                                                (رقص ناتمام)

          ساجدہ زیدی کی شاعری میں ہجر ہے، گھٹن ہے، نامساعد حالات ہیں، نو عمر لڑکی کے جذبات ہیں، سیاسی وسماجی انتشار ہے،اپنے وجود کو منوانے کی کوشش ہے:

میں کوہسار کی صبح نو میں دھلی

شوخ کرنوں کی

ان کہی داستاں ہوں

سمندر کی پرشور موجوں میں ملبوس،

اک جسم عریاں ہوں

دریائوں کا تند پانی ہوں

اور آبشاروں کی بیکل روانی ہوں،

سیال ہے میری ہستی کا جوہر

                                                (امید)

          ان کے دوسرے شعری مجموعے’’آتش زیر پا‘‘کے پیش لفظ میں ساجدہ زیدی نے اپنی اس رائے پر کہ میں نے شاعری کیوں کی کا جواب وہ اس طرح دیتی ہیں:

’’شاعری کیے بنا میرے لیے زندہ رہنا مشکل ہوتا۔اور زندگی کا جواز ڈھونڈھنا اور بھی مشکل۔۔۔۔۔۔۔۔اب دیکھئے نا،اس دنیا میں کتنی بے انصافیاں،بدعنوانیاں اور ظلم و استحصال ہے۔کس قدر کرپشن ہے(سیاسی اور سماجی)ملکوں،قوموں اور ثقافتی گروہوں کے مظلوم کس طرح کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں۔اور ظالم کس طرح چین کی بنسی بجا رہے ہیں۔۔۔۔ظلم و جبر کے کتنے بہانے ہیں،کتنا جھوٹ ہے،کتنا دکھ ہے،کتنا اندھیرا ہے؟کس قدر اندھیرا ہے کہ اگر انسان اپنی چھوٹی سی مشعل ساتھ لے کر نہ چلے تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔۔۔۔۔ایسی دنیا میں کسی منصب،کسی عظیم سچائی کی تلاش ،کسی عبادت کے بغیر کیسے جئے۔۔۔۔؟میری شاعری میرے اسی روحانی کرب کا اظہار ہے۔‘‘

(آتش زیر پا،ص:7)

          ساجدہ زیدی کی شاعری میں عورت کے دکھ کے ساتھ ساتھ سماج کے تئیں ناراضگی کا بھی اظہار ملتا ہے۔ان کی شاعری سماجی المیے کی نشاندہی کرتی ہے۔ان کی نظم میں عورت اپنی ذات کے بارے میں خود ہی سوال کرتی ہے اور پھر خود ہی ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی سعی کرتی ہے۔نظم’میں وہ تصویر نہیں‘ میں کچھ ایسے ہی جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے:

مجھ کو سمجھا گیا

بانکپن اور ادا،

شرم و حیا

 رمز تبسم، نگہ لطف کے تیر؍کالی زلفوں کی گھٹا، دست حنائی کا کرم

یہی سرمایۂ ہستی ہے مرا

ہیں یہی ممیرے ہتھیار

فلسفہ، شعر،

 تڑپ دل کی

تمنا کا طلسم

رد ہستی کی چبھن

آبلہ پائی کی اساس

 تلخ کامی کی مٹحاس

لوگ سمجھے کہ مری ذات کا حصہ ہی نہیں

مجھ کو ہنگامۂ عالم سے سروکار ہی کیا؟

میں یونہی گھٹتی

سکڑتی رہی لمحہ لمحہ

اور، لوگوں کی انا بڑھتی رہی

پھولتی ، پھلتی رہی

                                                (میں وہ تصویر نہیں)

          ساجدہ زیدی کی بہت سی نظمیں’میں‘سے تعلق رکھتی ہیں۔وہ زندگی کی تلخ سچائیوں کو اسی ’میں‘کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔کبھی یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں گم ہیں۔ وہ اسی’میں‘کے ساتھ زندگی کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتی ہیں۔کبھی ایسا لگتا ہے کہ ان کا ذہن و دل کسی شے کی تلاش میں مضطرب ہے:

یقین، حسن، محبت، وفا، امید، قرار

چھڑا کے چل دیے دامن

میں دیکھتی ہی رہی

کہ یہ طویل سفر، یہ مہیب تنہائی،

کہیں نہ ڈس لے مجھے راستوں کی پہنائی،

مگر یہ قدرت فیاض مہرباں نکلی،

قدم بڑھانے سے پہلے مجھے رفیق بنا دیا

جو میرے ساتھ رہا اس سفر میں اس طرح

کہ جیسے ذہن و دل و روح و جسم و جان و نظر

سبھی پہ اس کا اجارہ

سبھی ہیں اس کا گھر،

میں سوچتی ہوں مگر!

                             (سوچ)

          ان کے شعری مجموعے’’آتش زیر پا‘‘میں ان کی ایک نظم’’جب جیون ساگر ٹھہر گیا‘‘کے عنوان سے ہے۔ان کی شعری زبان ان کے اندرون کی زبان ہے جو ان کے داخلی اور خارجی حالات کو بیان کرتی ہے۔اس نظم میں انھوں نے جو اسلوب اپنایا ہے وہ بہت سادگی لیے ہوئے ہے جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آسان زبان میں بھی شاعری کر سکتی ہیں۔آسان اور عام زبان کے وہ الفاظ جو قاری کو متاثر کرتے ہیں ان کی نظم میں موجود ہیں۔ملاحظہ ہو ان کی نظم’سب اپنے ہی من کا درپن تھے‘:

یہ جیون ساگر جل تھل تھا

موجوں کا ہر سو میلا تھا

لہروں کے سفینے برہن کے

          گیتوں کی طرح آوارہ تھے

چنچل کرنیں

بے باک پون

اونچے پربت

کالے بادل

اڑتی تتلی۔۔۔۔۔رنگوں کی پری

ہنستی کلیاں۔۔۔۔لہراتے کنول

ڈالی ڈالی گاتے  پنچھے

شبنم شبنم۔۔۔۔۔ہیرے کی انی

                                      (سب اپنے ہی من کا درپن تھے)

          مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساجدہ زیدی کی شاعری پر جدیدیت کا اثر ہے۔ان کی شاعری آزادانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ان کے یہاں متانت اور سنجیدگی کے ساتھ ساتھ وہ لمحۂ فکریہ بھی موجود ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔زندگی اور اس سے متعلق مسئلے کو سوچنے اور سمجھنے کی انھوں نے کامیاب سعی کی ہے۔ساجدہ زیدی نے انسان کے ان تمام مسائل کو بحث کا موضوع بنایا ہے جس سے ہر انسان دو چار رہتا ہے۔ان کی شاعری میں کہیں کہیں مشکل پسندی دکھائی دیتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہی ہوا ہے۔شعری روایت کا رچا ہوا شعور ان کو شاعرات کی صف میں بلند مقام عطا کرتا ہے۔

 

Dr. Musarrat

New Delhi

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں