14/3/22

قائم چاند پوری: غالب کا پیش رو - مضمون نگار : مہر فاطمہ

 



 قائم چاند پوری کا تعلق اردو شاعری کے عہد ذریں سے ہے ۔ انھوں نے میر،سودا اور درد کے پہلو بہ پہلو اردو زبان کو سجانے ، سنوارنے اور چار چاند لگانے کا کام کیا ۔شاعری میں قائم کا درجہ یا مرتبہ کیا تھا ؟اس سلسلے میں تذکرہ نویسوںاور ناقدین نے اپنی اپنی رائے دی ہے۔جس سے ان کے مرتبہ کا تعین بحسن و خوبی ہو جاتا ہے ۔کسی نے انھیں میر و سودا کا ہم پلہ قرار دیا کسی نے درد سے بہتر اور کسی نے میر و سودا کے بعد درد کے بجائے قائم کا نام لینا زیادہ بہتر بتایا ۔لیکن ان کی اہمیت و مرتبہ کے تعین میں یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ ان کے بعد کے شعرا نے ان سے کافی حد تک استفادہ کیا ۔خصوصاً مرزا غالب کی شاعری پر قائم کے اثرات جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جھیں دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غالب کی شاعری کے موضوعات کا اصل منبع قائم کی شاعری ہے۔

ماہنامہ ’’معارف‘‘اپریل 1952 کے شمارہ میں ’’قائم چاند پوری اور ان کا کلام ‘‘کے عنوان سے اثر رامپوری کا مضمون موجود ہے۔جس میںانھوں نے قائم کے کئی اشعار کے ساتھ بعد کے شعرا کے اشعار پیش کیے ہیں جن کا مضمون قائم کے یہاں سے اخذ کیا گیا ہے یا قائم کے شعر کو سامنے رکھ کر شعر کہا گیا ہے ۔ اس کے بعد انھوں نے لکھا ہے :

’’مجنوں گورکھپوری نے تنقیدی حاشیے میں قائم کے دو شعر ایسے پیش کیے جن کے مضامین کو مومن اور غالب نے اپنایا ہے:

قائم:

ہوس ہے عشق کی اہل ہوا کو ہم تو یہاں

سننے سے نام محبت کا زرد ہوتے ہیں

حیرت ہے کہ اس شعرکے ہوتے ہوئے مومن کا یہ شعر کیسے ضرب المثل ہوگیا۔

ایک ہم ہیںکہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ایک وہ ہیں جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے

غالب کا یہ شعر:

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

ممکن ہے کہ قائم اس شعر کو سامنے رکھ کر کہا گیا ہو :

وہ دن گئے کہ اٹھا تا تھا بارنگہت گل

ہے بے دماغی دل ان دنوں گرا ں مجھے

(اثر رامپوری ،معارف اپریل 1952، شمارہ69)

اثر رامپوری صاحب نے چند اشعار پیش کرکے حیرت کا اظہار کیا ہے۔ اصل حیرت اس وقت ہوتی ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ بیشتر اشعار ایسے ہیں جن کا مضمون قائم کے یہاں سے اخذ کیاگیا ہے۔بعد کے ناقدین نے بخوبی نشاندہی کی ہے ۔ظاہر ہے کہ اثر رامپوری 1952 میں مضمون لکھ رہے ہیں اس وقت اس طرف توجہ نہیں دی گئی تھی مگر بعد میں یہ انکشاف کیا گیا لیکن پھر بھی آج لوگ اس سے واقف نہیں ہیں کہ غالب نے کہاں تک قائم کے چراغ سے اپنا چراغ روشن کیا ۔

 قائم کی غزل کے اشعارمیں اکثر سہل ممتنع کی لازوال مثالیں ہیں۔ اس طرح کی دوسری مثالیں غالب کے علاوہ اردو شاعری میں موجود نہیں ۔ قائم کی خوش بختی یہ ہے کہ غالب ان سے بڑی حد تک متاثر تھے۔ دوسرے لفظوں میں کہ قائم ایسے چند خوش بخت شاعروں میں سے ہیں جس نے غالب کو متاثر کیا۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ غالب نے جتنا تصرف یا اکتساب فیض قائم کے اشعار سے کیا ہے اتنا کسی اور شاعر سے نہیں کیا۔ یہاں تک کی بیدل سے بھی نہیں جن کے بارے میں غالب کا خیال تھا:

طرز بیدل میں ریختہ کہنا

اسد اللہ خاں قیامت ہے

نہ ہی غنی کاشمیری اور نہ ہی کسی شاعر کا اتنا عمل دخل نظر آتا ہے جتنا کہ قائم کا۔ ظاہر ہے کہ یہ قائم کی غزل کا ایک تابناک پہلو ہے۔ اس حوالے سے خالد علوی کا مضمون ’’قائم اور غالب‘‘ نہایت اہم ہے جس میں انھوں نے سو سے زیادہ اشعار کی تعداد بتائی ہے جن کا مرکزی خیال قائم کے اشعار سے ماخوذ ہے اور نہ صرف انھوں نے دعویٰ کیا ہے بلکہ غالب اور قائم کے ایسے پچیس اشعار مثال کے طور پر پیش کیے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے غالب کے دو خطوط بطور حوالہ پیش کیے ہیںجو درج ذیل ہیں:

7 مارچ 1864 کے خط بنام غلام غوث بے خبر میں لکھتے ہیں:

’’جناب عالی!

ایک شعر استاد کا مدت سے تحویل حافظہ میں چلا آتا ہے:

ظالم تو میری سادہ دلی پر تو رحم کھا

روٹھا تھا تجھ سے آپ ہی اور آپ من گیا

میں نے از راہ تصرف اس شعر کی صورت بدل ڈالی:

ان دلفریبیوں سے نہ کیوں اس پہ پیار آئے

روٹھا جو بے گناہ تو بے عذر من گیا

تم اخوان الصفا میں سے ہو۔ تمہاری آزردگی اوروں کی مہربانی سے خوشتر ہے۔‘‘

ایک دوسرے خط میں بنام چودھری عبدالغفورجولائی 1863 میں لکھتے ہیں:

’’وہ چیزے دگر‘‘ پارسیوں کے حصے میں آئی ہے۔ ہاں اردو میں اہل ہند نے پائی ہے۔ میر تقی علیہ الرحمہ:

بدنام ہوں گے جانے بھی دو امتحان

روٹھے گا کون تم سے عزیز اپنی جان کو

سودا:

دکھلائیے لے جاکے تجھے مصر کا بازار

خواہاں نہیں لیکن واں جنس گراں کا

قائم:

قائم اور تجھ سے طلب بوسے کی کیوں کر مانوں

ہے تو ناداں مگر اتنا بھی بدآموز نہیں

ناسخ کے یہاں کمتر اور آتش کے یہاں بیشتر یہ تیز تر نشتر ہیں۔‘‘

(غالب کے خطوط، مرتبہ: خلیق انجم، جلد دوم، ص 614)

مندرجہ بالا دونوں خطوط مختلف موضوعات کے حامل ہیں۔ پہلے خط میں ضمناً قائم کا ذکر آیا ہے اور دوسرے میں اہل ہند شعرا کی ستائش مقصود ہے۔ کل ملا کر انھیں دو جگہوں پر قائم کا ذکر کیا ہے۔ غالب نے جس طرح سے اکتساب فیض کیا ہے اس طرح کا اعتراف موجود نہیں۔ لیکن یہ کیا کم ہے کہ غالب جیسا خود پرست شاعر پہلے خط میں قائم کو استاد لکھ رہا ہے اور دوسرے خط میں قائم کا شمار یا قائم کا ذکر اساتذہ کے ساتھ کررہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ غالب قائم کا شمار میرومرزا کے ہم رتبہ شاعروں میں کررہے ہیں اور یہ دونوں تحریر قائم سے متعلق تاثرات کا بین ثبوت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائم کے اشعار سے اکتساب فیض میں استاد ماننے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ خالد علوی صاحب نے قائم کے جن اشعار کا تتبع پایا اس کی فہرست درج ذیل ہے:

اشعار:

قائم                    غالب

دو چند گریہ کر تبرید سے ہوئی تب عشق

زیادتی کی مرض کے ہے یاں دوا باعث

 

تین دن مسہل سے پہلے،تین دن مسہل کے بعد

تین مسہل،تین تبریدیں،یہ سب کے دن ہوئے

شکوہ نایافت کا ہے کیوں ناداں

کی ہے ملنے کی تیں کب اس کے تلاش

 

ہاں اہل طلب کون سنے طعنہ نایافت

دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے

ہاتھوں سے دل و دیدہ کے آیا ہوں نپٹ تنگ

آنکھوں کو روؤں یا کروں سرزنش دل

 

حیراں ہوں، دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

کوئی اپنی خاطر ایسا کہیں اک مکان ہووے

کہ نہ یہ زمین ہووے، نہ یہ آسمان ہووے

 

رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

جی میں ہے اس پرے اس عالم کے

جا کوئی جھوپڑا بسائے گا

 

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئے

کوئی ہم سایہ نہ ہو، اور پاسباں کوئی نہ ہو

پہنچے واں بے خودی میں ہم کہ خیال

جس جگہ جا سکے نہ عنقا کا

 

میں عدم سے پرے ہوں ورنہ غافل بارہا

میری آہ آتشیں سے بال عنقا جل گیا

میں کہا ’’عہد کیا کیا تھا رات؟‘‘

ہنس کے کہنے لگا کہ یاد نہیں

 

تم ان کے وعدوں کا ذکر ان سے کیوں کرو غالب

یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں

مثل آئینہ آبرو ہے تو دیکھ

ورنہ گھر میں تو اپنے خاک نہیں

 

ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ

سوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں

آج جی میں ہے کہ کھل کر مے پر ستی کیجئے

خوب سی مے پیجئے اور دیر مستی کیجئے

 

ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن

ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن

دل ڈھونڈتا سینے میں مرے بو العجبی ہے

ایک ڈھیر ہے یاں راکھ کا اور آگ دبی ہے

 

تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو

حذر کرو مرے دل سے ،کہ اس میں آگ دبی ہے

اس چمن میں دیکھئے کیوں کر بسر ہو اے نسیم

ہے مزاج نکہت گل شوخ اور ہم بے دماغ

 

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

وہ دن گئے کہ اٹھاتا تھا ناز نکہت گل

ہے بے دماغی دل ان دنوں گراں مجھ کو

 

………

خاک ہے اس مہر گردوں پر کہ یوں ماٹی کے بیچ

صورتیں کیا کیا دیں اتنی خرم و شاداب، داب

 

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

………

 

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

چرچے سے اگر ہو صحبت غم

شادی سے ہزار جا ہے بہتر

 

ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحہ غم ہی سہی، نغمہ شادی نہ سہی

کس سے کہوں حال بد کہ وہ آپ

کچھ مجھ سے بھی جانتا ہے بہتر

 

غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض

ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر

قائم جو کہیں ہیں فارسی یار

اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر

 

جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکے ہو رشک فارسی

گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں

قائم امروز اگر قدر سخن نیست چہ شد

آخر ایں جنس بیک روز گراں مد کردد

 

شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواید شدن

ایں مے از قحط خریداری کہن خواید شدن

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خالد علوی نے مونوگراف میں قائم کے شعر کے مقابلے میں غالب کے ایک فارسی شعر کو نقل کیا ہے جسے میں نے ہوبہو پیش کردیا ہے۔وہ شعر یوں ہے:

شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواید شدن

ایں مے از قحط خریداری کہن خواید شدن

 لیکن جب میں نے اس شعر کو تلاش کیا تو یہ شعر کچھ یوں ہے:

تاز دیوانم کہ سرمست سخن خواہد شدن

این مے از قحط خریداری کہن خواہد شدن

کوکبم را در عدم اوج قبولی بودہ است

شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن

خالد علوی صاحب نے پہلے مصرعے کے دوسرے شعر اور دوسرے مصرعے کے دوسرے شعر کو ایک شعر میں یکجا کردیا ہے جس کی وجہ سے معنوی خلا بھی پیدا ہوگیا ہے۔ لیکن ’’کوکبم را در عدم‘‘ والے مصرعے کے ساتھ یہ شعر مکمل اور بامعنی معلوم ہوتا ہے۔دوسری بات یہ کہ ’’خواید شدن‘‘ کے بجائے ’’خواہد شدن‘‘ ردیف کے طور پر غزل میں استعمال ہوا ہے۔

پچھلے صفحات پر پیش کی گئی مثالوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں تو غالب نے مضمون پورا کا پورا بغیر کسی تبدیلی کے ساتھ اخذ کرلیا ہے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اظہار کے پہلو کو مزید اثردار رکھا ہے۔ کہیں غالب کے یہاں کوئی شعر ردیف وقافیہ اور بحر کی تبدیلی کے ساتھ موجود ہے کہیں انھوں نے صرف ایک لفظ کے الٹ پھیر سے شعر کو پرلطف بنا دیا ہے، کہیں دوسرا مصرع تبدیل کردیا ہے اور کہیں کہیں بالکل دوسری شکل بخش دی ہے جس سے ان کی خلاقی کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ کہیں کہیں انھوں نے ڈرامائیت پیدا کرکے شعر کو بام عروج پر پہنچا دیا ہے۔

کہیں کہیں نہ صرف مضمون لیا گیا بلکہ الفاظ بھی وہی استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً ’’واں وہ غرور وناز‘‘ والا شعر یا عقوبت، سزا، گناہ والا شعر۔ جب بھی قائم کا شعر پڑھیں تو غالب کا شعر خود بخود ذہن میں آجاتا ہے۔ قائم نے ایک شعر میں ’’تبرید‘‘ استعمال کیا ہے جس کو خالد علوی نے غیر شاعرانہ ٹھہرایا ہے۔ غالب نے اسی ’’تبرید‘‘ کو جمع کی صورت میں ’’تبریدیں‘‘ استعمال کیا ہے۔ ’’عنقا‘‘ کا لفظ اور مضمون دونوں قائم کے یہاں سے ہی ماخوذ ہے۔ غالب کی بددماغی اور اناپرستی والے اشعار بھی قائم کے یہاں موجود ہیں مثلاً نکہت والے اشعار۔ اس بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قائم وہ پہلے شاعر ہیں جو نکہت گل کا بار اٹھانے کو تیار ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قائم کا کوئی ایک شعر غالب کے کئی اشعار کا محرک ہے اور قائم کی مختصر بحر کی غزل میں تین اشعار غالب کے تین مختلف اشعار میں نظر آتی ہے۔

یہاں تک کہ خالد علوی نے لکھا ہے کہ غالب نے قائم کے ایک بے مزہ شعر کو اپنے کلام میں شامل کرکے اور بے مزہ بنا لیا ہے۔ مثلاً

’’قائم کا مطلع ہے:

آج ناداں حسن پر جس تن کے تو مغرور ہے

کل وہ طعمہ کرم کا ہے، اور غذائے مور ہے

غالب نے اس بے مزہ شعر کو اور بھی بے مزہ کرکے اپنے کلام میں شامل کیا :

افسوس کہ دیداں کا کیا رزق فلک نے

جن لوگوں کی تھی درخور عقد گہر، انگشت

اکثر مطبوعہ نسخوں میں دیداں کی جگہ دنداں شائع ہوا ہے۔ کالی داس گپتا رضا نے دیداں لکھا ہے۔ نسخہ عرشی، دیوان غالب، مطبوعہ غالب انسٹی ٹیوٹ میں ’’دنداں‘‘ ہے۔ دانتوں میں انگلی دبانا محاورہ ضرور ہے لیکن دانت میں انگلی داب کر دانتوں کا رزق نہیں بن جاتی۔ ’’دیداں‘‘ سے شعر بامعنی ہوجاتا ہے۔ جب غالب کے استاد معنوی قائم نے طعمہ کرم اور غذائے مور لکھا ہے تو یقین ہے کہ غالب نے بھی ’’دیداں‘‘ ہی لکھا ہوگا۔ اسی غزل کا ایک شعر:

شیخ جی مانا میں اس کو فرشتہ ہو تو ہو

ایک حضرت آدمی ہونا نہایت دور ہے

دوسرے مصرعے کو غالب نے مزید معنویت عطا کردی ہے:

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘

(قائم چاند پوری، مونوگراف، خالد علوی، ص 136)

مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ غالب نے قائم سے استفاد کرکے چار چاند لگا دیے لیکن ایک مثال ایسی بھی آئی بقول خالد علوی کہ غالب نے اس بے مزہ شعر کو اور بھی بے مزہ کرکے اپنے کلام میں شامل کرلیا ہے۔ کس نے کس شعر کو کتنا بدمزہ کیا یا زیادہ بے مزہ شعر کے لحاظ سے دونوں میں سے کون سبقت لے گیا یہ سوال ہمارے ناقدین پر چھوڑتے ہوئے نہایت اہم سوال کی طرف رخ کرتے ہیں کہ آخر قائم کو ہی کیوں منتخب کیا؟ یا قائم کی طرف ان کی رغبت کیوں پیدا ہوئی؟ ظاہر ہے کہ غالب کوئی معمولی ذہن کے مالک تو تھے نہیں اور نہ ہی غالب سے قبل اچھے شاعروں کی کوئی کمی تھی۔ اس سوال کا جواب خالد علوی کے مضمون کے آخری پیراگراف میں بخوبی موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’غالب نے قائم کی خوشہ چینی عجز بیانی یا مضامین کے فقدان کی وجہ سے نہیں کی بلکہ غالب جو معنی آفرینی کو شاعری سمجھتے تھے قائم کی شاعری کو اپنی میزان پر کھرا پاتے ہیں۔ غالب خود اپنی ہی مشکل پسندی اور بیدلیت کے خلاف رد عمل ظاہر کررہے تھے جب وہ قائم کی شاعری میں معنی آفرینی، تسلسل، سادگی اور میر کی سی زبان سے دوچار ہوئے تو ناچار انھیں یہاں سر جھکانا پڑا۔‘‘

میں اس رائے سے سو فیصدی اتفاق کرتی ہوں کہ غالب کی خوشہ چینی عجزبیانی یا مضامین کے فقدان کی وجہ سے نہیں کی بلکہ غالب معنی آفرینی کے مداح تھے، اس کو اچھی شاعری مانتے تھے اور اس میزان پر قائم کو کھرا پاتے تھے۔ جیسا کہ ذکر آیا کہ وہ اپنی مشکل پسندی اوربیدلیت کے خلاف رد عمل ظاہر کررہے تھے اس لیے جب وہ قائم کی شاعری میں معنی آفرینی، تسلسل، سادگی اور میر کی سی زبان سے دوچار ہوئے تو ناچار انھیں سرجھکانا پڑا۔ یہ قائم کی شاعرانہ صلاحیت، مہارت اور قادر الکلامی کا بین ثبوت ہے۔ اس سے جہاں ان کی خوش بختی سامنے آتی ہے کہ غالب نے ان سے استفادہ کیا وہیں ان کی استادی بھی مسلم ہوتی ہے۔ لیکن جیسا کہ ابتدا میں ذکر آیا کہ قائم کے اشعار کو وہ شہرت نہ ملی جو ان سے استفادہ کردہ اشعار کو مل گئی۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ برگد ایسا درخت ہے جو بہت سایہ دار ہوتا ہے۔ نتیجے میں اس کے سائے میں تناور سے تناور پودا بھی پوری طرح نشو ونما نہیں پاتا۔ قائم چاندپوری بھی سودا اور میر کے ’’برگدی زمانے‘‘ میں پیدا ہوئے اور اپنی تمام تر ذہانت اورشعری اعتبار سے تخلیقی امکانات کے باوجود اس برگدی سائے کے شکار ہوئے۔یہ پرانی بات تھی لیکن حال میں رفتہ رفتہ ان کی طرف توجہ دی جارہی ہے اور قائم شناسی کا بہترین قدم اٹھایا جاچکا ہے اب وہ دن دور نہیں کہ ان کو بھی وہ درجہ ملے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔

 

Mehar Fatima

Research Scholar, Delhi University

C-206,Saranya Sarovar Apartment

Hugdur Main Road

White Field

Bangalore-560066 (Karnataka)

Mob: 9555949032



ماہنامہ خواتین دنیا، اکتوبر 2021


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں