14/3/22

فضا ابن فیضی کی نظم ’’خاتون اسلام کے نام‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ - مضمون نگار : مصطفیٰ علی

 



فضا کی منظومات کے دو مجموعے ہیں۔ پہلا ’’شعلۂ نیم سوز‘‘ جو کہ 1978 میں شائع ہوا اور دوسرا ’’سرشاخ طوبیٰ‘‘ جو کہ 1990 میں شائع ہوا۔ان کی نظم ’’خاتون اسلام کے نام‘‘ ان کے دونوں مجموعوں میں شامل ہے۔یہ نظم فضا کی ایک شاہکار نظم ہے جو 1964 میں لکھی گئی ہے۔ بعد میں اس نام سے مولانا وحیدالدین خان اور ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری نے بھی کتاب لکھی۔ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری صاحب نے تو اپنی کتاب میں فضا کی اس نظم کو شامل بھی کیا ہے۔گویا مشرقی اور مغربی تہذیب کے تصادم میں ہچکولا کھاتی عورت اس وقت کا اہم موضوع بن چکی تھی۔یہ نظم معشر کی ہیئت میں تین بندوں پر مشتمل ہے۔

فضا نے اس نظم میں مشرقی تہذیب کومغربی تہذیب پر فوقیت دیتے ہوئے ایک کی اچھائی اور دوسرے کی برائی بیان کی ہے۔فضا کو مشرقی تہذیب کی سادگی، شرم و حیا، پردہ داری، پاک دامنی اور جذبۂ ایثار بہت پسند ہے اور ان کی خواہش ہے کہ مسلم خواتین اسی تہذیب سے بہرہ مند ہوں۔ ان کو مغربی تہذیب کی فیشن زدگی، بے حیائی اور عریانیت سخت ناپسند ہے اس لیے ان کی دلی تمنا ہے کہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اس کی دلدادہ نہ بنیں۔

مشرق میں مسلم ہو کہ غیر مسلم سب میں سادگی و عفت و ایثار کو عورت کی پہچان مانی جاتی ہے، شرم و حیا کو یہاں کی عورتوں کا زیور تصور کیا جاتا ہے اور پورے بدن کو چھپا لینے والا لباس پہننے کو ان کی شان نسوانیت سمجھی جاتی ہے۔جب یہاں کی عورتیں مغربی چمک دمک سے مائل ہوکر اپنی ان خصوصیات و شناخت کو گنواں بیٹھنا چاہتی ہیں توشاعر کی دینی و ملی رگ حمیت پھڑک اٹھتی ہے اوروہ انھیں اس گمراہی سے آگاہ کرنے اور روکنے کے لیے ان سے مخاطب ہوکر کہتا ہے  ؎

ہے تری نسوانیت کا بانکپن شرم و حیا

رنگ بن کر وقت کے سیمیں دریچوں پر نہ جھول

مانگتی ہے مغربی تہذیب سے تو روشنی

ظلمت شب سے نہیں ممکن اجالے کا حصول

’’وقت کا سیمیں دریچہ ‘‘ کہہ کر فضا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ سارے مزے اور عیش و طرب، یہ ساری نمائشیں اور چمک دمک محض وقتی ہے، اس لیے اے میری مشرقی ماؤاور بہنو!سادگی سے رنگینی اختیار مت کرو۔ آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ آیا عورت کا چراغ خانہ رہنا بہتر ہے یا رونق محفل ہونا اس کی ترقی کی نشانی ہے۔مغرب اور اس سے متاثر لوگوں کے اعتبار سے عورت کو بھی پوری آزادی ملنی چاہیے، اسے بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کا موقع دیا جانا چاہیے، کلب، پارک، ساحل سمندر اور رقص و سرور کی محفلوں میں اسے جانے سے نہیں روکنا چاہیے کیوں کہ مرد اور عورت دونوں برابر ہیں، اس طرح ان کا رونق محفل ہونا وقت کی ضرورت اور ترقی کی علامت ہے اور مشرقیت دقیانوسیت کی نشانی۔ جب کہ مشرق اور اس سے متاثر لوگوں کے اعتبار سے عورت کا ایسا ہونا سیفٹی کو غیر یقینی بنا دے گا۔یہ بھی مانتے ہیں کہ عورت اور مرد دونوں برابر ہیں لیکن بس اتنا سا فرق ہے کہ یہ دونوں کو مختلف مانتے ہیں۔ان کے مطابق دونوں کے درمیان تخلیقی فرق ہے ، اپنے اسی تخلیقی فرق کی بنا پر دونوں زندگی کے ہر شعبے اور معاشرے میں یکساں طور طریق نہیں اپنا سکتے۔اگر وہ ایسا کرتی ہیں تواس سے ان کی زندگی میں مصیبت و مشکلات کا سیلاب آ سکتا ہے، ان کی عزت و آبرو خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ لہذا ان کی جان اور عصمت کی حفاظت کے پیش نظر ان کا چراغ خانہ ہونا زیادہ بہتر ہے۔یہ مغربیت کو فحاشیت کا دوسرا نام گردانتے ہیں اور اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔

آج کی تانیثیت بھی مغربیت سے متاثر ہے اور وہ مشرقیت کے خلاف احتجاج وبغاوت کرتی ہے۔تانیثیت کی تین شکلیں سامنے آئی ہیں۔ اپنی پہلی شکل میں اس نے نسائی وجود کو منوانے اور مستحکم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کی دوسری شکل عورتوں کے حقوق کی دریافت کی رہی ہے۔ اس کی تیسری شکل مردوں سے مقابلہ آرائی کی ہے۔ شاعر اسلامی خواتین کو بیدار کرنا چاہتا ہے ، لہذا انھیں مخاطب کرکے کہتا ہے  ؎

یہ کلب، یہ رقص گاہیں، یہ لب ساحل، یہ پارک

سارے چم خم ہیں یہ افرنگی تمدن کے فضول

تو چراغ خانہ تھی اب رونق محفل ہوئی

دے کے گوہر کر لیے تونے خزف ریزے قبول

گوہر دے کر خزف ریزہ قبول کر لینے کا مطلب ہے مغربیت کو گلے لگا کر مشرقیت سے ہاتھ دھو بیٹھنا۔فضاؔ کے خیال میں ایسا کرکے عورت اپنے آپ کو گوہر نایاب سے ایک سستی جنس میں تبدیل کر رہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مغرب کے عیار عفریت عورت کو بازارو بناکر تماشا دیکھنا چاہتے ہیں، انھیں ترقی کا سبز باغ دکھا کر ان کا استحصال کرنا چاہتے ہیں، وہ ان تک اپنی پہنچ کو اور ان کے حصول کو آسان بنانا چاہتے ہیں۔ شاعر خاتون اسلام کو ان کی انھیں شیطانیت سے باخبر کر اپنے کو ارزاں بنانے سے روکنے کے لیے کہتا ہے  ؎

اس قدر ارزاں نہ کر خود کو تو ہے ایسی متاع

سہل ہے جس کی طلب دشوار ہے جس کا حصول

عفت و ناموس کا گہوارہ ہے تیرا وجود

تو ہے اک خاتون مشرق، اس حقیقت کو نہ بھول

 اقبال نے عورتوں کی قدرومنزلت اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا  ؎

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

اس میں کوئی شک نہیں کہ فضا اپنی ملی نظموں میں اقبال کا تتبع کرتے نظر آتے ہیں اوراقبال کے تعلق سے وزیر آغا کا مندرجہ ذیل قول یہاں پیش کرنا حسب حال معلوم ہوتا ہے :

’’ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے انھوں نے اسلاف کی عظمت کا تصور تو حالی سے اورمغربی تہذیب کی نفی کا تصور اکبر سے مستعار لیا اور یوں قطعاً غیر شعوری طور پر ایک بلند سطح پر آ کھڑے ہوئے۔‘‘

 فضانے اقبال کی پیروی ضرور کی لیکن اپنے خیالات کی دنیا الگ بنائی۔ ڈائلاگ اور ڈائلکٹ کی سطح پر بھی وہ اقبال سے منفرد ایک نیا محل تعمیر کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اقبال کی طرح فضا بھی عورتوں کی قدر و منزلت سے بخوبی واقف ہیں اور خاتون اسلام کے مقام و مرتبہ اور ان کی عظمت کا انھیں پورا احساس ہے۔ اقبال نے عورت کے وجود سے ’’تصویر کائنات میں رنگ‘‘کی بات کہی ہے۔ فضا نے عورت کے دم سے ’’نظام کائنات میں توازن‘‘ کی بات کہی ہے۔شعر دیکھیں    ؎

ہے ترے دم سے توازن میں نظامِ کائنات

تو اگر ہو مضطرب، کونین کی ہل جائے چول

 یہی نہیں ان کے مقام و مرتبہ کا بیان کرتے ہوئے آگے کہتے ہیں  ؎

چشم حوران بہشتی کے لیے سرمہ بنی

کیا کہوں کیا شے ہے تیرے نازنیں قدموں کی دھول

تیرے ماتھے کا پسینہ ہے کہ کوثر سلسبیل

ہے بہار خلد و طوبیٰ یا ترے آنچل کا پھول

ان کی عظمت کا بیان کرنے کے بعد فضا مشرقی تہذیب و تمدن کے گہوارے میں پلی کچھ ایسی ہستیوں کی مثال پیش کرتے ہیں جو اپنے آپ میں یکتا اور بے مثل ہیں۔وہ زینب، مریم ہو کہ رابعہ بصری ، سیدہ عائشہ ؓ ہو کہ فاطمہ زہرایا خاتون اسلام کی پیدائش و تربیت سے پروان چڑھے انبیا و رسل اورجنید و بایزیدوغیرہ، سب مشرقی تہذیب اور اسلامی تمدن کی بلندی و عظمت کی نشانی ہیں۔ان عظمت رفتہ کی یاد دہانی کراتے ہوئے خاتون اسلام کو مخاطب کرکے فضا آخر میں کہتے ہیں  ؎

اس حقیقت سے نہیں شاید ابھی آگاہ تو

تجھ میں کوئی عائشہ ہے اور کوئی زہرا بتول

اس نظم کو پڑھ کر فضا سے متعلق پروفیسر عبدالمغنی صاحب کی کہی ہوئی بات لامحالہ یاد آ جاتی ہے۔ میں انہی کے قول پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ، قول ملاحظہ فرمائیں :

’’آج کی طوفان مغرب میں فضا کی مشرقیت اپنی جگہ ایک مضبوط ستون کی طرح قائم ہے۔‘‘

٭٭٭



Mr. Mustafa Ali

Research Scholar

Jamia Millia Islamia

New Delhi-110025

8299535742

mustafaaliias@gmail.com

 





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں