14/3/22

منی بائی حجاب: کلکتے کی ایک مشہور طوائف شاعرہ - مضمون نگار : ڈاکٹر شاہد ساز




 

        نام منّی بائی، تخلص حجاب تھااورمنجھلی کے نام سے مشہور تھیں۔ اردو کے قدیم تذکروں مثلاً تذکرۂ بہارستان ناز، تذکرۂ نشاط افزا ، تذکرۃ النساء ، تذکر ۃ الخواتین، تذکرۃ النساء نادری، تذکرۂ مشاہیر نسواں ، تذکرۂ نسوانِ ہند، اردو شاعرات بنگالہ وغیرہ میں حجاب کا ذکر ملتا ہے۔ اردو ادب کی تاریخ میں داغ دہلوی کی داستان عشق کی وجہ سے ان کا نام زندۂ جاوید رہے گا۔ حجاب کلکتہ کی مشہور طوائف کے علاوہ ایک شاعرہ بھی تھیں ۔ علاوہ ازیں وہ موسیقی میں بھی طاق تھیں۔

        وفا راشدی نے حجاب کی شخصیت ،سیرت، خوبصورتی، پیشہ، شاعری پر مختصر مگر جامع خاکہ پیش کیا ہے :

’’ منّی بائی کے نام میں اتنی کشش، اتنی موسیقیت و معنویت  تخلص حجاب میں ایسی شعریت ، غنائیت اور رومانی کیفیت ہے کہ اس کی کشش انگیز شخصیت اور زندگی سے بھر پور شاعر ی کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ تجسس و تلاش سے مزید انکشاف ہوا کہ وہ نہ صرف پُر گو شاعرہ تھیں بلکہ ایک دیوان بھی اس کی یادگار ہے ۔ اس کے شاگردوں  میں کئی اہم شاعرات کے نام بھی آتے ہیں۔ حجاب کلکتہ کی ہر دلعزیز ڈیرہ دار طوائف تھی ۔ ان کا حسن و جمال دل لیوا، شوخی جانفزا موسیقی کی دھن، روح افزا تھی ۔ نغمہ سرائی، ناز و ادا میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ‘‘ 

(بنگال میں اردو، وفا راشدی 1955)

        رامپور کے نواب کلب علی خاں نے 1866 میں ’’میلہ بے نظیر ‘‘ کا اہتمام کیا تھا ۔ کلکتے سے مارچ 1881 میں منّی بائی حجاب  میلہ میں شرکت کرنے کے لیے رامپور گئی تھیں ۔ داغ دہلوی پہلی نظر میں حجاب کے عشق میں گرفتا ر ہوگئے تھے۔ داغ نے حجاب سے پہلی ملاقات کا ذکر یوں کیا ہے:

آفتِ جانِ ناتواں دیکھی

 

یک بیک مرگِ ناگہاں دیکھی

جلوہ دیکھا جو حورطلعت کا

 

سامنا ہوگیا قیامت کا

دیکھ کر اس پری شمائل کو

 

رہ گیا تھا م تھام کر دل کو

دل کو میں ڈھونڈتا رہا نہ ملا

 

آنکھ ملتے ہی پھر پتہ نہ ملا

رنگ چہرے سے اڑ گیا کوسوں 

 

دل سے میں مجھ سے دل جدا کوسوں 

آبر و کا لحاظ و پاس کسے

 

ہوش میں آئوں یہ حواس کسے

یارو، غم خوار و مونس و ہمدم

 

کہہ رہے تھے تجھے خدا کی قسم

داغ تو ماجرا بیاں تو کر

 

تجھ کو کیا ہوگیا بیاں تو کر

  (مثنوی فریاد داغ، مقدمہ : تمکین کاظمی ، ص 100، 1956)

        داغ نے حجاب کا منظوم سراپا کس خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے:

وہ اٹکتی ہوئی نظر آہا

 

وہ لچکتی ہوئی کمر ، آہا

نشۂ حسن کی ترنگ غضب

 

نوجوانی کی تھی امنگ غضب

شوخیا ں ہیں حجاب میں کیسی

 

لن ترانی جواب میں کیسی

اُف رے عہد شباب کی ہستی

 

بے پیے ہے شراب کی مستی

ہائے تیرا کلام مستانہ

 

ہائے تیرا خرام مستانہ

گرتے گرتے کبھی سنبھل جانا

 

اِدھر آنا اُدھر نکل جانا

حسن کی آن بان ہائے غضب

 

بے نیازی کی شان ہائے غضب

رقصِ طائوس باغ سے اچھا

 

شعر کا لطف داغ سے اچھا

جس طر ف اٹھ گئی وہ شوخ نگاہ

 

شور اٹھا کہ بس خدا کی پناہ

(ایضاً، ص: 102-103)

        حجاب جب کلکتہ واپس چلی گئی تو داغ کی بے قراری بڑھنے لگی اور وہ حجاب کو دوبارہ رام پور آنے کے لیے ضد کرتے ہیں ۔ کئی خطوط انھوں نے لکھے اور بے قراری جب حدسے تجاوز کرگئی تو داغ حجاب کی خاطر زہر کھانے کے لیے بھی تیار ہوگئے تھے ۔ داغ کے یہاں دو خط نقل کیے جاتے ہیں کیونکہ ان خطوط سے داغ کے سچے عشق اور داخلی کیفیات کا اندازہ ہوگا کہ وہ حجاب کو پانے کے لیے کس حد تک جا سکتے تھے ۔

’’دل دار و دل نواز !

کیا غضب ہے آنکھ سے اوجھل ہوتے ہی تمھاری نگاہیں پھر گئیں۔ وہ سب قول و قرار یک لخت فراموش کردیئے ، خط روانہ کیا تھا وہاں کی دلچسپیوں میں  اتنی محو کہ جواب دینا محال ، کیا میرے سینے میں دل نہیں یا دل میں تڑپ نہیں، کیا بے قرار ہونا مجھے نہیں آتا، کیا تلملانا میں نہیں جانتا، اس خط کا جواب جلد سے جلد نہ آیا تو خود بازار جاکر زہر لائوں گا اور بے موت مرکردکھا دوں گا۔ تم سے وعدہ لیا تھا اور تم وعدہ کرکے گئی تھیں کہ روز نہیں تو ہفتے میں دوبار خط ضرور لکھا جائے گا۔ آج دس دن ہوگئے نہ خیر ہے نہ خبر اور کچھ اگر نہ لکھتیں تو خیریت رسی سے ہی اطلاع دے دیتیں ، یہاں تو جس روز سے گئی ہو جان پر بنی ہے، کوئی بات اچھی نہیں لگتی، جب تک تمہارا خط نہ آئے دل کو کیسے چین آئے ۔

                        تمھارا

        داغ دہلوی  30ستمبر 1879

(زبان داغ، مرتبہ: رفیق مارہروی ،1955، ص: 185-186)

’’بائی جی ! سلام شوق

غضب تو یہ ہے کہ دور بیٹھی ہو ، پاس ہوتیں تو سیر ہوتی، کبھی تمہارے گرد گھومتا اور شعلہ ٔ جوالا بن جاتا ، کبھی تمہیں شمع قرار دیتا اور پتنگا بن کر قربان ہوجاتا کبھی بلائیں لیتا اور کبھی صدقے قربان ہوجاتا۔ ایک خط بھیجا ہے ابھی اس کے انتظار کی مدت ختم نہیں ہوئی کہ یہ دوسرا خط لکھوانے لگا، خدا کے واسطے جلد آئو یا تاریخ آمد مقرر کرکے اطلاع دو، شب و روز انتظار میں گزرتے ہیں ۔ وہاں کے لوگ کیوں کر خوشی سے اجازت دیں گے ۔ تم ہی چاہوگی تو روانگی ہوسکے گی۔ میں تمہارے لیے بلبلا رہا ہوں ۔ یہ خوفناک کالی راتیں اور تنہائی ، کیا کہوں کیونکر تڑپ تڑپ کر صبح کی صورت دیکھتا ہوں ۔ یقین جانو ایسے تڑپتا ہوں  جیسے بلبل قفس میں ۔ میرے دونوں خطوں کے جواب آنا ضرور ہیں ۔ فقط

                        تمھار ا دلدادہ و منتظر

                                داغ

                        5 ستمبر1880

(زبان داغ، مرتبہ: رفیق مارہروی 1955 ص: 184)

        منّی بائی حجاب دوبارہ مارچ 1882 میں ’’میلہ بے نظیر ‘‘ میں شرکت کے لیے رام پور پہنچی اور ایک مہینہ رہنے کے بعد کلکتہ واپس لوٹ آئیں لیکن اس بار داغ کے دل و دماغ پر حجاب اس طرح چھائی کہ آخری دنوں تک وہ حجاب کو بھلا نہیں سکے ۔ اس کا بین ثبوت داغ کے وہ خطوط ہیں انھوں نے حجاب کو لکھے تھے۔ ’’زبان داغ‘‘ میں ۱۱؍ خطوط شامل ہیں ۔ان خطوط کی روشنی میں داغ کی پہلی ملاقات سے آخری ملاقات کا ذکر کیا گیا ہے ۔

        داغ دہلوی کے احساسات و جذبات حجاب کے لیے ناقابل برداشت  ہوگئے تو انھوں نے حجاب سے ملاقات کرنے کے لیے جون 1883میں عظیم آباد ہوتے ہوئے کلکتہ کے مشہور محلے کولوٹولہ پہنچے۔ داغ کے لیے کلکتہ کا یہ پہلا سفر نہیں تھا کیونکہ وہ پہلی بار نواب رامپور کے ساتھ کلکتے کی سیر کرچکے تھے۔ غالب کی طرح وہ بھی کلکتے کی مدح سرائی کے بغیر نہ رہ سکے ۔ کلکتہ کے متعلق داغ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

سربازار وہ مکان بلند

 

جس کو کہئے اک آسمان بلند

شوق بے اختیار لے ہی گیا

 

یہ دل بے قرار لے ہی گیا

آئی ایسی ہوائے کلکتہ

 

دل پکارا کہ ہائے کلکتہ

ریل پر دوستانِ نیک خصال

 

آئے اکثر برائے استقبال

شہر میں دھوم تھی کہ داغ آیا

 

داغ آیا تو باغ باغ آیا

(مثنوی ، فریاد داغ، ص: 134)

        داغ کا قیام حجاب  کے یہاں رہا ۔ جب وہ کلکتے سے واپس لوٹے تو وہ بھی غالب کی طرح اس شہر سے اپنے دلوں پر لاکھوں داغ لے کر چلے گئے :

یہ حسین یہ مہ جبین ، یہ شہر ایسی لہر بہر

داغ کلکتے سے لاکھوں داغ دل پر لے چلے

        داغ نے اپنی عشق و محبت کی روداد،’’مثنوی فریاد داغ‘‘ میں پیش کی  ہے۔ ’’مثنوی فریاد داغ‘‘ 1883 میں صرف دو دنوں میں مکمل اور 1883 کو شائع ہوئی ۔ مثنوی کی پہلے ایڈیشن کی ایک مہینہ میں 1500  کاپیاں فروخت ہوگئی تھیں ۔ داغ دہلوی ’’مثنوی فریاد داغ‘‘ کے بارے میںخود لکھتے ہیں :

’’مثنوی تمھاری تھی، تمہارے حال کی تھی، تمھاری صفات کی تھی، میں نے تو وہ حال واقعی موزوں کردیا ہے ........ صاحب مطبع نے پندرہ سو چھاپی تھیں، مہینہ بھر ہی میں فروخت ہوگئیں۔ ‘‘

(زبان داغ، مرتبہ : رفیق مارہروی1955، ص:189-190)

        داغ دہلوی 3؍جولائی 1883 کو کلکتے سے رامپور واپس چلے گئے تو حجاب  نے اپنی ایک نصف تصویر داغ کو بھیجی تھی تو داغ نے اس تصویر کو دیکھ کر5 رباعیاں لکھ کر حجاب کو بھیجی تھیں۔ یہاں وہ رباعیاں پیش کی جاتی ہیں ـ:

ز

اس شکل کی دنیا میں نہیں کوئی نظیر

صورت ہے طبیعت کی طرح شوخ و شریر

اللہ رے، حجاب بدگمانی تیری

بھیجی ہے مجھے نصف بدن کی تصویر

ز

تم تو فلکِ حسن ہو ماہِ منیر

سائے کی طرح ساتھ ہے داغِ دلگیر

حالِ لبِ گلفام ہے شاہد اس کا

بے داغ نہ کھنچ سکی تمھاری تصویر

ز

ہر عیب سے خالی ہے تمھاری تصویر

دنیا سے نرالی ہے تمھاری تصویر

کس شکل مصور سے یہ پوری کھنچتی

دل کھینچنے والی ہے تمھاری تصویر

ز

کیا خوب مصور نے اتاری تصویر

دیکھی نہ سنی ایسی تو پیاری تصویر

جب ہاتھ لگاتا ہوں تو جی ڈرتا ہے

کہہ بیٹھے نہ کچھ منہ سے تمھاری تصویر

ز

دل لے کے مکرتی ہے تمھاری تصویر

یہ بات تو کرتی ہے تمھاری تصویر

خاموش جو ہوجاتی ہے اس کے آگے

کیا داغ سے ڈرتی ہے تمھاری تصویر

        1883 کے بعد داغ دہلوی سے حجاب کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن ان دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ جاری تھا۔ داغ نے 24سال تک نواب رامپور کلب علی خاں کے یہاں شان و شوکت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی اور اس کا ذکر انھوں نے اپنی شاعری میں  بھی کیا ہے۔ داغ حیدر آباد چلے گئے اور حجاب کو حیدرآباد بلانا چاہتے تھے ۔ انھوں نے متعدد خطوط حجاب کو لکھے اس سلسلے میں  انھوں نے نساخ ملکہ جان اور قاضی عبدالحمید سے منّی بائی حجاب کی شکایتوں کا ذکر کیا ہے اور حجاب نے ایک خط میں داغ کی شکایتوں کا جواب تفصیل کے ساتھ دیا ہے : 

’’حاجی صاحب ! السلام علیکم ! بعد شوق ملاقات عرض پرداز ہوں کہ آپ کا محبت سے لبریز خط ملا، آپ بلائیں  اور میں نہ آئوں ، میری کیا مجال اور مجھ میں کہاں اتنی طاقت کہ غلط عذر کرسکوں مگر بعض مجبوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان جو چاہتا ہے وہ نہیں کرسکتا۔ میں لاکھ چاہتی ہوں کہ مجھے یہاں کے جھمیلوں سے نجات ملے اور میرے پر لگ جائیں اور آپ تک پہنچ لوں ۔ مگر مجبوریوں کا خدا بھلا کرے کہ وہ ایسی روانگی میں حائل ہیں کہ کچھ کرتے دھرتے بن نہیں پڑتی، آپ ہیں کہ برابر مجھے بے مروتی اور بے رحمی کے طعن و تشنیع سے چھلنی کیے ڈالتے ہیں ، میرے ہر عذر کوبہانا خیال کرکے شک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ واقعات جو ہیں ، وہ من وعن میں خود اور حکیم صاحب آپ کو لکھ چکے ہیں۔ ان کا بار بار کیا ذکر کروں ؟ آپ کی عقل کہاں گئی ہے ؟ آپ کی ہوش مندی کدھر سو رہی ہے؟ سوچ سمجھ کر ضد کی جاتی ہے ! اچھا صبر سے کام لیں وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ آپ میرے اور میں آپ کے سامنے موجود ہوں گی۔

آج دو روز سے مجھے زکام شدید ہوگیا ہے۔ ناک بری طرح بہتی ہے۔ یہ خط مشکل سے لکھ پایا ہے۔ یقین ہے کہ آپ بالکل خیریت سے ہوں گے ، آپ نے یہ کیا لکھ دیا کہ بجز ’’غمِ فراق ‘‘ کے سب خیریت ہے ؟ مجھے آپ نے ایک دفعہ نہیں لکھا کہ یہ درد نفرس کے بار بار دورے کیا معنی رکھتے ہیں؟ حکیم صاحب والے خط سے مجھے معلوم ہوا ، خدا کرے اب آپ بالکل صحیح ہوں، یہاں سب خیریت ہے اور پرسانِ حال سلام عرض کرتے ہیں ۔ فقط

                                آپ کی منّی

                                  17؍جولائی 1901

(مثنوی فریاد داغ، مقدمہ : تمکین کاظمی ، ص: 65-64)

        منّی بائی حجاب  18یا 19 ؍جنوری 1902میں حیدرآباد تشریف لائیں ۔ داغ نے حجاب  کو ساڑھے انیس سال بعد دیکھا تھا ۔ داغ کے ساتھ دو سال گزارنے کے بعد 1903میں حجاب واپس کلکتہ لوٹ گئیں۔ یہ داغ کا آخری زمانہ تھا لیکن حیدرآباد قیام کے دوران حجاب کے تعلقات داغ سے اچھے نہیں تھے ۔ شاید اسی وجہ سے حجاب کلکتہ لوٹ آئیں ۔ اس سلسلے میں رفیق مارہروی لکھتے ہیں :

’’داغ کا یہ آخری زمانہ تھا ، عمر کے ساتھ جذبات بھی سرد ہوچکے تھے، حسن پرستی فطرت ثانیہ تھی لہٰذا اس آخر زمانے میں ارباب نشاط کی وابستگی بجز وضعداری کے اور کچھ نہ تھی ، بعض حالات کی بنا پر اس وضعداری بھی فرق آیا اور حجاب سے تعلقات خراب ہوگئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ 1904میں بی حجاب کلکتہ واپس چلی گئیں۔ ‘‘

 (زبان داغ، مرتبہ: رفیق مارہروی، ص:181؍1955)

        حجاب سے داغ کی آخری ملاقات تھی کیونکہ ایک سال کے بعد 15 فروری میں داغ کا انتقال ہوگیا تھا اور منّی بائی حجاب نے بھی گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔

        ’’مثنوی فریاد داغ‘‘ کے علاوہ ’’آفتاب داغ‘‘ اور ’’دیوان داغ‘‘ میں حجاب کا ذکر ملتا ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

در پردہ تم جلائو ، جلائوں نہ میں چہ خوش

میرا بھی نام داغ ہے گر تم حجاب ہو

ز

تم میں یہ وصف ہے کہ ہوبے داغ

مجھ میں یہ عیب بے حجاب  ہوں میں 

ز

دیکھ کر جلوہ غش ہوئے موسیٰ

داغ مجھ کو حجاب نے مارا

ز

تو بھولنے کی چیز نہیں خوب یاد رکھ

اے داغ، کس طرح تجھے دل سے بھلائیں ہم

        حجاب طوائف کے ساتھ ساتھ ایک صاحب دیوان شاعرہ بھی تھیں ۔ مختلف تذکروں میں ان کے دیوان کا ذکر ملتا ہے لیکن تلاش بسیار کے بعد بھی ان کا دیوان راقم کو نہیں ملا ۔ اس سلسلے میں ایشیاٹک سوسائٹی، کلکتہ ، نیشنل لائبریری، کلکتہ، خدا بخش لائبریری، پٹنہ اور رام پور رضا لائبریری میں بھی تلاش کیا لیکن دیوان کا کچھ سراغ نہیں ملا۔ حجاب کے ہم عصروں میں ملکہ جان، مشتری، زہرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

        رفیق مارہروی نے ایک مضمون ’’نگار ‘‘لکھنؤ کے لیے اگست 1948 میں تحریر کیا ہے کہ حجاب فیض داغ سے شاعرہ ہوئیں یا پہلے سے شعر کہا کرتی تھیں لیکن مختلف تذکروں سے پتہ چلتا ہے کہ حجاب کی شاعری فطری تھی وہ داغ سے ملاقات سے پہلے شعر کہا کرتی تھیں ۔ وفا راشدی اس بارے میں رقم طراز ہیں :

’’مرزا داغ اردو کے سب سے زیادہ کثیر التلامذہ استاد سخن تھے۔ برصغیر کے گوشے گوشے میں ان کے شاگرد پھیلے ہوئے تھے ۔ پورے ہندوستان میں ان کی استادی کا طوطی بول رہا تھا۔ دور دور تک ان کی شہرت تھی جس کی کوئی حد نہ تھی۔ علامہ اقبال سیالکوٹی اور علامہ سیماب اکبر آبادی جیسے اکابرو مشاہیر داغ کے شرف تلمذ پر فخر کرتے تھے۔ داغ کے اس مقام و مرتبہ کے باوجود حجاب نے داغ سے مشورۂ سخن نہیں کیا۔ ‘‘

 (کلکتے کی ادبی داستانیں ، وفا راشدی ، ص:158)

        حجاب، عبدالغفور نساخ کے شاگرد مولوی عصمت اللہ انسخ سے اپنے کلام پر اصلاح لیتی تھی لیکن’’ تذکرہ بہارستان ‘‘اور ’’تذکرۃ النساء ‘‘ میں حجاب کو شوکت علی کی شاگرد بتایا گیا ہے جو بالکل غلط ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ نساخ کے کہنے پر حجاب نے انسخ سے اپنے کلام پر باقاعدہ اصلاح لینا شروع کی تھی ۔ اس قول کی توثیق درج ذیل اقتباسات سے ہوتی ہےـ:

’’حجاب مولوی عصمت اللہ صاحب ، جو پہلے ’’مہجور‘‘ بعد میں ’’انسخ ‘‘ تخلص کرتے تھے۔ نساخ کے شاگرد تھے۔ قصبہ پنڈوہ ضلع ہگلی ، نواح کلکتہ کے رہنے والے تھے۔ حجاب کے شعروں پر اصلاح کرتے تھے۔ شاعرہ کلکتے میں رہتی تھی ۔ وہ رام پور اور حیدرآباد بھی گئی۔ ‘‘

 (تذکرۃ الخواتین ، مولوی عبدالباری آسی 1927، ص:52-53)

’’منّی بائی عرف منجھلی خوش باش، کلکتہ 1286ہجری کے پس و پیش میں عصمت اللہ انسخ سے اصلاح لیتی تھی ۔ ‘‘ 

(تذکرۂ مشاہیر نسواں، محمد عباس، 1902 ص:219)

        فصیح الدین بلخی لکھتے ہیں :

’’1286ہجری مطابق1872 کے لگ بھگ حجاب مولوی عصمت اللہ انسخ سے اصلاح سخن لیتی تھی۔ ‘‘

(تذکرۂ نسوان ہند ، فصیح الدین بلخی، 1956ص:75)

        حجاب کا کچھ کلام تذکروں میں موجود ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حجاب کا کلام خالص عشقِ مجازی کے گرد طواف کرتا ہے کیونکہ وہ ایک طوائف تھی اس لیے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار اپنی محفلوں میں کرتی تھیں ۔ ان کے کلام پر داغ کا رنگ غالب ہے ۔ بقول وفا راشدی :

’’حجاب کی شاعری میں وہی رنگ و آہنگ ،وہی آن بان اور آب وتاب ہے جو داغ کے افکار کی خصوصیات ہیں۔ کیوں نہ ہو آخر زندہ عاشق و معشوق کے سچے عشق کے گہرے جذبات و احساسات ان کی داخلی کیفیات و محسوسات کے مظہر ہیں۔ ایک ایک شعر نہایت صاف، برجستہ، سادگی اور پُرکاری سے مرصع ہیں۔ زبان ایسی دلپذیر کہ کلام حجاب پر زبان داغ کا گمان ہوتا ہے ۔ ‘‘

(کلکتے کی ادبی داستانیں ، وفا راشدی ۔ ص: 159)

        حجاب کا دیوان دستیاب نہیں ہے تو تذکروں میں جو کلام ملا اسے ذیل میںنقل کیا جارہا ہے :

عدو کے کہنے سے مجھ کو ذلیل وخوار کیا

سزا یہ اس کی ہے میں نے جو تم کو پیار کیا

 

برا کیا جو کہا ان سے مدعا دل کا

غضب کیا جو محبت کو آشکار کیا

کہوں گا داورِ محشر کے آگے حشر میں یہ

کہ عمر بھر اسی کافر کو میں نے پیار کیا

 

ہم اور پیچ میں آتے ہیں ان کی با تو ں  کے

انھوں نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا

 

سزا یہی ہے کہ طرفین میں ہو بے چینی

مرے تڑپنے نے ان کو بھی بے قرار کیا

 

بتا تو چرخ بھلا اس سے تجھ کو کیا حاصل

کسی کا شیوۂ ذاتی جو اختیار کیا

 

ایک دم بھی کسی کروٹ نہیں ملتا آرام

ہائے بے چین ہیں ہم درد جگر سے کیا کیا

ز

حال حجاب قابل شرحِ بیاں نہیں 

آنسو نہ ٹپکے سن کے یہ وہ داستان نہیں 

دل میں جگر میں سینے میں پہلو میں آنکھ میں 

اے عشق تیری شعلہ فشانی کہاں نہیں 

دیتے ہیں چھیڑ چھیڑ کے کیوں تجھ کو گالیاں 

سمجھے ہوئے ہیں وہ مری شیریں زباں نہیں 

پوچھو نہ حال زار مرا تم سے کیا کہوں 

گم کردہ راہ باغ ہوں بادآشیاں نہیں 

وہ اور میرے گھر میں چلے آئیں خود بخود

سر پر مرے حجاب مگر آسماں نہیں 

ز

گلستاں میں آج بہر سیر یار آنے کو ہے

مژدہ باد اے بلبلو فصل بہار آنے کو ہے

دھوم ہے گھر میں ہمارے یاد آتا ہے حجاب

بہر استقبال لب پر جان زار آنے کو ہے

ز

کیا تماشا ہے کہ لے کر آئینہ کو ہاتھ میں 

دیکھ کر زلفیں وہ اپنی آپ بل کھانے لگے

پھر تصور کا کل جاناں کا مجھ کو آگیا

سینۂ محزوں پہ پھر دو سانپ لہرانے لگے

شوخ ہو، بے باک ہو، سفاک ہو، چالا ک ہو

کیوں شب وصلت میں مجھ سے آپ شرمانے لگے

ز

تلخیٔ ہجر بتان زہر سے بدتر ہی سہی

تم وہاں غیر سےہو شیر و شکر وصل کی رات

اے حجاب ان کو غرور اور ہمیں بات کا پاس

عیش و آرام ادھر تھا نہ ادھر وصل کی رات

ز

ان سے کہہ دو کہ ہمیں تم سے یہ امید نہ تھی

وعدہ ہم سے ہو ، رہو غیر کے گھر وصل کی رات

ز

رقیب نے اسے رسوا کیا سرِ محفل

غضب یہ ہے کہ اس پر بھی شرمسار کیا

ز

ان روزوں ان کو اور کسی کا خیال ہے

ورنہ عدو کو اور مجھے کیوں ملال ہے

جب سے سنا ہے ایک وفات وصال ہے

مرنے کی وہ خوشی ہے کہ جینا محال ہے

چھینا نہیں اترآئیں ذرا منبر سے آپ

ز

بہار آئی ہے سامان چمن بندی ہے گلشن میں 

شفق پھولی ہے عکس گل سے نظارے کے دامن میں 

ز

مرگ دشمن کا سوگ اس نے رکھا

میں پشیماں ہوں خود دعا کرکے

ز

حضرت ناصح نہ بک بک کر پھر ائیں سر مرا

قبلۂ من چپ ہی رہیے بس نصیحت ہوچکی

 

Mr. Md. Shahid

7/A, Jodhan Singh Road

P.O.Rishra

Distt. Hooghly-712248 (W.B)

Mob:9831365009/7980672722


ماہنامہ خواتین دنیا، اکتوبر 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں