14/3/22

سر سید تحریک اور علی گڑھ - مضمون نگار: صبا نوشاد


 


انیسویں صدی کے تاریخی تناظر میں جن عظیم المرتبت شخصیات نے جنم لیا ان ہی میں سید احمد خاں منارئہ نور کی شکل میں رونما ہوئے ۔سرسید احمد خاں ایک نابغہ روز گار اور کثیر الجہات دانشور مفکر ،مصلح مفسر قرآن اور تعلیمی نظریہ ساز کے طور پر منفرد مقام کے متحمل ہیں ۔موصوف کی حیات وخدمات پر لکھنے کا سلسلہ ہر عہد اور ہر دور کے قلم کاروں کا محبوب موضوع رہا ہے ۔

اس موقع پر شبلی نعمانی کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔

کوئی پوچھے تو میں کہہ دوں گا ہزاروں میں یہ بات

روشِ سید مرحوم خوشامد تو نہ تھی

 ہاں مگر یہ  ہے کہ تحریک سیاسی کے خلاف

ان کی جو بات تھی آور د تھی، ا ٓمد تو نہ تھی

ہندوستان میں اگر چہ متعدد ادبی تحریکیں اور رحجانات جنم لیتے رہے۔ انھیں میں ترقی پسند تحریک ،رومانی تحریک اور دلی کالج بھی قابلِ ذکر ہیں ۔ لیکن علی گڑھ تحریک کو جو مقصدیت اور امتیاز حاصل ہے وہ کسی اور تحریک کو میسر نہیں آیا ۔اس تحریک کے محرک اول اور روح رواں انیسویں صدی کے عظیم مفکر اور دانشور سر سید احمد خاں تھے ۔سرسید بنیا دی طور پر تعلیمی نظریہ ساز تھے ۔باقی ماندہ کاوشیں ان کی شخصیت کے ذیلی عکس قرار پائے۔      علی گڑھ تحریک کے متعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سیّد حامد اپنے ایک خطبہ میں کہتے ہیں:

’’علی گڑھ تحریک اعتماد کی بازیابی کی تحریک تھی ۔اس کا مقصد تھا کہ   ہند وستانی مسلمان مٹی کے ڈلّے کی طرح زمین کے سینہ پر بوجھ بننے کی بجائے باخبر اور حوصلہ مند شہری بنیں۔ زمانے سے خائف اور نفور ہونے کے بجائے وہ زمانے سے صحتمندانہ ہم آہنگ ہوں۔ اپنے درخشاں ماضی پر وہ فخر ضرور کریں لیکن اس فخر کو حرکت کا ذریعہ بنائیں،نیند لا نے والی دوا نہیں اور ہمّت اور اتحاد کے ساتھ وہ کام کریںجس سے حال سنور جائے اور مستقبل بکھر جائے۔‘‘

                                (علی گڑھ تحریک ،سیّد حامد ص 6)

انیسویں صدی عیسوی کا دور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ناکامی اورمایوسیوں کا دور کہا جا سکتا ہے ۔ 1857 کے غدر کی ناکامی نے مسلمانوں کو ذہنی انتشار،معاشی بدحالی ،اور سستی وکاہلی میں مبتلا کردیا تھا۔ ویسے تو اس بغاوت نے ہندوستان کے سبھی طبقات کو متاثر کیاتھا اور کوئی طبقہ اس کے اثرات سے خالی نہ تھا ،لیکن مسلمان اس تحریک میں پیش پیش تھے ۔اس لیے اس غدر کے اثرات کا شکار مسلمانوں کو ہی زیادہ ہونا پڑا، کیونکہ انگریز یہ سمجھتے تھے کہ اس بغاوت کی قیادت مسلمانوں نے کی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ شاہ عبدالعزیز محّدث دہلو ی کے فتوے اور علمائ کی بھاگ دوڑ نے انگریزوں کے دلوں پر یہ نقش کردیا تھا کہ مسلم قوم کے دلوں میں انگریزوں کی طرف سے نفرت پھیلانے کا کام یہی علمائ کررہے ہیں۔انگریزوں کے اسی یقین نے مسلمانانِ ہند کی طرف سے مزید تقویت کو جنم دیا اور انگریزوں نے مسلمانوں کو اور زیادہ اذیت دینا شروع کر دیا ۔

سرسید ان چیزوں کو بہت غور سے دیکھ رہے تھے ۔وہ چاہتے تو اس ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چلے جاتے اور اپنی زندگی عیش وآرام سے بسر کرتے لیکن سرسید کی خودداری نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر جائیں وہ دن رات اپنی قوم کو بچانے کی فکر میں لگے رہتے ،مگر کوئی طریقہ کار نظر نہیں آتا تھا ۔ چونکہ اب سرسید یہ سمجھ چکے تھے کہ جدید تعلیم حاصل کیے بغیرانگریزوں سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ،اس وقت مسلمانوں کی اصلاح وترقی کے لیے بہت سی تحریکیں وجود میں آئیں۔ان میں سے ایک اہم تحریک سرسید کی علی گڑھ تھی ،یہ تحریک جو علی گڑھ تحریک کے نام سے منسوب ہے ۔اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی جو چا لیس پچاس سال تک پورے زوروشور کے ساتھ ہندوستان میں جا ری وساری رہی۔

سرسید اپنی قوم کی حالت پر متفکر ہوکر کہتے ہیں:

’’اگر ہماری قوم میں صرف جہالت ہی ہوتی تو چنداں مشکل نہ تھی ۔مشکل تو یہ ہے کہ قوم جہل مرکب میں مبتلا ہے ۔علوم جن کا رواجہماری قوم میں تھا یا ہے اور جس کے تکبر اور غرور سے ہر ایک پھولا ہوا ہے ،  دین ودنیا میں بکار آمد نہیں غلط اور بے اصول باتوں کی پیروی کرنا ، بے اصل اور اپنے آپ پیدا کیے ہوئے خیالات کو امور واقعی اور حقیقی سمجھ لینا اور ان پر فرضی بحثیں بڑھائے جانااور دوسروں کی بات کو خواں کیسی ہی سچی کیوں نہ ہو ، نہ ماننااورلفظی بحثوں پر علم وفضلیت کا دارومدار ان کا شیوہ تھا ۔‘‘(لیکچرس سر سید احمد خاں ص 41)

برصغیر اور خصوصاًہندوپاکستان کے مسلمانوں میں 1857 کی ناکامی کے بعد نشاۃالثانیہ کی تحریک کا آغاز سرسید کے ذریعہ ہوا ۔جس نے پس ماندہ مسلم معاشرے کو دور جدید کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے قابل بنا کر صحیح سمت کی جانب گامزن ہونے کے لیے رہنمائی کی ۔

سرسید کی یہ تحریک ویسے تو مسلمانوں کی زندگی کے تقریبََا تمام شعبوںپر اثر انداز ہوئی اور اس کی بدولت مختلف شعبوں میں انقلاب پیدا ہواخاص طور پر سماجی اور ادبی میدان میں لیکن اس کے علاوہ اس تحریک کے پانچ مختلف پہلو اور بھی تھے ۔تعلیم ،سیاست ،مذہب ،ادب اور معاشرت۔

تعلیم کی ضرورت پر سرسید بہت زور دیتے تھے ،انھیں تعلیم سے محرومی قوم کی بدحالی کا سب سے بڑا سبب معلوم ہوتا تھا ۔وہ جدید مغربی تعلیم کو ضرورت کا تقاضا سمجھتے تھے اور قدیم مشرقی تعلیم کواس زمانے کے لیے بیکار اور مضر خیال کرتے تھے ۔سرسید کی جدید تعلیم کی عمدہ مثال  تہذیب الاخلاق، سائنٹفک سوسائٹی،محمڈن اینگلو اورینٹل کالج ،محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس وغیرہ ہیں۔

تہذیب الاخلاق کا پہلا شمارہ مدرستہ العلوم کے قائم ہونے سے پانچ سال قبل24 دسمبر 1870 کو شائع ہوا تھا ۔پہلے شمارہ میں سرسید احمد خاں نے اس کے اغراض ومقاصد حسب ذیل لفظوں میں واضح کر دیے تھے ۔

’’ـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بذریعہ اس پرچے کے جہاں تک ہم سے ہوسکے ان کے دین دنیا کی بھلائی میں کوشش کریں اور جو نقصان ہم میں ہیں گو ہم کو نہ دکھائی دیتے ہوں مگر غیر قومیں ان کو بخوبی دیکھتی ہیں، ان سے ان کو مطلع کریں اور جو عمدہ باتیں ان میں ہیں ،ان میں ترقی کرنے کی ان کو رغبت دلاویںــ۔‘‘

جدید تعلیم کو عام کرنے کے لیے سر سید نے تعلیم کے میدان میں سہ طرفی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی،محمڈن اینگلواورینٹل کالج اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کو قائم کیا۔

 سائنٹفک سوسائٹی 9 جنوری 1863 کو غازی پور میں قائم ہوئی اور1864 میں یہ علی گڑھ منتقل ہوگئی۔ سرسید کا تعلیم کے متعلق یہ نظریہ تھا کہ تعلیم وہی بہتر ہے جو مادری زبان میں دی جائے ۔1867 میں انھوں نے برٹش انڈین ایسوسی ایشن کی طرف سے وائسرے کی خدمت میں ایک عرض داشت پیش کی تھی جس میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیا گیاتھا ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ مغربی علوم کی تعلیم بھی اردو زبان میں دی جائے۔ جب محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا قیام عمل میں آیا تو اس اسکیم پر درآمد کا کام کالج کے اردو سیکشن کو سپرد کیا گیا ۔اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ ان علوم کی کتابوں کا اردو ترجمہ کر کے شائع کرا ئی جائیں ،اس کام کی تمام طبقوں کی طرف سے پذیرائی ہوئی ۔

محمڈن اینگلواورینٹل کالج: راجہ رام موہن رائے ،کیشب چندر سین اور دیگر مصلحین کی کوششوں سے بردارانِ وطن پہلے ہی مغربی تعلیم کی طرف راغب ہوچکے تھے ۔جس کے نتیجے میں سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان کے لیے کھل گئے تھے ۔19ویں صدی سے ہی یہ لوگ سرکاری ملازمتوں میں داخل ہونا شروع ہوگئے اور رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے گئے ۔وہیں دوسری جانب مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئے۔ سرسید ان حالات کی طرف سے بڑے متفکر تھے، مسلسل غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلم معاشرہ کی تمام بیماریوں کا علاج مغربی تعلیم میں مضمر ہے۔ اپنے انگلستان کے قیام کے دوران سرسید نے وہاں کے تعلیمی نظام کا بغور مشاہدہ کیا ۔وہ کیمبرج یونیورسٹی گئے اور وہاں کے تعلیمی نظام کا خاکہ مرتب کیا ۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد انھوں نے آکسفورڈاور کیمبرج یونیورسٹیوں کی طرز پر ایک ایسے ادارے کے قیام کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کردیا ۔ 8جنوری 1878 کو وائسرے ہند لارڈلٹن (LORD LYTTON) کے ہاتھوں کالج کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتدامیں کالج میں دو شعبے قائم کیے گئے ۔ ایک شعبہ انگریزی جس میں عام نصاب کے مطابق تعلیم دی جاتی تھی اور دوسرا شعبۂ علوم مشرقیہ جس میں عربی ،فارسی علوم کے والسنہ کے ساتھ جدید علوم کی بھی تعلیم دی جاتی تھی بعد میں یہی کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں منتقل ہوگیا۔جو آج پوری دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کر چکا ہے اور ہر ملک کے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاںہیں۔جو ہمارے لیے باعث فخر ہے ۔

 سر سید نے 1886 میں علی گڑھ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی۔ اس کانفرنس نے علی گڑھ تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرانے میں اہم خدمات انجام دیں۔اس کے سالانہ جلسہ ہوتے جس میں ہندوستان  کے مختلف علاقوں سے دانشور جمع ہوتے اور عوام کو تعلیمی نظام کے جدید تقاضوں سے متعارف کراتے اور مغربی تعلیم کی اہمیت کو واضح کرتے ۔اس سے قبل محمڈن اورینٹل کالج قائم ہوچکا تھا اور تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ اس کے باوجود سرسید نے یہ محسوس کیا کہ مسلم عوام میں تعلیم عام کرنے کے لیے ایک کالج کافی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے ا نھوں نے ایک ایسی فعال انجمن کی ضرورت کو محسوس کیا جو ملک گیر سطح پر عوام میں تعلیمی ضرورت کی کفالت کرسکے ۔اس کے سالانہ جلسے ملک کے مختلف مقامات پر ہوتے جن کا بنیادی مقصد تعلیمی میدان میں عوام کی پستی کے اسباب کا جائزہ لینا اور ان کو دور کرنے کے اقدامات تجویز کرنا تھا اور ان کا تجزیہ کرنا بھی شامل تھا ۔

علی گڑھ تحریک کی بدولت سماج میں تعلیم وتدریس کا ذوق پیدا ہوا،اس زمانے میں بیشتر لوگ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے حق میں نہیں تھے ۔سرسید کی تحریک کے ذریعہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا رواج عام ہوا۔ خواتین میں تعلیم کے حصول کا ذوق بھی اسی تحریک کا نتیجہ ہے ۔اس سے پہلے اس کی سخت مذمت کی جاتی تھی ،غرض ہماری سماجی زندگی میں علی گڑھ تحریک کے بڑے اہم نقوش ثبت ہوئے جو خود علی گڑھ تحریک کی کامیابی کا راز بھی ہے ۔ 

علی گڑھ تحریک بنیادی طور پر ایک تعلیمی تحریک تھی جس کا مقصد ہندوستانی نوجوانوں کی ذہنی نشونما کرنا تھا ۔انیسویں صدی عیسوی دیگرمشرقی ممالک کی طرح ہندوستان کے لیے بھی عہد تغیر کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ فخر علی گڑھ کو حاصل ہے کہ مسلمانوں کواس سے بیدار کرنے اور مسلم معاشرہ کے احیائ کی تحریک کا آغاز اس سر زمین سے ہوا ۔اس طرح علی گڑھ نے جدید ہندوستان کی تعمیر میں کلیدی رول ادا کیا ۔

سرسید نے اس راز کو سمجھ لیا تھا کہ بدلے ہوئے حالات میں ہندوستانی باشندوں کی فلاح وبہبود کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ انگریز وں کے خلاف نفرت کو اپنے دل سے نکالیں،انگریزی حکومت کی مخالفت کو ترک کریں اور اپنی تمام تر صلاحیتیں تعلیم کے فروغ کے لیے صرف کردیں۔اسی طرح وہ ترقی یافتہ ممالک کے برابر آسکیں گے ۔سرسید کے خیال میں یہ حکمت عملی مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری تھی اس لیے کہ وہ تعلیمی میدان میں دیگر ہندوستانی اقوام سے کم ازکم ڈیڑھ سو سال پیچھے تھے ۔انھیں یہ خوف لاحق تھا کہ اگر مسلمان پھر سیاست میں ملوث ہوگئے تو انھیں وہی روزِ بد دیکھنا پڑے گا ،جو 1857 کی بغاوت کی ناکامی کے بعد دیکھنا پڑا تھا۔ مزید یہ کہ سیاست میں داخل ہوجانے کے بعد ان کی تعلیمی سرگرمیاں ِ پست پڑجائیں گی ۔اسی لیے سرسید مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیتے تھے ۔اس سے یہ غلط فہمی پیداہوئی کہ سر سید انگریزوں کے حامی اور تحریک آزادی کے دشمن ہیں لیکن ایسا نہیں تھا ۔وہ چاہتے تھے کہ پہلے مسلمان پڑھ لکھ کر حکومت چلانے کے قابل ہوجائیں پھر حصہ لیں۔ یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے سرسید مسلمانوں کے سیاست میں حصہ لینے کے سخت مخالف تھے ۔

پروفسیر ضیائ الرحمن صدیقی اس تحریک کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:

’’سرسید کی شخصیت بہت بڑی ہے ،انہوں نے ہندوستانی قوم کو جگانے اور بڑھانے کا کام تحریک کے طور پر کیا ۔انھوں نے محسوس کیا کہ ہندوستانی قوم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے ،اور خاص طور سے مسلمان۔انگریزوں نے چونکہ حکومت مسلمانوں سے حاصل کی تھی اس لیے انگریزوں کی دشمنی مسلمانوں سے کچھ زیادہ ہی تھی ۔‘‘

(اردو ادب کی تاریخ ،ص 60)

مذہب :سرسید نے مذہبی اقدار کے سلسلے میں جو کچھ لکھا اس سے مسلمانوں میں بڑی برہمی پیدا ہوئی کیونکہ اس زمانے میں ہر طرف سائنس کا چرچہ ہونے کی وجہ سے ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا جاتا تھا،اسی لیے سر سید نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مذہب اسلام کی کوئی بات سائنس کے خلاف نہیں۔ ویسے تو سرسید مذہبی معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتے تھے مگر ان کی مشکل یہ تھی کہ کسی بھی کام کو کرتے وقت گناہ اور ثواب کا مسئلہ آجاتا اور سرسید اس وجہ سے اپنا کا م نہیںکر سکتے تھے ۔آخر کا ر انھیں مجبوراََ یہ بتانا پڑا کہ جس چیز کو تم مذہب سمجھتے ہو وہ دراصل مذہب ہے ہی نہیں۔اس لیے سرسید نے مسلمانوں کی مذہبی اصلاح کے لیے ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ نکالا۔الطاف حسین حالی ’’حیات ِ جاوید ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اول مسلمانوں کے مذہبی خیالات کی اصلاح اور ان کو ترقی کی طرف مائل کرنے کے لیے پرچہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔انھوں نے اس پرچہ کے نکالنے کا ارادہ ولایت میں ہی کرلیا تھا کیوں کہ تہذیب الاخلاق کی پیشانی پر جو اس کا نام اور بیل چھپتی تھی اس کا ٹائپ وہ لندن سے بنوا کر اپنے ساتھ لائے تھے ۔‘‘(حیاتِ جاوید ،ص 162)

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سرسید کو اس بات کا اندازہ تھا کہ وہ تعلیم کے سلسلے میں جو بھی قدم اٹھائیں گے اس سے پہلے انھیں مذہبی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

سرسید کے دور میں ارد وزبان وادب کو معیار بخشنے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی ۔ اس لیے سرسید نے اردو نثر اور شاعری دونوں کی خامیوں کو دور کرنے پر زور دیا میرامن اور غالب کی سادہ گوئی کی روایت کو آگے بڑھایا اور ساتھ ہی مذہب،ادب ،سیاست ،تعلیم ،معاشرت ، اقتصادیات جیسے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔سادہ ،مدلل اور واضح انداز میں اظہارِ خیال کیا ،اور جدید اردو نثر کی بنیاد ڈالی ۔سرسید کے تعلق سے ’’شبلی نعمانی ‘‘ لکھتے ہیں:

’’ زمانہ جانتاہے کہ مجھ کو سرسید کے مذہبی مسائل سے سخت اختلاف    تھا۔اور میں ان کے بہت سے عقائد وخیالات کو بالکل غلط سمجھتاتھا تاہم مجھے اس بات سے کبھی انکار نہ ہوسکا کہ ان مسائل کو سر سید نے جس طرح اردو زبان میں ادا کیا ہے ،کوئی اور شخص ادا نہیں کرسکتا۔‘‘

(مقالاتِ شبلی جلد دوم ،مرتبہ :سید سلیمان ندوی دارالمصنفین ،اعظم گڑھ ،1950 ،ص64)

اس تحریک کے ذریعہ اردو کے بڑے بڑے قلم کار پیدا ہوئے جن کی بدولت علوم وفنون کے مختلف موضوعات پر اہم کتابیں منظر عام پر آئیں۔ حالی نے مۡقدمہ شعرو شاعری اور علامہ شبلی نعمانی نے موازنہ انیس ودبیر وغیرہ جیسی کتابیں شائع کیں ۔اور ان کے دوسرے رفقائ نے بھی دوسرے تنقیدی کام کر کے اردو ادب کے ارتقائ میں حصہ لیا۔یہاں تک کے سرسید نے بہت کچھ لکھا اور اپنے رفقائ سے لکھوایا اس دور میں اردو نثر اور شاعری کی بہت ترقی ہوئی اور اردو ادب کے دامن میں وسعت پیدا ہوئی۔

سرسیدکو ملک وملت سے بے پناہ لگائو تھا اس لیے وہ تمام عمر ملک وقوم کی بھلائی اور اصلاح وترقی کے لیے کوشاں رہے وہ جدت پسند تھے اس لیے انھوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ،جس کام کو شروع کیا اس میں جدت پیدا کر کے اس کا حق ادا کر دیا ۔وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اس قدر ترقی حاصل کریں کہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرلیں۔

پروفیسر صغیر افراہیم اس تحریک کے بارے میں اپنی رائے اس طرح پیش کرتے ہیں:

 ’’نتائج گواہ ہیں کہ علی گڑھ تحریک اس لیے امر ہوگئی کہ سرسیدکی دور رسی اوردوربینی کے مظاہر حددرجہ کرشماتی ہیں۔انھو ں نے استعمارتی اور قہر مانی قوتوں سے ٹکرلینے کے لیے مزاحمتی اور مدافعتی طریقِ کار نہیں بلکہ مفاہمتی انداز بصورت مسابقانہ اختیار کیا مفاہمت میں فرار کا راستہ ترک کیا اور عزیمت کا راستہ منتخب کیا،آزمائشوں کو اپنی دانشورانہ صلح جوئی کے ذریعہ حل کیا،تشدّدکی راہ کو اپنایا اور حکمانہ وقت کے بغیر کسی تردّدتامل ایک پیغام دیا کہ ہمیں باغی کہنا غلط ہے اور اسے ثابت بھی کر دکھایا۔‘‘

اگر سرسید نے اس وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس تحریک کی بنیاد نہ ڈالی ہوتی تو آج پوری قوم گمنامی کے ایسے اندھیرے میںغرق ہوچکی ہوتی جس کا کوئی پرُسانِ حال نہیں ہوتا ۔آج ہم جو زیورِ تعلیم سے آراستہ نظر آتے ہیں ۔وہ سرسید کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔ سرسید کی علمی وادبی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔

اقبال جو سرسید کے بہت بڑے شیدائی تھے اور سرسید سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے ۔اس کا اعتراف انھوں نے خود کیا ہے:

مجھے اقبال اس سید کے گھر  سے فیض پہنچا ہے

 پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں

سرسید تحریک کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے ،اور دور ِجدید میں اس کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور ہر دور میں اس کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی۔

حواشی

(1)   سیدحامد وائس چانسلر ،علی گڑھ تحریک، ص 6

(2)    لیکچرس سرسید احمد خاں ،ص 41

(3)   تہذیب الاخلاق پہلا شمارہ

(4)   پروفیسر ضیائ الرحمٰن صدیقی ،اردو ادب کی تاریخ ،ص 60

(5)  الطاف حسین حالی، حیاتِ جاوید ، ص 162

(6)   شبلی نعمانی مقالاتِ شبلی (جلد دوم)  مرتبہ : سید سلیمان ندوی دارا لمصنفیّن،اعظم گڑھ 1950، ص 64

کتابیات

(1)   پروفیسرصغیر افراہیم، عصرِ حاضر میں علی گڑھ تحریک کی اہمیت ومعنویت ،برائون پبلی کیشنز نئی دہلی 2019

(2)  ڈاکٹر شائستہ خاں ،مرتبہ علی گڑھ تحریک ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی 2017

(3)  الحاج اخلاص احمدشیروانی  سرسید اور علی گڑھ تحریک  مشکوۃ کمپیوٹرس علی گڑھ ،اینڈ خالد 2015

(4)   نسیم قریشی مرتب علیگڑھ تحریک (آغاز تا امروز) زیرِہدایت پروفیسر رشید احمد صدیقی پروفیسر آل احمد سرور  احباب پبلشرز لکھنو 1960

(5)   عشرت علی قریشی مترجمہ محمد ضیائ الدین انصاری ،علی گڑھ تحریک (ایک تعارف) شعبہ رابطہ عامہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 1981

(6)   پروفیسر خلیق احمد نظامی ،سرسید اور علی گڑھ تحریک ،ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ 1982

(7)   سید حامد وائس چانسلر ،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،خدا بخش خطبہ علی گڑھ تحریک ،خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ  1983-84

 

Saba Naushad

Research Scholar

Aligarh Muslim University

Aligarh-202001 (U.P)

sabanaushad20@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں